• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے
محترم آپ کو پھر مشورہ دیتاہوں کہ کسی عالم کے ساتھ بیٹھ کر میراث کا علم حاصل کریں اور یہ علم سمجھ میں نا آئے تو قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے بجائے کوئی دوسرا کام کریں ۔
یہاں آپ حدیث پیش کرکے سوال کررہے ہیں حالانکہ یہ حدیث خود آپ کے خلاف دلیل ہے ۔بلکہ آپ کی ساری باتیں اس حدیث کے سامنے ہوا ہوجاتی ہے۔
اس حدیث کے مطابق میت کے ورثا میں درج ذیل افراد موجود تھے :
بیٹی
پوتی
بہن

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالے دیتے ہوئے حدیث کی روشنی میں یہاں تقسیم اس طرح کی کہ :
بیٹی کو نصف دیا
پوتی کو سدس دیا
اور بہن کو باقی دیا
اب آپ اپنے خود ساختہ اصول کو دیکھیں
آپ کا اصول یہ ہے کہ میت کے جس پوتے یا پوتی کا باپ مرگیا وہ پوتا یا پوتی اپنے باپ کی جگہ لے لے گا ۔
آپ کے اس اصول کی روشنی میں یہاں پوتی کو اس کے باپ کی جگہ پر بیٹھا دینا چاہئے یعنی اسے بیٹے کی حیثیت دے دینی چاہئے پھر کل مال میں دو حصہ اس کو دینا چاہے اور ایک حصہ بیٹی کو ۔ اور بہن کو محجوب کردینا چاہئے ، کیونکہ پوتا اورپوتی جب حصہ لینے میں باپ کی جگہ پر ہوگا تو آپ ہی کے اصول سے محجوب کرنے میں بھی باپ کی جگہ پر ہونا چاہئے۔
لیکن حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اصول باطل اور خود ساختہ ہے ۔

نیز اگر پوتی کو باپ کی جگہ رکھ باپ مذکر کا مقام نہ دیں بلک مونث کا ہی مقام دیں تو ایسی صورت میں مذکورہ مسئلہ میں میت کی پوتی کو میت کی بیٹی کی حیثیت دینی چاہئے یعنی میت کی کل دو بیٹیاں ماننا چاہئے اور پھر ان دونوں کو ثلثین دینا چاہئے ۔
لیکن حدیث میں ایسا بھی نہیں ہے ۔اس سے بھی ثابت ہوا کہ آپ کا اصول خود ساختہ اور باطل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کے خود ساختہ اصول کو درست مان لیا جائے تو اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میراث کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ نے پوتی کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں پوتی کو اس کے باپ کا قائم مقام نہیں بنایا ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں۔ ہے

جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں!
درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟
جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
آپ نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ ہے:

حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ
صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)

اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے!
آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں!
اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا والعیاذ باللہ
اس پر ہم نے آپ سے کہا تھا:
ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی
جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:
(قَوْله مِيرَاث بن الابْن)
إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ قَوْلُهُ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَخْ وَصَلَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ
وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَرٌ احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى وَسَقَطَ لَفْظُ ذَكَرٍ مِنْ رِوَايَةِ الْأَكْثَرِ وَثَبَتَ لِلْكُشْمِيهَنِيِّ وَهِيَ فِي رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْمَذْكُورَةِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 439 جلد 15 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 – 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت

ابن حجر عسقلانی نے یہاں ''وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَر'' کی شرح کی ہے، ''احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى'' اور اسے صحیح بخاری کی ''الْكُشْمِيهَنِيِّ'' کی روایت سے ثابت بتلایا ہے اور یہ بھی بتلایا کہ یہ الفاظ ''سَعِيدِ بْنِ مَنْصُور'' کی روایت میں موجود ہیں!
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی عبارت ابن حجرعسقلانی یوں بیان کرتے ہیں:

''إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُم وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اسی طرح فتح الباری کے درج ذیل طبعات میں مطبوع ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتبة السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 317 جلد 21 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الرسالة العالمية، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – طبع جديد المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق – مكتبة ابن تيمية، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2974 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار السلام، الرياض

مزید کہ ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی معلقات کی تحقیق پر تغليق التعليق على صحيح البخاري مرتب فرمائی ہے، اس میں اس روایت کو بایں الفاظ نقل کیا ہے:
بَاب مِيرَاث ابْن الابْن إِذا لم يكن ابْن
وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ ح 327 أ / دُونَهُمْ
وَلَدٌ ذَكَرٌ ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ وَلا يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ
قَالَ سعيد بن مَنْصُور فِي السّنَن حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ثَنَا أَبِي ثَنَا خَارِجَةُ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيه بِهَذَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 214 جلد 05 تغليق التعليق على صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتب الإسلامي، بيروت – دار عمار، عمان

''وَلَدٌ ذَكَرٌ'' کے الفاظ صحیح بخاری کی درج ذیل طباعت میں حاشیہ میں بھی موجود ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 جلد 08 صحيح البخاري عن الطبعة الأميرية نسخة اليونيني بروايات الأصيلي وأبي ذر الهروي والسجزي وابن عساكر معزواً إلى تحفة الأشراف وفتح الباري وتغليق التعليق وعمدة القاري وإرشاد الساري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار طوق النجاة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 418 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار التأصيل، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 188 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الشعب، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2961 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – مكتبة البشری، كراتشي


یہی نہیں بلکہ صحیح بخاری کی یہ روایت درج ذیل مطبوعات میں کے الفاظ ''وَلَدٌ ذَكَرٌ'' کے ساتھ مطبوع ہے:
وَقَالَ زَيْدٌ: «وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ»
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1073 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الحضارة للنشر والتوزیع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1416 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – وزارة الشؤون الإسلامية والدعوة والإرشاد السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 06 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الطباعة العامرة - تركيا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2477 جلد 06 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار ابن كثير، (دمشق، بيروت) – اليمامة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1286 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1692 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1669 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار ابن كثير، دمشق – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 238 جلد 04 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – المطبعة السلفية ومكتبتها، القاهرة

مزید کہ أبو العباس القرطبي ضياء الدين أحمد بن عمر الأنصاري الأندلسي القرطبي (المتوفى: 656 هـ) نے اپنی کتاب اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه میں بھی ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:
باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، وميراث ابنة الابن مع الابنة
قال زيد: ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم
ولد ذكر، ذَكَرُهم كَذَكَرِهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، وَيَحْجُبُون كما يَحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 05 اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه – أبو العباس القرطبي ضياء الدين أحمد بن عمر الأنصاري الأندلسي القرطبي (المتوفى: 656 هـ) – دار النوادر، دمشق

اس کے اور بھی ثبوت ہیں، مگر ماننے والے کے لئے یہی کفایت کریں گے، ان شاء اللہ!
تو اب ہمارے سامنے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ہیں:

«وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ»
اس میں پوتے، پوتیوں کو وراثت کے حقدار قرار پانے کی شرط یوں ہے:
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اب میں عربی لغت کی تفصیل میں تو نہیں جاتا، کہ ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' صرف وَلَدٌ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے خاص ولد قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، جیسے کہ آپ اسے یتیم پوتے کے فوت شدہ والد قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اور جب کہ ذَكَرٌ بھی ساتھ شامل ہے، تو یہ تو اور بھی محال ہو گیا، کہ اسے دادا کا خاص بیٹا مراد لیا جائے، جو فوت ہو چکا ہے!
کیونکہ یہاں شرط یہ ہے میت کی نرینہ اولاد نہ ہو!
نرینہ اولاد صرف پوتے کا فوت شدہ والد ہی تو نہیں، کہ اس کے نہ ہونے سے شرط پوری ہوجائے! اگر چچا یا تایا موجود ہوں، تو وہ بھی نرینہ اولاد ہیں، لہٰذا پوتے کے چچا، اور تایا کہ موجودگی میں، مذکورہ شرط پوری نہیں ہوتی، خواہ ان کے والد فوت ہو چکے ہوں، اور جب شرط مفقود ہے، تو پوتے اور پوتیاں دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ٹھہرتے!
یہی بات ابن حجر عسقلانی نے بیان کی ہے،

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمیں تو بالکل من وعن قبول ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں کرتے، آگے ہم آپ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلہ کو قبول نہ کرنا بتلائیں گے!
مگر پہلے آپ یہ تو بتلائیے کہ کیا اس فیصلہ میں چچا یا تایا موجود تھے؟
جب اس میں چچا یا تایا موجود نہیں، تو آپ یہ خلط مبحث کیوں کر رہے ہو!
ہمارا موقف تو یہی ہے کہ پوتے، پوتیاں دادا کے بیٹے کی موجودگی میں میں وراثت کے حقدار نہیں، خواہ وہ ان کے والد ہوں، یا چچا، یا تایا!
اور اس فیصلہ میں نہ دادا کا کوئی بیٹا نہیں تھا!
آپ یہ آدھی بات کیوں کرتے ہو؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی دادا کی وراثت سے حصہ دیا، جب دادا کا کوئی بیٹا بھی موجود نہ تھا، نہ اس کا باپ، نہہ چچا، نہ تایا!
یعنی جب
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' میت یعنی دادا کے کوئی نرینہ أولاد نہ ہونے کی شرط پوری تھی، تب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی وراثت میں حصہ دیا!
اور اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ جس پوتے پوتی کا باپ نہ ہو وفات پا چکا ہو انکو ان کے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حصہ دیا جائے
یہ کیسے اس بات کا ثبوت بن سکتا ہے کہ چچا، تائےکے ہوتے ہوئے بھی پوتے پوتی کی وراثت میں حصہ دیا جائے، جبکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ میں چچا یا تایا کو وجود ہی نہیں!
ہمیں تو یہاں چچا یا تایا کا وجود نظر نہیں آیا!
اگر آپ کو نظر آیا ہے، تو بتلائیں، کہ چچا یا تایا کو کتنا حصہ دیا گیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 1/2 بیٹی کو دیا، 1/6 پوتی کو دیا، یہ ہوئے کل 2/3، باقی 1/3 بہن کو دیا، یہ ہو گئی کل وراثت کی تقسیم!
اب چچا یا تایا اگر موجود تھے، تو انہیں کیا دیا گیا؟ یا آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت تو نہیں لگانا چاہتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہہ وسلم نے معاذ اللہ! میت کے بیٹوں کو میراث سے محروم کر دیا؟
کچھ سوچ سمجھ کے بات کیا کرو!

کیونکہ ان کا حق و حصہ ثابت رہتا ہے کیونکہ جس پوتے پوتی کا باپ موجود نہ ہو وہ بھی میت کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہوتا ہے اور دادا پوتے کے درمیان اولاد و والدیت کے رشتہ کے قائم رہنے کی بنا پر توارث بھی ثابت رہتا ہے ۔
آپ نے پھر وہی بات کر دی، کہ جیسے پوتے پوتی وراثت کے حقدار ہوتے ہیں، اور باپ کے مرنے کے بعد بھی ان کا حق برقرار رہتا ہے، تو پھر آپ ان پوتے پوتیوں کو بھی وراثت کا حصہ دار ٹھہرائیں، کہ جن کے باپ زندہ ہیں! کیونکہ آپ فرما رہے ہیں کہ ''ان کا حق وحصہ ثابت رہتا ہے''
اب میں آپ کو ''ثابت رہتا ہے'' اور ''ثابت ہوتا ہے'' کا فرق بتلاوں گا، تو آپ اسے نکتہ چینی سمجھ بیٹھیں گے!
نہیں میرے بھائی! پوتے پوتیوں کا دادا کی وراثت میں حق ان کے باپ کی موجودگی میں نہ تھا، اور نہ محض ان کے باپ کی وفات پر ثابت ہوتا ہے، دادا کی وراثت میں ان کا حق اس وقت ثابت ہوتا ہے، جب
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' یعنی جب میت یعنی دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہونے کی شرط پوری ہو! یاد رہے کہ شرط نرینہ اولاد نہ ہونے کی ہے، اگر زنانہ اولاد کا ہونا، نہ ہونا اس شرط میں شامل نہیں!
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
یہاں تک تو آپ نے بات صحیح کہی، اور یہی بات اصل ہے، جو ہم آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کے فوراً بعد آپ نے ایک عجیب بات کردی!
خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔
یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
آگے آپ نے اور بھی عجیب بات کی:

یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا

دیکھیں، آپ نے پھر بات الٹی بیان کی!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم پوتی کو چچا اور تایا کہ نہ ہونے کی صورت میں حصہ دیا ہے، چچا یا تایا کی موجودگی میں نہیں!
تو آپ نے پہلے یہ گمان کرلیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم پوتی کو چچا یا تایا کی موجودگی میں یتیم پوتی کو حصہ دیا، پھر اس پر آپ نے تفریع کی کہ اسی طرح چچا نہ ہو تب بھی وہ اپنے حصہ کا ترکا پائے گا! یہ آپ نے الٹی گنگا بہانے کی کوشش کی ہے!
اور آپ کے اس گمان کا بطلان اوپر بیان کیا چا چکا ہے!


کیونکہ بہر دو صورت وہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد میں سے ہے جیسا کہ پوتی کو اس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کی اولاد میں سے ہونے کے سبب حصہ ملا۔
آپ پھر اس شرط'' ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' یعنی جب میت یعنی دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو'' کو بھول رہے ہو!
اور جب نرینہ اولاد کے تعلق سے ایک حکم موجود ہے، تو اسےزنانہ اولاد پر قیاس کرنا باطل ہے!
جس طرح اس کی پھوپھی اولاد اسی طرح پوتی اولاد میں سے ہے۔ اور جس طرح بیٹا اولاد میں سے ہے اسی طرح پوتا اولاد میں سے ہے بنا بریں یتیم پوتا بھی اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہے اور اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے جیسے اس کے چچا کے والد کا ترکہ ہے۔ لہذا دونوں کا استحقاق ایک جیسا ہے
آپ کا مذکورہ بالا مدعا آپ کی مستدل حدیث کے ہی خلاف ہے، کہ جس کے متعلق آپ ہمیں فرما رہے تھے کہ :
تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔
اور ہم نے کہا تھا کہ:
االلہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمیں تو بالکل من و عن قبول ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں کرتے، آگے ہم آپ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلہ کو قبول نہ کرنا بتلائیں گے!
کافی تفصیل تو شیخ @کفایت اللہ نے بیان کر دی ہے؛
اب دیکھیں:
آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح پھوپی اولاد ہے، اسی طرح پوتی بھی اولاد میں سے!
آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح بیٹا اولاد میں سے ہے اسی طرح پوتا اولاد میں سے ہے!
آپ فرماتے ہیں اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے، جیسےاس کے چچا کا ترکہ ہے!
آپ مزید فرماتے ہیں کہ لہٰذا دونوں کا استحقاق ایک جیسا ہے!
اب جب آپ کے بقول اولاد ہونے میں بھی پھوپھی اور پوتی ایک جیسی، چچا اور پوتا ایک جیسا، اور دونوں کا ترکہ میں استحقاق بھی ایک جیسا! تو میرے بھائی! یہ تو بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ میں، ان دونوں کو یعنی پھوپھی اور پوتی کا ایک جیسا مستحق کیوں نہ ٹھہرایا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو 1/6 اور پوتی کی پھوپھی کو 1/2 حصہ کیوں دیا؟
آپ فرماتے ہیں اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے، جیسےاس کے چچا کا ترکہ ہے!
یہ تو عالم دنیا اور عالم برزخ کا گڑبڑ گھٹالا بن گیا!
میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا!
میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے!
جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا!
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!
اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔

تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!


جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا!
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!

حافظ ابن حجر نے یتیم پوتے کی دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونے کی دو صورت بیان کی ہے پہلی صورت یہ ہے کہ صرف یتیم پوتے کا باپ نہ ہو ،اور اس کے چچا تائے ہوں تو اس صورت میں بھی یتیم پوتا بمنزلہ صلبی اولاد ہونے کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے اور اس صورت میں بھی حقدار و حصہ دار ہے جب کہ اس کے چچا تائے بھی نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یتیم پوتا اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث ہے اور اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی محجوب و محروم الارث ہے کیونکہ باب یتیم پوتے کی دادا کے ترکہ میں استحقاق کے اثبات کا ہے نہ کہ انکار کا۔
حافظ ابن حجر کے بیان کی تفصیل اوپر گزری!
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
@مسرور احمد الفرائضی صاحب!
آپ نے کچھ بیان کرنا ہے تو کر لیجئے، پھر ہم آپ کے جوابات کا جائزہ لیتے ہیں!
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
محترم آپ کو پھر مشورہ دیتاہوں کہ کسی عالم کے ساتھ بیٹھ کر میراث کا علم حاصل کریں اور یہ علم سمجھ میں نا آئے تو قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے بجائے کوئی دوسرا کام کریں ۔
یہاں آپ حدیث پیش کرکے سوال کررہے ہیں حالانکہ یہ حدیث خود آپ کے خلاف دلیل ہے ۔بلکہ آپ کی ساری باتیں اس حدیث کے سامنے ہوا ہوجاتی ہے۔
اس حدیث کے مطابق میت کے ورثا میں درج ذیل افراد موجود تھے :
بیٹی
پوتی
بہن

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالے دیتے ہوئے حدیث کی روشنی میں یہاں تقسیم اس طرح کی کہ :
بیٹی کو نصف دیا
پوتی کو سدس دیا
اور بہن کو باقی دیا
اب آپ اپنے خود ساختہ اصول کو دیکھیں
آپ کا اصول یہ ہے کہ میت کے جس پوتے یا پوتی کا باپ مرگیا وہ پوتا یا پوتی اپنے باپ کی جگہ لے لے گا ۔
آپ کے اس اصول کی روشنی میں یہاں پوتی کو اس کے باپ کی جگہ پر بیٹھا دینا چاہئے یعنی اسے بیٹے کی حیثیت دے دینی چاہئے پھر کل مال میں دو حصہ اس کو دینا چاہے اور ایک حصہ بیٹی کو ۔ اور بہن کو محجوب کردینا چاہئے ، کیونکہ پوتا اورپوتی جب حصہ لینے میں باپ کی جگہ پر ہوگا تو آپ ہی کے اصول سے محجوب کرنے میں بھی باپ کی جگہ پر ہونا چاہئے۔
لیکن حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اصول باطل اور خود ساختہ ہے ۔

نیز اگر پوتی کو باپ کی جگہ رکھ باپ مذکر کا مقام نہ دیں بلک مونث کا ہی مقام دیں تو ایسی صورت میں مذکورہ مسئلہ میں میت کی پوتی کو میت کی بیٹی کی حیثیت دینی چاہئے یعنی میت کی کل دو بیٹیاں ماننا چاہئے اور پھر ان دونوں کو ثلثین دینا چاہئے ۔
لیکن حدیث میں ایسا بھی نہیں ہے ۔اس سے بھی ثابت ہوا کہ آپ کا اصول خود ساختہ اور باطل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کے خود ساختہ اصول کو درست مان لیا جائے تو اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میراث کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ نے پوتی کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں پوتی کو اس کے باپ کا قائم مقام نہیں بنایا ۔
محترم کفایت اللہ صاحب!
میرے محترم آپ کے مشورہ کا شکریہ۔ آپ ماشاء اللہ بڑے عالم اور محقق ہیں اور آپ کی فرائض کے سلسلہ معلومات بس سراجی جیسی فقہی کتابیں ہی ہیں۔ آپ اس مسئلہ میں قرآن و حدیث میں بحث و تحقیق کرنے کے بجائے الٹا مجھے ہی کسی عالم سے میراث کا علم حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے ہ۔ تو میں آپ کو اور اہل حدیث علماء کو یہ مشورہ دیتاہوں کہ فقہی کتابوں سے جو علم میراث حاصل کیا ہے اس سے ہٹ کر قرآن و حدیث کے اندر جو علم فرائض و مواریث ہے اس کو حاصل کریں۔ اور فقہی کتابوں کو لیکر اس کے حوالے دیکر فتوے نہ دیں اور حکم نہ لگائیں۔ اور اگر قرآن و حدیث کی باتیں جو کہ بالکل سیدھی سادی، آسان اور سمپل ہیں سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں تو قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرکے اس میں تحریفات و تاویلات بے جا کر کے یتیم پوتے کی محجوبیت کے فتوے نہ دیں۔ اللہ کے رسول نے ترکہ و میراث کے مال کو اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اہل فرائض کو ان کے فریضے سونپنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث ہے۔ ترکہ و میراث کو ذوی الفروض اور عصبات کے مابین تقسیم کا حکم نہیں دیا ہے یہ اصطلاحات اور اصول فرائض سب بعد کی ایجادات ہیں جو لوگوں بنایا اور مرتب کیا ہے اور جس کا وجود اللہ کے رسول کے زمانے میں نہ تھا چنانچہ مقاسمت الجد۔ عول اور رد کے مسائل سب بعد میں پیش آئے جس پر کچھ نے اتفاق کیا اور کچھ نے اختلاف کیا۔ اور ذوی الفروض، عصبات کی اصطلاحات تو اللہ کے رسول اور صحابہ کے وقت میں پائی ہی نہیں جاتی تھیں۔ اسی طرح حجب کے اصول بھی بعد کی ہی ایجاد ہیں یہ کوئی اللہ و رسول کا حکم اور فیصلہ نہیں ہے اور نہ ہی اللہ و رسول کے نازل کردہ اصول اور اصطلاحیں ہیں جن پر آنکھ بند کر کے ایمان لے آیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عول کا مسلہ درپیش ہوا تو کچھ صحابہ نے اس سے اتفاق کیا اور کچھ نے اختلاف کیا۔ اسی طرح دادا ور بھائی کے مسئلہ میں کچھ صحابہ کا موقف یہ تھا کہ بھائیوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے اور کچھ کا موقف یہ تھا کہ نہیں کیونکہ دادا باپ ہوتا ہے اور باپ کے ہوتے ہوئے بیٹے کو کچھ نہیں مل سکتا۔ اس پر عہد ابو بکر تک تو اتفاق رہا لیکن عہد فاروقی میں بمشورہ زید بن ثابت اس بات پر اتفاق ہوا کہ نہیں بھائیوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے۔ اسی طرح رد علی الزوجین کا بھی مسئلہ ہے کہ کچھ صحابہ کا کہنا تھا زوجین کو نہیں ملنا چاہئے جبکہ عثمان بن عفان کا کہنا تھا کہ نہیں انہیں بھی ملنا چاہئے جس طرح عول میں انہیں شامل کیا جاتا ہے ور ان کے حصے میں کمی واقع ہوتی ہے۔
مطلب یہ کہ فرائض و مواریث کا اصل ماخذ و مرجع اور مصدر صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی ہے اور اسی کے مطابق ترکہ کی تقسیم ہونی چاہئے جیسا کہ اللہ و رسول کا حکم اور فرمان ہے۔ اور اسی کے تعلق سے بحث و تحقیق ہونی چاہئے۔ نہ یہ کہ چند فقہی اصول و اصطلاحات کو لیکر جوتم پیزار کی جائے۔
میں نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی لکھی ہیں اور میں آپ کو بھی اور دگر لوگوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض و مواریث کے سلسلہ میں بحث و تحقیق صرف قرآن و سنت ساے ہی ہونی چاہئے ۔ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر غور و خوض کیا جانا چاہئے اور بحث و تحقیق ہونی چاہئے صرف یہ کہہ دینے سے فرصت ملنے والی نہیں ہے کہ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ اور پوری امت کا اتفاق ہے۔ تو اگر یتیم پوتے کی محجوبیت کا مسئلہ اجماعی اور متفق علیہ ہوتا تو پھر یتیم پوتے اور یتیم پوتی کی توریث کے اثبات کا یہ دو باب صحیح بخاری میں کہاں سے آیا؟۔
میرے محترم آپ کا ارشاد گرامی ہے:
یہاں آپ حدیث پیش کرکے سوال کررہے ہیں حالانکہ یہ حدیث خود آپ کے خلاف دلیل ہے ۔بلکہ آپ کی ساری باتیں اس حدیث کے سامنے ہوا ہوجاتی ہے۔
الجواب:
میں کہتا ہوں یہ حدیث آپ جیسے لوگوں کی ساری باتوں کو ہوا بنادیتی ہے۔ حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ فرائض کو اہل فرائض کے حوالے کرو۔ (بخاری و مسلم) اور صحیح مسلم کی دوسری حدیث ہے کہ ترکہ کے مال کو اللہ کی کتاب قرآں مجید کے مطابق اس کی بنیاد پر اہل فرائض کے درمیان تقسیم کرو ۔ اور جو باقی بچ رہے وہ سب سے اولیٰ مرد مذکر کے لئے ہے۔ اس میں اللہ کے رسول نے یہ نہیں کہا ہے کہ پہلے سراجی اور اس جیسی کتابیں اور اس کے پڑھنے پڑھانے والے عالموں سے سیکھو پھر جو کچھ وہ رٹیں رٹائیں اس کے مطابق ذوی الفروض اور عصبات میں تقسیم کرو۔ جس کے سیکھنے اور حاصل کرنے کا آپ مجھے مشورہ دے رہے ہیں۔ میرے محترم! میں نے سراجی پڑھی بھی ہے اور پڑھائی بھی ہے اور اور اصول فرائض پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اور تقریبا بیس سال سے اس علم اور یتیم پوتے کے مسئلہ کے تعلق سے بحث و تحقیق میں لگا ہوا ہوں اور الحمد للہ ثم الحمد اللہ ۔ میں نے علم فرائض و مواریث کو اس کے اصل ماخذ و مصدر اور مرجع قرآن و حدیث سے حاصل کیا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اس پر میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔ میں یتیم پوتے کی محجوبیت کے تعلق سے جتنے لوگوں کی بھی تحریریں پڑھی ہیں جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ ان سب کا خلاصہ اور ان سب کی ساری باتوں کا محور صرف اور صرف یہی ہے کہ چونکہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے۔ اور قرآن میں لفظ (الاقربون) آیا ہوا ہے اور علم فرائض کا اصول ہے (الاقرب فالاقرب) جس کا مطلب ہوا کہ قریب کے ہوتے ہوئے دور والا وارث نہیں ہو سکتا ہے۔ اب اسی کو ثابت کرنے اور صحیح ٹھہرانے کی خاطر لوگ قرآن وحدیث کے الفاظ کو توڑتے مروڑتے اورتاویلات بیجا کرکے معنی و مفہوم اخذ کرتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں اور سلسلہ میں کچھ بھی سننا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی کچھ کہتا بھی ہے تو اسے گمراہ، کج فہم، بے عقل بےوقوف، جاہل، بد عقیدہ، اجماع امت کو توڑنے والا۔ اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالتے ہیں ۔ اور ایسا کہنے والے کوئی اور نہیں بلکہ قرآن و حدیث کا ٹھیکہ لئے ہوئے اتباع کتاب و سنت کے دعویدار حضرات ہیں۔ جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ کیا آپ کو فرائض کا علم بذریعہ وحی آیا ہوا ہے؟ یا آپ کے پاس جبرئیل آئے تھے جو آپ کو سراجی پڑھا کے اور میراث کا علم دے کر گئے تھے؟۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ سے یا آُ پ جیسے دوسرے لوگوں سے غلطی ہو رہی ہو۔ کیا آپ کا علم منزل من اللہ ہے؟۔ کہ آپ مجھے گمراہ اجماع امت کو توڑنے والا، کج فہم ، گمراہ، جاہل قرار دیئے جا رہے ہیں اور کسی عالم سے بیٹھ کر علم میراث حاصل کرنے کا مشورہ دیئے جا رہے ہیں۔ آپ اور آپ جیسے لوگ جو قرآن و حدیث کی اتباع کے دعویدار ہیں ۔ اس مسئلہ میں اتباع کتاب و سنت کی دعویداری کہاں گم ہو گئی ہے؟۔ ہم نے کہا کہ دادا والد ہے اور پوتا اولاد اور اس کی دلیل قرآن وحدیث سے دی ۔ پھر آپ نے کہا کہ دادا مجازی باپ ہے اور پوتا مجازی بیٹا ہے ہم نے قرآن وحدیث اس کا بھی ر د کیا اور ثابت کیا کہ دادا حقیقی والد اور باپ ہے اور پوتا حقیقی بیٹا اور اولاد ہے۔ اور ہم نے اللہ و رسول کر فرمان(قرآن و حدیث) سے ثابت کردیا۔ پھر آپ نے کہا کہ قرآں میں لفظ (الاقربون) آیا ہوا ہے تو ہم نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن میں (والدان) کا لفظ پہلے آیا ہوا ہے۔ (الاقربون) کا لفظ بعد میں آیا ہوا ہے۔ آپ نے کہا بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید ہے۔ ہم نے کہا بیٹا بلا واسطہ صاحب فرض وارث ہے اور پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے۔ اور بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ جس کی دلیل ہم نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری سے دی۔ اور اس بات کی نشاندہی کی کہ یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ ابواب ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اور پوتی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد(بیٹا بیٹی) اپنے دادا کے ترکہ سے اپنے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حقدار و حصہ دار ہیں۔ اس سلسلہ میں میں نے ایک فیصلہ نبوی بھی پیش کیا جس محل شاہد بس اتنا سا ہے کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا محدود حصہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی یتیم پوتے حقدار و حصہ دار ہیں اللہ و رسول کے یہاں چچا تائے کا ہونا یتیم پوتے کے حقدار و حصۃ دار ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ اسی تناظر میں میں نے علمائے اہل حدیث یہ چند سوالات کئے ہیں۔ جس پر آپ لاٹھی لے کر کھڑے ہوگئے اور لگے ہمیں جاہل، گمراہ، بد عقیدہ، کج فہم بے وقوف، جاہل ، اجماع امت کو توڑنے والا کہنے اور مشورہ دینے کہ کسی عالم سے علم میراث حاصل کرلو۔ حالانکہ ہم نے علم فرائض کو مواریث آپ ہی کی طرح ایک مستند ادارہ میں باقاعدہ طور پر پڑھا ہے اور اب الحمد اللہ چند سالوں سے پڑھا بھی رہاہوں اور ہمارے پڑھائے ہوئے بہت سے شاگرد مکہ مدینہ میں بھی پڑھ رہے ہیں۔ مجھے یہ مسئلہ زمانہ طالب علمی میں ہی نا معقول، بے بنیاد اور من گھڑت اسی طرح لگ رہا تھا جیسے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے کا ۔ چنانچہ میں نے ان دونوں مسئلوں میں بحث و تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی حقدار و حصہ دار ہے چچا تایا کا ہونا کوئی مانع نہیں ۔ اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں صرف ایک ہی ہونگی کیونکہ تیسری اور آخری طلاق جس سے کہ بیوی حرام ہوجاتی تو اس سے پہلے دوبار رجوع کا پایا جانا لازمی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاقوں میں نہیں پایا جاتا لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں صرف اور صرف ایک طلاق رجعی ہی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے
الجواب:
محترم کفایت اللہ صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا: (تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔)
اور اصل سوال یہ تھا کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ
اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
آپ میرے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے۔ یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔ تو میرے محترم آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں۔ بلکہ میں نے جو یہ بحث چھیڑی ہے وہ صحیح بخاری کے کتاب الفرائض : (باب میراث ابن الابن اذا لم یکن لہ اب) اور اس کے تحت ذکر کردہ حدیث رسول : (الحقوا الفرائض باہلہا.....)، اور اس کے بعد کے باب (باب میراث بنت الابن مع البنت) کو پڑھنے کے بعد اللہ کے رسول کے اس فرمان (ترکہ کے اموال اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر اہل فرائض کے درمیان تقسیم کرو۔ صحیح مسلم) کے بموجب چھیڑی ہے۔ اور میرے مخاطب صرف اور صرف علمائے اہل حدیث ہیں۔
پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے تعلق سے:

[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو۔
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -:
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
[صحيح بخاري: 6735] *-* حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -:
«أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
[صحيح مسلم: 4 - (1615)] حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ».
[وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم]

8 - باب مِيرَاثِ ابْنَةِ ابْنٍ مَعَ ابْنَةٍ
6736 - حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ: سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي. فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - «لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلاِبْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ». فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ. [6742 - فتح 12/ 17}
[
ولا خلاف بين الفقهاء وأهل الفرائض في ميراث [ابنة] (1) الابن مع الابنة].
[
وكان أبو بكر يقول: الجد أب ما لم يكن دونه أب، كما أن ابن الابن ابن ما لم يكن دونه ابن.]

اس حدیث کے پیش کرنے سے میرا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا اور یتیم پوتی کے حصہ پانے میں بیٹی رکاوٹ نہ بنی غرض اس سے نہیں کہ اسے کتنا ملا ۔ اس سے بحث نہیں ہے بحث یہ ہے کہ یتیم پوتے کو اس کے چچا تائے کے ہوتے حصہ مل سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں مل سکتا ہے تو اس کی دلیل کون سی آیت یا حدیث ہے تو آپ کوئی آیت و حدیث پیش کرنے کے بجائے۔ ہمیں علم میراث پڑھانے لگ گئے۔ اور ہماری بنیادی بات کا جواب دینے سے قاصر رہے۔
آپ اصل و بنیادی بات کا جواب دینے کے بجائے یہ بتانے لگے کہ (اس حدیث کے مطابق میت کے ورثا میں درج ذیل افراد موجود تھے :
بیٹی، پوتی، بہن۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالے دیتے ہوئے حدیث کی روشنی میں یہاں تقسیم اس طرح کی کہ :بیٹی کو نصف دیا، پوتی کو سدس دیا، اور بہن کو باقی دیا۔
میرے بھائی حدیث میں تو خود ہی یہ بیان ہوا ہے کہ :
بیٹی کو نصف، یتیم پوتی کو سدس، اور بہن کو باقی بچا ہوا دیا گیا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ کس کو کتنا دیا گیا کتنا ملا۔ ہمیں غرض صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ ہی یتیم پوتی کو بھی اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے اور اللہ کا فرمان ہے: (لِلرِّجَالِ (نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7))
یعنی والدین اور اقرباء کے ترکہ میں مردوں کا بھی حصہ بنتا ہے اور عورتوں کا بھی حصہ بنتا ہے۔ اور کم و بیش جس کا جو بھی حق و حصہ نکلتا ہے وہ اللہ کا فرض کیا ہوا حصہ (فریضہ الٰہی ) ہوتا ہے۔ جس کا ادا کی جانا واجب اور فرض ہے۔
میرا سوال آپ اور آپ جیسے لوگوں سے جو قرآن و حدیث کے صحیح سمجھنے اور سمجھانے کا ٹھیکہ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ مذکورہ بالا فرمان الٰہی کے مطابق تھا یا اس کے خلاف؟۔ اس کا مجھے جواب چاہئے؟۔ ایک صحابی نے جب یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم کرتے ہوئے صرف بیٹی کو اور باقی بچا ہوا بہں کو دئے جانے کا فتویٰ دیا تو اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں بھی انہیں کی طرح کروں یعنی یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم کر کے فتویٰ دوں جب کہ اللہ کے رسول کا اسی طرح کے مسئلہ میں ایک فیصلہ ہے جو میں جانتا ہوں جس میں انہوں نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا تو پھر تو میں گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ نہ رہ جاؤں گا۔ جس پر دوسرے صحابی نے اپنے فتوے سے رجوع کرلیا اور آپ ہیں کہ اس پر غور و فکر کرنے کے بجائےالٹا مجھ علم میراث کسی عالم سے بیٹھ کر سیکھنے کا مشورہ دئے جا رہے ہیں۔ تو کیا اللہ کے رسول نے سراجی پڑھ کر فیصلہ دیا تھا یا ان صحابہ کرام نے سراجی پڑھ کر فتویٰ دیا تھا۔ یا کس عالم سے علم میراث حاصل کیا تھا اور کونسی کتاب پڑھی تھی؟ ذرا مجھے بھی اس کتاب کا نام بتائیے گا تاکہ میں بھی اسے پڑھ کر آپ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے علم میراث حاصل کر سکوں۔ اور ذرا اس عالم کا نام بھی بتا دیجئے گا جس سے میں یہ علم حاصل کر سکوں۔ آپ کی بڑی کرم فرمائی ہوگی۔
آپ میری کسی بات کا کوئی معقول جواب تو دے نہیں پائے اور الٹی پلٹی باتیں کرنا شروع کردیں اور یہ کہنا شروع کردیا کہ (اب آپ اپنے خود ساختہ اصول کو دیکھیں۔ آپ کا اصول یہ ہے کہ میت کے جس پوتے یا پوتی کا باپ مرگیا ۔ وہ
پوتا یا پوتی اپنے باپ کی جگہ لے لے گا ۔ آپ کے اس اصول کی روشنی میں یہاں پوتی کو اس کے باپ کی جگہ پر بیٹھا دینا چاہئے یعنی اسے بیٹے کی حیثیت دے دینی چاہئے پھر کل مال میں دو حصہ اس کو دینا چاہے اور ایک حصہ بیٹی کو ۔ اور بہن کو محجوب کردینا چاہئے ، کیونکہ پوتا اورپوتی جب حصہ لینے میں باپ کی جگہ پر ہوگا تو آپ ہی کے اصول سے محجوب کرنے میں بھی باپ کی جگہ پر ہونا چاہئے۔
میرے محترم! آپ تو بمنزلہ اولاد کا معنی و مفہوم تک نہیں سمجھ پارہے ہیں اور مرد و عورت کی بھی آپ نے تمیز کھودی ہے ۔ اور آپ لکھتے ہیں کہ: (آپ کا اصول یہ ہے کہ میت کے جس پوتے یا پوتی کا باپ مرگیا ۔ وہ
پوتا یا پوتی اپنے باپ کی جگہ لے لے گا ۔ آپ کے اس اصول کی روشنی میں یہاں پوتی کو اس کے باپ کی جگہ پر بیٹھا دینا چاہئے یعنی اسے بیٹے کی حیثیت دے دینی چاہئے پھر کل مال میں دو حصہ اس کو دینا چاہے اور ایک حصہ بیٹی کو ۔ اور بہن کو محجوب کردینا چاہئے ، کیونکہ پوتا اورپوتی جب حصہ لینے میں باپ کی جگہ پر ہوگا تو آپ ہی کے اصول سے محجوب کرنے میں بھی باپ کی جگہ پر ہونا چاہئے۔)
یہ کتنی نا معقول باتیں آپ کئے جا رہے ہیں۔ بھئی بمنزلہ اولاد کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ بیٹے جگہ یتیم پوتا آئے گا اور بیٹی کی جگہ یتیم پوتی آئے گی – اس کا مطلب یہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھ رکھا ہے اور لکھ رکھا ہے کہ (میت کے جس پوتے یا پوتی کا باپ مرگیا ۔ وہ
پوتا یا پوتی اپنے باپ کی جگہ لے لے گا ۔) نیز یہ کہ آپ نے لکھا: (پوتی کو اس کے باپ کی جگہ پر بیٹھا دینا چاہئے یعنی اسے بیٹے کی حیثیت دے دینی چاہئے پھر کل مال میں دو حصہ اس کو دینا چاہے اور ایک حصہ بیٹی کو ۔) یہ ہے آپ کی علمیت اور فہم و فراست اور حدیث و قرآن دانی اور علم میراث کا علم؟؟؟؟؟.....
یتیم پوتے اور پوتی کے بمنزلہ اولاد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یتیم پوتا ہوگا تو وہ اپنے باپ کے نہ ہونے پر میت کے بیٹے کے درجہ میں بطور ایک بیٹے کے ہوگا۔ اور اگر یتیم پوتی ہوگی تو وہ اپنے باپ کے نہ ہونے پر میت کی بیٹی کے درجہ میں بطور ایک بیٹی کے ہوگی۔ اس کا مطلب اٹھک بیٹھک کرنا کرانا نہیں ہے۔
آپ کو اتنی بھی عقل و تمیز نہیں ہے کہ پوتی کو اس کے باپ کی جگہ پر بٹھایا جا سکتا ہے؟ اور اسے بیٹا بنایا جا سکتا ہے۔ اور اسے بیٹے کی حیثیت اور درجہ دیا جا سکتا ہے؟ رہا معاملہ بہن کا تو اگر پوتی کی جگہ پوتا ہوتا تو یقینی طور پر بہن محجوب ہوجاتی آپ کے کہنے بتانے کی کوئی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
آپ کو مجھ ناچیز کا یہ مشورہ ہے کہ پہلے آپ فرائض و مواریث کی حقیقت کو سمجھئے پھر علم فرائض و مواریث کو سیکھئے ۔ صرف تفہیم الفرائض نامی کتابچہ لکھ کر چھاپ دینے سے کوئی علم فرائض کا عالم نہیں بن جاتا ہے ۔ جس علم میراث کے سیکھنے کا آپ نے مجھے مشورہ دیا ہے وہ آپ کو ہی مبارک ہو کیونکہ وہ علم محض ظنون ہیں فرائض و مواریث کا اصل علم تو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت اور احادیث میں ہے جس کے سیکھنے سکھانے کے بارے میں صحابی رسول عقبہ بن عامر نے فرمایا ہے اور درست فرمایا ہے جیساکہ صحیح بخاری میں ہے کہ علم فرائض کو ظانین(رائے و قیاس کرنے، اٹکلیں لگانے ، اٹکل پچو ہانکنے والوں ) سے پہلے سیکھ لو۔

[صحيح بخاري: كتاب الفرائض: 2 - باب تَعْلِيمِ الفَرَائِضِ]
وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: تَعَلَّمُوا قَبْلَ الظَّانِّينَ، يَعْنِي الَّذِينَ يَتَكَلَّمُونَ بِالظَّنِّ.
6724 - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا» [انظر: 5143 - مسلم: 2563 - فتح 12/ 4].
الشرح: وجه مناسبة هذا الحديث في الباب ذكره الظن في قوله: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ».
قال المهلب: وهذا الظن ليس هو الاجتهاد على الأصول، وإنما هو الظن المنهي عنه في الكتاب والسنة، مثل ما سبق إلى المسئول من غير أن يعلم أصل ما يسأل في كتاب أو سنة أو أقوال الأئمة، وأما إذا قال وهو قد علم الأصل من هذِه الثلاثة فليس بظان، وإنما هو مجتهد والاجتهاد سائغ (على أصوله) (التوضيح شرح الجامع الصحيح).

میرے محترم! جس اصول کو آپ نے خود ساختہ کہا ہے وہ میرا خود کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ و رسول کے احکام و فرامین پر مبنی صحابہ کرام کا پیش کردہ ہے جو احادیث اور شروح احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ جس کی طرف آپ دیکھنا اور غور و فکر کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور نہ ہی سمجھ پا رہے ہیں یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں:
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -:
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
[
وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم]
[
ولا خلاف بين الفقهاء وأهل الفرائض في ميراث ابنة الابن مع الابنة].
[
وكان أبو بكر يقول: الجد أب ما لم يكن دونه أب، كما أن ابن الابن ابن ما لم يكن دونه ابن.]


آپ نے لکھا: (آپ کا اصول باطل اور خود ساختہ ہے ۔ نیز اگر پوتی کو باپ کی جگہ رکھ باپ مذکر کا مقام نہ دیں بلک مونث کا ہی مقام دیں تو ایسی صورت میں مذکورہ مسئلہ میں میت کی پوتی کو میت کی بیٹی کی حیثیت دینی چاہئے یعنی میت کی کل دو بیٹیاں ماننا چاہئے اور پھر ان دونوں کو ثلثین دینا چاہئے ۔ لیکن حدیث میں ایسا بھی نہیں ہے ۔اس سے بھی ثابت ہوا کہ آپ کا اصول خود ساختہ اور باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کے خود ساختہ اصول کو درست مان لیا جائے تو اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میراث کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ نے پوتی کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں پوتی کو اس کے باپ کا قائم مقام نہیں بنایا )۔
الجواب :
میرے محترم ! آپ صلی اللہ علیہ نے پوتی کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں پوتی کو اس کے باپ کا قائم مقام نہیں بنایا بلکہ بیٹی کے قائم مقام بنایا تھا کیونکہ وہ اپنے دادا کی مونث اولاد اور ذریت میں سے تھی اور مثل بیٹی نہیں تھی بلکہ قائم مقام بیٹی تھی۔ شاید آپ مثل اور قائم مقام کا باریک فرق نہیں سمجھ پا رہے ہیں ۔ مثل ہونا اور ہے اور قائم مقام ہونا اور ہوتا ہے۔ چونکہ بیٹی تھی اس لئے پوتی قائم مقام بیٹی تھی اور اگر بیٹی نہ رہتی بلکہ صرف بیٹی ہوتی تو وہ قائم مقام بیٹی نہ رہتی بلکہ مثل بیٹی ہوتی اور اس کو وہی حصہ ملتا جو بیٹی کو ملا یعنی نصف ۔ فافہم و تدبر!
یہی بات پوتے کے سلسلہ میں بھی ہے کہ جب میت کے دوسرے بیٹے (یتیم پوتے کے چچاتائے) ہونگے تو اس صورت میں یتیم پوتا بمنزلہ مذکر اولاد یعنی میت کے بیٹے(اپنے باپ کی ) کے قائم مقام ہوگا۔ اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ ہونگے تو یتیم پوتے بمنزلہ مذکر اولاد یعنی میت کے بیٹوں ( اپنے اپنے باپ ) کے قائم مقام نہیں ہونگے بلکہ اس صورت میں وہ مثل بیٹے کے ہونگے یعنی ہر پوتے کو مستقل ایک بیٹا مانا جائے گا اور سب کو برابر برابر حصہ ملے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ کسی بیٹے کا کوئی ایک ہی بیٹا ہو تو اس کو اس کے باپ کا حصہ دیا جائے اور کسی بیٹے کے چار بیٹے ہوں تو اس کا ایک حصہ چار جگہ کر کے ہر ایک کوایک حصہ کا چوتھائی چوتھائی دیا جائے۔ لہذا آپ پہلے مثل اور قائم مقام کے فرق کو سمجھیں اور پھر بحث کریں۔ اور برائے مہربانی بے تکی باتوں سے پرہیز کریںّ۔ اور صرف علمی اور اصولی باتیں ہی کریں۔ میں جو کچھ بھی لکھ رہاہوں وہ قرآن و سنت اور احادیث سے ہی لکھ رہا ہوں اور اصولی باتیں ہی لکھ رہاہوں ۔ جو قرآن و حدیث اور تفاسیر و شروح احادیث میں موجود ہیں جس کا کوئی بھی مطالعہ کر سکتا ہے۔ میرا کوئی اپنا بنایا ہوا اصول نہیں ہے جسے آپ خود ساختہ قرا دے رہے ہیں۔ لہذا آپ سے مودبانہ گذارش ہے کہ برائے مہربانی آپ اصل موضوع بحث سے نہ ہٹیں۔ وہ یہ کہ
یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں اس کے چچا تائے کے ہوتے حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں اگر نہیں بنتا ہے تو قرآن و حدیث میں اس کی کیا دلیل ہے؟
مجھے بس صرف اس کا جواب چاہئے رہا معاملہ حق ناحق کا اور کون گمراہ اور کون ہدایت پر ہے تو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ بس میں یہ جانتا ہوں کہ حق صرف اور صرف وہی ہے جو اللہ کی جانب سے اترا ہوا(منزل من اللہ) ہے یعنی قرآن اور سنت جس پر اللہ کے نبی اپنے صحابہ کرام کو چھوڑ گئے اور صرف اسی کو پکڑے رہنے کی تلقین و تاکید فرمائی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کے خود ساختہ اصول کو درست مان لیا جائے تو اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میراث کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ نے پوتی کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں پوتی کو اس کے باپ کا قائم مقام نہیں بنایا ۔
کفایت اللہ صاحب نے کہا:
حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کے خود ساختہ اصول کو درست مان لیا جائے تو اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میراث کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ نے پوتی کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں پوتی کو اس کے باپ کا قائم مقام نہیں بنایا ۔
محترم کفایت اللہ صاحب!
جس اصول کو آپ خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور اس کو مان لینے کی صورت میں جس خوفناک نتیجہ سے آپ لوگوں کو ڈرا رہے ہیں اور خوف زدہ کر رہے اس کی تو آپ نے وضاحت نہیں کی۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ اس بات سے لوگ خوفزدہ ہو جائیں اور ڈر جائیں ۔ لیکن مجھ جیسا بقول آپ کے کم علم ، کم فہم، کج فہم ، جاہل بے وقوف شخص قطعی طور پر مرعوب ہونے والا نہیں ہے کیونکہ میں بالتحقیق جانتا ہوں کہ یتیم پوتا قطعی طور پر اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں اپنے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اس کی کوئی ادنیٰ سی بھی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ اور جو بھی دلیل ان کی محجوبیت اور محرومی ارث کے جواز کے سلسلہ میں دی جاتی ہے وہ اس پر فٹ ہی نہیں ہوتی اور وہ قطعی طور پر اس کی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل ہی نہیں کی ہے۔ کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتا لازما محجوب و محروم الارث ہوگا حقدار و حصہ نہیں ہو سکتا۔
لہذا میں پورے وثوق اور دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کے ترکہ میں بحیثیت اولاد ہونے کے بمنزلہ بیٹے کے وارث حقدار و حصہ دار ہے۔ وہ کسی کے قیل و قال سے محجوب و محروم الارث نہیں ہو سکتا ہے۔ اور جو ان کے محجوب و محروم الارث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ اپنے اس دعویٰ پر قرآن و حدیث کی دلیل پیش کرے۔ ورنہ یہ جان لے کہ اسے بروز قیامت اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے اس کے دادا کی اولاد بنا کر پیدا کیا ہے اب یہ اس کی مصلحت اور حکمت تھی کہ اس نے اس کے دادا سے پہلے اس کے باپ کو وفات دیدی۔ تو اس کے باپ کے وفات پاجانے سے اس کے دادا اور اس کے درمیان کا ولدیت اور والدیت کا جو رشتہ تھا وہ ختم نہیں ہوگیا ہےبلکہ وہ رشتہ پہلے سے تھا اس کے باپ کے مرنے کے بعد بھی باقی تھا اور اس کے دادا کے مرنے سے پہلے بھی قائم تھا اور اس کے مرنے پر بھی باقی ہے اور تا قیامت باقی رہے گا۔ اللہ تعالی نے کسی کی ایسی ہی اولاد و ذریت کے تعلق سے فرمایا ہے:
(9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)
ﱤ ﱥ ﱦ ﱧ ﱨ ﱩ ﱪ ﱫ ﱬ ﱭ ﱮ ﱯ ﱰ ﱱ ﱲ
علماء و مفتیان کو تنبیہ:
وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا [النساء: 9]
اور چاہئے کہ وه اس بات سے ڈریں کہ اگر وه خود اپنے پیچھے [ننھے ننھے] ناتواں بچے چھوڑ جاتے جن کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے، [تو ان کی چاہت کیا ہوتی] پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں۔ [سورة النساء: 9]
یتیموں کا مال ہڑپ کرجانے والوں کو جہنم کی وعید:
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا [النساء: 10]
جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے۔
وارثوں میں سے کسی کا ادنیٰ سا بھی نقصان کرنے کرانے سے متعلق احکام الٰہی:
فرمان باری تعالیٰ ہے:
غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ [النساء: 12]
یعنی اللہ کے بنائے پیدا کئے ہوئے کسی بھی وارث کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے والا کوئی بھی کام نہ ہو یہ اللہ کی طرف سے اس کا تاکیدی حکم و فرمان اور وصیت و فریضہ اور ہدایت و تنبیہ ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، انتہائی حلیم و بربار ہے۔
فرائض و مواریث اور اس سے متعلقہ احکام حدود الٰہی:
فرمان باری تعالیٰ ہے: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ
یہ (فرائض و مواریث اور اس سے متعلقہ احکام) اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔
یعنی وارثین، انکے حقوق و حصے ان کی مقدار اور تقسیم میراث و ترکہ کا پورا نظام اللہ کی متعین کی ہوئی حدیں ہیں۔ پس ان ہی حدود میں سوچنا سمجھنا، غور و فکر کرنا، حکم لگانا اور فتویٰ دینا فرض ہے۔پس ترکہ و میراث اور وارثین و ان کے حقوق و حصوں سے متعلق جو بھی احکام و فرامین ہیں اور ان کی جو ترتیب، اساس و بنیاد، اصول و ضوابط، احکام و فرامین، ہدایات و تعلیمات ہیں سب کچھ اللہ کی متعین کی ہوئی حدیں ہیں مثلا اولاد کی حدبندیاں، والدین کی حدیں، ترکہ کی حدیں، توریث و حجب کی حدیں و بنیادیں، آباء و ابناء اور ازواج کی حدیں، بھائی بہنوں کی حدیں، علاحدہ علاحدہ اولادوں میں سے ہر ایک کی حدیں نیز ان ترتیبوں کا لحاظ جس ترتیب سے ان کی تخلیق ہوئی ہے اس کا ایک پورا نظام ہے ان سب کی پابندی واجب و فرض ہے اور اس سے اعراض و انحراف بڑا ہی خطرناک ہے کہ آدمی ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم کا مستحق بن سکتا ہے جس کی صراحت اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء آیت نمبر(١٤) میں احکام میراث کے اختتام پر کر رکھی ہے۔

فرائض و مواریث کے احکام کی پاسداری موجب دائمی جنت:
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [سورة النساء: ١3]
اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
فرائض و مواریث کے احکام کی نافرمانی موجب جہنم دائمی:
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ [سورة النساء: ١٤]
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔
چونکہ نصوص کتاب و سنت میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ اللہ یا اللہ کے رسول ؐ نے کسی یتیم پوتے کو محروم کیا ہو یا کئے جانے کا حکم دیا ہے یا کم از کم کوئی اشارہ ہی پایا جاتا ہو یا کسی صحابی سے ہی ایسا کیا جانا ثابت ہو۔ جب کہ اس کے بر عکس اللہ کے رسول ؐ کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دیئے جانے کا فیصلہ موجود ہے جس کاثبوت اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری کے اندر حدیث صحیح میں ہے اس لئے محض کسی کی رائے و قیاس کو حکم شرعی سمجھ کر یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث قرار دینا اور دادا کو وصیت کرنے کی تلقین کرناکھلے طور پر شریعت سازی ہے اور اللہ کی وصیت، حکم الٰہی، فرمان الٰہی، آیات الٰہی کو عاجز و ناقص بتانا اور نیچا کرنا ہے اور فقہاء کے کہے بتائے کا آنکھ بند کر کے یقین کرکے عمل کرنا تقلید ہے جو کہ شرک اکبر ہے۔پس ضرورت اس بات کی ہے کہ وصیت کرنے کرانے کا حکم لگانے اور فتویٰ دینے یا فتویٰ پر عمل کرنے کرانے کے بجائے۔ وصیت الٰہی، حکم الٰہی، فرمان الٰہی اور فیصلہ نبوی پر عمل کیا جائے اور قرآن و سنت رسول اللہ کو لازم پکڑا جائے یہی اللہ کا اصل دین ہے اور اسی پر چلنے کی ضرورت ہے۔اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور عافیت ہے۔ اللہ ہم سب کو خالص کتاب و سنت کا پابند بنائے اور اللہ و رسول کے کہے بتائے پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے(آمین)۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
یہ ضرور بتائیے گا کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ باب ہے!
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!



یہ ضرور بتائیے گا کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ باب ہے!
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]

ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
اس باب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ باب اس پوتے کی میراث کے اثبات کا باب ہے جس کا باپ نہ ہو۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہوگا۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے لوگ سمجھے بیٹھے ہیں اور اس پر تلے ہوئے ہیں اور یہ طے کیئے بیٹھے ہیں کہ بہر صورت یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونا ثابت کر کے رہیں گے۔
کیا اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی ثبوت ہو سکتا ہے اس بات کا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہوتا ہے بلکہ وارث ، حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@مسرور احمد الفرائضی صاحب!
آپ نے مزید کچھ کہنا ہے، تو کہہ لیجیئے، کہ جب میں جواب تحریر کروں تو بیچ میں نہ لکھئے گا۱
یہ بتلا دیں کہ کیا آپ اپنی بات مکمل کر چکے ہیں؟
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں!
درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!


میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟
جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
آپ نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ ہے:

حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ
صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)

اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے!
آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں!
اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!

پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:

اس پر ہم نے آپ سے کہا تھا:

اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی
جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:
(قَوْله مِيرَاث بن الابْن)
إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ قَوْلُهُ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَخْ وَصَلَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ
وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَرٌ احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى وَسَقَطَ لَفْظُ ذَكَرٍ مِنْ رِوَايَةِ الْأَكْثَرِ وَثَبَتَ لِلْكُشْمِيهَنِيِّ وَهِيَ فِي رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْمَذْكُورَةِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 439 جلد 15 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 – 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت

ابن حجر عسقلانی نے یہاں ''وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَر'' کی شرح کی ہے، ''احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى'' اور اسے صحیح بخاری کی ''الْكُشْمِيهَنِيِّ'' کی روایت سے ثابت بتلایا ہے اور یہ بھی بتلایا کہ یہ الفاظ ''سَعِيدِ بْنِ مَنْصُور'' کی روایت میں موجود ہیں!
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی عبارت ابن حجرعسقلانی یوں بیان کرتے ہیں:

''إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُم وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اسی طرح فتح الباری کے درج ذیل طبعات میں مطبوع ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتبة السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 317 جلد 21 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الرسالة العالمية، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – طبع جديد المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق – مكتبة ابن تيمية، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2974 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار السلام، الرياض

مزید کہ ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی معلقات کی تحقیق پر تغليق التعليق على صحيح البخاري مرتب فرمائی ہے، اس میں اس روایت کو بایں الفاظ نقل کیا ہے:
بَاب مِيرَاث ابْن الابْن إِذا لم يكن ابْن
وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ ح 327 أ / دُونَهُمْ
وَلَدٌ ذَكَرٌ ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ وَلا يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ
قَالَ سعيد بن مَنْصُور فِي السّنَن حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ثَنَا أَبِي ثَنَا خَارِجَةُ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيه بِهَذَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 214 جلد 05 تغليق التعليق على صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتب الإسلامي، بيروت – دار عمار، عمان

''وَلَدٌ ذَكَرٌ'' کے الفاظ صحیح بخاری کی درج ذیل طباعت میں حاشیہ میں بھی موجود ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 جلد 08 صحيح البخاري عن الطبعة الأميرية نسخة اليونيني بروايات الأصيلي وأبي ذر الهروي والسجزي وابن عساكر معزواً إلى تحفة الأشراف وفتح الباري وتغليق التعليق وعمدة القاري وإرشاد الساري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار طوق النجاة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 418 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار التأصيل، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 188 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الشعب، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2961 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – مكتبة البشری، كراتشي


یہی نہیں بلکہ صحیح بخاری کی یہ روایت درج ذیل مطبوعات میں کے الفاظ ''وَلَدٌ ذَكَرٌ'' کے ساتھ مطبوع ہے:
وَقَالَ زَيْدٌ: «وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ»
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1073 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الحضارة للنشر والتوزیع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1416 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – وزارة الشؤون الإسلامية والدعوة والإرشاد السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 06 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الطباعة العامرة - تركيا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2477 جلد 06 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار ابن كثير، (دمشق، بيروت) – اليمامة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1286 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1692 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1669 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار ابن كثير، دمشق – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 238 جلد 04 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – المطبعة السلفية ومكتبتها، القاهرة

مزید کہ أبو العباس القرطبي ضياء الدين أحمد بن عمر الأنصاري الأندلسي القرطبي (المتوفى: 656 هـ) نے اپنی کتاب اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه میں بھی ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:
باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، وميراث ابنة الابن مع الابنة
قال زيد: ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم
ولد ذكر، ذَكَرُهم كَذَكَرِهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، وَيَحْجُبُون كما يَحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 05 اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه – أبو العباس القرطبي ضياء الدين أحمد بن عمر الأنصاري الأندلسي القرطبي (المتوفى: 656 هـ) – دار النوادر، دمشق

اس کے اور بھی ثبوت ہیں، مگر ماننے والے کے لئے یہی کفایت کریں گے، ان شاء اللہ!
تو اب ہمارے سامنے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ہیں:

«وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ»
اس میں پوتے، پوتیوں کو وراثت کے حقدار قرار پانے کی شرط یوں ہے:
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اب میں عربی لغت کی تفصیل میں تو نہیں جاتا، کہ ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' صرف وَلَدٌ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے خاص ولد قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، جیسے کہ آپ اسے یتیم پوتے کے فوت شدہ والد قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اور جب کہ ذَكَرٌ بھی ساتھ شامل ہے، تو یہ تو اور بھی محال ہو گیا، کہ اسے دادا کا خاص بیٹا مراد لیا جائے، جو فوت ہو چکا ہے!
کیونکہ یہاں شرط یہ ہے میت کی نرینہ اولاد نہ ہو!
نرینہ اولاد صرف پوتے کہ فوت شدہ والد ہی تو نہیں، کہ اس کے نہ ہونے سے شرط پوری ہوجائے! اگر چچا یا تایا موجود ہوں، تو وہ بھی نرینہ اولاد ہیں، لہٰذا پوتے کے چچا، اور تایا کہ موجودگی میں، مذکورہ شرط پوری نہیں ہوتی، خواہ ان کے والد فوت ہو چکے ہوں، اور جب شرط مفقود ہے، تو پوتے اور پوتیاں دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ٹھہرتے!
یہی بات ابن حجر عسقلانی نے بیان کی ہے،

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمیں تو بالکل من وعن قبول ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں کرتے، آگے ہم آپ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلہ کو قبول نہ کرنا بتلائیں گے!
مگر پہلے آپ یہ تو بتلائیے کہ کیا اس فیصلہ میں چچا یا تایا موجود تھے؟
جب اس میں چچا یا تایا موجود نہیں، تو آپ یہ خلط مبحث کیوں کر رہے ہو!
ہمارا موقف تو یہی ہے کہ پوتے، پوتیاں دادا کے بیٹے کی موجودگی میں میں وراثت کے حقدار نہیں، خواہ وہ ان کے والد ہوں، یا چچا، یا تایا!
اور اس فیصلہ میں نہ دادا کا کوئی بیٹا نہیں تھا!
آپ یہ آدھی بات کیوں کرتے ہو؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی دادا کی وراثت سے حصہ دیا، جب دادا کا کوئی بیٹا بھی موجود نہ تھا، نہ اس کا باپ، نہہ چچا، نہ تایا!
یعنی جب
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' میت یعنی دادا کے کوئی نرینہ أولاد نہ ہونے کی شرط پوری تھی، تب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی وراثت میں حصہ دیا!

یہ کیسے اس بات کا ثبوت بن سکتا ہے کہ چچا، تائےکے ہوتے ہوئے بھی پوتے پوتی کی وراثت میں حصہ دیا جائے، جبکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ میں چچا یا تایا کو وجود ہی نہیں!
ہمیں تو یہاں چچا یا تایا کا وجود نظر نہیں آیا!
اگر آپ کو نظر آیا ہے، تو بتلائیں، کہ چچا یا تایا کو کتنا حصہ دیا گیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 1/2 بیٹی کو دیا، 1/6 پوتی کو دیا، یہ ہوئے کل 2/3، باقی 1/3 بہن کو دیا، یہ ہو گئی کل وراثت کی تقسیم!
اب چچا یا تایا اگر موجود تھے، تو انہیں کیا دیا گیا؟ یا آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت تو نہیں لگانا چاہتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہہ وسلم نے معاذ اللہ! میت کے بیٹوں کو میراث سے محروم کر دیا؟
کچھ سوچ سمجھ کے بات کیا کرو!


آپ نے پھر وہی بات کر دی، کہ جیسے پوتے پوتی وراثت کے حقدار ہوتے ہیں، اور باپ کے مرنے کے بعد بھی ان کا حق برقرار رہتا ہے، تو پھر آپ ان پوتے پوتیوں کو بھی وراثت کا حصہ دار ٹھہرائیں، کہ جن کے باپ زندہ ہیں! کیونکہ آپ فرما رہے ہیں کہ ''ان کا حق وحصہ ثابت رہتا ہے''
اب میں آپ کو ''ثابت رہتا ہے'' اور ''ثابت ہوتا ہے'' کا فرق بتلاوں گا، تو آپ اسے نکتہ چینی سمجھ بیٹھیں گے!
نہیں میرے بھائی! پوتے پوتیوں کا دادا کی وراثت میں حق ان کے باپ کی موجودگی میں نہ تھا، اور نہ محض ان کے باپ کی وفات پر ثابت ہوتا ہے، دادا کی وراثت میں ان کا حق اس وقت ثابت ہوتا ہے، جب
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' یعنی جب میت یعنی دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہونے کی شرط پوری ہو! یاد رہے کہ شرط نرینہ اولاد نہ ہونے کی ہے، اگر زنانہ اولاد کا ہونا، نہ ہونا اس شرط میں شامل نہیں!

آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟

یہاں تک تو آپ نے بات صحیح کہی، اور یہی بات اصل ہے، جو ہم آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کے فوراً بعد آپ نے ایک عجیب بات کردی!

یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
آگے آپ نے اور بھی عجیب بات کی:


آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!


دیکھیں، آپ نے پھر بات الٹی بیان کی!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم پوتی کو چچا اور تایا کہ نہ ہونے کی صورت میں حصہ دیا ہے، چچا یا تایا کی موجودگی میں نہیں!
تو آپ نے پہلے یہ گمان کرلیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم پوتی کو چچا یا تایا کی موجودگی میں یتیم پوتی کو حصہ دیا، پھر اس پر آپ نے تفریع کی کہ اسی طرح چچا نہ ہو تب بھی وہ اپنے حصہ کا ترکا پائے گا! یہ آپ نے الٹی گنگا بہانے کی کوشش کی ہے!
اور آپ کے اس گمان کا بطلان اوپر بیان کیا چا چکا ہے!



آپ پھر اس شرط'' ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' یعنی جب میت یعنی دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو'' کو بھول رہے ہو!
اور جب نرینہ اولاد کے تعلق سے ایک حکم موجود ہے، تو اسےزنانہ اولاد پر قیاس کرنا باطل ہے!

آپ کا مذکورہ بالا مدعا آپ کی مستدل حدیث کے ہی خلاف ہے، کہ جس کے متعلق آپ ہمیں فرما رہے تھے کہ :

اور ہم نے کہا تھا کہ:
االلہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمیں تو بالکل من و عن قبول ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں کرتے، آگے ہم آپ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فیصلہ کو قبول نہ کرنا بتلائیں گے!
کافی تفصیل تو شیخ @کفایت اللہ نے بیان کر دی ہے؛
اب دیکھیں:
آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح پھوپی اولاد ہے، اسی طرح پوتی بھی اولاد میں سے!
آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح بیٹا اولاد میں سے ہے اسی طرح پوتا اولاد میں سے ہے!
آپ فرماتے ہیں اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے، جیسےاس کے چچا کا ترکہ ہے!
آپ مزید فرماتے ہیں کہ لہٰذا دونوں کا استحقاق ایک جیسا ہے!
اب جب آپ کے بقول اولاد ہونے میں بھی پھوپھی اور پوتی ایک جیسی، چچا اور پوتا ایک جیسا، اور دونوں کا ترکہ میں استحقاق بھی ایک جیسا! تو میرے بھائی! یہ تو بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ میں، ان دونوں کو یعنی پھوپھی اور پوتی کا ایک جیسا مستحق کیوں نہ ٹھہرایا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو 1/6 اور پوتی کی پھوپھی کو 1/2 حصہ کیوں دیا؟
آپ فرماتے ہیں اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے، جیسےاس کے چچا کا ترکہ ہے!
یہ تو عالم دنیا اور عالم برزخ کا گڑبڑ گھٹالا بن گیا!
میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا!
میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے!
جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا!
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!


تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!



یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا!
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!


حافظ ابن حجر کے بیان کی تفصیل اوپر گزری!
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
@مسرور احمد الفرائضی صاحب!
آپ نے کچھ بیان کرنا ہے تو کر لیجئے، پھر ہم آپ کے جوابات کا جائزہ لیتے ہیں!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں۔ ہے
ابن داود نے کہا:
جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں!
درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا:
میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا ہےجو صرف بیٹیاں ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
میرے اس سوال کا جواب کسی سے بن نہیں پڑ رہا ہے تو میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے لوگ ادھر ادھر کی ہانکے جاتے ہیں اور الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے جیسا کہ کفایت اللہ صاحب نے مشورہ دیا ہے اور آپ اور کفایت اللہ صاحب تو میرے جاہل، بےوقوف، کج فہم،کم فہم، گمراہ، گمراہ فکر وغیرہ وغیرہ ہونے کا فتویٰ لگا ہی چکے ہیں یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔
تو میرے محترم آپ سے میرے بنیادی سوال کاجواب تو نہیں بن پڑ رہا ہے اس لئے آپ میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ تو گپ بازی چھوڑیئے اور میرے بنیادی سوال کا جواب عنایت فرمائیے عین نوازش ہوگی۔
میں نے کہا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
جس پر آپ نےلکھا :
پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا (والعیاذ باللہ)
میری اس بات پرآپ نے لکھا :
ابن داود نے کہا ہے:

ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی
جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ
وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.

اس پر آپ نے لکھا:
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا یہ حال ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے، نہ (یوصیکم اللہ فی اولادکم) کا معنی مفہوم معلوم ہے۔نہ ہی (فریضۃ من اللہ) ہی سمجھتے ہیں۔ نہ (
دُونَ)اور (من دُونَ) کا ہی معنی مفہوم اور فرق آپ کو معلوم ہے۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
صحیح بخاری کے باب اور حافظ ابن حجر عسقلانی نےجو شرح کی ہے(إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
تو متن مع الشرح عبارت یوں ہوئی:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
اب یہاں باپ نے نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کی دو صورت بنتی ہے:
ایک یہ کہ صرف باپ نہ ہو البتہ چچا تائے ہوں۔
اور دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ باپ بھی نہ ہو اور نہ ہی چچا تائے ہی ہوں۔
دونوں ہی صورتوں میں یتیم پوتا اپنے باپ کے نہ رہنے پر بمنزلہ اولاد وبیٹے کے اپنے دادا کے ترکہ میں وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔
اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو کیا یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔ تو اسی سوال کا جواب امام بخاری نے باب باندھ کر دیا کہ وہ وارث حقدار اور حصہ دار ہے۔
اب اس کے بعد ایک مسئلہ یہ ہے کہ باپ تو نہیں ہے البتہ اس کے چچا تائے ہیں تو کیا وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے یا نہیں تو اس اغماض کو حافظ ابن حجر نے ان الفاظ میں دور کردیا ہے:

(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی ایک صورت یہ کہ صرف باپ نہیں ہے البتہ چچا تائے تو بھی وہ حقدار و حصہ دار ہے دوسرے یہ کہ باپ بھی نہیں ہے اور چچا تائے بھی نہیں ہیں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
حافظ ابن حجر نے
(أَوْ) کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ (وَ) لفظ استعمال کیا۔ ہے جس کا معنی ہوتا ہے یا یہ یعنی اس کا باپ نہ ہو۔ یا پھر یہ یعنی اس کا چچا تایا بھی نہ ہو چنانچہ کہا کہ(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی خواہ اس کا باپ نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
خواہ اس کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
چونکہ مسئلہ یتیم پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر اس کے دادا کے ترکہ میں ہونے حقدار و حصہ دار ہونے یا نہ ہونے کا ہے اور امام بخاری نے اس کی توریث کے اثبات کا باب باندھا ہے انکار کا نہیں۔ جیسا کہ اس کے بعد والا باب یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حق وحصہ ہونے کے اثبات کا ہے۔

[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔

[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
لہذا اس باب میں دو ٍصورتوں کو بیان کیا گیا ہےپہلی صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے نہ ہوں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ (
أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں (أَوْ) کا لفظ آیا ہے جس کا معنی (یا) ہوتا ہے (اور ) نہیں ہوتا ہے۔ جو دو صورت حال پر دلالت کرتا ہے۔ اگر (أَبَاهُ وَ عَمَّهُ) ہوتا تب اس کا معنی ہوتا کہ اس کا باپ اور چچا دونوں نہ ہوں۔
بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار و حصہ دار ہونے کے اثبات کا باب ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔

اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ.
اس کا معنی یہ ہوا کہ اولاد کی اولاد بمنزلہ صلبی اولاد کے ہے۔ یعنی صلبی اولاد (بیٹوں) کی اولادیں ان کے درجہ میں ہیں یعنی ان کے قائم مقام ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی بیٹے کے قائم مقام اس کی اولادیں اور بیٹی کے قائم مقام اس کی اولادیں۔ کوئی شخص کسی کا قائم مقام اسی وقت بنتا ہے جب اس کے اوپر کا وہ شخص نہ ہو جس کا وہ نائب ہے اور وہ اس کے نیچے کاہے تو جب اصل نہیں رہتا ہے تو اس کی جگہ اس کا نائب آتا ہے تو کہا جاتا ہے (قام مقامہ) یعنی وہ اس کی جگہ کھڑا ہو یعنی وہ اس کا قائم مقام بنا۔ مثال کے طور پر صدر کا ایک نائب صدر ہوتا ہے جو صدر کے نہ رہنے پر اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا نائب ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا ہے کہ صدر کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کا نائب، صدر کا قائم مقام بن جائے یا وزیر اعظم کے نہ رہنے پر صدر کا نائب وزیر اعظم کا قائم مقام بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کی حد بندی کی گئی ہے۔ باوجود یکہ ان میں کا ہر ایک حکومت کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی نائب صدر وزیر اعظم کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کی جگہ نہیں لیتا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے نہ رہنے پر نائب صدر وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ بلکہ نائب صدر صدر کا قائم مقام بنتا ہے اور نائب وزیر اعظم وزیر اعظم کا قائم مقام بنتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی حدیں جس میں اس کو رہنا ہے۔
بعینہ یتیم پوتے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ یتیم پوتا چونکہ اپنے باپ کا نائب ہے اپنے چچا تائے کا نہیں ہے لہذا جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اس کا قائم مقام ہوگا اور اپنے باپ کی جگہ پر آئے گا اس کے چچا تائے اس کے باپ کی جگہ نہیں آسکتے ہیں۔
یہی بات زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی کہی ہے:

(وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)،
اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ). [فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: باب مِيرَاث ابن الابْن]
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا نہ ہو جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا۔ (والعیاذ باللہ)۔
میری اس بات پر آپ نے لکھا :

مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛

آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں یتیم پوتے پوتی کے وارث ہونے کے لئے بنیادی شرط صرف یہ ہے کہ ان کا باپ موجود نہ ہو۔ چچا تایا کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے کیونکہ یتیم پوتے اور اس کے دادا کا توارث ایک دوسرے کے ترکہ میں اس وقت ثابت ہو جاتا ہے جب ان کا باپ وفات پاچکا ہوتا ہے اور جب تک وہ موجود رہتا ہے ان دونوں کے درمیان حجب قائم رہتا ہے۔ اس میں چچا تائے کا کوئی دخل نہیں ۔ نہ توارث کے سلسلہ میں اور نہ ہی حجب کے سلسلہ میں۔ زور زبردستی سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ یتیم پوتے کا باپ، چچا اور تایا یتیم پوتے کے دادا کی علاحدہ علاحدہ شاخیں ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ حدیں ہیں لہذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ کی جگہ چچا یا تایا آجائے ۔ باپ کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے بیٹی کے ہوتے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جس طرح صدر و نائب صدر اور وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم حکومت کے دو علاحدہ علاحدہ عہدے ہیں اور ان کی اپنی اپنی حدیں و اختیارات ہیں اور کوئی ان سے تجاوز نہیں کرتا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو کسی بیٹے کے مرجانے پر باپ اس کی بیوہ سے شادی کر لے۔ یا دادا یا نانا کے مرنے پر یتیم پوتا یا نواسا اپنی دادی یا نانی سے نکاح کرلے۔
اگر اتنی بھی سمجھ کسی کے اندر نہ ہو تو اس کو سمجھانا بیکار ہے۔ تو اس کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اللہ نے بیان فرمایا ہے:
(
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (170) وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171) [البقرة]
(جاري)
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں۔ ہے
ابن داود نے کہا:
جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں!
درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا:

میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا ہےجو صرف بیٹیاں ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
میرے اس سوال کا جواب کسی سے بن نہیں پڑ رہا ہے تو میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے لوگ ادھر ادھر کی ہانکے جاتے ہیں اور الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے جیسا کہ کفایت اللہ صاحب نے مشورہ دیا ہے اور آپ اور کفایت اللہ صاحب تو میرے جاہل، بےوقوف، کج فہم،کم فہم، گمراہ، گمراہ فکر وغیرہ وغیرہ ہونے کا فتویٰ لگا ہی چکے ہیں یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔
تو میرے محترم آپ سے میرے بنیادی سوال کاجواب تو نہیں بن پڑ رہا ہے اس لئے آپ میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ تو گپ بازی چھوڑیئے اور میرے بنیادی سوال کا جواب عنایت فرمائیے عین نوازش ہوگی۔
میں نے کہا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
جس پر آپ نےلکھا :
پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا (والعیاذ باللہ)
میری اس بات پرآپ نے لکھا :
ابن داود نے کہا ہے:

ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی
جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ
وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.

اس پر آپ نے لکھا:
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا یہ حال ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے، نہ (یوصیکم اللہ فی اولادکم) کا معنی مفہوم معلوم ہے۔نہ ہی (فریضۃ من اللہ) ہی سمجھتے ہیں۔ نہ (
دُونَ)اور (من دُونَ) کا ہی معنی مفہوم اور فرق آپ کو معلوم ہے۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
صحیح بخاری کے باب اور حافظ ابن حجر عسقلانی نےجو شرح کی ہے(إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
تو متن مع الشرح عبارت یوں ہوئی:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
اب یہاں باپ نے نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کی دو صورت بنتی ہے:
ایک یہ کہ صرف باپ نہ ہو البتہ چچا تائے ہوں۔
اور دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ باپ بھی نہ ہو اور نہ ہی چچا تائے ہی ہوں۔
دونوں ہی صورتوں میں یتیم پوتا اپنے باپ کے نہ رہنے پر بمنزلہ اولاد وبیٹے کے اپنے دادا کے ترکہ میں وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔
اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو کیا یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔ تو اسی سوال کا جواب امام بخاری نے باب باندھ کر دیا کہ وہ وارث حقدار اور حصہ دار ہے۔
اب اس کے بعد ایک مسئلہ یہ ہے کہ باپ تو نہیں ہے البتہ اس کے چچا تائے ہیں تو کیا وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے یا نہیں تو اس اغماض کو حافظ ابن حجر نے ان الفاظ میں دور کردیا ہے:

(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی ایک صورت یہ کہ صرف باپ نہیں ہے البتہ چچا تائے تو بھی وہ حقدار و حصہ دار ہے دوسرے یہ کہ باپ بھی نہیں ہے اور چچا تائے بھی نہیں ہیں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
حافظ ابن حجر نے
(أَوْ) کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ (وَ) لفظ استعمال کیا۔ ہے جس کا معنی ہوتا ہے یا یہ یعنی اس کا باپ نہ ہو۔ یا پھر یہ یعنی اس کا چچا تایا بھی نہ ہو چنانچہ کہا کہ(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی خواہ اس کا باپ نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
خواہ اس کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
چونکہ مسئلہ یتیم پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر اس کے دادا کے ترکہ میں ہونے حقدار و حصہ دار ہونے یا نہ ہونے کا ہے اور امام بخاری نے اس کی توریث کے اثبات کا باب باندھا ہے انکار کا نہیں۔ جیسا کہ اس کے بعد والا باب یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حق وحصہ ہونے کے اثبات کا ہے۔

[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔

[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
لہذا اس باب میں دو ٍصورتوں کو بیان کیا گیا ہےپہلی صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے نہ ہوں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ (
أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں (أَوْ) کا لفظ آیا ہے جس کا معنی (یا) ہوتا ہے (اور ) نہیں ہوتا ہے۔ جو دو صورت حال پر دلالت کرتا ہے۔ اگر (أَبَاهُ وَ عَمَّهُ) ہوتا تب اس کا معنی ہوتا کہ اس کا باپ اور چچا دونوں نہ ہوں۔
بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار و حصہ دار ہونے کے اثبات کا باب ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔

اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ.
اس کا معنی یہ ہوا کہ اولاد کی اولاد بمنزلہ صلبی اولاد کے ہے۔ یعنی صلبی اولاد (بیٹوں) کی اولادیں ان کے درجہ میں ہیں یعنی ان کے قائم مقام ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی بیٹے کے قائم مقام اس کی اولادیں اور بیٹی کے قائم مقام اس کی اولادیں۔ کوئی شخص کسی کا قائم مقام اسی وقت بنتا ہے جب اس کے اوپر کا وہ شخص نہ ہو جس کا وہ نائب ہے اور وہ اس کے نیچے کاہے تو جب اصل نہیں رہتا ہے تو اس کی جگہ اس کا نائب آتا ہے تو کہا جاتا ہے (قام مقامہ) یعنی وہ اس کی جگہ کھڑا ہو یعنی وہ اس کا قائم مقام بنا۔ مثال کے طور پر صدر کا ایک نائب صدر ہوتا ہے جو صدر کے نہ رہنے پر اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا نائب ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا ہے کہ صدر کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کا نائب، صدر کا قائم مقام بن جائے یا وزیر اعظم کے نہ رہنے پر صدر کا نائب وزیر اعظم کا قائم مقام بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کی حد بندی کی گئی ہے۔ باوجود یکہ ان میں کا ہر ایک حکومت کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی نائب صدر وزیر اعظم کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کی جگہ نہیں لیتا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے نہ رہنے پر نائب صدر وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ بلکہ نائب صدر صدر کا قائم مقام بنتا ہے اور نائب وزیر اعظم وزیر اعظم کا قائم مقام بنتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی حدیں جس میں اس کو رہنا ہے۔
بعینہ یتیم پوتے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ یتیم پوتا چونکہ اپنے باپ کا نائب ہے اپنے چچا تائے کا نہیں ہے لہذا جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اس کا قائم مقام ہوگا اور اپنے باپ کی جگہ پر آئے گا اس کے چچا تائے اس کے باپ کی جگہ نہیں آسکتے ہیں۔
یہی بات زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی کہی ہے:

(وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)،
اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ). [فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: باب مِيرَاث ابن الابْن]
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا نہ ہو جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا۔ (والعیاذ باللہ)۔
میری اس بات پر آپ نے لکھا :

مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛

آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں یتیم پوتے پوتی کے وارث ہونے کے لئے بنیادی شرط صرف یہ ہے کہ ان کا باپ موجود نہ ہو۔ چچا تایا کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے کیونکہ یتیم پوتے اور اس کے دادا کا توارث ایک دوسرے کے ترکہ میں اس وقت ثابت ہو جاتا ہے جب ان کا باپ وفات پاچکا ہوتا ہے اور جب تک وہ موجود رہتا ہے ان دونوں کے درمیان حجب قائم رہتا ہے۔ اس میں چچا تائے کا کوئی دخل نہیں ۔ نہ توارث کے سلسلہ میں اور نہ ہی حجب کے سلسلہ میں۔ زور زبردستی سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ یتیم پوتے کا باپ، چچا اور تایا یتیم پوتے کے دادا کی علاحدہ علاحدہ شاخیں ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ حدیں ہیں لہذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ کی جگہ چچا یا تایا آجائے ۔ باپ کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے بیٹی کے ہوتے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جس طرح صدر و نائب صدر اور وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم حکومت کے دو علاحدہ علاحدہ عہدے ہیں اور ان کی اپنی اپنی حدیں و اختیارات ہیں اور کوئی ان سے تجاوز نہیں کرتا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو کسی بیٹے کے مرجانے پر باپ اس کی بیوہ سے شادی کر لے۔ یا دادا یا نانا کے مرنے پر یتیم پوتا یا نواسا اپنی دادی یا نانی سے نکاح کرلے۔
اگر اتنی بھی سمجھ کسی کے اندر نہ ہو تو اس کو سمجھانا بیکار ہے۔ تو اس کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اللہ نے بیان فرمایا ہے:
(
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (170) وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171) [البقرة]
(جاري)
میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے:
میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا ہےجو صرف بیٹیاں ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کے کتاب الفرائض کے باب کا تعلق ہے تو پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے تعلق سے امام بخاری دو باب باندھا ہے ایک یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا باب اور دوسرے یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا باب جب اس پوتے اور پوتی کے باپ نہ ہوں اور ان کے چچا تائے اور پھوپھیاں ہوں چنانچہ امام بخاری لکھتے ہیں:
صحیح بخاری کے یتیم پوتے اور پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ دو ابواب
پہلا باب: یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا باب

[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).

یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو
اس باب کے تحت امام بخاری نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا ہے لکھتے ہیں:
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -:
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.

[1]
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ،

یعنی بیٹوں کی اولاد بمنزلہ اولاد کے ہیں جب ان کے اوپر (یعنی پوتے پوتیوں اور ان کے دادا کے مابین ) کی اولاد نہ ہو (یعنی ان کا باپ نہ ہو جیسا کہ صحیح بخاری کے ترجمہ الباب سے ظاہر ہے۔)
[2]
ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ،

ان میں سے جو مذکر ہونگے (یعنی بیٹے ) ان کی جگہ ان کے بیٹے (یعنی یتیم پوتے) وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگے۔ ان میں سے جو مونث ہونگی (یعنی بیٹیاں) ان کی جگہ ان کی بیٹیاں (یعنی یتیم پوتیاں) وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگی۔
[3]
يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ،

تو جس طرح بیٹے وارث، حقدار اور حصہ دار ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح یتیم پوتے وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگے۔
اور جس طرح بیٹیاں وارث، حقدار اور حصہ دار ہوتی ہیں ٹھیک اسی طرح یتیم پوتیاں بھی وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگی۔

[4]
وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،

اور جس طرح بیٹے اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگے۔
اور جس طرح بیٹیاں اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتی ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتیاں بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگیں۔

[5]
وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.

اور بیٹے کے ہوتے ہوئے اس بیٹے کی اولادیں اس کے ساتھ وارث، حقدار اور حصہ دار نہیں ہونگی۔
اس باب کے تحت امام بخاری نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نقل کیا ہے لکھتے ہیں:

[صحيح بخاري: 6735] *-* حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -:
«أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]

فرائض (یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید میں جن وارثوں کے حق و حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں) انہیں ان کے فرض حصے(فرائض الٰہی) ان کے حوالے کردو۔ پھر (ان اہل فرائض کو ان کے فرض حصے دیدیئے جانے کے بعد ) جو کچھ باقی بچ رہے وہ میت کے سب سے اولیٰ مرد کے لئے ہے۔
صحیح مسلم میں ایک حدیث ان الفاظ میں مذکور ہے:

[صحيح مسلم: 4 - (1615)] حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ».

میت کے ترکہ کا مال اہل فرائض (یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید میں جن وارثوں کے حق و حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں) ان کے درمیان اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر تقسیم کرو۔ اور ان اہل فرائض کو ان کے فرض حصے(فرائض الٰہی) انہیں دیدو ۔ پھر (ان اہل فرائض کو ان کے فرض حصے دیدیئے جانے کے بعد ) جو کچھ باقی بچ رہے وہ میت کے سب سے اولیٰ مرد کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن لوگوں کو وارث بنایا ہے اور ان کے حصے مقرر فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) مذکر اولادیں (بیٹا، پوتا، پڑپوتا، درجہ بدرجہ نیچے تک)۔
(۲) مونث اولادیں (بیٹیاں، پوتیاں، پڑپوتیاں، درجہ بدرجہ نیچے تک)۔
(۳)ماں (ان کی عدم موجودگی میں ان کی جگہ دادی نانی)۔
(۴) باپ (ان کی عدم موجودگی میں ان کی جگہ دادا پردادا)۔
(۵)شوہر۔
(۶)بیویاں۔
(۷)سگے بھائی اور علاتی بھائی۔
(۸)سگی بہنیں اور علاتی بہنیں۔
(۹)اخیافی(ماں جائے) بھائی ۔
(۱۰) اخیافی(ماں جائے)بہنیں۔
یہ وہ دس قسم کے لوگ ہیں جن کے فرض حصے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید مقرر فرمائے ہیں جو کہ اہل فرائض ہیں جن کے فریضے ادا کیئے جانےکا اللہ اور رسول نے حکم دیا ہے۔
ان میں پہلا فریضہ (
لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) مذکر اور مونث اولادوں کے لئے ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والے سگے و علاتی بھائی بہنوں کے لئے ہے۔
دوسرا فریضہ (
ثُلُثَان) دو تہائی حصہ ہے۔ جو صرف مونث اولاد ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ مونث اولادوں کے لئے ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والی سگی و علاتی بہنوں کے لئے ہے۔
تیسرا فریضہ (
النِّصْفُ) آدھا حصہ ہے۔ جو صرف ایک مونث اولاد ہونے کی صورت میں ایک مونث اولاد کے لئے ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والی سگی و علاتی بہن کے لئے ہے۔ اور شوہر کے لئے ہے جب میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
چوتھا فریضہ (
السُّدُسُ) چھٹا حصہ ہے۔ جو ماں، باپ اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والی اخیافی(ماں جائے) بھائی اور اخیافی(ماں جائے)بہن کے لئے ہے۔
پانچواں فریضہ (
الثُّلُثُ) ایک تہائی حصہ ہے۔ جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کے لئے ہے بشرطیکہ میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن نہ ہوں اور اخیافی(ماں جائے) بھائی بہنوں کے لئے ہےجب میت کلالہ ہو اور ان بھائی بہنوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہو۔
چھٹا فریضہ (
الرُّبُعُ) چوتھائی حصہ ہے۔ شوہر کے لئے ہے جب میت صاحب اولاد ہو۔ اور بیوی کے لئے ہے جب میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
ساتواں فریضہ (
الثُّمُنُ) آٹھواں حصہ ہے۔ بیویوں کے لئے ہے جب میت صاحب اولاد مرا ہو۔
اللہ و رسول نے ان اہل فرض وارثوں پر ان کے فرض حصے اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق تقسیم کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ چنانچہ اللہ و رسول کے ان احکام و فرامین کے مطابق ترکہ کی تقسیم کی جانے واجب و فرض ہے۔

[وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم]
اس بات پر لوگوں نے اجماع کیا ہے کہ بیٹوں کے بیٹے بیٹوں کے نہ رہنے پر ان بیٹوں کی طرح ہیں۔ مذکر مذکر کی طرح اور مونث مونث کی طرح۔
[وكان أبو بكر يقول: الجد أب ما لم يكن دونه أب، كما أن ابن الابن ابن ما لم يكن دونه ابن.]
ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ دادا باپ ہے جب اس کے نیچے کا باپ (یعنی پوتے کا باپ) نہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح جیسے پوتا بیٹا ہے جب اس سے اوپر کا بیٹا (یعنی پوتے کا باپ) نہ ہو ۔
دوسرا باب: یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا باب
دوسرا باب ہے یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا ہے جب پوتی کا باپ نہ ہو اور اس کی پھوپھی ہو چنانچہ امام بخاری لکھتے ہیں:
8 - باب مِيرَاثِ ابْنَةِ ابْنٍ مَعَ ابْنَةٍ
یعنی بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا باب
6736 - حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ: سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي. فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - «لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلاِبْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ». فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ. [6742 - فتح 12/ 17}
[
ولا خلاف بين الفقهاء وأهل الفرائض في ميراث ابنة الابن مع الابنة].

بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کی میراث کے بارے میں فقہاء اور اہل فرائض میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
اس حدیث کے پیش کرنے سے میرا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا اور یتیم پوتی کے حصہ پانے میں بیٹی رکاوٹ نہ بنی غرض اس سے نہیں کہ اسے کتنا ملا ۔ اس سے کوئی بحث نہیں ہے بحث صرف یہ ہے کہ یتیم پوتے کو اس کے چچا تائے کے ہوتے حصہ کیوں نہپیں مل سکتا ہے اس کی قرآن و سنت کی کون سی دلیل ہے؟
بجائے اس کے کہ اس کی دلیل پیش کی جائے ادھر ادھر کی باتیں کی جاتی ہیں۔ آیت و حدیث سے دلیل پیش کرنے کے بجائے۔ الٹا ہمیں علم میراث پڑھانے لگ جاتے ہیں۔ اور ہماری بنیادی بات کا جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
ابن داود صاحب نے کہا:

جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں! درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
آئیے ہم آنجناب کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ صحیح بخاری : کتاب الفرائض کا باب کچھ اس طرح ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]

ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
اس باب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ باب اس پوتے کی میراث کا اثبات کا باب ہے جس کا باپ نہ ہو۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہوگا۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے لوگ سمجھے بیٹھے ہیں اور اس پر تلے ہوئے ہیں اور یہ طے کیئے بیٹھے ہیں کہ بہر صورت یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونا ثابت کر کے رہیں گے۔
کیا اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی ثبوت ہو سکتا ہے اس بات کا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہوتا ہے بلکہ وارث ، حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔

میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا ہے:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
اس کے جواب میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:

میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا جو فتویٰ ہے وہ محض قیاسی ہی ہے۔ قرآن وحدیث کی اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
آنجناب کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ دادا کو یتیم پوتے پر قیاس کر کے ہی یتیم پوتے کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اور اس بات پر جملہ صحابہ کرام کا اجماع ہوا ہےکہ (الجد اب) یعنی دادا باپ اور والد ہے۔ تو جب یتیم پوتے کا دادا بالاجماع اس کا باپ و والد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا تو اس کا یتیم پوتا بھی اپنے دادا کا بالاجماع بیٹا وا ولاد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا ۔
اللہ کا فرمان ہے(مالکم کیف تحکمون) کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے کیسے فتوے دیتے اور حکم لگاتے ہو۔ (القرآن)
یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف دادا تو اپنے یتیم پوتے کا حقیقی باپ و والد اور وارث ہواور اس کے ترکہ کاحقدار و حصہ دار بنے۔ ان دونوں کے درمیان چچا تائے حاجب اور رکاوٹ نہ بنیں اور جب پوتے کا معاملہ ہو چچا تائے آڑے آجائیں اور حاجب بن جائیں۔ واہ یہ بڑی عادلانہ و منصفانہ بات ہے۔ دادا کا مال اس کے پوتے پر اس کے زندہ رہنے تک تو حلال تھا اور جیسے ہی دادا مرا اس کا مال اس کے پوتے پر حرام ہوگیا۔ جرم خود کا الزام اللہ کے اوپرکہ اللہ نے تو پوتے کا حق رکھا ہی نہیں ہے۔
اللہ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا ہے اس کے چچا تائے کے واسطے سے پیدا نہیں کیا کہ وہ اس کے آڑے آئے اور اسے اس کے باپ اور دادا کی اولاد بنایا چچا تائے کی اولاد نہیں بنایا چنانچہ خود فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ) [سورة النحل: 72]
ہم نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے بیٹے پوتے نواسے پیدا کئے اور تمہیں بہترین روزی عطا کی تو کیا تم باطل پر ایمان و یقین رکھتے ہو اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔
اولاد اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بیٹے کے بعد پوتے کا ہونا اس سے بھی بڑی نعمت ہے یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحاق کے بعد پوتے یعقوب کی خوش خبری دی تھی اور اسے نافلہ یعنی خصوصی اور اضافی انعام کہا تھا۔ تو جس طرح بیٹا اللہ کی نعمت ہے اسی طرح پوتا بھی اللہ کا انعام ہے تو جس شخص کے پوتے ہوں وہ بڑا خوش قسمت انسان ہے اسے اللہ کے اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اسے اس کا حق دیکر صلہ رحمی کرنی چاہئے اسے محجوب و محروم الارث قرار دیکر قطع رحمی نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ (سورة النساء: 11)) اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے ایسی ہی بکواسوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ)
ذرا درج ذیل آیات کو تنہائی میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے گا اور جو اللہ و رسول نے کہا ہے اس پر غور کیجئے گا۔ بقول شاعر: شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

(وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ) (16) (اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ) (17) (يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ) (18) (اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ) (19) (مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ) (20) (أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (21) (تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ) (22) [الشورى]
میرے بھائی سب سے پہلے اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کیجئےاور اللہ اور یوم آخرت سے ڈریئے۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے کہ الفاظ و معانی کے ہیر پھیر سے کوئی غلط چیز صحیح بنا لی جائے تو وہ صحیح ہوجائے گی۔ یہ فرائض و مواریث، حدود اللہ اور حلال و حرام کا معاملہ ہے اور کسی حلال کو حرام کردیا جائے اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے تو حلال حرام اور حرام حلال نہیں ہو جائے گا۔ لہذا یتیم پوتے کے حق و حصہ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور انتہائی خطرناک ہے اگر آپ کی ذات سے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو ا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے متنبہ کر کھا ہے:

(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (النساء: 9)
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے یتیم پوتے کے حق وراثت کی شدید مخالفت کی تھی اور انہوں نے ہی یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا فتویٰ دیا تھا اور منکر حدیث حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ اہل حدیث تھے لیکن بعد میں شاید اسی یتیم پوتے کے مسئلہ کو لیکر انکار حدیث کیا)، نے یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا انکار کیا (اس وقت جب کہ انہوں نے ابھی انکار حدیث نہیں کیا تھا) تو امرتسری صاحب نے اس کا رد کیا ۔ اور آپ ہوں یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی سب لوگ انہیں امرتسری صاحب کی ہی تقلید کر رہے ہیں اور انہیں کی سر میں سر ملا رہے ہیں۔جبکہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تقسیم ہندو پاک میں ان کے تمام بیٹے مار دیئے گئے اور ان کے یتیم پوتے ہی ان کے اموال املاک متروکہ کے وارث بنے۔ بطور عبرت کے میں یہ باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی اللہ سے ڈریں ان یتیم پوتوں کے بارے میں اور اس حادثہ سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔ (فاعتبروا یا اولی الابصار)
دادا کے مرتے ہی اس کے یتیم پوتے پر اس کے دادا کے مال کو کس نے حرام کیا جب کہ اس کی زندگی میں وہ اس کے لئے حلال تھا۔ اللہ نے یا جن کی تقلید میں آپ یہ لمبی چوڑی ہانکے جا رہے ہیں۔ جو لوگ یتیم پوتے کو بالجبر محجوب و محروم الارث قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کے اندر ذرا بھی اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہے وہ محض لفاظیاں کرکے اور اپنی کٹھ حجتی کے ذریعہ الفاظ کی ہیرا پھیری سے اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس سوائے اس لولی لنگڑی بات کے کہ بیٹا قریب تر عصبہ اور پوتا عصبہ بعید ہے جب کہ نہ بیٹا عصبہ ہے اور نہ ہی پوتا ہی عصبہ ہے کہ اس پر قریب سے قریب تر کا فقہی اصول فٹ ہو۔ لہذا یہ کہنا کہ چونکہ وراثت قریب سے قریب تر کو منتقل ہوتی ہے بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے بیٹے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتاہے۔ یہی اصول شریعت ہے۔ لہذا مجبوری ہے۔ اب اس مجبوری کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے خیر خواہ اور ہمدرد بن کر اب لوگ چلے دادا کے اوپر وصیت واجب کرنے کا فتویٰ دینے۔
یہ لوگ کون ہوتے ہیں دادا کے اوپر یتیم پوتے کے حق میں وصیت واجب کرنے والے؟۔
بقول ان کے جب اللہ نے انہیں محروم ہی رکھا ہے انہیں کچھ دیا ہی نہیں ہے تو آپ اللہ سے بڑے ہمدرد بن کر بذریعہ خود ساختہ وصیت واجبہ انہیں دلانے والےکون ہیں؟
کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) ناکافی ہے جو دادا کے اوپر الگ سے وصیت کو واجب کیا جارہا ہے؟
کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے: (
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: 36)) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی اولاد کے حق میں کی ہوئی وصیت ناکافی ہے کہ دادا وصیت کرے۔
ذرا ان آیات کو بھی غور سے پڑھ لیجئے گا شاید کہ اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے:

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (33) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (34) لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (35) أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (36) وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (37) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (39) مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (40) [سورة الزمر]
کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے:
(
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ)
اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو چکا ہے جو انتہائی سچا، عادلانہ و منصفانہ ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تاقیامت بدل نہیں سکتی ہے۔
میرے محترم! ذرا ان فرامین باری تعالیٰ کو بغور سنجیدگی سے تنہائی میں بیٹھ کر پڑھ لیجیئے گا۔ شاید ہماری بات کچھ سمجھ میں آ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ) (112) (وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ) (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الانعام]
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت ایک جامع کامل و شامل فرض وصیت ہے۔ جس کے ہوتے کسی وصیت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اولاد کے حق میں وصیت کرنا حرام کفر اور شرک ہے۔ جس طرح یہ وصیت بیٹے کے لئے ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب بھی ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا اور بفرمان الٰہی :
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے
(إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
جس کے جواب میں آنجناب لکھ رہے ہیں :

آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
جناب من اگر میں نے سوچا سمجھا نہ ہوتا تو یہ سب لکھتا۔ یہ آپ ہیں کہ نہ تو سوچتے ہی ہیں اور نہ ہی سمجھ رہے ہیں یہ جملہ آپ پر فٹ ہوتا ہے۔ یہ آپ ہیں کہ آپ کے اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ فہم و فراست میں جو آتا ہے بلا سوچے سمجھے بکتے چلے جارہے ہیں ۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ لکھ دیا اور کوئی لکیر کھینچ دی تو اسے پیٹے جارہے ہیں۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ بلا سوچے سمجھے قریب سے قریب تر کا ایک پہاڑہ پڑھا دیا ہے اور رٹا دیا ہے تو آپ جیسے لوگ ان کی تقلید میں ان کے رٹائے ہوئے ایک جملہ کی رٹ لگا رکھی ہے کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
اب آپ جیسے لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کی دلیلیں دی جارہی ہیں ثبوت پیش کیا جارہا ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سنوائی ہو رہی ہے۔ بس ایک ہی رٹ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ اور اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔ ایک والد کی مختلف اولادیں ہوتیں البتہ مختلف اولادوں کا ایک والد ہوتا ہے۔ اولاد و والد کے مختلف درجات و طبقات ہیں ۔ باپ، دادا، پردادا اوپر آدم علیہ السلام تک درجہ بدرجہ سب والد ہیں اسی طرح بیٹا، پوتا، پڑپوتا درجہ بدرجہ سبھی اولاد آدم ہیں۔ یہ سب تو اللہ کی کتاب قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ میں تو آنہیں رہا ہے۔ البتہ شیطان نے جو وسوسہ آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور رٹا دیا ہے کہ صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے تو وہی بات آپ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(
الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) [سورة محمد]
ان رٹی رٹائی باتوں کا اللہ کے دین و شریعت (کتاب و سنت) میں کوئی حیثت اور مقام نہیں ہے۔
آپ نے کہا:

تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
ہاں میں کہتا ہوں :
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے جو ان کے واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور اسے ان تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہی فرمان و کلام ((
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) ہے کیونکہ سبھی اولاد ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) کہا وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ)) (سورة النساء: 11) کہا ہے اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے۔ اور بکواس کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا ہے جواب معقول بات کا دیا جاتا ہے نامعقول بات کا نہیں دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر کسی کی ہر ہر بکواس کا جواب دینا ممکن بھی نہیں۔ لوگ لاکھوں کروڑوں تاویلات بیجا کریں پھر بھی پوتا اپنے دادا کی اولاد ہی رہے گا کیونکہ دادا اس کا والد ہے۔
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا اور بفرمان الٰہی :
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں (اولادکم ) کا لفظ استعمال کیا ہے (ابنائکم) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ البتہ جہاں (آباؤکم ) کہا ہے وہیں پر اس پر عطف کرتے ہوئے (ابناؤکم ) کہا ہے اور دونوں کے تعلق سے (اقرب) کی بھی نفی کردی ہے چنانچہ فرمایا:
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ)
یہ بات تو آپ اور آپ جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیونکہ شیطان نے کسی کے ذریعہ یہ سمجھا رکھا ہےکہ بیٹا قریبی عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے اللہ کے ان احکام و فرامین کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے اور تمہاری خود ساختہ شریعت مٹی میں مل جائے گی۔ آپ کی اپنی سمجھ تو ہے نہیں آپ تو دوسروں کی سمجھ سے سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں کی تقلید میں اس طرح کی ساری باتیں کئے جارہے ہیں تو جو انہوں نے کہا بتایا اور سمجھایا ہے وہی آپ کہہ بتا رہے ہیں اور مجھے سمجھانا چاہتے ہیں۔
(جاری)
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے:
میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا ہےجو صرف بیٹیاں ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کے کتاب الفرائض کے باب کا تعلق ہے تو پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے تعلق سے امام بخاری دو باب باندھا ہے ایک یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا باب اور دوسرے یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا باب جب اس پوتے اور پوتی کے باپ نہ ہوں اور ان کے چچا تائے اور پھوپھیاں ہوں چنانچہ امام بخاری لکھتے ہیں:
صحیح بخاری کے یتیم پوتے اور پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ دو ابواب
پہلا باب: یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا باب

[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).

یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو
اس باب کے تحت امام بخاری نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا ہے لکھتے ہیں:
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -:
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
[1]
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ،

یعنی بیٹوں کی اولاد بمنزلہ اولاد کے ہیں جب ان کے اوپر (یعنی پوتے پوتیوں اور ان کے دادا کے مابین ) کی اولاد نہ ہو (یعنی ان کا باپ نہ ہو جیسا کہ صحیح بخاری کے ترجمہ الباب سے ظاہر ہے۔)
[2]
ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ،

ان میں سے جو مذکر ہونگے (یعنی بیٹے ) ان کی جگہ ان کے بیٹے (یعنی یتیم پوتے) وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگے۔ ان میں سے جو مونث ہونگی (یعنی بیٹیاں) ان کی جگہ ان کی بیٹیاں (یعنی یتیم پوتیاں) وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگی۔
[3]
يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ،

تو جس طرح بیٹے وارث، حقدار اور حصہ دار ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح یتیم پوتے وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگے۔
اور جس طرح بیٹیاں وارث، حقدار اور حصہ دار ہوتی ہیں ٹھیک اسی طرح یتیم پوتیاں بھی وارث، حقدار اور حصہ دار ہونگی۔

[4]
وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،

اور جس طرح بیٹے اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگے۔
اور جس طرح بیٹیاں اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتی ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتیاں بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگیں۔

[5]
وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.

اور بیٹے کے ہوتے ہوئے اس بیٹے کی اولادیں اس کے ساتھ وارث، حقدار اور حصہ دار نہیں ہونگی۔
اس باب کے تحت امام بخاری نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نقل کیا ہے لکھتے ہیں:

[صحيح بخاري: 6735] *-* حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -:
«أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]

فرائض (یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید میں جن وارثوں کے حق و حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں) انہیں ان کے فرض حصے(فرائض الٰہی) ان کے حوالے کردو۔ پھر (ان اہل فرائض کو ان کے فرض حصے دیدیئے جانے کے بعد ) جو کچھ باقی بچ رہے وہ میت کے سب سے اولیٰ مرد کے لئے ہے۔
صحیح مسلم میں ایک حدیث ان الفاظ میں مذکور ہے:

[صحيح مسلم: 4 - (1615)] حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ».

میت کے ترکہ کا مال اہل فرائض (یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید میں جن وارثوں کے حق و حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں) ان کے درمیان اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر تقسیم کرو۔ اور ان اہل فرائض کو ان کے فرض حصے(فرائض الٰہی) انہیں دیدو ۔ پھر (ان اہل فرائض کو ان کے فرض حصے دیدیئے جانے کے بعد ) جو کچھ باقی بچ رہے وہ میت کے سب سے اولیٰ مرد کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن لوگوں کو وارث بنایا ہے اور ان کے حصے مقرر فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) مذکر اولادیں (بیٹا، پوتا، پڑپوتا، درجہ بدرجہ نیچے تک)۔
(۲) مونث اولادیں (بیٹیاں، پوتیاں، پڑپوتیاں، درجہ بدرجہ نیچے تک)۔
(۳)ماں (ان کی عدم موجودگی میں ان کی جگہ دادی نانی)۔
(۴) باپ (ان کی عدم موجودگی میں ان کی جگہ دادا پردادا)۔
(۵)شوہر۔
(۶)بیویاں۔
(۷)سگے بھائی اور علاتی بھائی۔
(۸)سگی بہنیں اور علاتی بہنیں۔
(۹)اخیافی(ماں جائے) بھائی ۔
(۱۰) اخیافی(ماں جائے)بہنیں۔
یہ وہ دس قسم کے لوگ ہیں جن کے فرض حصے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید مقرر فرمائے ہیں جو کہ اہل فرائض ہیں جن کے فریضے ادا کیئے جانےکا اللہ اور رسول نے حکم دیا ہے۔
ان میں پہلا فریضہ (
لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) مذکر اور مونث اولادوں کے لئے ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والے سگے و علاتی بھائی بہنوں کے لئے ہے۔
دوسرا فریضہ (
ثُلُثَان) دو تہائی حصہ ہے۔ جو صرف مونث اولاد ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ مونث اولادوں کے لئے ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والی سگی و علاتی بہنوں کے لئے ہے۔
تیسرا فریضہ (
النِّصْفُ) آدھا حصہ ہے۔ جو صرف ایک مونث اولاد ہونے کی صورت میں ایک مونث اولاد کے لئے ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والی سگی و علاتی بہن کے لئے ہے۔ اور شوہر کے لئے ہے جب میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
چوتھا فریضہ (
السُّدُسُ) چھٹا حصہ ہے۔ جو ماں، باپ اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ آنے والی اخیافی(ماں جائے) بھائی اور اخیافی(ماں جائے)بہن کے لئے ہے۔
پانچواں فریضہ (
الثُّلُثُ) ایک تہائی حصہ ہے۔ جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کے لئے ہے بشرطیکہ میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن نہ ہوں اور اخیافی(ماں جائے) بھائی بہنوں کے لئے ہےجب میت کلالہ ہو اور ان بھائی بہنوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہو۔
چھٹا فریضہ (
الرُّبُعُ) چوتھائی حصہ ہے۔ شوہر کے لئے ہے جب میت صاحب اولاد ہو۔ اور بیوی کے لئے ہے جب میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
ساتواں فریضہ (
الثُّمُنُ) آٹھواں حصہ ہے۔ بیویوں کے لئے ہے جب میت صاحب اولاد مرا ہو۔
اللہ و رسول نے ان اہل فرض وارثوں پر ان کے فرض حصے اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق تقسیم کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ چنانچہ اللہ و رسول کے ان احکام و فرامین کے مطابق ترکہ کی تقسیم کی جانے واجب و فرض ہے۔

[وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم]
اس بات پر لوگوں نے اجماع کیا ہے کہ بیٹوں کے بیٹے بیٹوں کے نہ رہنے پر ان بیٹوں کی طرح ہیں۔ مذکر مذکر کی طرح اور مونث مونث کی طرح۔
[وكان أبو بكر يقول: الجد أب ما لم يكن دونه أب، كما أن ابن الابن ابن ما لم يكن دونه ابن.]
ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ دادا باپ ہے جب اس کے نیچے کا باپ (یعنی پوتے کا باپ) نہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح جیسے پوتا بیٹا ہے جب اس سے اوپر کا بیٹا (یعنی پوتے کا باپ) نہ ہو ۔
دوسرا باب: یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا باب
دوسرا باب ہے یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا ہے جب پوتی کا باپ نہ ہو اور اس کی پھوپھی ہو چنانچہ امام بخاری لکھتے ہیں:
8 - باب مِيرَاثِ ابْنَةِ ابْنٍ مَعَ ابْنَةٍ
یعنی بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا باب
6736 - حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ: سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي. فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - «لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلاِبْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ». فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ. [6742 - فتح 12/ 17}
[
ولا خلاف بين الفقهاء وأهل الفرائض في ميراث ابنة الابن مع الابنة].

بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کی میراث کے بارے میں فقہاء اور اہل فرائض میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
اس حدیث کے پیش کرنے سے میرا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا اور یتیم پوتی کے حصہ پانے میں بیٹی رکاوٹ نہ بنی غرض اس سے نہیں کہ اسے کتنا ملا ۔ اس سے کوئی بحث نہیں ہے بحث صرف یہ ہے کہ یتیم پوتے کو اس کے چچا تائے کے ہوتے حصہ کیوں نہپیں مل سکتا ہے اس کی قرآن و سنت کی کون سی دلیل ہے؟
بجائے اس کے کہ اس کی دلیل پیش کی جائے ادھر ادھر کی باتیں کی جاتی ہیں۔ آیت و حدیث سے دلیل پیش کرنے کے بجائے۔ الٹا ہمیں علم میراث پڑھانے لگ جاتے ہیں۔ اور ہماری بنیادی بات کا جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
ابن داود صاحب نے کہا:

جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں! درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
آئیے ہم آنجناب کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ صحیح بخاری : کتاب الفرائض کا باب کچھ اس طرح ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]

ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
اس باب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ باب اس پوتے کی میراث کا اثبات کا باب ہے جس کا باپ نہ ہو۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہوگا۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے لوگ سمجھے بیٹھے ہیں اور اس پر تلے ہوئے ہیں اور یہ طے کیئے بیٹھے ہیں کہ بہر صورت یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونا ثابت کر کے رہیں گے۔
کیا اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی ثبوت ہو سکتا ہے اس بات کا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہوتا ہے بلکہ وارث ، حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔

میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا ہے:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
اس کے جواب میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:

میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا جو فتویٰ ہے وہ محض قیاسی ہی ہے۔ قرآن وحدیث کی اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
آنجناب کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ دادا کو یتیم پوتے پر قیاس کر کے ہی یتیم پوتے کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اور اس بات پر جملہ صحابہ کرام کا اجماع ہوا ہےکہ (الجد اب) یعنی دادا باپ اور والد ہے۔ تو جب یتیم پوتے کا دادا بالاجماع اس کا باپ و والد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا تو اس کا یتیم پوتا بھی اپنے دادا کا بالاجماع بیٹا وا ولاد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا ۔
اللہ کا فرمان ہے(مالکم کیف تحکمون) کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے کیسے فتوے دیتے اور حکم لگاتے ہو۔ (القرآن)
یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف دادا تو اپنے یتیم پوتے کا حقیقی باپ و والد اور وارث ہواور اس کے ترکہ کاحقدار و حصہ دار بنے۔ ان دونوں کے درمیان چچا تائے حاجب اور رکاوٹ نہ بنیں اور جب پوتے کا معاملہ ہو چچا تائے آڑے آجائیں اور حاجب بن جائیں۔ واہ یہ بڑی عادلانہ و منصفانہ بات ہے۔ دادا کا مال اس کے پوتے پر اس کے زندہ رہنے تک تو حلال تھا اور جیسے ہی دادا مرا اس کا مال اس کے پوتے پر حرام ہوگیا۔ جرم خود کا الزام اللہ کے اوپرکہ اللہ نے تو پوتے کا حق رکھا ہی نہیں ہے۔
اللہ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا ہے اس کے چچا تائے کے واسطے سے پیدا نہیں کیا کہ وہ اس کے آڑے آئے اور اسے اس کے باپ اور دادا کی اولاد بنایا چچا تائے کی اولاد نہیں بنایا چنانچہ خود فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ) [سورة النحل: 72]
ہم نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے بیٹے پوتے نواسے پیدا کئے اور تمہیں بہترین روزی عطا کی تو کیا تم باطل پر ایمان و یقین رکھتے ہو اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔
اولاد اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بیٹے کے بعد پوتے کا ہونا اس سے بھی بڑی نعمت ہے یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحاق کے بعد پوتے یعقوب کی خوش خبری دی تھی اور اسے نافلہ یعنی خصوصی اور اضافی انعام کہا تھا۔ تو جس طرح بیٹا اللہ کی نعمت ہے اسی طرح پوتا بھی اللہ کا انعام ہے تو جس شخص کے پوتے ہوں وہ بڑا خوش قسمت انسان ہے اسے اللہ کے اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اسے اس کا حق دیکر صلہ رحمی کرنی چاہئے اسے محجوب و محروم الارث قرار دیکر قطع رحمی نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ (سورة النساء: 11)) اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے ایسی ہی بکواسوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ)
ذرا درج ذیل آیات کو تنہائی میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے گا اور جو اللہ و رسول نے کہا ہے اس پر غور کیجئے گا۔ بقول شاعر: شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

(وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ) (16) (اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ) (17) (يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ) (18) (اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ) (19) (مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ) (20) (أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (21) (تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ) (22) [الشورى]
میرے بھائی سب سے پہلے اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کیجئےاور اللہ اور یوم آخرت سے ڈریئے۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے کہ الفاظ و معانی کے ہیر پھیر سے کوئی غلط چیز صحیح بنا لی جائے تو وہ صحیح ہوجائے گی۔ یہ فرائض و مواریث، حدود اللہ اور حلال و حرام کا معاملہ ہے اور کسی حلال کو حرام کردیا جائے اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے تو حلال حرام اور حرام حلال نہیں ہو جائے گا۔ لہذا یتیم پوتے کے حق و حصہ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور انتہائی خطرناک ہے اگر آپ کی ذات سے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو ا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے متنبہ کر کھا ہے:

(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (النساء: 9)
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے یتیم پوتے کے حق وراثت کی شدید مخالفت کی تھی اور انہوں نے ہی یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا فتویٰ دیا تھا اور منکر حدیث حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ اہل حدیث تھے لیکن بعد میں شاید اسی یتیم پوتے کے مسئلہ کو لیکر انکار حدیث کیا)، نے یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا انکار کیا (اس وقت جب کہ انہوں نے ابھی انکار حدیث نہیں کیا تھا) تو امرتسری صاحب نے اس کا رد کیا ۔ اور آپ ہوں یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی سب لوگ انہیں امرتسری صاحب کی ہی تقلید کر رہے ہیں اور انہیں کی سر میں سر ملا رہے ہیں۔جبکہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تقسیم ہندو پاک میں ان کے تمام بیٹے مار دیئے گئے اور ان کے یتیم پوتے ہی ان کے اموال املاک متروکہ کے وارث بنے۔ بطور عبرت کے میں یہ باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی اللہ سے ڈریں ان یتیم پوتوں کے بارے میں اور اس حادثہ سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔ (فاعتبروا یا اولی الابصار)
دادا کے مرتے ہی اس کے یتیم پوتے پر اس کے دادا کے مال کو کس نے حرام کیا جب کہ اس کی زندگی میں وہ اس کے لئے حلال تھا۔ اللہ نے یا جن کی تقلید میں آپ یہ لمبی چوڑی ہانکے جا رہے ہیں۔ جو لوگ یتیم پوتے کو بالجبر محجوب و محروم الارث قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کے اندر ذرا بھی اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہے وہ محض لفاظیاں کرکے اور اپنی کٹھ حجتی کے ذریعہ الفاظ کی ہیرا پھیری سے اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس سوائے اس لولی لنگڑی بات کے کہ بیٹا قریب تر عصبہ اور پوتا عصبہ بعید ہے جب کہ نہ بیٹا عصبہ ہے اور نہ ہی پوتا ہی عصبہ ہے کہ اس پر قریب سے قریب تر کا فقہی اصول فٹ ہو۔ لہذا یہ کہنا کہ چونکہ وراثت قریب سے قریب تر کو منتقل ہوتی ہے بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے بیٹے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتاہے۔ یہی اصول شریعت ہے۔ لہذا مجبوری ہے۔ اب اس مجبوری کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے خیر خواہ اور ہمدرد بن کر اب لوگ چلے دادا کے اوپر وصیت واجب کرنے کا فتویٰ دینے۔
یہ لوگ کون ہوتے ہیں دادا کے اوپر یتیم پوتے کے حق میں وصیت واجب کرنے والے؟۔
بقول ان کے جب اللہ نے انہیں محروم ہی رکھا ہے انہیں کچھ دیا ہی نہیں ہے تو آپ اللہ سے بڑے ہمدرد بن کر بذریعہ خود ساختہ وصیت واجبہ انہیں دلانے والےکون ہیں؟
کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) ناکافی ہے جو دادا کے اوپر الگ سے وصیت کو واجب کیا جارہا ہے؟
کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے: (
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: 36)) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی اولاد کے حق میں کی ہوئی وصیت ناکافی ہے کہ دادا وصیت کرے۔
ذرا ان آیات کو بھی غور سے پڑھ لیجئے گا شاید کہ اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے:

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (33) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (34) لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (35) أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (36) وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (37) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (39) مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (40) [سورة الزمر]
کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے:
(
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ)
اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو چکا ہے جو انتہائی سچا، عادلانہ و منصفانہ ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تاقیامت بدل نہیں سکتی ہے۔
میرے محترم! ذرا ان فرامین باری تعالیٰ کو بغور سنجیدگی سے تنہائی میں بیٹھ کر پڑھ لیجیئے گا۔ شاید ہماری بات کچھ سمجھ میں آ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ) (112) (وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ) (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الانعام]
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت ایک جامع کامل و شامل فرض وصیت ہے۔ جس کے ہوتے کسی وصیت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اولاد کے حق میں وصیت کرنا حرام کفر اور شرک ہے۔ جس طرح یہ وصیت بیٹے کے لئے ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب بھی ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا اور بفرمان الٰہی :
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے
(إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
جس کے جواب میں آنجناب لکھ رہے ہیں :

آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
جناب من اگر میں نے سوچا سمجھا نہ ہوتا تو یہ سب لکھتا۔ یہ آپ ہیں کہ نہ تو سوچتے ہی ہیں اور نہ ہی سمجھ رہے ہیں یہ جملہ آپ پر فٹ ہوتا ہے۔ یہ آپ ہیں کہ آپ کے اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ فہم و فراست میں جو آتا ہے بلا سوچے سمجھے بکتے چلے جارہے ہیں ۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ لکھ دیا اور کوئی لکیر کھینچ دی تو اسے پیٹے جارہے ہیں۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ بلا سوچے سمجھے قریب سے قریب تر کا ایک پہاڑہ پڑھا دیا ہے اور رٹا دیا ہے تو آپ جیسے لوگ ان کی تقلید میں ان کے رٹائے ہوئے ایک جملہ کی رٹ لگا رکھی ہے کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
اب آپ جیسے لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کی دلیلیں دی جارہی ہیں ثبوت پیش کیا جارہا ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سنوائی ہو رہی ہے۔ بس ایک ہی رٹ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ اور اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔ ایک والد کی مختلف اولادیں ہوتیں البتہ مختلف اولادوں کا ایک والد ہوتا ہے۔ اولاد و والد کے مختلف درجات و طبقات ہیں ۔ باپ، دادا، پردادا اوپر آدم علیہ السلام تک درجہ بدرجہ سب والد ہیں اسی طرح بیٹا، پوتا، پڑپوتا درجہ بدرجہ سبھی اولاد آدم ہیں۔ یہ سب تو اللہ کی کتاب قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ میں تو آنہیں رہا ہے۔ البتہ شیطان نے جو وسوسہ آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور رٹا دیا ہے کہ صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے تو وہی بات آپ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(
الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) [سورة محمد]
ان رٹی رٹائی باتوں کا اللہ کے دین و شریعت (کتاب و سنت) میں کوئی حیثت اور مقام نہیں ہے۔
آپ نے کہا:

تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
ہاں میں کہتا ہوں :
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے جو ان کے واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور اسے ان تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہی فرمان و کلام ((
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) ہے کیونکہ سبھی اولاد ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) کہا وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ)) (سورة النساء: 11) کہا ہے اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے۔ اور بکواس کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا ہے جواب معقول بات کا دیا جاتا ہے نامعقول بات کا نہیں دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر کسی کی ہر ہر بکواس کا جواب دینا ممکن بھی نہیں۔ لوگ لاکھوں کروڑوں تاویلات بیجا کریں پھر بھی پوتا اپنے دادا کی اولاد ہی رہے گا کیونکہ دادا اس کا والد ہے۔
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا اور بفرمان الٰہی :
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں (اولادکم ) کا لفظ استعمال کیا ہے (ابنائکم) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ البتہ جہاں (آباؤکم ) کہا ہے وہیں پر اس پر عطف کرتے ہوئے (ابناؤکم ) کہا ہے اور دونوں کے تعلق سے (اقرب) کی بھی نفی کردی ہے چنانچہ فرمایا:
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ)
یہ بات تو آپ اور آپ جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیونکہ شیطان نے کسی کے ذریعہ یہ سمجھا رکھا ہےکہ بیٹا قریبی عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے اللہ کے ان احکام و فرامین کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے اور تمہاری خود ساختہ شریعت مٹی میں مل جائے گی۔ آپ کی اپنی سمجھ تو ہے نہیں آپ تو دوسروں کی سمجھ سے سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں کی تقلید میں اس طرح کی ساری باتیں کئے جارہے ہیں تو جو انہوں نے کہا بتایا اور سمجھایا ہے وہی آپ کہہ بتا رہے ہیں اور مجھے سمجھانا چاہتے ہیں۔
(جاری)
آپ نے کہا:
یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
میں کہتا ہوں :
آخر آپ کو لفظ یتیم سے اتنی چڑ کیوں ہے؟ میں آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتا ہوں اور اس بات کی وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے یتیم پوتا کا لفظ جو استعمال کیا ہے وہ منکرین حدیث کی طرح نہیں جن کے پاس محض جذباتیت تھی جس کے چلتے انہوں نے لفظ یتیم استعمال کیا کیونکہ ان کے پاس علم ہی نہیں تھا۔ میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔ جذباتیت کی غرض سے نہیں کیونکہ میرے نزدیک پوتے کا نابالغ یا بالغ ہونا مسئلہ نہیں ہے کہ جو پوتا نابالغ ہو اسے یتیم کے نام پر بذریعہ وصیت بھیک دلوائے جانے کی تجویز پیش کی جائے اور چچا تایوں سے ہاتھ پاؤں جوڑا جائے کہ اس بے چارے کو کچھ بھیک دیدو اور دادا سے یہ کہا جائے کہ بیچارے اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرجاؤ۔ میں تو دادا کا وصیت کرنا حرام سمجھتا ہوں بلکہ کفر اور شرک جانتا ہوں۔ میں جذباتیت کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات نہیں کرتا بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات کررہا ہوں۔ اس کا استحقاق قرآن وحدیث سے ثابت شدہ ہے لہذا یتیمی کے نام پر یتیم پوتے کو بھیک نہ دی جائے بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کو حق و حصہ دیا جائے کیونکہ اس کا حصہ بموجب فرمان الٰہی:
(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7)
(نَصِيبًا مَفْرُوضًا)
یعنی اللہ کا فرض کیا ہوا حصہ(فریضہ الٰہی) ہے۔
اور بموجب فرمان الٰہی:

(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ............. آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
(فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ
) یعنی اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا فریضہ (فریضہ الٰہی) ہے۔
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
اس کا مطلب میں نے بتایا تھا کہ یتیم پوتے کا مسئلہ دو صورتوں میں پیش آتا ہے ایک اس صورت میں جب کہ یتیم پوتے کا صرف باپ نہ ہو اور اس کی دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ جب یتیم پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہو۔ تو دونوں صورتوں میں یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے تو جب باپ نہ رہے اور چچا تائے رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔ حافظ ابن حجر نے لفظ (ابن) کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن سے مراد میت کی صلبی اولاد یعنی اس کا بیٹا جو پوتے کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا چچا تایا بھی ہو سکتا ہے تو جب پوتے کا باپ نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ پہلی صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ ہوگا۔ اور دوسری صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام نہیں بلکہ مثل ایک بیٹے کے ہوگا۔
یہ مسئلہ اسی لئے تو پیدا ہوا کہ میت کا بیٹا نہیں ہے اور اس کی جگہ اس کا بیٹا (یتیم پوتا)ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو اس کے حق کے اثبات کے لئے امام بخاری نے یہ باب باندھا اور اس کے تحت حدیث رسول پیش کی جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
6735 - حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
__________
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).

یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ یتیم پوتا ہی ہے(خواہ بالغ ہو یا نابالغ) اس کا چچا تایا ہو یا نہ ہو اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اب جو لوگ اس کی محجوبیت و محرومی ارث کے دعویدار ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں انہیں قرآن کی آیت اور حدیث رسول سے دلیل دینا اور قرآن وحدیث سے ثابت کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ بہت زیا دہ بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے۔
(جاری)
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔
میں نے پورے باب کا یہ معنی ومفہوم لکھا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اس وقت ہو جاتا ہے جب میت کا بیٹا نہ ہو، جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
چونکہ آپ کی فہم اتنی اعلیٰ ہے کہ یہ سیدھی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہ آ سکی اور آپ بات سمجھ نہ پائے اور لگے تبصرہ کرنے اور ایک بات کا حصہ بخرہ کرنے اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھی ادھوری بات پر تبصرہ کرنے۔ جب ایک بات کا آدھا حصہ لیا جائے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ مفہوم الٹا پلٹا نکلے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں آیا ہوا ہے کہ (لاتقربوا الصلاۃ و انتم سکاریٰ) تو کوئی شخص (لاتقربوا الصلاۃ) کو لیکر کہے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہوا ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ۔
چنانچہ یہی حال آپ کا بھی ہے کہ آپ بات تو سمجھ نہ پائے اور حقیقت یہ ہے کہ سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں۔ آپ نے آدھا جملہ (
خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔) لے لیا اور تبصرہ کرنے بیٹھ گئے:
یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
میں نے باپ کے موجود نہ ہونے کی بات کی اور آپ کی اعلیٰ فہم میں الٹا معنی اس کا موجود ہونا سمجھ میں آرہا ہے۔
میرے بھائی پوتے کا مسئلہ پیدا ہی اسی لئے ہوا کہ اس کا باپ نہیں ہے لہذا امام بخاری کو اس مسئلہ پر اس کے حق کے ثابت کرنے کے لئے باب باندھنا پڑا اگر اس کا باپ ہوتا تو مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا اور امام بخاری کو باب نہ باندھنا پڑتا۔
جناب من ! آپ کی فہم اعلی کا یہ عالم ہے لکھتے ہیں :

اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
جناب آدھی ادھوری بات لیکر اس پر تبصرہ کرنے لگ جانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورت میں مفہوم الٹا پلٹا ہی نکلے گا۔ جو نکلا۔
پوری عبارت یوں ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
پوتے کی میراث کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ خواہ وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو یتیم پوتے کا باپ ہے یا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
میں نے پورے باب کا یہ معنی ومفہوم لکھا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اس وقت ہو جاتا ہے جب میت کا بیٹا نہ ہو، جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلبی اولاد نہ ہو خواہ وہ صلبی اولاد یتیم پوتے کا باپ ہو وہ نہ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں وہ نہ ہوں۔ بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
بات باپ، چچا تائے کے نہ ہونے کی ہے اور آپ اس کا ہونا سمجھ رہے ہیں۔آپ نے دو صورتوں ایک کردیا ہے۔
اسی طرح میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔
اس پر آپ لکھتے ہیں:

تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!

میرے محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا تو حال یہ ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم اور مصداق جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے۔ آپ نہ تو حدود الٰہی کا معنی و مفہوم جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ہی فریضہ الٰہی کو ہی سمجھ پا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
بے سروپا باتیں تو آپ کیئے جارہے ہیں اور ایک ایسے مسئلہ میں جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر۔ جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث رسول سے ۔ بلکہ یہ تو بالکل ہی ایک منگھڑت مسئلہ ہے۔ آپ سے اس مسئلہ پر دلیل مانگی جاتی ہے تو آپ وہ دے نہیں پارہے ہیں البتہ ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ آپ اولاد کے جس معنی و مفہوم کو خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور اسے بے سر و پا باتیں کہہ رہے ہیں وہ محض اس لئے ہے کہ آپ نہ قرآن کی آیتوں پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی احادیث پر اور آپ تقلید جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو قرآن و حدیث کی سیدھی سادی باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں۔آپ تو صحیح ڈھنگ سے اردو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ آپ تو (آپ و تم، ہیں اورہو ) میں بھی فرق وتمیز نہیں کر پارہے ہیں۔ تو قرآن و حدیث کیا خاک سمجھیں گے۔ اولاد کا جو مفہوم و معنی ہم نے بیان کیا ہے وہ میرا اپنا گھڑا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث اور تفاسیر و شروح احادیث میں لکھا ہو اہے اور وہ مفہوم عربی لغات میں بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ اولاد و والد میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کا تعلق توالد و تناسل کی بنیاد پر ہو اب وہ خواہ مذکر ہو (یعنی بیٹا، پوتا نواسا، پڑ پوتا، پڑنواسا درجہ بدرجہ نیچے تک)۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم سب کو (یا بنی آدم ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے۔ اسی طرح مونث (یعنی بیٹی، پوتی نواسی، پڑپوتی پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک اور ان کی اولادیں) بھی اولاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو (ابنای) یعنی میرے دونوں بیٹے اور حسن کو (ابنی ہذا) یعنی میرا یہ بیٹا جبکہ وہ ان کے نواسے تھےاور خود اپنے بارے میں فرمایا: (انا ابن عبد المطلب) یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ جب کہ عبد المطلب ان کے دادا تھے۔ یہ سب قرآن و حدیث کی باتیں ہیں میری خود ساختہ نہیں یہ آپ کی میرے اوپر افترا پردازی ہے۔ جس کا آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
کسی کا کسی کا والد یا اولاد ہونا اور والدیت اور ولدیت کا رشتہ توالد و تواسل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ زندگی و موت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جب تک ان میں کا کوئی زندہ ہو تا وہ والد و اولاد رہے اور کوئی وفات پا جائے، مر جائے تو پھر وہ ختم ہوجائے۔ آپ یہ بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لا سکتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔
آپ چونکہ مولانا امرتسری وغیرہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان کی تقلید میں اندھے ہوکر یہ ساری بکواس کئے جا رہے ہیں اور میرے بنیادی سوال کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں کہ
(جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا تھا جو بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
میں نے صحیح بخاری کے یتیم پوتی کواس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے حصہ دیئے جانے سے متعلق ایک حدیث پیش کی اور لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
یہ بات بھی آپ کے پلے نہیں پڑی اور آپ اس پر تبصرہ کرنے بیٹھ گئےچنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:

میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟ جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
پھر آنجناب لکھتے ہیں:
اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے! آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں! اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
آنجناب کا مبلغ علم بس صرف اتنا ہی ہے اور آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کا یہ عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا کہ جب میت کی صرف مونث اولادیں ہوں(نساء) اور کوئی مذکر اولاد نہ ہو تب ایسی صورت میں ان کا مجموعی حصہ دو تہائی(ثلثان) ہے اور آپ ہیں کہ اس میں بیٹا تلاش کر رہے ہیں۔ آپ تو قیاس کا بھی معنی و مفہوم نہیں سمجھ رہے ہیں۔
میرے بھائی! جب دو چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں تو ایک کو دوسرے پرقیاس کیا جاتا ہے۔ یتیم پوتے پر ہی قیاس کرکے دادا کو اس کا والد و باپ مان کر اس کے یتیم پوتے کا وارث حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا اور اجماع و اتفاق ہوا۔ یہ سب تو آپ کو معلوم ہی نہیں اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں جانتے سمجھتے کچھ نہیں۔ بس آپ کو جواب دینے کا شوق ہے اسی لئے میرا جواب دینے بیٹھ گئے اور لکھنا شروع کردیا۔
میرے بھائی جس آیت سے بیٹے کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے اسی آیت سے بیٹی کا بھی ثابت ہوتا ہے اور اسی آیت سے یتیم پوتے پوتیوں کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اسی آیت سے ماں باپ، دادا دای کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔ اور اللہ کا یہ فرمان یاد رکھیئے:

(وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا) (34) (وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا) (35) (وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا) (36) [سورة الاسراء]
یعنی یتیم کے مال کے بھی قریب نہ جاؤ۔ اور انصاف کے ترازو سے تولو۔ اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔ کیونکہ انسان کے سارے اعضاء و جوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے۔
جب آپ کو والد و اولاد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق ہی معلوم نہیں ہے تو کج بحثی کیوں کئے جا رہے ہیں۔
میں نے جو بنیا دی سوال کیا اس کا جواب دیجئے اور کج بحثی چھوڑیئے۔ صرف لفاظی کرنے اور طول طویل بکواس کر دینے سے کوئی بات صحیح نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مسئلہ حل ہو پاتا ہے۔ کوئی بھی بات اسی وقت صحیح مانی جاتی ہے جب وہ اصولی ہو اور قرآن و صحیح حدیث سے ثابت ہو ۔ رہا علماء و فقہاء کے اقوال، آراء ، قیاسات اور فتوے تو یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظنون یعنی گمان اور خرص یعنی اٹکل بازیاں کہا ہے۔ اور جو کچھ آپ نے اب تک کہا یا پیش کیا ہے وہ محض گمان اور اٹکل بازیاں ہی ہیں کوئی قرآن و حدیث کی باتیں نہیں ہیں۔
چنانچہ میں نے لکھا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔
اسکے جواب میں آنجناب نے لکھا :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
ارےاللہ کے بندے!
آپ کو اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے کہ جب میت کی صرف مونث اولاد ہو تو ان سب کا مشترکہ حصہ ثلثان(دوتہائی حصہ) ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (ثلثان) میں سے ہی یتیم پوتی کو حصہ دیا تھا کوئی بھیک، خیرات، یا دادا کی کی ہوئی وصیت نہیں تھی۔ اور یہ ثلثان(دوتہائی حصہ) صرف بیٹیوں کے لئے ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے (بنات ) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (نساء اور فوق) جس میں درجہ بدرجہ بیٹیاں، پوتیاں پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل و شامل ہیں۔ تو اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو چھٹا حصہ دینا اور بیٹی کو آدھا دینا ان کی حکمت و مصلحت کے تحت تھی۔ اور اللہ کے اس فرمان (
وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) اور (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب تھا۔
چونکہ ایک طبقہ میں صرف ایک یعنی بیٹی تھی تو اس کو آدھا دیدیا۔ جس کے بعد صرف چھٹا حصہ ہی باقی بچ رہا تو باقی بچا ہوا چھٹا حصہ پوتی کو دیدیا اس طرح بیٹی پوتی کا مجموعی حصہ (ثلثان) دوتہائی ہوگیا اس طرح اللہ کا (نساء ) کے حق میں جو فریضہ تھا وہ پورا ہوگیا۔ اب جو باقی بچا وہ بہن کو دیدیا۔ تو پوتی کو جتنا کچھ ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ (
ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے ہی تھا جو کہ (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب فریضہ الٰہی ہی تھا۔بھیک، خیرات نہیں تھی۔
اگر اتنی سیدھی سی بات بھی آپ کے اعلیٰ دماغ اور فہم میں نہیں آپارہی ہے اور سمجھ نہیں پارہے ہیں تو مجھے فالتو باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آپ پہلے تقلید کی بھول بھلیوں سے نکلئے اور تحقیق کے کھلے میدان میں آئیے پھر بات کیجئے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ہوں یا شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری ہوں یا اور کوئی بڑے سے بڑا عالم محدث، فقیہ ہو اس کی لکھی و کہی ہوئی باتیں اور فتوے کوئی وحی الٰہی نہیں ہیں کہ اس کو بلا چون و چرا مان لینا اور اس پرآنکھ بند کرکے ایمان لانا ہم پر واجب و فرض ہو اور یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا اور فتویٰ دیا وہ سو فیصدی صحیح ہی ہو۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((
أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ))
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا
يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)) (170) ((وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)) (171) [سورة البقرة]

تو آپ ان آیات کا مصداق نہ بنئے۔ آپ کیا ہیں آپ کا عقیدہ منہج کیا ہے مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن بہر حال یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہےکہ قرآنی آیات اور احادیث کا انکار کرکے اپنے علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید میں ان کی کہی ہوئی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان و یقین کیا ہوا ہے۔ اور اس کو حق اور سچ جان کر اس کی بے جا تائید و حمایت اور مدافعت کر رہے ہیں ۔
یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کا فتویٰ خواہ جس کسی نے بھی دیا ہو وہ صریحی طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن و حدیث کے صریحی طور پر منافی و مخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے اس لئے باطل و مردود ہے اور اس پر عمل ناجائز و حرام ہے۔
اب اگر آپ جیسے اعلیٰ فہم وفراست کے دعویدار لوگوں کی عقل و دماغ اور فہم میں یہ بات نہیں آرہی ہے تو یہ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست، عقل اور دماغ کا قصور ہے اس کے لئے کوئی کیا کر سکتا ہے ۔ آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلانا، سمجھانا، لے آنا اور باور کرانا چاہتے ہیں اور ہم سے زور زبردستی سے منوانا چاہتے ہیں وہ سب لوگوں کی باتیں ہیں اللہ ورسول کلام و فرمان نہیں ہے سب قیاسی اور اٹکل پچو باتیں ہیں جس پر اللہ کی جانب سے نازل کردہ کوئی دلیل نہیں ہے۔
لہذا برائے مہر بانی ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور میرے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کریں جو ہم نے اٹھایا ہے:۔

(جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو بیٹے نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اس کے جواب میں آپ لکھ رہے ہیں:
آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!

میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا یہ جملہ (آپ تو یوں فرما رہے ہیں) بالکل ہی غلط اور اللہ رسول کی شان میں بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کیونکہ فرمانا تو صرف اللہ و رسول کا کام ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ)) (57)، ((أَلَا لَهُ الْحُكْمُ)) (62) [الأنعام]، ((مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40))، ((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67)) [يوسف]، ((يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44))) [المائدة]
یعنی حکم اور فرمان تو صرف اللہ کا ہے اور فرمانے کا کام تو صرف اللہ و رسول کی شان ہے کسی بندے کی شان نہیں ہے تو برائے مہربانی میرے تعلق سے یہ جملہ آئندہ استعمال نہ کیجئے گا۔
میں نے لکھا :
جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔
آنجناب لکھتے ہیں:

''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست۔ میں نے تو لکھا تھا کہ جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔
آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست کا یہ عالم ہے کہ اس کا معنی و مفہوم یہ نکال رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ (
گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!) اب اس احمقانہ بات کا کیا جواب دیا جائے۔ سچ کہا کسی نے کہ (جواب جاہلاں باشد خموشی) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا) (الفرقان: 63)
اب آنجناب کے پاس اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ جب پوتے کا باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی حقدار وحصہ دار ہی ہوگا ایسے پوتے کا توکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مسئلہ تو اس پوتے کا ہے جس کا باپ نہیں ہے اور اس کے چچا تائے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہے یا نہیں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے رہا یہ مسئلہ کہ یتیم پوتے کا نہ تو باپ ہی ہے اور نہ چچا تائے ہی ہیں تو ایسی صورت میں یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ جس شخص کو نہ تو بات ڈھنگ سے کہنے کا ہی شعور ہو اور نہ ہی بات کو ڈھنگ سے سمجھنے کا ہی شعور ہو تو ایسے شخص کو اس جیسے نازک اور خطرناک شرعی مسئلہ میں بولنےاور لکھنے کی جرات ہی نہیں کرنی چاہئے۔
یہ کوئی شوقیہ چیز اور تفریحی مسئلہ نہیں ہے کہ چلو تھوڑا تفریح کرلیتے ہیں اور یہ آپ کا کام نہیں ہے اور آپ کو زیبا نہیں دیتا کہ آپ اس نازک اور خطرناک مسئلہ میں کچھ بھی لکھیں۔ لہذا یہ تفریح بند کردیں۔ اور کسی دوسرے موضوع میں اپنا زور قلم صرف کریں۔ آپ کی اردو دانی کا یہ حال ہے کہ جملہ آپ کے (لفظ ) سے شروع کرتے ہیں اور جملہ ختم کرتے کرتے تم پر آ جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی تمیز نہیں ہے جب جملہ آپ سے شروع کیا جاتا ہے تو ہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔ اور جب تم سے شروع کیا جاتا ہے تو ہو پر ختم ہوتا ہے۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ لکھتے ہیں :
(
گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!)
یہ انتہائی احمقانہ بات ہے پوتا جب یتیم ہوگا تو اس کا باپ نہیں ہوگا اور جب باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی اس کی وراثت کا مسئلہ ہی درپیش ہوگا۔
یہ ہے آپ کی اردو دانی اور معاملہ فہمی جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اب آتے ہیں آپ کی اس خوش فہمی کا جائزہ لیتے ہیں آپ نے کہا:

میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا! میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے! جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا! حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!
یہ بھی آنجناب کی خوش فہمی اور اعلیٰ فہم و فراست کا ایک اور نمونہ۔ یہاں بحث ابا جان اور اما جان کے ترکہ کی نہیں ہورہی ہے بلکہ دادا کے ترکہ کی اور دادا کا ترکہ کسی ایرے غیرے کا مال اور ترکہ نہیں ہے بلکہ اس کے والد دادا جان کا ترکہ ہے جس کی وہ اولاد و ذریت میں سے ہے اور وہ اس کے باپ کی وفات کے بعد اس کی جگہ اب اسکا والد و باپ ہے جو اسے چھوڑ کر مرگیا ہے جیسے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے والد عبد اللہ جب انہیں چھوڑ کر مرگئے تو ان کے دادا عبد المطلب نے بطور والد و باپ کے ان کی پرورش و پرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں ادا کی۔
آپ نے لکھا:
(
یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا!
(
میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا
آپ کے بقول جب یتیم پوتے کے ابا جان اور دادا جان کا مال مرتے ہی ان کا نہیں رہا تو پھر نہ تو یتیم پوتے کے ابا جان کا ترکہ بنا اور نہ ہی دادا جان کا ترکہ بنا لہذا اس میں نہ تو اس کا کوئی حصہ بنتا ہے اور نہ ہی اس کے چچا تایوں کا ہی کوئی حصہ بنتا ہے ۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کے باپ کا اور اس کے چچا تائے کے باپ کا مال ہی نہیں رہا تو پھر ترکہ بننے اور وراثت منتقل ہونے کا سوال ہی نہیں بنتا ہے۔
آپ کی اعلیٰ فہم و فراست ایسا ہی کہتی ہے۔ آئے آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتے ہیں۔
جناب من! آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جبتک مرنے والے کا ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے تب تک اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے جو اللہ کی امان میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا نگراں و محافظ ہوتا ہے۔ جس کے حقدار و حصہ دار اس نے بنا و متعین کر رکھے ہیں اور ان کے حصے بھی مقرر کردئے ہیں جنہیں ان کو دیدیئے جانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) (سورة النساء: 33)
جناب من! پہلے آپ ڈھنگ سے قرآن و حدیث پڑھیئے ۔ اور فرائض و مواریث کا علم اللہ کی کتاب قرآن مجید اور سنت رسول اللہ سے سیکھئے اس کے بعد پھر بحث مباحثہ کا شوق پورا کیجئے۔ اور اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔
 
Top