• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

محترم قارئین السلامُ علیکم ہو سکتا ہے کبھی آپ کیساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا ہو کہ آپ نے کسی کو خُدا حافظ کہا ہو یا آپ کوئی ایسا شعر گُنگُنا رہے ہُوں جِس میں لفظ خُدا کا استعمال ہوا ہو اور کسی نے آپ کو پکڑ کر جھنجوڑ دیا ہو کہ بھائی کیا کرتے ہو اللہ کو خُدا کہتے ہو حالانکہ خُدا تو فارسی کا لفظ ہے اور فارسی تو جناب آتش پرستوں کی بھی زُبان ہے لہذا توبہ کرو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تُمہارا خاتمہ بھی آتش پرستوں کیساتھ ہو! عوامُ الناس جب اِس طرح کی باتیں سُنتے ہیں تو سِہم سے جاتے ہیں اور کہتے ہونگے کہ بھئی اپنا ایمان تو خطرے میں تھا اللہ بھلا کرے صاحب کا جنکی بدولت آتش پرستوں کیساتھ خاتمہ ہونے سے بچ گئے۔

بے شک اللہ کہنا لکھنا ہی سب سے افضل ہے کہ یہ اسم ذات ہے کوئی صفتی اسم اِلہی اسکا مُتبادل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر صفتی نام میں کسی ایک مخصوص صفت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اسم اللہ تمام صِفات کا مظہر ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ہر صفتی اسم اِک خوشنما پھول ہے تو اسم اللہ تمام پھولوں کا حسین گُلدستہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اللہ کریم کو خُدا عزوجل کہنا منع ہے
میں نے جب اِس طرح کی کئی ایک پوسٹ کو نیٹ پر پڑھا تو مجھے تشویش لاحق ہوئی کہ اس تحریر کولکھنے کا مقصد چاہے جو بھی رہا ہو لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اس کالم میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ سے لیکر شیخ سعدی علیہ الرحمہ تک اور بر صغیر کے ہزاروں علماء کی ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

لہذا سب سے پہلے دارالافتاء حیدرآباد فون کیا اور فتویٰ معلوم کیا
فون نمبر 0092222621563
اسکے بعد دارالافتاء کنزالایمان کراچی
فون نمبر 00922134855174
پھر دارالافتاء نورالعرفان کراچی
فون نمبر 00922132203640
اسکے بعد مفتی محمد یعقوب سعیدی صاحب سے گفتگو اور سبھی سے ایک ہی سوال دریافت کیا کہ جناب آپ اس مسئلہ کے متعلق کہ کیا اللہ کریم کو خدا کہہ کر پکارنا جائز ہے یا ناجائز اور مجھے ہر جگہہ سے ایک ہی جواب مِلا کہ بالکل جائز ہے اور سبھی علماءَ نے کہا کہ علماء اُمت کا اس پر اجماع بھی ہے لیکن بعض شر پسند عناصر مسلمانوں میں منافرت پھیلانے کیلئے ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے

اور علامہ غلام رسول سعیدی طبیعان القران جلد 3 صفحہ 361 پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں جسکا خلاصہ پیش خدمت ہے
کہ ایسے نام سے اللہ کو پکارنا جو اُس کی شان کے زیبا نہ ہو منع ہے جیسے اللہ کے ساتھ میاں کا اضافہ کے یہ لفظ میاں انسانوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے یا اللہ کیساتھ سائیں کا اضافہ کہ سائیں فقیر کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق ممنوع ہے جبکہ ایسے الفاظ سے اللہ کو پُکارنا جو اُس کی شان کے مطابق ہیں جیسے فارسی میں خدا اور ترکی میں تنکری کہ ان کے معنیٰ میں ابہام نہیں جائز ہیں

محترم قاریئن اب آتے ہیں اُس حدیث کی جانب جس کو یار لوگ بڑی ڈھٹائی کیساتھ اپنے حق میں پیش کیا کرتےہیں
مفہوم،،
کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ اُنہی میں سے ہوگا قیامت میں اُس کے ساتھ حشر ہوگا۔ (سنن ابو داود)۔

سیدی اعلحضرت امام احمد رضا(علیہ الرحمہ) فتاوی رضویہ جلد۸ صفحہ 622 پر ارشاد فرماتے ہیں
بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ'' بد مذہبوں سےمشابہت اُسی اَمر میں ممنوع ہے جو فی نفسہ شرعاً مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں

سیدی اعلحضرت نے تشبہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے جسے آپ جلد نمبر اکیس تا چوبیس میں دیکھ سکتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جس فعل کو کفار مذہب کا حصہ سمجھ کر رسماً ادا کرتے ہوں مثلا سینے پر زنار باندھنا یا صلیب لٹکانا یا بغل وغیرہ کے بال بڑھانا ، مونچھوں کا بہت ذیادہ بڑھانا جِس سے کسی بد مذہب کی مُشابِہت پیدا ہو یہ مشابہت ممنوع اور حرام ہے یا یہ کہ کُفار سے مُحبت کی بنا پر اُنکی نقالی کرے۔ یا اُنکے مذہبی تہواروں میں شریک ہونا، نا کہ کسی زبان کے استعمال سے مشابہت لازم آئے گی۔

لیکن محترم قارئین اِن لوگوںنے ایک ایسے مسئلے کو اپنی جانب سے متنازع بنادیا جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے

اعتراضات

(1) اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کو خُدا کہہ سکتے ہیں تو رام اور وشنو کہہ کر کیوں نہیں پُکارتے؟

جواباً عرض ہیکہ رام کے ایک معنیٰ،، نہایت فرماں بردار،، بھی ہیں اور وشنو کے معنٰی ہِندؤں کے ہاں چار ہاتھوں والا رب،، بھی ہیں اور یقیناً یہ دونوں معنٰی مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں
اب دیکھتے ہیں کہ خدا کے لغوی معنیٰ کیا ہیں تو خدا کے لغوی معنٰی وہی ہیں جو اللہ کی شان کے مطابق ہیں یعنٰی مالک ،آقا ،باکمال ،معبود ، اور ربّ ۔

(2)دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ عرب شریف میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور مُبارک سے لیکر آج تک اللہ عزوجل کو خُدا نہیں کہا جاتا ۔

جواب
تو بھائی عربی اسقدر وسیع زُبان ہیکہ عربی کے چھ لاکھ الفاظ وہ ہیں جو آج متروک ہوچُکے ہیں صرف اِسی بات سے اِس زُبان کی وُسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا یہ کہنا کہ عرب شریف میں فارسی نہیں بولی جاتی تو بھائی اُنہیں کیا ضرورت ہے کہ ایسی وسیع زُبان کے ہوتے ہوئے جہاں صرف ایک جانور کے عربی میں بیس تیس تک نام ہوتے ہیں وہ فارسی کا استعمال کریں جبکہ اردو عربی کے مُقابلے میں ایک محدود الفاظ رکھنے والی زُبان ہے اور لفظ خُدا کو فارسی سے شعری ضرورت کے پیش نظر لیا گیا ہے ناکہ مجوسیوں کی اتباع کی خاطر لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے اپنی ضرورتوں کو سمجھا جائے۔

اعتراض(3) فارسی کا استعمال آتش پرست کرتے رہے ہیں فلہذا فارسی سے گُریز از بس ضروری ہے؟

جواب مودبانہ عرض ہے کہ نبی آخرُالزماں خَتَمُ المرسلین (صلی اللہُ علیہ وسلم) کی بِعثت سے قبل مشرکین عرب عربی زُبان کا استعمال کیا کرتے تھے تو کیا ہمارے کریم آقا علیہ السلام نے اس زُبان سے بیزاری کا اظہار کیا؟ جواب ہوگا قطعی نہیں کیا اللہ کریم نے ناپسند فرمایا؟ بالکل نہیں بلکہ اللہ کریم کا کلام اِسی زُبان میں نازل ہوا۔ معلوم ہُوا کہ کہ زُبان توصرف رابطہ کا ذریعہ ہے ناکہ مذہب کی پہچان!اور آپکو وہ کروڑوں مسلمان کیوں نظر نہیں آتے جو فارسی زُبان استعمال کرتے ہیں۔

اعتراض4 اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزدان اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو مین معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا۔

جواب،، یہی عقیدہ تو مشرکین عرب کا بھی تھا اور وہ بھی اپنے بیشُمار معبودوں کو اِلٰہ کہتے تھے جسکا ذکر جا بَجا قران مجید فُرقان حمید میں موجود ہے حوالے کیلئے دو آیات سورہ الحجر اور سورہ النحل سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں

الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۹۶﴾
جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے (سورۃ الحجر آیت96)

وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثْنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوۡنِ ﴿۵۱﴾
اور اللہ نے فرمایا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھی سے ڈرو (سورہ النحل آئت51)

اب دیکھئے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بیشمار خداؤں کو اِلٰہ کہتے تھے تو اللہ کریم نے لفظِ اِلٰہ کہنے پر پابندی نہیں لگائی بلکہ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعے یہ تعلیم دی کہ اِلٰہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ کریم کی یکتا اور بےمثال ذات ہے اسی طرح ہم یہ تو کہیں گے کہ آتش پرستوں کے دو خُدا کا عقیدہ باطل ہے لیکن خُدا کہنے پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ اس کے معنٰی وہی ہیں جو اِلٰہ کے معنیٰ ہیں

اعتراض(5) کیا خُدا کہنے کی کوئی دلیل قُران سے ثابت ہے؟

جواب جی ہاں سورہ الاِسراء آیت نمبر 110 میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی
تم فرماؤ اللّٰہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں

اللہ کریم نے اِس آیت میں اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے جو اللہ کریم کے ناموں میں جھگڑتے ہیں کہ سب اچھے نام اللہ کے ہیں
بس ہمیں بچنا ہے تو ایسے ناموں سے جو مالک حقیقی کے شایانِ شان نہ ہوں اب آئیے اس آیت مبارکہ کا پس منظر بھی دیکھتے ہیں

شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ۔

یہاں ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کریم کے اچھے ناموں پر تنقید کرنا ابوجہل کا طریقہ ہے ناکہ صالحین کا۔

اعتراض(6) یہ جو علمائے کرام اللہ عزوجل کو خُدا کہنے کی اجازت دیتے ہیں یہ اِنکی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے یہ اِذن قُران و سُنت سے نہیں دیتے؟

جواب ،، یہ عُلماءِ حق پر سراسر بُہتان ہے کیونکہ کوئی بھی عالم مفتی یا مُحدث قُران اور سُنت کے منافی فتوٰی صادر نہیں کرتا بلکہ اِنکا ہر فتویٰ قران اور سُنت کی ہی روشنی میں ہوتا ہے ا،سی لئے اِنہیں وارثینِ انبیئا کا لقب مِلا ہے

اب یا تو اِن لوگوں کو فارسی زبان سے بغض تھا اُردو سے کینہ تھا یا علماء برصغیر سے بیزاری جو بنا سمجھے کروڑوں مسلمانوں کو بمعہ علماء کرام آتش پرستوں سے مُشابہت کی نوید سُنا کر معاذ اللہ ثمَ معاذ اللہ جہنم کی نوید سُنا ڈالتے ہیں

محترم قارئین کرام ایک حدیث کا مفہوم ہے
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ سے مروی ہیکہ رسولِ اقدس علیہ الصلواۃ والسلام کا فرمانِ عبرت نشان ہے
فرمایا کہ جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اُس کا گُناہ فتوٰی دینے والے پر ہوگا اور جس نے جان بوجھ کر اپنے بھائی کو غلط مشورہ دیا تو اُس نے اُس کے ساتھ خیانت کی
(۔(سنن ابو داود کتاب العلم باب التوقی فی الفتیا، جلد نمبر 3 صفحہ 449

لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک حدیث سُنی کتاب دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جو یاد رھا صرف اُسی کو اپنی جانب سے قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) بتا کر بیان کر دیا جاتا ہے یا کسی کے نظریہ سے مُتاثر ہو کر کروڑوں مسلمانوں کو کفر کے فتوٰی سے نواز دیا جاتا ہے

اور اس طرح مسلمانوں میں انتشار کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جو قابل مذمت عمل ہے
اللہ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے ۔ اور ایسے نیم عالم خطرہ ایمان سے بھی محفوظ رکھے
میں نے تمام حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اور تمام علماء کی رائے بھی اب یہ آپکا فرض ہیکہ ہر ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا باعث ہو

حوالہ
[LINK=http://faizeraza.net/forum/archive/index.php/t-6520.html]کیا اللہ عزوجل کو خُدا کہنا ناجائز ہے[/LINK]
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اس فتوے میں کافی باتیں قابل اعتراض ہیں
جزاک الله خیر انس نضر بھائی جان،

آپ نشاندہی کر دیں تو بہتر ہوگا. تاکی فورم پر تمام ممبر اس سے استفادہ حاصل کر سکیں,
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
عامر صاحب آپ کا انداز بیاں سراسر متعصب ہے اس انداز میں بات کرنا کسی اہلِ علم کا کام ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
میں ان شاءاللہ آپ کے باطل استدلال والی تحریر کا جلد جواب لکھنے کی کوشش کرونگا۔
آپ سے گزارش ہے کہ بات کرنے کا احسن طریقہ اپنائیں اگر میں بھی آپ والی زبان استعمال کرونگا تو سوائے نفرتوں کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
ہم لوگ دعوے نبیﷺ کی محبت کے کرتے ہیں مگر نبیْﷺ کے جیسا پیارا اندازِ بیاں اپناتے نہیں ہیں افسوس
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
میں نے اُس وقت جلدی میں جواب لکھا تھا اصل میں بجلی بند تھی اور لیپ ٹاپ کی بیٹری ختم ہونے والی تھی۔
جب میں یہ تحریر پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ یہ کہیں پڑھی ہے اس کے کچھ نقات میں پڑھ چکا ہوں ابھی جب نیچے لنک کو اوپن کیا تو پتا چلا کہ یہ تحریر عشرت اقبال وارثی کی ہے یہ صاحب ایک فورم پر خود مجھ سے اسی موضوع پر بات چیت کر چکا ہے مگر افسوس ہے اس بندے پر کہ یہ بہت زیادہ متعصب ہے دوسرے کے دلائل کو نہیں دیکھتا بس اس کے امام نے جو کہہ دیا ہے وہی حق سمجھتا ہے اس نے جو اعتراض پہلے مجھ پر کیئے تھے اور میں نے اس کا جواب اس کو دیا تھا وہ میں نے اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کیا ہوا ہے آپ لوگ یہاں کلک کرکے خود پڑھ سکتے ہیں۔دین صرف قرآن اور صحیح حدیث: کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عامر صاحب آپ کا انداز بیاں سراسر متعصب ہے اس انداز میں بات کرنا کسی اہلِ علم کا کام ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
میں ان شاءاللہ آپ کے باطل استدلال والی تحریر کا جلد جواب لکھنے کی کوشش کرونگا۔
آپ سے گزارش ہے کہ بات کرنے کا احسن طریقہ اپنائیں اگر میں بھی آپ والی زبان استعمال کرونگا تو سوائے نفرتوں کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
ہم لوگ دعوے نبیﷺ کی محبت کے کرتے ہیں مگر نبیْﷺ کے جیسا پیارا اندازِ بیاں اپناتے نہیں ہیں افسوس
جزاک الله خیر عاصم بھائی، لیکن میرا مقصد آپ کا دل دکھانا نہیں تھا، اگر آپکو برا لگا ہو تو میں دل سے معذرت چاہتا ہوں، اوپر بیان کیا ہوا فتویٰ واقعی تھوڑا سخت الفاظ کے ساتھ لکھا ہوا ہے، انس نضر بھائی نے بھی شاید اسی بات پر توجہ دلائی تھی، خیر اس فتوے کو نقل کرنے کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں تھا میرا مقصد تو صرف چند نقاط پر روشنی ڈالنا تھا، مجھے یہ فتویٰ میرے ناقص علم کے حساب سے ٹھیک لگا اس لئے میں نے اسے یہاں پوسٹ کر دیا، میرا یہ فتویٰ پوسٹ کرنے کا یہ مقصد نہیں کے کسی کو جواب دیا جائے یا نیچا دکھایا جائے،
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
جزاک الله خیر عاصم بھائی، لیکن میرا مقصد آپ کا دل دکھانا نہیں تھا، اگر آپکو برا لگا ہو تو میں دل سے معذرت چاہتا ہوں، اوپر بیان کیا ہوا فتویٰ واقعی تھوڑا سخت الفاظ کے ساتھ لکھا ہوا ہے، انس نضر بھائی نے بھی شاید اسی بات پر توجہ دلائی تھی، خیر اس فتوے کو نقل کرنے کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں تھا میرا مقصد تو صرف چند نقاط پر روشنی ڈالنا تھا، مجھے یہ فتویٰ میرے ناقص علم کے حساب سے ٹھیک لگا اس لئے میں نے اسے یہاں پوسٹ کر دیا، میرا یہ فتویٰ پوسٹ کرنے کا یہ مقصد نہیں کے کسی کو جواب دیا جائے یا نیچا دکھایا جائے،
میں نہیں سمجھتا کہ اس تحریر میں کوئی ایسی دلیل ہو جو ٹھیک لگے اس تحریر میں سوائے تعصب کے اور کچھ نہیں ہے اس کا جواب پڑھنے کے لیئے بھی آپ کو دل بڑا کرنا پڑے گا میری باتوں کو بھی دل پر نہ لینا بھائی جان۔
آجکل رمضان شروع ہے اور میں نیٹ صرف رات کو ہی استعمال کرپاتا ہوں اس لیئے جواب لکھنے میں کچھ دن زیادہ بھی لگ سکتے ہیں مگر میں اس باطل اور پر تعصب تحریر کا جواب ضرور دونگا اور وہ بھی قرآن اور احادیث کے دلائل کے ساتھ ان شاءاللہ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
میں نے محترم عاصم صاحب کی ساری بحث پڑھی ہے خلاصہ اسکا یہ ہے کہ آنجناب لفظ " خدا " کو اللہ تعالى کا نام تصور فرما رہے ہیں اگر ایسا ہی ہو یعنی " خدا " کو اللہ تعالى کا نام سمجھا جائے تو یہ الحاد فی اسماء اللہ تعالى ہے ۔
لیکن یہ بات یاد رہے کہ علماء کرام نے قدیما و حدیثا لفظ " خدا " کو اللہ تعالى کا نام نہیں قرار دیا بلکہ اسے لفظ " اللہ " کا ترجمہ قرار دیا ہے
جیسے " رب " کا معنى پروردگار ہے اسی طرح " اللہ " کامعنى " خدا " ہے
اور اللہ تبارک وتعالى کے اسماء و صفات کا معنى کرنے بولنے اور استعمال کرنے پر امت محمد صلى اللہ علیہ وسلم جواز کی قائل ہے ۔
لہذا لفظ " خدا " کا استعمال بطور ترجمہ لفظ " اللہ " کیا جاتا ہے تو یہ جائز و درست ہے اس میں کوئی مضایقہ یا حرج نہیں
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
میں نے محترم عاصم صاحب کی ساری بحث پڑھی ہے خلاصہ اسکا یہ ہے کہ آنجناب لفظ " خدا " کو اللہ تعالى کا نام تصور فرما رہے ہیں اگر ایسا ہی ہو یعنی " خدا " کو اللہ تعالى کا نام سمجھا جائے تو یہ الحاد فی اسماء اللہ تعالى ہے ۔
لیکن یہ بات یاد رہے کہ علماء کرام نے قدیما و حدیثا لفظ " خدا " کو اللہ تعالى کا نام نہیں قرار دیا
بلکہ اسے لفظ " اللہ " کا ترجمہ قرار دیا ہے
جیسے " رب " کا معنى پروردگار ہے اسی طرح " اللہ " کامعنى " خدا " ہے
اور اللہ تبارک وتعالى کے اسماء و صفات کا معنى کرنے بولنے اور استعمال کرنے پر امت محمد صلى اللہ علیہ وسلم جواز کی قائل ہے ۔
لہذا لفظ " خدا " کا استعمال بطور ترجمہ لفظ " اللہ " کیا جاتا ہے تو یہ جائز و درست ہے اس میں کوئی مضایقہ یا حرج نہیں
جناب رفیق طاہر بھائی اسم اللہ کا ترجمہ خدا کس نے کیا ہے؟ دوسرا میں نے آج تک اسم اللہ کا تجمہ کہیں نہیں پڑھا ہے اور نہ ہی سُنا ہے ہاں باقی اسماء و صفات کے تراجم موجود ہیں اور میں خود بھی اس کو جائز سمجھتا ہوں مگر بھائی جان خدا جو بولا اور لکھا جاتا ہے وہ اسم کے طور پر ہی لکھا اور پڑھا جاتاہے نہ کہ اسم اللہ کے ترجمہ کے طور پر،اور جبکہ لفظ خدا کے لفظی معنی مالک کے ہیں،
بھائی آپ ماشاءاللہ اہلِ علم ہیں آپ ہی اس پر کوئی دلیل پیش کر دیں، فہم پیش نہ کریں کیونکہ وہ ہمارے لیئے دلیل کا درجہ نہیں رکھتا ہے۔جزاک اللہ
 
Top