1. پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کو یہ کشف کہاں سے ہوگیا کہ میں نے مذکوہ بات آپ کے دئے گئے لنک سے اخذ کی ہے ؟
آپ کے ذریعہ دئے گئے لنک پر میرے مذکورہ طویل اقتباس میں سے صرف ایک بات ہے ابن السباک کی تاریخ وفات والی ، اس کے علاوہ بقیہ باتیں تو یہاں موجود نہیں ۔
اور یہ ایک بات صرف ملتقی کے اسی لنک پر نہیں ہیں نیٹ متعدد صفحات پر موجود ہیں مثلا یہ لنک ملاحظہ ہو:
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي.
اوریہاں عبدالرحمن کے مراسلہ کا نام ونشان نہیں ہے پھر آن جناب نے پورے وثوق سے کیسے کہہ دیا کہ میں نے عبدالرحمن الفقیہ کے مراسلے کو نظرانداز کردیا ؟؟؟نیز کیا اس دوسرے مراسلہ کا تعلق میرے اشکالات سے ہے ؟؟؟ اس دوسرے مراسلہ کا موضوع ہی الگ ہے اور اس میں اس کے نام پر بحث ہے نہ کہ اس نسخہ کی صحت سے۔
اگرموصوف کی طرح لطائف بیان کرنے پر آئیں توایک تازہ لطیفہ یہاں بھی واردہوسکتاہے ۔مثلاجب میں نے کہاتھاکہ یہ میری رائے ہے توفرماتے ہیں
لیکن بعض قرائن کی بنا پر ہمیں اس پر یقین کرنے میں تامل ہورہا ہے ، اور اس کے برعکس ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ آن جناب کی مذکورہ رائے ان کے اجتہاد اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلےمیں موصوف اپنے اسلاف کی تقلید کررہے ہیں۔
اوران کے قرائن یہ ہیں کہ مولاناعبدالحی لکھنوی،مولاناظفراحمد تھانوی اوردیگر علماء نے ابن تیمیہ کی حدت مزاجی کے ذکر میں ابن حجر کی عبارت کاحوالہ دیاہے۔
اب یہ حق پوچھنے کاکم ازکم ہمیں بھی توہے کہ ان مین سے کس نے اس سے قبل صلاح الدین صفدی،حافظ سخاوی،اورابوزہرہ کاحوالہ دیاتھااوردیگر حوالے دیئے تھے۔اگرآپ کو حق ہے کہ آپ کے مراسلہ میں عبدالرحمن الفقیہ سے کچھ زائد بات آجائے تو وہ آپ کی اپنی ہوگئی تواگرمیرے مراسلے میں کچھ زائد حوالے ہوجائیں توپھروہ مراسلہ میری ذاتی رائے کیوں نہ قراردی جائے۔
انٹرنیٹ پر جوکوئی بھی ابن السباک کے حوالہ سے سرچ کرے گا۔اسے یہ بات وضاحت کے ساتھ المجلس العلمی اورملتقی اھل الحدیث ودیگر سائٹ میں مل جائے گی کہ حافظ ذہبی کے تاریخ الاسلام کی آخری جلد کے حوالہ سے ابن السباک کاتذکرہ موجود ہونے کی وجہ سے اس پر شکوک وشبہات کااظہار کیاگیاہے۔اوراسی ذیل میں ابن السباک کی تاریخ وفات پر بھی بحث موجود ہے۔
نسخہ کی صحت کی بحث کی جہاں تک بات ہے توآپ پہلے شخص نہیں ہیں۔ جنہوں نے نسخہ کی صحت کی بحث کی ہے بلکہ شیخ ابوعبدالرحمن محمد الثانی بن عمروبن موسی نے 3/1/1420 کوایک مقالہ لکھاتھاجس کا عنوان تھا۔
ذيل تاريخ الإسلام أم ذيل سير أعلام النبلاء
۔اس میں انہوں نے نسخہ کی صحت پر بھی بحث کی ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
إن هذا منقطع بين شيوخ عبد القادر والذهبي ، إذ لم يدرك أحد منهم زمانه ، فلا سماع لهم ولا إجازة ، وشيوخ عبد القادر هم الحافظ ابن حجر والعيني ومن في طبقتهم .
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي. - ملتقى أهل الحديث
جہاں تک کفایت اللہ صاحب کی یہ بات ہے کہ مصنف تک سند صحیح ہونی چاہئے ورنہ وہ سند معتبر نہ ہوگی تواس سلسلے میں عرض ہے کہ
کاتب صاحب کاخط توہم پہچانتے نہیں ہمیں کیامعلوم اگربعد کے کسی شخص نے اس پر سند گڑھ دی ہے ۔اس شک اورورطہ حیرت سے ہمیں نجات کیسے ملے گا۔ اس سے بہتر تو مولف اصح السیر کا موقف ہے کہ صرف وہی کتابیں معتبر ہوں گی جوامت میں عام طورپر متداول رہی ہیں اورجوہرزمانے میں اہل علم کے ہاتھوں میں موجود رہی ہیں کیونکہ اس میں تحریف کا اندیشہ نہیں رہتا۔ ورنہ جوکتابیں صدیوں تک کتب خانوں کے اندھیرے کمروں میں رہی ہیں اوراس نے باہری دنیاکا منہ نہیں دیکھا۔کسی بھی کاتب کا خط ہم نہیں پہچانتے تواس کے بارے میں یہ کیسے یقین کرلیاجائے کہ اسی نے وہ کتاب لکھی ہے اور یہ کہ بعد کی صدیوں میں یداثیمہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
دوسری بات اگرسند اورسند صحیح نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کتاب مشکوک قرارپاتی ہے چاہے اس کے حق میں دیگر دلائل موجود ہوں ۔توآپ بتاناپسند کریں گے کہ اس وقت شاملہ میں ایسی کتابیں کتنی ہوں گی جس کااثبات مصنف تک سند صحیح سے ثابت ہوتاہے۔۔ ابن تیمیہ کی ہم تک پہنچنے والی ایسی کتابیں کتنی ہوں گی جو ہم تک سند صحیح سے پہنچتی ہیں۔ ۔ ابن قیم کی صحیح سند سے ہم تک پہنچنےوالی کتاب کتنی ہوگی؟۔
میں نے یوں ہی شاملہ کا جائزہ لیاتودوکتابوں پر نگاہ پڑی۔ایک کانام ہے
الرد على من قال بفناء الجنة والنار وبيان الأقوال في ذلك
اس کے محقق ہیں:محمد بن عبد الله السمهري
یہ کتاب دار بلنسية الرياض سے 1415هـ - 1995میں طبع ہوئی ہے۔
ہم اسے ابن تیمیہ کی کتاب اس لئے نہیں کہتے کیونکہ یہ سند صحیح سے ثابت نہیں ہے جیساکہ محقق کتاب نے بتایاہے۔ان کی پوری عبارت یہ ہے۔
تعتبر نسبة هذا الكتاب إلى مؤلفه شيخ الإسلام ابن تيمية أمرا هاما، نظرا لما وقع في ذلك من اختلاف بين الباحثين والمفهرسين، وشمل الخلاف المؤيدين للشيخ والمعارضين له، ووصل الأمر إلى حد إنكار وجود هذا التأليف لشيخ الإسلام، والحكم بوهم من نسبه إليه، وإن كان الذي نسبه من ألصق الناس وأخبرهم به، وهو تلميذه ابن القيم وبيان ذلك:
أن النسخة التي وجدت من هذا الكتاب في دار الكتاب المصرية (1) لم يذكر فيها نسبتها إلى شيخ الإسلام، وبناء على ذلك تردد المفهرسون في نسبتها للمؤلف، فقالوا عند فهرستها: يظن أنها لشيخ الإسلام ابن تيمية (2) .
وتبعا لذلك ذكر الدكتور عوض الله حجازي في كتابه "ابن القيم وموقفه من التفكير الإسلامي" (3) أن تلك الرسالة مجهولة المؤلف، لكنه اتبع ذلك بقوله: "ويظهر أنها من مؤلفات ابن تيمية".
أما الدكتور علي بن علي جابر الحربي، فتعدد إنكاره لوجود قول لشيخ الإسلام بفناء النار، أو وجود تأليفه له في هذا الموضوع، وذكر أن ابن القيم وابن الوزير قد وهما في نسبة ذلك إلى شيخ الإسلام، ثم راح يلمتس لهما عذرا بأن
الكمال لله وحده وأن ذلك من الوهم اليسير الذي لا يخرج العالم عن حد الثقة (1) .
وفي بعض المرات ذكر أن ما صرح به ابن القيم من أن شيخه شيخ الإسلام صنف في هذه المسألة مصنفه المشهور لكنه لم يصل إلينا -حسب علمي - ولو نشر لأقام الدنيا وأقعدها خصومه (2) .
وفي موضع ثان قال: "ويغلب على ظني عدم وجوده" (3) .
وفي موضع آخر قال: "إن الرسالة المزعومة" (4) .
فلما رأى الدكتور الحربي أن الشيخ الألباني ذكر قطعة من نسخة خطية، وجدت لدى المكتب الإسلامي ومصرح فيها بنسبة الكتاب إلى شيخ الإسلام كما سيأتي توضيحه (5) لما رأى الدكتور ذلك وحاول دفع نسبتها لشيخ الإسلام فقال: "وأما الورقات الثلاث التي ذكر الألباني أنه وجدها في دشت ضمن مخطوطات المكتب الإسلامي، وصورها في مقدمته لكتاب "رفع الأستار" للصنعاني، وأنها لكاتب مجهول من خطوط القرن الحادي عشر الهجري من رسالة لابن تيمية في الرد على من قال بفناء الجنة والنار، فلا تعتبر من مصنفات ابن تيمية، لانتفاء الشروط المتبعة في مناهج البحث والتحقيق المعروفة عند أهل هذا الشأن، ومن ذلك جهالة الكاتب" (6) .
وقال: "شهادته - يعني ابن القيم - بأن شيخه في هذه المسألة مصنفه المشهور الذي لم يظهر منه شيء سوى لصفحات الثلاث المشار إليها سابقا بأنها مجهولة الناسخ والتاريخ، مفتقرة للشروط المتبعة في مناهج البحث والتحقيق، ومعلوم عند أهل هذا الشأن ما يترتب على ذلك من عدم الثبوت" (1) .
ويمكن الجواب عن هذا بما يلي:
أولا: أنه طالما صرح في هذه القطعة بنسبة الكتاب لشيخ الإسلام، فلا يطعن في ذلك جهالة تاريخ النسخة، ولا جهالة ناسخها، محاولة الاستناد في دفع الثبوت إلى الشروط المتبعة في مناهج البحث والتحقيق، بناء على جهالة الناسخ وتاريخ النسخ، فهذا غير مُسَلَّم، حيث لم يعرف في تلك المناهج والقواعد أن جهالة الناسخ، وجهالة التاريخ للنسخة مما يقدح أيُّ منهما في نسبتها لمؤلفها المصرح به في صدر النسخة (2) .
ثانيا: أننا لو جعلنا جهالة الناسخ وتاريخ النسخ يقدحان في النسبة المصرح بها للمؤلف لترتب على ذلك أن نقدح في نسبة كثير من المؤلفات المخطوطة مما لم يوجد عليها اسم الناسخ، ولا تاريخ النسخ، كما يعرف ذلك من مراجعة فهارس المخطوطات، على أنه قد توفرت نسخة ثانية كاملة للكتاب وأثبت في آخرها اسم الناسخ، ومقابلته لها بأصلها.
ثالثا: ومما يؤيد صحة نسبة هذه الرسالة لشيخ الإسلام ابن تيمية ما تضمنه من نصوص وإحالات. تتطابق مع النقول والمؤلفات التي تثبت نسبتها لشيخ الإسلام كما يتضح ذلك من مراجعة النص المحقق وتوثيقه والتعليق عليه (3) .
رابعا: أنه قد صرح بنسبة هذا الكتاب للمؤلف من لا يشك في خبرته بالشيخ، وولائه له ولاعتقاده السلفي، ألا وهو العلامة ابن القيم.
فقد قرر أن لشيخه ابن تيمية تصنيفا مشهورا في مسألة فناء النار (1) وشهادته دليل قاطع.
بل إن ما ذكره في كتابه "حادي الأرواح" حول هذه المسألة قد اعتمد فيه على رسالة شيخه ابن تيمية التي هي بصدد التحقيق، فإنه أحيانا يصرح بالنقل وأحيانا ينقل بتصرف وقد أشرت إلى ذلك في الهامش أثناء التحقيق.
خامسا: هذه الرسالة قد نسبها إلى شيخ الإسلام من خصومه المعاصرين له الشيخ: علي بن عبد الكافي السبكي، حيث ألف رسالة بعنوان "الاعتبار ببقاء الجنة والنار" وفي أثنائها قال: "وبدأنا بالنار لأنا وقفنا على تصنيف لبعض أهل العصر في فنائها" (2) .
ثم قال: "وقد وقفت على التصنيف المذكور، وذكر فيه ثلاثة أقوال في فناء الجنة والنار" (3) :
أحدها: أنهما تفنيان وقال إنه لم يقل به أحد من السلف.
والثاني: أنهما لا تفنيان.
والثالث: أن الجنة تبقى والنار تفنى (4) .
وجميع النصوص التي ساقها السُبكي في رسالته موجودة في رسالة شيخ الإسلام ابن تيمية التي هي موضوع التحقيق.
وبكل حال، فإن الناظر في هذه الرسالة يلحظ سمة بارزة لمنهج شيخالإسلام من حيث الأسلوب ومناقشة القضايا ولا يختلف أسلوب هذه الرسالة عن سائر مؤلفاته.
وهذا مما يؤيد صحة نسبة هذه الرسالة لشيخ الإسلام ابن تيمية - رحمه الله –
موصوف نے کتاب کے اثبات کیلئے جتنے بھی جتن کئے ہیں۔یاوجوہات ذکر کی ہیں وہ سب کی سب بدرجہ کمال وتمام تاریخ الاسلام کی آخری جلد پرصادق آتی ہے۔کفایت اللہ صاحب سے درخواست ہے کہ ہائی لائٹ کئے ہوئے فقروں کو غورسے پڑھیں۔
دوسری کتاب تفسیر منذر بن سعید ہے۔
اس کتاب کے محقق عبد الله بن عبد المحسن التركي ہیں۔
انہوں نے کتاب کے اثبات کیلئے جوکچھ ذکر کیاہے وہ درج ذیل ہے۔
2- توثيق نسبة الكتاب إلى مؤلّفه:
ليس هناك أدنى شكّ في صحّة نسبة هذا الكتاب لابن المنذر لأمور منها:
أ- الشيوخ الذين يُحدِّث عنهم ابن المنذر في كتابه هذا، فهم شيوخه الذين روى عنهم في سائر مؤلفاته كـ "الأوسط" وغيره.
ب- كثير من نصوص الكتاب عزاها إليه السّيوطيّ في كتابه "الدّر المنثور" كما يظهر من حواشي التّحقيق.
ج- إنّ الكتاب جاء منسوباً إلى ابن المنذر في النّسخة الخطيّة.
تفسیر منذر بن سعید کے اثبات کیلئے جوامور" کفایت" کرتے ہیں وہ بدرجہاتاریخ الاسلام کی آخری جلد کیلئے بھی "کفایت" کرتے ہیں۔کیایہ صحیح طریقہ کار ہوگاکہ ہم دوسری کتابوں کیلئے طریقہ تحقیق دوسراتجویز کریں اورجہاں بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی آئے تواس میں مین میخ نکالناشروع کردیں۔
یاپھر اگرہم نے کتاب کے مصنف تک اثبات کیلئے اورنسبت کو درست ماننے میں آپ کا موقف سمجھنے میں غلطی کی ہوتوبراہ کرم واضح کردیں کہ کسی کتاب کی توثیق اورمصنف تک نسبت کا علمی طریقہ کار کیاہے اوراہل علم نے اس سلسلے میں کیاکہاہے ۔آپ سے تودرخواست ہے کہ اس سلسلے میں اپنے "محدث العصر"البانی صاحب کا موقف ضرور نقل کریں۔
کفایت اللہ صاحب نے اپنی تحریر میں موصوف نے بہت سارے لطائف ذکر کئے ہیں۔ایک لطیفہ میری جانب سے بھی سن لیں
لطیفہ
موصوف یہاں توراویوں کی جہالت کی وجہ سے حافظ ذہبی کی تاریخ الاسلام کی آخری جلد جس میں ابن تیمیہ کا بھی ذکر موجود ہے اس کو ماننے سے انکار کررہے ہیں جیساکہ ان کی یہ پوری تحریر اس پر شاہد ہے اب ذرایک دوسرے تھریڈ کاجائزہ لیتے چلیں۔وہاں جہالت کی کوجہ سے کتاب کی نسبت حافظ ذہبی تک درست نہ ماننے والے کفایت اللہ صاحب امام ابوحنیفہ کی ضد میں ایک ایسے کتاب کااثبات کرتے ہیں جس کے بارے میں وہ خود نقل کرتے ہیں کہ آخری عمر میں ان کی "سیرت "خراب ہوگئی تھی۔
حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفى بن سليمان حميد الدين أبو البقاء بن الجمال بن العلا بن الفخر المارديني الأصل المصري الحنفي ويعرف كسلفه بابن التركماني وهو حفيد قاضي الحنفية العلاء مختصر ابن الصلاح وصاحب التصانيف واسمه عبد الحميد ولكنه بحماد أشهر. ولد في رمضان سنة خمس وأربعين وسبعمائة وأسمع من مشايخ عصره ثم طلب بنفسه فسمع من القلانسي والجمال ابن نباتة وناصر الدين محمد بن إسماعيل بن جهبل ومظفر الدين بن العطار والطبقة؛ وقرأ بنفسه وكتب الطباق ولازم القيراطي، وكتب عنه أكثر شعره ودونه في الديوان الذي كان ابتدأه لنفسه ثم رحل إلى دمشق فسمع بها وأكثر من المسموع في البلدين ومن مسموعه على ابن نباتة أشياء من نظمه وبعض السيرة لابن هشام وعلي القلانسي نسخة إسماعيل بن جعفر بسماعه من ابن الطاهري وابن أبي الذكر بسماعه من ابن المقير وأجازه الآخر من القطيعي وعلي ابن جهبل المحمدين من معجم ابن جميع أنابه ابن القواس ومن شيوخه أيضاً المحب الخلاطي وأحمد بن محمد العسقلاني ولكن قيل إنه لما رحل لدمشق كتب السماع وأنه سمع قبل الوصول واعتذر عن ذلك بالاسراع؛ ولذا كان الحافظ الهيثمي يقع فيه وينهى عن الأخذ عنه؛ قال شيخنا والظاهر انه انصلح بأخرة وأجاز له الذهبي والعز بن جماعة. قال شيخنا ولازم السماع حتى سمع معنا على شيوخنا وقد خرج لبعض المشايخ يعني عبد الكريم حفيد القطب الحلبي وسمعت منه من شعر القيراطي؛ وكان شديد المحبة للحديث وأهله ولمحبته فيه كتب كثيراً من تصانيفي كتعليق التعليق وتهذيب التهذيب، ولسان الميزان وغير ذلك ورأس في الناس مدة لستوته، وكانت بيده وظائف جمة فلا زال ينزل عنها شيئاً فشيئاً إلى أن افتقر وقلت ذات يده فكان لعزة نفسه يتكسب بالنسخ بحيث كتب الكثير جداً ولا يتردد إلى القضاة، وقد أحسن إليه الجلال البلقيني على يد شيخنا قال فما أظنه وصل لبابة؛ وخطه سريع جداً لكنه غير طائل لكثرة سقمه وعدم نقطه وشكله، ولا زال يتقهقر إلى أن انحط مقداره لما كان يتعاطاه؛ وساء حاله وقبحت سيرته، حتى مات مقلاً ذليلاً بعد أن أضر بأخرة في طاعون سنة تسع عشرة بالقاهرة، وحدث أخذ عنه الأئمة كشيخنا وأورده في معجمه دون أنبائه وروى لنا عنه جماعة كالزين رضوان والموفق الأبي وحدثني بشيء من نظم ابن نباتة بواسطته. وذكره المقريزي في عقوده.[الضوء اللامع 2/ 82، ]۔
تاریخ الاسلام کی آخری جلد پر تومحض اس لئے مشکوک ہےکہ اس نسخہ کے جوکاتب ہیں وہ مشہور محدث ہیں لیکن انہوں نے بعض مشائخناکی بات کی ہے وہ مشائخ کون ہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا ۔لہذا وہ مجہول ہوئے۔
یہاں پر حافظ سخاوی نے واضح طورپر لکھاہے کہ ساء حالہ وقبحت سیرتہ اورکفایت اللہ صاحب کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہےکہ وہ بیان کرسکیں کہ دیوان الضعفاء والمتروکین جو لکھی گئی ہے وہ ان کے ساءت سیرتہ سے قبل لکھی گئی ہے۔لیکن پھر بھی وہ معتبر اوربہت معتبر ہے کیونکہ اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہے۔
کفایت اللہ صاحب حماد بن عبدالرحیم کو فقہ حنفی کا معتبر عالم کہہ رہے ہیں ان کی معتبریت کاحال یہ ہے کہ علماء احناف پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کاذکرکرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہے۔
بات نکلی توپھر دورتلک نکل گئی ۔گزارش صرف اس قدر ہے کسی کتاب کے اثبات اورنفی کیلئے وہ پیمانہ اختیار کریں جو اہل علم کے نزدیک معتبر ہواورجس پیمانہ کے اعتبار سے دیگراہل علم نے کتابوں کااثبات کیاہو۔