یہی طرز عمل منافقت کہلاتا ہے، جس کا آپ اور اس دھاگہ کو کھولنے والے ”مظاہرہ“ فرمارہے ہیں۔
دیوبندی زمرے کے اندر یہ چابت کرنا کہ علمائے دیوبند (کل کے کل) اہل سنت والجماعت مین شامل نہیں ہیں۔ جب علما شامل نہیں ہیں تو ان سے وابستہ عوام بھی شامل نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔ پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ یہ سب کے سب کافر ہیں۔ عقل کا اندھا بھی آپ کی بات سمجھ جاتا ہے کہ آپ کے نزدیک دیوبندی عوام و خواص سب کے سب کافر ہیں۔
لیکن جب دوٹوک الفاظ میں پوچھا جاتا ہے کہ پھر آپ کے نزدیک تو دیوبندی عوام و خواص سب کے سب کافر ہوئے تو آپ منافقت سے کام لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: نہیں۔ اسی بات کا مظاہرہ آپ کے وہ لیڈران بھی کرتے ہیں جو پبلک پلیٹ فارم یا میڈیا پر گفتگو فرمارہے ہوتے ہیں۔ آج تک کسی بڑے سے بڑے یا چھوٹے سے چھوٹے اہل حدیث کے عالم دین نے ٹی وی پر کبھی شیعہ کو بھی کافر قرار نہیں دیا، چہ جائیکہ کہ وہ دیوبندی، بریلوی یا حنفی کو کافر قرار دیں۔ بلکہ ٹی وی پر تو شیعہ اور بریلوی علما کے ساتھ ساتھ بھی جلوہ افروز ہوتے ہیں اور کبھی ان کے کسی فرمان پر یہ نہیں فرماتے کہ آپ جس عقیدہ کے حامل ہیں یا جس کا اظہار فرمارہے ہیں، وہ کفر ہے۔
لیکن انفرادی سطح اہل حدیث فرقے یا مسلک سے وابستہ ہر خواص و عام، بچہ جوان اس بات پر ایمان رکھتا ہے (اس جیسے فورم سے وابستہ اہل حدیث فکر کے حامل افراد کے خیالات کی روشنی میں) کہ ہمارے فرقے یا مسلک کے علاوہ جتنے بھی فرقے کے عوام و خواص ہیں، وہ سب کے سب کافر ہیں، کفر کرتے ہیں۔ یہ دھاگہ اور اس جیسے دھاگوں کی کثرت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر میں نے اس جیسے دھاگوں اور مراسلوں کے متن سے کوئی غلط بات اخذ کی ہو تو اللہ مجھے معاف فرمائے۔
محترم بھائی آپ ایک بنیادی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اور وہ ایک سطر میں یہ ہے کہ:
کسی کے عقائد کو کفریہ شرکیہ کہنا اور ان عقائد کے حاملین پورے گروہ یا کسی خاص شخص کو کافر و مشرک کہنا دو بالکل علیحدہ معاملات ہیں۔
ان میں تفریق نہ کرنے سے ہی بہت سی غلط فہمیاں ہم عوام الناس میں پائی جاتی ہیں۔
ہمارے اہلحدیث علمائے کرام نے دیوبندی ، بریلوی یا شیعہ کسی کو بھی من حیث الکل کبھی کافر قرار نہیں دیا ، اور ہمیں اس پر یقین بھی ہے۔ورنہ ہم کبھی بھی دیوبندی، بریلوی کے گھروں کی لڑکیاں نہ بیاہ سکتےاور اپنی لڑکیاں ان کے گھروں میں نہ دے سکتے۔ نہ ہم ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھاتے۔ نہ ان کے پیچھے نماز پڑھتے، نہ ان کی نماز جنازہ خود پڑھتے اور نہ انہیں اپنی نماز جنازہ پڑھنے دیتے۔ نہ وہ عید کی نماز ہمارے ہاں پڑھتے، نہ ہم ان کے ہاں۔ بلکہ زکوٰۃ و فطرہ وغیرہ کی ادائیگی میں بھی کوئی اس تقسیم کا قائل نہیں۔ آپ معاشرے میں دیکھ لیں چلن یہی ہے کہ کوئی بھی گروہ دوسرے کو حقیقی معنوں میں یا عملاً کافر نہیں سمجھتا۔
فورم یا سوشل میڈیا وغیرہ پر جذباتی عوام الناس کی رائے یا ہیڈنگ وغیرہ دے دینے سے خود ایسی چیزیں اخذ کر لینا درست نہیں۔ یہ طرز عمل دونوں جانب ہی ہے۔ لیکن ان معاملات میں اصل فیصلہ علمائے کرام ہی کا ہوتا ہے اور طرفین کے علمائے کرام متفق ہیں کہ نہ دیوبندی بحیثیت جماعت کافر ہیں اور نہ اہلحدیث۔ موجودہ دور میں بالیقین اگر کوئی ایسا گروہ ہے جسے علمائے کرام نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا ہے تو یا تو وہ قادیانی ہیں اور یا پھر منکرین حدیث ۔ لیکن منکرین حدیث کی بھی مختلف اقسام ہیں، سب پر ایک ہی حکم نہیں لگتا، لیکن مثال کے طور پر اس گروہ کی قدآور شخصیت غلام احمد پرویز پر علمائے کرام کی اکثریت نے متفقہ طور پر کفر کا فتویٰ عائد کیا تھا۔
لیکن ایک دوسرے کو کافر نہ سمجھنے کا اگر یہ مطلب لیا جائے کہ ان گروہ کے حاملین میں اگر کوئی عقیدہ کفر و شرک کی سرحدوں کو چھوتا ہوا پایا جائے تو اس پر بھی زبان بند رکھی جائے تو یہ بات تو غلط ہے۔ اب مثلا یہی غیراللہ سے مافوق الاسباب استعانت طلب کرنے کی بات ہے۔ تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اگر میں کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی ایسی استعانت طلب کرتے دیکھ لوں، مثلا وہ یا عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہہ رہا ہو، تو میں اسے کافر قرار نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اس کے لئے کچھ شرائط ہیں اور تکفیر کے لئے کئی موانع بھی ہوتے ہیں۔ جسے کے بارے میں راسخ فی العلم علمائے کرام کی ایک جماعت ہی پوری طرح تسلی کرنے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے راشی و مرتشی کے جہنمی ہونے کا فیصلہ سب کو معلوم ہے۔ لیکن آپ کسی کو رشوت لیتے دیتے دیکھ بھی لیں، تو اس کے جہنمی ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے۔ کیونکہ عمومی فیصلہ اور چیز ہے اور خاص حکم لگانا اور چیز ہے۔ عوام الناس کا کام فقط علماء کی رہنمائی میں ایسے غلط عقائد کو واضح کرنا ہوتا ہے نا کہ کسی خاص شخص یا گروہ پر فتویٰ لگانا۔ ہاں اگر تمام یا اکثر علمائے کرام نے آپسی اتفاق سے کسی کو کافر قرار دے دیا ہے تو عوام بھی ان کی پیروی میں کہہ سکتے ہیں، جیسے قادیانی۔