- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
سوال: کیا دیوبندی اہل سنت میں سے ہیں؟ اور کیا وہ دائرہ اسلام میں ہیں؟
الحمد للہ:
دیوبندی مسلمان جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور انڈیا کے جامعہ دار العلوم دیوبند کی طرف منسوب ہے، یہ ایک نظریاتی، اور مضبوط بنیادوں پر مبنی ادارہ ہے، جس نے اپنے ہر فاضل پر خاص علمی مہر ثبت کی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فاضل اسی نسبت سے پہچانے جاتے ہیں۔
قیام اور قابل ذکر شخصیات:
متعدد علمائے کرام کی طرف سے جامعہ دیوبند کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب 1857ء میں انگریزوں نے مسلمانوں کی تحریک ِآزادیِ ہند کو سبوتاژ کیا، چنانچہ جامعہ دیوبند نے بر صغیر پر مغربی یلغار ، اور مادی تہذیب کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ایک مضبوط ردّ عمل پیش کیا، خصوصی طور پر دہلی میں جو کہ دار الحکومت تھا؛ اسلامی تحریکوں کے کچلے جانے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا، تو اس موقع پر علماء کو بے دینی اور الحاد کا خدشہ لاحق ہوا، چنانچہ شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، انکے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی اور انکے رفقائے کرام نے اسلامی تعلیمات، اور اسلام کی حفاظت کیلئے منصوبہ بندی کی اور اس کا حل یہ سوچا کہ دینی مدارس اور اسلامی مراکز قائم کئے جائیں۔ اس طرح سے برطانوی دورِ حکومت ہی میں دیوبند کے علاقے میں ایک اسلامی عربی مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس نے ہندوستان میں دینی اور شرعی مرکز کا کردار ادا کیا۔
اس نظریاتی ادارے کی قابل ذکر شخصیات یہ ہیں:
1- مولانا محمد قاسم
2- مولانا رشید احمد گنگوہی
3- مولانا حسین احمد مدنی
4- مولانا محمد انور شاہ کشمیری
5- مولانا ابو الحسن ندوی
6- محدث حبیب الرحمن اعظمی
نظریات و عقائد:
- یہ لوگ اصول یعنی: عقائد میں ابو منصور ماتریدی کے مذہب پر ہیں۔
- اور فقہی اور فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر ہیں۔
- سلوک اور اتباع میں صوفیت کے طُرق: نقشبندی، چشتی، قادری، اور سہروردی پر چلتے ہیں۔
دیوبند کے نظریات اور اصول و ضوابط کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- اسلام کا پرچار، اور مشنری و باطل مذاہب کا مقابلہ
- اسلامی ثقافت کا پھیلاؤ، اور انگریزی ثقافت کا قلع قمع
- عربی زبان کی ترویج کیلئے کوششیں ، کیونکہ عربی زبان کی موجودگی میں ہی اسلامی و شرعی مصادر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
- قلب و عقل، اور علم و روحانیت کو یکجا جمع کرنا
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب "(1/308)
دیوبندیت چونکہ ماتریدی مذہب پر قائم ہے اس لئے ماتریدی مذہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے:
ماتریدیت ایک بدعتی فرقہ ہے جو کہ اہلِ کلام کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اس کا نام ابو منصور ماتریدی کی نسبت سے ہے۔ آپ اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے معتزلی اور جہمیوں وغیرہ کے مقابلہ کرتے اور عقلی و کلامی دلائل پر انحصار کرتے تھے۔
ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین (عقائد) کی ماٰخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
1- الٰہیات (عقلیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیادی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔
2-شرعیات (سمعیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّت کو بھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا بیان میں بالکل واضح طور پر منہج اہل السنۃ و الجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں،
اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرنا ایک نئی بدعت کا اضافہ تھا۔ یہ تقسیم ایک بے بنیاد نظریے پر کی گئی جسے فلسفیوں نے گھڑا تھا، اور وہ اسطرح کہ انہیں اس مفروضہ نے، کہ دینی نصوص عقل سے متصادم ہیں، اس بات پر مجبور کیا کہ عقل اور دینی نصوص کو قریب تر لانے کوشش کیجائے، لہٰذا انہوں نے عقل کو وہاں تک گُھسا دیا جہاں عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ اور ایسے باطل احکامات صادر کئے جو کہ شریعت سے بالکل متصادم تھے، پھر اسی تضاد و تصادم کو انہوں نے تفویض اور تأویل کا جامہ پہنا دیا، حالانکہ اہل السنۃ و الجماعۃ کے ہاں عقلِ سلیم اور صحیح ثابت شدہ نصوص میں کوئی تصادم ہے ہی نہیں"
مزید کیلئے دیکھئے: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة "(1/99)
اہل سنت کا "ماتریدیہ" کے بارے میں موقف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یہ امت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلا دیا کہ کامیاب ہونے والا یہ فرقہ ہی [اصل] جماعت ہوگی، اور یہ جماعت اس [منہج] پر ہوگی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تھے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کتاب و سنت پر علمی اور عملی ہر اعتبار سے ڈٹے ہوئے ہیں، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ میں شمار ہونگے، کیونکہ اِنہی میں کامیابی کا وصف پایا جاتا ہے، اور وہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور آپکے صحابہ کرام کے منہج کو علمی اور عملی ہر اعتبار سے اپنانا۔
چنانچہ کسی فرد یا جماعت کے فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کیلئے نام ہی کی نسبت کافی نہیں ہے، خواہ وہ عملی طور پر صحابہِ کرام اور تابعینِ عظام کے منہج کی مخالفت کرتے ہوں؛ بلکہ علم و عمل، تصور و سلوک ہر طرح سے انہی کے منہج کو اپنایا جائے۔
چنانچہ ماتریدی ایسا گروہ ہے جن کے نظریات میں حق و باطل ، اور سنت کی مخالفت سب کچھ ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ فرقے حق سے قریب اور بعید ہونے میں یکساں نہیں ہوتے، اس لئے جو کوئی فرقہ سنت کے زیادہ قریب ہوگا، وہی حق اور درست سمت میں ہوگا، اس بنا پر دیکھیں تو ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے بڑے بڑے مسائل میں اہل ِسنت کے مخالف موقف اپنایا، اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے باریک جزوی مسائل میں مخالفت کی ہے، اور بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے منہج ِحق سے اپنے سے زیادہ دور فرقے کا رد کیا ہے، تو ایسی شخصیات یقینا باطل کی تردید اور حق گوئی پر قابل تعریف ہیں، لیکن باطل کا ردّ کرتے ہوئے انصاف کی حد تجاوز کرے اس طور پر کہ بعض حق باتوں کا انکار، اور بعض باطل باتوں کا اقرار کرے تو یہ درست نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بڑی بدعت کو چھوٹی بدعت سے بدل دے یا اور کمزور باطل سے قوی باطل پر وار کرے۔ یہی حالت اہل سنت و جماعت کی طرف منسوب بہت سے اہل کلام کی ہے ۔۔۔" انتہی
" فتاوى شيخ الاسلام ابن تیمیہ"(1/348)
اب یہاں ایک اہم مسئلہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ماتریدی گروہ کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یا دیوبندیوں کی طرح انکے نظریات اپنانے والے لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟
تو اسکا جواب ہر شخص کے بارے میں الگ ہوگا:
چنانچہ جو شخص اپنے غلط نظریات پر بضد قائم رہے، اور اپنے خود ساختہ نظریات کی ترویج کرے تو اس کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا، اور اسکی گمراہی و انحراف بیان کرنا ضروری ہے، اور جو شخص اپنے نظریات کی ترویج نہ کرے، اسکے قول و فعل سے تلاش ِحق آشکار ہو تو اسے نصیحت کی جائے، عقائد میں موجود خامی کی نشاندہی کی جائے، اور اس کیلئے اچھا انداز اپنایا جائے، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے قبولِ حق کی توفیق دے گا۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(دین نصیحت کا نام ہے) ہم نے کہا کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، اللہ کی کتاب کیلئے، اللہ کے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور عام لوگوں کیلئے) مسلم: (55)
واللہ اعلم.
حوالہ
الحمد للہ:
دیوبندی مسلمان جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور انڈیا کے جامعہ دار العلوم دیوبند کی طرف منسوب ہے، یہ ایک نظریاتی، اور مضبوط بنیادوں پر مبنی ادارہ ہے، جس نے اپنے ہر فاضل پر خاص علمی مہر ثبت کی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فاضل اسی نسبت سے پہچانے جاتے ہیں۔
قیام اور قابل ذکر شخصیات:
متعدد علمائے کرام کی طرف سے جامعہ دیوبند کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب 1857ء میں انگریزوں نے مسلمانوں کی تحریک ِآزادیِ ہند کو سبوتاژ کیا، چنانچہ جامعہ دیوبند نے بر صغیر پر مغربی یلغار ، اور مادی تہذیب کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ایک مضبوط ردّ عمل پیش کیا، خصوصی طور پر دہلی میں جو کہ دار الحکومت تھا؛ اسلامی تحریکوں کے کچلے جانے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا، تو اس موقع پر علماء کو بے دینی اور الحاد کا خدشہ لاحق ہوا، چنانچہ شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، انکے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی اور انکے رفقائے کرام نے اسلامی تعلیمات، اور اسلام کی حفاظت کیلئے منصوبہ بندی کی اور اس کا حل یہ سوچا کہ دینی مدارس اور اسلامی مراکز قائم کئے جائیں۔ اس طرح سے برطانوی دورِ حکومت ہی میں دیوبند کے علاقے میں ایک اسلامی عربی مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس نے ہندوستان میں دینی اور شرعی مرکز کا کردار ادا کیا۔
اس نظریاتی ادارے کی قابل ذکر شخصیات یہ ہیں:
1- مولانا محمد قاسم
2- مولانا رشید احمد گنگوہی
3- مولانا حسین احمد مدنی
4- مولانا محمد انور شاہ کشمیری
5- مولانا ابو الحسن ندوی
6- محدث حبیب الرحمن اعظمی
نظریات و عقائد:
- یہ لوگ اصول یعنی: عقائد میں ابو منصور ماتریدی کے مذہب پر ہیں۔
- اور فقہی اور فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر ہیں۔
- سلوک اور اتباع میں صوفیت کے طُرق: نقشبندی، چشتی، قادری، اور سہروردی پر چلتے ہیں۔
دیوبند کے نظریات اور اصول و ضوابط کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- اسلام کا پرچار، اور مشنری و باطل مذاہب کا مقابلہ
- اسلامی ثقافت کا پھیلاؤ، اور انگریزی ثقافت کا قلع قمع
- عربی زبان کی ترویج کیلئے کوششیں ، کیونکہ عربی زبان کی موجودگی میں ہی اسلامی و شرعی مصادر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
- قلب و عقل، اور علم و روحانیت کو یکجا جمع کرنا
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب "(1/308)
دیوبندیت چونکہ ماتریدی مذہب پر قائم ہے اس لئے ماتریدی مذہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے:
ماتریدیت ایک بدعتی فرقہ ہے جو کہ اہلِ کلام کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اس کا نام ابو منصور ماتریدی کی نسبت سے ہے۔ آپ اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے معتزلی اور جہمیوں وغیرہ کے مقابلہ کرتے اور عقلی و کلامی دلائل پر انحصار کرتے تھے۔
ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین (عقائد) کی ماٰخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
1- الٰہیات (عقلیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیادی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔
2-شرعیات (سمعیات):
یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّت کو بھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا بیان میں بالکل واضح طور پر منہج اہل السنۃ و الجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں،
اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرنا ایک نئی بدعت کا اضافہ تھا۔ یہ تقسیم ایک بے بنیاد نظریے پر کی گئی جسے فلسفیوں نے گھڑا تھا، اور وہ اسطرح کہ انہیں اس مفروضہ نے، کہ دینی نصوص عقل سے متصادم ہیں، اس بات پر مجبور کیا کہ عقل اور دینی نصوص کو قریب تر لانے کوشش کیجائے، لہٰذا انہوں نے عقل کو وہاں تک گُھسا دیا جہاں عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ اور ایسے باطل احکامات صادر کئے جو کہ شریعت سے بالکل متصادم تھے، پھر اسی تضاد و تصادم کو انہوں نے تفویض اور تأویل کا جامہ پہنا دیا، حالانکہ اہل السنۃ و الجماعۃ کے ہاں عقلِ سلیم اور صحیح ثابت شدہ نصوص میں کوئی تصادم ہے ہی نہیں"
مزید کیلئے دیکھئے: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة "(1/99)
اہل سنت کا "ماتریدیہ" کے بارے میں موقف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یہ امت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلا دیا کہ کامیاب ہونے والا یہ فرقہ ہی [اصل] جماعت ہوگی، اور یہ جماعت اس [منہج] پر ہوگی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تھے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کتاب و سنت پر علمی اور عملی ہر اعتبار سے ڈٹے ہوئے ہیں، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ میں شمار ہونگے، کیونکہ اِنہی میں کامیابی کا وصف پایا جاتا ہے، اور وہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور آپکے صحابہ کرام کے منہج کو علمی اور عملی ہر اعتبار سے اپنانا۔
چنانچہ کسی فرد یا جماعت کے فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کیلئے نام ہی کی نسبت کافی نہیں ہے، خواہ وہ عملی طور پر صحابہِ کرام اور تابعینِ عظام کے منہج کی مخالفت کرتے ہوں؛ بلکہ علم و عمل، تصور و سلوک ہر طرح سے انہی کے منہج کو اپنایا جائے۔
چنانچہ ماتریدی ایسا گروہ ہے جن کے نظریات میں حق و باطل ، اور سنت کی مخالفت سب کچھ ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ فرقے حق سے قریب اور بعید ہونے میں یکساں نہیں ہوتے، اس لئے جو کوئی فرقہ سنت کے زیادہ قریب ہوگا، وہی حق اور درست سمت میں ہوگا، اس بنا پر دیکھیں تو ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے بڑے بڑے مسائل میں اہل ِسنت کے مخالف موقف اپنایا، اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے باریک جزوی مسائل میں مخالفت کی ہے، اور بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے منہج ِحق سے اپنے سے زیادہ دور فرقے کا رد کیا ہے، تو ایسی شخصیات یقینا باطل کی تردید اور حق گوئی پر قابل تعریف ہیں، لیکن باطل کا ردّ کرتے ہوئے انصاف کی حد تجاوز کرے اس طور پر کہ بعض حق باتوں کا انکار، اور بعض باطل باتوں کا اقرار کرے تو یہ درست نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بڑی بدعت کو چھوٹی بدعت سے بدل دے یا اور کمزور باطل سے قوی باطل پر وار کرے۔ یہی حالت اہل سنت و جماعت کی طرف منسوب بہت سے اہل کلام کی ہے ۔۔۔" انتہی
" فتاوى شيخ الاسلام ابن تیمیہ"(1/348)
اب یہاں ایک اہم مسئلہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ماتریدی گروہ کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یا دیوبندیوں کی طرح انکے نظریات اپنانے والے لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟
تو اسکا جواب ہر شخص کے بارے میں الگ ہوگا:
چنانچہ جو شخص اپنے غلط نظریات پر بضد قائم رہے، اور اپنے خود ساختہ نظریات کی ترویج کرے تو اس کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا، اور اسکی گمراہی و انحراف بیان کرنا ضروری ہے، اور جو شخص اپنے نظریات کی ترویج نہ کرے، اسکے قول و فعل سے تلاش ِحق آشکار ہو تو اسے نصیحت کی جائے، عقائد میں موجود خامی کی نشاندہی کی جائے، اور اس کیلئے اچھا انداز اپنایا جائے، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے قبولِ حق کی توفیق دے گا۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(دین نصیحت کا نام ہے) ہم نے کہا کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، اللہ کی کتاب کیلئے، اللہ کے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور عام لوگوں کیلئے) مسلم: (55)
واللہ اعلم.
حوالہ