• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دیوبندی اہل سنت میں سے ہیں؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سوال: کیا دیوبندی اہل سنت میں سے ہیں؟ اور کیا وہ دائرہ اسلام میں ہیں؟
الحمد للہ:
دیوبندی مسلمان جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور انڈیا کے جامعہ دار العلوم دیوبند کی طرف منسوب ہے، یہ ایک نظریاتی، اور مضبوط بنیادوں پر مبنی ادارہ ہے، جس نے اپنے ہر فاضل پر خاص علمی مہر ثبت کی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فاضل اسی نسبت سے پہچانے جاتے ہیں۔

قیام اور قابل ذکر شخصیات:
متعدد علمائے کرام کی طرف سے جامعہ دیوبند کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب 1857ء میں انگریزوں نے مسلمانوں کی تحریک ِآزادیِ ہند کو سبوتاژ کیا، چنانچہ جامعہ دیوبند نے بر صغیر پر مغربی یلغار ، اور مادی تہذیب کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ایک مضبوط ردّ عمل پیش کیا، خصوصی طور پر دہلی میں جو کہ دار الحکومت تھا؛ اسلامی تحریکوں کے کچلے جانے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا، تو اس موقع پر علماء کو بے دینی اور الحاد کا خدشہ لاحق ہوا، چنانچہ شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، انکے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی اور انکے رفقائے کرام نے اسلامی تعلیمات، اور اسلام کی حفاظت کیلئے منصوبہ بندی کی اور اس کا حل یہ سوچا کہ دینی مدارس اور اسلامی مراکز قائم کئے جائیں۔ اس طرح سے برطانوی دورِ حکومت ہی میں دیوبند کے علاقے میں ایک اسلامی عربی مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس نے ہندوستان میں دینی اور شرعی مرکز کا کردار ادا کیا۔

اس نظریاتی ادارے کی قابل ذکر شخصیات یہ ہیں:

1- مولانا محمد قاسم

2- مولانا رشید احمد گنگوہی

3- مولانا حسین احمد مدنی

4- مولانا محمد انور شاہ کشمیری

5- مولانا ابو الحسن ندوی

6- محدث حبیب الرحمن اعظمی

نظریات و عقائد:

- یہ لوگ اصول یعنی: عقائد میں ابو منصور ماتریدی کے مذہب پر ہیں۔

- اور فقہی اور فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر ہیں۔

- سلوک اور اتباع میں صوفیت کے طُرق: نقشبندی، چشتی، قادری، اور سہروردی پر چلتے ہیں۔

دیوبند کے نظریات اور اصول و ضوابط کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

- اسلام کا پرچار، اور مشنری و باطل مذاہب کا مقابلہ

- اسلامی ثقافت کا پھیلاؤ، اور انگریزی ثقافت کا قلع قمع

- عربی زبان کی ترویج کیلئے کوششیں ، کیونکہ عربی زبان کی موجودگی میں ہی اسلامی و شرعی مصادر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

- قلب و عقل، اور علم و روحانیت کو یکجا جمع کرنا
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب "(1/308)

دیوبندیت چونکہ ماتریدی مذہب پر قائم ہے اس لئے ماتریدی مذہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے:

ماتریدیت ایک بدعتی فرقہ ہے جو کہ اہلِ کلام کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اس کا نام ابو منصور ماتریدی کی نسبت سے ہے۔ آپ اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے معتزلی اور جہمیوں وغیرہ کے مقابلہ کرتے اور عقلی و کلامی دلائل پر انحصار کرتے تھے۔

ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین (عقائد) کی ماٰخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:

1- الٰہیات (عقلیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیادی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔

2-شرعیات (سمعیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّت کو بھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا بیان میں بالکل واضح طور پر منہج اہل السنۃ و الجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں،

اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرنا ایک نئی بدعت کا اضافہ تھا۔ یہ تقسیم ایک بے بنیاد نظریے پر کی گئی جسے فلسفیوں نے گھڑا تھا، اور وہ اسطرح کہ انہیں اس مفروضہ نے، کہ دینی نصوص عقل سے متصادم ہیں، اس بات پر مجبور کیا کہ عقل اور دینی نصوص کو قریب تر لانے کوشش کیجائے، لہٰذا انہوں نے عقل کو وہاں تک گُھسا دیا جہاں عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ اور ایسے باطل احکامات صادر کئے جو کہ شریعت سے بالکل متصادم تھے، پھر اسی تضاد و تصادم کو انہوں نے تفویض اور تأویل کا جامہ پہنا دیا، حالانکہ اہل السنۃ و الجماعۃ کے ہاں عقلِ سلیم اور صحیح ثابت شدہ نصوص میں کوئی تصادم ہے ہی نہیں"

مزید کیلئے دیکھئے: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة "(1/99)

اہل سنت کا "ماتریدیہ" کے بارے میں موقف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یہ امت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلا دیا کہ کامیاب ہونے والا یہ فرقہ ہی [اصل] جماعت ہوگی، اور یہ جماعت اس [منہج] پر ہوگی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تھے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کتاب و سنت پر علمی اور عملی ہر اعتبار سے ڈٹے ہوئے ہیں، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ میں شمار ہونگے، کیونکہ اِنہی میں کامیابی کا وصف پایا جاتا ہے، اور وہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور آپکے صحابہ کرام کے منہج کو علمی اور عملی ہر اعتبار سے اپنانا۔
چنانچہ کسی فرد یا جماعت کے فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کیلئے نام ہی کی نسبت کافی نہیں ہے، خواہ وہ عملی طور پر صحابہِ کرام اور تابعینِ عظام کے منہج کی مخالفت کرتے ہوں؛ بلکہ علم و عمل، تصور و سلوک ہر طرح سے انہی کے منہج کو اپنایا جائے۔

چنانچہ ماتریدی ایسا گروہ ہے جن کے نظریات میں حق و باطل ، اور سنت کی مخالفت سب کچھ ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ فرقے حق سے قریب اور بعید ہونے میں یکساں نہیں ہوتے، اس لئے جو کوئی فرقہ سنت کے زیادہ قریب ہوگا، وہی حق اور درست سمت میں ہوگا، اس بنا پر دیکھیں تو ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے بڑے بڑے مسائل میں اہل ِسنت کے مخالف موقف اپنایا، اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے باریک جزوی مسائل میں مخالفت کی ہے، اور بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے منہج ِحق سے اپنے سے زیادہ دور فرقے کا رد کیا ہے، تو ایسی شخصیات یقینا باطل کی تردید اور حق گوئی پر قابل تعریف ہیں، لیکن باطل کا ردّ کرتے ہوئے انصاف کی حد تجاوز کرے اس طور پر کہ بعض حق باتوں کا انکار، اور بعض باطل باتوں کا اقرار کرے تو یہ درست نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بڑی بدعت کو چھوٹی بدعت سے بدل دے یا اور کمزور باطل سے قوی باطل پر وار کرے۔ یہی حالت اہل سنت و جماعت کی طرف منسوب بہت سے اہل کلام کی ہے ۔۔۔" انتہی
" فتاوى شيخ الاسلام ابن تیمیہ"(1/348)

اب یہاں ایک اہم مسئلہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ماتریدی گروہ کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یا دیوبندیوں کی طرح انکے نظریات اپنانے والے لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟

تو اسکا جواب ہر شخص کے بارے میں الگ ہوگا:

چنانچہ جو شخص اپنے غلط نظریات پر بضد قائم رہے، اور اپنے خود ساختہ نظریات کی ترویج کرے تو اس کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا، اور اسکی گمراہی و انحراف بیان کرنا ضروری ہے، اور جو شخص اپنے نظریات کی ترویج نہ کرے، اسکے قول و فعل سے تلاش ِحق آشکار ہو تو اسے نصیحت کی جائے، عقائد میں موجود خامی کی نشاندہی کی جائے، اور اس کیلئے اچھا انداز اپنایا جائے، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے قبولِ حق کی توفیق دے گا۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(دین نصیحت کا نام ہے) ہم نے کہا کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، اللہ کی کتاب کیلئے، اللہ کے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور عام لوگوں کیلئے) مسلم: (55)

واللہ اعلم.

حوالہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عجیب سی بات ہے۔ میں نے اشاعرہ کے نظریات پر ایک کتاب پڑھی ہے اور ماتریدیہ کے نظریات سنے ہیں۔ اور صرف میں نے نہیں بلکہ بہت سے علماء کو ان کا علم ہے۔ خاص طور پر میں اپنے اساتذہ کے بارے میں یہ بآسانی کہہ سکتا ہوں کہ وہ بدعت یا بدعی عقائد سے بہت دور رہتے ہیں۔ میں ان کو اور دین کے بارے میں ان کے عمل کو جانتا ہوں۔
تو میرا نتیجہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کے بارے میں کافی مختلف ہے۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ابن حجر، نووی اور بیہقی سمیت یہ سب علماء غلطی پر تھے (جو واقعی جبال العلم تھے) یا یہ حضرات (جن کے علم و تقوی پر بھی کوئی شبہ نہیں ہے) معاملہ کو صحیح طرح سمجھ نہیں رہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تو میرا نتیجہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کے بارے میں کافی مختلف ہے۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ابن حجر، نووی اور بیہقی سمیت یہ سب علماء غلطی پر تھے (جو واقعی جبال العلم تھے) یا یہ حضرات (جن کے علم و تقوی پر بھی کوئی شبہ نہیں ہے) معاملہ کو صحیح طرح سمجھ نہیں رہے؟
ان کے علاوہ بھی علماء کےنام لے لیں جن میں اشعریت کے اثرات تھے ، یا وہ اشعری تھے ، لیکن یہ مکمل فہرست اس بات کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کہ اشعریت یا مرتدیت ایک درست منہج ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس باب میں غلطی صرف آج کے لوگوں سے نہیں بلکہ بڑے پرے کبار علماء بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں ۔
’ غلطی ‘ اور ’ عذر ‘ میں فرق رکھنا چاہیے ۔ اگر میں کسی بات کو غلط سمجھتا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس میں واقعے ہونے والے کسی شخص کا عذر بھی نہ سمجھوں ، اور عذر قبول کرنے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ میں اس غلطی کو ہی درست سمجھ رہا ہوں ۔ واللہ الموفق ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ان کے علاوہ بھی علماء کےنام لے لیں جن میں اشعریت کے اثرات تھے ، یا وہ اشعری تھے ، لیکن یہ مکمل فہرست اس بات کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کہ اشعریت یا مرتدیت ایک درست منہج ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس باب میں غلطی صرف آج کے لوگوں سے نہیں بلکہ بڑے پرے کبار علماء بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں ۔
’ غلطی ‘ اور ’ عذر ‘ میں فرق رکھنا چاہیے ۔ اگر میں کسی بات کو غلط سمجھتا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس میں واقعے ہونے والے کسی شخص کا عذر بھی نہ سمجھوں ، اور عذر قبول کرنے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ میں اس غلطی کو ہی درست سمجھ رہا ہوں ۔ واللہ الموفق ۔
جزاک اللہ خیرا خضر بھائی۔
میں خود اگر اپنا مسلک بیان کروں تو میں حنفی ہونے کے باوجود نہ اشعری ہوں نہ ماتریدی۔ بلکہ میرے عمومی عقائد وہ ہیں جو العقیدۃ الطحاویہ میں مذکور ہیں۔ مضبوط اور ہر تاویل سے پاک۔
اشعریت اور ماتریدیت کو میں ایک خاص زمانے کی ضرورت سمجھتا ہوں جو زمانہ گزر گیا۔
لیکن میں اتنے بڑے بڑے کبار علماء کو عقیدہ جیسے نازک اور بنیادی موضوع میں "غلطی" پر نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ اس موضوع پر "غلطی" بھی گمراہی کا دروازہ ہے۔ بلکہ اس کے بجائے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم ان کی بات کو درست طریقے سے سمجھ نہیں رہے۔
اور ایسا کسی حد تک درست بھی ہے۔ مثال کے طور پر اوپر جو تقسیم کی گئی ہیں:
1- الٰہیات (عقلیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیادی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔

2-شرعیات (سمعیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّت کو بھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
یہی تقسیم تقریبا اشاعرہ کے ہاں بھی ہے۔ لیکن اس تقسیم کی انٹرپریشن یا وضاحت صحیح طریقے سے نہیں کی گئی ہے۔
الہیات وہ بنیادی عقائد ہیں جن پر قرآن و حدیث کا حجت ماننا موقوف ہے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالی کا وجود، صفات ثمانیہ یا سبعہ (علی اختلاف الاقوال) وغیرہ۔ یہ عقل سے ہی سمجھ میں آتے ہیں۔ اگر عقل سلیمہ ہو تو خود ہی سمجھ میں آ جاتے ہیں اور اگر عقل سلیمہ نہ ہو تو دلائل سے سمجھ میں آتے ہیں۔
کیوں کہ اگر کوئی اللہ پاک کے وجود کا ہی قائل نہیں ہے تو اسے آپ بھلا قرآن و حدیث یا اجماع صحابہ سے کوئی دلیل کیسے دیں گے؟؟؟
خود قرآن کریم میں بھی ایسے لوگوں کو عقلی دلائل دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
یہ خالصتا عقل استعمال کرنے اور نفس قرآن میں تدبر کرنے کا حکم ہے۔ یہاں استنباط کا کوئی حکم نہیں ہے۔
تو یہ وہ بنیادی عقائدہوتے ہیں جن پر بنیادی دلائل اور مآخذ بھی موقوف ہیں۔

شرعیات وہ عقائد ہیں جو بنیادی مآخذ (یعنی قرآن، سنت، اجماع) سے ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن علم الکلام میں ان کے اثبات پر اشاعرہ اور ماتریدیہ عقلی دلائل دیتے ہیں اور انہیں عقلی دلائل سے ثابت کرتے ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ "عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے" یہ درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اگر آپ اشاعرہ کی کتب پڑھیں تو وہ عقیدہ لیتے مآخذ سے ہیں اور اس پر درحقیقت یہ بحث نہیں کرتے کہ یہ عقیدہ عقلا درست ہے یا نہیں بلکہ وہ اسے عقلا درست ثابت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بسا اوقات بعید عقلی تاویلات بھی کر جاتے ہیں۔ یعنی وہ نقل اور عقل کے درمیان تعارض نہیں پیدا کرتے بلکہ ہمیشہ موافقت ہی پیدا کرتے ہیں۔
اسی کو استاد سعید فودہ نے یوں کہا ہے:

ولا يجوز القول بأننا -علماء الكلام- نقدم العقل على النقل، ولا بأننا نقدم النقل على العقل، لأن كلا من القولين إنما يبنى على تسليم أمر ممنوع، وهو: وجود تعارض بين العقل والنقل، وهذا باطل قطعا كما يفهمه النبيه. وإذ لا تعارض فلا تقديم
بحوث فی علم الکلام۔ 26
اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے معتزلہ اور اشاعرہ کے درمیان فرق ظاہر ہوتا ہے۔ اشاعرہ اور ماتریدیہ میں بہت کم فرق ہے بلکہ یوں کہیں کہ تعبیر کا فرق ہے تو زیادہ بہتر ہے۔

ہاں اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک چیز نقلا ثابت ہو گئی تو پھر اسے عقل سے ثابت کرنے یا دلائل دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تو اگر آپ کے پاس روز عوام آئیں اور آپ سے کہیں کہ فلاں عقیدہ ہمیں عقل سے سمجھا دیں، اور آپ نہ سمجھائیں تو کسی شیعہ کے پاس جائیں اور وہ سمجھا کر اپنی طرف مائل کر لے تو آپ کتنے روز تک عقلی دلائل اور عقلی اثبات سے دور رہیں گے؟ یہ حال معتزلہ وغیرہ کے دور میں تھا۔
اور اگر آپ ذرا سی نظر تاریخ پر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جب تک وہ علماء موجود تھے جن کے دلائل خالصتا منقولی ہوتے تھے اور وہ سلف کے طریقے پر تھے تب تک معتزلہ ترقی کرتے رہے اور جیسے ہی اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیره عقلی دلائل لے كر آئے تو معتزلہ کا زور ٹوٹتا گیا۔ ورنہ دلائل نقلیہ کے لحاظ سے امام احمد کم نہیں تھے۔
اسی لیے میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ اس دور کی ضرورت تھی اور آج اسے اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
و اللہ اعلم
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
دیوبندیوں کا عقیدہ وحدت الوجود

سوال: میں دیوبندی حنفی مذہب سے تعلق رکھتا ہوں، اور دیوبندیوں کے مذہبی رہنماؤں کا عقیدہ وحدت الوجود کاہے ؛ لہذا میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا کفر ہے؟

الحمد للہ:
اول:
دیوبندیوں کے متعلق تفصیلی گفتگو، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان کے عقائد سے بالکل بری ہیں ،ایسے مصادر و مراجع کے ساتھ بیان کی گئی ہے جو دیوبندیوں کے عقائد، نظریات اور اہداف کی وضاحت کرتے ہیں، ہماری ویب سائٹ پر گزر چکی ہے ، اس گفتگو کو پڑھنے کے لیے ملاحظہ کریں فتوی نمبر: (22473) اور(150090)
دوم:
جو شخص دیوبندی مذہب، اس کے مراحل اور ان کے ائمہ کے عقائد پر گفتگو کرنے والے لٹریچر کا مطالعہ کرے گا اس کیلئے یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ ان کے مشہور قائدین عقیدہ بیان کرتے ہوئے تناقض اور تصادم کا شکار ہیں، یا کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بعض عقائد میں تناقض پایا جاتا ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ اس فرقہ نے عقائد کو ان آلائشوں سے پاک وصاف کرنے کا کوئی اہتمام نہ کیا جن سے عقیدہ گدلا ہو جاتا ہے، اور نہ ہی تحقیق و سوچ و بچار کے طریقہ کار میں نکھار کے لئے کوئی جد و جہد کی، ہاں ایک چیز ان میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان کے عقیدہ میں فاسد نظریات اور باطل اعتقادات کی بھر مار ہے جو کہ سراسر قرآن و حدیث اور اجماعِ علما کے مخالف ہیں ۔
ان باطل عقائد میں سے ایک نظریہ "وحدت الوجود" بھی ہے یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ہر موجود چیز بذات خود اللہ ہے، اس عقیدہ کے حاملین کو "اتحادیہ" بھی کہا جاتا ہے، یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ تمام موجودات متعدد وجود کی بجائے ایک ہی وجود بن گیا ہے !!
ان لوگوں کے ہاں اس عقیدے کا حامل ہی موحد ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسے لوگ توحید سے کوسوں دور ہیں۔
اس عقیدہ کی تعریف اور اس کے باطل ہونے کی مکمل وضاحت فتوی نمبر : (147639)اور (163948) میں گزر چکی ہے ۔
اس عقیدے کا اقرار دیوبندیوں کے اکابر ائمہ اس قدر وضاحت سے کر چکے ہیں کہ جس سے کوئی بھی منصف مزاج محقق انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی کوئی حیلہ جوئی کر سکتا ہے، ہم یہاں چند واضح اور صریح اقوال نقل کرتے ہیں ،ایسے اقوال ذکر نہیں کرینگے جن کی تاویل کی جاسکتی ہے تاکہ گفتگو طوالت اختیار نہ کر جائے:
دیوبندیوں کے شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (متوفی 1317ھ)کا کہنا ہے کہ :
"وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا ہی حق اور سچ ہے" انتہی
شیخ امداد اللہ کی تصنیف "شمائم امدادیہ "(ص/32)
بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ:
"عابد اور معبود کے درمیان فرق کرنا ہی صریح شرک ہے " صفحہ: (37)
اور تلبیس ابلیس کے زیر اثر ان غلط نظریات کیلئے بے مہار وسعت سے کام لیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس خطرناک بات کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا :
"بندہ اپنے وجود سے پہلے مخفی طور پر رب تھا اور رب ہی ظاہر میں بندہ ہے"[العیاذباللہ]
دیکھیں: "شمائم امدادیۃ "صفحہ: (38)
فضل حق خیر آبادی کا لکھنا ہے کہ:
"اگر رسولوں کو وحدت الوجود کی طرف دعوت کا مکلف ٹھہرایا جاتا تو رسولوں کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا، چنانچہ ان کو حکم ہوا کہ وہ لوگوں کی عقل و سمجھ کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعوت دیں "
دیکھیں: کتاب "الروض المجود" از: فضل حق خیر آبادی صفحہ: (44)
محمد انور شاہ کشمیری (متوفی1352ھ)جن کو امام العصر کا لقب دیا گیا ہے، ایک حدیث کی شرح میں انکا لکھنا ہے کہ:
"حدیث میں وحدت الوجود کی طرف اشارہ ملتا ہے، ہمارے مشائخ شاہ عبد العزیز کے زمانے تک اس مسئلہ کے بڑے گرویدہ تھے، لیکن میں اس مسئلہ میں متشدد نہیں ہوں "
دیکھیں: "فیض الباری شرح صحیح البخاری"(4/428)
صوفی اقبال محمد زکریا کاندہلوی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اس نے ہمیں وحدت الوجود کا راز معلوم کروایا، وہ ایسے کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ عشق، معشوق اور عاشق سب ایک ہی ہیں "انتہی
ماخوذ از کتاب: "محبت" صفحہ: (70)
"تعلیم الاسلام" کے مصنف کا کہنا ہے کہ:
"یہاں پر تصوف کا ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے اور وہ ہے " وحدت الوجود" جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر موجود چیز اللہ ہے، اور اس کے علاوہ کسی وجود کا ہونا صرف وہم اور خیال ہے ۔۔۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ مشائخ کا یہ کہنا کہ اللہ کے علاوہ کوئی وجود نہیں، بالکل درست ہے۔
دیکھیں: کتاب "تعلیم الاسلام" صفحہ:( 552)
یہ تمام اقتباس ہم نے شیخ ابو اسامہ سید طالب الرحمن (مدیر: المعھد العالی راولپنڈی، پاکستان)کی کتاب "الدیوبندیہ"(ص/29-42) مطبوعہ دار صمیعی (1998ء)سے نقل کی ہیں۔
چونکہ وہ تمام مراجع جن سے عبارات نقل کی گئی ہیں عربی میں نہیں ہیں ،مزید یہ کہ دیوبندی علماء کی عربی تصنیفات بہت کم ہیں، اس لئے ہم براہ راست ان کتابوں سے رجوع نہیں کر سکے ، اور اسی لئے اس کتاب[الدیوبندیہ]پر اعتماد کیا گیا ہے کیونکہ یہ کتاب اس بارے میں اہم مأخذ ہے۔
سوم:
عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر علما کا اتفاق ہے ، ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ}
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]
ایک جگہ فرمایا:
{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
دیکھیں: کیسے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر کفر کا حکم لگایا ہے جنہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا حصہ قرار دیا، اور بعض مخلوق کی اللہ تعالی کیساتھ رشتہ داری بیان کی ،تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو خالق اور مخلوق کا ایک ہی وجود مانے!؟
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے!! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
{ أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا }
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ}
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]
چنانچہ جواس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
مزید بر آں جو قباحتیں وحدت الوجود کے دعوے سے لازم آتی ہیں ،اس باطل عقیدے کی تردید کے لئے کافی ہیں ، جواس عقیدے پر ایمان لے آتا ہے تو اس کی حالت اسے بد کاری کے حلال اور ایمان و کفر کے درمیان برابری قرار دینے پر مجبور کر دے گی، کیونکہ ان کے وہم و گمان کے مطابق دعوی یہ ہے کہ عقائد کا انحصار ایک وجود کے ساتھ ایمان لانے پر ہے ، اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ عز و جل کی گھٹیا ترین مخلوقات، چوپاؤں ، پلید اشیا وغیرہ کی طرف کی جائے ، اللہ تعالی ان کے شاخسانوں سے بہت بلند و بالا ہے ۔
ہم یہاں انہی دیوبندیوں ہی کی کتابوں سے بعض ایسی باطل چیزوں کا ذکر کریں گے جو اس عقیدے کی وجہ سے لازم آتی ہے [یعنی ایسی چیزیں جواس عقیدہ کو ماننے سے ماننا پڑیں گی] اگر ہم دیگر مسالک کی قدیم و جدید کتب سے یہ لوازم ذکر کرنا شروع کر دیں تو بات بہت طول اختیار کر جائے گی۔
امتِ دیوبند کے حکیم اشرف علی تھانوی (1362ھ) امداد اللہ مکی -جو دیوبندیوں کے مرشدِ اول ہیں- سے بیان کرتے ہیں:
"کہ ایک موحد [ان کے مطابق ایسا شخص جو وحدت الوجود کا قائل ہو]سے یہ کہا گیا کہ:
" اگر مٹھائی اور پا خانہ ایک ہی چیز ہیں تو دونوں کھا کر دکھاؤ" !تو اچانک اس موحد نے ایک خنزیر کا روپ دھارا اور پا خانہ کھا گیا[!!]، پھر آدمی کی صورت اختیار کر کے مٹھائی کھا گیا "
پھر لا دینیت اور صنم پرستی پر مشتمل سطور بالا کو نقل کر کے اس کی شرح میں اشرف علی جنہیں [ان کے ہاں ]حکیم الامت !! کا لقب دیا جاتا ہے ان کا لکھنا ہے:
"یہ اعتراض کرنے والا بھی کوئی بے وقوف ہی تھا؛ اسی لئے موحد کو ایسا مجبوراً کرنا ، ورنہ جواب تو واضح تھا، وہ یہ کہ مٹھائی اور پاخانہ حقیقت میں ہی چیز ہیں اگر چہ ان کا حکم اور اثرات مختلف ہیں "
دیکھیں: اشرف علی تھانوی کی کتاب "امدادالمشتاق" صفحہ: ( 101)
یہ عبارت ہم نے شمس الدین افغانی کی کتاب "جھودعلماءالحنفیۃ فی ابطال عقائدالقبوریۃ" (2/790۔791)سے نقل کی ہے
رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے:
"سہارنپور شہر کی بہت سی زانیہ عورتیں پیر ضامن علی جلال آبادی –جو کہ دیوبندیوں کے اکابرین میں سے ہیں- ان کی مرید تھیں ، ایک دن آپ ان میں سے کسی ایک کے ہاں قیام فرما تھے، کہ سبھی وہاں جمع وہاں ہوگئیں لیکن ان میں سے ایک غائب تھی، شیخ نے اس کے غائب ہونے کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ: حضور ہم نے تو اسے آپ کی زیارت کیلئے لانے کیلئے بڑے جتن کئے، لیکن اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا: "میں گناہوں میں لت پت ہوں، کالے منہ کو لیکر کیسے پیر صاحب کے سامنے آسکتی ہوں"؟ ۔پیر صاحب نے اصرار کیا کہ اسے ضرور حاضر کیا جائے، جب وہ اسے لیکر آئیں اور وہ پیر صاحب کے سامنے کھڑی ہوئی ۔۔۔ تو پیر صاحب نے کہا: شرماتی کیوں ہو ؟کرنے والا اور کرانے والا خود وہی تو ہے [!!] جوں ہی اس فاحشہ نے پیر صاحب کی یہ بات سنی تو غصے سے لال پیلی ہو کر بولی: " لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،میں اگرچہ نافرمان اور سیاہ کار ہوں لیکن میں اس جیسے پیر سے مکمل طور پر بری ہوں اور فورا! وہاں سے اٹھی اور چلی گئی اور پیر صاحب ندامت اور شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے"
مکمل قصہ ملاحظہ فرمائیں عاشق الہی میرٹھی کی کتاب "تذکرۃ الرشید" (2/242)
ہم نے اسے شیخ ابو اسامہ کی کتاب "الدیوبندیہ "صفحہ: ( 40)سے نقل کیا ہے ۔
ہم اللہ سے سلامتی و عافیت کا سوال کرتے ہیں ،اور ہدایت سے بھٹکے لوگوں کی ہدایت کی امید کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے "
"درء تعارض العقل و النقل "(1/283)
اور مزید کہتے ہیں:
" اتحادِ مطلق کا نظریہ وحدت الوجود کے قائلین کا ہے، انکا یہ دعوی ہے کہ مخلوق کا وجود اللہ ہی کا وجود ہے، یہ حقیقت میں [مخلوق کو ] بنانے والے[اللہ تعالی ]کی نفی اور اس کا انکار ہے، بلکہ یہ عقیدہ تمام شرکیات کا مجموعہ ہے "
"مجموع الفتاوی "(10/59)
مزید کہتے ہیں:
"ایک عقیدہ "وحدت الوجود "جس کے مطابق : خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے"
"مجموع الفتاوی"(18/222)
اس عقیدے کے لوازم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا:
"اس-ابن عربی - کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ تمام کائنات کا وجود-بشمول کتے، خنزیر، گندگی، پیشاب و پاخانہ ،کفار اور شیاطین - عین حق تعالی کاہی وجود ہے، اور کائنات کی تمام اشیا زمانہ قدیم سے ہی موجود ہیں، اللہ تعالی نے ان کو نئے سرے سے پیدا نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالی کا وجود ان تمام چیزوں [یعنی تمام صاحب الوجود موجودات]میں ظاہر ہوا، اللہ کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ان ذوات کے علاوہ کسی اور چیز میں اپنے وجود کو ظاہر کرے، یہ تمام چیزیں احکامات کی شکل میں اس کی غذا ہیں اور وہ [حق تعالی]وجود کے ذریعے ان مخلوقات کی غذا ہے، اللہ ان کی اور یہ اللہ کی عبادت کرتی ہیں ،اور یہ کہ خالق کی ذات بعینہ مخلوق کی ذات ہے، اور حق تعالی کی ذات جو ہر نقص و عیب اور مشابہت سے پاک ہے وہ بعینہ ایسی مخلوق کی ذات ہے جو دوسروں سے مشابہت رکھتی ہے ،اور یہ کہ خاوند ہی بیوی ہے ،گالی دینے والا خود اپنی ذات کو ہی گالی دے رہا ہے ،اور یہ کہ بتوں کے پجاری در اصل اللہ ہی کی عبادت کر رہے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت ممکن ہی نہیں ہے ۔
اور یہ کہ اللہ تعالی کے فرمان:
{وَقَضَی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ}
ترجمہ: تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو[الاسراء: 23]
اس میں "قَضَی" کا معنی ہے: "حکم دیا اور فیصلہ کیا" اور اللہ کا فیصلہ لامحالہ واقع ہو کر ہی رہتا ہے، چنانچہ ہر معبود میں [دراصل ]غیر اللہ کی عبادت نہیں ہے[بلکہ جس کی بھی عبادت ہو وہ دراصل اللہ ہی کی عبادت ہے ]اور یہ کہ صنم پرستوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے عبودیت کے دائرہ عمل میں سے کچھ کی عبادت کی ہے، اگر وہ ہر چیز کی عبادت کرتے تو کامل ترین عارفین [اللہ کی صحیح معرفت رکھنے والے لوگ]میں سے ہوتے، اور یہ کہ عارف کامل جانتا ہے کہ اس نے کس کی عبادت کی ہے اور [حق تعالی ] کس صورت میں ظاہر ہوا ہے تاکہ اس کی پرستش کی جائے، اور یہ کہ نوح علیہ السلام نے مذمت والے انداز میں اپنی قوم کی تعریف کی ہے، اور یہ کہ مخلوقات کی ذات بعینہ خالق کی ذات ہے، اور جناب ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کی پوجا کرنے پر قوم کی مذمت کی تو موسی علیہ السلام کی طرف سے اظہار ناراضی کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہارون علیہ السلام نے قوم پر تنگی اور سختی کی اور یہ بھی نہ جان سکے کہ انہوں نے تو صرف اللہ کی ہی عبادت کی ہے !!
اور یہ کہ جادوگروں نے فرعون کے اس قول :{أَنَا رَبُّکُمْ الْأَعْلَی} (کہ میں ہی تم سب کا معبود اکبر ہوں )[النازعات :24]اور {مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرِیْ}(میں اپنے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں جانتا) [القصص:38]کی سچائی کو جان لیا تھا ۔
اسی طرح کی اور بہت سی باتیں ماننا لازم آئیں گی، جن کا اعتقاد کوئی بھی شخص نہیں رکھتا خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی ہو، یا صابی اور مشرک، یہ تو صرف معطلہ کا مذہب ہے جو مخلوق کو بنانے والے اللہ تعالی کے وجود کے ہی منکر ہیں ،وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمام جہانوں کا پالنہار ہے اور تمام مخلوقات کو بنانے والا ہے ۔فرعون اور قرامطہ باطنیہ فرقہ جو رب العالمین کے انکاری ہیں ،ان کے نظریات کی حقیقت اور مطلب یہی ہے " انتہی
"جامع المسائل "ساتوں ایڈیشن(1/247-248)
واللہ اعلم.
حوالہ
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ۔۔۔ہردور میں علم کلام جو اختیار کیا جاتا ہے ۔۔۔وہ اس دور کے باطل فکر کے انداز کے رد کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے ۔۔۔اسی لئے بعض اہل سنت کے نظریات آپس میں بظاہر مختلف ہونے کے باوجود ۔۔۔صحیح ہوسکتے ہیں۔۔۔
کلام کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کی ذات ۔۔۔۔اور تقدیر کے بارے میں غور وخوض سے منع کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔لیکن کیا کیجئے کے آج کل کا ہر ملحد سوال ہی ان پر کرے تو ۔۔۔۔بولنا مجبوری نہیں تو کیا بلکہ ضرورت ہے ۔۔۔اس میں پھر جو تعبیر پیش کی جاتی ہے اس میں زمان و عصر کا لحاظ ہوتا ہے ۔۔۔۔اور یہی قرآن مجید کی زبان میں مجادلہ احسن ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثلاََ ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مسئلہ ہے ۔۔۔عورت کو مار پیٹ کا۔۔۔اس بارے میں تفسیر کی کسی کتاب میں غالباََ ۔۔جصاصؒ کی تفسیر میں ۔۔۔مسواک جتنی لکڑی کا ذکر ہے ۔۔۔اب آج دیکھنے والے نے لکڑی سے ڈنڈا مراد لیا اور ۔۔۔آگے ۔۔۔اس میں جتنا مرضی نمک مرچ لگا دیں۔۔
لیکن دور حاضر کے انداز سے واقف ۔۔۔محترم ڈاکٹر ذاکر نائک نے اس کی تعبیر کی تو یہ کہاکہ ۔۔۔بھئی اس کا مطلب ہے ۔۔۔جیسے ٹوتھ برش سے مار۔۔۔اور ٹوتھ برش جیسی چھوٹی چیز سے مار ظاہر ہے تکلیف دینے کے لئے نہیں بلکہ علامتی مار ہے ۔۔۔۔
اور یہ توجیہ سامنے بیٹھے لاکھوں لوگ سن بھی رہے ہیں ۔۔۔اور دل کو بھی لگ رہی ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشعری ، ماتریدی ۔۔۔کا سخن باطل فرقوں معتزلہ وغیرہ کی طرف تھا۔۔۔لیکن بظاہر ۔۔۔اس کا اختلاف حنبلیہ سے ہوجاتا۔۔۔
مثلاََایک باطل فرقہ ہے مرجئہ ۔۔۔اس کااور حنفیہ کا ’’بظاہر‘‘۔۔۔ایمان کی تعریف میں کچھ ملتا جلتا موقف تھا۔۔۔لیکن حنفیہ کی کتب میں بہت کلیئر ان کا فرق بتایا جاتا ہے ۔۔۔
مثلاََ فقہ اکبر ، یا عقیدہ طحاویہ وغیرہ۔۔۔۔۔لیکن بعض اس میں فرق نہ کر سکے ۔۔۔۔
متاخرین کے بڑے علما ۔۔۔الذہبیؒ ، ابن تیمیہؒ ، ابن ابی العزؒ ۔۔۔اس کو لفظی اختلاف ہی کہتے۔۔۔
عقیدہ طحاویہ ۔۔۔جس کو شرقاََ غرباََ سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ ہر جگہہ ہر مسلک میں ۔۔۔پڑھا پڑھایا جاتا ہے ۔۔۔۔
لیکن کیا کیجئے کہ۔۔۔ آج کل پھر اس پر بعض کو اعتراض ہے ۔۔۔۔وہ چاہتے ہیں کہ نہیں بھئی ۔۔۔یہ لفظی نہیں۔۔۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔اس لئے کہ آج کل پھر مزاج کی شدت سے دوسری طرف سے ایسے حملے ہوتے ہیں کہ دوسرے ان کو وہابیہ ۔مجسمہ ۔۔کہتے ہیں۔۔۔تو اس لئے پھر یہ اختلاف پھر شروع ہوگیا۔
جیسے مرجئہ کا ’’بظاہر ‘‘ حنفیہ سے ایمان کی تعریف ملتی جلتی ہے ۔۔۔تو ائمہ ثلاثہ کی تعریف ایمان بھی ’’بظاہر‘‘معتزلہ سے ملتی ہے ۔۔۔لیکن دونوں میں بہت فرق ہے ۔۔۔
یہ تو دیکھنے کا انداز ہے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے محترم معتدل مزاج اور داعی صفت ۔۔۔۔[SIZE=6][FONT=Jameel Noori Nastaleeq][COLOR=rgb(109, 63, 3)]@طاہر اسلام[/COLOR][/FONT][/SIZE] بھائی ۔۔۔نے پچھلے دنوں ۔۔۔امام باقلانیؒ پہ کلام کیا۔۔۔جس میں موضوع بحث ۔۔۔استوی کا لغوی مطلب تھا۔۔۔
لیکن میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ اس کو اس طرح دیکھیں ۔۔مثبت انداز سے۔۔۔کہ باقلانیؒ مطلقاََ تو کوئ بدعتی ضعیف یا کم درجہ نہیں۔۔۔۔بلکہ جیسا کہ سیر اعلام ذہبیؒ ۱۷۔۱۹۰میں ہے

الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، أَوْحَدُ المُتَكَلِّمِيْن، مُقَدَّم الأُصُوْلِيين
وَكَانَ ثِقَةً إِمَاماً بَارِعاً
سيف السُّنَّة، وَلسَان الأُمَّة،
المُتَكَلِّمُ عَلَى لِسَانِ أَهْلِ الحَدِيْثِ

ان کی وفات پہ کہا گیا۔۔۔۔۔۔ هَذَا نَاصِرُ السُّنَّة وَالدّينِ، وَالذَّابُّ عَنِ الشَّرِيْعَة
تو ان کے کلام کے اچھے معنی اگر بیان کردیں تو کیسا ۔۔۔چہ جائیکہ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے۔
ان کا روئے سخن سلفیہ کی جانب کیوں سمجھتے ہیں ۔۔۔۔بلکہ جیسا کہ سیر اعلام میں ہے ۔۔۔

صَنَّفَ فِي الرَّدِّ عَلَى الرَّافِضَةِ، وَالمُعْتَزِلَةِ، وَالخَوَارِجِ وَالجَهْمِيَّة وَالكَرَّامِيَّة، وَانْتَصَرَ لِطَرِيْقَةِ أَبِي الحَسَنِ الأَشْعَرِيّ
تو پھر ان کے مخاطب بھی وہی ہیں ۔۔۔
اور ان کے مخاطب ’’استوی ‘‘ کے معنی استقرار والے وہ ہوں جو استقرار بمعنی جلوس لیتے ہوں ۔۔۔۔
اور کئی غلو کرنے والے لیتے بھی تھے ۔۔۔
آخر لغت میں موجود صحیح معنی سے بھی کوئی غلط مطلب لے سکتا ہے ۔۔۔ ’’خاتم‘‘ اس کی مثال ہے ۔
یہ بس معاملے کو مثبت نظر سے دیکھنے کی بات ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسئلہ کسی طرف سے مزاج کی شدت سے اختلاف کو وسیع کر دیتا ہے ۔۔ ۔۔۔ایک طرف سے دوسری کو اہل بدعت کہا جائے ۔۔۔یا دوسری طرف سے پہلی کو مجسمہ کہہ دیا جائے ۔۔۔
اس معاملے میں دور متقدمین میں خلق قرآن کا مسئلہ بھی پیش کیا جاسکتاہے ۔۔۔جس میں شدت اس حد تک پہنچ گئی کہ امام بخاریؒ تک کو اس میں معاف نہ کیا گیا۔۔۔دوسری طرف بھی کوئی بدعتی نہیں۔۔۔حدیث کے بڑے امام ہی تھے۔۔۔
جیسے ایک حوالہ میں پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔اس میں نامور حنبلی اثر ی عالم کچھ اس نظر سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔ان کی عقیدہ کی کتا ب بھی کافی مشہور ہے ۔۔۔

محمد بن أحمد بن سالم السفاريني الاثری الحنبلي1188ه
بہت بڑے محدث فقیہ ہیں
ان کی کتب مشہور ہیں ۔ ان میں سے بعض یہ ہیں ۔ جو تمام شائع ہو چکیں ۔

شرح ثلاثيات أحمد
البحور الزاخرة في علوم الآخرة
كشف اللثام في شرح عمدة الأحكام
۔ ۷ جلد میں
نتائج الأفكار في شرح حديث سيد الاستغفار.
الأجوبة النجدية عن الأسئلة النجدية.

ان کی ایک عقیدہ پر ایک منظوم کتاب ہے ۔
العقيدة السفارينية = الدرة المضية في عقد أهل الفرقة المرضية
اس کی کئی شروح ہیں ۔۔جن میں سے شیخ صالح الفوزانؒ کی شرح بھی ہے ۔
اس کی مصنف نے خود بھی شرح کی ہے ۔ جس کا نام ہے

لوامع الأنوار البهية وسواطع الأسرار الأثرية لشرح الدرة المضية في عقد الفرقة المرضية
یہ سلفی عقیدہ کی جامع کتاب ہے ۔
کچھ اقتباسات اس کے دیکھیں ۔۔۔

ج۱ص۲۰

[التَّعْرِيفُ السَّابع بيان المراد بمذهب السلف]
الْمُرَادُ بِمَذْهَبِ السَّلَفِ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ الْكِرَامُ - رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ - وَأَعْيَانُ التَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ وَأَتْبَاعُهُمْ وَأَئِمَّةُ الدِّينِ مِمَّنْ شُهِدَ لَهُ بِالْإِمَامَةِ، وَعُرِفَ عِظَمُ شَأْنِهِ فِي الدِّينِ، وَتَلَقَّى النَّاسُ كَلَامَهُمْ خَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ، دُونَ مَنْ رُمِيَ بِبِدْعَةٍ، أَوْ شُهِرَ بِلَقَبٍ غَيْرِ مَرْضِيٍّ مِثْلِ الْخَوَارِجِ وَالرَّوَافِضِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَالْمُرْجِئَةِ وَالْجَبْرِيَّةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَالْكَرَّامِيَّةِ، وَنَحْوِ هَؤُلَاءِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَوْ مَالَ إِلَيْهِ سَيِّدَنَا وَقُدْوَتَنَا الْإِمَامَ الْمُبَجَّلَ، وَالْحَبْرَ الْبَحْرَ الْمُفَضَّلَ، أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْإِمَامَ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ.
نُسِبَ مَذْهَبُ السَّلَفِ إِلَيْهِ،
وَعُوِّلَ أَهْلُ عَصْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْحَقِّ فَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَيْهِ، وَإِلَّا فَهُوَ الْمَذْهَبُ الْمَأْثُورُ، وَالْحَقُّ الثَّابِتُ الْمَشْهُورُ لِسَائِرِ أَئِمَّةِ الدِّينِ، وَأَعْيَانِ الْأُمَّةِ الْمُتَقَدِّمِينَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هَذَا مَذْهَبُ أَئِمَّةِ الْعِلْمِ، وَأَصْحَابِ الْأَثَرِ الْمَعْرُوفِينَ بِالسُّنَّةِ، الْمُقْتَدَى بِهِمْ فِيهَا، وَأَدْرَكْتُ مَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ عُلَمَاءِ الْعِرَاقِ وَالْحِجَازِ وَالشَّامِ عَلَيْهَا، فَمَنْ خَالَفَ شَيْئًا مِنْ هَذِهِ الْمَذَاهِبِ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا، أَوْ عَابَ قَائِلَهَا، فَهُوَ مُبْتَدِعٌ خَارِجٌ عَنِ الْجَمَاعَةِ، زَائِلٌ عَنْ سَبِيلِ السُّنَّةِ وَمَنْهَجِ الْحَقِّ. قَالَ: وَهُوَ مَذْهَبُ الْإِمَامِ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَمِمَّنْ أَلَّفَ فِي عَقَائِدِ السَّلَفِ،
وَذَكَرَ مُعْتَقَدَهُمْ فِي كُتُبِ التَّفْسِيرِ الْمَنْقُولَةِ عَنِ السَّلَفِ
مِثْلَ تَفْسِيرِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ،
وَتَفْسِيرِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَبَقِيِّ بْنِ مَخْلَدٍ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمُحَمَّدِ بْنِ جَرِيرٍ الطَّبَرِيِّ، وَأَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْذِرِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَغَيْرِهِمْ.
وَكَذَلِكَ الْكُتُبُ الْمُصَنَّفَةُ فِي السُّنَّةِ وَالرَّدِّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ، وَأُصُولِ الدِّينِ الْمَنْقُولَةِ عَنِ السَّلَفِ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَالْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ
وَالسُّفْيَانَانِ وَالْحَمَّادَانِ وَابْنَا أَبِي شَيْبَةَ
وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَالْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَغَيْرُ هَؤُلَاءِ كُلُّهُمْ عَلَى عَقِيدَةٍ وَاحِدَةٍ سَلَفِيَّةٍ أَثَرِيَّةٍ،
وَإِنْ كَانَ الِاشْتِهَارُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - لِلْعِلَّةِ الَّتِي ذَكَرْنَاهَا، حَتَّى إِنَّ الشَّيْخَ أَبَا حَسَنٍ الْأَشْعَرِيَّ قَالَ فِي كِتَابِهِ - الْإِبَانَةِ فِي أُصُولِ الدِّيَانَةِ - مَا نَصُّهُ بِحُرُوفِهِ: " فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: قَدْ أَنْكَرْتُمْ قَوْلَ الْمُعْتَزِلَةِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْحَرُورِيَّةِ وَالرَّافِضَةِ وَالْمُرْجِئَةِ، فَعَرِّفُونَا قَوْلَكُمُ الَّذِي بِهِ تَقُولُونَ، وَدِيَانَتَكُمُ الَّتِي بِهَا تَدِينُونَ، قِيلَ لَهُ: قَوْلُنَا الَّذِي بِهِ نَقُولُ، وَدِيَانَتُنَا الَّتِي بِهَا نَدِينُ، التَّمَسُّكُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَمَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَأَئِمَّةِ الْحَدِيثِ، فَنَحْنُ بِذَلِكَ مُعْتَصِمُونَ، وَبِمَا كَانَ عَلَيْهِ الْإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ - نَضَّرَ اللَّهُ وَجْهَهُ - قَائِلُونَ، وَلِمَنْ خَالَفَ قَوْلَهُ مُجَانِبُونَ ; لِأَنَّهُ الْإِمَامُ الْفَاضِلُ، وَالرَّئِيسُ الْكَامِلُ، الَّذِي أَبَانَ اللَّهُ بِهِ الْحَقَّ عِنْدَ ظُهُورِ الضَّلَالِ، وَأَوْضَحَ بِهَا الْمِنْهَاجَ، وَقَمَعَ بِهِ الْمُبْتَدِعِينَ، فَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ مِنْ إِمَامٍ مُقَدَّمٍ، وَكَبِيرٍ مُفَهَّمٍ، وَعَلَى جَمِيعِ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَنَسَبَ الْمَذْهَبَ إِلَيْهِ لِاشْتِهَارِهِ بِذَلِكَ،
مَعَ أَنَّ سَائِرَ أَئِمَّةِ الدِّينِ سَلَكُوا تِلْكَ الْمَسَالِكَ
، وَبِاللَّهِ التَّوْفِيقُ.۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے عنوان قائم کرتے ہیں۔۔۔

[التَّعْرِيفُ التاسع مَذْهَبُ السَّلَفِ هُوَ الْمَذْهَبُ الحق]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَالصَّوَابُ مَا عَلَيْهِ السَّلَفُ الصَّالِحُ مِنْ إِمْرَارِ آيَاتِ الصِّفَاتِ وَأَحَادِيثِهَا كَمَا جَاءَتْ،
مِنْ غَيْرِ تَكْيِيفٍ وَلَا تَمْثِيلٍ،
وَلَا يَصِحُّ عَنْ أَحَدٍ مِنَ السَّلَفِ خِلَافُ ذَلِكَ أَلْبَتَّةَ، خُصُوصًا الْإِمَامَ أَحْمَدَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ أَيْضًا: وَفِي زَمَانِنَا تَتَعَيَّنُ كِتَابَةُ كَلَامِ أَئِمَّةِ السَّلَفِ الْمُقْتَدَى بِهِمْ إِلَى زَمَنِ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَأَبِي عُبَيْدٍ،
وَلْيَكُنِ الْإِنْسَانُ عَلَى حَذَرٍ مِمَّا حَدَثَ بَعْدَهُمْ،
فَإِنَّهُ حَدَثَ بَعْدَهُمْ حَوَادِثُ كَثِيرَةٌ،
وَحَدَثَ مَنِ انْتَسَبَ إِلَى مُتَابَعَةِ السُّنَّةِ وَالْحَدِيثِ مِنَ الظَّاهِرِيَّةِ وَنَحْوِهِمْ،
وَهُوَ أَشَدُّ مُخَالَفَةً لَهَا ; لِشُذُوذِهِ عَنِ الْأُمَّةِ،
وَانْفِرَادِهِ عَنْهُمْ بِفَهْمٍ يَفْهَمُهُ،
أَوْ بِأَخْذِ مَا لَمْ تَأْخُذْ بِهِ الْأُمَّةُ مِنْ قَبْلِهِ،
وَأَمَّا الدُّخُولُ مَعَ ذَلِكَ فِي كَلَامِ الْمُتَكَلِّمِينَ وَالْفَلَاسِفَةِ فَشَرٌّ مَحْضٌ،
وَقَلَّ مَنْ دَخَلَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلَّا وَتَلَطَّخَ بِبَعْضِ أَوْضَارِهِمْ، كَمَا قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
لَا يَخْلُو مَنْ نَظَرَ فِي الْكَلَامِ إِلَّا تَجَهَّمَ.
وَكَانَ هُوَ وَغَيْرُهُ يُحَذِّرُونَ مِنْ أَهْلِ الْكَلَامِ، وَإِنْ ذَبُّوا عَنِ السُّنَّةِ، وَأَمَّا مَا يُوجَدُ فِي كَلَامِ مَنْ أَحَبَّ الْكَلَامَ الْمُحْدَثَ، وَاتَّبَعَ أَهْلَهُ مِنْ ذَمِّ مَنْ لَا يَتَوَسَّعُ فِي الْخُصُومَاتِ وَالْجِدَالِ وَنِسْبَتِهِ إِلَى الْجَهْلِ أَوِ الْحَشْوِ، أَوْ إِلَى أَنَّهُ غَيْرُ عَارِفٍ بِاللَّهِ أَوْ بِدِينِهِ، فَمِنْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْهُ. انْتَهَى مُلَخَّصًا.

ان اقتباسات سے ظاہر ہورہا ہے کہ مصنف سلفی اثری عقیدہ کے حامل ہیں ۔۔۔

اس سب کے ساتھ۔۔۔۔ص۷۰ پہ عنوان قائم کرتے ہیں

[الفائدة الرابعة التعريف بأهل السنة]
(الرَّابِعَةُ) : أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ ثَلَاثُ فِرَقٍ:
الْأَثَرِيَّةُ وَإِمَامُهُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
وَالْأَشْعَرِيَّةُ وَإِمَامُهُمْ أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ،
وَالْمَاتُرِيدِيَّةُ وَإِمَامُهُمْ أَبُو مَنْصُورٍ الْمَاتُرِيدِيُّ،
وَأَمَّا فِرَقُ الضَّلَالِ فَكَثِيرَةٌ جِدًّا، وَهَذَا أَوَانُ الشُّرُوعِ فِي الْمَقْصُودِ، وَبِاللَّهِ التَّوْفِيقُ.
بس یہ انداز ہے دیکھنے کا ۔۔۔
اور یہ بھی تاریخ کے لئے ہے ۔ ورنہ عملاََ تو یہ تعبیرات ختم ہی ہوگئیں میرے خیال میں ۔۔۔

اگرچہ پھر اختلاف کو ہوا دی جائے تو زندہ ہو جاتے ہیں۔۔۔
اور تعبیر کسی نظریہ کے مخالف اختیار کی جاتی ہے ۔۔۔جیسے امام احمدؒ کی کیا تخصیص ہے ۔۔امام مالکؒ کیوں نہیں؟۔
اشعریؒ اور ماتریدیؒ کی کیا تخصیص ہے
اس دور کے خاص باطل نظریے کے مقابل ان کی جدوجہد کی وجہ سے ۔جو کہ ظاہر ہے ایک خاص علاقہ اور وقت ہی تھا ۔۔۔خصوصاََ اشعریؒ ماتریدیؒ ۔۔۔ورنہ تو شافعیؒ اور ابو حنیفہؒ اختیار کی تعبیر اختیار کی جاتی۔

واللہ اعلم۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں خود اگر اپنا مسلک بیان کروں تو میں حنفی ہونے کے باوجود نہ اشعری ہوں نہ ماتریدی۔ بلکہ میرے عمومی عقائد وہ ہیں جو العقیدۃ الطحاویہ میں مذکور ہیں۔ مضبوط اور ہر تاویل سے پاک۔
اشماریہ بھائی! آپ کی مذکورہ بالا بات کو پسند کرتا ہوں، اور مندرجہ ذیل بات سے اختلاف رکھتا ہوں۔
اشعریت اور ماتریدیت کو میں ایک خاص زمانے کی ضرورت سمجھتا ہوں جو زمانہ گزر گیا۔
بہر حال آپ کا مؤقف جان کر خوشی ہوئی!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کےبارے میں معروف ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر اور عقائد کے بعض معاملات میں ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں ، عذر یہ بیان کیا گیا کہ وہ مختلف فرق و ادیان کے خلاف مناظروں میں مصروف رہے ، جس کے رد میں ان سے یہ غلطیاں صادر ہوئیں ۔
یہاں ہم مولانا رحمہ اللہ کا عذر سمجھتےہیں ، لیکن جو انہوں نے غلطی کی ، اس کو غلطی ہی کہیں گے ، درست نہیں کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جناب ابن عثمان اور جناب اشماریہ

آپ دونوں بهائیوں نے آج ایک ایسی اہم بات کہی جو پسند آئی ۔ دین اسی طرح خالص ہی ہے ۔ جزاکم اللہ خیرا۔ ابن عثمان بهائی بهت زیادہ عالم ہی زمن کے فرق سے عالم کے قول کا فرق سمجہ سکتے ہیں ۔ زمن اور دور کی بات کر رہے ہیں تو فی زمانہ ساری مزاحمت اہل حدیث کے حصے میں نظر آتی ہے ۔ خالصتا اسلامی عقائد پر فی زمانہ سب سے زیادہ وہی کام کر رہے ہیں اور بجا ہے آپ کا قول کہ تمام غیر خالص اصول رکهنے والوں کا ہدف بهی اہل حدیث ہیں کیونکہ وہ ہی تو مزاحم ہیں ۔
ایسا کیوں ہے؟
جہاں تک میرا مشاہدہ ہیکہ میں نے دیکہا اہل تصوف (موجودہ تصوف جو بر صغیر میں ہے اور عام مشاهدہ میں ہے) کے اعمال و اقوال پر اہل حدیث کے علاوہ بقیہ سب یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے ، حرام ہے وغیرہ لیکن قول شدید سے یا عملی طور پر کوئی نا کہتا ہے نا کرتا ہے اور آپ دونوں سے مجہے اس فورم کے ذریعہ تعارف ہوا آپ دونوں بتائیں آپ کا تعلق جس جماعت سے ہے وہ پوری کے پوری ایک منظم جماعت ہے برصغیر کی سب سے زیادہ فعال جماعت ہے ، کیا کرتی اور کہتی ہے؟ کیا کہتی ہے؟ بالعکس تصوف کو زہد اور تقوی بتایا جاتا ہے جو کہ ہونا ہی چاہیئے اور یہ خاص ہے خواص کے لئیے ۔ عام جو کہیں اور کریں ان اقوال و اعمال کو نادانی سمجہا جاتا ہے اور یہ کم از کم میرے مشاہدہ میں ہے اس عام تصوف کو جو برصغیر کے عوام کے اقوال و اعمال میں اس سے مزاحمت کی ہی نہیں گئی ۔ اتنے بڑے غلط جس طرح اتنے ہلکے انداز میں لیا گیا یہ اپنی جگہ واقعی تعجب خیز ہے ۔
تصوف کی صحیح تعریف سے عام قطعی واقف ہی نہیں ۔ وہ تو سارا کاروبار جو صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک له کا حق ہے اس میں کئی کو شامل سمجهتا ہے اور سب خاموش ہیں ۔ یعنی بهلے ہلکی سی ہو موافقت ہے ضرور ۔
اشماری بهائی کی طرح کلین عقیدہ رکهنے والے کافی ہیں اللہ ان سب سے راضی رہے اور دین کی خدمت لے ۔ آپ جیسے بهائیوں کو اس زمانہ میں کم از کم اسلام کلین کرنے کا کام کرنا چاہیئے اور یقین کریں نا کریں اس سمت میں آپکا پہلا قدم آپکو ایک سرٹیفکٹ دلوا دیگا اور وہ گا کہ اشماریہ اہل حدیث ہو گیا ۔ تو ابن عثمان بهائی فی زمانہ اگر اہل حدیث پر لعن و طعن ہے تو اسکا سب سے بڑا سبب یہی ہے ۔ اشماریہ بهائی میں تین مختلف عرب ملکوں میں رہ چکا ہوں اہل حدیث وہاں بهی ہیں اور کافی ہیں لیکن ان کی عزت و توقیر دیکہی میں نے ۔ برعکس برصغیر میں ہم جو حالات پاتے ہیں وہ مختلف ہیں کیونکہ سب سے بڑی وجہ ہے اور وہ یہیں ہے ۔ ایک ایسا تصوف جو کسی طرح برداشت ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ پتہ نہیں علماء و اساتذہ جنکے علمی مراتب سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا برصغیر میں وہ عقائد کی اصلاح کیوں نہیں کر پائے ۔
جو کرنا چاہتے ہیں انہیں شدت پسند کہا جاتا ہے ۔ بات نا سمجہی جا سکی اور نا سمجہائی جاسکتی ہے ۔ میرے خیال سے زمن کے علاوہ جغرافیائی فرق بهی ہے ۔ برصغیر کے حالات بهی ہیں اور وہ بادشاہ اور وہ علماء بهی ہیں جنکا برصغیر میں عمل دخل رہا ہے گذشتہ صدیوں میں۔
اللہ آپ دونوں کو خوش رکہے اور ہم سب کو بہتر ہدایات دے ۔ آپ جیسوں سے کافی امیدیں ہیں اور کوششیں ضرور کریں اللہ آپ دونوں کا اور تمام مسلمین کا حامی و ناصر ہو۔

والسلام
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کےبارے میں معروف ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر اور عقائد کے بعض معاملات میں ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں ، عذر یہ بیان کیا گیا کہ وہ مختلف فرق و ادیان کے خلاف مناظروں میں مصروف رہے ، جس کے رد میں ان سے یہ غلطیاں صادر ہوئیں ۔
یہاں ہم مولانا رحمہ اللہ کا عذر سمجھتےہیں ، لیکن جو انہوں نے غلطی کی ، اس کو غلطی ہی کہیں گے ، درست نہیں کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم ۔
اگرچہ اس بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے ۔دونوں میں بہت فرق ہے ۔ اس میں تو بہت سے نامور محدثین فقہا شامل ہیں۔
لیکن فی الحال اس کو چھوڑتے ہوئے آپ کے طرز کو ہی قبول کرکے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ نے جس انداز میں ۔۔۔مولاناؒ کا تذکرہ کیا ۔۔۔یہی بہت اچھی مثال ہے ۔۔
کیا مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کو کسی اہل حدیث نے اکابر علما حدیث سے نکالا؟۔۔۔نہیں۔۔۔
اور کیا ہر جگہہ مولاناؒ کا نام آتے ہی ان کی غلطیوں کا ذکر کرنا چاہیے؟بالکل نہیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ موجودہ ہمارے بعض اہل حدیث بھائی کئ وجوہ سے اپنے اکابر سے دور ہو رہے ہیں۔۔۔
مثلاََ تمام اکابرین اہل حدیث اور آج کل کے اصل مدارس والے علماء اہل حدیث ۔۔۔محدث ہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے اپنے علمی رشتہ کو فخر سمجھتے ہیں۔۔۔اور انہیں ہند کی اسانید میں مرکزِ اسانید کی بھی حیثیت دیتے ہیں۔۔۔لیکن بعض حضرات آج ان کو بھی بدعتی افکار جیسا ثابت کرتے ہیں۔۔۔اب وہ بھی ان کے معیار پر پورے نہیں اترتے ۔۔
ان کا تعلق براہ راست عرب سے ہوگیا ہے ۔۔۔
لیکن کیا عرب علما سے غلطی کا صدور ممکن نہیں ؟ جب کے وہاں بھی کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔۔
بلکہ شاہ ولی اللہ ؒ اور مولانا ثناء الله ؒ کے خلاف فتاوی ۔۔۔اورکئی اکابر اہل حدیث علما کی عبارات کو الگ سے چھانٹ کر عرب ملکوں میں پیش کیا جائے تو وہی نتیجہ سامنے آئے گا۔۔۔جو اوپر شیخ صالح المنجدؒ کی تحاریر سے ظاہر ہے۔
 
Top