• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
’’خلاصہ بحث‘‘ کا جائزہ


حیرت کی بات یہ ہے کہ جولوگ ہمیں رات دن یہ سمجھاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا حدیث میں ضعیف وکمزورہونا،قلیل الروایۃ بلکہ ان کی تعبیر کے مطابق قلیل الحدیث ہوناکوئی عیب کی بات نہیں ہے وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں محض اتناکہہ دینے سے یک گونہ مشتعل ہوجاتے ہیں کہ حضرت کے اندر تیزمزاجی تھی بلکہ معاملہ یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ وہ ایسی کتابوں کے ہی منکر ہوجاتے ہیں جس میں ان امور کا ذکر ہوتاہے ۔معاملہ صرف اردو فورمز کانہیں بلکہ عربی کے بڑے بڑے بھاری بھرکم فورمز ملتقی اہل الحدیث اورمجلس العلمی پربھی یہی حال ہے۔
اورہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ جو لوگ ابوحنیفہ سے متعلق سیکڑوں سے بھی زائد جروح کو نظر انداز کرنے اوران سے آنکھیں بندکرلینے کا مشورہ دیتے اور کہتے ہیں انہیں بیان کرنا مناسب نہیں وہی حضرات ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق محض حدت کی بات پاکر اس سے ہر کس وناکس کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں!!!

قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك۔(الدررالکامنہ 1/176)
اس تحریرکا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ذہبی کہتے ہیں اس کے مداح توکہیں گے کہ میں نے ان کی تعریف میں تقصیر کی اوران کے ناقدین کہیں گے کہ میں نے غلو سے کام لیاہے اورمجھے دونوں جماعتوں سے ایذاپہنچی ہے۔ماقبل میں یہ بیان کرکے کہ وہ اپنی تیزمزاجی پر حلم کے ذریعہ قابوپالیتے تھے۔ اس کے بعد حافظ ذہبی ہی کہتے ہیں۔ میں ان کی عصمت کا قائل نہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہوسکے بلکہ میں اعتقادی اورفروعی دونوں امورمیں ان سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتاہوں۔ اس کے بعد پھروہی بات ہے جومیں نے ماقبل میں ترجمہ کیاہے۔ بعد ازاں حافظ ذہبی کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے حریف سے نرمی سے پیش آتے توان کی ذات پر سبھوں کا اتفاق ہوتا ۔کبار علماء ان کے علم وفضل کے معترف تھے اوریہ بھی معلوم تھاکہ بہت کم مسائل میں سے ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن وہ ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کیاکرتے تھے اورہرایک کے قول کو چھوڑاجاسکتاہے اورقبول کیاجاسکتاہے۔
ان باتوں کا جواب دیا جاچکاہے جنہیں آپ خلاصہ بحث کے نام سے ذکر رہے ہیں۔

وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له.(الدرۃ الیتیمۃ فی السیرۃ التیمیۃ)
اوران کوبحث ومباحثہ کے دوران سخت تیزمزاجی سے سابقہ پڑتاتھاایسامعلوم ہوتاتھاگویاکوئی شیر میدان جنگ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورا ن میں اکثروبیشتر مدارات کی کمی تھی اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
بطور خلاصہ ذکر کردہ اس بات کا بھی مفصل جواب دیا جاچکا ہے۔

حافظ ذہبی نے اسی کے ساتھ ان پر اس بات کی بھی نکتہ چینی کی ہے کہ انہوں نے ایسے مسائل مین دخل دیاجو اس زمانہ کے لوگوں کی عقل سے پرے تھا۔اورجس کی وجہ سے وہ خود بھی قید وبند کی صعوبتوں سے دوچارہوئے ۔چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
ودخل في مسائل كبار لا تحتملها عقول أبناء زمانه ولا علومهم، كمسألة التكفير في الحلف في الطلاق ، ومسألة أن الطلاق الثلاث لا يقع إلا واحدة، وأن الطلاق في الحيض لا يقع، وصنف في ذلك تواليف لعلَّ تبلغ أربعين كراسًا، فمُنع لذلك من الفتيا ، وساس نفسه سياسة عجيبة، فحبس مراتٍ بمصر ودمشق والإسكندرية، وارتفع وانخفض ، واستبد برأيه، وعسى أن يكون ذلك كفارة له، [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
یہ نکتہ چینی ہے یا مدح ہے سیاق و سباق کے ساتھ غور کریں تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔


بات صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے۔بلکہ اس کے علاوہ بھی حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ پرنکتہ چینی کی ہے۔
وھذالذی ذکرتہ من سیرتہ فعلی الاقتصاد،والافحولہ اناس من الفضلاء یعتقدون فیہ وفی علمہ وزھدہ ودینہ وقیامہ فی نصرالاسلام بکل طریق اضعاف ماسقت،وثم اناس من اضدادہ یعتقدون فیہ وفی علمہ لکن یقولون فیہ طیش وعجلۃ وحدۃ ومحبۃ للریاسۃ وثم اناس –قد علم الناس قلۃ خیرھم وکثرۃ ھواھم-ینالون منہ سباوکفراوھم امامتکلمون او من صوفیۃ الاتحادیۃ اومن شیوخ الزرکرۃ ،اوممن قد تکلم ھو فیھم فاقذع وبالغ ،فاللہ یکفیہ شرنفسہ وغالب حطہ علی الفضلاء اوالمتزہدۃ فبحق وفی بعضہ ھو مجتہد۔۔(۔السیرۃ الیتیمہ ص18)
یہ تحریر بڑے غور کی متقاضی ہے اس کو بغوروامعان پڑھئے اورسرسری مت گزرجائیے اس سے۔
حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں تین قسم کے لوگ بیان کئے ہیں آخر الذکر کو انہوں نے خود قلت علم اورخواہش نفسانی کا حامل بتایاہے۔اس سے ہمیں بحث بھی نہیں ہے۔دوسری قسم ان لوگوں کی بتائی ہے جوان کے علم وفضل کے معترف ہیں لیکن ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کی ہے ۔حافظ ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے ۔
خلاصہ کے نام سے آپ نے یہ جو ساری باتیں یکجا کردی ہیں گذشتہ مراسلات میں ان کا مفصل جواب دیا جاچکا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
زغل العلم کی عبارت کا مفہوم


ویسے ایک کام کی بات بتادوں کہ حافظ ذہبی چوں کہ بذات خود حضرت ابن تیمیہ کے بڑے مداح ہیں اس لئے وہ ہمیشہ اشارہ سے کام چلاتے ہیں کبھی بھی تصریحا کچھ نہیں کہتے۔حافظ ذہبی زغل العلم میں حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے کہتے ہیں۔
فواللہ مارمقت عینی اوسع علما ولااقوی ذکاء من رجل یقال لہ :ابن تیمیہ مع الزہد فی الماکل والملبس والنساء ،ومع القیام فی الحق والجھاد بکل ممکن، قد تعبت فی وزنہ وفتشہ حتی مللت فی سنین متطاولۃ فماوجدت قد آخرہ بین اھل مصروالشام ومقتتہ نفوسھم وازدروابہ وکذبوہ وکفروہ الاالکبر والعجب،وفرط الغرام فی ریاستۃ المشیخۃ والازدراء بالکبار، (زغل العلم 38)
اول تو زغل العلم کے موجودہ نسخہ کی توثیق تاحال نہیں ہوسکی ہے ، جیساکہ خود جمشید صاحب کو بعض احباب نے یہاں مطلع کیا ہے۔
دوم زغل العلم کے کی کسی بھی نسخہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے ۔

جمشید صاحب نے جو عبارت پیش کی ہے اور جس حصہ کو ملون کیا ہے اس حصہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا روئے سخن امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نہیں بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مخالفین و حاسدین ہیں جن کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اندر غرور، خود پسندی ، جاہ و منصب کی ہوس ، اور بڑوں کی تنقیص جیسے اوصاف تھے جس کے سبب انہوں نے شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی تحقیرو تنقیص اوران کی تکفیر کی ۔

میں نے یہ وضاحت قدرے تفصیل سے بہت سارے فورمز پر کی ہے بعض کے لنک ملاحظہ ہوں:
توضيح عبارة الذهبي من ((زغل العلم)) في حق شيخ الإسلام ابن تيمة رحمهما الله. - المجلس العلمي
توضيح عبارة الذهبي من ((زغل العلم)) في حق شيخ الإسلام ابن تيمة رحمهما الله. - مجالس الطريق إلى الجنة
توضيح عبارة الذهبي من ((زغل العلم)) في حق شيخ الإسلام ابن تيمة رحمهما الله. - ملتقى أهل الإسناد
ملتقى أهل الحديث - عرض مشاركة واحدة - زغل العلم للإمام الذهبي
توضيح عبارة الذهبي من ((زغل العلم)) في حق شيخ الإسلام ابن تيمية رحمهما الله. - URDU MAJLIS FORUM



جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابن تیمیہ کے ایک دوسرے معاصر ہیں مشہور مورخ اورادیب علامہ صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی ہیں۔ ان کی کتاب الوافی بالوفیات بہت مشہور ہے۔اس میں انہوں نے حضور کے دور سے لے کر اپنے زمانہ تک کے مشاہیر کا ذکر کیاہے۔ حضرت ابن تیمیہ کا بھی ذکر ہے اورغیرجانبدارانہ طورپر ذکر کیاہے۔
علامہ صفدی حضرت امام کے تعلق سے ان کے زبردست حافظہ کی تعریف کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ،الوافی بالوفیات 7/12)
میں (صفدی)کہتاہوں کہ اللہ ان تمام پر رحم کرے ان کو اب عین القین حاصل ہوگیاہے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے (حفاظ متقدمین کے حافظہ کے بارے میں)اورمیراگمان ہے کہ انہوں نے(ابن تیمیہ نے خود اپنے جیساحافظہ والانہیں دیکھا)اورمیں سمجھتاہوں کہ ان کے اوصاف کسی حد تک ابن حزم سے ملتے تھے جس میں مخالفین پر تشنیع بھی شامل ہے۔
آپ کی طرف سے بطور خلاصہ ذکر کردہ اس بات کا جواب بھی گذچکا ہے ۔
مزید عرض ہے کہ انہیں موصوف نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں کیا کہا ہے وہ بھی ملاحظہ ہو:
ونقلت من خطّ الْحَافِظ صَلَاح الدّين خَلِيل بن كيكلدى العلائي رَحمَه اللَّه مَا نَصه الشَّيْخ الْحَافِظ شمس الدّين الذَّهَبِيّ لَا أَشك فِي دينه وورعه وتحريه فِيمَا يَقُوله النَّاس وَلكنه غلب عَلَيْهِ مَذْهَب الْإِثْبَات ومنافرة التَّأْوِيل والغفلة عَن التَّنْزِيه حَتَّى أثر ذَلِك فِي طبعه انحرافا شَدِيدا عَن أهل التَّنْزِيه وميلا قَوِيا إِلَى أهل الْإِثْبَات فَإِذا ترْجم وَاحِدًا مِنْهُم يطنب فِي وَصفه بِجَمِيعِ مَا قِيلَ فِيهِ من المحاسن ويبالغ فِي وَصفه ويتغافل عَن غلطاته ويتأول لَهُ مَا أمكن وَإِذا ذكر أحدا من الطّرف الآخر كإمام الْحَرَمَيْنِ وَالْغَزالِيّ وَنَحْوهمَا لَا يُبَالغ فِي وَصفه وَيكثر من قَول من طعن فِيهِ وَيُعِيد ذَلِك ويبديه ويعتقده دينا وَهُوَ لَا يشْعر ويعرض عَن محاسنهم الطافحة فَلَا يستوعبها وَإِذا ظفر لأحد مِنْهُم بغلطة ذكرهَا وَكَذَلِكَ فعله فِي أهل عصرنا إِذا لم يقدر عَلَى أحد مِنْهُم بتصريح يَقُول فِي تَرْجَمته وَالله يصلحه وَنَحْو ذَلِك وَسَببه الْمُخَالفَة فِي العقائد انْتهى [طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 2/ 13]۔

کیا خیال ہے کیا امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں ان کا یہ تبصرہ قابل قبول ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
اگرنہیں تو اس طرح کی بے ثبوت اورخلاف واقعہ باتیں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حق میں بھی ناقابل التفات ہیں ۔

ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوايقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔(1/179)
اورپھر ان کے ساتھیوں نے ان کی ذات مین غلو کیا جس کی وجہ سے ان کے اندر عجب (خود پسندی) پیداہوگئی۔یہاں تک کہ انہوں نے خود کوبھی مجتہد شمار کرناشروع کردیااوراس کی وجہ سے چھوٹے بڑے تمام علماء پر رد کرنے لگے معاملہ یہاں تک پہنچاکہ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ کوکسی چیز کے سلسلے میں خطاکار بتایا۔اس کی خبر جب شیخ ابراہیم رقی تک پہنچی توانہوں نے اس پر انکار کیاجس کے بعد حضرت ابن تیمیہ خود ان سے ملے اورمعذرت پیش کی اورانہوں نے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ کے حق میں کہاہے کہ انہوں نے سترہ مواقع پر غلطیاں کی ہیں۔اورایک مسئلہ میں توکتاب اللہ کے نص کی مخالفت کی ہے۔اورحنابلہ کے ساتھ تعصب کی وجہ سے وہ اشاعرہ کی مخالفت کرتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے ایک موقع پر امام غزالی کو برابھلاکہاجس پر لوگ ان کی طرف ایساجھپٹے گویاان کو قتل کردیں گے۔
اس کا جواب بھی دیا جاچکا ہے ۔
حافظ ابن حجر ایک دوسرے موقع سے حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ابن تیمیہٌ نے ابن مطہر شیعی کے رد میں ایک کتاب لکھی منہاج السنۃ اس میں جہاں ابن مطہرکے پیش کردہ موضوع اورواہی حدیثوں کارد کیاوہیں اس میں بہت ساری اچھی حدیثیں بھی رد کردیں اوراس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے حافظہ پر بھروسہ کیا (اورکتابوں کی جانب رجوع نہیں کیا)اورانسان کو بھول چوک سے سابقہ پڑتاہی ہے اوراسی طرح اس رافضی کی تردید میں وہ کہیں کہیں حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔
اس کا جواب بھی مفصل دیا جاچکا ہے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی کے مشہور شاگرد بلکہ جانشین حافظ سخاوی ہیں ۔ان کی کتاب الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ ہے۔ یہ کتاب ایک مستشرق فرانزروزنثال کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔ اس کاعربی میں ترجمہ الدکتور صالح احمد العلی نے کیاہے۔ اورکوشش کی ہے کہ اصل عربی مخطوطہ سے اس کو ملایاجائے۔
حافظ سخاوی ابن تیمیہ کے تعلق سے اس کتاب میں لکھتے ہیں۔
وکذلک ممن حصل من بعض الناس منھم نفرۃ وتحامی عن الانتفاع بعلمھم من جلالتھم علماوورعا وزہدا،لاطلاق لسانھم وعدم مداراتھم ،بحیث یتکلمون ویجرحون بمافیہ مبالغۃ کابن حزم وابن تیمیہ،وھماممن امتحن واوذی وکل اھد من الامۃ یوخذ من قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الاعلان بالتاریخ لمن ذم التاریخ۔119)
اسی طرح ایسے علماء جو علم ،ورع اورزہد میں بڑے مقام کے حامل تھے۔ اس کے باوجود لوگوں نے ان سے نفرت کی اوران سے استفادہ کرنے سے بازرہے ۔ایساان کے قول میں احتیاط نہ کرنے اورعدم مدارات کے سبب ہوا اس طورپر کہ وہ کلام اورجرح مبالغہ کے ساتھ کرتے تھے۔ جیسے کہ ابن حزم اورابن تیمیہ اوریہ دونوں ان علماء میں سے ہیں جوکئی مرتبہ ازمائشوں سے گزرے اورہرایک امتی کے قول کو لیاجاسکتاہے اورترک کیاجاسکتاہے سوائے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
امام سخاوي (المتوفى: 902) نے بھی بس صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764) کے الفاظ دہرائے ہیں جس کا جواب دیا جاچکا ہے ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
شیخ ابوزہرہ ؟؟؟


ماضی قریب کے مشہورمورخ ،فقیہہ اورادیب شیخ ابوزہرہ نے حضرت ابن تیمیہ کی سوانح اورعلمی خدمات پر ایک کتاب لکھی جس کانام ہےالامام ابن تیمیہ ۔اس کتاب کی ہرچہار جانب سے تعریف ہوئی ہے۔ کیونکہ اس میں انہوں نے موضوعیت اورغیرجانبداری کا خیال رکھاہے۔ نہ وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعصبین کی طرح ان کے ہرقول کومقدس سمجھتے ہیں اورنہ ان کی ذات اورعلم کوسرے سے کسی قابل نہیں سمجھنے والے فریق میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی حضرت ابن تیمیہ کی بہت زیادہ تعریف کرنے کے باوجود ان کی حدت اورتیزمزاجی کا ذکر کیاہے۔چنانچہ لکھتے ہیں ۔
لم یبرز لنا من بین سجایاہ شی الاصفۃ واحدۃ وھی الحدۃ فی القول،والشدۃ فیہ،حتی ان لیوجع احیانا فیکرہ الناس الشفاء لالم الدواء،بل ان تلک الحدۃ کانت تخرج بہ من نطاق الحجۃ القویۃ والنقد اللاذع الی الطعن احیانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(الام
ابوزہرہ اس لائق تو نہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پرنقد کرے بلکہ خود ابوزہرہ پر چہار جانب سے نقد ہوئے عقیدہ میں یہ بلاشک وشبہ گمراہی کے شکارہوئے ۔
درج ذیل لنک دیکھیں:
اريد معلومات عن محمد أبو زهره - ملتقى أهل الحديث
أخطأ الألباني وهو على الحق ... وأصاب أبو زهرة وهو على الباطل - ملتقى أهل الحديث

اورسلفی حضرات سے موصوف کی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، ظاہر ہے جب ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان عقائد کے خلاف بات کی ہے جس کے ابوزہرہ لوگ حامل ہیں اورکتاب و سنت کی روشنی میں ان عقائد کی حقیقت واضح کردی ہے تو ایسی صورت میں ابوزہرہ نے وہی کیا جو احناف نے کیا ہے یعنی ان کے عقائد کےخلاف ابن تیمیہ رحمہ اللہ خدمات کو تشدد کے خانہ میں ڈال دیا جائے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
داخلی شہادتوں کی حقیقت


داخلی شہادتیں:
حافظ ذہبی کی بات یاد کرلیجئے ۔
وأطلق عبارات أحجم عنها غيره(الدررالکامنہ۔1/185)
زغل العلم میں حافظ ذہبی کی وہ بات بھی شامل کرلیجئے کہ الازراء بالکبار ،اجلہ علماء کی تنقیص کرنا۔
اسی طرح حافظ ابن حجر کی وہ بات بھی یاد کرلیجئے کہ رافضی کی تردید مین وہ حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔
شیخ ابوحیان مشہور نحوی اور مفسر ہیں۔ان کی تفسیر البحر المحیط بہت مشہور ہے۔ حضرت ابن تیمیہ سے ملے ان کے علم وفضل سے بہت متاثر ہوئے۔ اوران کی شان میں ایک قصیدہ کہا ۔اثنائے گفتگو کوئی نحوی مسئلہ آگیا۔ابن حیان نے سیبویہ کاحوالہ دیا ۔ یہ بات حافظ ابن حجر نے محب الدین ابن شحنہ کے حوالہ سے کہی ہے جنہوں نے یہ بات ابوحیان سے خود سنی ہے حضرت ابن تیمیہ نے حوالہ کاجواب حوالہ سے دینے کے بجائے فرمایا۔ یفشرسیبویہ ۔یاایک دوسراقول جوحافظ ابن حجر نے یقال سے ذکر کیاہےاس کے مطابق ابن تیمیہ نے کہاکہ سیبویہ نحو کا نبی نہیں تھااس نے الکتاب میں 80مواقع پر غلطیاں کی ہیں۔
یہ ان کی حدت اورتیزمزاجی کی ایک مثال ہے۔
کیا یہ سب داخلی شہادتیں ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ داخلی شہادتوں سے آپ کی کیا مراد ہے ؟؟؟؟؟
مذکورہ باتوں کا جواب دیا جاچکاہے ، البتہ ابوحیان کا لطیفہ نیا ہے اس کے بارےمیں عرض ہے کہ:

ابوحیان والے لطیفہ سے تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی منقبت معلوم ہوتی کیونکہ اس نے شیخ الاسلام کی شان میں قصیدہ کہا اس کے باوجود بھی جب اس نے غلطی کی تو شیخ الاسلام نے اس پر ٹوک دیا یہ حق بیانی کی عظیم مثال ہے کہ اپنے مادحین کی غلطی بھی بیان کردی جائے۔
یہ نہیں کہ اپناکوئی مرید یہ کہتے ہوئے آئے کہ میں نے خواب دیکھا اور میں میری زبان سے اشرف علی رسول اللہ نکل رہا ہے تو چونکہ وہ اپنا مرید ہے اس لئے اسے تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی واہ واہی کی جائے۔۔۔۔۔

شیخ الاسلام نے یہ کہنے کے لئے کہ سیبویہ بھی معصوم نہیں ہے ایک اسلوب اختیار کیا ہے اس میں شدت کی کیا بات ، بالخصوص جب کی ابوحیان ان کے مقام و مرتبہ کے تسلیم کرچکے تھے تو بھلا ابوحیان کے ساتھ شیخ الاسلام شدت کیونکر اپناتے !!

یہ الگ بات ہے کہ ابوحیان اس بات پر خفاہوگئے کہ میری غلطی کیوں پکڑی گئی ، اور پھر موصوف نے شیخ الاسلام کے خلاف بکواس کرنا شروع کردیا ، حتی کہ جھوٹی باتیں بھی ان کو طرف منسوب کردیں ، مثلا موصوف نے کہا:
وقرأت في كتاب لاحمد بن تيمية هذا الذي عاصرنا، وهو بخطه سماه كتاب العرش: إن الله يجلس على الكرسي وقد أخلى منه مكانا يقعد معه فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، تحيل عليه التاج محمد بن علي بن عبد الحق البارنباري، وكان أظهر أنه داعية له حتى أخذه منه وقرأنا ذلك فيه [الرسائلہ السبکیۃ:ص ٢٩]

حالانکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بیشتر کتابیں اس طرح کے عقائد پر ردود سے بھر ی پڑی ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حدیث رد شمش


سب سے قبل ایک بار پھر یہ حدیث امام طحاوی ہی کی کتاب سے ملاحظہ ہو:
امام طحاوی صاحب فرماتے ہیں:
حدثنا أبو أمية قال حدثنا عبيد الله بن موسى العبسي قال حدثنا الفضيل بن مرزوق عن إبراهيم بن الحسن عن فاطمة بنت الحسين عن أسماء ابنة عميس قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوحى إليه ورأسه في حجر علي فلم يصل العصر حتى غربت الشمس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم صليت يا علي قال لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم إنه كان في طاعتك وطاعة رسولك فاردد عليه الشمس قالت أسماء فرأيتها غربت ثم رأيتها طلعت بعدما غربت [شرح مشكل الآثار ـ الطحاوى 3/ 77 باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسألته الله عز وجل أن يرد الشمس عليه بعد غيبوبتها ورد الله عز وجل إياها عليه وما روي عنه مما يوهم من توهم مضاد ذلك ، ]۔
اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پروحی ہورہی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا ، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ عصر کی نماز پڑھ ہی نہیں سکے یہاں تک سورج غروب ہوگیا ، تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اے علی ! کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ علی نے جواب دیا :نہیں ! تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی کہ اے اللہ ! یہ علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا ، لہذا اس کے لئے سورج پلٹا دے !اسماء کہتی ہیں کہ : میں نے سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تھا تھا ، پھر میں نے دیکھا کہ سورج دوبارہ نکل آیا حالانکہ وہ ڈوب چکا تھا۔
اس حدیث کا موضوع ومن گھڑت ہونا اس کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے، پھر بھی طحاوی صاحب نے اس کی تحسین کردی ۔

کسی حدیث پر صحت وضعف کا حکم لگانااجتہادی امر ہے اس میں محدثین اورعلماء کے مختلف نقطہ نظر ہوتے رہتے ہیں اوراس کی وجہ سے کسی کے علمی مقام ومرتبہ پر فرق نہیں پڑتا۔ منہاج السنٰہ نامی کتاب جوایک رافضی کی تردید میں لکھی گئی ہے اس میں حدیث ردالشمس کی بات آگئی۔ امام طحاوی نے اس حدیث کوصحیح کہاہے۔ اس پر حضرت ابن تیمیہ اتنے طیش میں آئے کہ انہوں نے حکم صادر کردیا
''لیست عادتہ نقد الحدیث کنقد اہل العلم ،ولہذا روی فی شرح معانی الآثار الاحادیث المختلفہ،وانما رجح مایرجحہ منہا فی الغالب من جہۃ القیاس الذی رآہ حجۃ ویکون اکثر ہ مجروحا من جہۃ الاسناد ولایثبت فا نہ لم یکن لہ معرفۃبالاسناد کمعرفۃ اہل العلم بہ وان کان کثیرالحد یث فقہیاعالما''
میں پہلے ہی وضاحت کرچکا ہوں مکرر ملاحظ ہو:
یہ ایک واضح دلیل ہے کہ موصوف علم حدیث میں کوئی خاص درک نہیں رکھتے ۔
ممکن ہے کہا جائے کہ کون سا ایسا محدث ہے جس سے احادیث پر حکم لگانے میں غلطی نہ ہوئی ہو تو عرض ہے کہ طحاوی صاحب کا معاملہ الگ ہے ، عام محدثین کے ساتھ بہت سارے عذر ہوتے ہیں مثلا کسی ایک ہی طریق سے آگاہی ہوئی اور دوسرے طریق سے مطلع نہ ہوئے وغیرہ وغیرہ۔
مگر رد شمس والی والی حدیث کا تو کوئی ایک طریق بھی صحیح نہیں ہے ۔
یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ طحاوی صاحب کی یہ تصحیح ان کے تساہل کا نتیجہ ہے جیساکہ امام ترمذی و امام حاکم رحمہما اللہ سے تساہل کے سبب حکم حدیث میں چوک ہوئی ہے اس لئے کہ امام ترمذی اور اورامام حاکم کی فنی مہارت ناقابل انکار دلائل سے ثابت ہے اس لئے اہل علم نے انہیں صرف متساہل کہا ہے نہ کے علم رجال سے ناواقف، لیکن طحاوی صاحب کے بارے میں ان کی توثیق کے علاوہ ایسی کوئ بات نہیں ملتی جس سے علم اسناد میں بھی موصوف کی مہارت کا پتہ چلے، لہذا مذکورہ موضوع حدیث کی تحسین طحاوی صاحب کی اس فن میں عدم مہارت ہی کا نتیجہ ہے۔

کمال تویہ ہے کہ اپنے اس الزام کے ثبوت میں انہوں نے کوئی باضابطہ حوالہ نہیں دیا۔
آپ کو کس نوعیت کا حوالہ درکار ہے اس کی تعیین کریں؟؟؟؟
اگرآپ کی مراد طحاوی صاحب کے عدم رسوخ کی دلیل ہے تو خود یہی مثال اس بات کی دلیل ہے کہ علم حدیث میں طحاوی صاحب بہت کوئی خاص مقام نہیں رکھتے تھے ، وضاحت کی جاچکی ہے۔

پھریہ حدیث ایسی بھی نہیں ہے جس کی تصحیح وتحسین میں وہ منفرد ہوں بلکہ دیگر اجلہ علماء ان کے ساتھ ہیں۔
ذرا ان اجلہ علماء کے نام مع حوالہ پیش کریں تاکہ ہمیں بھی تو معلوم ہو کس کس نے مذکورہ موضوع من گھڑت حدیث کو صحیح کہا ہے، ہمیں معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کو صحیح سمجھا ہے لیکن یہ لوگ ناقدین محدثین کی فہرست میں نہیں آتے ، آپ ذرا حوالہ دیں تو بات بنے ۔

یاد رہے کہ اجلہ محدثین نے اس روایت کو صحیح کہنا تو درکنا اس کا اپنی کتاب مین تذکرہ تک نہیں کیا ہے ، شیخ الاسلام کہتے ہیں:
وقد صنف جماعة من علماء الحديث في فضائل علي كما صنف الإمام أحمد فضائله وصنف أبو نعيم في فضائله وذكر فيها أحاديث كثيرة ضعيفة ولم يذكر هذا لأن الكذب ظاهر عليه بخلاف غيره وكذلك لم يذكره الترمذي مع أنه جمع في فضائل علي أحاديث كثير منها ضعيف وكذلك النسائي وأبو عمر بن عبدالبر وجمع النسائي مصنفا في خصائص علي [منهاج السنة النبوية 8/ 195]۔

شیخ الاسلام مزید کہتے ہیں:
وهذا الحديث ليس في شيء من كتب الحديث المعتمدة لا رواه أهل الصحيح ولا أهل السنن ولا المساند أصلا بل اتفقوا على تركه والإعراض عنه فكيف يكون مثل هذه الواقعة العظيمة التي هي لو كانت حقا من أعظم المعجزات المشهورة الظاهرة ولم يروها أهل الصحاح والمساند ولا نقلها أحد من علماء المسلمين وحفاظ الحديث ولا يعرف في شيء من كتب الحديث المعتمدة [منهاج السنة النبوية 8/ 177]۔

ویسے ہم یہ حوالہ دیے سکتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کو ابن تیمیہ کے علاوہ دیگر ناقدین نے بھی موضوع کہا ہے۔
مثلا امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہا:
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع بلاشك وَقَدِ اضْطَرَبَ الرُّوَاةُ فِيهِ فَرَوَاهُ سعيد بن مَسْعُود عَن عبيد الله بْنِ مُوسَى عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوق عَن عبد الرحمن بن عبد الله بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عَلِيٍّ عَنْ أَسْمَاءَ وَهَذَا تَخْلِيطٌ فِي الرِّوَايَةِ، وَأَحْمَدُ بْنُ دَاوُدَ لَيْسَ بشئ. قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: مَتْرُوكٌ كَذَّابٌ. وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ. وَعَمَّارُ بْنُ مَطَرٍ قَالَ فِيهِ العقيلى: كَانَ يحدث عَن الثقاة بِالْمَنَاكِيرِ وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ. وَفُضَيْلُ بْنُ مَرْزِوقٍ ضَعَّفَهُ يَحْيَى. وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يَرْوِي الموضوعات ويخطئ على الثقاة. [الموضوعات لابن الجوزي 1/ 356]۔
اس کے علاوہ بھی دیگر محدثین نے اس روایت کو مردود قرار دیا ہے۔

پھراگریہ مان لیاجائے کہ امام طحاوی سے اس حدیث کی تحسین یاتصحیح میں بین غلطی واقع ہوئی ہے توپھر اس سے کیابات ثابت ہوتی ہے۔ کتنی اجلہ محدثین ایسے ہیں جن سے حدیث مین غلطی واقع ہوئی ہے۔ امام بخاری کی علم رجال کی غلطیوں پر ابن ابی حاتم نے باقاعدہ کتاب لکھی ہے۔
پھراگرمعیار یہی ہو کہ کسی کے علم وفضل کو کچھ غلطیوں کی قربان گاہ پر چڑھادیاجائے توان الفاظ کے سب سے زیادہ مستحق حضرت ابن تیمیہ ہی ہوں گے۔ اسی کتاب میں بقول حافظ ابن حجر انہوں نے جید احادیث کو موضوع اورضعیف قراردے دیا اوربقول البانی ایک ثابت شدہ حدیث کو موضوع قراردے دیا۔ اس کے علاوہ صلوٰۃ التسبیح کی حدیث کو ابن تیمیہ موضوع کہتے ہیں اورالبانی اسے حدیث حسن قراردیتے ہیں۔
اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔
تیسری مثال: امام غزالی کو برابھلاکہنے کی بات اوپرگذرچکی ہےاس کے علاوہ اوربھی بہت ساری مثالیں ہیں لیکن میں تطویل کے خوف سے نظرانداز کرتاہوں۔
اس کا جواب بھی اوپر ہوچکا ہے نیز یہ داخلی شہادت ہرگز نہیں ہے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
وجوہات کا جائزہ


حضرت ابن تیمیہ اپنے دادا مجدالدین ابوالبرکات کے بارے میں کہتے ہیں۔
وکانت فی جدناحدۃ(سیراعلام النبلاء 23/292)
محترم خاندانی اثر بھی ہوتا ہے لیکن یہ لازم ملزوم نہیں ہے اس لئے شیخ الاسلام سے متعلق اس طرح کی باتوں کے لئے ثبوت چاہئے جسے آپ نے اب تک پیش نہیں کیا ۔

نیز آپ کی منقولہ عبارت میں صرف ’’حدت ‘‘ کی بات ہے اورآپ کے حکیم الامت اس حدت کو شدت کے معنی میں لیتے ہی نہیں چنانچہ:

حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں نے قصائنی کا دددھ پیا ہے اس لئے بھی میرے مزاج میں ’’حدت ‘‘ ہے مگر الحمدللہ ’’شدت‘‘ نہیں ۔(اشرف السوانح :ج ١ص١٨)

مزید وضاحت کی جاچکی ہے۔



مناظرے اورردود:مناظرے اورردوتردید کا ایک خاصہ یہ ہے کہ بات پہلے سنجیدہ اندازمیں شروع ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے گرمی آتی ہے اورفریقین ایک دوسرے پر طنز وتعریض شروع کرتے ہیں اورآخر میں بات ایک دوسرے کوبرابھلاکہنے اور تنابزباالالقاب تک پہنچ جاتی ہے۔ حضرت ابن تیمیہ بھی معصوم نہ تھے بشرتھے۔مزاج میں حدت وشدت پہلے سے تھی۔ اس پر سے ان کی بیشتر زندگی اپنے حریفوں اورفریقوں سے مناظرہ اورمباحثہ میں گزرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اول تو یہ ساری باتیں بے دلیل ہیں ۔
دوم اگر ان کی شدت کا ظہور مناظرے کے وقت ہوتا تھا ، تو ان کے ایک سنجیدہ فتوی پر آپ نے ان کی شدت کا حوالہ کیوں دیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ابوزہرہ کے تعلق سے وضاحت کی جاچکی ہے۔۔۔۔۔


جمشید صاحب نے ایک دوسرے تھریڈ میں کہا تھا:
اب کفایت اللہ صاحب جوجواب دیناچاہیں شوق سے دیں۔
ویسے ہم ایک دوسرتے تھریڈ میں جوابن تیمیہ کے تعلق سے جواب کے منتظر ہیں۔ والسلام
عرض ہے ہمارے پاس فرصت کے لمحات انتہائی محدود ہیں اس لئے بیک وقت ہرجگہ جواب نہیں دیا جاسکتا بہرحال فرصت نکال کر ہم نے جوابات دے دئے ہیں اب ہمیں بھی جمشید صاحب کے جواب کا انتظارہے۔۔۔۔والسلام






ختم شد
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاكم الله خيرا كفايت الله بھائی!

اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں، آمین!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی جان۔۔۔
ماشاءاللہ کیا خوب مفصل تعاقب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہمارے علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔ اور سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
اب غالباً جمشید صاحب کے جوابات کے لئے لمبا ہی انتظار کرنا پڑے گا آپ کو۔۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
جزاک اللہ واحسن الجزاء فی الدارین کفایت اللہ بھائی جان
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top