• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا علمائے دیوبند ا ہل السنہ والجماعہ میں شامل ہیں ؟؟؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
پلیز آپ یہاں اہلحدیث علماء کی کتب جن میں ڈنڈی ماری گئی ہے - دیکھا دیں - تا کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو - اور ہم ان کا رد کر سکیں - شکریہ
@اشماریہ بھائی جلدی کریں تا کہ ہم رد کر سکیں - انتظار ہے - شکریہ
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
اللہ تعالى کے بارہ میں دیوبندی عقائد

عقیدہ نمبر ۱... وحدۃ الوجود

اللہ تعالیٰ اپنی ذات ،صفات اور وجود کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوقات سے الگ اور علیحدہ ہے ۔ جبکہ آل دیوبند اللہ رب العزت کے بارہ میں وحدت الوجود کا شرکیہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور وحدت الوجود صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو (اللہ ) خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔ (علمی اردو لغت ، تصنیف وارث سرہندی، ص:1551)

. اس عقیدہ وحدت الوجود کے بارہ میں حاجی امداد اللہ صاحب رقمطراز ہیں :

''اور اس کے بعد اس کو ہُو ہُو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔ ''

(کلیاتِ امدادیہ، ص:18ضیاء القلوب، ص:35-36)

. اور پھر اسی وحدۃالوجود کے عقیدہ کوحق اور صحیح قرا ر دیتے ہیں۔

(کلیات امدادیہ ، ص:218)

. اور پھر اس وحدۃ الوجود کے درجہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہوکرلوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب وامکان مساوی ہیں کسی کو کسی پر غلبہ نہیں مرج البحرين يلتقيان بينهما برزخ لا يبغيان اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر متصرف ہو جاتا ہے ۔ اور سخر لكم ما في السماوات وما في الأرض کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ ذی اختیار ہو جاتا ہے اور خدا کی جس تجلی کو چاہتا ہے اپنے اوپر کر تا ہے اور جس صفت کے ساتھ چاہتا ہے متصف ہو کر اس کا اثر ظاہر کرسکتا ہے چونکہ اس میں خدا کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور خدا کے اخلاق سے وہ مزین ہے ۔"

(کلیات امدادیہ , ص:۳۶)

. ضامن علی جلال آبادی دیوبندی نے ایک زانیہ عورت کو کہا: ''بی شرماتی کیوں ہو؟ کرنے والا کون اور کرانے والا کون؟ وہ تو وہی ہے۔

(تذکرۃ الرشید، ج:2، ص: 242)

. اس ضامن علی جلال آبادی کے بارے میں رشید احمد گنگوہی نے مسکراکرفرمایا: ''ضامن علی جلال آبادی تو توحید میں غرق تھے۔

(تذکرۃ الرشید، ج:2، ص: 242)

الغرض دیوبندی علماء اس وحدۃ الوجود کے قائل ہیں جس میں خالق ومخلوق ، عابد ومعبود اور اللہ اور بندہ کے درمیان فرق مٹا دیا جاتا ہے۔
وسوسه = علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیده رکهتے هیں جوکہ ایک کفریہ شرکیہ عقیده هے ۰

جواب = یہ وسوسہ فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پهیلایا هوا هے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے هیں پهران سے کہتے هیں یہ علماء دیوبند کا عقیده هے ، اس باب میں ایک مختصر مگرجامع مضمون اس سے قبل میں لکهہ چکا هوں ، لہذا اسی کا اعاده کرتا هوں ،
1 = علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اهل حدیث کی طرف سے یہ بهی لگایا جاتا هے کہ یہ لوگ الله تعالی کے لیئے حُلول واتحاد کا عقیده رکهتے هیں جس کو " وحدتُ الوجود " کہا جاتا هے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے هیں کہ (معاذالله ) الله تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیره هر چیز میں حلول کیا هوا هے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بهی مشاهدات ومحسوسات هیں وه بعینہ الله تعالی کی ذات هے ۰
(معاذالله ثم معاذالله وتعالی الله عن ذالک علوا کبیرا )
بلا شک " وحدتُ الوجود " کا یہ معنی ومفہوم صریح کفر وضلال هے جس کا ایک ادنی مسلمان تصور بهی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ علماء حق علماء دیوبند کا یہ عقیده هو ۰
( سبحانک هذا بهتان عظیم )
ناحق بهتان والزام لگانے والے جهال ومتعصبین کا منہ کوئ بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئ مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ ره سکتی هے اور هرزمانے میں کمینے اور جاهل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی هے ،لهذا جولوگ اپنی طرف سے " وحدتُ الوجود " کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے هیں اور عوام الناس کو گمراه کرتے هیں یقینا ایسے لوگ الله تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام " وحدتُ الوجود " کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری هیں ۰
واضح رهے کہ کچهہ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بهی یہ بهتان لگاتے رهیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں هے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے هوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت هی هے چاهے علماء دیوبند هزار باریہ کہیں کہ همارا یہ عقیده نہیں هے هماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لیئے هے جوایسے جهوٹے اورجاهل لوگوں کی سنی سنائ باتوں کی اندهی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رهے هیں ۰
اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رح کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذهن میں رکهیں
قسم اٹهاکرفرماتے هیں کہ جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں هوئ کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین الله تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انهوں نے بهی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں هے
ماَ نعبُدُهُم الا لِیُقَرّبوُنا الی الله یعنی هم ان بتوں کی عبادت اس لیئے کرتے هیں تاکہ یہ همیں الله کے قریب کردیں تو اولیاء الله کے متعلق یہ بهتان لگانا کہ وه ، حلول واتحاد ، کا عقیده رکهتے تهے سراسر بهتان اور جهوٹ هے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی هے جس کو جاهل واحمق هی قبول کریگا ۰

2 = جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں " وحدتُ الوجود " کا کلمہ موجود هے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شهادت کے ساتهہ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری هے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچهی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ
هے اس قسم کے امور میں اور وه تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد " وحدتُ الوجود " سے وه نہیں هے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا هے اور حقیقت بهی یہی هے ۰
اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد هوئے هیں جو بظا هر خلاف شرع معلوم هوتے هیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح هے جس کی دفاع خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے کی هے ( صحیح بخاری ومسلم ) کی روایت هے جس کا مفہوم یہ هے کہ
کہ وه جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رها تها اس پر اس کا کهانا پینا بهی تها لهذا وه تهکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لیئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹها تو دیکها کہ سواری سامان سمیت غائب هے وه اس کو تلاش کرنے کے لیئے گیا لیکن اس کو نهیں ملا لهذا پهر اس درخت کے نیچے مایوس هو کرلوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پهر جب اس کی آنکهہ کهلی تو کیا دیکهتا هے کہ اس کی سواری بهی موجود هے اور کهانا پینا بهی وه اتنا خوش هوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتها پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے. اللهم انتَ عبدی وانا ربُک. یعنی اے الله تو میرا بنده میں تیرا رب ، اسی حدیث میں هے کہ الله تعالی بنده کی توبہ سے اِس آدمی سے بهی زیاده خوش هوتے هیں ، جاء في الحديث الذي رواه الإمام مسلم" لله أشد فرحاً بتوبة عبده حين يتوب إليه من أحدكم كان على راحلته بأرض فلاة فانفلتت منه وعليها طعامه وشرابه فأيس منها فأتى شجرة فاضطجع في ظلها وقد أيس من راحلته فبينما هو كذلك إذ هو بها قائمة عنده بخطامها ، ثم قال من شدة الفرح: اللهم أنت عبدي وأنا ربك! أخطأ من شدة الفرح". اوکما قال النبی صلی الله علیہ وسلم
اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے الله تو میرابنده میں تیرا رب
کیا ان ظاهری الفاظ کو دیکهہ کر نام نهاد اهل حدیث وهی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاهری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے هیں ؟
یا حدیث کے ان ظاهری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟

3 = خوب یاد رکهیں کہ " وحدتُ الوجود " کا مسئلہ نہ همارے عقائد میں سے هے نہ ضروریات دین میں سے هے نہ ضروریات اهل سنت میں سے نہ احکام کا مسئلہ هے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ هے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ هے فقط اور اس سے وه صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے هیں ۰
سوال = کیا " وحدتُ الوجود " کی اصطلاح قرآن و حدیث میں هے ؟؟
جواب = قرآن وحدیث میں کسی بهی فن کی اصطلاحات نہیں هیں حتی کہ اور تو اور احادیث کے اقسام مثلا صحیح ، حسن ، ضعیف وغیره کی جو اصطلاحات هیں یہ بهی قرآن و حدیث میں نہیں هیں بلکہ محدثین نے اپنے اجتهاد سے یہ اصطلاحات وضع کیئے هیں اور پوری امت ان هی کی تقلید میں یہ اصطلاحات استعمال کرتی هے لهذا اگر کسی اصطلاح کے غلط هونے کی یہ دلیل هے کہ وه قرآن وحدیث میں نہیں هے تو سب اصطلاحات چاهے جس فن کی بهی هوں غلط هو جائیں گی لهذا یہ قاعده هی غلط هے اور هر فن کی اصطلاحی الفاظ اس لیئے استعمال کیئے جاتے هیں تاکہ بڑے مطلب کو سمیٹا جا سکے اور بات آسانی سے سمجهہ آئے ۰

خلاصہ وحاصل پوری بات یہ هے کہ نام نہاد اهل حدیث اور نفس وشیطان کے مقلد " وحدتُ الوجود " کا غلط مطلب ومفهوم لے کر علماء دیوبند اور صوفیہ کرام پر تبرا کرتے هیں بهتان باندهتے هیں یہ ان کی جهالت یا عداوت وخیانت هے کیونکہ تمام علماء دیوبند اورتمام صوفیہ ( اتحاد وحلول ) کے عقیده کو الحاد زندقہ اور گمراهی قرار دیتے هیں البتہ ناحق تہمت کا علاج همارے پاس نہیں هے ۰
هدانا الله وایاهم الی السواء السبیل
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جن كذابين وأفاكين ومجاهيل نے [ الدیوبندیه ] نامی کتاب لکهی ، اورعلماء دیوبند کی مختلف کتب ورسائل سے كـَرَامـَاتُ الأولِيـَـاء پرمبنی واقعات وعبارات لے کر کفر و شرک وبدعت کے خانہ سازشیطانی فتوے لگا کر اپنی عاقبت کوخراب کیا ،،مولاناظفرعلی خان مرحوم نے توبریلی کی تکفیرسازفیکٹری کے بارے کیا خوب فرمایا تها ،
بریلی کے فتوی کا سستا هے بهاو
جوبکتے ہیں کوڑی کے اب تین تین
خدانے یہ کہ کرانهیں ڈهیل دی
وَأمْـلـِی لهُـم انَّ کـَیدی مَـتـیـْن
لیکن کافرگری کے اس مکروه ومذموم مشغلہ میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے چند جہلاء زمانہ واطفال مکتب ومجاهیل مطلق نے بریلی کوبهی مات دے دی ، فوا اسفاه
نہ دوزخ کا ڈر هے نہ خوف خدا
کیا ان کی یہ بات درست هے ؟؟
إن يحسدوني فإني غير لائمهم قبلي من الناس أهل الفضل قد حُسدوا
فدامَ لي ولهم ما بي وما بهموُ ومـاتَ أكثرُنا غيــظًا بما يجــدُ
كل العداوة قد ترجى إماتتها إلا عداوة من عاداك من حَسَدِ

ایسے ہی لوگوں کی عدالت میں شَـيخُ الإسْـلام إبن تيمية رحمه الله کی ذکر کرده عبارات وتعليمات ونظريات کوپیش کرنے جسارت کرتا ہوں ، امید تو نہیں هے کہ توحید وسنت کے یہ نام نہاد علمبردار یہاں بهی وہی حکم لگائیں ، جو علماء دیوبند پرلگاتے ہیں ، امید تو نہیں ہے کہ ان کے توحید کی رگ یہاں بهی پهڑک اٹهے ، امید تو نہیں هے کہ ان کی ایمانی غیرت ودینی حمیت یہاں بهی جوش میں آجائے اور شَـيخُ الإسْـلام سے بهی برآت کا اعلان کردیں ، بقول ان کے ہماری محبت ونفرت کے پیمانے صرف الله کے لیئے ہیں امید تو نہیں ہے کہ ان کی محبت ونفرت کے یہ پیمانے یہاں بهی وہی رنگ ظاہرکریں جو رنگ علماء دیوبند کے حق میں ظاہرکرتے ہیں کتاب الدیوبندیه کا مولف نام نہاد توحیدی اهل حدیث اپنی اس کتاب کی تالیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے گویا ہوتا هے کہ بهولے بهالے دیوبندی عوام كو خبردار کرنا هے کہ دیوبندی علماء کی چکنی چپڑی باتوں اورتوحید کے بلند بانگ دعووں سے مرعوب ہوکران کی اتباع کرکے کہیں اپنی آخرت برباد نہ کرلینا )) جی وہی باتیں جس کو توچکنی چپڑی کہتا هے اورآخرت کی بربادی کا ذریعہ کہتا هے ، بعینه اسی طرح کی چکنی چپڑی شَـيخُ الإسْـلام کے حوالہ سے ذیل میں نقل کروں گا ، آپ کا سخت ترین متصلب توحیدی مزاج اگر شَـيخُ الإسْـلام کے لیئے بهی وہی فیصلہ تجویزکردے جو علماء دیوبند کے لیئے آپ نے تجویز کیا ، اورعلی الاعلان ایک چهوٹا سا رسالہ بهی آپ کے توحیدی قلم سے اگرشَـيخُ الإسْـلام کے پیش کرده ان عبارات وتعليمات واقوال کے خلاف نکل جائے تو ممکن هے کہ آپ کی صداقت ودیانت کے کچهہ آثارهم بهی محسوس کرنے لگیں ،
مزید لکهتا هے کہ
اپنے علماء کے شرکیہ عقائد سے برآت کا اظہار کریں اوراپنے عقیدوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں سنواریں
علماء دیوبند کے لیئے کفروشرک پرکهنے کی جوکسوٹی آپ نے مقررکی هے ، آپ کی اسی کسوٹی میں شَـيخُ الإسْـلام کے اقوال وعبارات وتعليمات وکرامات کوبهی پرکهیں گے،جس سے آپ کی امانت وصداقت وللہیت خوب آشکارا ہوجائے گی،

مزید کیا بات کریں بس اب اصل بات شروع کرتے ہیں ، بات شَـيخُ الإسْـلام إبن تيمية رحمه الله کی اور عدالت ومیزان توحيد وسنت کے خالص وسچے متوالوں کا هے ، جو حق بات کی خاطر ( بقول ان کے) کسی رشتے ناطے کسی بڑے چهوٹے اپنے پرائے کی کوئ پرواه نہیں کرتے ۰


چونکہ هم نے فیصلہ وحکم مانگنا هے اس لیئے شَـيخُ الإسْـلام کی بات مقدمہ کے نام سے ذکرکروں گا ٠

مـُقـَدمَـه 1= اور تحقیق کبهی مردوں کا زنده کرنا أنبياء عليهم السلام کے پیروکاروں کے ہاتهہ پربهی ہوتا هے ، جیسا کہ اس امت محمدیہ کی ایک جماعت کے لیئے واقع هوا ۰ ( کہ انهوں نے مردوں کو زنده کیا ) ؟؟؟

قال ابن تيمية رحمه الله في كتاب النبوات " ص 298 ."
" وقد يكون إحياء الموتى على يد أتباع الأنبياء كما وقع لطائفة من هذه الأمة"
مردوں کو زنده کرنے میں بہت سارے انبیاء وصالحین شریک ہیں ؟؟
قال ابن تيمية رحمه الله في كتاب النبوات " ص 218 "
((بخلاف إحياء الموتى فانه اشترك فيه كثير من الأنبياء بل ومن الصالحين))
مردوں کا زنده کرنا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟
ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
ویسے تو جو میزان ومعیار انهوں نے علماء دیوبند کوکافرومشرک کہنے کے لیئے متعین کیا هے ، اس میزان ومعیارمیں توان عبارات کے قائل کا حکم بهی واضح هے ، لیکن هم نے چونکہ شروع میں کہ دیا کہ
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰

مـُقـَدمَـه 2= نخع قبیلے کا ایک آدمی تها ، اس کا گدها راستےمیں مرگیا ، تواس کے ساتهیوں نے اس کوکہا کہ آجاو هم تیرا سامان اپنی سواریوں پر اٹهاتے ہیں ، تواس آدمی نے اپنے ساتهیوں سے کہا مجهے چهوڑ دو ذرا صبرکروتهوڑی دیرکے لیئے ، پهراس نے اچهے طریقے سے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑهی ، اورالله تعالی سے دعا کی ، پس الله تعالی نے اس گدهے کوزنده کردیا ، پس اپنا سامان گدهے پر رکهہ دیا ۰ ؟؟؟
ويقول ابن تيمية رحمه الله في مجموع فتاوى ابن تيمية "ج11 ص 281"
ورجل من النخع كان له حمار فمات في الطريق فقال له أصحابه:هلم نتوزع متاعك على رحالنا ، فقال لهم: أمهلوني هنيئة ، ثم توضأ فأحسن الوضوء وصلى ركعتين ودعا الله تعالى فأحيا حماره فحمل عليه متاعه.
مرده گدهے کا زنده کرنا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟
ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
مـُقـَدمَـه 3= وصلہ بن اشیم کا گهوڑا ایک غزوه (جہاد) میں مرگیا ، تواس نے دعا کی کہ اے الله کسی مخلوق کا مجهے احسان مند نہ بنا ، پس اس نے دعا کی تو الله تعالی نے اس کے گهوڑے کو زنده کردیا ، ؟؟؟
اور یہی وصلہ بن اشیم " أهـْوَاز " مقام پرایک مرتبہ ان کو بهوک لگی ، الله عز وجل سے دعا کرکے کهانا طلب کیا ، تواس کے پیچهے ریشم کے کپڑے میں کهجوروں کا ایک برتن گر پڑا ، پس کجهوروں کوکها لیا ، اور ریشم کا وه ایک زمانہ تک ان کی بیوی کے پاس رہا ۰ ؟؟
ويقول ابن تيمية أيضاً :مجموع الفتاوى ابن تيمية "ج11 ص 280"
وصلة بن أشيم مات فرسه وهو في الغزو ، فقال اللهم لا تجعل لمخلوق عليّ منة ودعا الله عز وجل فأحيا له فرسه ،
وجاع مرة بالأهواز دعا الله عز وجل واستطعمه فوقعت خلفه دوخلة رطب في ثوب حرير ، فأكل الرطب وبقي لثوب عند زوجته زماناً .
مرده گهوڑے کا زنده کرنا ؟؟
بهوک حالت میں اچانک غیب سے ریشم کے کپڑے میں کهجوروں کا ایک برتن پانا ؟؟ اوران کی بیوی کا ریشم کے کپڑے کوایک زمانہ استعمال کرنا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟
ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟۰
مُـقـَدمَـه 4 = حضرت سعید ابن المُسیب رحمه الله ایام حَره میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کی قبرسے نمازوں کے اوقات میں اذان سنتے تهے ، حالانکہ مسجد بالکل خالی ہوتی تهی ، ان کے علاوه کوئ اور مسجد میں نہیں ہوتا تها ۰ ؟؟؟
وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره ۰
(( " الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان " ص 123 ))
رسول الله صلى الله عليه وسلم کی قبرمبارک سے نمازوں کے اوقات میں اذان سننا ؟؟ یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰

مُـقـَدمَـه 5 = مُطرف بن عبد الله بن الشخير جب اپنے گهرمیں داخل ہوتے تو گهرکے برتن آپ کے ساتهہ تسبیح پڑهتے تهے ، اور وه اور ان کے ساتهی جب تاریکی میں چلتے تهے تو کـَوڑے کا کناره ان دونوں کے لیئے روشنی فراہم کرتا هے ۰ ؟؟؟
وكان مطرف بن عبد الله بن الشخير إذا دخل بيته سجت معه آنيته وكان هو وصاحب له يسيران في ظلمة فأضاء لهما طرف السوط.
(( " الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان " ص 131 ))
اندهیرے میں کـَوڑے کا روشنی دینا اورگهرکےبرتنوں کا تسبیح پڑهنا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
مُـقـَدمَـه 6 = حضرت علاء بن الحضرمي نے اوران کے ساتهیوں کے راستے میں سمندر آگیا ، وه اپنے گهوڑوں کے ساتهہ سمندر کو عبورکرنے کی قدرت نہیں رکهتے تهے ، پس علاء بن الحضرمي نے الله سے دعا کی ، ان سب نے پانی کوعبورکرلیا اوران میں سے کسی کے گهوڑے کی زَین تک نہیں بهیگی۰ ؟؟
اورانهوں نے الله سے دعا کی کہ مرنے کے بعد ان کا بدن کوئ نہ دیکهے ، لہذا قبر میں ان کو کسی نے نہیں دیکها ۰ ؟؟
و( العلاء بن الحضرمي ) دعا الله لما اعترضهم البحر ولم يقدروا على المرور بخيولهم فمروا كلهم على الماء ما ابتلت سروج خيولهم ودعا الله أن لا يروا جسده إذا مات فلم يجدوه فى اللحد وجرى مثل ذلك ۰
(( " الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان " ص 128 ))
سمندر کو گهوڑوں سمیت عبورکرنا اورگهوڑوں کے زَین (مُہار) تک نہیں نہ بهیگنا ، پانی کا ذره برابراثرنہ هونا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟۰
مُـقـَدمَـه 7 = حضرت حسن البصري حَجاج بن یوسف سے روپوش گئے تهے ، پس وه چهہ دفعہ ان کو گرفتار کرنے کے لیئے گئےلیکن حضرت حسن البصري نے الله عز وجل سے دعا کی لہذا وه ان کو نظرنہیں آئے ، ؟؟ ایک خارجی حضرت حسن البصري کو اذیت پہنچاتا تها لہذا آپ نے اس خارجی کے لیئے بد دعا کی تو وه اسی وقت مرگیا ؟؟
وتغيب الحسن البصري عن الحجاج، فدخلوا عليه ست مرات فدعا الله عز وجل فلم يروه، ودعا على بعض الخوارج كان يؤذيهم فخر ميتا.
(( " الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان " ص 130 ))
سب لوگ سامنے ہوتے لیکن وه لوگوں کی نظروں سے پوشیده رہتے ؟؟
اورخارجي ان کی بد دعا سے فورا مرگیا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
مُـقـَدمَـه 8 = سعيد بن زيد پرأروى بنت الحكم نے جهوٹ بولا تو انهوں نے اس کے لیئے بد دعا کی اور فرمایا اے الله اگریہ جهوٹی هے تواس کو اندها کردے اوراس کواسی جگہ ماردے لہذا وه اندهی ہوگئ اسی جگہ گهڑے میں گرپڑی اور مرگئ ۰
ودعا سعيد بن زيد على أروى بنت الحكم فأعمى بصرها لما كذبت عليه، فقال: اللهم إن كانت كاذبة فأعم بصرها واقتلها في أرضها فعميت ووقعت في حفرة من أرضها فماتت .
(( " الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان " ص 128 ))
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
مُـقـَدمَـه 9 = عتبة غلام نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں ، خوبصورت آواز ، اورخوب بہتے آنسو، اور رزق بغیرتکلیف کے ، لہذا وه جب قرآت کرتے توخود بهی روتے اورلوگوں کوبهی رُلاتے ، اوران کے آنسوا برابرجاری رہتے ،
اورجب اپنے گهرجاتے توگهر کهانا موجود پاتے اوران کومعلوم نہیں تها کہ یہ رزق کہاں سے آتا هے ۰
گهر میں رزق موجود ہوتاهے لیکن پتہ نہیں کہ کہاں سے آتا هے ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
مُـقـَدمَـه 10 = ایک جماعت نے نبي صلى الله عليه وسلم کے قبرسے سلام کا جواب سنا ، یا آپ صلى الله عليه وسلم کے علاوه دیگر صالحين کے قبورسے سلام کا جواب سنا ، ؟؟
إن قوما سمعوا رد السلام من قبر النبي صلى الله عليه وسلم
أو قبور غيره من الصالحين ،وأن سعيد ابن المسيب كان يسمع الأذان من القبر النبوي ليالي الحرة ونحو ذلك ٠
(( اقتضاء الصراط المستقيم ص373 ))
اسی طرح كرامات وخوارق عادات میں سے یہ بهی هے جو انبیاء وصالحین کے قبور کے پاس پائ جاتی ہیں ، مثلا انوارات اور فرشتوں کا نزول ، اورسکون واطمینان حاصل ہونا ان کی قبورکے پاس ، یہ سب حق هے الخ
وكذلك ما يذكر من الكرامات وخوارق العادات التي توجد عند قبور الأنبياء والصالحين مثل نزول الأنوار والملائكة عندها ( الی ان قال ) وحصول الأنس والسكينة عندها ، ، ونزول العذاب بمن استهان بها ، فجنس هذا حق ليس مما نحن فيه ، وما في قبور الأنبياء والصالحين من كرامة الله ورحمته ومالها عند الله من الحرمة والكرامة فوق ما يتوهمه أكثر الخلق ، لكن ليس هذا موضع تفصيل ذلك
(( اقتضاء الصراط المستقيم ص : 374 ))
صالحين کے قبورسے سلام کا جواب سننا ؟؟
صالحين کے قبورکے پاس انوارات اور فرشتوں نازل هونا ؟؟
صالحين کے قبورکے پاس سکون واطمینان حاصل ہونا ؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقیده (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکها ؟؟ ایسا عقیده رکهنے والا شخص کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
الله تعالی سے دعا هے کہ فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل ناواقف عوام کو صحیح سمجهہ دے ، اورجن جہلاء کی وساوس وخیالات کی تقلید پروه چل پڑے ہیں ،اس سے توبہ کی توفیق دے ۰



مـُقـدمـه 11 = حافظ ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں کہ
میں نے شیخ الاسلام کی فراست میں عجیب عجیب امور دیکهے اور جو میں نے مشا هده نهیں کیئے وه بهت بڑے بڑےهیں اور ان کی فراست کے واقعات کو جمع کرنے کیلئے ایک بڑا دفتر چا ئیے ،فرمایا کہ ابن تیمیہ رحمه الله نے (699 هجری ) کے سال اپنے ساتهیوں کو خبر دی کہ ،ملک شام ، میں تاتاری داخل هوں گے اور مسلمانوں کے لشکرکو فتح ملے گی اور ، دِمَشق ، میں قتل عام اور قید وبند نهیں هو گا اور یہ خبر ابن تیمیہ رحمه الله نے تاتاریوں کی تحریک سے پهلے دی تهی ،

پهر ابن تیمیہ رحمه الله نے لوگوں کو خبر دی (702 هجری ) میں جب تاتا ریوں کی تحریک شروع هوئ اور انهوں نے ملکِ شام میں داخل هونے کا اراده کیا تو شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تاتاریوں کو شکست و هزیمت هو گی اور مسلمانوں کو فتح ونصرت ملے گی اورشیخ الاسلام نے اس بات پرستر ( 70 ) سے زیاده قسمیں اٹهائیں ، کسی نے کها ان شاء الله بهی بولیں تو فرما یا ان شاء الله یقیناََ الخ۰

حافظ ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں کہ
میں نے شیخ الاسلام سے سنا فرمایا کہ ، جب انهوں نے مجهہ پر بهت زیاده اصرار کیا تو میں نے کها کہ مجهہ پر زیاده اصرار نہ کرو الله تعالی نے ( لوح محفوظ ) پر لکهہ دیا هے کہ تاتاریوں کو اِس مرتبہ شکست هو گی اور فتح مسلمان لشکروں کی هو گی ، اور ایسا هی هوا الخ
حافظ ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں کہ
مجهے کئ مرتبہ ابن تیمیہ رحمه الله نے ایسے با طنی امور کی خبر دی جو میرے سا تهہ خاص تهیں میں نے صرف اراده کیا تها زبان سے نهیں بولا تها ، اور مجهے بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں هونے والے تهے ، ان میں سے بعض تو میں نے دیکهہ لیئے هیں باقی کا انتظار کر رها هوں ، اور جو کچهہ شیخ الا سلام کے بڑے اصحاب نے مشاهده کیا هے وه اُس سے دوگناهے جو میں نے مشاهده کیا ۰
قال ابن القيم : في كتابه مدارج السالكين (2/489،490 :
ولقد شاهدت من فراسة شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله أموراعجيبة وما لم أشاهده منها أعظم وأعظم ووقائع فراسته تستدعي سفرا ضخما أخبر أصحابه بدخول التتار الشام سنة تسع وتسعين وستمائة (699 هجری )وأن جيوش المسلمين تكسر وأن دمشق لايكون بها قتل عام ولا سبي عام وأن كلب الجيش وحدته في الأموال : وهذا قبل أن يهم التتار بالحركة . ثم أخبر الناس والأمراء سنة (702 هجری )اثنتين وسبعمائة لما تحرك التتاروقصدوا الشام : أن الدائرة والهزيمة عليهم وأن الظفر والنصر للمسلمين وأقسم على ذلك أكثر من سبعين يمينا فيقال له : قل إن شاء الله فيقول : إن شاء الله تحقيقا لاتعليقا
وسمعته يقول ذلك قال : فلما أكثروا علي قلت : لا تكثروا كتب الله تعالى في اللوح المحفوظ : أنهم مهزومون في هذه الكرة وأن النصر لجيوش الإسلام قال : وأطعمت بعض الأمراء والعسكر حلاوة النصر قبل خروجهم إلى لقاء العدو وكانت فراستهالجزئية في خلال هاتين الواقعتين مثل المطر . ( الى ان قال ) وأخبرني غير مرة بأمور باطنة تختص بي مما عزمت عليه ولم ينطق به لساني وأخبرني ببعض حوادث كبار تجري في المستقبل ولم يعين أوقاتها وقد رأيت بعضهاوأنا أنتظر بقيتها وما شاهده كبار أصحابه من ذلك أضعاف أضعاف ما شاهدته)

شیخ الاسلام نے کئ سال پہلے فرمایا دیا کہ تاتاریوں کو شکست و هزیمت هوگی اورمسلمانوں کوفتح ونصرت ملے گی ؟؟
اورشیخ الاسلام نے اس بات پرستر ( 70 ) سے زیاده قسمیں بهی اٹهائیں ؟؟

اورشیخ الاسلام نے یہ دعوی کیا کہ الله تعالی نے ( لوح محفوظ ) پر لکهہ دیا هے کہ تاتاریوں کی شکست مسلمانوں کی فتح ہوگی ؟؟

بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں هونے والے تهے؟؟
بعض ایسےباطنی امور کی خبر دی جو ابن القیم رحمہ الله کے سا تهہ خاص تهیں اورانهوں نے زبان سے اظہاربهی نہیں کیا تها ؟؟

یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟؟

یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـداہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟؟ ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟؟

ویسے تو جو میزان ومعیار انهوں نے علماء دیوبند کو کافر ومشرک کہنے کے لیئے متعین کیا هے ، اس میزان ومعیارمیں توان عبارات کے قائل کا حکم بهی واضح هے ، لیکن هم نے چونکہ شروع میں کہ دیا کہ

فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،

اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟؟ ۰


مُـقدمـه 12 = الامام الحافظ أبوحفص البَزَّار رحمه الله شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله کے خصوصی شاگرد ہیں ، فرماتے ہیں کہ میرا بعض فضلاء کے ساتهہ چند مسائل میں تنازعہ ہوگیا ، اورہمارے درمیان بات لمبی ہوگیا بحث مباحثہ طویل ہوگیا ، اور ہرمسئلہ میں بات نامکمل چهوڑدیتے اورہم نے فیصلہ کیا کہ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله کی طرف رجوع کریں گے وه جس قول کوترجیح دے دیں پهرشيخ الاسلام رحمه الله حاضرہوئے ، توهم نے اراده کیا کہ ان مسائل کے بارے شيخ الاسلام رحمه الله سے سوال کریں ، پس شيخ الاسلام رحمه الله ہم سے پہلے ہی شروع ہوگئے اورجن مسائل میں ہمارا تنازعہ ہوگیا ان کوایک ایک کرکے بیان کرنا شروع کردیا ، اوراکثروه مسائل جن میں ہمارا بحث مباحثہ ہوا ،


شيخ الاسلام رحمه الله ان کو بیان کرتے اوران میں علماء کے اقوال ذکرکرتے ، پهردلیل کے ساتهہ ان مسائل میں سے ایک کوترجیح دیتے ، یہاں تک کہ وه آخری مسئلہ بیان کیا جس کے پوچهنے کا ہم اراده کیا تها ، اورساتهہ ہی شيخ الاسلام رحمه الله ہمارا اراده بهی بیان کیا ، یعنی یہ کہ ہم شيخ الاسلام رحمه الله سے پوچهیں گے ، پس میں اورمیرا ساتهی اورجولوگ ہمارے ساتهہ حاضرتهے سب حیران وپریشان ره گئے ، کہ کس طرح ہمارا اراده ان پرمنکشف ہوگیا ، اورجوکچهہ ہمارے دلوں میں تها الله تعالی نے ان پرظاہرکردیا ،
اورجن دنوں میں شيخ الاسلام کی صحبت میں تها ، جب کسی مسئلہ پرمیرے دل میں کوئ اشکال واعتراض وارد ہوتا ، تو شيخ الاسلام (میرے بتائے بغیر) خود ہی مسئلہ بیان کرتے اوراس کے مختلف جوابات ذکرکرتے تهے ۰

ذكر الامام الحافظ أبو حفص عمر بن علي بن موسى البزار - احد تلامذة ابن تيمية - في كتابه الأعلام العلية في مناقب ابن تيمية ( المكتب الإسلامي - بيروت ، الطبعة الثالثة ، 1400 بتحقيق : زهير الشاويش ) في الفصل التاسع في ذكر بعض كراماته وفراسته

حيث قال :
أخبرني غير واحد من الثقات ببعض ما شاهده من كراماته وأنا أذكر بعضها على سبيل الاختصار وأبدأ من ذلك ببعض ما شاهدته
فمنها اثنين جرى بيني وبين بعض الفضلاء منازعة في عدة مسائل وطال كلامنا فيها وجعلنا نقطع الكلام في كل مسألة بأن نرجع الى الشيخ وما يرجحه من القول فيها
ثم أن الشيخ رضي الله عنه حضر فلما هممنا بسؤاله عند ذلك سبقنا هو وشرع يذكر لنا مسألة مسألة كما كنا فيه وجعل يذكر غالب ما أوردناه فيكل مسأله ويذكر اقوال العلماء ثم يرجح منها ما يرجحه الدليل حتى أتى على آخر ما أردنا ان نسأله عنه وبين لنا ما قصدنا أن نستعلمه منه فبقيت أنا وصاحبي ومن حضرنا أولا مبهوتين متعجبين مما كاشفنا به وأظهره الله عليه مما كان في خواطرنا وكنت في خلال الايام التي صحبته فيها إذا بحث مسألة يحضر لي إيراد فما يستتم خاطري به حتى يشرع فيورده ويذكر الجواب من عدة وجوه .

شيخ الاسلام رحمه الله کوابهی بتایا نہیں تها لیکن شيخ الاسلام رحمه الله خود ہی شروع ہوگئے ، اوربغیربتائے وه تمام مسائل بمع دلائل وترجیح بیان کردیئے؟؟؟

حافظ أبوحفص البَزَّار کے بقول کہ میں اورمیرا ساتهی اورتمام حاضرین حیران وپریشان ره گئے کہ شيخ الاسلام رحمه الله کو ہمارے دلوں حال کیسے معلوم ہوگیا ؟؟؟ شيخ الاسلام رحمه الله میرے بتائے بغیرمیرے دل میں وارد ہونے والے اشکال کوبیان کرتے اورمختلف جوابات دیتے ؟؟؟

یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـداہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟؟ ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت

میں ؟؟؟ ۰

مُـقدمـه 13 = حافظ الإمام ابن القيم رحمه الله اپنی بے نظیرکتاب ( الرُوح ) میںفرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیاده هے جن کو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے خواب میں کوئ دوا (کوئ نُسخہ) بتائ ، انهوں نے استعمال کی اورشفایاب ہوگئے ، مزید فرماتے ہیں کہ مجهے ایک سے زیاده لوگوں نے بیان کیا جو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کی طرف مائل بهی نہیں تهے ، (یعنی اتنا خاص تعلق وعقیدت نہیں رکهتے تهے ) کہ انهوں نے موت کے بعد شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کو خواب میں دیکها اور فرائض وغیره مشکل مسائل کے بارے شيخ الإسلام سے سوال کیا تو شيخ الإسلام نے خواب میں صحیح اوردرست جواب دیا ، حافظ الإمام ابن القيم رحمه الله فرماتے ہیں کہ
اس (یعنی خواب کے)امراورمعاملے کا انکار وہی شخص کرے گا ، جو ارواح کے أحكام اور شان سے لوگوں میں سب سے بڑا جاہل ہو ۰

قال الإمام ابن القيم رحمه الله تعالى في كتابه الروح ص 69 :

وأما من حصل له الشفاء باستعمال دواء رأى من وصَفَه له في منامه فكثير جدا ، وقد حدثني غير واحد ممن كان غير مائل إلى شيخ الإسلام ابن تيمية أنه رآه بعد موته ، وسأله عن شيء كان يشكل عليه من مسائل الفرائض وغيرها فأجابه بالصواب .

وبالجملة فهذا أمر لا ينكره إلا من هو أجهل الناس بالأرواح وأحكامها وشأنها ، وبالله التوفيق ) أهـ٠
شيخ الاسلام رحمه الله خواب میں کوئ دوائ اورعلاج بتلاتے تواستعمال کرنے والا فورا شفایاب ہوجاتا ؟؟؟
شيخ الاسلام رحمه الله خواب میں فرائض وغیره مشکل مسائل کا صحیح اوردرست جواب عنایت فرماتے ؟؟؟
اور بقول حافظ ابن القيم رحمه الله جوشخص اس قسم کے امورکا انکارکرے وه لوگوں میں سب سے بڑا جاہل هے ؟؟؟
یہ کہنے والا کون هے کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـداہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟؟ ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت
میں ؟؟؟ ۰


مُـقـدمـه 14 = شيخ الاسلام إبن تيميه رحمه الله فرماتے ہیں کہ
خوارق عادات میں علم کے باب میں سے یہ بهی هے ، کبهی بنده وه کچهہ سنتا هے جواس کے علاوه کوئ نہیں سنتا ، اورکبهی خواب یا بیداری میں وه کچهہ دیکهتا هے جواس کے علاوه کوئ نہیں دیکهتا ، اور کبهی وه کچهہ جانتا هے وحی یا الهام یا علم ضروری کے نازل ہونے کی صورت میں جواس کے علاوه کوئ نہیں جانتا ، یا فراست صادقہ کے ساتهہ ، اور اسی کو کشف ومشاهدات ومكاشفات ومخاطبات کہا جاتا هے ، پس سننا مخاطبات ہیں ، اور دیکهنا مشاهدات ہیں ، اورعلم یعنی جاننا مكاشفة هے ، اور ان سب کو کشف و مكاشفة کہا جاتا هے ۰
قال ابن تيمية في ((مجموع الفتاوى)) ج11ص313 ما نصه:
فما كان مِن الخوارق من "باب العلم" فتارة بأنْ يَسمع العبد ما لا يسمعه غيره . وتارة يرى ما لا يراه غيره يقظة ومناماً . وتارة بأنْ يعلم ما لا يعلم غيره وحياً وإلهاماً ، أو انزال علمٍ ضروري ، أو فراسة صادقة ، ويُسمَّى كشفاً ومشاهدات ، ومكاشفات ومخاطبات: فالسماع مخاطبات ، والرؤية مشاهدات ، والعلم مكاشفة ، ويُسمَّى كله "كشفاً" و "مكاشفة" أي كشف له عنه . انتهى

یہ کشف ومُشاهدات ومُكاشفات ومُخاطبات و مُكاشفة وغیره باطنی امورکی تفصیل بیان کرنے والا اوران كى تائيد کرنے والا کوئ دیوبندی تونہیں هے ؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـداہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟ ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت
میں ؟؟ ۰


مُـقـدمـه 15 = شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ
صوفی حقیقت میں صدقین کی ایک قسم هے ، الخ
هو ـ أي الصوفي ـ في الحقيقة نوع من الصديقين فهو الصديق الذي اختص بالزهد والعبادة على الوجه الذي اجتهدوا فيه فكان الصديق من أهل هذه الطريق كما يقال : صديقو العلماء وصديقو الأمراء فهو أخص من الصديق المطلق الخ
مجموع الفـتاوى "11/16"
لفظ فقر وتصوف میں وه امور داخل ہیں جوالله ورسول کو پسند ہیں ، لہذا تصوف کے ان امور پرعمل کا حکم دیا جائے گا ، اگرچہ ان کا نام فقروتصوف رکهہ دیا جائے ، کیونکہ كتاب وسنت تصوف کے ان تمام اعمال وامور کے استحباب پردلالت کرتے ہیں ، لہذا صرف نام بدلنے سے یہ اعمال خارج نہیں ہوں گے ،
جیسا کہ اعمال قلوب توبة وصبر وشكر ورضا وخوف ورجاء ومحبة واخلاق حمیده بهی اس میں داخل ہیں ۰
يقول ابن تيمية في هذا الباب الفتاوى "11/28 – 29"
"لفظ الفقر والتصوف قد أدخل فيه أمور يحبها الله ورسوله فتلك يؤمر بها ، وإن سميت فقرا وتصوفا ؛ لأن الكتاب والسنة إذا دل على استحبابها لم يخرج ذلك بأن تُسمى باسم أخر . كما يدخل في ذلك أعمال القلوب كالتوبة والصبر والشكر والرضا والخوف والرجاء والمحبة والأخلاق المحمودة ٠اهـ
شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ
أولياء الله مؤمنین متقین ہیں چاہے ان کا نام فقیر رکها جائے یا صوفی رکها جائے ۰
و«أولياء الله» هم المؤمنون المتقون، سواء سمي أحدهم فقيراً أو صوفياً أو فقيهاً أو عالماً أو تاجراً أو جندياً أو صانعاً أو أميراً أو حاكماً أو غير ذلك " اهـ
مجموع فتاوي ابن تيمية ، كتاب التصوف "ج5 ص3"
شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ
وه أعمال القلوب ( باطنی اعمال ) جس كا نام بعض صوفیہ کرام أحوال ومقامات یا منازلُ السائرين الى الله یا مقاماتُ العارفين وغیره رکهتے ہیں ، ان تمام باطنی اعمال کو الله تعالی اوراس کے رسول صلی الله علیه وسلم نے فرض کیا هے۰الخ
فإن أعمال القلوب التى يسميها بعض الصوفية أحوالا ومقامات أو منازل السائرين الى الله أو مقامات العارفين أو غير ذلك كل ما فيها مما فرضه الله ورسوله الخ
مجموع الفتاوى " جزء 7 – صفحة 190 /
شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ

متقدمین سالكين اور صوفیہ کرام جمهورمشائخ سلف میں سے جیسے فضيل بن عياض، اورإِبراهيم بن أدهم، اورأبي سليمان الداراني، اورمعروف الكرخي، اورالسري السقطي، اورجنيد بن محمد، بغدادی وغيرهم رحمهم الله ، اور متأخرين میں سے شيخ عبد القادر الجيلاني اورشيخ حماد، اورشيخ أبي البيان، وغيرهم رحمهم الله ، یہ سب حضرات شریعت اورکتاب وسنت پرقائم ودائم تهے ،
اور یہ سب حضرات سالك کے لیئے جائزنہیں سمجهتے کہ وه امر ونہی سے نکل جائے ، چاہے وه ہوا میں کیوں نہ اڑے چاہے وه پانی پرکیوں نہ چلے ، بلکہ سالک پرہرحال میں تا دم آخر یہ لازم هے کہ وه مامورات پرعمل کرے اورمَنہیات کوچهوڑدے ، اور یہی وه حق بات هے جس پرکتاب وسنت وإِجماع سلف دلالت کرتا هے ، اوراس طرح کی تعلیم ان صوفیہ کرام کی تعلیم میں بہت زیاده هے ۰
قال ابن تيمية في مجموع الفتاوى "ج10. ص516 ـ517"
فأما المستقيمون من السالكين كجمهور مشائخ السلف مثل الفضيل بن عياض، وإِبراهيم بن أدهم، وأبي سليمان الداراني، ومعروف الكرخي، والسري السقطي، والجنيد بن محمد، وغيرهم من المتقدمين، ومثل الشيخ عبد القادر "الجيلاني، والشيخ حماد، والشيخ أبي البيان، وغيرهم من المتأخرين، فهم لا يسوِّغون للسالك ولو طار في الهواء، أو مشى على الماء، أن يخرج عن الأمر والنهي الشرعيين، بل عليه أن يفعل المأمور، ويدع المحظور إِلى أن يموت. وهذا هو الحق الذي دل عليه الكتاب والسنة وإِجماع السلف وهذا كثير في كلامهم" اهـ.

شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ
متقدمین أئمہ صوفيہ اورمشہورمشايخ میں سے شیخ جنيد بن محمد " بغدادی" اوران کے پیروکار اوراسی شيخ عبد القادر " جیلانی " اوران کی طرح کے لوگ
لوگوں میں سب سے زیاده امرونهي (شریعت) پرعمل کرنے والے تهے ، اور لوگوں کو بهی اسی کی وصیت کرتے تهے ، الخ
قال ابن تيمية في مجموع الفتاوى "ص369/8 "
"و أما أئمة الصوفية و المشايخ المشهورون من القدماء مثل الجنيد بن محمد و أتباعه و مثل الشيخ عبد القادر و أمثاله فهؤلاء من أعظم الناس لزوماً للأمروالنهي و توصية بإتباع ذلك ،الخ

قال ابن تيميه في مجموع الفتاوى "ج10 ء ص 884"
"والشيخ عبد القادر من أعظم شيوخ زمانه مأمرا بالتزام الشرع والأمر والنهى وتقديمه على الذوق، ومن أعظم المشائخ أمرا بترك الهوى والاراده النفسية

قال ابن تيميه في مجموع الفتاوى "ج5 ص321"
والجنيد( البغدادي) وأمثاله أئمة هدى، ومن خالفه في ذلك فهو ضال. وكذلك غير الجنيد من الشيوخ تكلموا فيما يعرض للسالكين وفيما يرونه في قلوبهم من الأنوار وغير ذلك؛ وحذروهم أن يظنوا أن ذلك هو ذات الله تعالى"." اهـ.
قال ابن تيميه في كتابه " الفرقان ص98" متحدثاً عن الإمام الجنيد
مانصه : فان الجنيد ( البغدادي)قدس الله روحه من أئمة الهدى.

شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ
جو شخص صوفی جنید بغدادی کے راستے پرچلے گا تو وه هدایت وسعادت ونجات پائے گا ۰
قال ابن تيمية في مجموع الفتاوى "جزء 14 ء صفحة 355 :
"فمن سلك مسلك الجنيد من أهل التصوف و المعرفة كان قد اهتدى و نجا و سعد"
شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله ائمہ تصوف اورکتب تصوف کی تعریف کرتے هوئے فرماتےہیں

قال ابن تيمية في مجموع الفتاوى "جزء 10 – صفحة367–368 "
"وكذلك ممن صنف فى التصوف و الزهد جعل الاصل ماورد عن متأخري الزهاد واعرض عن طريق الصحابة والتابعين كما فعل صاحب الرسالة ابو القاسم القشيري وأبو بكر محمد بن إسحاق الكلاباذي وابن خميس الموصلي في مناقب الابرار وابو عبد الرحمن السلمى فى تاريخ الصوفية لكن ابو عبد الرحمن صنف ايضا سير السلف من الاولياء والصالحين وسير الصالحين من السلف كما صنف فى سير الصالحين من الخلف ونحوهم من ذكرهم لاخبار اهل الزهد والاحوال من بعد القرون الثلاثة من عند ابراهيم بن ادهم والفضيل بن عياض وابي سليمان الداراني ومعروف الكرخي ومن بعدهم واعراضهم هم عن حال الصحابة والتابعين الذين نطق الكتاب والسنة بمدحهم والثناء عليهم والرضوان عنهم٠
ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــ


صوفی حقیقت میں صدقین کی ایک قسم هے ؟؟
لفظ فقر وتصوف میں وه امور داخل ہیں جوالله ورسول کو پسند ہیں ؟؟
أولياءالله مؤمنین متقین ہیں چاہے ان کا نام فقیر رکها جائے یا صوفی رکهاجائے ؟؟
وه أعمال القلوب ( باطنی اعمال ) جس كا نام بعض صوفیہ کرام أحوال ومقامات یا منازلُ السائرين الى الله یا مقاماتُ العارفين وغیره رکهتے ہیں ، ان تمام باطنی اعمال کو الله تعالی اوراس کے رسول صلی الله علیه وسلم نے فرض کیا هے ؟؟؟
جو شخص صوفی جنید بغدادی کے راستے پرچلے گا تو وه هدایت وسعادت ونجات پائے گا ؟؟؟
أئمہ صوفيہ کتاب وسنت اورشریعت پرقائم دائم تهے اورلوگوں بهی اسی کی وصیت کرتے تهے ؟؟؟
تصوف اور صوفیہ کرام کی یہ انتہائ زوردار تعریف وتوصیف کرنے والا کوئ دیوبندی تو نہیں هے ؟؟؟
جوشخص تصوف اور صوفیہ کرام کی اس درجہ تعریف وتعظیم کرے کہ ان كوأئمة هدى ومشائخ الاسلام کہے اوران کی اتباع کو باعث هدایت وسعادت ونجات بتائے حتی کہ صوفی کو صدقین کی ایک قسم بتائے ، توایسا شخص (فرقہ اہل حدیث کی نظرمیں ) کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟؟ ۰

 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
مـُقـدمــه 16 = شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں ، اورصرف سنتے ہی نہیں بلکہ مردے زندوں کو دیکهتے بهی ہیں ، اور یہ کہ أرواح ( رُوحیں ) جہاں چاہیں جاسکتی ہیں ،
اورپهران سب باتوں پرشیخ الاسلام نے دلائل ذکرکیئے ،
تفصیل شيخ الإسلام کی درج ذیل فتوی کی عبارات میں ملاحظہ کریں ،
يسمع الميت في الجملة كما ثبت في الصحيحين عن النبي أنه قال: "يسمع خفق نعالهم حين يولون عنه" وثبت عن النبي: "أنه ترك قتلى بدر ثلاثا ثم أتاهم فقال "يا أباجهل بن هشام يا أمية بن خلف يا عتبة بن ربيعة يا شيبة بن ربيعة هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا فإني وجدت ما وعدني ربي حقا" فسمع عمر رضي الله عنه قفال يا رسول الله كيف يسمعون وأنى يجيبون وقد جيفوا فقال: "والذي نفسي بيده ما أنت بأسمع لما أقول منهم ولكنهم لا يقدرون أن يجيبوا" ثم أمر بهم فسحبوا في قليب بدر" وكذلك في الصحيحين عن عبدالله بن عمر "أن النبي صلى الله عليه وسلم وقف على قليب بدر فقال هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا وقال إنهم يسمعون الآن ما أقول" وقد ثبت عنه في الصحيحين من غير وجه أنه كان يأمر بالسلام على أهل القبور ويقول: "قولوا السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ويرحم الله المستقدمين منا ومنكم والمستأخرين نسأل الله لنا ولكم العافية اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم واغفر لنا ولهم" وهذا خطاب لهم وإنما يُخاطَب من يسمع وروى ابن عبد البر عن النبي أنه قال: "مامن رجل يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام." وفي السنن عنه أنه قال: "أكثروا من الصلاة علي يوم الجمعة فإن صلاتكم معروضة علي فقالوا يا رسلو الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت يعني صرت رميما فقال إن الله تعالى حرّم على الأرض أن تأكل لحوم الأنبياء" وفي السنن أنه قال "إن الله وكل بقبري ملائكة يبلغوني عن أمتي السلام" فهذه النصوص وأمثالها تبين أن الميت يسمع في الجملة كلام الحي ولا يجب أن يكون السمع له دائماً بل قد يسمع في حال دون حال كما قد يعرض للحي فإنه قد يسمع أحياناً خطاب من يخاطبه وقد لا يسمع لعارض يعرض له وهذا السمع سمع إدراك ليس يترتب عليه جزاء ولا هو السمع المنفي بقوله [تعالى] {إنك لا تسمع الموتى} فإن المراد بذلك سمع القبول والامتثال فإن الله جعل الكافر كالميت الذي لا يستجيب لمن دعاه وكالبهائم التي تسمع الصوت ولا تفقه المعنى فالميت وإن سمع الكلام وفقه المعنى فإنه لا يمكنه إجابة الداعي ولا امتثال ما أمر به ونهى عنه فلا ينتفع بالأمر و النهي وكذلك الكافر لا ينتفع بالأمر والنهي وإن سمع الخطاب وفهم المعنى كما قال تعالى {ولو علم فيهم خيراً لأسمعهم} ، وأما رؤية الميت فقد روى في ذلك آثار عن عائشة وغيرها . . هل تعاد روحه إلى بدنه ذلك الوقت أم تكون ترفرف على قبره في ذلك الوقت وغيره فإن روحه تعاد إلى البدن في ذلك الوقت كما جاء في الحديث وتعاد أيضا في غير ذلك وأرواح المؤمنين في الجنة كما في الحديث الذي رواه النسائي ومالك والشافعي وغيرهم "أن نسمة المؤمن طائر يعلق في جر الجنة حتى يرجعه الله إلى جسده يوم يبعثه" وفي لفظ "ثم تأوى إلى قناديل معلقة بالعرش" ومع ذلك فتتصل بالبدن متى شاء الله وذلك في اللحظة بمنزلة نزول الملك وظهور الشعاع في الأرض وانتباه النائم وهذا جاء في عدة آثار أن الأرواح تكون في أفنية القبور قال مجاهد الأرواح تكون على أفنية القبور سبعة أيام من يوم دفن الميت لا تفارقه فهذا يكون أحيانا وقال مالك بن أنس بلغني أن الأرواح مرسلة تذهب حيث شاءت والله أعلم" انتهى كلام ابن تيمية رحمه الله.
مجموع الفتاوى الجزء الرابع (ص 362)

اور پهر شيخ الإسلام کے شاگرد رشید حافظ ابن القيم رحمه الله کا بهی اس بارے میں یہی مسلک هے ، چنانچہ حافظ ابن القيم رحمه الله نے اپنی کتاب( الروح ) کی پہلی فصل میں اس بارے میں مستقل عنوان اس طرح قائم کیا ،

" المسألة الأولى وهي هل تعرف الأموات زيارة الأحياء وسلامهم أم لا "
یعنی کیا مردے زیارت کرنےوالوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے سلام کو سنتے یانہیں ؟؟
پهر حافظ ابن القيم رحمه الله نے مختلف دلائل سے ان دونوں باتوں کو ثابت کیا ، بلکہ اس پرسلف کے اجماع روایات کا تواتر کا دعوی کیا ،
والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به ، اور حافظ ابن القيم رحمه الله نے فرمایا کہ
میت اپنے زنده بهائیوں اور رشتہ دارکا عمل بهی جانتا هے ،
وأبلغ من ذلك أن الميت يعلم بعمل الحى من أقاربه وإخوانه ، پهر اس پر دلائل ذکرکیئے ، آگے مزید اپنے دعوی پراستدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ
اس بارے میں یہی کافی هے کہ ان مردوں پر سلام کرنے والے کو زائر کہا گیا هے ، اگر وه مردے اس زائر (زیارت کرنے والے ) کو نہ جانتے ہوتے ، تو اس کو زائر کہنا صحیح نہ ہوتا ، کیونکہ مُزور(جس کی زیارت کی جائے) اگر زائر کو نہ جانتا ہوتا تو پهراس کو زائر کہنا صحیح نہیں هے ، زیارت کے بارے میں تمام امتوں کے نزدیک یہی معقول بات هے ،
ويكفي في هذا تسمية المسلم عليهم زائرا ولولا أنهم يشعرون به لما صح تسميته زائرا فإن المزور إن لم يعلم بزيارة من زاره لم يصح أن يقال زاره هذا هو المعقول من الزيارة عند جميع الأمم ،
اس کے بعد حافظ ابن القيم رحمه الله نے فرمایا کہ
اسی طرح مردوں کو سلام کرنا ، اس شخص کو سلام کرنا جو سلام کرنے والے کو نہ جانے نہ پہچانے تو یہ محال بات هے ، اور نبي صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ جب وه قبور کی زیارت کریں تو ان پرسلام کریں الخ
وكذلك السلام عليهم أيضا فإن السلام على من لا يشعر ولا يعلم بالمسلم محال وقد علم النبي أمته إذا زاروا القبور أن يقولوا سلام عليكم الخ
اور یہ سلام وخطاب ونداء (آواز) اس موجود کے لیئے ہوتا هے جو سنتا هے اور سمجهتا هے اورمخاطب کیا جاتا هے اور سلام کا جواب دیتا هے ، اگرچہ سلام کرنے والا جواب نہ سنے ، اور اگر آدمی ان مردوں کے قريب نماز پڑهے تو وه اس کا مشاهده کرتے ہیں اوراس کی نمازکو جانتے ہیں اور اس پر رشک کرتے ہیں ، وهذا السلام والخطاب والنداء لموجود يسمع ويخاطب ويعقل ويردو إن لم يسمع المسلم الرد وإذا صلى الرجل قريبا منهم شاهدوه وعلموا صلاته وغبطوه على ذلك۰
پهراسی فصل کے آخر میں حافظ ابن القيم رحمه الله نے یہ مسئلہ ذکرکیا کہ
کیا مردوں اور زندوں کے ارواح آپس میں ملتے ہیں یا نہیں ؟
پهراس کے اثبات پردلائل ذکرکیئے ، اور پهر اس فصل کے آخرمیں فرمایا کہ
یہ ایسا امرهے کہ جس کا انکاروہی شخص کرے گا جو لوگوں میں سے ارواح کے أحكام وشان سے سب سے بڑا جاہل هو ،
وبالجملة فهذا أمر لا ينكره إلا من هو أجهل الناس بالأرواح وأحكامها وشأنها وبالله التوفيق ۰

مزید تفصیل حافظ ابن القیم رحمه الله کی درج ذیل عبارات میں ملاحظہ کریں ،

قال الامام الحافظ الصوفی ابن القيم في الفصل الأول من هذا الكتاب (أي الروح) تحت عنوان: "المسألة الأولى وهي هل تعرف الأموات زيارة الأحياء وسلامهم أم لا"

وفي الصحيحين عنه من وجوه متعددة أنه أمر بقتلى بدر فألقوا في قليب ثم جاء حتى وقف عليهم وناداهم بأسمائهم يا فلان ابن فلان ويا فلان ابن فلان هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا فإني وجدت ما وعدني ربى حقا فقال له عمر يا رسول الله ما تخاطب من أقوام قد جيفوا فقال والذي بعثنى بالحق ما أنتم بأسمع لما أقول منهم ولكنهم لا يستطيعون جواباً ، وثبت عنه صلى الله وآله وسلم أن الميت يسمع قرع نعال المشيعين له إذا انصرفوا عنه ، وقد شرع النبي لأمته إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه فيقول السلام عليكم دار قوم مؤمنين وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل ولولا ذلك لكان هذا الخطاب بمنزلة خطاب المعدوم والجماد. والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به ، قال أبو بكر عبد الله بن محمد بن عبيد بن أبى الدنيا في كتاب القبور باب معرفة الموتى بزيارة الأحياء حدثنا محمد بن عون حدثنا يحيى بن يمان عن عبد الله بن سمعان عن زيد بن أسلم عن عائشة رضى الله تعالى عنها قالت قال رسول الله ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا استأنس به ورد عليه حتى يقوم ، حدثنا محمد بن قدامة الجوهرى حدثنا معن بن عيسى القزاز أخبرنا هشام بن سعد حدثنا زيد بن أسلم عن أبى هريرة رضى الله تعالى عنه قال إذا مر الرجل بقبر أخيه يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام . . . وأبلغ من ذلك أن الميت يعلم بعمل الحى من أقاربه وإخوانه قال عبد الله بن المبارك حدثنى ثور بن يزيد عن ابراهيم عن أبى أيوب قال تعرض أعمال الأحياء على الموتى فإذا رأوا حسنا فرحوا واستبشروا وإن رأوا سوأ قالوا اللهم راجع به وذكر ابن أبى الدنيا عن أحمد بن أبى الحوارى قال حدثنى محمد أخى قال دخل عباد بن عباد على ابراهيم بن صالح وهو على فلسطين فقال عظنى قال بم أعظك أصلحك الله بلغنى أن أعمال الأحياء تعرض على أقاربهم الموتى فانظر ما يعرض على رسول الله من عملك فبكى ابراهيم حتى اخضلت لحيته . . . وهذا باب في آثار كثيرة عن الصحابة وكان بعض الأنصار من أقارب عبد الله بن رواحة يقول اللهم إنى أعوذ بك من عمل أخزى به عند عبد الله بن رواحة كان يقول ذلك بعد أن استشهد عبد الله ، ويكفي في هذا تسمية المسلم عليهم زائرا ولولا أنهم يشعرون به لما صح تسميته زائرا فإن المزور إن لم يعلم بزيارة من زاره لم يصح أن يقال زاره هذا هو المعقول من الزيارة عند جميع الأمم وكذلك السلام عليهم أيضا فإن السلام على من لا يشعر ولا يعلم بالمسلم محال وقد علم النبي أمته إذا زاروا القبور أن يقولوا سلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون يرحم الله المستقدمين منا ومنكم والمستأخرين نسأل الله لنا ولكم العافية ، وهذا السلام والخطاب والنداء لموجود يسمع ويخاطب ويعقل ويردو إن لم يسمع المسلم الرد وإذا صلى الرجل قريبا منهم شاهدوه وعلموا صلاته وغبطوه على ذلك.
وذكر ابن القيم مارواه مسلم عن وصية الصحابي عمرو بن العاص رضي الله عنه حيث قال: " فإذا دفنتموني فشنوا على التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ما أراجع به رسل ربي" وعلّق ابن القيم بقوله: "فدل على أن الميت يستأنس بالحاضرين عند قبره ويسر بهم"
ثم قال في فصل آخر: "المسألة الثالثة وهى هل تتلاقي أرواح الأحياء وأرواح الأموات أم لا ، شواهد هذه المسألة وأدلتها كثر من أن يحصيها إلا الله تعالى والحس والواقع من أعدل الشهود بها فتلقي أرواح الأحياء و الأموات كما تلاقي أرواح الأحياء وقد قال تعالى الله يتوفي الأنفس حين موتها والتى لم تمت في منامها فيمسك التى قضي عليها الموت ويرسل الأخرى إلى أجل مسمى إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون . . . عن ابن عباس في هذه الآية قال بلغني أن أرواح الأحياء والأموات تلتقي في المنام فيتسألون بينهم فيمسك الله أرواح الموتى ويرسل أرواح الأحياء إلى أجسادها . . . وقد دل التقاء أرواح الأحياء والأموات أن الحى يرى الميت في منامه فيستخبره ويخبره الميت بما لا يعلم الحى فيصادف خبره كما أخبر في الماضي والمستقبل وربما أخبره بمال دفنه الميت في مكان لم يعلم به سواه وربما أخبره بدين عليه وذكر له شواهده وأدلته ، وأبلغ من هذا أنه يخبر بما عمله من عمل لم يطلع عليه أحد من العالمين وأبلغ من هذا أنه يخبره أنك تأتينا إلى وقت كذا وكذا فيكون كما أخبر وربما أخبره عن أمور يقطع الحي أنه لم يكن يعرفها غيره . . . وقال سعيد بن المسيب التقى عبد الله بن سلام وسلمان الفارسي فقال أحدهما للآخر إن مت قبلى فالقني فأخبرني ما لقيت من ربك وإن أنا مت قبلك لقيتك فأخبرتك فقال الآخر وهل تلتقي الأموات والأحياء قال نعم أرواحهم في الجنة تذهب حيث تشاء قال فمات فلان فلقيه في المنام فقال توكل وأبشر فلم أر مثل التوكل قط وقال العباس بن عبد المطلب كنت أشتهي أن أرى عمر في المنام فما رأيته إلا عند قرب الحول فرأيته يمسح العرق عن جبينه وهو يقول هذا أوان فراغي إن كاد عرشي ليهد لولا أن لقيت رءوفاً رحيماً" وفي ختام هذا الفصل قال ابن القيم:" وبالجملة فهذا أمر لا ينكره إلا من هو أجهل الناس بالأرواح وأحكامها وشأنها وبالله التوفيق.

((كتاب الروح للإمام ابن القيم الصوفي رحمه الله ))

قلت ويكفينا هنا فتوى الشيخ الإمام إبن تيمية وقول الشيخ الإمام الحافظ ابن القيم: " والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به " ، فكما نعلم بأن مصادر التشريع أربعة: الكتاب والسنة والإجماع والقياس ، وقد وردت السنة ببيان حياة الأموات في قبورهم وسماعهم إيانا و أجمع السلف على ذلك كما ذكر ابن القيم ، فلا عبرة بفتوى الشيخ الفلاني والفلاني فهو ليس بمصدر تشريع ،
الى أين يذهبون الذين يقولون بالجهاروالتكرارأن الشرف كل الشرف في اتباع السلف
وهم لهم مخالفون الاماوافق هواهم لما ذا تخدعون انفسكم او تخادعون الناس بإسم السلف ؟؟هدانا الله وإياكم إلى سواء السبيل ٠
مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں ؟؟
اور مردے زندوں کودیکهتے ہیں ؟؟
اور مردے زیارت کرنے والے زندوں کوپہچانتے ہیں ؟؟
اورمردوں کی روحیں جہاں چاہیں جاسکتی ہیں ؟؟
اورمردوں اورزندوں کی روحیں آپس میں ملاقات بهی کرتی ہیں ؟؟
اورمردے قبرپرحاضرہونے والوں سے مانوس اورخوش ہوتے ہیں ؟؟
اورکبهی مرده زندے کوماضي ومستقبل کی کوئ خبرخواب میں دیتا هے اور وه خبر بالکل صحیح ہوتی هے ؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـداہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟ ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰


مــُقــدمــه 17 = الامام الحافظ أبو حفص عمر بن علي بن موسى البزار رحمه الله شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله کے شاگرد ہیں ، اورانهوں نے شیخ الاسلام رحمه الله کے مناقب وسوانح حیات پر( الأعلام العلية في مناقب ابن تيمية ) کے نام سے کتاب لکهی هے ، اس میں نویں ( 9 ) فصل میں شیخ الاسلام رحمه الله کی كرامات وفراست پرمبنی واقعات وحالات کوبیان کیا ،
الامام الحافظ أبو حفص البزار رحمه الله فرماتے ہیں کہ
الشيخ العالم المقريء تقي الدين عبدالله ابن الشيخ الصالح المقريء احمدبن سعيد نے مجهے بیان کیا کہ
جب میں دمشق میں تها تو وہاں میں بہت سخت بیمارہوگیا ، حتی کہ میں بیٹهہ بهی نہیں سکتا تها ، مجهے پتہ ہی نہیں چلا اورمیرے سرکے پاس شیخ الاسلام تهے اور میری طبیعت بوجهل تهی سخت ترین بخار اور مرض کی وجہ سے ، پس شیخ الاسلام نے میرے لیئے دعا کی ، اور شیخ الاسلام نے فرمایا کہ عافیت آگئ ، پس شیخ الاسلام نے یہ بات کہنی تهی اورمیرا مرض دور ہوگیا اور عافیت آگئ اور میں اسی وقت شفایاب ہوگیا ۰
وحدثني ايضا ( الشيخ العالم المقريء تقي الدين عبدالله ابن الشيخ الصالح المقريء احمدبن سعيد ) قال مرضت بدمشق اذ كنت فيها مرضة شديدة منعتني حتى من الجلوس فلم اشعر إلا والشيخ عند رأسي وأنا مثقل مشتد بالحمى والمرض فدعا لي وقال : يعني ابن تيمية : جاءت العافية فما هو إلا أن فارقني وجاءت العافية وشفيت من وقتي ٠

اسی طرح الامام الحافظ أبو حفص البزار رحمه الله فرماتے ہیں کہ مجهے الشيخ العالم المقريء تقي الدين عبدالله ابن الشيخ الصالح المقريء احمدبن سعيد نے بیان کیا وه فرماتے ہیں کہ مجهے الشيخ ابن عماد الدين المقرئ المطرز نے خبردی ،
اورفرمایا کہ میں شیخ الاسلام کے پاس گیا اور میرے پاس اس وقت خرچہ تها ،
پس میں نے شیخ الاسلام کو سلام کیا انهوں نے مجهے سلام کا جواب دیا اورخوش آمديد کہا ، اورمجهے اپنے قریب کیا ، لیکن مجهہ سے یہ نہیں پوچها کہ تیرے پاس نفقہ (خرچہ) ہے یا نہیں ؟ کچهہ دنوں کے بعد میرا خرچہ ختم ہوگیا تو میں نے دیگرلوگوں کے شیخ الاسلام کے پیچهے نمازپڑهی اورپهران کی مجلس سےنکلنے کا اراده کیا ، پس شیخ الاسلام نے مجهے روک دیا اور مجهے بٹها دیا جب مجلس خالی ہوگئ تو مجهے کچهہ دراهم (پیسے) دے دیئے ،
اور فرمایا کہ اب تیرے پاس نفقہ (خرچہ) نہیں هے ، پس میں بہت حیران ہوگیا ،
اورمیں نے جان لیا کہ الله تعالی نے شیخ الاسلام پرپہلے میری حالت کا کشف کرلیا تها جب میرے پاس نفقہ تها اور پهرجب میرا خرچہ ختم ہوگیا اور میں خرچہ کا محتاج تها تو یہ حالت بهی الله تعالی نے شیخ الاسلام پرکشف کردی ۰
وحدثني أيضا (الشيخ العالم المقريء تقي الدين عبدالله ابن الشيخ الصالح المقريء احمدبن سعيد ) قال أخبرني الشيخ ابن عماد الدين المقرئ المطرز قال قدمت على الشيخ ومعي حينئذ نفقة فسلمت عليه فرد علي ورحب بي وأدناني ولم يسألني هل معك نفقة ام لا فلما كان بعدأيام ونفدت نفقتي أردت أن اخرج من مجلسه بعد ان صليت مع الناس وراءه فمنعني وأجلسني دونهم فلما خلا المجلس دفع الي جملة دراهم وقال : انت الآن بغير نفقة فارتفق بهذه فعجبت من ذلك وعلمت ان الله كشفه على حالي أولا لما كان معي نفقة وآخرا لما نفدت واحتجت الى نفقة ٠
(( ألأعلام العلية في مناقب ابن تيمية ،الفصل التاسع في ذكر بعض كراماته وفراسته المكتب الإسلامي ، بيروت ، الطبعة الثالثة ، 1400 بتحقيق : زهير الشاويش ))

یاد رہے کہ کتاب ( ألـديـوبندية ) کے كذاب اداکارنے اسی قسم کے کرامات پرمبنی واقعات وعبارات چوری کرکے توڑمروڑکے کهینچ گهسیٹ کے اپنا شیطانی اجتہاد کرکے یہ خانہ سازعقیده بهی کشید کیا کہ دیوبندی اپنے اکابرکے بارے میں یہ عقیده رکهتے ہیں کہ وه شفا دیتے ہیں اورغیب جانتے ہیں ٠
((معاذالله ، سبحانك هذا بهتان عظيم ))
شیخ الاسلام نے فرمایا کہ عافیت آگئ ، پس شیخ الاسلام نے یہ بات کہنی تهی اورمیرا مرض دور ہوگیا اور عافیت آگئ ؟؟
شیخ الاسلام کو ان کے پاس خرچہ موجود ہونے کا بهی کشف ہوگیا تها اور خرچہ ختم ہونے کا بهی کشف ہوگیا ؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـداہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟
ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰


مــُقــدمــه 18 = شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
وه مشاهدات جو بعض عارفین کو بیداری کی حالت میں حاصل ہوتے ہیں ، جیسے ابن عمر رضی الله عنہ سے جب ابن زبیر رضی الله عنہ نے طواف کے دوران اپنی بیٹی کی منگنی کی بات کی تو ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ تم مجهہ سے عورتوں کے بارے بات کرتے ہو اور ہم تو اپنے طواف میں الله تعالی كى زیارت کرتے ہیں ،
شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
یہ علمى مشهود مثال کے ساتهہ متعلق هے ، لیکن جہاں تک نبى صلی الله علیہ وسلم کی بات ہے کہ آپ نے الله تعالی زیارت کی ہے ، تواس میں کلام ہے لیکن یہ جگہ اس پرکلام کرنے کا نہیں هے ،( یعنی اس کی تفصیل دوسرے مقام پر )
پهر شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
یہ علمی مثال قلوب میں الله تعالی کی معرفت ومحبت کے اعتبارسے مختلف ہوتی هے ، بلکہ مخلوق الله تعالی پراورالله کی کتاب پراورالله کے رسول پرایمان رکهنے میں مختلف قسم کے ہیں ، پس مخلوق میں سے ہرایک کے دل میں اپنی معرفت کے اعتبارسے کتاب و رسول کی ایک علمی مثال موجود هے ، باوجودیکہ الله پراورالله کی کتاب پراورالله کے رسول پرایمان لانے میں سب شریک ہیں ، لیکن اس بارے میں (معرفت وعلم ) کے اعتبارمختلف درجات رکهتے ہیں ، ( یعنی سب ایک جیسے نہیں ہیں ) ۰
قال ابن تيمية في مجموع الفتاوى 5 / 251 ، 252 ) مانصه : و( المشاهدات ) التى قد تحصل لبعض العارفين فى اليقظة كقول ابن عمر لابن الزبير لما خطب اليه ابنته فى الطواف أتحدثنى فى النساء ونحن نتراءى الله عز وجل فى طوافنا وأمثال ذلك انما يتعلق بالمثال العلمى المشهود لكن رؤية النبى (( لربه فيها كلام ليس هذا موضعه فان ابن عباس قال رآه بفؤاده مرتين فالنبى )) مخصوص بما لم يشركه فيه غيره ، وهذا المثال العلمى يتنوع فى القلوب بحسب المعرفة بالله والمحبة له تنوعا لا ينحصر بل الخلق فى ايمانهم ( بالله ) و ( كتابه ) و ( رسوله ) متنوعون فلكل منهم فى قلبه للكتاب والرسول مثال علمى بحسب معرفته مع اشتراكهم فى الايمان بالله وبكتابه وبرسوله فهم متنوعون فى ذلك متفاضلون . ) اهـ

شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله
اپنی ( مجموع الفتاوى ) میں ایک جگہ کچهہ اشعارذكرکرتے ہیں ، جن میں شعرکے آخری کا مصرعہ کا ترجمہ یہ هے ،
اور أربـَابُ التـَّجَـلِى کے دلوں کی صفائ میں الله تعالی نظرآتے ہیں ۰
يقول ابن تيمية رحمه الله في كتابه مجموع الفتاوى ( 6 / 28 ) مانصه : ( ويشبه هذا من بعض الوجوه ظهور الاجسام المستنيرة وغيرها فى الأجسام الشفافة كالمرآة المصقولة والماء الصافى ونحو ذلك بحيث ينظر الانسان فى الماء الصافى السماء والشمس والقمر والكواكب كما قال بعضهم % اذا وقع السماء على صفاء % كدر انى يحركه النسيم % ترى فيه السماء بلا امتراء % كذاك البدر يبدو والنجوم % وكذا قلوب ارباب التجلى % يرى فى صفوها الله العظيم ) اهـ ..

ہم تو اپنے طواف میں الله تعالی كى زیارت کرتے ہیں ؟؟
أربـَابُ التـَّجَـلِـِّى کے دلوں کی صفائ میں الله تعالی نظرآتے ہیں ؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـد اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟
ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ،
اور بالخصوص کتاب (( ألديـوبنـديـة )) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟ ۰
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
مُـقـدمـه 19 = شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
أهل التصوف ( صُوفیہ کرام ) کے کلام میں کچهہ عبارات ایسی ہوتی ہیں جن میں ظاہری طورپر وَہَم ہوتا ہے ، بلکہ بعض دفعہ تو وه عبارات ظاہری طور پر خطرناک ہوتی ہیں ، لیکن وه عبارات صحیح معنی کا احتمال بهی رکهتی ہے ، صحیح معنی پران کوحمل کرنا ممکن ہوتا ہے ، لہذا انصاف یہ ہے کہ صُوفیہ کرام کی ان عبارات کوصحیح معنی پرحَمَل کیا جائے گا ،
جیسے فـَنـَاء ، اورشُـهـُود ، اوركـَشـف ، وغیره ( الفاظ ) ۰
قال ابن تيمية في من ( مجموع الفتاوى /ص 337)
وفي كلام أهـل التصـوف عبارات موهمة في ظاهرها بل وموحشة أحيانًا، ولكن تحتمل وجهًا صحيحًا يمكن حملها عليه فمن الإنصاف أن تحمل على الوجه الصحيـح كالفـنـاء، والشـهود، والكشـف ، ونحو ذلك ].

شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
فـَنـَاء کی تین قسمیں ہیں ،
1 = ایک قسم ہے كاملين کی فـَنـَاء ، انبياء واولياء میں سے ،
2 = دوسری قسم ہے قاصدين کی فـَنـَاء ، اولياء وصالحين میں سے ،
3 = تیسری قسم ہے منافقين وملحدين کی فـَنـَاء ،
شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
فـَنـَاء کی پہلی قسم وه ہوتی ہے کہ مَا سِوَى الله ( الله کے علاوه ) کے اراده کرنے سے فـَنـَاء ہوجائے اس طور پر کہ صرف الله سے محبت کرے صرف اورصرف الله کی عبادت کرے صرف الله پرتوکل کرے صرف الله کو چاہے اورطلب کرے وغیره الخ
اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله نے فـَنـَاء کی دوسری قسم کی تفصیل بیان کی ، اور فرمایا کہ فـَنـَاء کی یہ قسم اکثر سالكين کو پیش آتی هے الخ اورپهر شیخ الاسلام نے یہ بهی بیان کبهی اس فناء میں أنا الحق، أو سبحاني، أو ما في الجبة إلا الله، کے الفاظ بهی نکل جاتے ہیں الخ
مزید تفصیل کے لیئے شیخ الاسلام کی ( مجموع الفتاوي ) اور اسی طرح صوفی ابن القیم رحمه الله کی کتاب ( مَدارجُ السَالكين ) کی طرف رجوع فرمائیں ، بہت ہی عجیب وغریب تشریح کی ہے خصوصا صوفی ابن القیم رحمه الله کی یہ کتاب تو علم تصوف میں شاہکارکتاب ہے ، تیسری جلد میں ( بابُ الفناء وبابُ البقاء ) پربحث کرتے ہیں ٠
(( ومن يريد الإستزادة في هذا الموضوع فليراجع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله، الجزء العاشر، صفحة 219 وكذلك مدارجُ السَالكين للإمام الشيخ الصُوفي ابن القيم رحمه الله، الجزء الثالث باب الفناء وباب البقاء صفحة 369،387 ))

انصاف تو یہ ہے کہ صُوفیہ کرام کی عبارات جیسے فـَنـَاء ، اورشُـهـُود ، اوركـَشـف ، وغیره سے صحیح معنی مراد لیا جائے گا ، یہ کہنے والا کوئ دیوبندی تو نہیں هے ؟؟؟
فـَنـَاء کی تین قسمیں ہیں ، ایک قسم ہے كاملين کی فـَنـَاء ، دوسری قسم ہے قاصدين کی فـَنـَاء ، تیسری قسم ہے منافقين وملحدين کی فـَنـَاء ، ؟؟؟
فـَنـَاء کی یہ اقسام بیان کرنے والا کوئ دیوبندی تو نہیں هے ؟؟؟
یہ خطرناک عقائد ( فـرقـہ جـدیـد اہل حدیث کی نظرمیں ) کسی دیوبندی کی کتاب میں تو نہیں لکهے ؟؟؟
ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟؟
اوریہ بهی ملحوظ رہے گذشتہ تصریحات کی طرح یہ ساری تصریح بهی ( ارواح ثلثه ) کی طرح حکایات و واقعات کے کتاب میں نہیں ہورہی ، بلکہ فتاوی کی مستند کتاب میں ہورہی ہے ؟؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ، اور بالخصوص کتاب (ألديـوبنـديـة) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟؟ ۰


مـُقـدمــه 20 = جیسا کہ معلوم ہے کہ آج کل کا فرقہ جدید اہل حدیث اوربہت ساری ثابت چیزوں کے انکارکے ساتهہ ساتهہ عقیده ( حياة الأنبياء فی القبور) کے بهی منکر ہیں ، اورعلماء دیوبند اور دیگرتمام اهل سنت عقیده ( حياة الأنبياء فی القبور) کے قائل ہیں ، تواس فرقہ جدید کے جہلاء اس عقیده کی وجہ سے بهی علماء دیوبند پرطعن وتشنیع کرتے ہیں ، اوراس طرح دانستہ یا نادانستہ طور پر شيخ ابن تيمية رحمه الله اورحافظ ابن القيم رحمه الله یہاں بهی ان جہلاء کی طعن وتشنیع کا نشانہ بن جاتے ہیں ، کیونکہ یہ دونوں حضرات بهی عقیده ( حياة الأنبياء فی القبور) کے قائل ہیں ، بلکہ اگرمیں یہ کہوں کہ انتہائ سختی کے ساتهہ قائل ہیں تو بے جا نہیں ہوگا ، جیسا کہ آپ ان کی کتب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ،
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
أنبیاء وصالحین اپنے قبروں میں زنده ہیں الخ
قال الشيخ ابن تيمية كما في مجموع الفتاوى (1/330):

وكذلك الأنبياء والصالحون وان كانوا أحياء في قبورهم وان قدر انهم يدعون للأحياء وان وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ولم يفعل ذلك أحد من السلف لأن ذلك ذريعة إلى الشرك بهم وعبادتهم من دون الله تعالى بخلاف الطلب من أحدهم في حياته فانه لا يفضى إلى الشرك"ا.هـ
وقال أيضا كما في مجموع الفتاوى (27/502):

فهذه نصوصه الصريحة ـ أي النبي صلى الله عليه وسلم ـ توجب تحريم إتخاذ قبورهم مساجد مع أنهم مدفونون فيها وهم أحياء في قبورهم ويستحب إتيان قبورهم للسلام عليهم ومع هذا يحرم إتيانها للصلاة عندها وإتخاذها مساجد"ا.هـ
شيخ الاسلام کے شاگرد شیخ ابن مُفلح اپنی ( کتاب الفروع ) میں فرماتے ہیں کہ
ہمارے شیخ ابن تيمية نے فرمایا کہ اس بارے میں بکثرت آثار موجود ہیں کہ دنیا میں میت کے جواہل واصحاب ہیں ان کے احوال اس کے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں اوران کوپہچانتا هے ، اوراس بارے میں آثار موجود ہیں کہ میت دیکهتا بهی هے اورمیت کے پاس جو کچهہ کیا جائے وه جانتا بهی هے ، اچهے کام سے خوش ہوتا هے اوربُرے کام سے اس کواذیت ہوتی هے ۰
قال تلميذه ابن مفلح ماهو اشد من هذا في كتاب الفروع (2/235):

" قال شيخنا ـ اي ابن تيمية ـ استفاضت الآثار بمعرفته ـ أي الميت ـ بأحوال أهله وأصحابه في الدنيا وأن ذلك يعرض عليه وجاءت الآثار بأنه يرى أيضا وبأنه يدري بما يفعل عنده ويسر بما كان حسنا ويتألم بما كان قبيحا " اهـ
اورحافظ ابن القيم رحمه الله
اپنی " قصیده " میں انتہائ بہترین اشعارمیں عقیده ( حياة الأنبياء فی القبور) کوبیان کرتے ہیں ، اور " کتاب الروح " میں تو انتہائ تفصیل سے عجیب وغریب حقائق بیان کرتے ہیں ، اور خصوصا ارواح کے احوال واحکام پر جوحقائق " کتاب الروح " میں صوفی ابن القيم رحمه الله نے بیان کیئے ہیں شاید ہی کسی اورکتاب میں اتنی تفصیل وتشریح ملے ،
ابن القيم رحمه الله اپنی " قصیده "میں اس عقیده کواس طرح بیان کرتے ہیں ،
فان احتججتم بالشهيد بأنه *** حي كما قد جاء في القرآن
والرسل أكمل حالة منه بلا** شك وهذا ظاهر التبيان
فلذاك كانوا بالحياة أحق من ** شهدائنا بالعقل والبرهان
وبأن عقد نكاحه لم ينفسخ ** فنساؤه في عصمة وصيان
ولأجل هذا لم يحل لغيره ** منهن واحدة مدى الأزمان
أفليس في هذا دليل أنه ** حي لمن كانت له أذنان
أو لم ير المختار موسى قائما ** في قبره لصلاة ذي القربان
أفميت يأتي الصلاة وأن ذا ** عين المحال وواضح البطلان
أو لم يقل إني أرد على الذي ** يأتي بتسليم مع الإحسان
أيرد ميت السلام على الذي ** يأتي به هذا من البهتان
هذا وقد جاء الحديث بأنهم ** أحياء في الأجداث ذا تبيان
وبأن أعمال العباد عليه تعرض دائما في جمعة يومان
يوم الخميس ويوم الأثنين الذي قد خص بالفضل العظيم الشان

(( كتاب شرح قصيدة ابن القيم 2 ))
سبحان الله جس خوبصورت وعلمی وتحقیقی انداز میں ابن القيم رحمه الله نے
حياة الأنبياء فی القبور) کو ثابت کیا هے ، میرے پاس تواس کی تشریح کے لیئے الفاظ نہیں ہیں ۰

أنبیاء وصالحین اپنے قبروں میں زنده ہیں ؟؟
اس بارے میں بکثرت آثار موجود ہیں کہ دنیا میں میت کے جواہل واصحاب ہیں ان کے احوال اس کے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں ؟؟
اورمرده ان کوپہچانتا هے ؟؟
اوراس بارے میں آثار موجود ہیں کہ میت دیکهتا بهی هے اورمیت کے پاس جو کچهہ کیا جائے وه جانتا بهی هے ؟؟
ایسے عقائد رکهنے والا شخص شرعی اعتبارسے کس برتاو وحکم کا مستحق هے ؟؟؟
فیصلہ صرف اورصرف فرقہ جدید اہل حدیث کی عدالت میں ، اور بالخصوص کتاب (ألديـوبنـديـة) لکهنے والے سچے پکے خالص توحیدی سلفی اہل حدیث کی عدالت میں ؟؟؟ ۰


حـــرف آخـــــر

یہ موضوع توبہت طویل هے اور یہ باب بڑا وسیع هے لیکن میں نے جو بیس مقدمات پیش کیئے ہیں میں اسی پراکتفاء کرتا ہوں ، یقینا اس کا جواب ان کے پاس کچهہ نہیں هے ، لیکن کم ازکم ایک ناواقف شخص پران کا دهوکہ وکذب وفریب وجہالت وخیانت کافی واضح ہوگیا ، اورجو کچهہ میں نے ذکرکیا ایک عقل مند آدمی کی عبرت ونصیحت کے لیئے یہ کافی هے ، باقی ایک معاند ومتعصب وضدی شخص کے لیئے بڑے بڑے دفتربهی ناکافی ہیں ، آخر میں بطور خلاصہ وحاصل بحث چند ضروری باتیں ذکرکرتا ہوں ۰

1 = شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله کی چند فتاوی جات وعبارات میں نے اس لیئے ذکرکیئے کہ کتاب (( الدیوبندیه)) لکهنے والے مجهول مطلق نے سعودی سلفی مشائخ کو یہ شکایت بهی کی تهی کہ یہ دیوبندی شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله اورحافظ ابن القیم رحمه الله پرطعن وتشنیع کرتے ہیں ، اسی لیئے میں نے شيخ الإسلام کی کتب سے یہ مختصر عبارات نقل کیئے ہیں ،اوریہ ساری تفصیل دراصل (( الدیوبندیه)) کتاب لکهنے والے کذاب شخص کی کذب بیانی ، بہتان بازی ، وافتراء پردازی ، وافسانہ نگاری ، وشعبده بازی ،کا پرده چاک کرنے کے لیئے اوراس کی منافقت وحماقت وجہالت وخیانت وخباثت باطنی کو طشت ازبام کرنے کے لیئے پیش کی گئ هے ،
اور شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله کی یہ عبارات وفتاوی واقوال میں نے اس لیئے ذکرنہیں کیئے کہ فرقہ جدید اهل حدیث شيخ الإسلام کو اپنا راہبر وراہنما تسلیم کرتی ہے ، ہرگزنہیں اس جاہل فرقے کا شيخ الإسلام سے بهی کوئ تعلق نہیں ہے اورنہ ان کی تعلیمات کی ان کو کچهہ خبرهے ، آج کل فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل کچهہ جہلاء شيخ الإسلام سے عقیدت ومحبت کا خالی خولی دعوی صرف اور صرف اس لیئے کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے عرب کے سلفی مشائخ میں تهوڑی پذیرائ ملے اور ساتهہ ہی وہاں سے دانا پانی بهی ملتا رہے ، اور ویسے تو جوکچهہ میں نے شيخ الإسلام کی کتب سے نقل کیا یہی کچهہ بلکہ اس سے کہیں زیاده مواد فرقہ جدید اهل حدیث کے بانیان ومُوجدین میں کی کتب میں بهی موجود هے ، لیکن اس کا جواب یہ لوگ بآسانی یہ دے دیتے ہیں کہ ہم ان کے مقلد نہیں ہیں وغیره ، یقینا شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله کی ان اقوال وفتاوی کا بهی زیاده سے زیاده یہی جواب دیں گےکہ ہم شيخ الإسلام کے مقلد تونہیں ہیں ،لیکن یقینا ایک عقل ودانش رکهنے والا شخص صرف اس قدرجواب سے راضی نہیں ہوسکتا ، کیونکہ وه یہ سوال کرے گا کہ جوکچهہ عبارات کرامات وغیره تم نے علماء دیوبند کی کتب سے لے کر اس پرکفر وشرک وضلال فتوے دیتے رہے ، بعینہ اسی طرح کی کرامات واقوال وتصریحات شيخ الإسلام کی کتب سے تمہارےسامنے پیش کی گئ ، توتم جواب میں صرف یہ کہتے ہو کہ ہم شيخ الإسلام کے مقلد تو نہیں ہیں ، ہم توصرف کتاب وسنت کوماننے والے ہیں ،
یہاں سے ایک عقل مند آدمی فرقہ جدیداہل حدیث میں شامل ان بڑے جہلاء کی امانت ودیانت وحقیقت کو خوب جان لے گا ، کسی ایک شخص کی کتاب سے کوئ بات لی اوراس پرکفر وشرک کا گولہ داغ دیا اورآسمان سرپہ اٹهادیا ، اوربعینہ وہی بات اگرکسی دوسرے شخص کی کتاب سے دکهادی جائے تو وہاں صرف یہ جواب کہ ہم ان کے مقلد تونہیں ہیں ، ہم توصرف کتاب وسنت کے تابعدار ہیں؟؟۰
2 = شيخ الإسلام کی جو عبارات وتصریحات میں نے ذکرکی ہیں ، اس سے میرا مقصد (معاذالله) شيخ الإسلام کی ذات پریا ان کے اقوال وتصریحات پرطعن وتشنیع نہیں هے ، اور نہ ہمارے نزدیک اس پرکوئ اشکال واعتراض هے ، بلکہ یہ سب کچهہ کتاب (( الدیوبندیه )) لکهنے والے مجهول مطلق اوراس کے ہمنواوں کی حقیقت واصلیت واضح کرنے کے لیئے ہے ، اور شیخ الاسلام کی یہ اقوال وتصریحات ان کے لیئے گلے میں اٹکی ہوئ ہڈی کی طرح ہیں ، جس سے چهٹکارا حاصل کرنے کے لیئے جاہل عوام کو تو چند وساوس کے ذریعے زیر کرلیں گے ، لیکن ایک عقل مند آدمی کبهی بهی ان کے فرسوده وساوس قبول نہیں کرے گا ۰
3 = اسی طرح ہم دوباره یہ مطالبہ بهی دوہراتے ہیں کہ شيخ الإسلام کی جوعبارات وفتاوی واقوال گذشتہ سطور میں ہم نے نقل کیئے ہیں ، جویقینا آج کل کے فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل موحدین کے نفسانی مسلک ومزاج بالکل خلاف ہیں ، اور بالخصوص کتاب (( الدیوبندیه)) لکهنے والے پکے توحیدی سلفی کے مسلک کے بالکل متضاد باتیں ہیں ، لہذا اصلاح وارشاد کی نیت سے تحریری طور پراس کا رد وجواب ضرورلکهیں اگرچہ ایک چهوٹا سا رسالہ کیوں نہ ہو، کیونکہ کتاب (( الدیوبندیه)) میں جن عبارات و واقعات وکرامات کو لے کرشکم پرستوں اوربدبختوں نے ان پرعقائد کا لیبل لگا کر تمام اکابرعلماء دیوبند کو کافر ومشرک وگمراه کہا گیا ، اوراس فعل شنیع وامرقبیح کا ارتکاب کیا ، میں نے اسی قسم کے فتاوی واقوال وعبارات شيخ الإسلام کی کتب سے بحوالہ نقل کیئے اورفیصلہ انهی لوگوں کے ذمہ چهوڑ دیا ،
4 = کسی بهی مسلمان پرتکفیرکا حکم واقدام بہت دشوار اور خطرناک اورہولناک چیزهے ، جس شخص کا دل میں ایمان وتقوی وفکرآخرت وخشیت الہی سے معمورہوگا ، تو وه کبهی کسی مسلمان کو محض خیالات و وساوس اورسنی سنائ باتوں کی بناء پر کفرکا حکم نہیں لگائے گا ، کیونکہ کسی کو کافر کہ دیا یا لکهہ دیا اورکفرکا حکم لگادیا ،
تواس پر کتنے سارے اور احکام شریعت میں مرتب ہوجاتے ہیں ، مثلا جس پرکفرکا حکم وفتوی لگا دیا ، تو اس حکم کے ساتهہ اس فتوی لگانے والے نے یہ خبربهی دے دی کہ
1 = یہ آدمی ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑا رہے گا اورجہنم سے کبهی نہیں نکلے گا۰
2 = اوردنیا میں اس کا خون وجان ومال سب مباح ہوگیا ۰
3 = کسی مسلمان عورت کا اس سے نکاح نہیں ہوسکتا ۰
4 = زندگی میں اور موت کے بعد اس پراسلامی احکام جاری نہیں ہوسکتے ۰
5 = اس کے تمام نیک اعمال ضائع ہوگئے ۰ وغیرذالک
خلاصہ یہ کہ کسی بهی مسلمان کی تکفیر کوئ کهیل تماشہ کی بات نہیں بلکہ ایک سخت ترین اورشدید ترین وبال وعذاب کواپنے سرلینا هے ، بلکہ شریعت نے یہ بتلادیا کہ مسلمان کو کافرکہنے اورلعنت کرنے کا وبال خود قائل کی طرف جاتا هے ، اورمسلمان کوگالی دینا فسق وفجور هے ، اسی کی غیبت کرنا اس پربہتان لگانا ، اس پرظلم کرنا وغیره گناه کبیره هے ،
یہ عقوبت اورسزا تو الله تعالی کی طرف سے هے ،
باقی جس شخص کی ناحق تکفیرکی اوراس پرلعنت کی ، غیبت کی ، گالی دی ، بہتان لگایا ، ظلم کیا ، وغیره تو اس شخص کا حق ابهی اس تکفیرکرنے والے لعنت کرنے والے ظلم کرنے والے بہتان لگانے والے گالی دینے والے کے ذمہ باقی هے ، اب غور وفکر کا مقام هے کہ ناحق تکفیر کرنے والا خود کافربن گیا ، لعنت کرنےوالا خود ملعون بن گیا ، گالی وبہتان وغیبت وظلم کرنے والے خود فاسق ومجرم بن گیا اوریہاں تک اس کا وبال وسزا ختم نہیں هوگی بلکہ روز محشر ان لوگوں کے گناه بهی اس کے سرڈالے جائیں گے، کیا اتنی شدید سزا اور سخت ترین وبال کوئ عقل مند آدمی اپنے سرلے سکتا هے ، الله کی پناه الله تعالی حفاظت فرمائے ، اس لیئے میں ان عوام لوگوں سے نصیحت کرتا هوں کہ کفر و شرک کا جو ڈرامہ علماء دیوبند کے خلاف چند جاہل لوگوں نے رچایا ، اوراپنی عاقبت خراب کی ، تم ان لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملاو ان کی صف میں شامل نہ ہوں ، اسی میں تمہارا خیر اوربهلا هے ، اوراگرتم اس نصیحت کو قبول کرنے کے لیئے تیارنہیں ہوں اور جو بکواس وخرافات وه جاہل بکتے ہیں تم بهی اسں کی تصدیق کرتے ہوں اور انهیں جُہلاء کے برے راستے پرچلتے ہو توپهران کی طرح تم بهی الله تعالی کے یہاں جواب دہی کے لیئے تیار رهو ، اور یاد رہے کہ الله تعالی کے یہاں تمہارا یہ عذر مقبول نہیں ہوگا کہ ہمارے فلاں شیخ صاحب علماء دیوبند کو کافر ومشرک کہتے تهے اس لیئے ہم نے بهی اس کی پیروی میں یہ راستہ اختیار کیا ، اس لیئے عوام اورناواقف لوگوں پرحجت تمام ہوچکی هے ، اور جن جہلاء وحمقاء نے تکفیر کا یہ مذموم کهیل محض اپنی نفسانی وشیطانی جذبات وخواہشات کوتسکین دینے کے لیئے کهیلا هے ، توایسے لوگوں کا حقیقی چہره وباطنی خبث اظہرمن الشمس ہوگیا هے ، لہذا پهر بهی اگرتم ایسے جاہلین وکذابین کی اتباع پرمصرہوتو پهرتیار رہو جو جواب دہی ومواخذه ان کا ہوگا وہی تمہارا بهی ہوگا ۰
5 = اہل اسلام کی تکفیر کرنا ایک بہت بڑا سنگین جرم ہے ، اورپهراس جرم عظیم کے ارتکاب کی کئ وجوهات ہوتی ہیں ، درحقیقت اس جرم کا ارتکاب وہی شخص کرتا هے جو أحكام الشريعة سے بالکل جاہل ہوتا هے ، اورکبهی لوگوں سے حسد وحِقد وبغض وعداوت کی وجہ سے اس جرم عظیم کا ارتکاب کیا جاتا هے ، کبهی أغراض دنيا میں سے کسی غرض ومفاد کوحاصل کرنے کے لیئے ، اورکبهی جُہلاء میں شہرت وغلبہ حاصل کرنے کے لیئے ، اورکبهی ضد وتعصب وغیره کی بناء پر اس جرم عظیم کا ارتکاب کیا جاتا هے ، غرض مختلف اسباب ہیں چند کا ذکرمیں نے کردیا ،
ارشاد باری تعالی هے
وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً } النساء:
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں آیت میں " السَّلامَ " سے مراد اسلام هے اور دلیل اس کی اس بعد والے الفاظ ہیں یعنی " لَسْتَ مُؤْمِناً " ، مطلب یہ هے کہ جوشخص اسلام کا اظہار کرے تو تم اس کو یہ نہ کہو کہ تومُؤمن نہیں هے ،
اورتم اس شخص سے إسلام وإيمان کی صفت سلب نہ کرو ،
بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں مطلب اس کا یہ هے کہ
جوتم کو سلام کرے یعنی سلام جو مسلمانوں کا شعار هے اور تحية الإسلام هے تو تم اس کو یہ نہ کہو کہ تومُؤمن نہیں هے ،
اور پهر أهل التفسير نے اس آیت کی شان نزول میں کئ روایات نقل کی ہیں ،
سب کی سب روایات کا حاصل یہ هے کہ کسی صحابی کے سامنے کسی نے اسلام کا اظہارکیا تها اور انهوں نے اس کی نفی کردی تهی ،
توپهر یہ آیت نازل هوئ ، اسی ضمن میں مسند احمد اور ترمذی اور میں بسند حسن یہ روایت موجود هے ، مرّ رجل من بني سليم بنفر من الصحابة كان يرعى له غنماً فسلم عليهم وكانوا في سرية، فقالوا: لا يسلم علينا إلا ليتعوّذ منا ، فعمدوا إليه فقتلوه وأخذوا غنمه فنزلت الآية.
اسی طرح صحيح مسلم میں حضرت أسامة بن زيد کی روایت میں هے
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
( أقتلته بعد أن قال لا إله إلا الله؟ أقتلته بعد أن قال لا إله إلا الله ؟ )
کیا تم نے اس کوقتل کردیا بعد اس کے کہ اس نے لا إله إلا الله کہا ؟
دوسری روایت کے الفاظ ہیں ،
( أفلا شققت عن قلبه فعرفت أقالها خوفاً أم لا )
کیا تونے اس کا دل پهاڑ کردیکها تها کہ کہ اس نے لا إله إلا الله خوف کی وجہ سے کہا تها یا نہیں ؟
یاد رهے کہ تکفیر أحكام شریعت میں سے ایک حکم هے جس کے مختلف أسباب وضوابط وشروط وموانع وآثار ہیں ، اور پهر تکفیر چونکہ حكم شرعي هے تو یہ شرعي دلائل کے ساتهہ ثابت هوگا ،
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اہل سنت و الجماعت كا مسلک و مذہب يہ ہے كہ وہ اہل قبلہ كو صرف گناہ كى بنا پر كافر نہيں كہتے، اور نہ ہى فقط تاويل كى وجہ سے كافر قرار ديتے ہيں، بلكہ اگر فرد واحد ميں نيكياں اور بدياں دونوں پائى جاتى ہيں تو اس كا معاملہ اللہ كے سپرد ہے " انتہى
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
مذهب أهل السنة والجماعة أنهم لا يكفرون أهل القبلة بمجرد الذنوب ، ولا بمجرد التأويل ، بل الشخص الواحد إذا كانت له حسنات وسيئات فأمره إلى الله " انتهى .
"مجموع الفتاوى" (27/478
اور ایک دوسرى جگہ كہتے ہيں
" كسى شخص كے ليے بھى كسى مسلمان شخص كو كسى غلطى اور خطا كى بنا پر اس وقت تک كافر قرار دينا جائز نہيں جب تک كہ اس كے كفر كى دليل و حجت ( شرعي يقيني وقطعي ) ثابت نہ ہو، اور جس كا يقينى طور پر اسلام ثابت ہو جائے تو وہ صرف شک كى بنا پر زائل نہيں ہو سكتا، بلكہ اس كا اسلام تو حجت قائم ہونے اور شبہ زائل ہونے كے بعد ہى زائل ہو گا " انتہى
وقال رحمه الله
وليس لأحد أن يُكفِّر أحداً من المسلمين ، وإن أخطأ وغلط ، حتى تقام عليه الحجة ، وتبين له المحجة ، ومن ثبت إسلامه بيقين لم يزل ذلك عنه بالشك ، بل لا يزول إلا بعد إقامة الحجة ، وإزالة الشبهة " انتهى .
"مجموع الفتاوى" (12/466


شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اہل سنت كے آئمہ اور اہل علم ميں عدل و انصاف اور رحمت ہے وہ اس حق كو پہچانتے ہيں جس پر ہيں اور سنت كے موافق اور بدعات سے سليم ہيں، وہ اپنے مخالف كے معاملہ ميں عدل و انصاف كرتے ہيں چاہے ان كا مخالف ان پر ظلم ہى كرے جس طرح اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم اللہ كى خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، اور حق و انصاف كے ساتھ گواہى دينے والے بن جاؤ، كسى قوم كى عداوت و دشمنى تمہيں خلاف عدل پر آمادہ نہ كر دے، عدل كيا كرو جو پرہيزگار كے زيادہ نزديک ہے }المآئدۃ 8
اور وہ مخلوق پر رحم كرتے ہوئے ان كے ليے خير و بھلائى اور ہدايت و علم چاہتے ہيں، نہ كہ ان كے ليے كوئى شر و برائى ...، اس ليے اہل علم و سنت اپنے مخالف كو كافر نہيں كہتے اگرچہ ان كا مخالف انہيں كافر بھى كہتا ہو؛ كيونكہ كفر ايک شرعى حكم ہے " انتہى

قال رحمه الله :
" وأئمة السنة والجماعة وأهل العلم والإيمان فيهم العلم والعدل والرحمة ، فيعلمون الحق الذي يكونون به موافقين للسنة سالمين من البدعة ، ويعدلون على من خرج منها ، ولو ظلمهم ، كما قال تعالى ( كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى ) المائدة/8 .
ويرحمون الخلق فيريدون لهم الخير والهدى والعلم ، لا يقصدون لهم الشر...، فلهذا كان أهل العلم والسنة لا يكفرون من خالفهم ، وإن كان ذلك المخالف يكفرهم ؛ لأن الكفر حكم شرعي " انتهى .
الرد على البكري" ص/256 – 258
اور علمــاء حـق عـلمـاء دیـوبـنـد کا بهی اپنے مخالفین اهل بدعت وضلال کے ساتهہ یہی طرز هے ، کہ مخالف ان کی تکفیرکرتے ہیں ، لیکن وه جوابا تکفیرکا جواب تکفیر سے نہیں دیتے ، بلکہ معاملہ الله کے سپرد کرتے ہیں ، اور یہی أهلُ العلم وأهلُ السنة والجماعة کا وصف وامتیاز هے ٠
 
Top