• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ امام اور علیہ السلام لکھنا شیعیت ہے ؟

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی مذکورہ بالا کتاب میں ایک بریلوی رسالے 'رضائے مصطفیٰ' کے مدیر سے مکالمہ میں شیخ محترم نے زیادہ تفصیلا اشکالات کا جواب دیا ہے
alehisalam2.PNG
alehisalam3.PNG
alehisalam4.PNG
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی مذکورہ بالا کتاب میں ایک بریلوی رسالے 'رضائے مصطفیٰ' کے مدیر سے مکالمہ میں شیخ محترم نے زیادہ تفصیلا اشکالات کا جواب دیا ہے
14654 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 14655 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 14656 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
صلاح الدین یوسف صاحب کا یہ جواب پہلے سے فورم پر موجود ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ہمارے شیخ محمد بن علی آدم الاثیوبی اپنے ہاتھ سے ورڈ میں ٹائپ کرتے ہیں مگر جب کتاب بیروت سے چھپتی ہے تو خلفائے ثلاثہ کے ناموں کے آگے سے رضی اللہ عنہ اور ابن تیمیہ وغیرہ کے آگے سے رحمہ اللہ غائب ہوتا ہے اور علی کے آگے کرم اللہ وجہہ درج ہوتا ہے.
( مجلس التحقیق الاسلامی واٹس ایپ مجموعہ میں ایک رکن کی شراکت )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک اور نقطہ نظر ملاحظہ کیجیے :
ہمارے ہاں ایک طبقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کےنام کے ساتھ "علیہ السلام" سےکم کچھ لکھنے کو پسند نہیں کرتا ۔ اگرچہ یہ دعائیہ کلمہ لکھنا جائز ہے،صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں، تمام صحابہ کرام کے نام کے ساتھ لکھنا جائز ہے، بلکہ عام مسلمانوں کیلئے بھی کہنا اور لکھنا جائز ہے، چاہے وہ نیک ہوں یا فاسق۔ قبرستان میں فوت شدگان پر جب ہم سلامتی بھیجتے ہیں تو ان میں ہر طرح کے لوگ مدفون ہوتے ہیں۔ لہذا سلامتی بھیجنا کسی اختصاص کا باعث نہیں، بلکہ ہر نیک و بد کیلئے روا ہے۔ جبکہ "رضی اللہ عنہ" نہ صرف باعثِ اختصاص ہے، بلکہ ایک عظیم الشان رتبہ ہے، جو ہر ایک کو نہیں ملا کرتا۔ اس لئے یہ "علیہ السلام" کہنے یا لکھنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ کیونکہ؛
11۔ ہر وہ شخص، جسے سلامتی بھیجی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ اللہ اس سے رازی ہو، مگر "رضی اللہ عنہ" اللہ نے صرف ان سے کہا، جن پر وہ راضی ہو گیا۔ یاد رہے کہ صحابہ کے علاوہ اگر کسی کیلئے "رضی اللہ عنہ" بولا گیا ہے، تو وہ اول تو نص نہیں، دوم، وہ دعا کہ معنی میں ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے۔(اگرچہ صحابہ کے سوا عام امتی کیلئے یہ کہنا ہم درست نہیں سمجھتے)، جبکہ "لقد رضی اللہ عن المؤمنین۔۔۔" صریح نص ہے اور قسم کے معنی میں ہے کہ "البتہ تحقیق اللہ مؤمنین (صحابہ) سے راضی ہو چکا"۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو کہ دعائیہ معنی میں نہیں۔
22۔ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو انعام و اکرام کا سلسلہ سلامتی بھیجنے کے ساتھ شروع ہو گا (الزمر 73)۔ جو بڑھتا ہی جائے گا اور جنتیوں کو جو سب سے بڑا انعام ملے گا، وہ یہ ہو گا کہ اللہ ان سے اعلان کر کے فرمائے گا کہ میری رضا تم پر حلال ہو چکی، آج کے بعد میں تم پر ناراض نہیں ہوں گا (بخاری 6183، المستدرک 276)۔ قرآن میں بھی اہل جنت کو جنت کے انعامات گنوا کر بعد میں کہا گیا کہ
ورضوان من الله أكبر (التوبۃ 72)۔
اور اللہ کی رضا، سب سے بڑھ کر انعام ہو گا۔
لہذا "علیہ السلام"درجہ میں کسی صورت بھی "رضی اللہ عنہ" کے برابر نہیں۔ ہاں ایک اچھی دعا ضرور ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انبیاء کے ساتھ مخصوص ہونے کی وجہ سے "علیہ السلام" کو "رضی اللہ عنہ" پر ترجیح ہے۔ کیونکہ
اول تو ان کے نام کے ساتھ بھی "علیہ السلام"کہنے کی دلیل نہیں مل سکی، البتہ تکریماً کہنا درست ہے۔
دوم ان کیلئے یہ دونوں برابر ہیں، کیونکہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں، لہذا ان پر سلامتی بھی ہے اور اللہ بھی ان سے راضی ہو چکا ہے۔ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصومین عن الخطاء نہیں۔ مگر اس کے باوجود اللہ کا ان کیلئے "رضی اللہ عنہ"کا اعلان فرمانا، حقیقتاً باعثِ اختصاص ہے، جبکہ عام امت پر سلامتی کی دعا تو کی جا سکتی ہے، مگر یہ نہیں کہا جا سکا کہ اللہ ان سے راضی بھی ہو گیا ہے۔نیز یہ بھی یاد رہے کہ غلو کرتے ہوئے صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو "علیہ السلام" کہہ کر درجہِ نبوت تک پہنچانے کی کوشش کرنا،رفض و تشیع کا شعار تو ہو سکتا ہے، اہل سنت کا نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب خاور نعیم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
واٹس ایپ گروپ ’ مجلس التحقیق الاسلامی ‘ سے موضوع سے متعلق کچھ اقتباسات :
’سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو امام کہنا درست نہیں، جبکہ صحابہ کرام کے لیے سیدنا کا لفظ ثابت شدہ ہے، جیسا کہ سیدنا عمر نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا بلال کے بارے میں کہا: بلال ہو سیدنا واعتق سیدنا ... چنانچہ حضرت، مولانا وغیرہ سے زیادہ مستند لفظ سیدنا ہے۔ ‘
’ دراصل امام حسین کا لفظ عقیدہ امامت کی طرف اشارہ ہے، جو باطل رافضی عقیدہ ہے۔ اس لئے ایسے احتمالی الفاظ سے بچنا ضروری ہے۔ ‘
’ اسی رافضی عقیدہ سے بچنے کی بنا پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح نے نبی کریم کو بھی امام کہنے سے منع فرمایا۔ اور کہا کہ آپ امام نہیں بلکہ رسول اور نبی ہیں۔ امامت کبری کا آغاز سیدنا ابوبکر صدیق سے ہوتا ہے۔ نبی کریم کو امام کہنے سے روکنا اس بنا پر تھا کہ رافضی عقائد میں امامت کا آغاز نبی کریم کی ذات مبارکہ سے ہونے کو رد کیا جائے۔ شیخ الاسلام کے اس موقف کو وحی تو قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم اس کی معنویت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ‘
’ الغرض سیدنا حسین کے لئے امام حسین کے لفظ سے اجتناب کرنا ضروری ہے تاکہ باطل عقائد کی راہ ہموار نہ ہو۔ ایسے ہی سیدنا علی کے لیے مولا کے الفاظ سے بھی احتراز ضروری ہے، تاکہ اس احتمالی لفظ سے غلط مفہوم کو تائید حاصل نہ ہو۔ ‘
’ شیخ الاسلام اس عبارت میں نبی کریم کے لیے بھی عقیدہ امامت کی وضاحت کررہے ہیں۔
قال شيخ الاسلام ابن تيمية: "إن النبي لم تجب طاعته على الناس لكونه إماما، بل لكونه رسول الله إلى الناس." (منهاج السنة لابن تيمية: ص 80)
قال ابن تيمية: "فإذا قيل : هو كان إماما، وأريد بذلك إمامة خارجة عن الرسالة، أو إمامة يشترط فيها ما لا يشترط في الرسالة أو إمامة تعتبر فيها طاعته بدون طاعة الرسول، فهذا كله باطل" (منهاج السنة: ص85)

شيخ ابن تيمية فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم کے لیے بھی امامت کا لفظ بول کر مذکورہ بالا معانی مراد ہوں گے، تب آپ ﷺ کے لیے بھی امام کا لفظ استعمال کرنا باطل ہوگا۔ چنانچہ غلط عقائد کو راہ ردینے سے بچنا چاہئے۔ جب امام حسین کے بارے میں مشہور عقیدۂ امامت راقضیوں نے پھیلا رکھا ہے تو اس وقت اصلاح عقائد کے پیش نظر سلیم لفظ ’سیدنا‘ کو ہی اختیار کرنا ہوگا کیونکہ عرف وعادت بھی مفہوم کو غلط متعین کردیتے ہیں۔ اگر کسی عرف میں غلط مراد لیا جاتا ہو تو وہاں ایسی ذو معنی اصطلاحات کا استعمال بطور سد ذریعہ ممنوع ہوگا۔‘
’ جو شخص سیدنا حسین کو امام حسین کہتا ہے، اس پر لازم ہے کہ ساتھ ہی غلط عقیدہ کی وضاحت بھی کرے اور بتائے کہ وہ جائز معنی میں استعمال کر رہا ہے۔ اور اسی طرح تمام خلفاے راشدین بلکہ جملہ صحابہ کرام کو امام کہنے کا بھی التزام کرے، کیونکہ جملہ صحابہ کرام ہی دین وشرع کے امام ہیں۔ اگر وہ سیدنا حسین کو امام اور باقی خلفا کو حضرت ومولانا وغیرہ کہتا ہے تو وہ غلط عقائد کو شکار اور شبہات کو فروغ دے رہا ہے۔ ‘
’ صدیق کا لقب سنت سے ثابت ہے۔
اور یہ کسی غلط عقیدہ کا غماز نہیں۔
سو اس سے استدلال کرنا اور امام کو اس پر قیاس کرنا محل نظر ہے۔ ‘
’ جب آنجناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہم کلام ہونے کے لیے حکم الہی ہے :
يأيها الذين آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا ،،،،،، الخ
تو جناب حسین رضی اللہ عنہ کے لیے متنازع لفظ کے استعمال کا ترک بدرجہ اولی لازم ہے ‘
’ حضرت حسین رض کے لیے امام اور علیہ السلام کے قائلین کو اس آئت کریم کے مدعا ومقصود پر ضرور غور کرنا چاھیے ‘
’ ویسے بھی جب آنجناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
سيدا شباب أهل الجنة ،،،،، تو ہمیں بھی سیدنا ہی کہنا چاہیے ‘
’ یاد رہنا چاہیے کہ مذہب روافض کی اساس عقیدہ امامت ہے ، اس سے مکمل محتاط رہنا چاہیے ۔ ‘
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في منهاج السنة: فلهذا جعلوا الولاية فوق النبوة، وهؤلاء من جنس القرامطة الباطنية الملاحدة، لكن هؤلاء ظهروا في قالب التصوف والتنسك ودعوى التحقق والتأله، وأولئك ظهروا في قالب التشيع والمولاة، فأولئك يعظمون شيوخهم حتى يجعلوهم أفضل من الأنبياء، وقد يعظمون الولاية حتى يجعلوها أفضل من النبوة، وهؤلاء يعظمون أمر الإمامة حتى يجعلوا الأئمة أعظم من الأنبياء والإمام أعظم من النبي، كما يقوله الإسماعيلية وكلاهما أساطين الفلاسفة الذين يجعلون النبي فيلسوفًا ويقولون إنه يختص بقوة قدسية، ثم منهم من يفضل النبي على الفيلسوف، ومنهم من يفضل الفيلسوف على النبي ويزعمون أن النبوة مكتسبة.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’ علیہ السلام ‘ کا استعمال کیا غیر انبیاء کے لیے درست ہے ؟ از مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، ہفت روزہ الاعتصام 14۔21 اپریل ، 1978 ۔
( اس مضمون کا صرف عنوان ملا ہے ، اصل مضمون میں نے نہیں پڑھا ، اگر کسی کی دسترس میں یہ مضمون ہو تو یہاں شیئر کردیں )
 
Top