محترم
محمد علی جواد
میری اپ سے اس حواے سے کافی گفتگو ہو چکی مگر میں نے کبھی بھی تاریخی روایات کا آپ کو حوالہ نہیں دیا ہے اور نہ ہی کبھی ضعیف روایات پیش کی ہیں لوگوں کو یہ گمان نہ کے اس حوالے سے صرف تاریخی روایات ہی موجود ہیں میں نے اوپر بھی بخاری اور مسلم کے حوالے پیش کیے ہیں آپ کو پڑھنے کی توفیق ہو تو پڑھیں گے دوبارہ گزارش کرتا ہوں بخاری و مسلم سے تاخیر الصلاۃ کے باب نکال پڑھ لیں اور اس پر ابن حجر اور امام نووی کی تشریحات بھی پڑھ لیجئے گا رہی بات زکوۃ میں خرد برد کی تو مصنف ابن ابی شیبہ میں حکمرانوں کو زکوۃ دینے کے ابواب پڑھ لیں چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے زکوۃ حکمرانوں کو دینے کے بارے میں پوچھا گیا " عن الأعرج قال: " سألت ابن عمر؟ فقال: ادفعهم إليهم , وإن أكلوا بها لحوم الكلاب , فلما عادوا إليه قال: ادفعها إليهم(ارواء الغلیل رقم 873)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان کو(زکوۃ) دے دو چاہے اس سے کتوں کا گوشت ہی کیوں نہ کھائیں پھر دوبارہ پوچھا آپ نے یہی کہا ان کو دے دو۔
اور اور روایت میں اس طرح ہے کہ : عن قزعة قال: " قلت لابن عمر: إن لى مالا , فإلى من أدفع زكاته؟ فقال: ادفعها إلى هؤلاء القوم. يعنى الأمراء. قلت: إذاً يتخذون بها ثياباً وطيباً , فقال: وإن اتخذوا بها ثيابا وطيبا , ولكن فى مالك حق سوى الزكاة(حوالہ ایضا)
ترجمہ: قذعہ کہتے ہیں میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا میرے پاس مال ہے اس کی زکوۃ کہاں دوںانہوں نے کہا ان کودویعنی حکمران کو میں نے کہا وہ اپنے کپڑوں اور خوشبوں پر خرچ کردیں گے تو انہوں نے کہا کہ وہ چاہے کپڑوں اور خوشبوں پر خرچ کریں مگر تیرے مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے(یعنی تم زکوۃ کے علاوہ جہاں صدقہ کرنا چاہو)
اب اس میں حکمرانوں کے زکوۃ میں خرد برد کا ذکر ہے اور ابن عمررضی اللہ عنہ بنو امیہ کے دور میں حیات تھے تو میں احادیث سے ہی حوالے دیتا ہوں مگر کوئی پڑھنا نہ چاہے تو اور بات ہے چونکہ یہ میرے اس حوالے سے آخری کمینٹ ہیں اس لئے آئندہ کی گفتگو نہ ہو پائے گی اس لئے معزرت۔