کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
’’خلاصہ بحث‘‘ کا جائزہ
اورہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ جو لوگ ابوحنیفہ سے متعلق سیکڑوں سے بھی زائد جروح کو نظر انداز کرنے اوران سے آنکھیں بندکرلینے کا مشورہ دیتے اور کہتے ہیں انہیں بیان کرنا مناسب نہیں وہی حضرات ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق محض حدت کی بات پاکر اس سے ہر کس وناکس کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں!!!حیرت کی بات یہ ہے کہ جولوگ ہمیں رات دن یہ سمجھاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا حدیث میں ضعیف وکمزورہونا،قلیل الروایۃ بلکہ ان کی تعبیر کے مطابق قلیل الحدیث ہوناکوئی عیب کی بات نہیں ہے وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں محض اتناکہہ دینے سے یک گونہ مشتعل ہوجاتے ہیں کہ حضرت کے اندر تیزمزاجی تھی بلکہ معاملہ یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ وہ ایسی کتابوں کے ہی منکر ہوجاتے ہیں جس میں ان امور کا ذکر ہوتاہے ۔معاملہ صرف اردو فورمز کانہیں بلکہ عربی کے بڑے بڑے بھاری بھرکم فورمز ملتقی اہل الحدیث اورمجلس العلمی پربھی یہی حال ہے۔
ان باتوں کا جواب دیا جاچکاہے جنہیں آپ خلاصہ بحث کے نام سے ذکر رہے ہیں۔قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك۔(الدررالکامنہ 1/176)
اس تحریرکا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ذہبی کہتے ہیں اس کے مداح توکہیں گے کہ میں نے ان کی تعریف میں تقصیر کی اوران کے ناقدین کہیں گے کہ میں نے غلو سے کام لیاہے اورمجھے دونوں جماعتوں سے ایذاپہنچی ہے۔ماقبل میں یہ بیان کرکے کہ وہ اپنی تیزمزاجی پر حلم کے ذریعہ قابوپالیتے تھے۔ اس کے بعد حافظ ذہبی ہی کہتے ہیں۔ میں ان کی عصمت کا قائل نہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہوسکے بلکہ میں اعتقادی اورفروعی دونوں امورمیں ان سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتاہوں۔ اس کے بعد پھروہی بات ہے جومیں نے ماقبل میں ترجمہ کیاہے۔ بعد ازاں حافظ ذہبی کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے حریف سے نرمی سے پیش آتے توان کی ذات پر سبھوں کا اتفاق ہوتا ۔کبار علماء ان کے علم وفضل کے معترف تھے اوریہ بھی معلوم تھاکہ بہت کم مسائل میں سے ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن وہ ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کیاکرتے تھے اورہرایک کے قول کو چھوڑاجاسکتاہے اورقبول کیاجاسکتاہے۔
بطور خلاصہ ذکر کردہ اس بات کا بھی مفصل جواب دیا جاچکا ہے۔وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له.(الدرۃ الیتیمۃ فی السیرۃ التیمیۃ)
اوران کوبحث ومباحثہ کے دوران سخت تیزمزاجی سے سابقہ پڑتاتھاایسامعلوم ہوتاتھاگویاکوئی شیر میدان جنگ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورا ن میں اکثروبیشتر مدارات کی کمی تھی اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
یہ نکتہ چینی ہے یا مدح ہے سیاق و سباق کے ساتھ غور کریں تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔حافظ ذہبی نے اسی کے ساتھ ان پر اس بات کی بھی نکتہ چینی کی ہے کہ انہوں نے ایسے مسائل مین دخل دیاجو اس زمانہ کے لوگوں کی عقل سے پرے تھا۔اورجس کی وجہ سے وہ خود بھی قید وبند کی صعوبتوں سے دوچارہوئے ۔چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
ودخل في مسائل كبار لا تحتملها عقول أبناء زمانه ولا علومهم، كمسألة التكفير في الحلف في الطلاق ، ومسألة أن الطلاق الثلاث لا يقع إلا واحدة، وأن الطلاق في الحيض لا يقع، وصنف في ذلك تواليف لعلَّ تبلغ أربعين كراسًا، فمُنع لذلك من الفتيا ، وساس نفسه سياسة عجيبة، فحبس مراتٍ بمصر ودمشق والإسكندرية، وارتفع وانخفض ، واستبد برأيه، وعسى أن يكون ذلك كفارة له، [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
خلاصہ کے نام سے آپ نے یہ جو ساری باتیں یکجا کردی ہیں گذشتہ مراسلات میں ان کا مفصل جواب دیا جاچکا ہے۔بات صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے۔بلکہ اس کے علاوہ بھی حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ پرنکتہ چینی کی ہے۔
وھذالذی ذکرتہ من سیرتہ فعلی الاقتصاد،والافحولہ اناس من الفضلاء یعتقدون فیہ وفی علمہ وزھدہ ودینہ وقیامہ فی نصرالاسلام بکل طریق اضعاف ماسقت،وثم اناس من اضدادہ یعتقدون فیہ وفی علمہ لکن یقولون فیہ طیش وعجلۃ وحدۃ ومحبۃ للریاسۃ وثم اناس –قد علم الناس قلۃ خیرھم وکثرۃ ھواھم-ینالون منہ سباوکفراوھم امامتکلمون او من صوفیۃ الاتحادیۃ اومن شیوخ الزرکرۃ ،اوممن قد تکلم ھو فیھم فاقذع وبالغ ،فاللہ یکفیہ شرنفسہ وغالب حطہ علی الفضلاء اوالمتزہدۃ فبحق وفی بعضہ ھو مجتہد۔۔(۔السیرۃ الیتیمہ ص18)
یہ تحریر بڑے غور کی متقاضی ہے اس کو بغوروامعان پڑھئے اورسرسری مت گزرجائیے اس سے۔
حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں تین قسم کے لوگ بیان کئے ہیں آخر الذکر کو انہوں نے خود قلت علم اورخواہش نفسانی کا حامل بتایاہے۔اس سے ہمیں بحث بھی نہیں ہے۔دوسری قسم ان لوگوں کی بتائی ہے جوان کے علم وفضل کے معترف ہیں لیکن ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کی ہے ۔حافظ ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔