• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
1. پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کو یہ کشف کہاں سے ہوگیا کہ میں نے مذکوہ بات آپ کے دئے گئے لنک سے اخذ کی ہے ؟
آپ کے ذریعہ دئے گئے لنک پر میرے مذکورہ طویل اقتباس میں سے صرف ایک بات ہے ابن السباک کی تاریخ وفات والی ، اس کے علاوہ بقیہ باتیں تو یہاں موجود نہیں ۔
اور یہ ایک بات صرف ملتقی کے اسی لنک پر نہیں ہیں نیٹ متعدد صفحات پر موجود ہیں مثلا یہ لنک ملاحظہ ہو:
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي.

اوریہاں عبدالرحمن کے مراسلہ کا نام ونشان نہیں ہے پھر آن جناب نے پورے وثوق سے کیسے کہہ دیا کہ میں نے عبدالرحمن الفقیہ کے مراسلے کو نظرانداز کردیا ؟؟؟نیز کیا اس دوسرے مراسلہ کا تعلق میرے اشکالات سے ہے ؟؟؟ اس دوسرے مراسلہ کا موضوع ہی الگ ہے اور اس میں اس کے نام پر بحث ہے نہ کہ اس نسخہ کی صحت سے۔

اگرموصوف کی طرح لطائف بیان کرنے پر آئیں توایک تازہ لطیفہ یہاں بھی واردہوسکتاہے ۔مثلاجب میں نے کہاتھاکہ یہ میری رائے ہے توفرماتے ہیں
لیکن بعض قرائن کی بنا پر ہمیں اس پر یقین کرنے میں تامل ہورہا ہے ، اور اس کے برعکس ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ آن جناب کی مذکورہ رائے ان کے اجتہاد اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلےمیں موصوف اپنے اسلاف کی تقلید کررہے ہیں۔
اوران کے قرائن یہ ہیں کہ مولاناعبدالحی لکھنوی،مولاناظفراحمد تھانوی اوردیگر علماء نے ابن تیمیہ کی حدت مزاجی کے ذکر میں ابن حجر کی عبارت کاحوالہ دیاہے۔
اب یہ حق پوچھنے کاکم ازکم ہمیں بھی توہے کہ ان مین سے کس نے اس سے قبل صلاح الدین صفدی،حافظ سخاوی،اورابوزہرہ کاحوالہ دیاتھااوردیگر حوالے دیئے تھے۔اگرآپ کو حق ہے کہ آپ کے مراسلہ میں عبدالرحمن الفقیہ سے کچھ زائد بات آجائے تو وہ آپ کی اپنی ہوگئی تواگرمیرے مراسلے میں کچھ زائد حوالے ہوجائیں توپھروہ مراسلہ میری ذاتی رائے کیوں نہ قراردی جائے۔

انٹرنیٹ پر جوکوئی بھی ابن السباک کے حوالہ سے سرچ کرے گا۔اسے یہ بات وضاحت کے ساتھ المجلس العلمی اورملتقی اھل الحدیث ودیگر سائٹ میں مل جائے گی کہ حافظ ذہبی کے تاریخ الاسلام کی آخری جلد کے حوالہ سے ابن السباک کاتذکرہ موجود ہونے کی وجہ سے اس پر شکوک وشبہات کااظہار کیاگیاہے۔اوراسی ذیل میں ابن السباک کی تاریخ وفات پر بھی بحث موجود ہے۔
نسخہ کی صحت کی بحث کی جہاں تک بات ہے توآپ پہلے شخص نہیں ہیں۔ جنہوں نے نسخہ کی صحت کی بحث کی ہے بلکہ شیخ ابوعبدالرحمن محمد الثانی بن عمروبن موسی نے 3/1/1420 کوایک مقالہ لکھاتھاجس کا عنوان تھا۔
ذيل تاريخ الإسلام أم ذيل سير أعلام النبلاء
۔اس میں انہوں نے نسخہ کی صحت پر بھی بحث کی ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
إن هذا منقطع بين شيوخ عبد القادر والذهبي ، إذ لم يدرك أحد منهم زمانه ، فلا سماع لهم ولا إجازة ، وشيوخ عبد القادر هم الحافظ ابن حجر والعيني ومن في طبقتهم .
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي. - ملتقى أهل الحديث

جہاں تک کفایت اللہ صاحب کی یہ بات ہے کہ مصنف تک سند صحیح ہونی چاہئے ورنہ وہ سند معتبر نہ ہوگی تواس سلسلے میں عرض ہے کہ

کاتب صاحب کاخط توہم پہچانتے نہیں ہمیں کیامعلوم اگربعد کے کسی شخص نے اس پر سند گڑھ دی ہے ۔اس شک اورورطہ حیرت سے ہمیں نجات کیسے ملے گا۔ اس سے بہتر تو مولف اصح السیر کا موقف ہے کہ صرف وہی کتابیں معتبر ہوں گی جوامت میں عام طورپر متداول رہی ہیں اورجوہرزمانے میں اہل علم کے ہاتھوں میں موجود رہی ہیں کیونکہ اس میں تحریف کا اندیشہ نہیں رہتا۔ ورنہ جوکتابیں صدیوں تک کتب خانوں کے اندھیرے کمروں میں رہی ہیں اوراس نے باہری دنیاکا منہ نہیں دیکھا۔کسی بھی کاتب کا خط ہم نہیں پہچانتے تواس کے بارے میں یہ کیسے یقین کرلیاجائے کہ اسی نے وہ کتاب لکھی ہے اور یہ کہ بعد کی صدیوں میں یداثیمہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

دوسری بات اگرسند اورسند صحیح نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کتاب مشکوک قرارپاتی ہے چاہے اس کے حق میں دیگر دلائل موجود ہوں ۔توآپ بتاناپسند کریں گے کہ اس وقت شاملہ میں ایسی کتابیں کتنی ہوں گی جس کااثبات مصنف تک سند صحیح سے ثابت ہوتاہے۔۔ ابن تیمیہ کی ہم تک پہنچنے والی ایسی کتابیں کتنی ہوں گی جو ہم تک سند صحیح سے پہنچتی ہیں۔ ۔ ابن قیم کی صحیح سند سے ہم تک پہنچنےوالی کتاب کتنی ہوگی؟۔

میں نے یوں ہی شاملہ کا جائزہ لیاتودوکتابوں پر نگاہ پڑی۔ایک کانام ہے

الرد على من قال بفناء الجنة والنار وبيان الأقوال في ذلك

اس کے محقق ہیں:محمد بن عبد الله السمهري

یہ کتاب دار بلنسية الرياض سے 1415هـ - 1995میں طبع ہوئی ہے۔

ہم اسے ابن تیمیہ کی کتاب اس لئے نہیں کہتے کیونکہ یہ سند صحیح سے ثابت نہیں ہے جیساکہ محقق کتاب نے بتایاہے۔ان کی پوری عبارت یہ ہے۔

تعتبر نسبة هذا الكتاب إلى مؤلفه شيخ الإسلام ابن تيمية أمرا هاما، نظرا لما وقع في ذلك من اختلاف بين الباحثين والمفهرسين، وشمل الخلاف المؤيدين للشيخ والمعارضين له، ووصل الأمر إلى حد إنكار وجود هذا التأليف لشيخ الإسلام، والحكم بوهم من نسبه إليه، وإن كان الذي نسبه من ألصق الناس وأخبرهم به، وهو تلميذه ابن القيم وبيان ذلك:


أن النسخة التي وجدت من هذا الكتاب في دار الكتاب المصرية (1) لم يذكر فيها نسبتها إلى شيخ الإسلام، وبناء على ذلك تردد المفهرسون في نسبتها للمؤلف، فقالوا عند فهرستها: يظن أنها لشيخ الإسلام ابن تيمية (2) .
وتبعا لذلك ذكر الدكتور عوض الله حجازي في كتابه "ابن القيم وموقفه من التفكير الإسلامي" (3) أن تلك الرسالة مجهولة المؤلف، لكنه اتبع ذلك بقوله: "ويظهر أنها من مؤلفات ابن تيمية".
أما الدكتور علي بن علي جابر الحربي، فتعدد إنكاره لوجود قول لشيخ الإسلام بفناء النار، أو وجود تأليفه له في هذا الموضوع، وذكر أن ابن القيم وابن الوزير قد وهما في نسبة ذلك إلى شيخ الإسلام، ثم راح يلمتس لهما عذرا بأن
الكمال لله وحده وأن ذلك من الوهم اليسير الذي لا يخرج العالم عن حد الثقة (1) .
وفي بعض المرات ذكر أن ما صرح به ابن القيم من أن شيخه شيخ الإسلام صنف في هذه المسألة مصنفه المشهور لكنه لم يصل إلينا -حسب علمي - ولو نشر لأقام الدنيا وأقعدها خصومه (2) .
وفي موضع ثان قال: "ويغلب على ظني عدم وجوده" (3) .
وفي موضع آخر قال: "إن الرسالة المزعومة" (4) .
فلما رأى الدكتور الحربي أن الشيخ الألباني ذكر قطعة من نسخة خطية، وجدت لدى المكتب الإسلامي ومصرح فيها بنسبة الكتاب إلى شيخ الإسلام كما سيأتي توضيحه (5) لما رأى الدكتور ذلك وحاول دفع نسبتها لشيخ الإسلام فقال: "وأما الورقات الثلاث التي ذكر الألباني أنه وجدها في دشت ضمن مخطوطات المكتب الإسلامي، وصورها في مقدمته لكتاب "رفع الأستار" للصنعاني، وأنها لكاتب مجهول من خطوط القرن الحادي عشر الهجري من رسالة لابن تيمية في الرد على من قال بفناء الجنة والنار، فلا تعتبر من مصنفات ابن تيمية، لانتفاء الشروط المتبعة في مناهج البحث والتحقيق المعروفة عند أهل هذا الشأن، ومن ذلك جهالة الكاتب" (6) .
وقال: "شهادته - يعني ابن القيم - بأن شيخه في هذه المسألة مصنفه المشهور الذي لم يظهر منه شيء سوى لصفحات الثلاث المشار إليها سابقا بأنها مجهولة الناسخ والتاريخ، مفتقرة للشروط المتبعة في مناهج البحث والتحقيق، ومعلوم عند أهل هذا الشأن ما يترتب على ذلك من عدم الثبوت" (1) .


ويمكن الجواب عن هذا بما يلي:
أولا: أنه طالما صرح في هذه القطعة بنسبة الكتاب لشيخ الإسلام، فلا يطعن في ذلك جهالة تاريخ النسخة، ولا جهالة ناسخها، محاولة الاستناد في دفع الثبوت إلى الشروط المتبعة في مناهج البحث والتحقيق، بناء على جهالة الناسخ وتاريخ النسخ، فهذا غير مُسَلَّم، حيث لم يعرف في تلك المناهج والقواعد أن جهالة الناسخ، وجهالة التاريخ للنسخة مما يقدح أيُّ منهما في نسبتها لمؤلفها المصرح به في صدر النسخة (2) .

ثانيا: أننا لو جعلنا جهالة الناسخ وتاريخ النسخ يقدحان في النسبة المصرح بها للمؤلف لترتب على ذلك أن نقدح في نسبة كثير من المؤلفات المخطوطة مما لم يوجد عليها اسم الناسخ، ولا تاريخ النسخ، كما يعرف ذلك من مراجعة فهارس المخطوطات، على أنه قد توفرت نسخة ثانية كاملة للكتاب وأثبت في آخرها اسم الناسخ، ومقابلته لها بأصلها.

ثالثا: ومما يؤيد صحة نسبة هذه الرسالة لشيخ الإسلام ابن تيمية ما تضمنه من نصوص وإحالات. تتطابق مع النقول والمؤلفات التي تثبت نسبتها لشيخ الإسلام كما يتضح ذلك من مراجعة النص المحقق وتوثيقه والتعليق عليه (3) .
رابعا: أنه قد صرح بنسبة هذا الكتاب للمؤلف من لا يشك في خبرته بالشيخ، وولائه له ولاعتقاده السلفي، ألا وهو العلامة ابن القيم.
فقد قرر أن لشيخه ابن تيمية تصنيفا مشهورا في مسألة فناء النار (1) وشهادته دليل قاطع.
بل إن ما ذكره في كتابه "حادي الأرواح" حول هذه المسألة قد اعتمد فيه على رسالة شيخه ابن تيمية التي هي بصدد التحقيق، فإنه أحيانا يصرح بالنقل وأحيانا ينقل بتصرف وقد أشرت إلى ذلك في الهامش أثناء التحقيق.
خامسا: هذه الرسالة قد نسبها إلى شيخ الإسلام من خصومه المعاصرين له الشيخ: علي بن عبد الكافي السبكي، حيث ألف رسالة بعنوان "الاعتبار ببقاء الجنة والنار" وفي أثنائها قال: "وبدأنا بالنار لأنا وقفنا على تصنيف لبعض أهل العصر في فنائها" (2) .
ثم قال: "وقد وقفت على التصنيف المذكور، وذكر فيه ثلاثة أقوال في فناء الجنة والنار" (3) :
أحدها: أنهما تفنيان وقال إنه لم يقل به أحد من السلف.
والثاني: أنهما لا تفنيان.
والثالث: أن الجنة تبقى والنار تفنى (4) .
وجميع النصوص التي ساقها السُبكي في رسالته موجودة في رسالة شيخ الإسلام ابن تيمية التي هي موضوع التحقيق.
وبكل حال، فإن الناظر في هذه الرسالة يلحظ سمة بارزة لمنهج شيخالإسلام من حيث الأسلوب ومناقشة القضايا ولا يختلف أسلوب هذه الرسالة عن سائر مؤلفاته.
وهذا مما يؤيد صحة نسبة هذه الرسالة لشيخ الإسلام ابن تيمية - رحمه الله –


موصوف نے کتاب کے اثبات کیلئے جتنے بھی جتن کئے ہیں۔یاوجوہات ذکر کی ہیں وہ سب کی سب بدرجہ کمال وتمام تاریخ الاسلام کی آخری جلد پرصادق آتی ہے۔کفایت اللہ صاحب سے درخواست ہے کہ ہائی لائٹ کئے ہوئے فقروں کو غورسے پڑھیں۔

دوسری کتاب تفسیر منذر بن سعید ہے۔

اس کتاب کے محقق عبد الله بن عبد المحسن التركي ہیں۔

انہوں نے کتاب کے اثبات کیلئے جوکچھ ذکر کیاہے وہ درج ذیل ہے۔

2- توثيق نسبة الكتاب إلى مؤلّفه:
ليس هناك أدنى شكّ في صحّة نسبة هذا الكتاب لابن المنذر لأمور منها:
أ- الشيوخ الذين يُحدِّث عنهم ابن المنذر في كتابه هذا، فهم شيوخه الذين روى عنهم في سائر مؤلفاته كـ "الأوسط" وغيره.
ب- كثير من نصوص الكتاب عزاها إليه السّيوطيّ في كتابه "الدّر المنثور" كما يظهر من حواشي التّحقيق.
ج- إنّ الكتاب جاء منسوباً إلى ابن المنذر في النّسخة الخطيّة.


تفسیر منذر بن سعید کے اثبات کیلئے جوامور" کفایت" کرتے ہیں وہ بدرجہاتاریخ الاسلام کی آخری جلد کیلئے بھی "کفایت" کرتے ہیں۔کیایہ صحیح طریقہ کار ہوگاکہ ہم دوسری کتابوں کیلئے طریقہ تحقیق دوسراتجویز کریں اورجہاں بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی آئے تواس میں مین میخ نکالناشروع کردیں۔

یاپھر اگرہم نے کتاب کے مصنف تک اثبات کیلئے اورنسبت کو درست ماننے میں آپ کا موقف سمجھنے میں غلطی کی ہوتوبراہ کرم واضح کردیں کہ کسی کتاب کی توثیق اورمصنف تک نسبت کا علمی طریقہ کار کیاہے اوراہل علم نے اس سلسلے میں کیاکہاہے ۔آپ سے تودرخواست ہے کہ اس سلسلے میں اپنے "محدث العصر"البانی صاحب کا موقف ضرور نقل کریں۔

کفایت اللہ صاحب نے اپنی تحریر میں موصوف نے بہت سارے لطائف ذکر کئے ہیں۔ایک لطیفہ میری جانب سے بھی سن لیں
لطیفہ
موصوف یہاں توراویوں کی جہالت کی وجہ سے حافظ ذہبی کی تاریخ الاسلام کی آخری جلد جس میں ابن تیمیہ کا بھی ذکر موجود ہے اس کو ماننے سے انکار کررہے ہیں جیساکہ ان کی یہ پوری تحریر اس پر شاہد ہے اب ذرایک دوسرے تھریڈ کاجائزہ لیتے چلیں۔وہاں جہالت کی کوجہ سے کتاب کی نسبت حافظ ذہبی تک درست نہ ماننے والے کفایت اللہ صاحب امام ابوحنیفہ کی ضد میں ایک ایسے کتاب کااثبات کرتے ہیں جس کے بارے میں وہ خود نقل کرتے ہیں کہ آخری عمر میں ان کی "سیرت "خراب ہوگئی تھی۔

حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفى بن سليمان حميد الدين أبو البقاء بن الجمال بن العلا بن الفخر المارديني الأصل المصري الحنفي ويعرف كسلفه بابن التركماني وهو حفيد قاضي الحنفية العلاء مختصر ابن الصلاح وصاحب التصانيف واسمه عبد الحميد ولكنه بحماد أشهر. ولد في رمضان سنة خمس وأربعين وسبعمائة وأسمع من مشايخ عصره ثم طلب بنفسه فسمع من القلانسي والجمال ابن نباتة وناصر الدين محمد بن إسماعيل بن جهبل ومظفر الدين بن العطار والطبقة؛ وقرأ بنفسه وكتب الطباق ولازم القيراطي، وكتب عنه أكثر شعره ودونه في الديوان الذي كان ابتدأه لنفسه ثم رحل إلى دمشق فسمع بها وأكثر من المسموع في البلدين ومن مسموعه على ابن نباتة أشياء من نظمه وبعض السيرة لابن هشام وعلي القلانسي نسخة إسماعيل بن جعفر بسماعه من ابن الطاهري وابن أبي الذكر بسماعه من ابن المقير وأجازه الآخر من القطيعي وعلي ابن جهبل المحمدين من معجم ابن جميع أنابه ابن القواس ومن شيوخه أيضاً المحب الخلاطي وأحمد بن محمد العسقلاني ولكن قيل إنه لما رحل لدمشق كتب السماع وأنه سمع قبل الوصول واعتذر عن ذلك بالاسراع؛ ولذا كان الحافظ الهيثمي يقع فيه وينهى عن الأخذ عنه؛ قال شيخنا والظاهر انه انصلح بأخرة وأجاز له الذهبي والعز بن جماعة. قال شيخنا ولازم السماع حتى سمع معنا على شيوخنا وقد خرج لبعض المشايخ يعني عبد الكريم حفيد القطب الحلبي وسمعت منه من شعر القيراطي؛ وكان شديد المحبة للحديث وأهله ولمحبته فيه كتب كثيراً من تصانيفي كتعليق التعليق وتهذيب التهذيب، ولسان الميزان وغير ذلك ورأس في الناس مدة لستوته، وكانت بيده وظائف جمة فلا زال ينزل عنها شيئاً فشيئاً إلى أن افتقر وقلت ذات يده فكان لعزة نفسه يتكسب بالنسخ بحيث كتب الكثير جداً ولا يتردد إلى القضاة، وقد أحسن إليه الجلال البلقيني على يد شيخنا قال فما أظنه وصل لبابة؛ وخطه سريع جداً لكنه غير طائل لكثرة سقمه وعدم نقطه وشكله، ولا زال يتقهقر إلى أن انحط مقداره لما كان يتعاطاه؛ وساء حاله وقبحت سيرته، حتى مات مقلاً ذليلاً بعد أن أضر بأخرة في طاعون سنة تسع عشرة بالقاهرة، وحدث أخذ عنه الأئمة كشيخنا وأورده في معجمه دون أنبائه وروى لنا عنه جماعة كالزين رضوان والموفق الأبي وحدثني بشيء من نظم ابن نباتة بواسطته. وذكره المقريزي في عقوده.[الضوء اللامع 2/ 82، ]۔
تاریخ الاسلام کی آخری جلد پر تومحض اس لئے مشکوک ہےکہ اس نسخہ کے جوکاتب ہیں وہ مشہور محدث ہیں لیکن انہوں نے بعض مشائخناکی بات کی ہے وہ مشائخ کون ہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا ۔لہذا وہ مجہول ہوئے۔
یہاں پر حافظ سخاوی نے واضح طورپر لکھاہے کہ ساء حالہ وقبحت سیرتہ اورکفایت اللہ صاحب کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہےکہ وہ بیان کرسکیں کہ دیوان الضعفاء والمتروکین جو لکھی گئی ہے وہ ان کے ساءت سیرتہ سے قبل لکھی گئی ہے۔لیکن پھر بھی وہ معتبر اوربہت معتبر ہے کیونکہ اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہے۔

کفایت اللہ صاحب حماد بن عبدالرحیم کو فقہ حنفی کا معتبر عالم کہہ رہے ہیں ان کی معتبریت کاحال یہ ہے کہ علماء احناف پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کاذکرکرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہے۔
بات نکلی توپھر دورتلک نکل گئی ۔گزارش صرف اس قدر ہے کسی کتاب کے اثبات اورنفی کیلئے وہ پیمانہ اختیار کریں جو اہل علم کے نزدیک معتبر ہواورجس پیمانہ کے اعتبار سے دیگراہل علم نے کتابوں کااثبات کیاہو۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ذیل تاریخ الاسلام اورحافظ ذہبی

ذیل تاریخ الاسلام حافظ ذہبی کی تصنیف ہے اوراس پر جوکچھ شکوک وشبہات ظاہر کئے جاتے ہیں وہ بے بنیاد اورپادر ہواہیں اوراس کی نسبت حافظ ذہبی تک درست اورصحیح ہے۔ابن السباک کا تذکرہ دخیل اورمقتحم توتسلیم کیاجاسکتاہے لیکن ابن السباک کے تذکرہ کو تدلیل بناکر ذیل تاریخ الاسلام پر شکوک وشبہات پیداکرنا درست نظریہ قرارنہیں دیاجاسکتا۔

اصل مسئلہ اورپورے بحث کی مدار حافظ ذہبی کی یہ عبارت ہے ۔

وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه.[ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]


اس پر کفایت اللہ صاحب کے اعتراضات درج ذیل ہیں۔
اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ، اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔

یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :
اولا:
یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔
ثانیا:
٢: ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔
ثانیا:
اس کتاب میں ہے :
ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!
واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے ، چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]
ہم اسی ترتیب سے جواب دینے کی کوشش کریں گے

جہاں تک ذیل تاریخ الاسلام کے نسخہ کی بات ہے توکفایت اللہ صاحب نے صرف کتاب کی سند پر نگاہ ڈالی ہے۔اس کتاب کے محقق مازن بن سالم باوزیر نے کتاب کے نسخوں پر جہاں بحث کی ہے ۔وہاں شاید انہوں نے نگاہ نہیں ڈالی کتاب کے محقق مازن بن سالم کتاب کے نسخوں پر بحث کرتے ہوئے دوسرے نسخہ کے بارے میں کہتے ہیں۔

النسخۃ الثانیۃ
وقدرمزت لھا ب(ھ)۔
وھی نسخۃ جیدۃ من مصورات جامعۃ الامام بالریاض ورقما 4100من دبلن بایرلندا فی134ورقۃ منسوخۃ من عصرمولفھا عام743ھ لکن من عیوبھا السقط فی الاول والآخر عددا من الصفحات۔(ذیل تاریخ الاسلام ص8)


عبارت بالکل صاف ہے کہ کتاب کانسخہ حافظ ذہبی کے حین حیات ہی لکھاگیاتھا۔

اس کی مزید وضاحت مشہور سلفی عالم ناصرالعجمی کی تحقیق سے شائع کتاب ثلاث تراجم نفیسۃ للائمۃ الاعلام سے ہوتی ہے ۔انہوں نے اس میں حافظ ابن تیمیہ ،حافظ علم الدین برزالی،حافظ جمال الدین المزی کا وہ ترجمہ نقل کیاہے جوانہوں نے ذیل تاریخ الاسلام سے نقل کیاہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

وقد استللتھا من کتاب ذیل تاریخ الاسلام للحافظ الناقد شمس الدین الذہبی۔(ثلاث تراجم نفیسۃ ص7)

انہوں نے بھی اس کتاب کے دونسخوں کا ذکر کیاہے۔

پہلانسخہ حافظ عبدالقادرالقرشی کاہے جس پر کفایت اللہ صاحب کو"سنگین"اعتراض ہے۔
اس نسخہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔

النسخۃ الثانیۃ
نسخۃ جامعۃلیدن بھولندا وھی برقم320وتعقع فی نحو116ورقۃ وقدنسخت سنہ875 ھ وھی نسخۃ کاملۃ جیدۃ وناسخھاوھوعبدالقادربن عبدالوہاب بن عبدالمومن القرشی ورمزت لھا بحرف(ل)


لیکن ذیل تاریخ الاسلام کا یہ واحد نسخہ نہیں ہےبلکہ اس کا ایک دوسرانسخہ بھی ہے ۔اب یہ معلوم نہیں کہ کفایت اللہ صاحب کو اس دوسرے نسخہ کا علم نہیں تھا یاپھر ہماری معلومات کاامتحان لینامقصود تھا۔

اس نسخہ کے بارے میں ناصرالعجمی لکھتے ہیں۔
النسخۃ الاولی:
نسخۃ شستربتی برقم4100وتقع فی143ورقۃ الاانھاناقصۃ من اولھابمقدارعشرورقات وبتدافی اثناء ترجمۃ ضیاء الدین البعلی ای ان الساقط منھا نحو اربع وثلاثین ترجمۃ وقد نسخت سنۃ 743ھ،وناسخھاھو عمربن عبدالعزیز بن عبداللہ بن مروان الفارقی،وقد ذکرہ الامام الذہبی فی المعجم المختص ص182فقال:سمع بدمشق فی صغرہ ثم طلب قلیلاوکتب ورافق فی الفسر الی مصر حفید الزین المزی وسمعا وخطہ جید۔اھ۔
ومن فضل اللہ ان ھذہ النسخۃ قدنسخت فی حیاۃ المولف وقراھا الناسخ علیہ،فھی اصیلۃ جلیلۃ لولاالنقص الذی حصل فی اولھاوبعض البیاضات فیھابسب الرطوبۃ اوتلاصق الاوراق ورمزت لھابحرف(ش)
وتبدا ترجمۃ ابن تیمیہ فیھامن ورقۃ 85الی87وترجمۃ الحافظ البرزالی من ورقۃ 125الی127،وترجمۃ الحافظ المزی من ورقۃ 135الی137(ثلاث تراجم نفیسۃ ص9)


وہ عبارت جس پر بحث موجود ہے۔ اس میں ناصرالعجمی نے کسی بھی نسخہ کا تنہاحوالہ نہیں دیاہے جواس بات پر واضح دلیل ہے کہ زیر بحث عبارت دونوں نسخوں میں موجود ہے۔وہ نسخہ جو حافظ ذہبی کے حین حیات ہی لکھاگیاتھا اور وہ نسخہ جو حافظ عبدالقادرالقرشی نے لکھاہے۔

ذیل تاریخ الاسلام کا ایک نسخہ وہ ہے جوکہ حافظ ذہبی کی حیات میں ہی لکھاگیااوران پر پڑھابھی گیاہے۔ اس سے زیادہ نسخہ کی و ثاقت کااورکیاثبوت چاہئے ہوگا۔

یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ناصرالعجمی کوئی حنفی عالم نہیں ہیں بلکہ سلفی عالم ہیں اورامام ابن تیمیہ کی محبت سے سرشار ہیں اورمخطوطات کی تحقیق میں ان کااپناایک مقام ہے۔

حافظ سخاوی

وللحافظ أبي عبد الله الذهبي "تاريخ الإسلام" في زيادة على عشرين مجلد بخطه، و"سير النبلاء" في مجلدات، و"دول الإسلام" مجيليد، و"الإشارة" دونه، وله ذيل على كل منها …" اهـ.(ا لإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاریخ)
واضح رہے کہ حافظ سخاوی کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن کو حافظ ذہبی اوران کی تصنیفات سے خاص شغف ہے اوراگروہ کہہ رہے ہیں کہ حافظ ذہبی کی ایک کتاب ذیل تاریخ الاسلام بھی ہے تواس کی کچھ واقعیت ہوگی۔یوں ہی ہوائی داستان تو وہ نہیں ہوگی۔

الحافظ تقي الدين الفاسي (ت 832) –

یہ حافظ ابن حجر کے ہم عصر ہیں اورحافظ ذہبی کے بیٹے ابوہریرہ کے شاگرد ہیں۔انہوں نے اپنی تصنیف ذیل التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید میں کئی تراجم میں ذیل کااستعمال کیاہے۔
عثمان بن إبراهيم الحمصي
علي بن أبي القاسم عبد الله بن عمر البغدادي
علي بن محمد بن محمد الرفاء
ایک جگہ وہ ایک ترجمہ میں نقل کرتے ہیں کہ یہ میں نے معناحافظ ذہبی کی سیراعلام النبلاء پر ذیل سے نقل کی ہے اوراس کو ذیل تاریخ الاسلام بھی کہاجاتاہے۔
تبت هذه الترجمة بالمعنى من ذيل النبلاء للذهبي وقيل هو ذيل تاريخ الإسلام وأجاز للشيخ تقي الدين السبكي.
ذیل التقیید فی معرفۃ رواۃ السنن والمسانید2/196)

محمد العجمی کی ترجمہ میں وہ کہتے ہیں

"ذكر ذلك الذهبي فيما ذيَّل به على كتاب "النبلاء" له، وقيل: إن ذلك ذيل له على كتاب "تاريخ الإسلام" فالله أعلم
"ذيل التقييد لرواة السنن والمسانيد": (1/487)

قارئیں کرام نے اگرتوجہ سے بحث دیکھی ہوگی تو ان کو معلوم ہوگاکہ حافظ فاسی کی ذیل التقیید کے حوالہ سے ہی کفایت اللہ صاحب نے ابن السباک کا ترجمہ پیش کیاتھا اوربتایاتھاکہ انکا انتقال حافظ ذہبی کے انتقال کے بعد ہواہے۔
لیکن حافظ فاسی کے حوالہ سے یہ بات اوپر گزرچکی ہے کہ حافظ فاسی ذیل تاریخ الاسلام کے معترف ہیں چنانچہ انہوں نے کئی تراجم میں اس کاحوالہ بھی دیاہے۔

حافظ ابن حجر

وَقد استمددت فِي هَذَا الْكتاب من أَعْيَان الْعَصْر لأبي الصفاء الصَّفَدِي ومجاني الْعَصْر لشيخ شُيُوخنَا أبي حَيَّان وذهبية الْعَصْرلشهاب الدّين بن فضل الله وتاريخ مصر لشيخ شُيُوخنَا الْحَافِظ قطب الدّين الْحلَبِي وذيل سير النبلاء لِلْحَافِظِ شمس الدّين الذَّهَبِيّ وذيل ذيل الْمرْآة لِلْحَافِظِ علم الدّين البرزالي والوفيات للعلامة تَقِيّ الدّين ابْن رَافع والذيل عَلَيْهِ للعلامة شهَاب الدّين ابْن حجي وَمِمَّا جمعه صاحبنا تَقِيّ الدّين المقريزي فِي أَخْبَار الدولة المصرية وخططها ومعاجم كَثِيرَة من شُيُوخنَا والوفيات لِلْحَافِظِ شمس الدّين أبي الْحُسَيْن ابْن أيبك الدمياطي والذيل عَلَيْهِ لشَيْخِنَا الْحَافِظ أبي الْفضل بن الْحُسَيْن الْعِرَاقِيّ وتاريخ غرناطة للعلامة لِسَان الدّين ابْن الْخَطِيب والتاريخ للْقَاضِي ولي الدّين ابْن خلدون الْمَالِكِي وَغير ذَلِك وَبِاللَّهِ الْكَرِيم عوني وإياه أسأَل عَن الْخَطَأ صوني إِنَّه قريب مُجيب
(الدررالکامنہ 1/3)

وسف بن تغري بردي بن عبد الله الظاهري الحنفي(ت874)

قال الحافظ أبو عبد الله الذهبي في ذيل تاريخ الإسلام: الإمام الأوحد القاضي وشيخ المذهب أحمد بن إبراهيم بن عبد الغني السروجي الحنفي صاحب التصانيف المفيدة.(المنہل الصافی والمستوفی بعدالوافی1/203)

أحمد رافع بن محمد الحسيني القاسمي الطهطاوي الحنفي (المتوفى: 1355هـ)

وقد سمع بدمشق من الفخر بن البخاري وبغيرها من غيره كما ذكره الحافظ الذهبي في ذيل تاريخ الاسلام.
(التنبیہ والایقاظ لمافی ذیول تذکرۃ الحفاظ1/8)

نوٹ:یہ واضح رہے کہ اس کتاب کے بارے میں یہ شدید اختلاف ہے کہ یہ کتاب ذیل سیر اعلام النبلاء ہے یاذیل تاریخ الاسلام ہے۔ کچھ کی رائے اس جانب ہے ہے کہ یہ کتاب ذیل تاریخ الاسلام ہے جیساکہ شواہدات مین گزرا۔کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ کتاب ذیل سیر اعلام النبلاء ہے۔
سلفی محقق ناصرالعجمی کی بھی رائے یہی ہے کہ یہ کتاب اگرچہ مشہور ذیل تاریخ الاسلام کے نام سے ہے لیکن اس کا صحیح نام ذیل سیر اعلام النبلاء ہوناچاہئے ۔چنانچہ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں۔
وھذاالکتاب اقوم بتحقیقہ علی نسختین وقد انھیت ثلثہ الاول وساذکر فی مقدمتہ ان شاء اللہ التفصیل حول عنوانہ ،فقد کتب علی طرتہ انہ ذیل تاریخ الاسلام ،والذی یترجح لی بعدۃ ادلۃ انہ ذیل سیر اعلام النبلاء
(ثلاث تراجم نفیسۃ ص7)
اس سے قبل حافظ فاسی کی یہ عبارت بھی یاد کرلیجئے کہ اس کو ذیل تاریخ الاسلام بھی کہاگیاہے۔اورحافظ ابن حجر نے بھی جن مصادر کاذکر کیاہے اس مین ذیل سیر اعلام النبلاء کاہی نام لیاگیاہے۔اورزیر بحث عبارت انہوں نے ذیل سیر اعلام النبلاء سے ہی اخذ کی ہے جو کہ الدررالکامنہ میں مذکور ہے۔اورہمارے سامنے ذیل تاریخ الاسلام جوموجود ہے اس میں بعینہ یہی عبارت موجو دہے۔اس لئے یہ کہنے دیجئے کہ ذیل صرف سیر اعلام النبلاء پر ہی لکھاگیاتھا لیکن بعد مین غلطی سے وہ ذیل تاریخ الاسلام کے نام سے مشہور ہوگیاجیساکہ کچھ علماء کی رائے ہے
یاپھر حافظ ذہبی نے صرف ایک ہی کتاب لکھی تھی اوراس کے سلسلے میں متعین طورپر کچھ نہیں کہایہی وجہ ہے کہ عبدالقادرالقرشی اس کو شبہ الذیل کہتے ہیں۔ اورفاسی اس کو ذیل سیر اعلام النبلاوقیل ذیل تاریخ الاسلام سے تعبیر کرتے ہیں۔
أما هذا الذيل المتنازَع فيه، فالذي يظهر أنّ الذهبيَّ لم يجزم في شأنه بشيء، لذلك كانت عبارته دقيقة في وصفه "شبه الذيل"، فهو من مادته يصلح أن يكون ذيلاً على "السير" وعلى "تاريخ الإسلام"، والبتُّ في شأنه يفتقر إلى مزيد من الأدلة.
بل هو شبه الذيل على تاريخ الإسلام - مقالات - موقع الشيخ علي بن محمد العمران - شبكة الألوكة
یااگراس کو علیحدہ مانئے توبھی اتنامانناپڑے گاکہ حضرت ابن تیمیہ کے بارے میں مذکورہ عبارت دونوں میں موجود ہے۔ ذیل تاریخ الاسلام میں بھی اورذیل سیر اعلام النبلاء میں بھی۔اوریہ کوئی مستبعد بات نہیں ہے۔
تاریخ الاسلام اورسیراعلام النبلاء میں بہت سارے تراجم میں تشابہ لفظی موجود ہیں کیونکہ جب مصنف ایک ہے اورموضوع اورترجمہ بھی ایک ہے تو مشابہت کیابلکہ توافق بھی ہوناحیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔
دکتوربشاردعواد

عصرحاضر میں جن لوگوں نے حافظ ذہبی پر گرانمایہ کام کیاہے ان میں سب سے نمایاں نام دکتوربشاردعواد کاہے ان کی کتاب الذہبی ومنہجہ فی تاریخ الاسلام ذہبی شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اوریہ ان کتابوں مین سے ہے جس میں واقعتا تحقیق کی چاشنی ہوتی ہے۔ورنہ بیشتر کتابیں ازقبیل "منقول"ہوتی ہیں۔
دکتوربشار نے "الذہبی ومنہجہ فی تاریخ الاسلام" ص170میں اس کتاب کاذکر کیاہے اورکتب خانہ مدرسہ محمودیہ میں اس کے نسخہ کاحوالہ دیاہے۔

عبدالستارالشیخ

انہوں نے حافظ ذہبی کی سوانح پر گراں قدر کتاب "الحافظ الذہبی مورخ الاسلام،ناقد المحدثین،امام المعدلین والمجرحین "کے نام سے لکھی ہے۔اس میں بھی انہوں نے ذیل سیر اعلام النبلاء کا اعتراف کیاہے۔


میرے خیال سے اتنی ساری بحث یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ جس طورپر موصوف دیوان الضعفاء والمتروکین کااثبات کرتے ہیں اس سے کہیں بہترطورپر ذیل تاریخ الاسلام یاذیل سیر اعلام النبلاء کااثبات ہوتاہے۔
کفایت اللہ صاحب کو چاہئے کہ وہ موضوعیت کو برقراررکھتے ہوئے بحث کریں۔ اگرابن تیمیہ پر کسی کتاب میں تنقید ہوئی ہے تواس تنقید کو کھلے دل سے قبول کریں سرے سے کتاب کا ہی انکار نہ کردیں۔
جہاں تک دیوان الضعفاء والمتروکین اورمیرے موقف کا تعلق ہے توصرف یہ بتانے کیلئے ہے کہ جتنی حجتیں وہ ذیل تاریخ الاسلام کیلئے کرتے ہین اتنی حجت ہمیں بھی آتی ہے اوراگرذیل تاریخ الاسلام حافظ ذہبی کی کتاب ثابت نہیں ہوتی تواسی استدلال پر یہ کتاب بھی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اسکونقل کرنے والاخود مجروح ہے اورکفایت اللہ صاحب کے پاس کتاب کو نقل کرنے والاکوئی دوسراصحیح سالم راوی موجود نہیں ہے۔جب کہ ہمارے پاس ذیل تاریخ الاسلام یاذیل سیر اعلام النبلاء کا صحیح سالم راوی موجود ہے۔

اگردیوان الضعفاء والمتروکین کی حافظ ذہبی کی جانب نسبت ثابت ہے توجس استدلال اورعلمی معیار پر وہ ثابت ہوتی ہے اسی علمی معیاراوراستدلال پر یہ ذیل تاریخ الاسلام بھی ثاب ہوتی ہے۔
اب کفایت اللہ صاحب کے پا س موقع ہے کہ وہ دونوں کتابوں کے تعلق سے اپناموقف صاف کریں ۔اورموقف صاف کرنااس طورپر ہو کہ ہم سخن فہم ہیں غالب کےطرفدار نہیں۔ نہ کہ یہ ہو ۔ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے۔
المقصود بيانه أن هذه الترجمة مقحمة وليست من صلب الكتاب لأن صاحب الترجمة توفي بعد الإمام الذهبي بعامين، فالإمام الذهبي توفي عام 748، وصاحب الترجمة توفي عام 750 ، فلا أدري كيف جائت هذه الترجمة هاهنا، ومرت على محقق الكتاب مرور الكرام؟!
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي. - ملتقى أهل الحديث

کفایت اللہ صاحب کی یہ عبارت دیکھیں اورپھر یہ عربی پیراگراف پڑھیں۔ اس کے بعد بھی ان کا دعویٰ یہی رہے گاکہ نہ صاحب جوکچھ کہاہے وہ میرے علم وعرفان کا نتیجہ ہے۔ میں اس میں کسی دوسرے کااحسان مند نہیں ہوں۔
ابن السباک کا تذکرہ کیسے آیااس بارے میں بہت ساری باتیں ہوسکتی ہیں۔ اورسب سے بہتر بات یہ ہے کہ ابن السباک کے تذکرہ کو دخیل اورمقتحم ماناجائے نہ کہ پوری کتاب ہی کومشکوک قراردی جائے اوراہل علم نے یہی طریقہ کار اختیار کیاہے۔
یاپھر یہ ہوسکتاہے کہ انہوں نے صرف ابن السباک کا تذکرہ کیاہو جیساکہ اپنے دیگر ان معاصرین کاتذکرہ کیاہے جوان سے چھوٹے تھے لیکن بعد میں کتابت کی کسی غلطی کی وجہ سے ان کاتاریخ وفات بھی اس میں شامل ہوگیاہو۔جیساکہ میں پہلے بھی ذکر کرچکاہوں۔

واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
جہاں تک اصل مخطوطہ کی بات ہے تواصل مخطوطہ انٹرنیٹ پر صرف عبدالقادرالقرشی والاملتاہے دوسراوالاجونسخہ ہے اورجومولف کی حیات میں ہی لکھاگیاتھا۔ وہ نسخہ انٹرنیٹ پرنہیں ملتا۔

معلوم ہوا کہ یہ کتاب امام ذہبی کی ہے ہی نہیں ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی سے مذکورہ قول نقل کرنے میں اسی کتاب کو ماخذ بنا یا ہے جیسا کہ وہ کتاب کے شروع میں ماخذ کی فہرست دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وتاريخ مصر لشيخ شيوخنا الحافظ قطب الدين الحلبي وذيل سير النبلاء للحافظ شمس الدين الذهبي [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 3]
معلوم ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف مذکورہ ضمیمہ کی نسبت درست نہیں لہذا اس ضمیہ سے پیش کردہ عبارت سے امام ذہبی بری ہیں۔
کفایت اللہ صاحب کا خط کشیدہ جملہ نہایت ہی قابل غور ہے۔

الدررالکامنہ میں صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں جن دیگر کتب سے استفادہ کیاہے اس میں ایک ذٰل سیر اعلام النبلاء بھی شامل ہے۔ اسمیں کہیں دور دور تک اس کی صراحت نہیں ہے کہ حافظ ذہبی کے سامنے حافظ عبدالقادرالقرشی کانسخہ تھا۔

ہمیں نہیں معلوم کہ کفایت اللہ صاحب کو یہ الہام کہاں سے ہواکہ حافظ کے سامنے ذیل سیر اعلام النبلاء کا جونسخہ تھا وہ عبدالقادرالقرشی کاہی تھا جب کہ یہ بات پہلے ہی واضح ہوچکی ہے کہ اس کتاب کا دونسخہ ہے اورایک نسخہ حافظ ذہبی کے حین حیات ہی لکھاگیاہے اوراغلب یہی ہے کہ وہی نسخہ حافظ ابن حجر کے سامنے ہوگا۔

اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ حافظ عبدالقادرالقرشی باعتبار طبقہ حافظ سخاوی کے ہم عصر ہیں۔ یعنی حافظ ابن حجر اورحافظ عینی کے شاگردوں کے طبقہ کے ہیں۔ اس لئے یہ قبول کرنے میں تامل ہے کہ حافظ ابن حجر کے سامنے جونسخہ ہوگا وہ حافظ عبدالقادرالقرشی کا ہوگا۔

سابقہ تمام بحث سے یہ ثبات ہوچکاہے کہ مذکورہ کتاب حافظ ذہبی کی ہے اوراس ذیل کی نسبت حافظ ذہبی کی جانب بالکل درست ہے۔ تمام قابل ذکر اہل علم نے اس ذیل کی نسبت کو حافظ ذہبی کی جانب صحیح قراردیاہے۔میرے علم میں کوئی بھی ایساقابل ذکر اہل علم میں سے نہیں ہے جس نے اس ذیل کی نسبت کا صراحتاانکار کیاہو۔ نام میں اختلاف دوسری بات ہے کہ یہ نام ذیل سیر اعلام النبلاء ہے یاذیل تاریخ الاسلام ہے لیکن مکمل طورپر کتاب کاہی انکار ۔یہ میری معلومات سے پرےہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جمشید صاحب !
آپ صریح جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ’’ایک نسخہ میں اصل کتاب سے باہر حاشیہ میں لکھاہے‘‘۔ محقق نے ایسی کوئی صراحت نہیں کی تھی بلکہ اس کی صراحت یہ تھی کہ:

’’ لما لم تکن هذه الترجمة في نسخة وکانت في أخري أوردتها علي الحاشية‘‘ (بحوالہ تحقیق الکلام : ص ١٤٤)۔

یعنی چونکہ یہ ترجمہ ایک نسخہ میں نہیں تھا اور دوسرے نسخہ میں تھا اس لئے میں نے اسے حاشیہ پر رکھ دیا ہے۔
غورکریں محقق نے جمشید صاحب کی طرح یہ نہیں کہا ہے کہ یہ ترجمہ دوسرے نسخہ کے حاشیہ پر تھا بلکہ محقق نے یہ کہا ہے کہ یہ ترجمہ دوسرے نسخہ میں تھا لیکن اس محقق نے ہی اسے حاشیہ پر ڈال دیا۔
انہوں نے ایک نادانستہ غلطی کو جھوٹ پر محمول کیاہے۔ جب کہ اس طرح کی غلطیاں کفایت اللہ صاحب کے مراسلوں میں بھی موجود ہیں۔مثلاانہوں نے النصیحۃ اورخط کے بیان میں خلط ملظ کیاتھا ۔اگرمیں چاہتاتووہاں کہہ سکتاتھاکہ کفایت اللہ صاحب آپ صریحاًجھوٹ بول رہے ہیں۔اسی غرض سے میں نے اردومجلس پر جوجومراسلہ میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کے تعلق سے لکھاتھا۔اس کا حوالہ بھی دے دیاتھا۔اس میں وہی بات ہے کہ میزان الاعتدال کے محقق نے جس نسخہ کو اصل بنایاتھا اس مین امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں تھا۔دوسرے میں تھا لہذا انہوں نے امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو حاشیہ میں رکھاتھا۔

یہی کتاب جب بعینہ مصر سے طبع ہوئی تو ناشرین نے بغیر کسی وضاحت کے امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو کتاب میں شامل کردیا۔یہ بتانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان کو کس نسخہ میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ ملاہے اوراس نسخہ کی وثاقت کا کیاحال ہے۔
میرے مضمون میں میری تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

ہندوستان میں لکھنؤ میں1301ہجری میں مطبع انوار محمد سے میزان الاعتدال شائع ہوئی جس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ حاشیہ میں دوسطروں میں ذکر کیاگیاتھا۔اوراس کتاب کے محقق اورمثبت نے اس بارے میں توضیح کی تھی کہ امام ابوحنیفہ کا تذکرہ اس نسخے میں (جس پر بنیادی طورپر اعتماد کیاگیاتھا)نہیں تھا دوسرے نسخہ میں تھا اس لئے میں نے حاشیہ میں ذکر کیاہے۔ لیکن جب یہی کتاب مصر میں 1325میں شائع ہوئی تو امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو کتاب کے متن میں شامل کیا گیا اوراس بارے میں کوئی وضاحت اورصفائی نہیں دی گئی جیساکہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے ذکر کیاہے۔
اس واضح عبارت کے باوجود اس کو صراحتا جھوٹ سے تعبیر کرنا یہ کفایت اللہ صاحب کا ہی حصہ ہے کہ انہوں نے دوران تحریر نادانستہ غلطی کو بھی جھوٹ میں شمار کیاہے۔ویسے اگریہ صریح جھوٹ ہے تواس طرح کے کئی جھوٹ کفایت اللہ صاحب سے بھی صادر ہوئے ہیں۔لیکن ہم نے ان کو تحریر میں نادانستہ غلطیوں پر محمول کیااوراسی لئے ان سے گزارش کی کہ وہ اس کی اصلاح کرلیں۔
ویسے بہت پہلے کہنے والے کہہ گئے ہیں۔
جس کا جتنا ظرف ہے وہ اس کے پیمانے میں ہے۔
اوریہ احناف کی کوئی نئی حرکت نہیں ہے بلکہ یہی تو ان کا عام طور سے معمول ہے کہ جس عبارت کو اصل کتاب سے غائب کرنا ہوتا ہے سب سے پہلے اسے متن سے نکال کرحاشہ پر لاتے ہیں اور پھر ایک دو طباعت کے بعد اسے حاشیہ سے بھی غائب کردیتے ہیں ۔
آپ نے احناف پر جوالزام لگایاہے اسی ردیف ،بحراورقافیہ میں جواب سنتے جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کتابوں میں سب سے زیادہ کتربیونت نام نہاد سلفیوں نے کی ہے۔امام نووی کی الاذکارکتنی مشہور کتاب ہے۔تقریباہرگھر میں اس کی ایک جلد موجودہوگی اس میں امام نووی نے باب باندھا ہے روضہ نبوی کی زیارت کا۔ سلفیوں نے جب یہ کتاب شائع کی تواس عنوان کو بدل دیامسجد نبوی کی زیارت کا۔
کتاب کے محقق نامور سلفی عالم عبدالقادر الارناؤط ہیں۔ ان کی جو وضاحت ملتقی اہل الحدیث پر شائع ہوئی ہے وہ عذرگناہ بدترازگناہ کے قبیل سے ہے۔ ان کو ایک دوسرے عالم نے خبردار کیاکہ آپ کی تحقیق سے شائع ہونے والی کتاب میں کچھ کتربیونت کی گئی ہے۔تواس کو انہوں نے تعلیقات میں ہونے والی کتربیونت سمجھ لیااوراس کی قطعازحمت گوارہ نہیں کی کہ جب ایک شخص مجھ کو آگاہ کررہاہے توایک مرتبہ دیکھ تولوں واقعہ کیاہے۔
ہماری رائے تویہ ہے کہ یہ ردوبدل موصوف کے علم میں تھا لیکن جب بعد میں اس پر سخت تنقید ہوئی اورانہیں لگاکہ اب ان کی علمی ساکھ مجروح ہوگئی ہے توپھرانہوں نے وضاحتیں دینی شروع کردیں۔
ویسے کفایت اللہ صاحب سے پوچھنایہ ہے کہ آج توامام نووی کی الاذکار میں یہ ردوبدل کردیاگیاہے اب بیس تیس برس کے بعد اسی نسخہ پر اعتماد کرکے سلفی حضرات یہ نہیں کہناشروع کردیں گے کہ مشہور محقق عبدالقادرالارناؤط کی تحقیق سے شائع ہونے والی کتاب میں امام نووی نے مسجد نبوی کی زیارت کا باب باندھا تھا اور وہی محقق ہے اور وہی صحیح ترین نسخہ ہے جوحال انہوں نے حافظ ذہبی کی میزان الاعتدال کے ساتھ کیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مصر سے شائع ہونے والے نسخہ کے محققین نے ایک نیک کام کیا ہے اس پر ثواب عظیم کی امید ہے ، کیونکہ پہلے یہ ترجمہ اصل متن میں تھا متعصب احناف نے اسے حاشیہ پر ڈال کے اس ترجمہ کے ساتھ ظلم کیا ہے ، اور پھر اللہ نے کسی کو یہ سعادت بخشی کی وہ اس ترجمہ کو اس کے اصل جگہ پر واپس لائے ، جزاہ اللہ خیرا والحمدللہ۔
انسان کو بولتے وقت اگرخداکاخوف نہیں توپھردنیا والوں کاہی لحاظ کرناچاہئے ۔
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ
کیونکہ پہلے یہ ترجمہ اصل متن میں تھا۔
یہ کفایت اللہ صاحب کی غلط بیانی ہے ۔ وہ ثابت کریں کہ کب یہ کتاب شائع ہوئی جس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ اصل متن میں تھا۔کیاکسی جلے بھنے سلفی کے کسی کام کو چاہےوہ کتناہی جاہلانہ کیوں نہ ہوں اس لئے مان لیاجائے گاکہ کرنے والاسلفی ہے۔اس لئے اس کی سات خطائیں معاف کردی جائیں ۔
جس نام نہاد محقق نے امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو اصل کتاب میں شامل کیاہے اس کو بتاناچاہئے کہ کس نسخہ میں امام ابوحنیفہ کانام ہے اوراس نسخہ کی توثیقی حالت کیاہے اورمصنف نے" سند صحیح "سے وہ نسخہ ثابت ہے یانہیں۔اگرمحقق اپنے کئے دھرے کا جواب دینے کیلئے خداکے پاس پہنچ چکے ہیں توکفایت اللہ صاحب ان کی جانب سے جواب دہی کرلیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے محقق نے اس تعلق سے کچھ بھی نہیں کہاہے کہ اس کو کس نسخہ میں امام ابوحنیفہ کانام ملااوراس نسخہ کی وثاقت کی حالت کیاہے۔ کفایت اللہ صاحب کی علمی امانت ودیانت کاعالم تویہ ہے کہ وہ ذیل تاریخ الاسلام کو محض اس لئے حافظ ذہبی کی تصنیف نہیں مانتے کہ ا س کے ناسخ نے جو سند بیان کی ہے اس میں مجہول روات ہیں اورانقطاع ہے۔

لیکن میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کواس لئے ثابت مان لیتے ہیں کہ کہ اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہے اوراسی طرح دیوان الضعفاء والمتروکین کوبھی فوراحافظ ذہبی کی تصنیف تسلیم کرلیتے ہیں کیونکہ ا سمیں حافظ امام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہے۔انہوں نے یہ ڈبل اسٹینڈرڈ یااردو میں کہیں تو دوہرامعیار کہاں سے سیکھاہے ہمیں نہیں معلوم لیکن قرائن سے پتہ چلتاہے کہ یہ ان کی سلفیت کی دین ہے۔

کفایت اللہ صاحب کے تحقیقی معیار کو دیکھ کرافسوس ہوتاہے کہ ہرتھریڈ میں ان کا تحقیقی معیار بدلتارہتاہے گویاجس طرح تھریڈ بدلتے ہیں تراجم بدلتے ہیں موصوف کا معیار بدل جاتاہے اورموصوف اپنے دستخط میں موجود شعر پر پوری طرح عمل کرلیتے ہیں ۔
ناظرین نے دیکھاکہ انہوں نے جوایڑی چوٹی کا زور اورجودلائل اس امر پر پیش کئے تھے کہ دیوان الضعفاء والمتروکین حافظ ذہبی کی ہی کتاب ہے۔ اس سے زیادہ قوی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ذیل تاریخ الاسلام یاذیل سیر اعلام النبلاء حافظ ذہبی کی ہی تصنیف ہے۔
لیکن ایک کتاب کو تووہ حافظ ذہبی کی تسلیم کرتے ہیں اوردوسرے کو تسلیم نہیں کرتے اس کے پیچھے کوئی علمی تحقیق پوشیدہ نہیں ہے بلکہ صرف ذاتی خواہش اورہوائے نفس ہے۔ ایک میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ ہے اس لئے وہ کتاب حافظ کی ہے۔دوسرے میں حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ پر تنقید کی ہے اس لئے وہ حافظ ذہبی کی تصنیف نہیں ہے ۔
یہی حال میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے شامل ہونے کی بات ہے۔
کفایت اللہ صاحب اپنامعیار تحقیق سامنے رکھیں اور سند صحیح سے وہ نسخہ ثابت کریں جو حافظ ذہبی کی ہو اوراس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہو۔تعجب کی بات تویہ ہے کہ میزان الاعتدال کے مصری ایڈیشن کے محقق علی محمد البجاوی نے حافظ ذہبی تک مخطوطہ کی سند پر کوئی بات نہیں کی ہے لیکن کفایت اللہ صاحب نے فرض کرلیاہے کہ جب ایک جلے بھنے سلفی نے میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ شامل کیاہے توضرور صحیح ہوگا۔ تقلید کو خلاف اسلام بتانے والے ہرقدم پر تقلید کرتے چلے جاتے ہیں کبھی البانی کی توکبھی علی محمد البجاوی اوردیگر کی لیکن پھر بھی نعرہ مستانہ وہی رہتاہے کہ تقلید خلاف شرع کام ہے۔
واضح رہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اسی لئے کفایت اللہ صاحب کے پاس اس سلسلے میں نکتہ نوازیاں توہیں کہ ایسے نام شامل ہوجاتاہے ویسے تذکرہ شامل ہوجاتاہے لیکن جب مخطوطات پر بحث کی بات آتی ہے تو صم وبکم ہوجاتے ہیں۔
میں نے سابقہ مضمون میں جہاں مخطوطات پر بحث کی تھی وہاں اس سلسلے کے دلائل ذکر کئے تھے۔ وہ ایک عام شخص کیلئے جو غیرجانبداری اس کو سمجھناچاہتاہو اس کیلئے کوئی مشکل نہیں تھی لیکن جب لوگ ضد اورتعصب میں آجائیں تو پھر سمجھانابہت مشکل ہوجاتاہے کیونکہ جب کوئی طے کرلے کہ اسے سمجھنا نہیں ہے توپھراسے کیسے سمجھایاجاسکتاہے ویسے بھی ہندی میں "بالک ہٹ"مشہور ہے۔اب یہ پتہ نہیں کفایت اللہ صاحب بالک ہیں یاکچھ اور لیکن ان کی ضد بالک ہٹ کی یاد دلاتی ہے۔
بہت دشوار ہے سمجھاناغم کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب کسی کتاب کے مصنف تک نسبت صحیح ہونے کیلئے سند صحیح کی بات کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ یہ اہل علم کے یہاں بھی رائج ہے یانہیں ان کے اسی معیار پر میزان الاعتدال کو رکھتے ہیں۔

اولاتو اس کی ذمہ داری کفایت اللہ صاحب کی ہے کہ وہ میزان الاعتدال کے اس نسخہ کو سند صحیح سے ثابت کریں جس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہے۔اورخواہ مخواہ کی دیگر نکتہ نوازیاں نہ کریں۔

ثانیاًاس سلسلے میں صرف سند صحیح ہی کافی نہیں ہوگی بلکہ یہ بھی ثابت کرناہوگاکہ یہ حافظ ذہبی کے حین حیات اوران پر پڑھاگیاآخری عمر کا اورسب سے آخر کا نسخہ ہے جیساکہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے ثابت کیاہے کہ ان پر ان کے انتقال سے کچھ روز پہلے جونسخہ پڑھاگیااورجس پر محدثین واجلہ علماء کی تصدیقات ہیں اس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ نسخہ نہ صرف یہ کہ سند صحیح سے ثابت ہے بلکہ اس نسخہ کوحافظ ذہبی پر پڑھنے والوں نے اپنی تصدیقات بھی لکھیں ہیں۔ اس میں اس کابھی ذکر ہے کہ یہ حافظ ذہبی کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل پڑھاگیاہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔یہ کفایت اللہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسانسخہ ثابت کریں جوسند صحیح ہونے کے علاوہ یہ بھی بتاتی ہو کہ وہ شیخ عبدالفتاح کے ذکر کردہ نسخہ سے بھی زیادہ صحیح ہے اورحافظ ذہبی پرپڑھاگیاآخری نسخہ ہے۔کیونکہ اگرکسی نسخہ میں بالفرض امام ا بوحنیفہ کا نام موجود ہو لیکن آخر ی نسخہ جوحافظ ذہبی پرپڑھاگیاہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کا نام موجود نہیں ہے تواعتبار آخری نسخہ کا ہوگا۔ نہ کہ پہلے والے نسخوں کا۔وہ پہلے یہ ثابت کریں اوراس کے بعد متعصب احناف کی بات کریں اگروہ ثابت نہیں کرسکتے اورہمارایقین ہے کہ وہ ثابت نہیں کرسکتے توپھر اپنے جلے بھنے سلفیوں کا ذکر کریں اوران کے افعال شنیعہ پر توبہ واستغفار کریں ۔نہ کہ احناف کو تعصب کا الزام دیں۔
مناسب ہے کہ اس موقعہ سے حافظ عبدالفتاح کے ذکر کردہ نسخہ کے تعلق سے جوکچھ میں نے سابقہ مضمون میں لکھاہے اس کو ایک مرتبہ پھر دوہرادوں۔تاکہ غیرجانبدار قارئیں بھی ملاحظہ کرلیں کہ امام ابوحنیفہ کو میزان الاعتدال میں شامل کرنے میں دلیل اورتحقیق کس کے پاس ہے اورکون صرف دعاوی سے کام لے رہاہے۔

شیخ عبدالفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں کہ میں نے کتب خانہ ظاہریہ میں میزان الاعتدال کے نسخہ کی تیسری جلد کو دیکھاجوحدیث کے شعبہ میں368نمبر میں ہے وہ بہت نفیس نسخہ ہے۔ میم کے حرف سے شروع ہوکر آخرکتاب تک ہے۔ یہ پورا نسخہ علامہ حافظ شرف الدین عبداللہ بن محمدالوانی الدمشقی متوفی749نے لکھاہے۔ جو حافظ ذہبی کے شاگرد بھی ہیں۔ اوراس نسخہ کو انہوں نے حافظ ذہبی پر پڑھابھی ہے اورتین بار اصل جو حافظ ذہبی کا نسخہ ہے اس سے مقابلہ بھی کیاہے جیساکہ انہوں نے خود صفحہ نمبر109اور159کی پشت پر ضاحت کی ہے۔اس کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر انہوں نے حافظ ذہبی پر اپنے نسخہ کے پڑھے جانے اوراصل نسخہ سے مقابلہ کئے جانے کا ذکر کیاہے ۔اس نسخہ میں امام ابوحنیفہؒ کاکوئی تذکرہ نہیں ہے۔نہ حرف نون میں اورنہ کنیت میں۔

اسی طرح میزان الاعتدال کا جو نسخہ مکتبہ احمدیہ حلب میں رقم نمبر337 میں محفوظ ہے اس میں امام ابوحنیفہ کاکوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ بہت عمدہ نسخہ ہے جوسنہ1160میں علی بن محمد المشہورابن مشمان نے لکھاہے جو بڑے سائز کے ایک ہی جلد میں ہے انہوں نے یہ نسخہ 777میں لکھے گئے ایک نسخہ سے نقل کیاہے ۔

شیخ عبدالفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں 1382ہجری میں مجھے مغرب جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں کے خزانہ عامہ میں(129ق) میزان الاعتدال کا ناقص نسخہ ہے جوحافظ ذہبی کا لکھاہواہے۔جو عثمان بن مقسم البری سے شروع ہوکر آخرکتاب تک ہے۔

اس نسخہ کے حواشی میں بہت سارے زیادات اورحواشی ہیں جو ہرصفحہ پر موجود ہیں یہاں تک کہ بعض صفحات میں زیادات اورحواشی تہائی اورچوتھائی صفحہ کے قریب تک پہنچ جاتے ہیں ۔پوری اصل کتاب ایک خط میں ہے جب کہزیادات اورحواشی الگ الگ خطوں میں لکھے گئے ہیں۔یہ الحاقات اورحواشی کتاب کے چاروں طرف ہیں۔اس نسخہ میں ایسابھی ہے کہ اپنی جانب سے کسی صفہ وغیرہ کو بیچ میں داخل کرکے کچھ لوگوں نے حواشی لکھے ہیں جس کو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے اوراق مدرجہ سے تعبیر کیاہے۔اصل نسخہ کے آخری ورق پر بہت ساری قرائتوں کیتاریخ اوراس نسخہ سے دیگر جو نسخے نقل کئے گئے ہیں ان کا اظہار ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ نسخہ مولف پر کئی مرتبہ پڑھاگیا اوراصل نسخہ سے دیگر لوگوں نے مقابلہ کرکے نقل بھی کیاہے۔
ان میں سے چند کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

انھاہ کتابۃًومعارضۃ داعیالمولفہ عبداللہ المقریزی فی سنۃ تسع وعشرین وسبع ماءۃ
انھاہ کتابۃ ومعارضۃ ابوبکربن السراج داعیالمولفہ فی سنۃ ثلاث وثلاثین وسبع ماءۃ
فرغہ نسخامرۃ ثانیۃ داعیالمولفہ ابوبکر بن السراج عفااللہ عنہ فی سنۃ تسع وثلاثین وسبع ماءۃ
اب کچھ تذکرہ امام ذہبی پر اس نسخہ کے قرات کئے جانے کا ۔

قرات جمیع ھذالمیزان وہوسفران علی جامعہ سیدنا شیخ الاسلام الذھبی ابقاہ اللہ تعالی،فی مجالس آخرھا یوم السبت ثانی عشر شھررمضان سنۃ ثلاث واربعین وسبع ماءۃ بالمدرسۃ الصدریہ بدمشق وکتب سعید بن عبداللہ الدہلی عفااللہ عنہ

قرآت جمیع ھذاالکتاب علی جامعہ شیخناشیخ الاسلام ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ ،فی مجالس آخرھا یوم الجمعۃ ثانی عشر رجب الفرد سنۃ خمس واربعین وسبع ماءۃ بمنزلۃ فی الصدریہ،رحم اللہ واقفھا بدمشق المححروسۃ،وکتبہ علی بن عبدالمومن بن علی الشافعی البعلبکی حامداًومصلیاًعلی النبی وآلہ مسلماً
قرات جمیع کتاب میزان الاعتدال فی نقدالرجال وماعلی الھوامش من التخاریج والحواشی والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخناالام العلامۃ ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین میں شہر رمضان المعظم فی سنۃ سبع واربعین وسبع ماءۃ فی الصدریہ بدمشق ،واجاز جمیع مایرویہ وکتب محمد(بن علی الحنفی)بن عبداللہ۔۔۔۔۔۔
جب کہ حافظ ذہبی کی وفات ذی قعدہ کی تیسری تاریخ کی رات میں سنہ748میں ہوگئی جیساکہ حافظ ابن حجر نے الدررالکامنۃ (3/33 میں واضح کیاہے۔
صرف یہی تنہادلیل یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ حافظ ذہبی کے میزان الاعتدال کے نسخوں میں اگرکسی میں بالفرض امام ابوحنیفہ کا تذکرہ ہے بھی وہ منسوخ ہے کیونکہ آخری مرتبہ ان پر جو میزان الاعتدال کانسخہ پڑھاگیاہے اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر نہیں ہے۔پھر وہ نسخے جس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے صحت کے اعلیٰ مدارج پر ہیں۔
نوٹ:ہمارے علم کے مطابق یہ نسخہ حافظ ذہبی پر قرات کیاگیا میزان الاعتدال کاآخری نسخہ ہے۔
اگرکفایت اللہ صاحب کویہ ضد ہے کہ نہیں صاحب میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ شامل ہے۔ تووہ اس کیلئے صرف دوکام کریں۔ ہمیں ان کی بات تسلیم کرلیں گے۔
اولامیزان الاعتدال کا ایسانسخہ تلاش کریں جو درج ذیل نسخوں سے بھی زیادہ صحیح ہو یااصح ہو۔
ثانیاًاس مین حافظ ذہبی پر قرات کی جوتاریخ ہے یعنی 747ہجری میں رمضان کے مہینہ میں ان پر پڑھاگیا۔
وہ اس سے زیادہ بھی قدیم قرات اورتقابل والے نسخہ کو لے آئیں ۔ہم ان کی بات کو مان لیں گے اوراگر وہ ایسانہیں کرسکتے وان لم تفعلوا فاتقواالنار التی الخ
میزان الاعتدال کا ایک نسخہ مصورہ دکتور بشار عواد کے پاس ہے جو حافظ ذہبی کا لکھاہواہے۔ اس میں بھی امام ابوحنیف کا تذکر نہیں ہے اوردکتوربشارعواد کی بھی رائے یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ کا میزان الاعتدال میں تذکرہ" مدسوس "ہے۔
دکتوربشارعواد تہذیب الکمال میں امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں حاشیہ میں لکھتے ہیں۔
ابوحنیفہ النعمان بن ثابت امام کبیر من الائمۃ فقیہ عظیم من فقہاء الاسلام ،وقد تکلم فیہ بعض الناس وتطاولوا علیہ بسبب الرای،وزعموا ان الامام الذہبی ترجم فی المیزان وھی ترجمۃ مدسوسۃ ،ففی خزانۃ کتبی نسخۃ المولف التی بخطہ، مصورہ ،ولیس فیھا ترجمتہ ۔(تہذیب الکمال29/445)
کفایت اللہ صاحب ہم سے تویہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم ذیل تاریخ الاسلام کا نسخہ سند صحیح سے ثابت کریں لیکن جو محترق سلفی خواہ مخواہ امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کو میزان الاعتدال میں شامل کیاہے جیسے علی محمد البجاوی ۔ان سے ایک مرتبہ بھی یہ مطالبہ کرنے کی توفیق ہوئی کہ وہ کہیں کہ وہ نسخہ جس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ ہے اس کو سند صحیح سے ثابت کریں۔ انہوں نے اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی ہوگی۔
انہوں نے یہ ڈبل اسٹینڈرڈ یااردو میں کہیں تو دوہرامعیار کہاں سے سیکھاہے ہمیں نہیں معلوم لیکن قرائن سے پتہ چلتاہے کہ یہ ان کی سلفیت کی دین ہے۔

میزان الاعتدال کے تعلق سے مزید معلومات کیلئے اسے پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذ کرہ - URDU MAJLIS FORUM
یاپھر یہ پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ
۔
مذکورہ لنک پرجواب بھی دیا جاچکا ہے
اردومجلس کے اس لنک پر جاکر کوئی بھی شخص دیکھ سکتاہے کہ کیاکفایت اللہ صاحب نے کسی بھی مخطوطے پر بحث کرنے کی جرات دکھائی ہے ۔وہاں توانہوں نے نہ توکسی مخطوطہ پر بحث کی ہے اورنہ ہی کسی مخطوطہ کی سند پر بحث کی ہے۔
اس سے یہ شبہ قوی ہوجاتاہے کہ ذیل تاریخ الاسلام میں جوانہوں نے مخطوطہ کی سند کی بحث چھیڑی ہے وہ ان کی نئی نئی نکتہ نوازی ہے اوراس کا مقصد صرف ذیل تاریخ الاسلام مین ابن تیمیہ کے تعلق سے عبارت کا دفاع ہے علم اورتحقیق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
موصوف نے اردومجلس میں میرے مضمون پر جونکتہ نوازیاں کی ہیں اورجولطائف بلکہ کثائف پیش کئے ہیں۔ ا س کی ایک جھلک دیکھاتاچلوں تاکہ اس خشک بحث سے جن لوگوں کو اکتاہٹ ہوچلی ہو اورہونٹوں پر پپڑیاں پڑگئی ہوں۔ ان کے خشک لبوں پر مسکراہٹ دوڑ سکے۔
یہ میری عبارت تھی
اسی طرح وہ حافظ مزی کی رجال میں لکھی گئی کتاب الکمال فی اسماء الرجال جس کااختصار انہوں نے تہذیب الکمال فی اسماء الرجال کے نام سے کیا۔اس میں جلد9صفحہ 218،رقم نمبر7194میں چھ صفحات میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ قلم بند کیا۔آخر میں حافظ ذہبی کہتے ہیں۔قداحسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئاً یلزم منہ التضعیف۔
حافظ ذہبی کی یہ عبارت کتنی صاف اورواضح ہے۔کہاں یہ عبارت اورکہاں میزان میں امام ابوحنیفہ کا مسخ شدہ ترجمہ۔
اس پر کفایت اللہ صاحب کی یہ نکتہ نوازی اوردیدہ وری ملاحظہ کیجئے اورتھکن کے لمحات کو دورکرنے کا کام لیجئے۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے صرف اس بات کی تحسین کی ہے امام مزی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سلسلے میں‌ کوئی تضعیف والی بات نقل نہیں کی لیکن اس سے یہ ثابت ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ تضعیف والی باتوں سے متفق بھی نہیں ہیں
کفایت اللہ صاحب پتہ نہیں کس عالم خیال میں کھوئے ہوئے ہیں۔یہ مزی کی تہذیب الکمال نہیں بلکہ حافظ ذہبی کی تذہیب التذہیب کی عبارت ہے۔دراصل ماقبل میں میری عبارت جولکھی گئی ہے وہ غلط ہوگئی ہے میں نے الکمال فی اسماء الرجال کو حافظ مزی کی جانب منسوب کردیا جو غلط ہے۔ الکمال فی اسماء الرجال حافظ عبدالغنی کی کتاب ہے۔ اس کا اختصار حافظ مزی نے تہذیب الکمال کے نام سے کیاہے اورپھراس کا اختصار حافظ ذہبی نے تذہیب التذہیب کے نام سے کیاہے۔ اسی تذہیب التذہیب میں حافظ ذہبی نے یہ بات کہی ہے۔
حافظ مزی نے توامام ابوحنیفہ کا بہت طویل ترجمہ کیاہے اس طویل ترجمہ کااختصار حافظ ذہبی نے چھ صفحات میں کیاہے۔
یہ کہناکہ اس سے یہ ثابت ہرگز نہیں ہوتاکہ وہ تضعیف والی باتوں سے متفق بھی نہیں ہیں۔ خواہ مخواہ کی بکواس ہے۔کتاب حافظ ذہبی کی ہے۔ ان کے سامنے کیامانع تھا کہ وہ حافظ مزی پر تعلیق کرتے اوران پر تنقید کرتے جیساکہ دوسرے مواقع اوردوسرے تراجم میں کیاہے۔بلکہ آپ حافظ ذہبی کی عبارت دیکھیں یہ توبالکل صاف سیدھی اوربغیر کسی تاویل کے سمجھ میں آجانے والی ہے۔

، دراصل امام مزی کی مذکورہ کتاب خاص ضعفاء پر نہیں ہے بلکہ رواۃ کے عمومی تعارف پر ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی مصلحت یہ ہے کہ چونکہ امام ابوحنیفہ کے عقیدت مند بہت ہیں اور ان کی تضعیف والی بات سے بدک اٹھتے ہیں اس لئے ان کی تضعیف ہرجگہ ذکر کرنا مصلحۃ مناسب نہیں ہے بلکہ صرف ان کتابوں‌ میں اس کا ذکر ہو جو خاص ضعفاء پر لکھی گئی ، اور عام کتب میں صرف ان کے فضائل کے ذکر پر اکتفا کیاجائے
یہ تاویل توایسی ہے کہ بڑے بڑے تاویلیوں کو اس پر پھڑک جاناچاہئے تھا۔لگتاہے کہ انہوں نے صرف خود کوہی روات اورجرح وتعدیل کا ماہر سمجھ رکھاہے اوریہ فرض کرلیاہے کہ وہ جوکچھ فرمائیں گے دوسرے آنکھ بند کرکے اس پر آمناوصدقناکہہ دیں گے۔ ان کے حواری آنکھ بند کرکے یادماغ کی کھڑکیاں کھولے بغیر آمناوصدقناکہہ سکتے لیکن وہ دوسروں سے اس کی توقع نہ رکھیں۔
یہ تو صحیح بات ہے کہ مزی کی مذکورہ کتاب خاص ضعفاء پر نہیں ہے بلکہ راویان حدیث پر ہے۔لیکن اس سے یہ کہاں سے لازم آگیاکہ اس میں جرح وتعدیل کے اقوال ذکر نہیں کئے جائیں گے۔کیاکوئی کہہ سکتاہے کہ مزی نے صرف تراجم کے فضائل بیان کئے ہیں۔روات پر جرح وتعدیل نہیں کی ہے۔ایسی باتوں کا علم وتحقیق سے نہیں بلکہ ذہنی گرہ اورنفسیاتی الجھن سے تعلق ہواکرتاہے۔

پھر اس کے بعد امام ابوحنیفہ سے بغض ونفرت کی بنیاد پر مرتب ہونے والی بات کو جس طرح حافظ ذہبی پر تھوپاگیاوہ تواغلوطہ اورمغالطہ کی بات ہے۔ (خضرحیات صاحب نے تشریح کی ہے کہ مغالطہ اعلیٰ قسم کے جھوٹ کوبھی کہتے ہیں۔آپ کا یہ مغالطہ ہمیں اسی قسم کا معلوم ہورہاہے۔)
امام ذہبی کیاکوئی اہل حدیث اورغیرمقلد تھے جوکبھی کچھ اورکبھی کچھ بیان کرتے ۔ انہوں نے زندگی میں جس چیز کو سچ جانا اس کو سچ کہااورجس کو غلط جانااسے غلط کہا۔اس وجہ سے ان کو مادی اورمالی مشکلات بھی برداشت کرنی پڑیں باوجود استحقاق تامہ کے ان کو دارالحدیث کی سربراہی نہیں سونپی گئی لیکن اس کے باوجود انہوں نے زندگی میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
کفایت اللہ صاحب کی اس پوری عبارت کا پس منظر یہ ہے کہ انہیں حافظ ذہبی کی تمام کتابوں میں بشمول ایک دو(وہ بھی الحاقی اورغیرثابت شدہ)امام ابوحنیفہ کے تعلق سے توثیق کے کلمات توملتے ہیں تضعیف کے کلمات نہیں ملتے ۔لہذا ان سب کو ایک ہی جملہ میں ختم کرنے کی یہ ترکیب نکالی اوراس کو حافظ ذہبی کی مصلحت کے نام سے بیان کردیا۔

ویسے بھی حافظ مزی ہوں یاحافظ ذہبی دونوں شافعی ہیں ۔اورحنفیہ کے بعد عالم اسلام میں بڑاگروپ انہی کاہے۔لہذاان کو ڈرنے کی کیاضرورت ۔وہ کوئی غیرمقلد توتھے نہیں جوان کو خوف اورخدشہ لاحق ہو اورلوگوں کے ڈر سے کبھی ایک بات بیان کریں کبھی دوسری بات بیان کریں۔ جب کم تعداد میں ہوں توتقیہ کریں اورجب تعداد زیادہ ہوجائے توکچھ اوربیان کریں۔ ٹی وی اور عوام لناس میں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اچھے خیالات ظاہر کریں اورفورم پر تنقیص کریں۔

، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے خاص ضعفاء پر جتنی بھی کتابیں‌ لکھیں سب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ذکر کی ہے مثلا دیوان الضعفاء ، المغنی ، میزان الاعتدال۔
دیوان الضعفاء سند صحیح سے ثابت نہیں اورجس راوی سے مروی ہے اس کی کسی نے توثیق نہیں کی ۔لہذا جب تک کفایت اللہ صاحب توثیق لے کر نہ آئیں ۔دیوان الضعفاء کو کس طرح ثابت شدہ مان سکتے ہیں۔لہذا گزارش ہے کہ وہ پہلے دیوان الضعفاء کو سند صحیح سے ثابت کریں۔ اس کے بعد دیوان الضعفاء والمتروکین کا لفظ اپنی زبان پر لائیں۔
میزان الاعتدال کے صحیح ترین اورحافظ ذہبی کے حیات کے آخری لمحات میں پڑھے گئے نسخوں میں امام ابوحنیفہ کا ذکر نہیں ہے ۔جس سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اگرکچھ نسخوں میں ذکر بھی ہےتو وہ منسوخ ہے۔کیونکہ حافظ ذہبی کے عمر کے آخری حصے میں ان پر میزان الاعتدال کا جونسخہ پڑھاگیاہے اس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے۔
آپ کے شیخ محترم زبیر علی زئی کا تومقالات علمی میں حال یہ ہے کہ اگرکسی مصنف نے دوکتاب آگے پیچھے لکھی ہے اوربعد والی کتاب میں پہلی کتاب میں لکھی گئی بات کاتذکرہ نہیں کیاتووہ اس کو منسوخ مان لیتے ہیں۔ آپ مطالبہ کریں گے تومثالیں پیش کردوں گا۔تویہاں حافظ ذہبی ایسے نسخوں کوجس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے منسوخ مان لینے میں کیاحرج ہے جب کہ واضح دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ان پر آخری نسخہ جوپڑھاگیااورجوخود حافظ ذہبی کا نسخہ ہے اس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہے۔

آپ نے المغنی کابھی ذکر کردیاہے۔المغنی کو ہم نے توالٹ پلٹ کر دیکھ لیاہے اس میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہے۔آپ تونادانستہ غلطی پر صریح جھوٹ کا حکم لگاتے ہیں۔آپ کے انداز میں ہی آپ سے عرض گزارہوں۔
کفایت اللہ صاحب آپ صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔المغنی میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ قطعانہیں ہے۔اگرہے تواسے ثابت کریں۔

اورمیزان میں‌ یہ کھل کر لکھ دیا کہ اس کتاب میں ائمہ متبوعین کا تذکرہ نہیں‌ ہوگا ، اور اگرکسی کا تذکرہ ہوگا تو پورے انصاف کے ساتھ ہوگا تینوں ائمہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو اس استثناء کے مصداق ہوہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں سے کسی کے بارے میں بھی تضعیف کا تصور بھی احمقانہ ہے پھرلے دے کرایک ہی امام بچتے ہیں وہ ہیں امام ابوحنیفہ ، چنانچہ اس کتاب میں ابوحنفیہ کا تذکرہ کرکے اور ان کی تضعیف کرکے یہ بتلادیا کہ انصاف یہی ہے کہ ان کی تضعیف مسلم ہے، میزان ہی کی طرح دیوان الضعفاء میں بھی کئی اہل علم سے صرف امام صاحب کی تضعیف نقل کیا اوردفاع میں ایک حرف بھی نہیں لکھا ۔
مسئلہ صرف اس ذہنی گرہ کا ہے جوآپ کے ساتھ چپکاہواہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا اس مین ذکر ہی نہیں ہے توپھردفاع کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔اگرہم مانیں کہ اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے تواس کے بعد ہی دفاع کا سوال پیداہوگانا۔
آپ تاحال سند صحیح سے دیوان الضعفاء والمتروکین ثابت نہ کرسکے۔اورمیزان الاعتدال کے بھی ایسے نسخے پیش نہ کرسکےجو ترجمہ نہ ہونے والے نسخوں سے زیادہ صحیح ہو۔
اسی طرح میزان میں بھی بعض ثقات کی تضعیف ذکرکرکے ان کا دفاع کیا ہے مگر اسی میزان میں ابوحنیفہ کا دوجگہ ذکر کیا اورکہیں بھی دفاع نہ کیا ۔اس سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بلاشک وشبہ ضعیف ہیں مگر امام ذہبی مصلحۃ ہرجگہ ان کی تضعیف ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔
جب ذکر ہی نہیں توپھر دفاع کیسا۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب ’’تذہیب‘‘ میں بعض رواۃ کے فضائل تو بیان کردئے ہیں مگرتصحیح وتضعیف کے لئے جن اقوال کی ضرورت پڑتی ہے انہیں ذکرنہیں کیا ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم رأيت للذهبي كتابا سماه "تذهيب التهذيب" أطال فيه العبارة, ولم يعد ما في التهذيب غالبا, وإن زاد ففي بعض الأحايين, وفيات بالظن والتخمين, أو مناقب لبعض المترجمين, مع إهمال كثير من التوثيق والتجريح, اللذيْن عليهما مدار التضعيف والتصحيح [تهذيب التهذيب 2/ 3]۔
ایک ہوتاہے بعض جگہ ایساہونا اورایک ہوتاہے خاص ترجمہ میں ایساہونا۔ہوسکتاہے کہ حافظ ذہبی نے بعض تراجم میں توثیق وتضعیف کے اقوال نقل نہ کئے ہوں۔لیکن اس کو خاص ترجمہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں دلیل بناناکس طرح صحیح ہے۔جب کہ اس ترجمہ میں انہوں نے واضح طورپر امام ابوحنیفہ کی ابن معین سے کئی واسطوں سے توثیق نقل کی ہے اورواضح انداز میں یہ کہاہے کہ ہمارے شیخ مزی نے بہت اچھاکیاجوامام ابوحنیفہ کے بارے میں ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی جس سے ان کی تضعیف لازم آتی ہو ۔اس سے نہ صرف یہ پتہ چلتاہے کہ وہ حافظ مزی کی اس صنیع کو پسند کررہے ہیں بلکہ اس کو بہتر سمجھتے ہیں اوراس کے تائید وموافقت بھی کررہے ہیں۔
ویسے اگربحث کی خاطر حافظ ابن حجر کی بات مان لی جائے کہ حافظ ذہبی نے تذہیب التہذیب میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں توثیق وتضعیف کی جگہ فضائل نقل کئے ہیں لیکن حافظ ابن حجر کی اپنی تالیف تہذیب التہذیب میں توروات حدیث کے تراجم میں فضائل نہیں بلکہ توثیق وتضعیف ذکرکیاگیاہے اس مین امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں کون سی جرح اورتضعیف موجود ہے۔ شاید کفایت اللہ صاحب کو زیادہ دکھائی دیتاہو۔وہ خورد بین لگاکر دیکھیں اورہماری معلومات میں اضافہ کریں شاید وہاں کچھ جرح موجود ہو جہاں تک ہماری نگاہ نہ پہنچ سکی ہو۔
حافظ ابن حجر نے بھی تہذیب التہذیب میں امام ابوحنیفہ کے ذکر میں ابن معین کی توثیق توضرور نقل کی ہے لیکن تضعیف اورجرح کا ایک بھی کلمہ نقل نہیں کیااس سے کیاثابت ہوتاہے الشیخ المحترم والمبجل کفایت اللہ صاحب!
ویسے آپ نے جس طرح کی نکتہ نوازی اس سلسلے میں کی ہے کہ حافظ ذہبی کی مصلحت یہ رہی ہوگی وہ رہی ہوگی۔اس سے بہتر نکتہ نوازی مجھ سے سنئے ۔

ایک دور تو وہ ہوتاہے جس میں کسی علم وفن کی ابتداء اورنشوونماہوتی ہے۔دوسرادور اس کی تدوین کاہوتاہے اورتیسرادوراس کے ضبط اوراتقان کا ہوتاہے۔
حافظ ذہبی مزی اورابن حجر کا دور اس علم یعنی جرح وتعدیل کے ضبط اوراتقان کا دورہے۔جیساکہ امام ابوحنیفہ حافظ ذہبی کی نگاہ والے تھریڈ میں واضح کرچکاہوں کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث میں گروہ واریت کافی قدیم رہی ہے اوراس کی وجہ سے محدثین نے امام ابوحنیفہ پر تنقید کی ہے تنقید کے اورکچھ دیگر اسباب بھی رہے ہیں اس کی بھی وضاحت اسی تھریڈ میں کرچکاہوں۔
اہل الحدیث اوراہل الرائے کے درمیان اختلاف اورمناقشے کے تعلق سے بہتر طورپر جاننے کیلئے دکتور عبدالمجید کی کتاب الاتجاہات الفقہیہ عنداہل الحدیث فی القرن الثالث کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
حافظ ذہبی اورحافظ مزی کے امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں محدثین کے ان اقوال کی جانب اعتنانہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنقیدات مبنی برانصاف یامبنی برتحقیق نہیں ہیں۔چونکہ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اتنی زیادہ گرد اڑائی گئی ہے کہ اس مین اصل بات کاتلاش کرناہی مشکل ہوجاتاہے۔ بعض بزرگوں نے توانہیں دین سے خارج ہی کردیا۔بعض نے دین میں شامل رکھالیکن شکل وصورت ایسی مسخ کی جیسی کہ انہوں نے کسی دشمن اسلام کی بھی نہ کی ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں شافعی حضرات بلکہ تینوں شافعی حضرات اس سلسلے میں محدثین کے بیانات کوامام ابوحنیفہ کے تعلق سے اخذ کرنے میں کافی محتاط ہیں۔
یہ کفایت اللہ صاحب کی صرف ایک نکتہ نوازی آپ نے ملاحظہ کی۔مذکورہ لنک پر اس طرح کی کئی نکتہ نوازیاں موجود ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ موصوف سند صحیح کی بات کرتے ہیں۔مخطوطات کی بات کرتے ہیں لیکن اس مضمون میں انہوں نے سند صحیح اورمخطوطات کو طاق نسیاں پر رکھ دیاہے۔شاید اس کی پیچھے بھی کچھ وجہ ہو۔وہ وجہ ہماری سمجھ میں توآرہی ہے دیگرقارئین بھی اس کو سمجھ پارہے ہیں یانہیں رہے ہیں یہ سمجھناباقی ہے۔

نیز آپ بھی یہ لنک ملاحظہ فرمائیں:
حقائق حول طبعة الرسالة العالمية لـ " ميزان الاعتدال "
مذکورہ مضمون پڑھااورمیراتاثرتویہ ہے کہ مذکور نگار نے اوٹ پٹانگ باتیں ضرورکی ہیں اورایران توران کی ہانکی ہے لیکن میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ صحیح اوردرست ہے۔ اس تعلق سے کچھ بھی ثابت نہیں کیاہے۔ملتقی المجلس العلمی کے رکن سکران التمیمی نے الحاج عادل کے مضمون کا بہتر پوسٹ مارٹم کیاہے جس کی وجہ سے میرے لئے اس کا پوسٹ مارٹم کرناضروری نہیں رہ گیاہے۔
جن کو شوق ہو وہ یہاں دیکھ لیں۔
حقائق حول طبعة الرسالة العالمية لميزان الاعتدال
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب نے جوکچھ تحقیق یضع الحدیث اوریثبج الحدیث میں کی ہے وہ سرآنکھوں پر ۔میری مراد صرف اس قدر تھی کہ بات کا بتنگر بن جاتاہے اورایک شخص نے جوکچھ کہاہے وہ بنتے بنتے کچھ اورہوجاتاہے۔
اگرآپ کو یثبج الحدیث اوریضع الحدیث پر اعتراض ہے تودوسراطریقہ جوماہرین نفسیات نے کہاہے وہ اختیار کریں ۔دس پندرہ افراد کو ایک سرکل میں بٹھادیں اوراپنے سے قریبی شخص کے کان میں کچھ کہیں وہ بات ایک دوسرے سے ہوتے ہوئے جب آپ تک پہنچے گی توکچھ سے کچھ بن چکی ہوگی۔

جہاں تک آپ کے اس لطیفہ کی بات ہے

قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس عبارت میں جمشیدصاحب نےکمال تحقیق کرتے ہوئے دیوان الضعفاء کو امام ذہبی کی کتاب بتلایا ہے مگر یہ تحقیق پیش کرنے کے بعد جب موصوف کو یہ بتلایا گیا کہ اسی دیوان الضعفاء میں ابوحنیفہ کی تضعیف بھی ہے تو آنجناب نے یک قلم اس کتاب ہی کا انکار کردیا، اب اس کو کیا کہا جائے قارئین خود فیصلہ کریں۔
توایسے تین چار لطائف ہم بھی پیش کرسکتے ہیں اورکیابھی ہے۔اصل میں کسی کتاب کے تحقیق اورثبوت کا جوعلمی طریقہ کار ہوتاہے اس کو چھوڑ کر جب آپ محض کٹ حجتی اوردفع الوقتی کیلئے طرح طرح کے عذر تراشنے لگیں اورامام ابوحنیفہ اورابن تیمیہ کیلئے الگ پیمانے تلاش کریں کہ ابن تیمیہ کا جس کتاب میں ذکر ہو سند کے روات مجہول ہوں تو کتاب کی نفی کردین اورامام ابوحنیفہ کے تذکرہ والی کتاب کا راوی مجروح ہوتواس پر ایک حرف نہ کہیں بلکہ معاصر اوردیگر تذکرہنگاروں سے کتاب کا ثبوت ڈھونڈنے لگیں ۔
آپ کی اسی حرکت مذبوحی کونگاہ میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ آپ نے جو معیار مقرر کیاہے "سند صحیح" کااسی معیار سے حافظ ذہبی کی نسبت اس کتاب کی جانب ثابت کریں۔

میزان میں جو اقوال بے سند ہیں وہ جب تک باسند نہ مل جائیں ان پر تو بالکل بھروسہ نہیں کیا جائے گا ، یہ بات تو مسلم ہے کہ بے سند باتیں حجت نہیں ہوا کرتی ہے ۔
یہ بے سندکااصول اپناکر میزان ،تہذیب اوردیگر کتابوں کے اقوال کو مشتبہ بنانے کی کوشش صرف اورآپ کے استاد محترم زبیر علی زئی کاہی کارنامہ ہے یااس میں دیگر اہل علم بھی شریک ہیں۔جب کسی دوسرے کے ساتھ بحث کریں تواصول وہ اختیار کریں جو دونوں کے درمیان مشترک ہو۔اپناخاص اورشاذ اصول صرف اورصرف انہی لوگوں کے درمیان رکھیں جواس شاذ اصول میں آپ حضرات کے ہمنواہوں۔
اہل علم کا طریقہ اوروطیرہ یہ رہاہے کہ اگرکسی قول کے بارے میں پختہ طورپر معلوم ہوجائے کہ اس کوانہوں نے فلاں متقدم کتاب سے لیاہے اوراس مین سند کمزور ہے تواسے تسلیم نہ کیاجائے لیکن جس قول کی سند نہ ملے اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردینامولفین کے حق میں بڑاظلم اوران پر عدم اعتماد ہے۔انہوں نے جن مراجع کو سامنے رکھ کر لکھاہے ا س میں سے کچھ کتابیں مفقود یاتاحال لاپتہ ہیں توکیااس کو صرف اس بناء پر تسلیم کرنے سے انکار کردیناچاہئے کہ ہمیں اس کی سند نہیں مل سکی ہے۔اگریہی بات ہے توپھران کتابوں کا فائدہ ہی کیارہا۔زبیرعلی زئی سے آپ کی عقیدت ایک طرف ۔البانی کااس بارے میں کیاموقف ہے اس پر بھی تھوڑاغورفرمالیتے۔

ابن سباک کی تنہا مثال کو کس نے بنیاد بنا یا ہے ہماری اصل بنیاد ناسخ سے لیکر صاحب کتاب تک صحیح سندکا نہ ہونا ہے ، اورابن سباک والی بات ہم نے مزید تائید کے طور پیش کی ہے کہ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ نسخہ مصدقہ نہیں ہے۔
اگر آپ ذیل کا کوئی ایسا مخطوطہ پیش کردیں جس میں ناسخ سے لیکر صاحب کتاب تک سند بالکل صحیح ہو اور اس میں بھی ایسی کوئی منکر بات موجود ہو تو ہم نسخہ کی صحت کو مان لیں گے ابن سباک جیسی منکر باتوں پر الحاق کا حکم لگائیں گے۔
محض ابن سباک والی بات کو لیکر اس پورے نسخہ کو مشتبہ کوئی نہیں بتا رہا ہے ، اس نسخہ کے غیر مستند ہونے کی اصل وجہ اس کی سند کی کمزوری ہے۔
ہم نے اس کتاب کے ایک دوسرے سند سے جس کو لکھنے والے مولف کے شاگرد ہیں اس کا اوراس کی سند کابھی ذکر کردیا جس سے بحمداللہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ کتاب موثوق ہے۔اوراس کی نسبت میں شک نہیں کیاجاسکتاہے۔
اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ دیوان الضعفاء والمتروکین کو کسی دوسرے ناسخ کے حوالہ سے ثابت کریں جو مجروح نہ ہو ۔

موجودہ نسخہ کے ناسخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہم عصر ہیں ، ممکن ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ اور ناسخ کتاب دونوں کا ماخذ ایک ہی ہو ایسی صورت میں آپ کی منطق بے کار ہے، نیز یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ نسخہ کی تصویب میں ہمیشہ متقدم کے نقل ہی کو ترجیح دی جاتی ہے کبھی کبھی متاخر کے نقل سے بھی متقدم کے نقل کی تصحیح کی جاتی ہے۔
موجودہ نسخہ کے ناسخ حافظ ابن حجر کے ہم عصر ضرور ہین لیکن شاگردوں یعنی ابن ہمام اورسخاوی کے طبقہ کے ہیں۔لہذا یہ مستبعد ہے کہ انہوں نے اپنی تالیف میں جونسخہ سامنے رکھاہوگا وہ اپنے شاگرد کا ہوگا۔بلکہ زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ انہوں نے جونسخہ اپنے سامنے رکھاتھاوہ وہی نسخہ ہوگا جو حافظ ذہبی کے ایک شاگرد کاہے۔

یہ آپ کی تطبیق ہے جو تکلف سے خالی نہیں ہے ، متعلقہ عبارتوں میں عام خاص کی بات بالکل نہیں ہے، بالکل ایک جگہ انہیں تیزمزاج بتانے کے ساتھ یہ خوبی بھی بتائی جارہی ہے کہ وہ اس پر قابوپالیتے تھے اور دوسری جگہ اس کے برے نتائج بھی بتلائے جارہے ہیں یہ واضح تضاد ہے ، جو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے اس طرح کے نقول کو اور مشکوک بنادیتاہے۔
تطبیق توصرف وہ درست ہے جو ابن تیمیہ کے دفاع میں ہو ورنہ ہروہ تطبیق اوربطور خاص جوامام ابوحنیفہ کے دفاع میں لکھاجائے وہ تکلف سے خالی ہی نہیں ہوتا۔کیوں میں نے صحیح سمجھاہےنا۔

حافظ ابن تیمیہ کے تعلق سے اگرکچھ کتابوں میں ایک بات ہواورکچھ کتابوں میں دوسری بات ہو تونقول کواورمشکوک بنادیتاہے لیکن حافظ ذہبی کی بیشتر کتابوں میں امام ابوحنیفہ کو ابن معین کے حوالہ سے ثقہ وصدوق لکھاجائے اورمیزان الاعتدال اور دیوان الضعفاء والمتروکین (منسوخ اورغیرثابت شدہ نسخوں)میں امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردیاجائے تووہاں آپ کی پوری خوابیدہ تطبیقی صلاحیتیں جاگ جاتی ہیں ۔لیکن بات اگرحضرت ابن تیمیہ کی ہوتو وہاں کوئی تطبیق نہیں ہوگی بلکہ سیدھے سیدھے نقول ہی مشکوک ہوجائیں گے۔اعوذباللہ من ہوی النفس


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی پناہ سے اللہ کی پناہ !!!
یہ مظلوم امام آپ کے کام نہیں آئے اور آپ کےنزدیک عقیدہ میں گمراہ اور متروک ہوئے تو ہمارے کیا کام آئیں گے۔
میں نے امام ابوحنیفہ کا تذکرہ کیوں کیا؟؟؟؟؟
قارئیں میں بہت ہی اہم بات کہنے جارہا ہوں پوری توجہ دیں ، جمشیدصاحب کو ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حالات میں صرف یہ ملاکہ دوران بحث ان کے مزاج میں حدت آجاتی تھی ۔قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔جمشیدصاحب کو صرف اتنی سی بات ملی اوراس کا حوالہ کہاں دے رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ شیخ الاسلام کے ایک سنجیدہ فتوی پیش کئے جانےپر جس کا صدور کسی بھی بحث کے دوران قطعا نہیں ہوا۔
جمشیدصاحب کے اس حوالہ کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ یہ حوالہ دے کرشیخ الاسلام کے فتوی کو بے وقت ثابت کرناچاہتے ہیں۔
اب قارئین انصاف کریں !!!!!
کہ ابن تیمہ کے حالات میں صرف ایک بات اوروہ بھی بہت ہی محدود ملی ، اس کے باوجود بھی جمشید صاحب ابن تیمہ کا فتوی سامنے آنے پر اس کاحوالہ دینا ضروی سمجھتے ہیں ۔

توبتلائیے کہ ابوحنیفہ کے حالات میں ابوحنیفہ سے متعلق تو اس سے کئی گنا بڑی بات اوروہ بھی سیکڑوں اوراس سے بھی زائدحوالوں کے ساتھ ملتی ہیں تو ابوحنیفہ کا کوئی فتوی آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا ہمیں ابوحنیفہ پر کی گئی جروح کا حوالہ نہیں دیناچاہے؟
نیزغورکریں کہ جب جمشید صاحب جیسے لوگ ابن تیمیہ کے خلاف ایک معمولی بات پاگئے اوراسی کو لیکراتنا ہنگامہ کررہے ہیں ، دریں صورت اگر ان کے پاس ابن تیمہ کے خلاف اس طرح کے حوالہ جات ہوتے جو ابوحنیفہ کے خلاف ہمارے پاس ہیں تو یہ کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
امام ابوحنیفہ اورکفایت اللہ صاحب​
اولاتوہم سابق میں عرض کرچکے ہیں کہ ہمیں ابن تیمیہ کے تعلق سے صرف ذکر کردہ اقوال پر ہی اطلاع نہیں ہے اس کے علاوہ اوربھی بلکہ اس سے زیادہ اقوال وہ ہیں جوہم نے ذکر نہیں کئے ۔اس لئے کہ مذکورہ بحث سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔اب ہم آپ کے سامنے کفایت اللہ صاحب کی حرکت مذبوحی کو پیش کرناچاہتے ہیں کہ وہ کس طرح ہرتھریڈ میں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ذکر کرناپسند کرتے ہیں۔اوراس کے بعد مظلوم بننے کی کوشش کرنابھی ضروری سمجھتے ہیں۔ان کا شاید ہی کوئی ایساتھریڈ ہو جس میں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے انہوں نے کچھ نہ کچھ گل نہ کھلائے ہوں بطور خاص وہ تھریڈ جس میں بحث ومباحثہ میرے ساتھ ہواہے۔
ارادہ تویہ تھاکہ قارئین کوان کے تھریڈ سے کچھ جھلکیاں پیش کردی جاتیں لیکن چونکہ یہ تھریڈ ویسے ہی خاصاطویل ہوتاجارہاہے جن کو ضرورت ہے وہ خود دیکھ لین اوراگریہ نہیں ہوسکے توراقم الحروف کو پی ایم کردیں ۔تمام روابط مہیاکردیئے جائیں گے۔
دوسرے یہ بھی ان کی غلط بیانی ہے کہ ہمیں صرف ان کے حالات میں اتناہی ملاہے۔ہمیں ان کے حالات میں بہت کچھ ملاہے لیکن بندہ اآپ کی طرح بدہضمی کا شکار نہیں ہے۔اگرجوکچھ ان کے حالات میں مذکور ہیں اوران کے تعلق سے علماء نے اعتراضات کئے ہیں۔ سب کو یکجاکرکے لکھناشروع کردیاجائے تو سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے
لیکن نہ اس کی ضرورت ہےاورنہ ہی حاجت ۔
ہم ان کو گمراہ اورگمراہ کن شخصیت نہیں سمجھتے۔نہ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دشمنان دین کے آلہ کار تھے نہ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ خواہش نفسانی سے غلط فتوے اورفیصلے دیئے ۔
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے شاذ فتاوی کی تائید نہیں کرتے اورمجموعی طورپر ان کی کتابوں سے جوتاثرابھرتاہے وہ یہ ہے کہ ان میں نسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے اورجب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں توفریق مخالف کے دلائل کے ساتھ عمومی طورپر انصاف نہیں کرپاتے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہاں یہ عرض ہے کہ میں پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ جرح وتعدیل میں شدت اورشرعی مسائل کے بیان میں شدت ددنوں میں بڑا فرق ہے ، آپ شدت کا تعلق شیخ الاسلام کے فتاوی سے جوڑ رہے ہیں ، یاد رہے کہ ہم نے شیخ الاسلام کے فتاوی ہی کا اقتباس پیش کیا ہے ۔

اوریہاں مثال جرح و تعدیل میں شدت کی دے رہے ہیں ، کیا اپ بتلائیں گے کہ جرح وتعدیل کے متشددین ائمہ کیا شرعی مسائل کے بیان اور افتاء میں بھی یہی شدت بروئے کار لاتے تھے؟؟؟؟
اولاتوشدت شدت ہوتی ہے۔اس کا تعلق ہرایک سے ہے چاہے وہ شرعی مسائل کابیان ہو یاپھر جرح وتعدیل ۔اگرآپ مصر ہیں کہ شرعی مسائل میں تشدد کی مثالیں پیش کی جائیں توزیادہ نہیں صرف ابن حزم کی الاحکام اورالمحلی کا مطالعہ کرلیں۔تشفی ہوجائے گی ۔اورابن حزم کا تذکرہ بھی کتابوں میں پڑھ لیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تعلق سے جہاں تک بات ہے۔توجوبات میں شروع سے کہتاآرہاہوں کہ ان کے اندر نسبتاًاعتدال وتوازن کی کمی ہے۔ وہ بحث کے دوران اپنے موقف پر اتناتوجہ دیتے ہیں کہ فریق ثانی کے موقف سے بیشتر انصاف نہیں کرپاتے۔

پھر اگربعد کے تذکرہ نگاروں نے حافظ ذہبی کے ایک کتاب کے جملے نقل کئے اوردوسرے کتاب سے نقل نہیں کیاتواس سے یہ کہاں لازم آیاہے کہ وہ غلط ہے۔غلطی توجب ثابت ہوتی جب کہ بعد کے تذکرہ نگار صراحتاانکار کرتے لیکن کسی بھی تذکرہ نگار سے اس کاانکارثابت نہیں ۔
بعد کے ترجمہ نگاروں کو اگر متنازعہ عبارت ملے گی تب تو انکار کریں گے، ظن غالب ہے کہ ان کے پاس حافظ ذہبی کے کتابوں کے جو نسخے تھے اس میں متنازعہ عبارت تھی ہی نہیں ، یہ بات بھی مذکورہ عبارت کی صحت مزید مشکوک بنا دیتی ہے۔
آپ کا ظن غالب کتاب کے دوسرے نسخہ اوراس کے سند کے ملنے کے بعد قابل اعتبار نہیں رہا۔

آپ نے پہلا حوالہ حافظ الوافی بالوفیات کادیاہے دیکھتے ہیں اس میں ہمیں ابن تیمیہ کے حوالہ سے کیاملتاہے۔وہ حضرت ابن تیمیہ کے حافظہ کی تعریف میں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوافی بالوفیات 7/12)
میرے خیال سے الوافی بالوفیات کی ورق گردانی کرتے وقت اس عبارت سے آنجناب کو ذہول ہوگیاہو خیر کتاب وسنت جیسے بڑے فورم پر اس جیسی چھوٹی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ۔گزارش ہے کہ آئندہ مالہ وماعلیہ دونوں کا دھیان رکھئے گا۔
اس عبارت میں شیخ الاسلام کے حافظہ کی یقینا تعریف کی گئی ہے رہا ان کا ’’اری ‘‘ والاخیال تو یہ ان کا اپنا خیال ہے جو دلیل سے خالی ہے۔
سبحان اللہ !کیاخامہ فرسائی ہے ابن صفی کے استادمحبوب نرالے عالم کی عربافارساکی طرح۔
شیخ محترم!ابن تیمیہ کی تعریف جن علماء نے کی ہے بشمول حافظ ذہبی وہ سب بھی انکا اپنا"اری"ہی ہے۔کچھ اورنہیں۔اوریہ میٹھامیٹھاہپ ہپ کڑواکڑواتھوتھو والی عادت چھوڑدیں کہ تعریف والی "اری" توقبول ہے لیکن تنقید والی" اری" قبول نہیں ہے۔دنیا میں کسی بھی شخص کی تعریف اورتنقید کے بارے میں جوکچھ بھی کہاجاتاہے وہ سب کا اپنااپنا"اری"ہی ہواکرتاہے۔
صفدی کوئی غیرمعروف شخصیت نہیں ہیں بلکہ ابن تیمیہ کے ہم عصر ہیں۔حضرت ابن تیمیہ کوانہوں نے دیکھاہے ان کی باتیں سنی ہیں ۔انہوں نے الوافی بالوفیا تمیں ایک واقعہ بھی نقل کیاہے کہ انہوں نے ابن تیمیہ سے نحو کا کوئی مسئلہ پوچھاحضرت ابن تیمیہ نے جواب دیا پھر انہوں نے اس جواب پراعتراض کیاتوحضرت ابن تیمیہ نے اس کا جواب نہیں دیا بلکہ ان کے ذہانت کی تعریف کی۔
مقصود یہ کہ صفدی کی تعریف کی تنقید کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کو آپ کو ذاتی خیال بتاکر رد کردیں۔اگرذاتی خیال بتاکر رد کرناہے تویہی اعتراض الردالوافرکے تمام تقریظ نگاروں پر ہوگاکہ وہ بھی ابن تیمیہ کے تعلق سے ان کے ذاتی خیالات ہیں۔

بلکہ دلیل تو اس کے برعکس ملتی ہے مثلایہ کہ ابن حزم پر کھل رد کرتے ہیں ، چناچہ ایک مقام پر ابن تیمہ رحمہ اللہ ابن حزم پررد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأعجب من ذلك حكايته الإجماع على كفر من نازع أنه سبحانه " لم يزل وحده، ولا شيء غيره معه، ثم خلق الأشياء كما شاء " (نقد مراتب الإجماع ص: 303)

ابن حزم کی صرف آراء پرہی نہیں بلکہ اکابرین اہل علم سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ کے غیرمناسب اسلوب پر شیخ الاسلام مذمت کرتے ہیں چنانچہ ایک مقام پرفرماتے ہیں:
وَإِنْ كَانَ " أَبُو مُحَمَّدٍ بْنُ حَزْمٍ " فِي مَسَائِلِ الْإِيمَانِ وَالْقَدَرِ أَقْوَمَ مِنْ غَيْرِهِ وَأَعْلَمَ بِالْحَدِيثِ وَأَكْثَرَ تَعْظِيمًا لَهُ وَلِأَهْلِهِ مَنْ غَيْرِهِ لَكِنْ قَدْ خَالَطَ مِنْ أَقْوَالِ الْفَلَاسِفَةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ فِي مَسَائِلِ الصِّفَاتِ مَا صَرَفَهُ عَنْ مُوَافَقَةِ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي مَعَانِي مَذْهَبِهِمْ فِي ذَلِكَ فَوَافَقَ هَؤُلَاءِ فِي اللَّفْظِ وَهَؤُلَاءِ فِي الْمَعْنَى. وَبِمِثْلِ هَذَا صَارَ يَذُمُّهُ مَنْ يَذُمُّهُ مِنْ الْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِين وَعُلَمَاءِ الْحَدِيثِ بِاتِّبَاعِهِ لِظَاهِرِ لَا بَاطِنَ لَهُ كَمَا نَفَى الْمَعَانِيَ فِي الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ وَالِاشْتِقَاقِ وَكَمَا نَفَى خَرْقَ الْعَادَاتِ وَنَحْوَهُ مِنْ عِبَادَاتِ الْقُلُوبِ. مَضْمُومًا إلَى مَا فِي كَلَامِهِ مِنْ الْوَقِيعَةِ فِي الْأَكَابِرِ وَالْإِسْرَافِ فِي نَفْيِ الْمَعَانِي وَدَعْوَى مُتَابَعَةِ الظَّوَاهِرِ. وَإِنْ كَانَ لَهُ مِنْ الْإِيمَانِ وَالدِّينِ وَالْعُلُومِ الْوَاسِعَةِ الْكَثِيرَةِ مَا لَا يَدْفَعُهُ إلَّا مُكَابِرٌ؛ وَيُوجَدُ فِي كُتُبِهِ مِنْ كَثْرَةِ الِاطِّلَاعِ عَلَى الْأَقْوَالِ وَالْمَعْرِفَةِ بِالْأَحْوَالِ؛ (مجموع الفتاوى 4/ 19)
اب دوبارہ سے دل کو پیٹنے اورجگر کو رونے کی نوبت آرہی ہے۔صفدی کی عبارت کے تاثر کوزائل کرنے کیلئے آپ پیش کررہے ہیں ابن تیمیہ کی ابن حزم پر تنقید ۔سبحان اللہ یہ معیار ہے سخن فہمی کا۔
اگرایک شخص کہتاہے کہ ابن تیمیہ کے مزاج میں ابن حزم کی طرح شدت وحدت تھی تواس کے ازالہ کیلئے ابن تیمیہ کی ابن حزم پر تنقید پیش کی جارہی ہے۔
یہ تنقید اس صورت میں فائدہ مند ہوتی جب ہم کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ ابن حزم کے مقلد تھے۔ ان سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ان سے غلو کی حد تک عقیدت رکھتے تھے۔توآپ یہ تنقید پیش کرتے اورآپ کا یہ پیش فرمانا معتبر ہوتا۔
لیکن یہاں بات یہ چل رہی ہے کہ ابن حزم کی طرح ابن تیمیہ کے اندر بھی تشدد تھا۔ابن تیمیہ کی ابن حزم پرتنقید پیش کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والاہے کیونکہ جب دونوں ہی بزرگ "گرم مزاج"ہیں توتنقید توہوگی ہی۔یہ ہمارادعوی قطعانہیں رہا کہ ابن تیمیہ ابن حزم کے مقلد ہیں۔دعوی صرف اتناہے کہ دونوں بزرگ گرم مزاج ہیں۔
ابن حزم کے تعلق سے توعلماءنے واضح طورپر کہہ رکھاہے کہ ان کی زبان اورحجاج کی تلوارایک سی ہے۔اوریہ کہ ان کی کتابیں اسی لئے بے فائدہ ہوکر رہ گئیں کہ انہوں نے اکابرعلمائ کا احترام نہیں کیا بلکہ ان کے حق میں سخت عبارات استعمال کیں۔

ہمارےاختلاف کا تعلق بعض عربی عبارت کے سمجھنے سے بھی ، جس میں آپ کی یہ عادت ہے کہ جو آپ کی مرضی کے موافق مفہوم نہیں لیتا اسے آنجناب عربی زبان نہ جاننے کا طعنہ دیتے ہیں ، اسی پس منظرمیں ایک عربی رکن کا حوالہ دیا گیا ہے، تاکہ کم ازکم عربوں کو تو عربی سے ناوقفیت کا طعنہ نہ دیا جائے، اورمیرامقصود حاصل ہوبھی گیا، یعنی آپ نے اس رکن کوعربی سے ناوقفیت کا طعنہ نہیں دیا ہے بلکہ یہاں دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے اجتہادی غلطی کا طعنہ دیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آن جناب جس حقیقت کے بھی منکرہوں گے، اس سے انکار کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیں گے۔
میراخیال ہے کہ فورم پر بہت کم حضرات علمی طورپراتنے"یتیم"ہوں گے کہ صرف میرے کہنے سے کہ ان کوعربی کا ذوق نہیں ہے وہ حجت ختم کردیں گے اورمیری بات کو تسلیم کرلیں گے۔تاوقتیکہ ان کی بات واقعتاہی غلط نہ ہو۔
کافی دن گزرچکاتھا۔اس لئے دوبارہ جاکر اصل بحث کو دیکھاتوپتہ چلاکہ آپ کے ملتقی کے فورم کے جورکن ہیں ان کی بحث کا ہماری عبارت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنابڑی اچھی بات ہے۔امراء اورسلاطین سے عدم مدارات ہی بہتر ہے۔اللہ کیلئے غضب اورغصہ اخلاق حمیدہ میں سے ہیں۔لیکن جس بات پر بحث اورتنازعہ ہے وہ یہ ہے کہ کیااس عدم مداہنت اورطیش وغضب کااظہار اپنے معاصر علماء سے بھی درست تھا؟

قائدہ سازی مبارک ہو لیکن مشورہ یہ ہے کہ اس قائدہ میں یہ اضافہ بھی کرلیں کہ شدت کی یہ جھلک صرف انہیں تحریروں میں نظر آئے گی جن میں آپ کے موروثی فقہ کے خلاف کوئی بات آجائے ، ورنہ شافعہ ، مالکیہ ، حنابلہ کے خلاف ان کے فتووں میں شدت کی بو سونگنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اسی ردیف اورقافیہ میں اس کا جواب دیاجاسکتاہے کہ آپ کو بھی ماضی کے تمام علماء کے وہی موقف پسند آئیں گے جہاں اپنے مزعومات کی اثبات کی بات ہوگی ۔جہاں نفی ہوگی توفورااپنے استاد محترم زبیر علی زئی کی طرح کوئی غیرمعقول عذر پیش کردیں گے۔حافظ ابن حجر کی فتح الباری میں آپ کو وہی مقامات پسند آئیں گے جہاں حنفیہ پر تنقید ہوگیایاوہ مسائل جہاں انہوں نے حنیفہ کے خلاف دلائل دیے ہیں اس کو توآپ عض بالنواجذ کریں گے۔ وہ مقامات جہاں انہوں نے ابن تیمیہ پر تنقید کی ہے اس سے برات کے اظہار کے ساتھ عدم اتفاق کابھی خیال ظاہر کردیں گے اوراس سے آگے بڑھ کر حافظ ابن حجر کوہی اشعری ہونے کا طعنہ دے دیں گے کہ انہوں نے اشعری ہونے کی وجہ سے ابن تیمیہ جیسے سلفی حضرت پرتنقید کردی ہے۔ورنہ اس کے پیچھے کوئی علمی جذبہ نہیں تھا۔


اول: تو میں پھر یہاں یہ وضاحت کروں گا ، ابن تیمہ کے تعلق معمولی سے معمولی اورمحدودسے محدود تر کوئی منفی بات آپ کو ہاتھ لگے تو امت کو اس سے آگاہ کرنا آپ واجب بلکہ فرض سمجھتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ کے تعلق سے سیکڑوں بلکہ اس سے بھی زائد نمونے سامنے آتے ہیں تو صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ کی عملی تفسیربن جاتے ہیں۔
یہ عرض کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتااورنہ ہی اس کو تزکیہ سمجھتاہوں جیساکہ ہمارے انس نضر صاحب سمجھتے ہیں کہ اگرکوئی شخص غیرجانبداری سے اس کا جائزہ لے گاکہ میں نے ابن تیمیہ کاذکر کہاں کہاں کیاہے اورآپ نے امام ابوحنیفہ کا ذکر کہاں کہاں اورکس کس اسلوب میں کیاہے توآپ کے سارے مندرجات جو ماقبل مین ذکر ہوئے ہیں۔ ہباء منثورابن جائیں گے۔
خداکا شکر ہے کہ ہمارے اساتذہ نے ہمیں اہل علم کی عزت وتکریم کاطریقہ سکھایاہے اوریہ بھی سکھایاہے کہ بات اپنی جگہ تک محدود رکھی جائے۔آپ کا معاملہ یہ ہے کہ تھریڈ بڈلتاہے موڈبدلتاہے اورموڈ کے ساتھ ساتھ مزاج بھی بدل جاتاہے۔
ایک تھریڈ میں توکہتے یہں کہ ہم امام ابوحنیفہ کو امام تسلیم کرتے ہیں ۔دوسرے تھریڈ میں کہتے کہیں کہ ہم امام ابوحنیفہ کو قیاس ورائے میں امام تسلیم کرتے ہیں اورتیسرے تھریڈ میں فرماتے ہیں کہ اس دور کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ لوگوں کو امام ابوحنیفہ کی گمراہ کن شخصیت سے آگاہ کرایاجائے۔نعوذباللہ من الخذلان والخسران والاساءۃ فی حق ائمہ العظام والکرام
آپ بتاناپسند کریں گے کہ آپکا اصولی موقف کیاہے؟یارنگ بدلنے کی آپ کی عادت پرانی ہے۔چلوتم ادھر کو ہواہوجدھرکی۔

دوم: شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر ہزار شدت کا الزام لگ جائے لیکن پھر بھی اس سے ان کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اور نہ ہی ان کی دینی خدمات سے اہل علم بے نیاز ہوسکتے ہیں ، مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا معاملہ الگ ہے اول تو وہ ضعیف الحدیث تھے جس کے سبب تھوڑی بہت جو احادث ان کو ملیں بھی ، اسے صحیح سے یاد نہ کرسکے ، دوم ، انہوں نے رائے و قیاس ہی کو ترجیح دینے کو اپنا فن بنالیا ، جس کے سبب لوگوں میں بہت سی گمراہیاں پھیلیں ، یقینا ان سب کے پیچھے ان کی نیت مخلصانہ ہی صحیح لیکن امت کو ان کی خدمات سے بہت نقصان پہنچاہے، اس کا احساس خود امام صاحب کوبھی تھا اسی لئے انہوں نے اپنے ان خرافات سے براءت ظاہر کردی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے وجود مبارک سے کافی عرصہ قبل وہ دور آچکاتھا کہ جس میں اعتبار اسناد پر نہیں بلکہ کتابوں پر رہ گیاتھا۔اس کی وضاحت حافظ ذہبی نے ابن جوزی نے اوردیگر محدثین نے اپنی تصنیفات میں کئی مقامات پر کی ہے۔آپ بتاسکتے ہیں کہ کتنی احادیث ہمارے پاس حضرت ابن تیمیہ کی روایت سے ہے اورہمیں ان کی ضرورت ہے؟

دوسرے یہ کہ اگربقول ندوی صاحب یہ تسلیم کرلیاجائے کہ امام ابوحنیفہ ضعیف الحدیث تھے تب بھی یہ لازم نہیں آتا جوضعیف الحدیث ہو وہ تفقہ فی الدین کی دولت سے خالی ہو۔اس کی سینکڑوں نہیں بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ تفقہ کی دولت سے مالامال ہونے ضعف حدیث کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ کتنے ہی کثیر الحدیث ایسے ہیں جو تفقہ کی دولت سے محروم ہیں۔

میری نقل کردہ عبارت اور آپ کی نقل کردہ عبارت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میری نقل کردہ عبارت میں جوکچھ ہے وہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا اپنا تبصرہ ہے جب کہ آپ کی نقل کردہ عبارت میں جو کچھ ہے وہ واقعات کی حکایت ہے جس سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بالکل متفق نہیں کیونکہ ان کا اپنا تبصرہ اس پر شاہد ہے ۔جناب اگر نقل کردہ حکایت مولف کا موقف ہے یا ہر نقل کردہ بات درست ہے تو کیا خیال ہے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بھی بہت کچھ نقل کررکھا ہے کیا وہ سب درست ے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟یقینا وہ سب درست نہیں ہے البتہ جو بات مستند ذرائع سے ثابت ہے وہی درست ہے ، اگر آپ سے ہوسکے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے مستند باتیں نقل کریں ، ادھر ادھر کی باتوں پر ایمان لائیں گے ، تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اسلام سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
یہ ہے کفایت اللہ صاحب کی عبارت جس کو وہ حافظ ابن حجر کاذاتی تبصرہ قراردے رہے ہیں۔
لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته
کفایت اللہ صاحب ہمیں کہتے ہیں کہ ہم اپنے عدم اتفاق کرنے والوں کو عربی زبان نہ جاننے کا طعنہ دیتے ہیں ۔لیکن کیاکریں مجبوری ہے۔اورمجبوری یہ ہے کہ لوگ عربی عبارت غورسے پڑھتے نہیں ہیں۔ اس کے کیامعانی نکل رہے ہیں۔ ضمیر کدھرجارہاہے۔مشارالیہ کون ہیں اس کی جانب کوئی دھیان نہیں دیاجاتا۔

اب اسی عبارت میں دیکھیں کہ لایوتی من سوء فھم سے لے کر الی آخرہ

اس کو کفایت اللہ صاحب حافظ ابن حجر کا اپناذاتی تبصرہ بتارہے ہیں کہ جب کہ یہ حافظ ابن حجر کی حافظ ذہبی سے نقل کردہ عبارت ہے۔
پہلے الدررالکامنہ سے عبارت پیش ہے۔

حافظ ابن حجر نے الدررالکامنہ سے 1/175سے حافظ ذہبی کاقول خلاصہ کے طورپر نقل کرناشروع کیاہے۔لکھتے ہیں۔

قَالَ الذَّهَبِيّ مَا ملخصه كَانَ يقْضِي مِنْهُ الْعجب إِذا ذكر مَسْأَلَة من مسَائِل الْخلاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھراسی سلسلہ کلام میں حافظ ابن حجر حافظ ذہبی کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
قَالَ وَمن خالطه وعرفه فقد ينسبني إِلَى التَّقْصِير فِيهِ وَمن نابذه وَخَالفهُ قد ينسبني إِلَى التغالي فِيهِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظاہر سی بات ہے کہ قال کا مشارالیہ حافظ ذہبی ہیں۔
پھر کہتے ہیں قال وَلم أر مثله فِي ابتهاله واستغاثته وَكَثْرَة توجهه وَأَنا لَا أعتقد فِيهِ عصمَة بل أَنا مُخَالف لَهُ فِي مسَائِل أَصْلِيَّة وفرعية۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھراسی سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ قَالَ وَكَانَ محافظاً على الصَّلَاة وَالصَّوْم مُعظما للشرائع ظَاهرا وَبَاطنا لَا يُؤْتى من سوء فهم فَإِن لَهُ الذكاء المفرط وَلَا من قلَّة علم فَإِنَّهُ بَحر زخار وَلَا كَانَ متلاعباً بِالدّينِ وَلَا ينْفَرد بمسائله بالتشهي وَلَا يُطلق لِسَانه بِمَا اتّفق بل يحْتَج بِالْقُرْآنِ والْحَدِيث وَالْقِيَاس ويبرهن ويناظر أُسْوَة من تقدمه من الْأَئِمَّة فَلهُ أجر على خطائه وأجران على إِصَابَته إِلَى أَن قَالَ تمرض أَيَّامًا بالقلعة بِمَرَض جد إِلَى أَن مَاتَ لَيْلَة الِاثْنَيْنِ الْعشْرين من ذِي الْقعدَة وَصلي عَلَيْهِ بِجَامِع دمشق وَصَارَ يضْرب بِكَثْرَة من حضر جنَازَته الْمثل وَأَقل مَا قيل فِي عَددهمْ أَنهم خَمْسُونَ ألفا

اس کے بعدحافظ ابن حجر حافظ فضل اللہ کے حوالہ سے عبارت نقل کرتے ہیں۔قَالَ الشهَاب ابْن فضل الله لما قدم ابْن تَيْمِية على الْبَرِيد۔

کفایت اللہ صاحب جس عبارت کو حافظ ابن حجر کا ذاتی تبصرہ بتاناچاہ رہے ہیں وہ درحقیقت حافظ ذہبی کی بات ہے جو ابن حجر نے نقل کی ہے۔اوراس کو باوجودیکہ ابن حجر نے قال سے نقل کیاہےاورمشارالیہ حافظ ذہبی ہیں۔ لیکن کفایت اللہ صاحب اس کو حافظ ابن حجر کا جملہ سمجھ رہے ہیں۔اب اگرایسی غلطیوں پر ہم ٹوکیں توکفایت اللہ صاحب کوناگوار گزرتاہے لیکن اس ناگواری سے قطع نظر وہ ہمیں یہ بتانے کی ضرور زحمت گواراکریں کہ یہ عبارت حافظ ابن حجر کا ذاتی تبصرہ کیسے اورکیوں کر ہے؟

یہ عبارت حافظ ذہبی ہی کی ہے۔کسی دوسرے کی نہیں ہے۔ اس کیلئے دلیل کے طورپر ہم ثلاث تراجم نفیسۃ سے اسی عبارت کا اقتباس پیش کردیتے ہیں تاکہ کفایت اللہ صاحب کی غلط فہمی دورہوجائے اوریہ واضح ہوجائے کہ یہ یہ عبارت حافظ ذہبی کی ہے۔ حافظ ابن حجر کاذاتی تبصرہ نہیں ہے۔

مُعظما للشريعة ظَاهرا وَبَاطنا لَا يُؤْتى من سوء فهم بل لَهُ الذكاء المفرط وَلَا من قلَّة علم فَإِنَّهُ بَحر زخار بَصِير بِالْكتاب وَالسّنة عديم النظير فِي ذَلِك وَلَا هُوَ بمتلاعب بِالدّينِ فَلَو كَانَ كَذَلِك لَكَانَ أسْرع شَيْء إِلَى مداهنة خصومه وموافقتهم ومنافقتهم وَلَا هُوَ يتفرد بمسائل بالتشهي وَلَا يُفْتِي بِمَا اتّفق بل مسَائِله المفردة يحْتَج لَهَا بِالْقُرْآنِ وَبِالْحَدِيثِ أَو بِالْقِيَاسِ ويبرهنها ويناظر عَلَيْهَا وينقل فِيهَا الْخلاف ويطيل الْبَحْث أُسْوَة من تقدمه من الْأَئِمَّة فَإِن كَانَ قد أَخطَأ فِيهَا فَلهُ أجر الْمُجْتَهد من الْعلمَاء وَإِن كَانَ قد أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ

ویسے حافظ ابن حجر کا ابن تیمیہ کے تعلق یہ بھی اپناتبصرہ ہے کہ انہوں نے بہت سی صحیح اورجیاد حدیثوں کو موضوع قراردے دیا۔اورایک رافضی کی تردید مین حضرت علی کی بھی تنقیص کی۔وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6
چلیں احادیث کے باب میں تو حضرت ابن تیمیہ کیلئے حافظ ابن حجر نے ایک عذر پیش کردیا۔
لیکن حضرت علی کی تنقیص کا کوئی عذر پیش کیایانہیں۔ ہمیں تونہیں دکھائی دے رہاہے۔تواس کوکیوں ماننے سے انکار کرتے ہیں۔یہ توہمیں ان کی حدت مزاجی کا کرشمہ نظرآتاہے۔آپ کو نہیں آتاہو یاجوش عقیدت مین اسکی کوئی بہتر اورلاجواب تاویل کرلیتے ہوں توالگ بات ہے لیکن اگربات ذاتی تبصرہ کی ہے تویہ بھی حافظ ابن حجر کا ذاتی تبصرہ ہے۔

آپ کی یہی مصیب ہے کہ جھوٹی تحریروں سے استدلال کرتے ہیں ، یہ زغل العلم بھی اکاذیب کا مجموعہ ہے جسے باطل طورپر امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔
اس کتاب کی صحت نسبت کا کوئی ثبوت نہیں اگر ہے تو پیش کریں لیکن ان باتوں کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے جسے آپ نے یہاں پیش کیا ہے ، کوئی ٹھوس دلیل ہو لیکرحاضرہوں ۔


اس کتاب کی صحت کا ثبوت وہی ہے جو آنجناب کے پاس دیوان الضعفاء والمتروکین کاہے۔حافظ ابن حجر اوردیگر حفاظ نے اس کتاب کا ذکر کیاہے۔اورکمال یہ ہے کہ اس کتاب کے محقق سلفی ہی ہیں۔
کفایت اللہ صاحب ہمیں تودیوان الضعفاء والمتروکین میں یہ پٹی پڑھاتے ہیں کہ ایک حنفی نے یہ نسخہ لکھاہے لیکن خود جب دوسری کتاب کے اثبات کی بات آتی ہے تویہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے محقق اورناشر حنفی نہیں بلکہ ایک سلفی صاحب ہیں۔ ایسے سلفی جن کی تحقیقات بالخصوص مخطوطہ کتابوں کے تعلق سے بڑی وقیع نگاہوں سے دیکھاجاتاہے۔
اورمیرے علم میں آج تک ایساکوئی حوالہ نہیں ہے جہاں کسی نے اس کتاب پر تنقید کی ہے ایک سلفی صاحب نے اس کتاب پر تنقید کی تھی اوراس کی نسبت کو مشکوک ٹھہرایاتھامگر دوسرے سلفی حضرات نے تاریخی دلائل سے اسے خاموش کردیا اس کوتفصیلااردو مجلس پر عرض کرچکاہوں اورسابق میں کفایت اللہ صاحب اس کا حوالہ دے چکے ہیں۔ مجھے اس پر مزید وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اورہاں اسی کتاب میں حافظ ذھبی رحمہ اللہ کی طرف سے احناف کی شان میں جوقصیدے کہے گئے ہیں ذرا اسے بھی کبھی پڑھ لیں :
یہ دیکھیں اسی زغل العلم میں احناف سے متعلق کیا ہے:
الحنفية
الفقهاء الحنفية أولو التدقيق والرأي والذكاء والخير من مثلهم إن سلمو من التحيل والحيل على الربا وإبطال الزكاة ونقر الصلاة والعمل بالمسائل التي يسمعون النصوص النبوية بخلافها فيا رجل دع ما يريبك إلى مالا يريبك واحتط لدينك ولا يكن همك الحكم بمذهبك فمن اتقى الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه فإذا عملت بمذهبك في المياه والطهارة والوتر والأضحية فأنت أنت وإن كانت همتك في طلب الفقه الجدال والمراء والإنتصار لمذهبك على كل حال وتحصيل المدارس والعلو فماذا فقها أخرويا بل ذا فقه الدنيا فما ظنك تقول غدا بين يدي الله تعالى تعلمت العلم لوجهك وعلمته فيك فاحذر أن تغلط وتقولها فيقول لك كذبت إنما تعلمت ليقال عالم وقد قيل ثم يؤمر بك مسحوبا إلى النار كما رواه مسلم في الصحيح فلا تعتقد أن مذهبك أفضل المذاهب وأحبها إلى الله تعالى فإنك لا دليل لك على ذلك ولا لمخالفك أيضا بل الأئمة رضي الله عنهم على خير كثير ولهم في صوابهم أجران على كل مسألة وفي خطئهم أجر على كل مسألة [زغل العلم ص: 35]۔
اس کے برخلاف شوافع کےبارے میں کتنا عمدہ کلام ہیں پڑھیں ، اورعبرت حاصل کریں:
الشافعية
الفقهاء الشافعية أكيس الناس وأعلم من غيرهم بالدين فأس مذهبهم مبني على اتباع الأحاديث المتصلة وإمامهم من رؤوس أصحاب الحديث ومناقبه جمة فإن حصلت يا فلان مذهبه لتدين الله به وتدفع عن نفسك الجهل فأنت بخير [زغل العلم ص: 36]
یہ کتاب کمال کی ہے۔اورمیری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔یہ ان کتابوں مین سے ہے جس میں امت کے مختلف طبقات کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سے قبل اسی منہج پر حافظ ابن نے تلبیس ابلیس لکھی ہے۔ابن جوزی سے قبل امام غزالی نے کتاب الغرور اوراصناف المغرورین میں امت کے مختلف طبقات کو درپیش وساوس اورخطرات کا جائزہ لیاہے اوریہ کہ وہ کس طرح سے شیطان کے دھوکے میں پڑجاتے ہیں۔

دورآخر میں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے التفہیمات الالہیۃ میں امت کے مختلف طبقات سے خطاب کیاہے اوران کی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے ان کو دورکرنے کے اسباب بتائے ہیں۔
یہ کتاب بھی اسی طرزکی ہے۔اس میں مختلف طبقات سے خطاب کرکے ان کی کمزوریوں کو بیان کیاگیاہے۔

اس میں کئی چیزیں قابل غورہیں۔

اولااس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے لیکن اس میں شیخ الاسلام کا تذکرہ ضرور موجود ہے۔جب ہم لفظ حنفیہ استعمال کرتے ہیں توہمیں اس کی وسعت اورگہرائی وگیرائی کو مدنظررکھناچاہئے ۔
پھر حافظ ذہبی نے یہ بات بھی نہایت وضاحت کے ساتھ صاف کردی کہ شافعیہ،مالکیہ اورحنابلہ کوبھی حنفیہ پر کوئی مزیت اوروجہ ترجیح حاصل نہیں ہے۔

فلا تعتقد أن مذهبك أفضل المذاهب وأحبها إلى الله تعالى فإنك لا دليل لك على ذلك ولا لمخالفك أيضا بل الأئمة رضي الله عنهم على خير كثير ولهم في صوابهم أجران على كل مسألة وفي خطئهم أجر على كل مسألة

حنفیہ امت مرحومہ کا دوتہائی حصہ ہیں۔ اس میں ضرور ہے کہ بہت سارے لوگ دین کے نام پر ذاتی خواہشات اوراغراض کو پوراکرنے والے بھی ہوں گے بالخصوص جب کہ اس کے ساتھ دنیاوی منافع اورفوائد حاصل ہونے کے زبردست امکانات ہوں۔اس سے مراد یہ ہے کہ اقتدار بیشتر حنفیوں کے ہاتھ میں ہی رہاہے۔قضاء اوردیگر علمی ودینی ذمہ داریاں بھی حنفیوں کو ہی ملی ہیں۔لہذا کچھ غلط کار لوگ اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے۔

حنفیہ کی مثال سمندر کی سی ہے اس میں کچھ گندگی اورنجاست پڑبھی جائے توسمندر ناپاک نہیں ہوتا ۔غوروفکر کی ضرورت ان کو ہے جن کی تعددا حنفیہ کے مقابلہ میں قلتین سے بھی کم ہے ۔اوروہ غورکریں کہ اپنی اس مختصر سی تاریخ میں ان کے درمیان کیسے کیسے شہکار موجود ہیں۔اوریہ کہ ان کی موجودگی نے ان کو پاک باقی رکھاہے یاپھر۔۔۔۔۔۔۔
ثانیاًآپ نے حنفیہ کا ذکر توکردیالیکن اسی کتاب میں محدثین کابھی ذکر موجود ہے ۔ذرااسے بھی دیکھ کر شاد کام ہوں۔

والمحدثون: فغالبهم لا يفقهون ولا همة لهم في معرفة الحديث ولا [في] (13) التدين به، بل الصحيح والموضوع عندهم [بنسبة] (14) إنما همتهم في السماع على جهلة الشيوخ، وتكثير العدد من الأجزاء والرواة، لا يتأدبون بآداب الحديث، ولا يستفيقون من سكرة السماع، الآن يسمع [الجزء] (51) ونفسه تحدثه: متى يرويه أبعد الخمسين سنة! ويحك ما أطول أملك وأسوأ عملك، معذور سفيان الثوري إذ يقول فيما رواه أحمد بن يوسف التغلبي ثنا خالد بن خداش ثنا حماد بن زيد قال قال سفيان الثوري - رحمه الله -: (لو كان الحديث خيرا لذهب كما ذهب الخير) (16) .
صدق والله وأي خير في حديث مخلوط صحيحه بواهيه، وأنت لا تفليه ولا تبحث عن ناقليه، ولا تدين الله به.
أما اليوم في زماننا فما يفيد المحدث الطلب والسماع مقصود الحديث من التدين به، بل فائدة السماع [ليروي] (17) فهذا والله لغير الله، خطابي معك يا محدث لا مع من يسمع ولا يعقل ولا يحافظ على الصلوات، ولا يجتنب الفواحش ولا قرش الحشائش ولا يحسن أن يصدق فيها، فيا هذا لا تكن محروما مثلى فأنا نحس أبغض المناحيس (18) .
وطالب الحديث اليوم ينبغي له أن ينسخ أولا (الجمع ين الصحيحين (19) و (أحكام عبد الحق) (20) و (الضياء) (21) ، ويدمن النظر [فيهم] (22) ويكثر (23) من تحصيل تواليف البيهقي فإنها نافعة، ولا أقل من مختصر كـ (الإلمام) (24) [ودراسة] (25) ، فإيش (26) السماع على جهلة المشيخة الذين ينامون والصبيان يلعبون والشبيبة يتحدثون ويمزحون، وكثير منهم ينعسون، ويكابرون، والقارىء يصحف، وإتقانه (27) في تكثير (أو كما قال) ، والرضع يتصاعقون، بالله خلونا، فقد بقينا ضحكة لأولي المعقولات۔

اس کے بعد حافظ ذہبی نے دوسری بات بیان کی ہے۔اورمعقولیوں کا رونارویاہے۔

جہاں تک آپ نے امام شافعی اورشافعیہ کی بات کی ہے توآپ نے اپنی عادت کے مطابق ادھوری بات لکھی ہے۔شافعیہ کاکلام مختصرانقل کیاہے۔جب کہ اس کے بعد حافظ ذہبی نے شافعیہ کو نصیحت کی ہے۔
وإن كانت همتك كهمة اخوانك
ن الفقهاء البطالين، الذين قصدهم المناصب والمدارس والدنيا والرفاهية والثياب الفاخرة،فماذا بركة العلم، ولا هذه نية خالصة، بل ذا بيع للعلم بحسن عبارة وتعجل [للأجر] (48) وتحمل للوزر وغفلة عن الله، فلو كنت ذا صنعة لكنت بخير، تأكل من كسب يمينك وعرق جبينك، وتزدري نفسك ولا تتكبر بالعلم، أو كنت ذا تجارة لكنت تشبه علماء السلف الذين ما أبصروا المدارس ولا سمعوا بالجهات، وهربوا لما للقضاء طلبوا، وتعبدوا بعلمهم وبذلوه للناس، ورضوا بثوب خام وبكسرة، كما كان من قريب الإمام أبو إسحاق (49) صاحب (التنبيه) ، وكما كان بالأمس الشيخ محيى الدين (50) صاحب (المنهاج) .

پھر یہ دیکھئے کہ مالکیہ کے بارے میں کیاارشاد ہوتاہے۔

لفقهاء المالكية على خير، واتباع وفضل، إن سلم قضاتهم ومفتوهم من التسرع في الدماء والتكفير، فإن الحاكم والمفتي يتعين عليه أن يراقب الله تعالى، ويتأنى في الحكم بالتقليد ولا سيما في إراقة الدماء، فالله ما أوجب عليهم تقليد إمامهم، فلهم أن يأخذوا منه ويتركوا كما قال الإمام مالك - رحمه الله تعالى -: (كل يؤخذ من قوله ويترك الا صاحب هذا القبر - صلى الله عليه وسلم -) (39)

ان تمام کو دیکھنے کے بعد صرف احناف کو مورد طعن بتانادل کی تشفی اورآتش غضب کو سکون پہنچانے کیلئے توبہترہوسکتاہے لیکن علم وتحقیق کی نظرمیں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مخطوط الفاظ پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی یہ ساری باتیں منقولہ اقتباس سے غیر متعلق ہیں ، ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر شدید اسلوب میں حق پیش کیا جائے تو کیا اسلوب میں شدت کی آمیزش سے حق باطل ہوجائے گا؟؟
یا نرم اسلوب میں باطل پیش کیا جائے تو کیا اسلوب میں نرمی کے باعث وہ حق ہوجائے گا؟؟؟
بتلانا یہ مقصود ہے کہ اسلوب میں شدت کا بہانہ بناکر آپ کسی کی بات کو غلط قرار نہیں دے سکتے ۔
اسلوب کی شدت بہرحال حق کے قبول میں مانع سے ہوتی ہے.۔اس کی ایک مثال دیکھئے جب مقبل الوادعی جیسے ہرزہ سرا ئی کرنے والے شخص کے خلاف پتہ نہیں کون سالفظ استعمال کیاگیاتوانتظامیہ نے اس کو گالی قراردے دیا۔جب اس پر انتظامیہ کو سخت الفاظ میں متوجہ کیاگیاتو شاکر صاحب فرماتے ہیں کہ اگرخلوص کے ساتھ ان کو کہاگیاہوتاتو وہ اس کو مان لیتےاوربتادیتے کہ کن کن حضرات کی پوسٹس روکی گئی ہیں اوروہ قطار میں منظوری کی منتظر ہیں۔

ویسے کچھ اسی قسم کا فتویٰ ابن خزیمہ نے دیاتھاجو صفات باری تعالیٰ کے بارے میں تھاجس پر حافظ ذہبی نے کہاہے کہ ان کی بات صحیح ہے لیکن اس طرح کی بات نہیں کہنی چاہئے ۔دیکھئے۔

وَكَلاَمُ ابْنِ خُزَيْمَةَ هَذَا -وَإِنْ كَانَ حَقّاً- فَهُوَ فَجٌّ، لاَ تَحْتَمِلُهُ نُفُوْسُ كَثِيْرٍ مِنْ مُتَأَخِّرِي العُلَمَاءِ.(سیراعلام النبلاء11/230)

توصرف بات کا حق ہوناہی کافی نہیں ہے بلکہ مناسب طورپر ہونابھی ضروری ہے۔ہم نے ذہبی کی بات کو نقل کرنے میں اس لئے ترجیح دی کہ بات انہی کے حوالہ سے چل رہی ہے۔
امام سخاوی کی جس عبارت کے حوالہ سے مذکورہ جھوٹ بولا جاتا ہے ، ملاحظہ ہو، امام سخاوی نے کہا:
ورسالة كتبها لابن تيمية هي لدفع نسبته لمزيد تعصبه مفيدة [الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 179]۔

اولا:
پرانی کتاب میں کسی کتاب یا رسالے یا خط وغیرہ کے تذکرہ سے یہ قظعا ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی موجودہ کاپی بھی مستندہے۔

ثانیا:
مذکورہ عبارت میں امام سخاوی نے مطلق ایک رسالہ کا ذکرکیا ہے النصیحۃ کا نام قطعا نہیں لیا ہے لہٰذا اس سے النصیحہ مرادلینا زاہد کوثری جیسے کذاب لوگوں ہی کا کام ہوسکتاہے۔

ثالثا:
امام سخاوی نے اس رسالہ سے کوئی عبارت نقل نہیں کی ہے کہ موجودہ کاپی سے اس کا موازنہ کرکے یہ معلوم ہوسکے کہ ان کا اشارہ اسی خط کی طرف ہے۔
سب سے پہلے اس تعلق سے بشارعواد صاحب کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
سیر اعلام کے مقدمہ میں عواد صاحب کہتے ہیں:
وأرسل إليه نصيحته الذهبية التي يلومه، وينتقد بعض آرائه وآراء أصحابه بها [سير أعلام النبلاء للذهبي: المقدمة/ 38]۔

دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
وھی رسالۃ بعث بھا الی شیخہ ورفیقہ ابی العباس ابن تیمیۃ الحرانی ’’ت ٧٢٨ھ ‘‘ ینصحہ فیھا ویعاتبہ فی بعض تصرفاتہ ، وھی رسالۃ مفیدۃ فی تبیان عقیدۃ الذھبی ، و قد ذکرھا شمس الدین السخاوی فی الاعلان فقال:’’وقد رأيت له عقيدة مجيده ورسالة كتبها لابن تيمية هي لدفع نسبته لمزيد تعصبه مفيدة‘‘ وذھب بعضھم الی القول بانھا مزورۃ ، ولا عبرۃ بذالک [الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام : ص ١٤٦]۔

اورپھر حاشیہ میں اس کےبعض نسخوں کا تذکرہ کے منکرین کا موقف نقل کیا ہے اوراسی پر خاموش ہوگئے ہیں ، ملاحظہ [الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام : ص ١٤٦ ، ١٤٧ حاشیہ رقم ١٠ ]۔

ان تمام عبارتوں میں عواد صاحب کا صرف دعوی ہے تحقیق اوردلائل کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ، لہٰذا دلیل سے خالی ان کے اس دعوی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، واضح رہے کہ جن لوگوں نے اس خظ کو مکذوب قرار دیا ہے انہوں نے دلائل کے انبار لگادئے ہیں ، بلکہ اس پر مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں ، ذیل میں چند حوالے پیش خدمت ہیں ، قارئین اس خط کی حقیقت جاننے کے لئے ان کا مطالعہ کریں۔
o التوضيح الجلي في الرد على النصيحة الذهبية المنحولة على الإمام الذهبي ۔
o دعوۃ شیخ الاسلام ابن تیمہ و اثرھا فی الحرکات الاسلامیۃ المعاصرہ ۔
o أضواء على الرسالة المنسوبة إلى الحافظ الذهبي ۔
o كتب حذر منها العلماء ۔
کفایت اللہ صاحب نے یہ تواعتراف کیاہے کہ حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ کی جانب حافظ ذہبی کے ایک خط بھیجے جانے کا ذکر کیاہے۔لیکن اس کے باوجود وہ اس خط کو مشتبہ بنانے کیلئے کچھ اوٹ پٹانگ دلائل دے رہے ہیں مثلا
امام سخاوی نے اس رسالہ سے کوئی عبارت نقل نہیں کی ہے
حافظ سخاوی نے توحافظ ذہبی کی دیگربہت سی تصانیف کی بھی کوئی عبارت نقل نہیں کی کیااس کو محض اس لئے نہ ماناجائے کہ سخاوی نے کوئی عبارت نقل نہیں کی ہے۔
جن لوگوں نے اس خط کاانکار کیاہے ان کے پاس انکار کے کیادلائل ہیں۔ صرف اورصرف ابن تیمیہ کی تعریف مین حافظ ذہبی کے کہے ہوئے الفاظ۔کہ جب وہ ابن تیمیہ کے اتنے بڑے مداح ہیں توپھر کوئی وجہ نہیں بچتی کہ وہ ابن تیمیہ کو اتنی سختی کے ساتھ خط لکھیں۔

چونکہ سردست جیساکہ پہلے بھی واضح کیاتھاہمارایہ مقصد نہیں ہے کہ ہم النصیحۃ کو ذہبی کا ثابت کریں ۔ویسے سخاوی کے الفاظ غورکرنے کے لائق ہیں۔

یہ حافظ ذہبی کی زندگی میں ہی مشہور ہوگیاتھاکہ وہ ابن تیمیہ کے حمایتی ہیں۔اورذیل سیر اعلام النبلاء میں ذہبی کے اعتراف کے مطابق ان کو ابن تیمیہ کے مخالفین نے تکلیف بھی پہنچائی تھی۔اس کے علاوہ سبکی اورعلائی وغیرہ نے بھی ذہبی پر حنابلہ کی جانبداری اوراشعریوں سے تعصب اورجانبداری کا الزام لگایاہے۔

سبکی کی عبارت ملاحظہ ہو

طبقات الشافعیہ مین حافظ ذہبی کے حق میں عطربیزمدح وثناء کرنے کے بعد وہ اس تعلق سے کہتے ہیں۔
وھذا شیخناالذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ من ھذاالقبیل لہ علم ودیانۃ وعندہ علی اھل السنۃ تحامل مفرط فلایجوز ان یعتمد علیہ۔

حافظ علائی کہتے ہیں۔

لااشک فی دینہ وورعہ وتحریہ فیمایقولہ الناس ولکنہ غلب علیہ مذھب الاثبات ومنافرۃ التاویل والغفلۃ عن التنزیہ حتی اثرذل فی طبعہ انحرافاشدیدا عن اھل التنزیہ ومیلاقویاالی اھل الاثبات فاذا ترجم واحدا منھم یطنب فی وصفیہ بجمیع ماقیل فیہ من المحاسن ویبالغ فی وصفہ ویتغافل عن غلطاتہ ویتاول ماامکن وذا ذکر احدا من الطرف الآخر کامام الحرمین والغزالی ونحوھما لایبالغ فی وصفہ ویکثر من قول من طعن فیہ ویعید ذالک ویبدیہ ویعتقدہ دیناوھولایشعر ویعرض عن محاسنھم الطافحۃ فلایستوعبھا،واذا ظفرلاحد منھم بغلطۃ ذکر ھا،وکذلک فعلہ فی اھل عصرنا اذالم یقدر علی احدمنھم بتصریح یقول فی ترجمتہ واللہ یصلحہ ونحوذلک وسببہ المخالفۃ فی العقائد(انتھی قول العلائی)

والحال فی حق شیخنا الذہبی ازید مماوصف،وھوشیخنا ومعلمنا غیران الحق احق ان یبتع ووقد وصل من التعصب المفرط الی حد یسخرمنہ،وانااخشی علیہ یوم القیامۃ من غالب علماء المسلمین وائمۃ الذین حملوالناالشریعۃ النبویۃ فان غالبھم اشاعرۃ ،وھواذاوقع باشعری لایبقی ولایذر (قاعدۃ فی الجرح والتعدیل44)

ایک دوسری جگہ تقی الدین السبکی لکھتے ہیں۔

واعلم ان ھذہ الرفقہ اعنی :المزی والذہبی والبرزالی وکثیر امن اتباعھم اضر بھم ابوالعباس بن تیمیہ اضرارابینا(قاعدۃ فی المورخین ص75بحوالہ طبقات الشافعیہ الکبری)

اس پس منظر کونگاہ میں رکھیں اس کے بعد حافظ سخاوی کی بات پر غورکریں کہ انہوں نے ابن تیمیہ کو ایک خط لکھاہے اس خط کے مندرجات ایسے ہیں جس کی وجہ سے جولوگ ذہبی پر ابن تیمیہ کی حمایت بے جااورتعصب کا الزام لگاتے ہیں توایسے الزامات کے دفعیہ کیلئے یہ خط مفید ہے۔اس سے توظاہر ہے کہ ابن تیمیہ کے بارے میں خط میں انہوں نے سخت لہجہ اپنایاہوگااوران پر تنقید کی ہوگی۔جیساکہ دکتور بشارعواد معروف نے بھی کہاہے۔

یادش بخیر حافظ ذہبی نے اسی قسم کا ایک خط تقی الدین سبکی کوبھی لکھاتھا جس مین ابن تیمیہ کی مخالفت پر ان کی نکتہ چینی کی گئی تھی جس کے جواب میں انہوں نے عاجزی سے ذہبی کو خط لکھااورابن تیمیہ کے بارے میں بلند ووقیع کلمات لکھے۔

بعض حضرات نے اس پر اعتراض کیاکہ ایساکیسے ہوسکتاہے کہ تقی الدین سبکی جو ذہبی کے شیوخ میں سے ہیں۔وہ ذہبی کو عاجزی کے ساتھ خط لکھیں۔

ابوالکلام آزاد نے تذکرہ مین جواب دیتے ہوئےکہاہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کی شاگردی اوراستادی معروف معنوں میں نہیں تھی بلکہ صرف ایسی تھی کہ انہوں نے ان سے اجازت حدیث وغیرہ حاصل کی تھی لہذا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

جولوگ صرف اس مر کو اس خط کے جعلی ہونے کی بڑی وجہ مانتے ہیں کہ ذہبی ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں۔ اوراتنے بڑے مداح ہیں وہ ان کے خلاف ایساسخت لہجہ کیسے اختیار کرسکتے ہیں۔توان کو بھی ہم یہی صلاح دیں گے کہ ذہبی ابن تیمیہ کے باقاعدہ شاگرد نہیں تھے ان کے معاصر تھے عمرمیں کچھ ہی چھوٹے تھے۔ان کی شاگردی بھی اجازت حدیث اوراسی قبیل سے ہے۔لہذا اس کوتنہاوجہ بتانادرست نہیں ہے۔
نوٹ:اگرکفایت اللہ صاحب کو خط کے جعلی ہونے پردلائل دینے ہیں تو وہ اس کیلئے الگ تھریڈ قائم کرلیں۔ اس تھریڈ میں اسی موضوع پر بحث کریں گے تو یہ تھریڈ شاید اس فورم کا سب سے طویل تھریڈ بن جائے گا۔نہ ہی میں نے اپنے دلیل میں اس خط کے الفاظ ذکر کئے ہیں اوراستناد وغیرمستند سے مجھے اس بحث میں کوئی سروکار ہے۔
انہوں نے دکتوربشارعواد کے تعلق سے بھی عجیب وغریب قیاس کیاہے۔اگرایک شخص متن میں خط کی نسبت کودرست قراردیتاہے اورحاشیہ میں کچھ لوگوں کے انکار کو ذکر کرتاہے تومذکورہ شخص کا قول متن کو سمجھاجائے گا یاحاشیہ کو۔ حاشیہ توصرف اس لئے دیاگیاتھاکہ دونوں نقطہ نظرسامنے آجائے۔اگردکتوربشارعواد کی اپنی رائے یہ ہوتی کہ مذکورہ خط ان کا نہیں ہے تووہ اس کو متن مین ذکر کرتے نہ کہ حاشیہ میں۔

اگر تشدد کی بات کرکے شیخ الاسلام کی تغلیط مقصود نہیں ہے تو پھر ان کی ایک عبارت پرتبصرہ کرتے ہوئے اس بحث کو چھیڑنے کامقصد ہی کیا ہے ، اس سے زیادہ فضول بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی ایک صحیح بات پر ان کی شدت کا حوالہ دیا جائے ۔
سبحان اللہ یہ بات وہ شخص کررہاہے جس کا خود معمول رہاہے کہ کبھی امام ابوحنیفہ کو گمراہ کن شخصیت قراردیتاہے(میری نگاہ میں توایساکہنے والاہی گمراہ ہے)کبھی رائے اورقیاس کاامام اورکبھی کہتاہے کہ وہ سنت نبوی کی مخالفت کیاکرتے تھے۔اگرمیرے شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر ایک بات کرنے کا مقصد ان کی تغلیط ہے توآپ نے اب تک جوکچھ درباب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرمایاہے کیااس کا مقصد دل کی بھڑاس نکالنااوراپنے سلفی محترق ہونے کا ثبوت دینانہیں ہے؟

حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں نے قصائنی کا دددھ پیا ہے اس لئے بھی میرے مزاج میں ’’حدت ‘‘ ہے مگر الحمدللہ ’’شدت‘‘ نہیں ۔(اشرف السوانح :ج ١ص١٨)
کیاخیال ہے؟؟
حکیم الامت صاحب نے تو آپ کے استدلال کی پوری عمات ہی منہدم کردی ، آپ جس لفظ ’’حدت ‘‘ کو دیکھ کر بہک گئے تھے ، حکیم صاحب کے مطب میں اس کا بہترین علاج موجود ہے آپ اس کا استعمال کریں:
یہ بجائے خود ایک لطیفہ ہے کہ ہمارے استدلال کی بنیاد صرف اورصرف لفظ "حدت"پر ہے۔ہمارے استدلال کی بنیاد اس کے علاوہ ذیل تاریخ الاسلام مین حافظ ذہبی کی عبارت،صفدی کی عبارت،سخاوی کی عبارت اوردیگر علماٗ اسلام کی آراء اوران سب کے مجموعی تاثر پر ہے۔کسی لفظ واحد پر نہیں ہے۔

اگرآپ کو تاحال یہ غلط فہمی تھی کہ ہمارے استدلال کی بنیاد صرف لفظ حدت پر ہے۔حدت پر اتنی بحث توصرف اس لئے ہوگئی ہے کہ آپ اس میں غلط تاویل کرکے اورتوڑ مروڑ کرکے اس کو غلط معنی پہنارہے ہیں۔جہاں تک مولانا اشرف علی تھانوی کی بات ہے۔توانہوں نے حدت کا اعتراف کیاہے ہم بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اسی کے ساتھ شدت کی نفی بھی کردی ہے۔آپ بھی ابن تیمیہ کا کوئی ایساقول دکھادیں جہاں انہوں نے خود سے شدت کی نفی کردی ہو۔

مولانااشرف علی تھانوی صاحب کا اپنے بارے میں یہ قول کہ میرے مزاج میں حد ت تھی اس کے ہم کیوں منکر ہوں گے۔وہ اپنے بارے میں زیادہ جانتے ہیں اورانہوں نے اگرکہاہے کہ میرے مزاج مین حد ت تھی توہمیں قبول ہے۔لیکن انہوں نے اسی کے ساتھ شدت کی بھی نفی کردی ہے ۔

دوسرے اردو میں توحدت اورشدت میں فرق کرسکتے ہیں لیکن عربی میں مزاج کی تیزی کو ظاہر کرنے کیلئے شدت کا لفظ استعمال ہی نہیں کیاجاتاہے تواب حدت کا ترجمہ اردو میں کیاکریں گے؟کوئی معقول لفظ ذہن میں ہے؟

ابن تیمیہ کے تعلق سے ان کے ہم عصر مورخین اوربعد والوں نے اس تیزمزاجی کا ذکر کیاہے لیکن حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تعلق سے یہ صورت حال نہیں ہے۔ مجھے ایک بھی سوانح نگار کا نام نہیں معلوم جس نے ان کے اندر شدت پسندی کا ذکر کیاہو یاکہاہو کہ وہ دوران بحث فریق سے تیزمزاجی سے پیش آتے تھے۔ ہم عصر علماء ان کے اخلاق کی نکتہ چینی کیاکرتے تھے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ کی خواہش کے مطابق ہم اس سازشی ٹولے کی فہرست تاریخی دستاویزات اورثبوت کے ساتھ پیش کرتے ہیں ، پڑھیں اورعبرت حاصل کریں
سازش کسے کہیں گے لغت میں اس کی واضح تعریف کی گئی ہے لیکن کچھ لوگ جن کی عربی توایک طرف رہی اردو کی بھی حالت قابل رحم ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ سازش کیاہے اورتنقید کیاہے اورتنقید میں افراط اورتجاوز کیاہے۔جن کی اردو اس حد تک قابل رحم ہو وہ اردو فورم پر تنقید کے اقوال کو سازش کے خانہ میں رکھ کر ایک سے لے کر پانچ تک اپنی گنتی پوری کردیں توان کی بات مان لینی چاہئے ازراہ ترحم ۔

ویسے انہوں نے خواہ مخواہ کی ہی زحمت کی کہ اپنی گنتی کو صرف پانچ تک ہی محدود رکھاوہ چاہتے تواس کو پانچ سوتک وسیع کرسکتے تھے۔

ہم نے کفایت اللہ سے پوچھاتھاسازش کے بارے میں کہ کن لوگوں نے ابن تیمیہ کے خلاف سازش کی ہے۔انہوں نے جواب میں سازش کی حقیقت اورماہیت کو نظرانداز کرتے ہوئے ابن تیمیہ کے بارے میں تنقیدی اقوال نقل کردیئے ہیں۔ (ویسے اس بحث کے آخر میں ہم امام ابوحنیفہ کے بارے میں ایسی سازشیوں کے کچھ نمائندہ نام نقل کریں گے کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق)
س
ازش کا پہلا نمونہ
(حکیم الامت اشرف علی تھانوی)

حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’ابن تیمہ بزرگ ہیں ، عالم ہیں ، متقی ہیں اللہ ورسول پر فدا ہیں، دین پر جاننثار ہیں ، دین کی بڑی خدمت کی ہے مگر ان میں بوجہ فطرۃ تیز مزاج کے تشدد ہوگیا ‘‘ [ملفوظات حکیم الامت :ج١٠ص ٤٩]۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی اس عبارت میں کون سی سازش ہے ۔اوریہ سازش کس عبارت سے واضح ہورہی ہے۔کسی کو اگرکھلی آنکھوں سے دکھائی نہ دیتاہوتو وہ کم ازکم خوردبین سے دیکھ کرہی بتادے۔حضرت ابن تیمیہ کی واقعی تعریف بھی کی ہے اورجوان کے مزاج میں ایک کمزوری تھی اس کا بھی ذکر کیاہے۔
یہیں سے مولانا اشرف علی تھانوی کے اپنے جملہ کی وجہ بھی سمجھ لیجئے کہ وہ حدت اورشدت کو کن معنوں میں استعمال کررہے ہیں۔اورحدت کا اعتراف کرکے شدت کی جونفی کی ہے تواس کا معنی اورمطلب کیاہے۔
اگرکسی کی تیزمزاجی کا ذکرکرناسازش ہے توپھریہ توتاریخ ،تراجم اورطبقات کی بیشتر کتابوں میں موجود اوربیشتر کتابیں اس ارتکاب جرم سے لبریز بلکہ لبالب ہیں۔ان کے بارے میں کیافرمائیں گے
کمال بلکہ کفایت اللہ صاحب کے بقول لطیفہ یہ ہے کہ ابن حزم نے اپنے رسائل میں شاید طوق الحمامۃ میں اعتراف کیاہے کہ ایک بیماری کی وجہ سے ان کامزاج چڑچڑاہوگیاتھا۔توکیایہ کہہ کر انہوں نے خود اپنے خلاف سازش کرلی ۔
یہ دیکھئے امام شافعی مشہور مالکی فقیہہ اشہب کے تعلق سے کیافرماتے ہیں
قال الشافعي: ما رأيت أفقه من أشهب لولا طيش فيه. وكانت المنافسة بينه وبين ابن القاسم.
ترتیب المدارک وتقریب المسالک 3/262۔سیر اعلام النبلا9/501۔وفیات الاعیان 1/238۔طبقات الفقہاء1/150
اس طرح کے مزید حوالے نقل کئے جاسکتے ہیں لیکن چونکہ یہ بات نہایت ہی بے بنیاد ہے لہذا ہم صرف ایک ہی مثال پر اکتفاء کرتے ہیں اوریہ پوچھناچاہتے ہیں کہ کیاامام شافعی نے مالکی فقیہہ اشہب کے خلاف سازش کی تھی؟اگریہ قول سازش نہیں ہے توپھرمولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کا جملہ ابن تیمیہ کے بارے میں سازش کیوں ہے؟اورکس اعتبار ہے ؟اوراگرامام شافعی کا یہ قول بھی سازش ہے تواس قول کو سازش بتانے مین آنجناب پوری تاریخ میں تاحال فرد واحد ہیں یادوچارآپ کے طرفدار ہیں بھی گرچہ سخن فہم نہ ہوں!

سازش کا دوسرا نمونہ
(محمدحسن سنبھلی متوفی ١٣٠٥)
محمدحسن سنبھلی صاحب لکھتے ہیں:
’’خلفاء هذه الملة أربعة: ابن تيمية، وابن قيم، والشوکاني، فيقولون ثلاثة رابعهم کلبهم، وإذا انضم إليهم ابن حزم، وداؤد الظاهري بأن صاروا ستة، و يقولون خمسة سادسهم کلبهم رجما بالغيب، وخاتم المکلبين مثله کمثل الکلب إن تحمل عليه يلهث، و إن تترکه يلهث، يشنع علي أهل الحق في التنزيه ‘‘
[حاشیہ نظم الفوائد: ص ١٠٢ ، نیز ملاحظہ ہو تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: ص ١٧٤ از شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، اوراس کا عربی ترجمہ حرکۃ الانطلاق الفکری ص ١٩٥]۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنقید مین حد سے تجاوز ہے اوریہ نہیں ہوناچاہئے لیکن اس کوسازش باور کرنے کے پیچھے بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ آپ اسے تنقید میں حد سے تجاوز،فحش کلامی بدزبانی توکہہ سکتے ہیں لیکن یہ سازش کیوں کر ہوسکتی ہے اس کی وضاحت نہ کلام میں ہے اورنہ کفایت اللہ صاحب نے کی ہے۔

کفایت اللہ صاحب اوردیگر غیرمقلدین کیلئے لمحہ فکریہ

کفایت اللہ صاحب مولانا حسن سنبھلی کی اس عبارت پر حاشیہ چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ کسی اہل حدیث عالم دین نے بھی احناف کے خلاف اتنی غلیظ اور بے ہودہ زبان استعمال کی ہے۔
اہل حدیث علماء (عوام کو جانے دیجئے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کیاطرز عمل رہاہے )کچھ مثالیں پیش کرتاہوں تاکہ کفایت اللہ صاحب کے معصومانہ الفاظ اوراہل حدیث حضرات کو پاک وصاف بتانے کی کوشش کی اصل حقیقت واضح کی جائے کہ یہ حضرات جوخود کو مظلوم ثابت کررہے ہیں اصل ظالم ہیں ۔

حمیدی مشہور محدث ہیں۔راویان حدیث میں ان کا بڑانام ہے۔لیکن ان کے کرتوت ملاحظہ ہوں!

أَخْبَرَنَا ابن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا عثمان بن أَحْمَد، قَالَ: حَدَّثَنَا حنبل بن إسحاق، قال: سمعت الحميدي، يقول لأبي حنيفة، إذا كناه: أَبُو جيفة، لا يكني عن ذاك، ويظهره في المسجد الحرام في حلقته والناس حوله.(تاریخ بغداد 15/558)

کفایت اللہ صاحب مسجد حرام میں کسی کوابوجیفہ کہناکیاکسی کوکتاکہنے سے زیادہ براکام نہیں ہے؟اوریہ کام کرنے والاوہ ہے جس نے بزعم خود ایسی احادیث روایت کررکھی ہیں کہ کسی پرلعن طعن نہ کی جائے ۔اس کے باوجود یہ عمل ۔ملاحسن سنبھلی نے جوکیاہندوستان میں کیا۔لیکن حمیدی نے جوکچھ کیاوہ توخانہ کعبہ میں کیاتھا۔ زیادہ برااورقابل نفرت کون شخص ہے؟حمیدی یاملاحسن سنبھلی؟

جوعذر آپ حمیدی کیلئے پیش کریں گے وہی عذر ملاحسن سنبھلی کیلئے سمجھ لیں۔

اس کے علاوہ اوردیگر محدثین کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔جنہوں نے اس کاخیال نہ کرتے ہوئے کہ جرح وتعدیل ضرورت کی وجہ سے جائز ہے اورضرورت کا ضرورت تک ہی استعمال ہوناچاہئے امام ابوحنیفہ پر اپنی زبان دراز کی ۔لیکن ان مثالوں کوپیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔


شیخ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اس بدزبانی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہاں ابن تیمہ ، ابن قیم ، شوکانی ، ابن حزم ، داؤد ظاہری ،نواب حسن خان کے متعلق جس طرح بدزبانی کی ہے ، مجھے اس کے ترجمہ کا بھی حوصلہ نہیں، یہ کوثر کی زبان آپ حضرات کی طرف سے آئی ہے ، اس کے آگے صفحہ ١٤٠ پر اس سے بھی زیادہ بدزبانی کی گئی ہے ، میراتو تجربہ ہے کہ جب تک دنیا میں تقلید شخصی موجود ہے، اہل علم کی آبرو محفوظ نہیں رہ سکتی۔[ تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: ص ١٧٤ از شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، اوراس کا عربی ترجمہ حرکۃ الانطلاق الفکری ص ١٩٦]۔
اگرملاحسن سنبھلی نے جوکچھ کہاہے اس کے پیچھے بقول اسماعیل سلفی تقلید شخصی کا ہاتھ ہے توحمیدی اوراسی کے قماش کے جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ پر زبان درازیاں کی ہیں۔ اس میں کس چیز کا ہاتھ ہے؟کیاوہ اسی ترک تقلید کا شاخسانہ نہیں ہے اورآج بھی ایسی مثالیں کثرت سے دیکھی جاسکتی ہیں کہ ترک تقلید نے اکابرعلماء کے احترا م کے تعلق سے کیاگل کھلایاہے اس پر انشاء اللہ ہم غیرمقلدین علماء کی اپنی شہادات پیش کریں گے۔

قارئین کرام !
یہ محمد حسن سنبھلی نام کے بزرگ جو ابن تیمہ رحمہ اللہ اوران کے موافقین کو ’’کلب‘‘ کتے کے لقب سے نواز رہے ہیں یہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ تقلیدی گروپ کی بڑی اونچی اورعلمی شخصیت ہیں حتی کہ کوثری گروپ کے ابوغدہ انہیں العلامہ اورالمحقق کے القابات سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں:
وهو العلامة المحقق الشيخ السنبهلي[ تعلیق بر ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص ١٠٩]۔
جب علامہ اورمحقق کی زبان ایسی ہے تو ان کے عوام کی زبان کیسی ہوگی ، سب کو معلوم ہوجانا چاہئے اس کے باوجودبھی بے جا شکوہ کیا جاتاہے اورالٹا تشدد کا الزام ہم جیسے غریبوں کو بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو دیا جاتاہے۔
قارئین کرام !ہمیں اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ملاحسن سنبھلی کی تنقید حدسے متجاوز ہے اورفحش کلامی میں داخل ہے لیکن پیمانے دونہیں ہونے چاہئیں۔ اگروہی حرکت حمیدی کرے توبہت اچھااورملاحسن سنبھلی کرے تو بہت برا۔اگرامام ابوحنیفہ کی شان میں اللہ نے کوئی تقدیس کی آیت نازل نہیں کی ہے توابن تیمیہ بھی اس سے محروم ہیں۔ اورکوئی نص ایسی نہیں ہے کہ اگرابن تیمیہ پر تنقید میں کسی نے تجاوز اورافراط سے کام لیاتواس کی پوری علمی شخصیت ہی ناکارہ اورغیرمعتبر ہوجائے گی۔
اگردریدہ دہنی کی حد تک تنقید کرکے حمیدی کو علم وفن کی بلندی عطاکی جاسکتی ہے توملاحسن کوصرف اس جرم میں علم وتحقیق کے میدان سے بے دخل کیوں کردیاجائے کہ انہوں نے حضرت ابن تیمیہ پر تنقید میں افراط اورتجاوز سے کام لیاہے؟لینے اوردینے کے پیمانے ایک ہونے چاہیں حمیدی کیلئے الگ اورملاحسن سنبھلی کیلئے الگ اورامام ابوحنیفہ کیلئے جداورابن تیمیہ کیلئے جدانہیں ہوناچاہئے اورقرآن کی زبان میں تطفیف کی اس حرکت سے گریز کرناچاہئے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
س
ازش کا تیسرا نمونہ
( علامہ ظفراحمد تھانوی حنفی متوفی ١٣٩٤ ھ)

اوپردو حنفی بزرگوں کے اقوال پیش کئے گئے ہیں ان اقوال کا پس منظر ہرکوئی شخص سمجھ سکتاہے ، لیکن آئیے اب ہم ایک ایسا قول پیش کرتے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلاکر پوری صراحت کے ساتھ اس کی غرض و غایت بھی بتلادی گئی اوروہ یہ کی ان کے متشدد ہونے کی وجہ سے ان کے اقوال ناقابل قبول ہیں ، توملاحظہ ہو:

علامہ ظفراحمد تھانوی حنفی فرماتے ہیں:
قلت: ممارده ابن تيمية من الأحاديث الجياد في کتابه منهاج السنة حديث ''رد الشمس لعلي رضي الله عنه و لما رأي الطحاوي قد حسنه و أثبته، جعل يجرح الطحاي بلسان ذلق و کلام طلق، و أيم الله إن درجة الطحاوي في علم الحديث، فوق آلاف من مثل إبن تيمة، وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه! فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل[قواعد فی علوم الحدیث: ص ١٠٩]۔
ترجمہ : میں کہتاہوں کہ ابن تیمہ نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں جن جید احادیث کو رد کردیا ہے ان میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کو ڈوبنے کے بعد پھر سے لوٹا کر دوبارہ طلوع کیا گیا ۔
جب ابن تیمیہ نے یہ دیکھا کہ امام طحاوی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے اوراسے ثابت قرار دیا ہے تو امام طحاوی پر چرب زبانی اورسخت اسلوب میں جرح کرنا شروع کردیا ،اوراللہ کی قسم علم حدیث میں امام طحاوی کا مقام ابن تیمہ سے ہزاروں گنا بڑھ کرہے اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں ، لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا۔

عرض ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے امام طحاوی کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال نہیں کی ہے ہم آگے ابن تیمہ رحمہ اللہ کے کلام کو پیش کریں گے ، قارئین منتظررہیں ، اورساتھ ہی ہم اس موضوع ومن گھڑت اوربکواس حدیث ’’ کہ علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کو ڈوبنے کے بعد پھر سے لوٹا کر دوبارہ طلوع کیا گیا ‘‘ کی بھی وضاحت کریں گے۔

لیکن یہاں ہم قارئین کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ احناف کی ایک عظیم علمی شخصیت نے اپنے مذکورہ قول میں نہ صرف یہ کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلایا ہے بلکہ انہیں متشدد بتلانے کی وجہ بھی پوری صراحت کے ساتھ سامنے رکھ دی ہے اور وہ یہ کہ :
فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل
لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا۔
کیا اب بھی جمشید صاحب تاریخی دستاویزات اورثبوت کا شکوہ کریں گے؟؟ ابھی آگے ہم ایک اور حنفی بزرگ بلکہ عظیم ترین علمی شخصیت کا قول پیش کریں گے جس سے ان شاء اللہ سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گے۔۔۔۔قارئین منتظر رہیں۔
کفایت اللہ صاحب کاخیال ہے کہ اگرکسی کے بارے میں ہم کہیں کہ ان کے مزاج میں تشدد ہے ان کے یہاں نسبتااعتدال وتوازن کم ہے لہذا ان کی باتیں ہم تامل اورغوروفکر کے بعد اخذ کرنی چاہئیں تویہ ان کی رائے میں سازش ہے لیکن یہ سازش ایسی ہے جس کاان کے یہاں بھی افراط سے استعمال کیاگیاہے۔
این گناہے است کہ درشہر شمانیز کنند
کتنے راویوں کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ ان کی روایات متابعت کے ساتھ قبول ہوگی۔یوں ہی قبول نہیں ہوگی توکیایہ بات ان کے خلاف سازش ہے۔کتنے علماء ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ نقل میں متثبت نہیں ہیں لہذا صرف ان کی رائے پر اعتماد نہ کیاجائے۔حافظ سیوطی کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ حاطب اللیل ہیں توکیایہ جملہ ان کے خلاف سازش ہے۔اسی طرح نہ جانے کتنے مفسرین اورمورخین ہیں جن کے بارے میں ایسی بات کہی گئی ہے توکیایہ اوراس طرح کی باتیں ان کے خلاف سازش ہیں۔

امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے جو اقوال شناعت اورفحش کلامی کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اس کو توآپ شیر مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں بلکہ دوسروں کوبھی اس کی تلقین کرتے ہیں کہ اسی کو اپنی رائے بناؤ۔اس سے تجاوز کرکے آپ کہتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا قول قطعامعتبر نہیں نجس اورپلید ہے اورسارادرد صرف دل مین ابن تیمیہ کیلئے ہی چھپاکر رکھاہے ۔کسی نے ایک فقرہ کہااورآپ نے سازش کوبوسونگھ لی۔پولس میں آپ جیسے لوگوں کی بڑی ضرورت ہے ۔وہاں کیوں نہیں چلے جاتے۔ آپ کی دیگر پریشانیاں جن کے فی الحال شکار ہیں وہ بھی دور ہوجائیں گی۔
سفیان بن عیینہ کے استاد عبدالکریم نے ان کو نصیحت کی تھی کہ علم ہرایک سے بلاتحقیق اخذ کرنا خود کو نقصان پہنچاناہے۔
حَدَّثَنا يَحْيَى بْنُ يُوسُف - أَبُو زكريا الزَّمِّي، قال: حدثنا سُفْيَان بْن عُيَيْنَة, قَالَ: قَالَ عَبْد الكريم الجزري: يَا أبا مُحَمَّد! تدري ما حاطب ليل؟ قلت: لا؛ إِلا أن تخبرني, قَالَ: هو الرجل يخرج فِي الليل فيحتطب فتقع يده عَلَى أفعى فتقتله, هَذَا مثل ضربته لك لطالب العلم، وإن طالب العلم إذا حمل من العلم ما لا يطيقه قتله علمه كما قتلت الأفعى حاطب الليل
(تاریخ ابن ابی خیثمہ1/269)
امام مالک ؒ کا مشہور جملہ یاد کیجئے کہ میں نے اس شہر مین ایسے لوگوں کو پایاہے جواگربارش کی دعاکرتے توان کی دعاکی وجہ سے بارش ہوجاتی لیکن میں نے ان سے حدیث کی روایت نہیں کی کیونکہ وہ اس کے اہل نہیں تھے توکیاامام مالک کا یہ جملہ ان کے خلاف کوئی سازش ہے ؟
امام جرح وتعدیل یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ ہم نے صالحین سے زیادہ جھوٹ کسی میں نہیں پایا ۔(امام مسلم اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ کرتے ہیں حدیث رسول میں وہ دانستہ غلط بیانی نہیں کرتے بلکہ ایساان سے نادانستگی اورلاعلمی میں ہوجاتاہے)
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ» [ص:18] قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ: فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، «لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ» . قَالَ مُسْلِمٌ: " يَقُولُ: يَجْرِي الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ، وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ "
(مقدمہ صحیح مسلم 1/17)
تویحیی بن سعید القطان کا یہ جملہ صالحین کے خلاف کوئی سازش ہے جس کے ذریعہ انہوں نے صالحین کے خلاف سازش کی ہے؟اگرنہیں تو تنہامولانا ظفراحمد تھانوی کا جملہ ابن تیمیہ کے خلاف سازش کیوں مان لیاجائے ۔کیاصرف اسلئے کہ وہ ابن تیمیہ کے خلاف ہے۔ورنہ کسی سازش کی بوسونگھنے کے آپ روادار نہ ہوتے۔
لطیفہ

ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں ظفراحمد تھانوی صاحب نے اپنے مذکورہ قول میں جو یہ کہا کہ:
وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه!
اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں۔
اس بے اعتدالی پر کوثری گروپ کا فرد ابوغدہ بھی خوف زدہ ہوگیا اس لئے اس نے فورا ظفراحمد تھانوی صاحب کی مذکورہ عبارت پر یہ حاشیہ آرئی کی کہ ظفر تھانوی نے مذکورہ تعبیر تفاٍضل کے لئے استعمال کیا اورایسا ہندوستان والے بولتے ہیں اوراسے معیوب نہیں سمجھتے[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔

ملاحظہ ہوں ابوغدہ کے الفاظ:
قولة شيخنا المؤلف في حق الامام ابن تيمية بالنسبة للإمام الطحاوي رحمهما الله تعالي: '' وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه؟ '' هي من کلمات علماء الهند ولهجتهم کماسمعتها منهم مرارا، يقولونها في بيان التفاوت بين شخصين فاضل و أفضل ولا يقصدون بها الإزدراء بالمفضل عليه والإنتقاص له کما يتبادر لفهمنا نحن معشر العرب في الشام و مصر وغيرهما.[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔
ترجمہ: ہمارے شیخ مؤلف کا امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں یہ فرمانا کہ :’’اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں‘‘ یہ ہندوستان کے علماء کا لب ولہجہ ہے جیساکہ میں نے ان سے بارہا اس طرح سنا ہے ، یہاں کے لوگ ایسا دو شخص افضل و مفضول کے بیچ تفاوت بتلانے کے لئے بولتے ہیں ، اس سے مفضول کی حقارت یا تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے جیساکہ شام اورمصر وغیرہ میں ہم عربوں کے ذہن میں متبادر ہوتا ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بے کار کا عذر تھا ، سیاق و سباق کے لحاظ سے مذکورہ تاویل کی کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ اس تاویل پر خود ابو غدہ کا دل بھی مطمئن نہ تھا اس لئے اس نے براہ راست تھانوی مذکور کو خط لکھا اورابن تیمہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے مذکورہ جملہ پر سوال اٹھایا اس شکایت پر تھانوی صاحب نے اپنے اس جملہ سے رجوع کرلیا یعنی اس جملہ سے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ۔[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔

اس سے ابوغدہ کی بے جا تاویل کی حقیقت بھی سامنے آگئی کہ ظفر تھانوی صاحب نے تفاضل بتلانے کے لئے مذکورہ تعبیراستعمال نہیں کی تھی ، ورنہ اس سے رجوع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بہرحال ابوغدہ کی کرم فرمائی پر ظفر تھانوی صاحب نے اتنا کیا کہ جوتے کی خاک والےجملے سے رجوع کرلیا ، لیکن کیا کیا جائے کہ اس رجوع کے بعد بھی ابوغدہ نے اس عبارت کو شائع کردیا ۔

واضح رہے کہ اس رجوع کا تعلق صرف اس جملے سے ہے جس میں ظفر تھانوی صاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ، کیونکہ ابوغدہ نے صرف اسی جملہ کی تاویل کی تھی اوربعد میں احتجاج بھی صرف اسی جملے سے متعلق کیا تھا جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ہے، لیکن اس جملے کے علاوہ مذکورہ قول میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشددد بتلاکر جو یہ صراحت کی گئی کہ ان کے متشدد ہونے کی وجہ سے ان کے اقوال قابل قبول نہیں ہیں ، تو اس بات کے خلاف نہ تو ابوغدہ نے احتجاج کیا اورنہ ہی ظفرتھانوی نے اس سے رجوع کیا ہے۔
الغرض یہ کہ مذکورہ قول اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلانے کا مقصد صرف اورصرف یہ ہے کہ اس بہانے ان کے اقوال کو رد کردیا جائے۔۔۔۔۔

اس پورے جملہ میں موصوف نے کئی باتیں ایسی کی ہیں جس میں ان کے تعصب کا رنگ واضح ہے۔

اولاتوشیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ وہ یہ جملہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے ۔اس کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس۔ یاصرف اپنی بے بنیاد اوراپنے اسلاف کی طرح کے بیکار کے اجتہادات ہیں۔
کیاکسی کی بات غلط اگرکسی کو غلط لگے اوروہ صاحب مقولہ سے رجوع کرے تو اس کو خوف سے تعبیر کیاجائے گا۔ سعودی عرب نے مقبل الوادعی جیسے (نا مناسب لفظ حذف!) شخص کی کتاب نشرالصحیفہ پر سعودی میں پابندی عائد کررکھی ہے توکیاسعودی حکومت اس کتاب سے خوفزدہ ہوگئی ہے؟

کتنے اہل حدیث عالم ایسے ہیں جومحدثین کے طعن وتشنیع جودرباب امام ابوحنیفہ ہیں اس کو صحیح نہیں سمجھتے توکیااس کو ہم خوف سے تعبیر کریں گے۔
کچھ مثالیں عرض کرتاہوں۔ مقبل الوادی (المدبر فی الحقیقۃ)کی رسوائے زمانہ کتاب نشرالصحیفۃ سے ۔

1:أكرم ضياء العمري، في تعليقه على «المعرفة والتاريخ» للفسوي (ج2 ص746) ، وله أخطاء في تعليقه فيما يتعلق بعلم الرجال قد نبهت على بعضها في بعض كتبي .وأما دفاعه عن أبي حنيفة فلا أدري أهو عن قصور في الإطلاع على أقوال أئمة الجرح والتعديل أم هو التعصب والهوى ، وأحلاهما مر .
اکرم ضیاء صاحب عمری ہیں اورمدنی بھی ہیں۔ انہوں نے اگرامام ابوحنیفہؒ کی جانب سے دفاع کیاہے توکیاان کایہ دفاع خوف کی بناء پر تھا۔اگربات یہی ہے توان کوواضح کرنی چاہئے۔

2:عبد المعطي بن أمين ، في تعليقه على الضعفاء للعقيلي (ج4 ص268) وقد سوّد صفحات في الدفاع عن أبي حنيفة ، وكذا في تعليقه على الثقات لابن شاهين ص323 .

3:محمود بن إبراهيم بن زائد ، في تعليقه على المجروحين لابن حبان .

4:المعلق على التاريخ الكبير للبخاري: وهو الشيخ عبد الرحمن المعلمي رحمه الله ، وطريقته في التنكيل تخالف ما كتبه في حاشية التاريخ الكبير

5: مسفر بن غرم الله الدميني له رسالة في معنى سكتوا عنه ، خالف فيها الحفاظ فهو بهذا يدافع عن أبي حنيفة شعر أم لم يشعر .

اس کے علاوہ بھی امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے توکیاوہ سب کے سب خوفزدگی کے شکارتھے اوران کایہ دفاع احناف سے خوف کی وجہ سے ہواتھا؟دوسروں کو چھوڑیں۔اپنے شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب کی بات کریں وہ معیار الحق میں امام ابوحنیفہ کو" ہمارے پیشوا اورہمارے امام"(26) سے تعبیر کرتے ہیں توکیاان کی یہ صنیع بھی خوف اورتقیہ کی وجہ سے ہے۔دیگر اہل حدیث علماء میں مولانا ابراہیم سیالکوٹی ودیگر کانام نمایاں ہے جن کوامام ابوحنیفہ سے بڑی عقیدت تھی اوروہ محدثین کے اقوال جو طعن وتشنیع کے قبیل سے ہیں۔ اس کے قائل نہ تھے توکیایہ بھی خوف کی وجہ سے تھا؟

کفایت اللہ صاحب کی ایک حرکت ملاحظہ ہو!

جب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے مولانا ظفراحمد تھانوی کی یہ بات کہ ابن تیمیہ امام طحاوی کے جوتے کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں۔ اس کی مناسب اورمقتضائے حال تاویل کی ۔

ہمارے شیخ مؤلف کا امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں یہ فرمانا کہ :’’اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں‘‘ یہ ہندوستان کے علماء کا لب ولہجہ ہے جیساکہ میں نے ان سے بارہا اس طرح سنا ہے ، یہاں کے لوگ ایسا دو شخص افضل و مفضول کے بیچ تفاوت بتلانے کے لئے بولتے ہیں ، اس سے مفضول کی حقارت یا تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے جیساکہ شام اورمصر وغیرہ میں ہم عربوں کے ذہن میں متبادر ہوتا ہے
اس بارے میں کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بے کار کا عذر تھا ، سیاق و سباق کے لحاظ سے مذکورہ تاویل کی کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ اس تاویل پر خود ابو غدہ کا دل بھی مطمئن نہ تھا اس لئے اس نے براہ راست تھانوی مذکور کو خط لکھا اورابن تیمہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے مذکورہ جملہ پر سوال اٹھایا اس شکایت پر تھانوی صاحب نے اپنے اس جملہ سے رجوع کرلیا یعنی اس جملہ سے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ۔
اس بارے میں کفایت اللہ صاحب نے دانستہ یہ حرکت کی ہے کہ شیخ عبدالفتاح نے مولانا ظفراحمد تھانوی کے جس جملہ سے یہ تاویل کی تھی اس کو پیش نہیں کیا اوردانستہ اس کوچھپالیاتاکہ ان کایہ سازش ،خوف اوردیگر اتہامات کابھانڈاسرعام نہ پھوٹ جائے ۔ایسی حرکتیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ ایک دیگر غیرمقلد ابن شہاب نے یہی حرکت کی تھی کہ ایک قول جوامام ابوحنیفہ کا ہے اس کوتوظاہرکیا لیکن وہی قول جوسفیان ثوری کا بھی تھا اس کو گول کرگئے ۔یہ حرکتیں ان کی جانب سے نئی نہیں ہیں۔

ہم کفایت اللہ کی طرح آدھی ادھوری بات نقل نہ کرے پوری بات نقل کرتے ہیں اورپھر دیکھاتے ہیں کہ کیاشیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی یہ تاویل معقول ہے یاغیرمعقول ،مناسب ہے یاغیرمناسب، اقتضائے حال سے مطابقت رکھتاہے یانہیں!

شیخ عبدالفتاح جب ہندوستان آئے تھے توان کو یہ کتاب ملی تھی انہوں نے اس کو عربی میں تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ کیا۔مصنف نے اجازت دے دی۔ سفر کے بعد واپس اپنے وطن پہنچے۔ وہاں اخوان المسلمون کے تعلق سے حکام داروگیر کررہے تھے۔ اخوانالمسلمون سے تعلق رکھنے کے جرم میں ان کو بھی سنت یوسفی کی ادائیگی کی توفیق ملی۔ زنداں میں بھی انہوں نے تحقیق وتعلیق کا دامن نہیں چھوڑا اوروہیں اس کتاب کی خدمت کرتے رہے۔ جب مذکورہ بالاعبارت پر پہنچے جہاں مولاناظفراحمد تھانوی نے ابن تیمیہ کے بارے میں کہاہے کہ وہ امام طحاوی کے جوتے کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں۔ تواگرچہ ان کو کتاب کے دوسرے مقام پر خود مصنف کے اپنے بارے میں اس طرح کے الفاظ لکھنے سے معلوم ہوچکاتھاکہ ایسی بات ہندوستان میں عام ہے لیکن چونکہ ہرزبان کااپناذوق ہوتاہے اس کی اپنی تعبیر ہوتی ہے۔ ایک زبان میں ہوسکتاہے کہ کوئی تعبیر ادب کے اعلیٰ معیار پر ہو دوسرے زبان میں اس طرز تعبیر کو معیوب سمجھاجاسکتاہے اس کی بہت ساری مثالیں مل سکتی ہیں۔یہ تعبیر چونکہ عربوں کے نقطہ نظرسے معیوب تھا اس لئے انہوں نے اس کی وضاحت ضروری سمجھی۔
یہی وجہ ہے کہ اس پورے بحث کو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے جونام دیاہے وہ ہے۔

مفاضلۃ المولف بین ابن تیمیہ والطحاوی بعبارۃ صورتھا صورۃ الانتقاص لابن تیمیہ واعتذارالمولف ورجوعہ عنھا

شیخ عبدالفتاح نے بیان کیاہے کہ یہ طرز تعبیر علماء ہند کے درمیان عام ہے اورمیں نے خود کئی مرتبہ ان سے ایسی باتیں سنی ہیں۔ وہ اس سے مفضول کی تنقیص مراد نہیں لیتے بلکہ اس کو صرف مفاضلت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔لیکن یہ طرز تعبیر عرب وشام میں معیوب ہے۔

قولة شيخنا المؤلف في حق الامام ابن تيمية بالنسبة للإمام الطحاوي رحمهما الله تعالي: '' وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه؟ '' هي من کلمات علماء الهند ولهجتهم کماسمعتها منهم مرارا، يقولونها في بيان التفاوت بين شخصين فاضل و أفضل ولا يقصدون بها الإزدراء بالمفضل عليه والإنتقاص له کما يتبادر لفهمنا نحن معشر العرب في الشام و مصر وغيرهما

یہاں تک اس بات میں کوئی غبار نہیں ۔یہاں تک کی بات تو کفایت اللہ صاحب نے نقل کی ہے اس کے بعد کی بات جواصل تھی اس کو چھوڑدیاہےاور وہی حرکت کی ہے جو کبھی دلاورفگار کے ساتھ ان کے کبوتر نے معشوق کانامہ وپیام لانے میں کی تھی ۔

جومطلب کی عبارت تھی اسے پنجوں سے گھس ڈالا
کبوترلے کے آیاہے میرے خط کاجواب آدھا


تومطلب کی جوبات تھی اس کو انہوں نے حذف کردیاہے۔ ہم قارئین کے سامنے مطلب کی بات کو رکھتے ہیں تاکہ وہ غالب کے طرفدار نہ بن کر بلکہ سخن فہم بن کربھی دیکھ لیں کہ کہ کفایت اللہ صاحب نے کیانقل کیاہے اورکیاچھوڑدیاہے؟

وسیاتی فی المقطع 12ص461من ھذاالفصل قول شیخناالمولف حفظہ اللہ تعالیٰ عن نفسہ فی جانب بیان فضل ابن القیم تلمیذ الشیخ ابن تیمیہ "فواللہ لان نصیرتراب نعلیہ ارفع لمرتبتنا
(مولانا ظفراحمد تھانوی کی مکمل عبارت یہ ہے
۔والم ارد بھذا الکلام الر د علی ابن القیم رحمہ اللہ حاشاللہ،فھواجل واعظم من ان یتکلم فیہ احد من امثالنا ،فواللہ لان نصیرتراب نعلیہ ارفع لمرتبتنا،بل انمااردت بہ الرد علی الذین یحتجون باجوبتہ فی ذم التقلید،فلیفتحوا اعینھم،ولینظروا ماذا یفید کلام زعیھم واللہ المستعان
۔ترجمہ: یہ بات میں نے ابن قیم کی تردید میں نہیں کی ہے۔ ایسی بات سے خداکی پناہ۔ان کا مرتبہ ومقام ا سے کہیں بلند اوربڑاہے کہ مجھے جیسے اشخاص ان کے بارے میں کوئی بات کرے خداکی قسم اگرہم ان کے جوتے کی دھول ہوں تویہ ہمارے لئے بلندی مرتبت کاذریعہ ہوگی ۔میں نے اس بات کے ذریعہ ان لوگوں کی تردید کی ہے جوابن قیم کے جوابات سے تقلید کی کی مذمت پراستدلال کرتے ہیں وہ اپنی آنکھیں کھولیں اوردیکھیں کہ ان کے زعیم(لیڈر)کی بات سے کیامستفاد ہورہاہے۔)

اس کے بعد شیخ عبدالفتاح اس عبارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

وانظرعبارۃ شیخنا ھناک فانہااتم وضوحاًفی الوجہ الذی قلتہ

ہمارے شیخ (مولانا ظفراحمد تھانوی )کی عبارت دیکھو(جو ابن قیم کے تعلق سے ہے اورجو ماقبل میں مذکور ہوئی )وہ اس بات کو اچھی طرح سے واضح کررہی ہے جومیں نے کہی ۔
اب اگریہ جملہ کہ وہ فلاں کی جوتے کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں کہنے سے قائل کی مراد تنقیص ہوتو کیامولانا ظفراحمد تھانوی نے خود کو ابن قیم کے جوتے کے دھول کے برابر نہ ہونے کی بات کرکے اپنی تنقیص کی ہے۔ کیایہ بات سمجھ میں آتی ہے؟۔

کبھی اس طرح کی بات کیجاتی ہے لیکن مراد صرف مفاضلہ ہوتاہے کسی کی تنقیص نہیں ۔وہ بات یادکیجئے کہ کسی تابعی سے جب پوچھاگیاکہ حضرت عمربن عبدالعزیز بہتر ہیں یاحضرت امیرمعاویہ توانہوں نے کیاجواب دیا۔کہ حضرت امیر معاویہ نے حضور کے ساتھ شریک ہوکرجس غزوہ میں شرکت کی اس میں امیر معاویہ ؓ کے گھوڑے کے ناک میں جودھول تھی وہ بھی حضرت عمربن عبدالعزیز سے بہتر ہے۔

کفایت اللہ صاحب سے سوال ہے کہ مذکورہ تابعی نے جوجواب دیاہے اس سے مراد حضرت امیر معاویہ کی افضیلت ثابت کرناتھا یاحضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تنقیص مراد تھی؟اگر وہ مفاضلت کی بات کرتے ہیں توہمارامدعا ثابت ہے اوراگر وہ تنقیص کی بات کرتے ہیں تومدلل طورپر اس کی وضاحت کریں۔

اس کا ایک جواب اوربھی سمجھئے کہ ایک انسان ایک بات کہتاہے اوراس کی مراد صرف اورصرف ایک پہلو اورایک شق ہوتی ہے دوسری شق اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہوتی اگرچہ وہ تکلم اس کابھی کررہاہے۔
معمولی مثال لیں۔آپ بازارگئے۔آپ نے دوکاندار سے کسی شے کی قیمت دریافت کی ۔دوکاندار نے قیمت بتائی ۔آپ نے کہاکچھ کم بیش کرو۔جب آپ دوکاندار سے کم بیش کی بات کرتے ہیں توآپ کے ذہن میں صرف کم کا خیال ہوتاہے بیش کی جانب آپ کی نگاہ بھی نہیں جاتی۔کچھ ویساہی یہاں بھی سمجھ لیں کہ مراد صرف مفاضلۃ ہے ابن تیمیہ کی توہین نہیں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top