اعتدال تحریر کا حسن ہواکرتاہے اوربداعتدالی اورشدت پسندی تحریر کا عیب ماناجاتاہے ۔ کسی موضوع پر بحث مناقشہ اورردوتردید اچھی بات ہے اس سے علم میں اضافہ ہوتاہے۔ بحث کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ اورخیالات کو جلاملتی ہے لیکن یہ سب اس وقت بہتر ہوتاہے جب بات معتدل انداز میں کہی جائے ۔ اورسخت بات کوبھی نرم انداز میں پیش کیاجائے۔ ورنہ مباحثہ مناظرہ میں بدل جاتے دیرنہیں لگتی اورفریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے کی تکفیر وتفسیق کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔
اس فورم پر آنے کے بعد میں نے اصولی طورپر مولانا ابوالحسن علی ندوی کے تعلق سے سرچ کیاتو کفایت اللہ صاحب کی مندرجہ ذیل تحریر سامنے آئی۔
شیخ صلاح الدین مقبول کی کتاب کاہمیں توکوئی بھی اثر عالم عرب میں نظرنہیں آیا ۔ حضرت مولانا علی میاں کی کی وفات پر اور اس سے قبل عرب کے اہل علم وقلم حضرات اورحرمین شریفین کے علماء نے جن قابل قدر الفاظ میں ان کی مدح سرائی کی ہے اس سے تویہی ظاہر ہوتاہے ۔ ہاں سلفی حضرات اس کتاب کو لکھ کر اورایک دوسرے کو دکھاکر خوش ہورہے ہوں تو دوسری بات ہے۔ اوراسی کی مصداق کفایت اللہ صاحب کی ذکرکردہ فورم پر تحریریں بھی ہیں۔
ویسے تعجب کی بات یہ ہے کہ مولانا علی میاں کی شخصیت کے وزن اورعلمی شہرت کو دیکھ کر کچھ اہل حدیث حضرات توان کو اہل حدیث میں شمار کرتے ہیں اورکچھ لوگوں کاحال یہ ہے کہ الوجہ الآخر کوڈھونڈتے ہیں۔
اگر بات کی جائے تصوف کی تو اہل حدیث حضرات کے اکابرین بھی تصوف کے قائل رہے ہیں۔ میاں نذیرحسین صاحب ابن عربی کو الشیخ الاکبر کہتے تھے۔ نواب صدیق حسن خان بھی تصوف کے قائل تھے اورانہوں نے بذات خود اپنے بیٹے نورالحسن کو حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے پاس بیعت ہونے کیلئے بھیجاتھا۔ خود حضرت شاہ ولی اللہ جن کی جانب غیرمقلدین بڑے فخر کے ساتھ انتساب کرتے ہیں اوران کوبھی زبردستی اہل حدیث میں شامل کرتے ہیں ان کی کتابیں تصوف سے بھری پڑی ہیں۔
تو شیخ صلاح الدین مقبول اس کو اہل عرب کے سامنے کیوں نہیں پیش کرتے اوراس الوجہ الآخر کو چھپانے کی کیاوجہ ہے۔ یاپھر کہیں ایساتونہیں کہ شیخ صلاح الدین حفظہ اللہ کاخود ہی الوجہ لآخر ہے اور وہ ڈبل اسٹینڈرڈ اوردوچہروں کے مالک ہیں۔
آنجناب نے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جوالفاظ استعمال کئے ہیں وہ نہایت بھونڈے اوراہل علم کی متفقہ صراحت کے خلاف ہیں۔ اورخود جن کی تائید اورحمایت میں آپ اپناوقت صرف کررہے ہیں یعنی حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بھی بیان اورارشادات کے خلاف ہے۔ حضرت ابن تیمیہ نے متعدد مواقع پر امام ابوحنیفہ کوائمہ اسلام ومسلمین میں شمار کیاہے ۔ کبھی موقع ملے تو جہاں اتناوقت حضرت ابن تیمیہ کی حمایت میں صرف کیاہے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ان کا کیاموقف تھا وہ بھی پڑھ لیں۔
ویسے اگرصرف ہم اتناکریں کہ اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے ملتقی اہل الحدیث اوردیگر سلفی فورم پر شیئر کردیں تو شاید ہزار میں ایک دو سلفی آپ کی تائید کریں ورنہ سبھی اس تحریر سے برات کااظہار کریں گے۔
اگرکفایت اللہ صاحب چاہیں توہم اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے سلفی ویب سائٹس پر ڈال دیں اوران کی آراءطلب کریں۔
اس فورم پر آنے کے بعد میں نے اصولی طورپر مولانا ابوالحسن علی ندوی کے تعلق سے سرچ کیاتو کفایت اللہ صاحب کی مندرجہ ذیل تحریر سامنے آئی۔
اولاتویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ محض کسی کی تردید کردینے سے کسی شخصیت پر کوئی عیب نہیں لگتا ۔ حضرات صحابہ کرام کے تعلق سے خوارج کا کیاموقف تھا وہ ہرایک کومعلوم ہے لیکن اس سے حضرات صحابہ کرام کی شخصیت پر کوئی دھبہ اورعیب نہیں لگتا۔علی میان ندوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے گرچہ ان کے بہت سارے کاموں پر پردہ پڑا ہوا ہے کیونکہ موصوف دو چہروں کے مالک تھے انڈیا میں ان کا چہرہ کچھ اورتھا اور عرب میں ان کا چہرہ کچھ اور ، شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ نے اہل عرب کے سامنے ان کے دوسرے چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ، اور ایک کتاب لکھ دی:’’الاستاذ ابو الحسن الندوي الوجه الاخر من كتاباته‘‘ جزاہ اللہ خیرا واحسن الجزاء۔عرب میں اس کتاب کے آنے کے بعد خواص کے ساتھ ساتھ عوام بھی موصوف کے مخفی چہرہ سے آگاہ ہوگئے ایک نمونہ یہاں دیکھیں۔
شیخ صلاح الدین مقبول کی کتاب کاہمیں توکوئی بھی اثر عالم عرب میں نظرنہیں آیا ۔ حضرت مولانا علی میاں کی کی وفات پر اور اس سے قبل عرب کے اہل علم وقلم حضرات اورحرمین شریفین کے علماء نے جن قابل قدر الفاظ میں ان کی مدح سرائی کی ہے اس سے تویہی ظاہر ہوتاہے ۔ ہاں سلفی حضرات اس کتاب کو لکھ کر اورایک دوسرے کو دکھاکر خوش ہورہے ہوں تو دوسری بات ہے۔ اوراسی کی مصداق کفایت اللہ صاحب کی ذکرکردہ فورم پر تحریریں بھی ہیں۔
ویسے تعجب کی بات یہ ہے کہ مولانا علی میاں کی شخصیت کے وزن اورعلمی شہرت کو دیکھ کر کچھ اہل حدیث حضرات توان کو اہل حدیث میں شمار کرتے ہیں اورکچھ لوگوں کاحال یہ ہے کہ الوجہ الآخر کوڈھونڈتے ہیں۔
اگر بات کی جائے تصوف کی تو اہل حدیث حضرات کے اکابرین بھی تصوف کے قائل رہے ہیں۔ میاں نذیرحسین صاحب ابن عربی کو الشیخ الاکبر کہتے تھے۔ نواب صدیق حسن خان بھی تصوف کے قائل تھے اورانہوں نے بذات خود اپنے بیٹے نورالحسن کو حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے پاس بیعت ہونے کیلئے بھیجاتھا۔ خود حضرت شاہ ولی اللہ جن کی جانب غیرمقلدین بڑے فخر کے ساتھ انتساب کرتے ہیں اوران کوبھی زبردستی اہل حدیث میں شامل کرتے ہیں ان کی کتابیں تصوف سے بھری پڑی ہیں۔
تو شیخ صلاح الدین مقبول اس کو اہل عرب کے سامنے کیوں نہیں پیش کرتے اوراس الوجہ الآخر کو چھپانے کی کیاوجہ ہے۔ یاپھر کہیں ایساتونہیں کہ شیخ صلاح الدین حفظہ اللہ کاخود ہی الوجہ لآخر ہے اور وہ ڈبل اسٹینڈرڈ اوردوچہروں کے مالک ہیں۔
آنجناب نے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جوالفاظ استعمال کئے ہیں وہ نہایت بھونڈے اوراہل علم کی متفقہ صراحت کے خلاف ہیں۔ اورخود جن کی تائید اورحمایت میں آپ اپناوقت صرف کررہے ہیں یعنی حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بھی بیان اورارشادات کے خلاف ہے۔ حضرت ابن تیمیہ نے متعدد مواقع پر امام ابوحنیفہ کوائمہ اسلام ومسلمین میں شمار کیاہے ۔ کبھی موقع ملے تو جہاں اتناوقت حضرت ابن تیمیہ کی حمایت میں صرف کیاہے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ان کا کیاموقف تھا وہ بھی پڑھ لیں۔
ویسے اگرصرف ہم اتناکریں کہ اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے ملتقی اہل الحدیث اوردیگر سلفی فورم پر شیئر کردیں تو شاید ہزار میں ایک دو سلفی آپ کی تائید کریں ورنہ سبھی اس تحریر سے برات کااظہار کریں گے۔
اگرکفایت اللہ صاحب چاہیں توہم اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے سلفی ویب سائٹس پر ڈال دیں اوران کی آراءطلب کریں۔