• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابو حنیفہ نے جوتے کی پوجا کو جائز قرار دیا تھا؟ غلط فہمی کا ازالہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سوال یہ ہے کہ عبادت اگرکسی دوسرے کیلئے کی جائے خواہ وہ جوتاہویاغیراللہ ہو وہ سرے سے شرک ہے اوراس بات سے احناف کی کتب فقہ اورفتاوی بھری پڑی ہیں
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اسلام علیکم
ایک روایت ہمارے چند علماء اور ان کی تقلید میں طلباء اکثر پیش کرتے ہیں کہ:

خبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
ترجمہ: يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا ۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے۔
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی ص 368، وتاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 372 وغیرہ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جہاں تک اس روایت کی سند کی بات ہے تو اس کی سند حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اور رفیق طاہر حفظہ اللہ کے نزدیک درست ہے اور ظاہر ہے کہ ذکر کردہ علماء کا مقام علم و تحقیق میں آپ سے بہت اونچا ہے۔ مزید تفصیل خود رفیق طاہر اور کفایت اللہ برادران ہی بتا سکیں گے۔

سند کی بحث سے پہلے ابوحنیفہ کو بچانے کے لئے جو کلام آپ نے کیا ہے وہ بھی تو صرف تاویل ہی ہے اور وہ بھی پرتکلف تاویل۔ جبکہ لوگوں کی تاویلات پر آپ شکوہ کناں بھی ہیں! یہ کیا انصاف ہے؟ اگر دوسرے تاویل کریں تو غلط اور اگر آپ ابوحنیفہ کے دفاع میں بعید تاویلات کریں تو درست! اگر ایسا کوئی حکم ابوحنیفہ کے بارے میں شریعت نے دیا ہے تو ہمیں بھی مطلع فرمادیں کہ ابوحنیفہ کے کردار اور اعمال کو اجاگر کرتی ہوئی کوئی صحیح روایت بھی آجائے تو اسے یہ کہہ کر رد کردو کہ ابوحنیفہ سے یہ محال ہے اور اگر یہ سچ بھی ہے تو قابل تاویل ہے۔

ابوحنیفہ کی عبادت ریاضت کردار کی پاکیزگی، تقویٰ وغیرہ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے آپ سمیت بہت لوگوں کو دیکھا ہے لیکن کوئی بھی مرد میدان ابوحنیفہ کی اس خیالی تقویٰ اور بزرگی کو ثابت نہیں کرسکا۔ میرے بھائی خیالی دنیا سے باہر نکلو اور ابوحنیفہ کے دفاع کا شوق ہے تو کوئی صحیح روایت لاؤ۔ اگر بالفرض اس روایت کی سند ضعیف بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دسیوں ایسی صحیح روایات موجود ہیں جن میں محدثین نے ابوحنیفہ کو گمراہ،جاہل،یہودی،کذاب اور اسلام کا دشمن وغیرہ قرار دیا ہے۔ ایسی روایت ثابت کرتی ہیں کہ ابوحنیفہ جیسا شخص جوتے کی عبادت کے جواز کا فتویٰ بھی دے سکتا ہے اس میں اچھنبے اور نہ ماننے والی کوئی بات نہیں ہے۔ رضامیاں کی خدمت میں عرض ہے کہ ابوحنیفہ کی مذمت کرنے والے محدثین کا حکم بھی بیان کردیں کہ کیا وہ بھی ابوحنیفہ سے حسد اور جلن رکھتے تھے؟ ابوحنیفہ کا ناجائز دفاع کرنے والے اہل حدیثوں کو دوغلی پالیسی چھوڑ دینی چاہیے یہ ایک طرف تو ابوحنیفہ کو سچا اور پکا مسلمان قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ان محدثین کے ایمان میں بھی شک نہیں کرتے جو ابوحنیفہ کے کفر کو بیان کرتے ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ متضاد باتوں میں دونوں فریق ہی سچے ہوں۔ اگر ابوحنیفہ سچا، پاکباز،متقی اور مومن تھا تو یقینا محدثین اس پر الزام لگانے میں جھوٹے ہیں اور اگر محدثین سچے ہیں تو پھر یقینا ابوحنیفہ ہی مشکوک الاسلام تھا۔ ایک کشتی میں سوار ہوجائیں بیک وقت دو کشتیوں کی سواری خطرناک ہے۔
تاریخ بغداد میں سند ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن الفضل القطان، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه ، حدّثنا يعقوب بن سفيان، حدثني علي بن عثمان بن نفيل، حدّثنا أبو مسهر، حَدَّثَنَا يَحْيَى بن حمزة- وَسَعِيد يسمع- أَنَّ أَبَا حنيفة قَالَ: لو أَنَّ رجلا عَبْد هذه النعل يتقرب بها إلى الله، لم أر بذلك بأسا. فَقَالَ سَعِيد: هَذَا الكفر صراحا


سند میں عبد الله بن جعفر بن درستويه ہے جو ضعیف ہے

خطیب بغدادی نے البرقاني کے حوالے سے اس کی تضعیف نقل کی ہے

—-
الفسوي «المعرفة والتاريخ» (ج2ص784): میں کہتے ہیں-

حدثنا علي بن عثمان بن نفيل قال حدثنا أبو مسهر قال حدثنا يحيى بن حمزة وسعيد يسمع أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلاً عبد هذه النعل يتقرب بها إلى لم أر بذلك بأساً.
فقال سعيد: هذا الكفر صراحاً.


يحيى بن حمزة اور سعید بن عبد العزيز کا سماع امام ابو حنیفہ سے نہیں ہے


خبرنا الثقفى قال : حدثنا أحمد بن الوليد الكرخي قال : حدثنا الحسن بن الصباح قال : حدثنا محفوظ بن أبى ثوبة قال : حدثنى ابن أبى مسهر قال : حدثنا يحيى ابن حمزة وسعيد بن عبد العزيز قالا : سمعنا أبا حنيفة يقول : لو أن رجلا عبد هذا البغل تقربا بذلك إلى الله جل وعلا لم أر بذلك بأسا

كتاب المجروحين – ابن حبان ج 3 ص 73

اس کی سند میں محفوظ بن أبى ثوبة ضعیف ہے


یہ پروپگنڈا دو افراد يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي اور سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى التنوخى
الدمشقى کا ہے

يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي سن ١٠٨ ہجری میں پیدا ہوئے عباسی خلیفہ المَنْصُوْرُ کے دور میں سن ١٥٣ ہجری میں دمشق کے قاضی بھی رہے سن ١٨٣ ہجری میں فوت ہوئے المنصور ان کو جوان کہتے
سیر الاعلام النبلاء ج ٨ س ٣٥٥ پر

سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى سن ١٦٧ ہجری میں فوت ہوئے سن ٩٠ میں پیدا ہوئے مشھور مدلس ہیں آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے

إمام أبو حنیفہ ٨٠ میں پیدا ہوئے اور ١٥٠ میں فوت ہوئے

یعنی یہ دونوں حمزہ اور سعید دمشقی دونوں امام صاحب کے ہم عصر تو تھے لیکن ان دونوں کو اکتساب علم کے لئے ابو حنیفہ کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اہل دمشق کی یہ منفرد روایت منکر ہے جو ان سے زیادہ معتبر ابو حنیفہ پر تعصب عصری کی مثال ہے

اہل دمشق میں سے ان دو کا سماع امام صاحب سے کب کیسے ہوا کہاں ملاقات ہوئی امام ابو حنیفہ کا دمشق جانا کسی نے بیان نہیں کیا

مخالفین نے اس قسم کے بے سروپا اقوال کو قبول کیا ہے لیکن جو اہل انصاف و عدل ہیں ان کے نزدیک یہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں
یا کسی وہم کا شکار ہیں
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
صاحب
الرأي يروي عن عطاء ، ونافع ، كان مولده سنة ثمانين في سوا الكوفة ، وكان أبوه مملوكا لرجل من بني ربيعة من تيم الله من نجد يقال لهم : بنو قفل ، فأعتق أبوه وكان خبازا لعبد الله بن قفل ، ومات أبو حنيفة سنة خمسين ومائة ببغداد ، وقبره في مقبرة الخيزران.

وكان رجلا جدلا ظاهر الورع لم يكن الحديث صناعته ، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ما له حديث في الدنيا غيرها ، أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا إما أن يكون أقلب إسناده أو غير متنه من حيث لا يعلم ، فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الأخبار.

ومن جهة أخرى لا يجوز الاحتجاج به ، لأنه كان داعيا إلى الإرجاء ، والداعية إلى البدع لا يجوز أن يحتج به عند أئمتنا قاطبة ، لا أعلم بينهم فيه خلافا على أن أئمة المسلمين وأهل الورع في الدين في جميع الأمصار وسائر الأقطار جرحوه ، وأطلقوا عليه القدح إلا الواحد بعد الواحد ، قد ذكرنا ما روى فيه من ذلك في كتاب التنبيه على التمويه ، فأغنى ذلك عن تكرارها في هذا الكتاب غير أني أذكر منها جملا يستدل بها على ما وراءها.

الكتب » المجروحين لابن حبان » باب النون » النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
رقم الحديث: 1404
حدثنا زكريا بن يحيى الساجي ، بالبصرة ، قال : حدثنا بندار ، ومحمد بن علي المقدمي ، قال : حدثنا معاذ بن معاذ العنبري ، قال : سمعت سفيان الثوري ، يقول : " استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين۔
الكتب » المجروحين لابن حبان » باب النون » النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي



"باب النون":
٣٨٨- النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي، مات سنة خمسين ومائة، حدثنا نعيم بن حماد, ثنا يحيى بن سعيد، ومعاذ بن معاذ, سمعنا الثوري يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين.
حدثنا نعيم ثنا الفزاري, قال: كنت عند الثوري، فنعي أبو حنيفة، فقال: الحمد لله، وسجد، قال: كان ينقض الإسلام عروة عروة، وقال يعني الثوري: ما ولد في الإسلام مولود أشأم منه.
الضعفاأ الصغير للامام البخازي ت ابي العينين

ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ يَضَعُ أَوَّلَ الْمَسْأَلَةِ خَطَأً، ثُمَّ يَقِيسُ الْكِتَابَ كُلَّهُ عَلَيْهَا» [آداب الشافعي ومناقبه ص: 129واسنادہ صحیح]۔

ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ» [آداب الشافعي ومناقبه ص: 130واسنادہ صحیح]۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ الْأَعْيَنَ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، «يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ» ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَكَانَ شُعْبَةُ " يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ". [السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 211]۔

حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ الدِّمَشْقِيُّ- وَكَانَ مِمَّنْ قَهَرَ نَفْسَهُ- حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ ثنا يحي بْنُ حَمْزَةَ- وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ جالس- حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَاضِي الْكُوفَةَ أن ابا حنيفة استتيب مِنَ الزَّنْدَقَةِ مَرَّتَيْنِ» [المعرفة و التاریخ للفسوي : ج 2 ص 786]

(زندیقیت مطلب کتمان حق۔ یعنی ایک چیز اسلام نہیں اسے اسلام بنانا)

زندیقیت کی بہترین مثال یہ ھے !!

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبيد الله الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشافعي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو توبة الربيع بن نافع، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله ابن المبارك، قال: من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله".
[تاریخ بغداد ت بشار ج 15 ص 556]
؛؛؛

 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سند میں عبد الله بن جعفر بن درستويه ہے جو ضعیف ہے
برقانی سے جو ضعف کی وجہ نقل کی ھے خطیب نے۔ زرا وہ تو لگائیں ۔
شائد وہ جرح یہ تو نہیں؟؟
أبو بكر البرقاني : ضعفوه لأنه لما روى كتاب التاريخ عن يعقوب بن سفيان أنكروا عليه وقالوا له إنما حدث يعقوب بهذا الكتاب قديما فمتى سمعته؟

اس کا ترجمعہ کردیں زرا۔۔۔۔

یہ اقوال شائد آپ کو ملے نہ ہوں کہیں۔۔
* حَدَّثَنَا عنه أبو عبيد اللَّه بن منده الحافظ بغير شيء، وسألته عنه فأثنى عليه ووثقه___
* وسألت أبا سعد الْحُسَيْن بن عثمان الشيرازي عن ابن درستويه، فقَالَ: ثقة ثقة___
* الذهبي : الإمام العلامة شيخ النحو برع في العربية وصنف التصانيف، ورزق الإسناد العالي وكان ثقة__
* عبيد الله بن أحمد الأزهري رأيت أصل كتاب ابن درستويه بتاريخ يعقوب بن سفيان ووجدت سماعه فيه صحيحا
*محمد بن إسحاق بن منده الأصبهاني أثنى عليه ووثقه
 
Top