• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، ماشاء اللہ کافی اچھی گفتگو چل رہی ہے ، اللہ تعالیٰ سب مشترکین اور قارئین کے لیے اس میں خیر عطاء فرمائے اور شر کو دور رکھے ، بھائی عاصم صاحب نے بھائی عامر صاحب کی باتوں کے جواب کا ارداہ فرما رکھا ہے ، اللہ اپنی رضا کے ساتھ اس کی تکمیل کی توفیق دے ، اس ساری گفتگو میں سب سے زیادہ وزن والی بات عرب علماء کے کچھ فتاویٰ ہیں جو بھائی ابو الحسن نے شامل کیے ہیں ، لیکن ان فتاویٰ کو کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے ان کے حصول کے لیے کیے گئے سوال کے نقص کو دور کرنا چاہیے اور پھر جواب دیکھنا چاہیے ، بھائی ابو الحسن علوی صاحب ، ماشاء اللہ آپ نے عرب علماء کرام کے فتاویٰ تلاش کرنے اور انہیں یہاں تک پہنچانے میں کافی محنت فرمائی ہے ، اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر عطاء فرمائے ، بھائی تھوڑی سی مدد اور فرمایے کہ ان علماء کرام کو اس سوال میں یہ وضاحت شامل کر کے اس کا جواب حاصل کیجیے کہ اہل فارس میں خدا ان کے تین باطل من گھڑت معبودوں کے ذاتی نام کے طور پر مستعمل تھا ، تو کیا اس تاریخی حقیقت کی روشنی میں یہ لفظ اللہ کی ذات مبارک کے ذاتی نام اللہ کے ترجمے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ؟؟؟ پیشگی شکریہ اور جزاک اللہ خیرا ، والسلام علیکم۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ خدا یہ (خود+آ) سے بنا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خود بخود وجود میں آنے والا، یعنی پہلے اس کا وجود نہ تھا بعد میں ہوا، اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو پھر اس نام میں ایک مزید قباحت آجائے گی کہ یہ معنوی طور پر بھی اللہ کے لئے استعمال نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خود بخود وجود میں آگیا یعنی کسی وقت وہ موجود نہ تھا پھر خود بخود وجود میں آگیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کفایت اللہ بھائی، میرے خیال میں خود آ کا یہ معنی نہیں بنتا ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں بلکہ خود آ کا معنی واجب الوجود کا بنتا ہے جس کا فلسفیانہ مفہوم وہ ہستی ہے جو از خود موجود ہے یعنی کسی کے وجود کی محتاج نہیں ہے۔ واجب الوجود کے بالمقابل فلاسفہ ممکن الوجود اور ممتنع الوجود کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ممکن الوجود وہ ہے جو اپنے وجود و ہستی کے لیے کسی دوسرے وجود کی محتاج ہے۔

لفظ « خدا » در زبان فارسی گرچه گفته شده که مخفّف « خودآ » و تقریباً مرادف با (واجب الوجود) است ولی با توجّه به مشابهات آن مانند : « خداوند » و « کدخدا » می توان گفت معنای لغوی آن شبیه به معنای « صاحب » و « مالک » و معنایی که در عرف از آن فهمیده می شود نظیر معنای خالق و آفریدگار است.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خدا چونکہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اہل زبان کی اپنی زبان کے بارے رائے معتبر شمار ہوتی ہے لہذا اہل زبان یا ماہرین فن لفظ خدا کی اصل اور معنی کے بارے کیا کہتے ہیں، اس بارے ایک تحریر ایک ویب سائیٹ سے نقل کر رہا ہوں:
«خدا» نام ذات باري تعالي است همچو «اله» و «الله» چون لفظ مطلق مي باشد بر غير ذات باري تعالي اطلاق نمي شود. مگر در صورتي كه به چيزي مضاف شود، چون: كدخدا و ده خدا.
گفته اند كه خدا به معني خود آينده است، چه آنكه مركب است از كلمة «خود» و كلمة «آ» كه صيغة امر است از آمدن و ظاهر است كه «امر» به تركيب «اسم معني» اسم فاعل پيدا مي كند. و چون حق تعالي در وجود و ظهور خود به ديگري محتاج نيست. پس او را به اين صفت خوانند.[1]
اسماء الهي و الفاظي كه در زبان هاي مختلف در مورد خداي متعال بكار مي رود بر دو گونه است: بعضي به عنوان «اسم خاص» به اصطلاح «عَلَم شخصي» استعمال مي شوند. و بعضي به عنوان اسم يا صفات عام و ممكن است يك لفظ به دو صورت استعمال شود: گاهي بصورت «اسم خاص» و گاهي به صورت «اسم عام» و به اصطلاح نوعي «اشتراك لفظي» دارد. لفظ «خدا» در زبان فارسي و مشابهات آن در زبان هاي ديگر مانند GOD در زبان انگليسي از همين قبيل است.
لفظ «خدا» در زبان فارسي گرچه گفته شده است كه مخفّف «خودآ» و تقريباً مرادف با واجب الوجود است. ولي با توجه به مشابهات آن مانند خداوند و كدخدا مي توان گفت معناي لغوي آن شبيه به معناي صاحب و مالك و معنايي كه در عرف از آن فهميده مي شود نظير معناي خالق و آفريدگار است.[2]
در ميان مردم شايع شده كه اسم اعظم، اسمي است لفظي از اسمهاي خداي تعالي كه اگر خدا را به آن بخوانند دعا مستجاب مي شود. و در هيچ مقصدي از تأثير باز نمي ماند. و چون در ميان اسماي حسناي خدا به چنين اسمي دست نيافته، و در اسم جلالة «الله» نيز چنين اثري نديده اند، معتقد شدند به اين كه اسم اعظم مركب از حروفي است كه هر كس آن حروف و نحوة تركيب آن را نمي داند، و اگر كسي به آن دست بيابد همه موجودات در برابرش خاضع گشته و به فرمانش در آيند.[3]
و در قرآن كريم و نيز در روايات و ادعيه، براي اسماي الهي تأثير ويژه اي دانسته شده است. مثلاً در قرآن كريم در آيات مربوط به خلافت حضرت آدم ـ عليه السلام ـ سرّ خليفه شدن آدم را علم به اسماءالله مي داند. قطعاً اين علم كه ملائكه توان تحمل بدون واسطه آن را نداشتند، تنها علم به الفاظ يا مفاهيم ذهني اسماء خداوند نبوده است. در برخي ادعيه، مانند دعاي سمات، گشايش درهاي رحمت آسمان و نجات از تنگناهاي زمين و آسان شدن سختيها و زنده شدن مردگان و برطرف شدن بلاها از آثار اين اسماء و صفات شمرده شده است.
«اللهم ان اسئلك باسمك العظيم الاعظم... اذا دعيت به علي... كشف البأساء و الضرّاء انكشفت» و در روايات نيز آثار مهمّي براي اسماء الهي ذكر شده است. از جمله از پيامبر اكرم ـ صلي الله عليه و آله ـ نقل شده كه خداي سبحان 99 اسم دارد. كه هر كس آنها را احصاء كند داخل بهشت مي شود.
«ان الله تبارك و تعالي تسعة و تسعين اسماً، مائةً الا واحداً من أحصاها دخل الجنّه»[4]
البته نبايد گمان برد كه اين آثار مهمّ بر اسم لفظي يا مفاهيم ذهني مترتّب است. زيرا هرگز با لفظ و مفهوم ذهني نمي توان در جهان عيني اثر گذاشت و مرده را زنده كرد. اگر فرموده اند كسي كه اسم اعظم خدا را بداند صاحب طيّ الارض خواهد بود، چنين نيست كه اگر لفظي را به زبان آورد يا مفهومي را در ذهن حاضر كند بدون تكامل روح و رسيدن به حقيقت اسم اعظم بتواند از عهدة اين گونه امور بر آيد.
اسم اعظم مرتبه و مقام عيني است، نه لفظ و مفهوم. اگر روح كامل شد و به مقام ولايت رسيد، مظهر قدرت حقّ يا اسمي از اسماء و صفتي از صفات خداي سبحان شد، به قدرتي دست مي يابد كه مي تواند به اذن خدا مرده را زنده كند و تصرّفات ديگري داشته باشد.[5]
و همة اين مضامين كه از قرآن و ادعيه و روايات آورديم مؤيد اين است كه انسان ها هيچ وقت از دست يابي به اسم اعظم خدا منع نشده اند. بلكه دست يافتن به اسم اعظم و حقيقت اسماء و صفات الهي، رسيدن به كمال و سير و صعود معنوي است. و الا صِرف لفظ و اسم خُشك و خالي كه راه به جايي نمي برد. بلكه انسان بايد با جدّيت و تلاش و با سير طريق كمال، خود مظهر اسماء اعظم الهي گردد. و چنين نيست كه اسم اعظم مثل رمزي باشد كه با ياد گرفتن آن هر شخصي حتّي كسي كه فاقد كمال است معنوي و عرفاني باشد بتواند هر كاري را كه مي خواهد انجام دهد.
معرفي منابع جهت مطالعه بيشتر:
1. معارف قرآن، حضر آيت الله مصباح يزدي، انتشارات مؤسسة آموزشي پژوهشي امام خميني (ره).
2. تفسير موضوعي قرآن كريم، توحيد در قرآن، ج 2، آيت الله جوادي آملي.[HR][/HR][1] . لغت نامة دهخدا، تهران، نشر مركز انتشارات و چاپ دانشگاه، سال 1377، ص 9551، ذيل واژة «خدا».
[2] . مصباح يزدي، محمد تقي، معاد در قرآن، انتشارات مؤسسه آموزشي و پژوهشي امام خميني، ص 21 و 22.
[3] . موسوي همداني، محمدباقر، ترجمة تفسير الميزان، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامي وابسته به جامعه امور مدرسين حوزه علميه، ص 463.
[4] . توحيد صدوق، ص 198، ب 29، ح 8.
[5] . جوادي آملي، تفسير موضوعي قرآن كريم، توحيد در قرآن، نشر اسراء، ج 2، ص 252 و 251.
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُون هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأَسْمَاء الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم (الحشر 22-24)
ترجمہ:۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا۔ وہ بڑا مہربان ہے نہایت رحم والا ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ حقیقی ہر عیب سے پاک سلامتی دینے والا امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ وہی اللہ تمام مخلوقات کا خالق۔ ایجاد و اختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اسکے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسکی تسبیح کرتی رہتی ہیں۔ اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔




جب اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں اپنے لیے بہترین نام بیان فرما دیے ہیں اور لفظ اللہ اردو میں مستعمل بھی ہے تو پھر اللہ کی بجائےلفظ خدا استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُون هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأَسْمَاء الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم (الحشر 22-24)
ترجمہ:۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا۔ وہ بڑا مہربان ہے نہایت رحم والا ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ حقیقی ہر عیب سے پاک سلامتی دینے والا امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ وہی اللہ تمام مخلوقات کا خالق۔ ایجاد و اختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اسکے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسکی تسبیح کرتی رہتی ہیں۔ اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔




جب اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں اپنے لیے بہترین نام بیان فرما دیے ہیں اور لفظ اللہ اردو میں مستعمل بھی ہے تو پھر اللہ کی بجائےلفظ خدا استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ کا کیا نام درست ہے اور کیا نہیں؟کس نام کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کیا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں؟
اس کا فیصلہ درج ذیل آیتِ مبارکہ سے ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْۤ اَسْمَآىِٕهٖ١ؕ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۸۰ ﴾ ... سورة الأعراف: 180 کہ ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف انہی اچھے اچھے ناموں سے پکارنا چاہئے جنہیں اللہ نے خود اپنے لیے پسند فرمایا اور جو لوگ اللہ کے غلط سلط نام بیان کرتے ہیں ان کے طریقہ کار کو چھوڑ دینا چاہئے۔

کیا مخلوق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے نام رکھے؟؟
نہیں، ہر گز نہیں۔ سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: « مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجًا » ’’کسی شخص کو اگر کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچے تو وہ یوں دُعا کرے ’کہ اے اللہ میں آپ کا بندہ، آپ کے بندے کا بیٹا، آپ کی بندی کا بیٹا، میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں آپ کا حکم لاگو ہوتا ہے، میرے بارے میں آپ کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہے، میں آپ کو آپ کے ہر اس نام کا - جو آپ نے خود اپنا نام رکھا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنی کتاب میں نازل کیا یا اسے اپنے علم غیب میں رکھا (یعنی کسی دوسرے کو نہ بتایا) - واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ قرآن پاک کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور ، میرے غم کو کھولنے اور میری پریشانی کو لے جانے کا ذریعہ بنادیں‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور پریشانی کو دور فرمادیں گے۔‘‘
صحابہ کرام﷢ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اسے سیکھ نہ لیں؟ آپﷺ نے فرمایا: « بَلَىٰ يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا » ’’کیوں نہیں جو بھی اس دُعا کو سنے اس کو چاہئے کہ اسے یاد کر لے۔‘‘ [مسند احمد: 3704]

اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پر علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنےاچھے اچھے نام بذاتِ خود رکھے، اپنی کتاب میں نازل کیے، اپنے رسولوں کو خود سکھائے یا اپنے علم غیب میں محفوظ رکھے۔ ہمیں مخلوق کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں کہ اپنے رب، خالق اور مالک کے نام ہم رکھیں۔

جہاں تک ’الرحمٰن‘ کا معاملہ ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام بھی ہے جیسے فرمایا: ﴿ اَلرَّحْمٰنُۙ۰۰۱ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ۰۰۲ ﴾ ... الرحمٰن: 1،2 ’’رحمٰن نے قرآن سکھایا۔‘‘ اور صفاتی نام بھی، جیسے فرمایا: ﴿ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۰۰۲۲ ﴾ ... الحشر: 22 ’’وہ (اللہ) رحمٰن ورحیم ہے۔‘‘ جب قریش مکہ نے - جن کیلئے اللہ کا نام ’الرحمٰن‘ غیر نامانوس تھا - الرحمٰن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو کہتا ہے کہ ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکارتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل کردی ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى ١ۚ ﴾ ... بنی إسرائیل: 110 ’’کہہ دیجئے! اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔‘‘

اس آیت سے یہ مسئلہ اخذ کرنا کہ ’ہر وہ اچھا نام جو اللہ کیلئے کسی زبان ، علاقے یا قوم میں رائج ہے اس سے اللہ کو پکارنا جائز ہے‘ صحیح نہیں، کیونکہ الرحمٰن تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کو خدا کہنے کا معاملہ ہے، اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ جس طرح’آدمی‘ کسی انسان کا نام نہیں کسی مخصوص نوع کی طرف اشارہ ہے، اس کو عربی میں الرَّجُل اور انگریزی میں Man کہہ سکتے ہیں ليكن ’خالد‘ کسی آدمی کا نام ہے اس کو اردو اور انگریزی میں ان کا ترجمہ کرکے بلانے کی بجائے اصل نام خالد یا Khalid سے ہی پکاریں گے۔ اسی طرح ’زمین‘ کو تو عربی میں الأرض یا انگریزی میں Earth کہا جاتا ہے، لیکن ’پاکستان‘ کو ہر زبان میں پاکستان ہی کہا جائے گا۔ بالکل اسی طرح خدا سے مراد ’الٰہ‘ یا ’معبود‘ ہے جس کو ’دیوتا‘ یا ’God‘ کہا جا سکتا ہے لیکن اللہ یا الرحمٰن تو اس معبود کا نام ہے اگر کسی اور زبان میں بھی اسے نام سے ہی بلانا مقصود ہو تو کبھی اس کا ترجمہ کر کے نہیں بلکہ Allah (یا دیگر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اسمائے حسنیٰ) کہہ کر ہی بلائیں گے۔ ہاں اگر مخلوق کے بالمقابل اس کا ذکر اصل نام کے علاوہ کرنا ہو تو اسے الٰہ، معبود، خدا، دیوتا اور God سب کچھ کہا جا سکتاہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

SALEEM

مبتدی
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
KIYA ALLAH KO KHUDAH KEH KER PUKARA JAA SAKTA HAI

Asalam O Alykum Brother's of Islam
My name is Saleem, I born Karachi Pakistan. I live in Sydney Australia since 1989. I am father of three Alhamdulillah. I am Sunni Muslim, I study Student Gilt (5 years Course) with Alkuthar Institute Sydney all Ustad (Teachers) from Madinah University Saudi Arabia. I did many Courses, (different topic) such as Aqidah, Quran, Serah Muhammad PBUH (Sallal laho Alyhe Wasalam) and many others. This is my Introduction.
I read forum Articles daily base, today I read topic کیا اللہ تعالیٰ کو خدا کہہ کرپکارا جا سکتا ھے
. Answer is NO NO NO ) I have in English all prove Insallah I send you very soon
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
لفظ خدا کے استعمال میں کوئی حرج نہیں؛بے کھٹکے استعمال ہو سکتا ہے؛خواہ مخواہ کی بحث ہے؛بہ صد معذرت ؛اہل علم کا بے حد احترام لیکن ممانعت کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں؛بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صلات کا ترجمہ نماز غلط ہے کیوں کہ یہ آتش پرستوں کی عبادت کا نام ہے؛اب بتائیں!!
 

حسیب

رکن
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
75
لفظ خدا کے استعمال میں کوئی حرج نہیں؛بے کھٹکے استعمال ہو سکتا ہے؛خواہ مخواہ کی بحث ہے؛بہ صد معذرت ؛اہل علم کا بے حد احترام لیکن ممانعت کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں؛بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صلات کا ترجمہ نماز غلط ہے کیوں کہ یہ آتش پرستوں کی عبادت کا نام ہے؛اب بتائیں!!
اب تو قانون بھی بن رہا ہے
http://dailypakistan.com.pk/national/05-Jul-2015/242266
اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ) وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مذہبی اور مقدس ناموں کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی توثیق کر دی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان کو سفارش کی گئی تھی کہ مذہبی مقدس ناموں اور مقامات کے انگریزی ترجمے کی بجائے انہیں عربی میں ہی لکھا اور پڑھا جائے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مذہبی ناموں اور مقامات جیسے اللہ ، رسول ، مسجد اور صلوة کا انگریزی ترجمہ کیے بغیر انہیں عربی میں ہی استعمال کیا جائے ۔ ان سفارشات کے حوالے سے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی توثیق کر دی ہے اور حکومت کے اس اقدام کو مذہبی حلقوں میں بھی خوش آئند قرار دیا گیا ہے ۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت نے رمضان المبارک میں اسلام کے حوالے سے اہم اور بڑا کام کیا ہے جبکہ دیگر علمائے کرام نے بھی اس فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا ہے ۔
 
Top