السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:
صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں!
درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟
جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
آپ نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ ہے:
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ
صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)
اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے!
آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں!
اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
اس پر ہم نے آپ سے کہا تھا:
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:
(قَوْله مِيرَاث بن الابْن)
إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ قَوْلُهُ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَخْ وَصَلَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَرٌ احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى وَسَقَطَ لَفْظُ ذَكَرٍ مِنْ رِوَايَةِ الْأَكْثَرِ وَثَبَتَ لِلْكُشْمِيهَنِيِّ وَهِيَ فِي رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْمَذْكُورَةِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 439 جلد 15 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 – 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت
ابن حجر عسقلانی نے یہاں ''وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَر'' کی شرح کی ہے، ''احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى'' اور اسے صحیح بخاری کی ''الْكُشْمِيهَنِيِّ'' کی روایت سے ثابت بتلایا ہے اور یہ بھی بتلایا کہ یہ الفاظ ''سَعِيدِ بْنِ مَنْصُور'' کی روایت میں موجود ہیں!
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی عبارت ابن حجرعسقلانی یوں بیان کرتے ہیں:
''إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُم وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اسی طرح فتح الباری کے درج ذیل طبعات میں مطبوع ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار المعرفة، بيروت
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمیں تو بالکل من وعن قبول ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں کرتے، آگے ہم آپ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلہ کو قبول نہ کرنا بتلائیں گے!
مگر پہلے آپ یہ تو بتلائیے کہ کیا اس فیصلہ میں چچا یا تایا موجود تھے؟
جب اس میں چچا یا تایا موجود نہیں، تو آپ یہ خلط مبحث کیوں کر رہے ہو!
ہمارا موقف تو یہی ہے کہ پوتے، پوتیاں دادا کے بیٹے کی موجودگی میں میں وراثت کے حقدار نہیں، خواہ وہ ان کے والد ہوں، یا چچا، یا تایا!
اور اس فیصلہ میں نہ دادا کا کوئی بیٹا نہیں تھا!
آپ یہ آدھی بات کیوں کرتے ہو؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی دادا کی وراثت سے حصہ دیا، جب دادا کا کوئی بیٹا بھی موجود نہ تھا، نہ اس کا باپ، نہہ چچا، نہ تایا!
یعنی جب ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' میت یعنی دادا کے کوئی نرینہ أولاد نہ ہونے کی شرط پوری تھی، تب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی وراثت میں حصہ دیا!
یہ کیسے اس بات کا ثبوت بن سکتا ہے کہ چچا، تائےکے ہوتے ہوئے بھی پوتے پوتی کی وراثت میں حصہ دیا جائے، جبکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ میں چچا یا تایا کو وجود ہی نہیں!
ہمیں تو یہاں چچا یا تایا کا وجود نظر نہیں آیا!
اگر آپ کو نظر آیا ہے، تو بتلائیں، کہ چچا یا تایا کو کتنا حصہ دیا گیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 1/2 بیٹی کو دیا، 1/6 پوتی کو دیا، یہ ہوئے کل 2/3، باقی 1/3 بہن کو دیا، یہ ہو گئی کل وراثت کی تقسیم!
اب چچا یا تایا اگر موجود تھے، تو انہیں کیا دیا گیا؟ یا آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت تو نہیں لگانا چاہتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہہ وسلم نے معاذ اللہ! میت کے بیٹوں کو میراث سے محروم کر دیا؟
کچھ سوچ سمجھ کے بات کیا کرو!
آپ نے پھر وہی بات کر دی، کہ جیسے پوتے پوتی وراثت کے حقدار ہوتے ہیں، اور باپ کے مرنے کے بعد بھی ان کا حق برقرار رہتا ہے، تو پھر آپ ان پوتے پوتیوں کو بھی وراثت کا حصہ دار ٹھہرائیں، کہ جن کے باپ زندہ ہیں! کیونکہ آپ فرما رہے ہیں کہ ''ان کا حق وحصہ ثابت رہتا ہے''
اب میں آپ کو ''ثابت رہتا ہے'' اور ''ثابت ہوتا ہے'' کا فرق بتلاوں گا، تو آپ اسے نکتہ چینی سمجھ بیٹھیں گے!
نہیں میرے بھائی! پوتے پوتیوں کا دادا کی وراثت میں حق ان کے باپ کی موجودگی میں نہ تھا، اور نہ محض ان کے باپ کی وفات پر ثابت ہوتا ہے، دادا کی وراثت میں ان کا حق اس وقت ثابت ہوتا ہے، جب ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' یعنی جب میت یعنی دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہونے کی شرط پوری ہو! یاد رہے کہ شرط نرینہ اولاد نہ ہونے کی ہے، اگر زنانہ اولاد کا ہونا، نہ ہونا اس شرط میں شامل نہیں!
آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
یہاں تک تو آپ نے بات صحیح کہی، اور یہی بات اصل ہے، جو ہم آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کے فوراً بعد آپ نے ایک عجیب بات کردی!
یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
آگے آپ نے اور بھی عجیب بات کی:
آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
دیکھیں، آپ نے پھر بات الٹی بیان کی!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم پوتی کو چچا اور تایا کہ نہ ہونے کی صورت میں حصہ دیا ہے، چچا یا تایا کی موجودگی میں نہیں!
تو آپ نے پہلے یہ گمان کرلیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم پوتی کو چچا یا تایا کی موجودگی میں یتیم پوتی کو حصہ دیا، پھر اس پر آپ نے تفریع کی کہ اسی طرح چچا نہ ہو تب بھی وہ اپنے حصہ کا ترکا پائے گا! یہ آپ نے الٹی گنگا بہانے کی کوشش کی ہے!
اور آپ کے اس گمان کا بطلان اوپر بیان کیا چا چکا ہے!
آپ پھر اس شرط'' ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' یعنی جب میت یعنی دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو'' کو بھول رہے ہو!
اور جب نرینہ اولاد کے تعلق سے ایک حکم موجود ہے، تو اسےزنانہ اولاد پر قیاس کرنا باطل ہے!
آپ کا مذکورہ بالا مدعا آپ کی مستدل حدیث کے ہی خلاف ہے، کہ جس کے متعلق آپ ہمیں فرما رہے تھے کہ :
اور ہم نے کہا تھا کہ:
االلہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمیں تو بالکل من و عن قبول ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں کرتے، آگے ہم آپ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلہ کو قبول نہ کرنا بتلائیں گے!
کافی تفصیل تو شیخ @کفایت اللہ نے بیان کر دی ہے؛
اب دیکھیں:
آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح پھوپی اولاد ہے، اسی طرح پوتی بھی اولاد میں سے!
آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح بیٹا اولاد میں سے ہے اسی طرح پوتا اولاد میں سے ہے!
آپ فرماتے ہیں اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے، جیسےاس کے چچا کا ترکہ ہے!
آپ مزید فرماتے ہیں کہ لہٰذا دونوں کا استحقاق ایک جیسا ہے!
اب جب آپ کے بقول اولاد ہونے میں بھی پھوپھی اور پوتی ایک جیسی، چچا اور پوتا ایک جیسا، اور دونوں کا ترکہ میں استحقاق بھی ایک جیسا! تو میرے بھائی! یہ تو بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ میں، ان دونوں کو یعنی پھوپھی اور پوتی کا ایک جیسا مستحق کیوں نہ ٹھہرایا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو 1/6 اور پوتی کی پھوپھی کو 1/2 حصہ کیوں دیا؟
آپ فرماتے ہیں اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے، جیسےاس کے چچا کا ترکہ ہے!
یہ تو عالم دنیا اور عالم برزخ کا گڑبڑ گھٹالا بن گیا!
میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا!
میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے!
جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا!
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!
تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا!
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
حافظ ابن حجر کے بیان کی تفصیل اوپر گزری!
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
@مسرور احمد الفرائضی صاحب!
آپ نے کچھ بیان کرنا ہے تو کر لیجئے، پھر ہم آپ کے جوابات کا جائزہ لیتے ہیں!