1۔ کاش ہم ہمیشہ اور ہر پلیٹ فارم پر اسی بات پر قائم رہیں۔ لیکن اس فورم کے اکثر دھاگوں اور مراسلوں میں ایسا نظر نہیں آتا۔
2۔ جی ہاں بجا فرمایا۔ کاش ”ہمیں“ اس بات کا ”یقین“ بھی ہوتا تو زیر بحث جیسے مراسلے وجود میں نہ آتے۔
3۔ کتنے فیصد اہل حدیث گھرانے ایسے ہیں جو دیو بندی بریلوی گھرانوں میں
خوشی خوشی رشتہ کرتے ہیں ؟
۔ 4۔ اسی مراسلہ میں کہیں لکھا ہے کہ دیوبندی کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔
میرا اس دھاگہ میں یہ آخری مراسلہ ہے۔ کہ میں نے اپنا ”موقف“ بخوبی بیان کردیا ہے۔
اس کے جواب میں فقط اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا "جج" کرنے کا طریقہ غلط ہے۔لیکن آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ ہم عوام کو اس مسئلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، جب کہ بدقسمتی سے رد عمل میں ہی سہی، ہم اس مسئلے میں بہت ہی افراط کا شکار ہو گئے ہیں۔
تقویٰ یہی ہے کہ آپ رشتہ داری کرتے وقت دین کو اہمیت دیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب ہم کسی مسلک سے "منسلک" ہوتے ہیں، تو اسی بنا پر کہ صراط مستقیم یہی ہے۔ دیگر رستے گمراہی کے ہیں۔ اس کا مطلب دوسروں کو کافر قرار دینا نہیں ہوتا، اور نہ ہی کافر قرار نہ دینے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم خوشی خوشی دوسرے مسالک والوں کے ہاں رشتہ کرنے لگ جائیں۔
آپ کا ابتدائی مؤقف یہ تھا کہ علماء ٹی وی وغیرہ پر ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے ۔ لیکن عوام الناس بلکہ بچہ بچہ دوسرے مسالک والوں کو کافر قرار دیتا ہے:
لیکن انفرادی سطح اہل حدیث فرقے یا مسلک سے وابستہ ہر خواص و عام، بچہ جوان اس بات پر ایمان رکھتا ہے (اس جیسے فورم سے وابستہ اہل حدیث فکر کے حامل افراد کے خیالات کی روشنی میں) کہ ہمارے فرقے یا مسلک کے علاوہ جتنے بھی فرقے کے عوام و خواص ہیں، وہ سب کے سب کافر ہیں، کفر کرتے ہیں۔ یہ دھاگہ اور اس جیسے دھاگوں کی کثرت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ اگر ہم دوسرے تمام مسالک والوں کو حقیقی کافر و مشرک سمجھتے ہوتے، تو آپ کو آپسی معاشرتی امور میں ، رشتہ داریاں ،دوستیاں یاریاں کہاں ملتیں؟ بھئی ہم قادیانیوں کو حقیقی کافر سمجھتے ہیں، کبھی کسی اہلحدیث نے اپنی بیٹی کار شتہ خوشی ناخوشی سے قادیانیوں کے ہاں بھی کیا ہے؟ اگر اہلحدیث و دیوبندی و بریلوی آپس میں رشتہ داریاں کرتے ہیں، چاہے خوشی سے چاہے ناخوشی سے، اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کو مسلمان جانتے ہیں۔
ہمارے آفس میں ایک قادیانی نے جوائن کیا تھا، لوگ اس سے سلام کرنا، ہاتھ ملانا، اس کے ساتھ بیٹھ کر پانی پینا تک پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ کو لگتا ہے کہ معاشرے میں صورتحال واقعی یہی ہے کہ اہلحدیث عوام الناس بلکہ بچہ بچہ دوسرے مسالک والوں کو حقیقی کافر سمجھ کر ان کے ساتھ یہی رویہ اختیار کرتا ہے؟
ہمارے علماء نے کبھی بھی ، نہ ٹی وی پر، نہ انفرادی سطح پر ، نہ منبر پر، نہ تقریر و تحریر کے کسی بھی میڈیا پر دیوبندی، بریلوی یا اہل تشیع کو قادیانیوں کی طرح بحیثیت گروہ کافر قرار نہیں دیا۔
اور عوام الناس کی تحریر و تقریر نہیں دیکھی جاتی ، اس کی ویلیو شرعی معاملات میں صفر ہوتی ہے۔ ان کا عملی رویہ دیکھا جاتا ہے۔اور معاشرے میں عملی صورتحال یہی ہے کہ کوئی بھی گروہ ، دوسرے گروہوں کے افراد کو حقیقی کافر نہیں سمجھتا۔
فقط سوشل میڈیا اور فورمز کے کاپی پیسٹ مراسلہ جات کو اور چند افراد کی جانب سے کثرت سے پیش کئے جانے والے مؤقف کو "بچے بچے" کا ایمان بنا ڈالنا، دلوں پر حکم لگانا ہے۔
ہمارا عملی معاشرتی رویہ بھی یہی ہے جو ہمارے علمائے کرام کا متفقہ مؤقف ہے۔ واللہ اعلم۔