lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
مہربانی لولی ٹائم حوالہ فراہم کرنے کے لئے کے لئے یہ ملاحظ ہو
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
(وقول النبي صلي الله عليه وسلم: اللهم لا تجعل "الحديث" دليل علي ان القبور قد تجعل اوثانا وهو صلي الله عليه وسلم خاف من ذلك فدعا الله ان لا يفعله بقبر واستجاب الله دعاءه رغم النف المشركين الضالين الذين يشبهون قبر غيره بقبره) (كتاب الرد علي الاخنائي علي هامش "الرد علي البكري" ص: 234)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے ڈر گئے تھے کہ کہیں میری قبر بھی بت نہ بن جائے اور آپ نے اللہ سے دعا کی کہ میری قبر کے ساتھ ایسا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے گم کردہ راہ مشرکین کی خواہش کے علی الرغم، جو دوسرے کی قبر کو آپ کی قبر کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں، آپ کی دعا کو قبول فرما لیا۔"
یعنی حضور کی قبر بت نہیں۔
یہ لنک بھی دیکھ لیں
http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/صالحین-اور-بزرگوں-کی-قبروں-کے-بارے-میں-غلو-کا-انجام-“شرک-اکبر”ہے.16518/
http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/صالحین-اور-بزرگوں-کی-قبروں-کے-بارے-میں-غلو-کا-انجام-“شرک-اکبر”ہے.16518/
اس میں لکھا ہے کہ ------
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَناً يُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ) (الموطا لامام مالک، الصلاۃ، باب جامع الصلاۃ، ح:261 و المصنف لابن ابی شیبۃ:3/ 345)
“یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب اور قہر نازل ہوا جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔”(2)
(أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى(سورة النجم53: 19))
کی تفسیر میں مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:
(يَلُتُّ لَهُمُ السَّوِيقَ فَمَاتَ فَعَكَفُوا عَلى قَبْرِهِ) (رواہ ابن جریر فی التفسیر :27/ 58)
“لات”حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایاکرتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد لوگ اس کی قبر کے مجاوربن کر بیٹھ گئے۔”
ابوالجوزاء رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ : “لات”حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا۔” (3)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
(لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ) (سنن ابی داود، الجنائز، باب فی زیادۃ النساء القبور، ح:3236 وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجد، ح:320 وسنن النسائی، الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور، ح:2045)
“رسول اللہ ﷺنے قبروں کی زیارت کو جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں کو بھی ملعون قرار دیا جو قبروں پر مساجد بناتے اور چراغاں کرتے ہیں۔”(4)
مسائل
1) اس بحث سے اوثان یعنی بتوں کی تشریع ہوتی ہے۔
2) اور عبادت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
3) نبی ﷺنے اس چیز سے پناہ مانگی جس کے وقوع پذیر ہونے کا آپ کو اندیشہ تھا۔
4) جہاں نبی ﷺنے یہ دعا مانگی کہ “یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے۔” وہاں آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ “پہلے لوگوں نے انبیاء کی قبروں کوعبادت گاہیں بنا لیا تھا۔”
5) نبی ﷺنے یہ بھی بیان فرمایا کہ ایسا کرنے والوں پر اللہ تعالی کا شدید قہر اور غضب نازل ہوا۔
6) یہ بھی معلوم ہوا کہ “لات”جو عرب کا سب سے بڑا بت تھا، اس کی کس طرح عبادت شروع ہوئی؟
7) اس تفصیل سے واضح ہوا کہ وہ یک صالح بزرگ (لات)کی قبر تھی۔
8) “لات”صاحب قبر کا نام ہے۔ اور اس میں اس کی وجہ تسمیہ بھی مذکور ہوئی ہے۔
9) نبی ﷺنے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں کی زیارت کو جاتی ہیں۔
10) نبی ﷺنے قبروں پر چراغاں کرنے والوں پر بھی لعنت فرمائی ہے۔
نوٹ:-
(1) قبر بہرحال قبر ہی ہوتی ہے، وہ نیک آدمی کی ہو یا کسی دوسرے کی۔
کوہان کی صورت میں ہو یا مربع شکل میں۔ شریعت نے اس کی کوئی تمیزرکھی ہے نہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل وارد ہوئی ہے۔
صالحین کی قبروں کے بارے میں غلو کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے بارے میں جو حکم دیا گیا اور جن باتوں سے روکا گیا ہے، ان سے تجاوز کرنا۔ قبروں پر کتبے لگانا، انہیں خواہ بلند بنانا، ان پر عمارت کھڑی کرنا، انہیں سجدہ گاہ بنانا، قبر کو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ سمجھنا،قبریا صاحب قبر کو اللہ تعالی کے ہاں سفارشی سمجھنا، قبریا صاحب قبر کے لیے نذر ماننا، اس کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا، یا قبر کی خاک کو سفارشی یا متبرک سمبھنا اور ان اعمال کو اللہ تعالی کے قرب کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھنا۔ یہ تمام باتیں غلو ہیں اور “شرک اکبر”کی اقسام ہیں۔
(2) نبی کریم ﷺنے اپنی قبرکی پوجا و پرستش شروع ہوجانے کے اندیشہ کے باعث اللہ تعالی سے یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ! میری قبر کو پوجا اور عبادت کا مرکز نہ بنانا۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس قبر کی پوجا ہو وہ بت ہی ہے اور اس پوجا کا سبب وہ چیز ہوتی ہے جس کا ذکر حدیث کے دوسرے حملہ میں ہوا ہے۔
(اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)
شرک تک پہنچانے والے ذرائع و وسائل کو اختیار کرنا ہی قبروں کے بارے میں غلو ہے۔ نبیﷺنے اس حدیث میں جہاں قبروں کی پوجا کے ذریعہ اور وسیلہ کا ذکر کی ہے وہاں اس سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس عمل شنیع کا ارتکاب کرنے والوں پر اللہ کے شدید غضب کی تنبیہ بھی فرمائی ہے اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آخر کار ان وسائل کا نتیجہ یہی ہوتا ہےکہ بتوں کی طرح قبروں کی عبادت اور پوجا شروع ہوجاتی ہے۔
الغرض اس حدیث نے واضح کر دیا کہ جس قبر کی پوجا کی جائے وہ بت ہی ہے۔
(3) “لات”چونکہ حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا، اس کی اسی نیکی کی وجہ سے لوگ اس کی قبر کے بارے میں غلو کا شکار ہوگئے۔ مجاور بن کر بیٹھنے کا مطلب ہے قبر کا تعظیم کرتے ہوئے برکت ، ثواب، نفع کے حصول اور ضرر کے دفع ہونے کی امید سے قبر پر بیٹھ رہنا۔
یاد رہے! کسی قبر کا مجاوربن کر بیٹھنے سے وہ پرستش گاہ اور بت بن جاتی ہے۔
(4) قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور وہاں چراغاں کرنا منع ہے کیونکہ یہ ان کی تعظیم میں غلو اور حد سے تجاوز ہے۔ ماضی میں قبروں پر چراغ اور قندیلیں روشن کی جاتی تھیں۔ آج کل بڑے بڑے برقی قمقمے اور بلب جالائے جاتے ہیں۔ اس سے قبر کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے۔ قبروں پر ایسا کرنا ناجائز ہے اور نبی ﷺکے ارشاد کے مطابق ایسا کرنے والے ملعون ہیں۔