• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا لفظ امام کلمہ توثیق ہے؟ ؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سَلْمِ بنِ مَيْمُوْنٍ الخَوَّاص كے متعلق میزان الاعتدال (2/186) میں ہے.
ابن عدی فرماتے ہیں:
ينفردُ بمتونٍ وبأسانيد مقلوبةٍ

ابن حبان فرماتے ہیں:
وكان من كبارِ عُبادِ أهلِ الشامِ ، غلب عليه الصلاحُ حتى غفل عن حفظِ الحديثِ وإتقانهِ ، فلا يحتجُ بهِ

عقیلی فرماتے ہیں:
حدث بمناكير لا يتابعُ عليها

ابو حاتم کہتے ہیں:
لا يكتبُ حديثهُ

اتنے بڑے عابد ہونے کے باوجود جرح موجود ہے.
جی عمر بھائی جرح موجود ہے۔ لیکن عابد ہونے کا علمی معاملات سے تعلق نہیں ہے۔ بہت بڑا عابد ہونا تعدیل ہو سکتی ہے کہ یہ شخص عادل ہے اور جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا لیکن توثیق نہیں ہو سکتی کہ یہ ثقہ بھی ہے اور بھولتا بھی نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ لنک بھی فائدے سے خالی نہیں.
لفظ فقیہ کا بھی معاملہ کچھ عابد جیسا ہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ شخص تفقہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر مطلقاً بغیر کسی جرح کے فقیہ کہا جائے تو یہ ظاہراً تعریف ہوگی کہ یہ شخص قرآن و حدیث سے استنباط میں ماہر ہے۔ لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں کہ اسے قرآن یا حدیث یاد بھی ہیں بلکہ ممکن ہے کہ یہ تحریر سے دیکھ کر استنباط کر سکتا ہو اس لیے جب اس کے ساتھ ضعف کی جرح جمع ہوگی تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص میں تفقہ کی صلاحیت تو ہے لیکن حفظ نہیں۔ اور اگر کذب کی جرح ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس میں تفقہ کی صلاحیت ہے لیکن یہ عادل نہیں ہے بلکہ جھوٹا ہے۔
اور جب کہیں اس "فقیہ" کے ساتھ مبالغے کے الفاظ ذکر ہوں تو اسی مبالغے کے بقدر اس کی تعریف بڑھ جائے گی۔
بعد کے زمانے میں فقیہ کا مطلب علم فقہ میں مہارت بھی لیا گیا ہے۔

لفظ "امام" کا مطلب ہے جس کی اتباع اور اقتداء کی جائے۔ علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:
وفي إطلاق الشرع اسم للمقتدي به، المقتدي بالشرع۔۔۔
(1۔309، ط: كلية الآداب - جامعة طنطا)
"اور شریعت کے اطلاق میں اس کا نام ہے جس کی اقتداء کی جائے اور وہ شریعت کی پیروی کرنے والا ہو۔"
اس کے علاوہ قرآن کریم میں کم از کم دو جگہ اس لفظ کو تعریف کے لیے لایا گیا ہے:
انی جاعلک للناس اماما
و اجعلنا للمتقین اماما
ان دونوں جگہوں میں عموماً اور پہلے مقام پر خصوصاً یہ اعلی درجے کی تعریف ہے۔ یعنی ایسا بلیغ لفظ ہے کہ قرآن نے آگے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ "امام" کے دو معنی ہیں۔ ایک لغوی معنی ہے یعنی "جس کی اتباع کی جائے"۔ قطع نظر اس کے کہ وہ اتباع اچھائی میں ہو یا برائی میں۔ برائی کے لیے بھی قرآن کریم میں مذکور ہے: و جعلناہم ائمۃ یہدون الی النار۔ اور دوسرا معنی اصطلاح شرع کا ہے جس کے مطابق یہ تعریف ہے اور نہ صرف تعریف بلکہ بسا اوقات اعلی درجے کی تعریف بھی ہوتی ہے۔
جب محدثین کرام بغیر کسی جرح کے کسی شخص کو "امام" کہتے ہیں یا توثیق کے ساتھ امام کہتے ہیں تو یہ لغوی معنی کا مقام ہی نہیں ہوتا۔
ایک شخص مثلاً زید کو بغیر جرح یا تعدیل کے "امام" کہا جائے اور اس کے لغوی معنی لیے جائیں تو اس کے دو مطالب ہوں گے:
1۔ زید اچھائی میں مقتدا ہے۔
2۔ زید برائی میں مقتدا ہے۔
اور جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو ایسی کوئی بات کرنا جس کے دو اس قدر متضاد معانی ہوں علماء کے کلام میں ہر زبان میں عار سمجھا جاتا ہے۔ مختصر المعانی اور دیگر بلاغت کی کتب میں مقتضی حال کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ (اسے تعقید کہا جاتا ہے کما فی دروس البلاغۃ)
اس لیے یہ اصطلاحی معنی کا مقام ہے جو کہ تعریف اور مدح ہے۔
پھر علم حدیث میں ہم دو چیزیں دیکھتے ہیں: عدالت اور ثقاہت۔ اور جب کسی کو تعریف کرتے وقت امام یعنی مقتدا کہا جاتا ہے تو عدالت تو ظاہر ہوتی ہی ہے ورنہ یہ اصطلاحی معنی کے مطابق تعریف ہی نہ رہے، ثقاہت بھی اس لفظ میں ضمناً موجود ہوتی ہے کیوں کہ جس شخص کو کسی فن میں امام کہا گیا ہو اگر وہ اس فن میں ضعیف الحفظ اور اور بھلکڑ ہو تو وہ لوگوں کو غلط سمت لے جائے گا اور اس طرح بھی یہ تعریف نہیں رہے گی۔

البتہ جب محدثین کسی شخص کو جرح کے ساتھ امام کہتے ہیں اس وقت یہ لغوی معنی کا مقام ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت اصطلاحی معنی لینے سے کلام میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک جانب ایسی تعریف ہو اور دوسری جانب تنقیص۔ چنانچہ اس صورت میں اس کا لغوی معنی مراد ہوتا ہے۔

یہاں یہ یاد رکھا جائے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص ایک فن میں امام ہو اور دوسرے فن میں ضعیف۔ انہیں گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ (مثلاً یہ ممکن ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ فقہ میں بے نظیر ہوں لیکن روایت حدیث میں کمزور ہوں کیوں کہ انہوں نے اس پر محنت ہی نہ کی ہو۔ (یہاں میں نے روایت کی بات کی ہے حفظ کی نہیں۔ اسے نوٹ رکھا جائے!))
ہذا ما ظہر لی۔ و اللہ اعلم
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم @اشماریہ بھائی!
یہی تو آپکو بتایا جا رہا ہے. محترم شیخ @ابن داود حفظہ اللہ نے یہی لکھا:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔

قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم @اشماریہ بھائی!
یہی تو آپکو بتایا جا رہا ہے. محترم شیخ @ابن داود حفظہ اللہ نے یہی لکھا:
محترم عمر بھائی! ابن داود بھائی دراصل اس بات سے ہی اتفاق نہیں کر سکتے کہ لفظ امام بذات خود کلمہ توثیق ہو سکتا ہے اگر جرح موجود نہ ہو۔
ہمارا اختلاف اس پر ہے۔
باقی جس پر ساتھ میں ضعف کی جرح موجود ہے اس کے بارے میں تو میں ابن داود بھائی سے متفق ہوں کہ وہاں لفظ امام کلمہ توثیق نہیں ہے۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
رہی بات عمر ابن ہارون کی تو مجھے اس میں میں تھوڑا سا یہ اختلاف ہے کہ اس میں "علی ضعف" کی تنوین تقلیل کے لیے ہے اور ضعفہ میں اضافت عہد کی ہے جس کا معہود ماقبل تقلیل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر بن ہارون میں تمام صفات کے ساتھ تھوڑا سا ضعف بھی تھا اور اس تھوڑے سے ضعف میں شبہ نہیں ہے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ان امثلہ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ میرا مطلب ہے اگر ایک شخص کو امام کہہ کر ثقہ کہا گیا ہے تو اعتراض ہوگا کہ ثقہ پہلے سے تھا اور "امام" سے درجہ بتایا گیا ہے۔ اگر ایک جگہ امام اور دوسری جگہ ثقہ کہا گیا ہے تو بھی یہی اعتراض ہوگا۔ اور اگر صرف "امام" کہا گیا ہو اور کچھ نہ کہا گیا ہو تو اسے معترضین توثیق ہی نہیں مانیں گے۔ تو مثالوں کے ذکر کا طریقہ کار کیا ہو؟؟؟
نیز جب کسی راوی کو امام کہا جاتا ہے تو آخر کسی معنی میں تو کہا جاتا ہوگا۔ وہ معنی کیا ہیں جو توثیق کے ساتھ بھی جمع ہو جاتے ہیں اور جرح کے ساتھ بھی؟
اہم بات یہ ہے کہ جب لفظ ’ امام ‘ توثیق اور تجریح دونوں کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ، تو ہمیں اسے ثقاہت یا جرح میں سے کسی ایک معنی میں لینے پر اصرار نہیں ہونا چاہیے ۔
ویسے یہ بہت بعید ہے کہ ایک شخص ’ امام ‘ بھی ہو ، اور اس کے متعلق جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو کہ ہم لفظ امام سے توثیق یا تجریح کا استدلال کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اہم بات یہ ہے کہ جب لفظ ’ امام ‘ توثیق اور تجریح دونوں کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ، تو ہمیں اسے ثقاہت یا جرح میں سے کسی ایک معنی میں لینے پر اصرار نہیں ہونا چاہیے ۔
ویسے یہ بہت بعید ہے کہ ایک شخص ’ امام ‘ بھی ہو ، اور اس کے متعلق جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو کہ ہم لفظ امام سے توثیق یا تجریح کا استدلال کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔
شاید یہ پوسٹ آپ کی نظر سے رہ گئی.
لفظ "امام" کا مطلب ہے جس کی اتباع اور اقتداء کی جائے۔ علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:
وفي إطلاق الشرع اسم للمقتدي به، المقتدي بالشرع۔۔۔
(1۔309، ط: كلية الآداب - جامعة طنطا)
"اور شریعت کے اطلاق میں اس کا نام ہے جس کی اقتداء کی جائے اور وہ شریعت کی پیروی کرنے والا ہو۔"
اس کے علاوہ قرآن کریم میں کم از کم دو جگہ اس لفظ کو تعریف کے لیے لایا گیا ہے:
انی جاعلک للناس اماما
و اجعلنا للمتقین اماما
ان دونوں جگہوں میں عموماً اور پہلے مقام پر خصوصاً یہ اعلی درجے کی تعریف ہے۔ یعنی ایسا بلیغ لفظ ہے کہ قرآن نے آگے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ "امام" کے دو معنی ہیں۔ ایک لغوی معنی ہے یعنی "جس کی اتباع کی جائے"۔ قطع نظر اس کے کہ وہ اتباع اچھائی میں ہو یا برائی میں۔ برائی کے لیے بھی قرآن کریم میں مذکور ہے: و جعلناہم ائمۃ یہدون الی النار۔ اور دوسرا معنی اصطلاح شرع کا ہے جس کے مطابق یہ تعریف ہے اور نہ صرف تعریف بلکہ بسا اوقات اعلی درجے کی تعریف بھی ہوتی ہے۔
جب محدثین کرام بغیر کسی جرح کے کسی شخص کو "امام" کہتے ہیں یا توثیق کے ساتھ امام کہتے ہیں تو یہ لغوی معنی کا مقام ہی نہیں ہوتا۔
ایک شخص مثلاً زید کو بغیر جرح یا تعدیل کے "امام" کہا جائے اور اس کے لغوی معنی لیے جائیں تو اس کے دو مطالب ہوں گے:
1۔ زید اچھائی میں مقتدا ہے۔
2۔ زید برائی میں مقتدا ہے۔
اور جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو ایسی کوئی بات کرنا جس کے دو اس قدر متضاد معانی ہوں علماء کے کلام میں ہر زبان میں عار سمجھا جاتا ہے۔ مختصر المعانی اور دیگر بلاغت کی کتب میں مقتضی حال کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ (اسے تعقید کہا جاتا ہے کما فی دروس البلاغۃ)
اس لیے یہ اصطلاحی معنی کا مقام ہے جو کہ تعریف اور مدح ہے۔
پھر علم حدیث میں ہم دو چیزیں دیکھتے ہیں: عدالت اور ثقاہت۔ اور جب کسی کو تعریف کرتے وقت امام یعنی مقتدا کہا جاتا ہے تو عدالت تو ظاہر ہوتی ہی ہے ورنہ یہ اصطلاحی معنی کے مطابق تعریف ہی نہ رہے، ثقاہت بھی اس لفظ میں ضمناً موجود ہوتی ہے کیوں کہ جس شخص کو کسی فن میں امام کہا گیا ہو اگر وہ اس فن میں ضعیف الحفظ اور اور بھلکڑ ہو تو وہ لوگوں کو غلط سمت لے جائے گا اور اس طرح بھی یہ تعریف نہیں رہے گی۔

البتہ جب محدثین کسی شخص کو جرح کے ساتھ امام کہتے ہیں اس وقت یہ لغوی معنی کا مقام ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت اصطلاحی معنی لینے سے کلام میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک جانب ایسی تعریف ہو اور دوسری جانب تنقیص۔ چنانچہ اس صورت میں اس کا لغوی معنی مراد ہوتا ہے۔

یہاں یہ یاد رکھا جائے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص ایک فن میں امام ہو اور دوسرے فن میں ضعیف۔ انہیں گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ (مثلاً یہ ممکن ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ فقہ میں بے نظیر ہوں لیکن روایت حدیث میں کمزور ہوں کیوں کہ انہوں نے اس پر محنت ہی نہ کی ہو۔ (یہاں میں نے روایت کی بات کی ہے حفظ کی نہیں۔ اسے نوٹ رکھا جائے!))
ہذا ما ظہر لی۔ و اللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شاید یہ پوسٹ آپ کی نظر سے رہ گئی.
جی میں نے یہ پوسٹ پڑھی ہے ، اس کے باوجود میری وہی رائے ہے ۔ بلکہ امام کے اسی معنی و مفہوم کے پیش نظر میں یہ سمجھتا ہوں ، یہ ہونا بہت بعید ہے کہ کوئی شخص امامت کے درجہ پر فائز ہو ، اور پھر اس کے حق میں جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جی میں نے یہ پوسٹ پڑھی ہے ، اس کے باوجود میری وہی رائے ہے ۔ بلکہ امام کے اسی معنی و مفہوم کے پیش نظر میں یہ سمجھتا ہوں ، یہ ہونا بہت بعید ہے کہ کوئی شخص امامت کے درجہ پر فائز ہو ، اور پھر اس کے حق میں جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو ۔
منقول تو ہوتا ہے لیکن بسا اوقات جس محدث نے امام کہا ہو اس سے منقول نہیں ہوتا یا کم از کم اسی جگہ منقول نہیں ہوتا دوسری کتاب میں ہوتا ہے.
بہرحال آپ کی بات درست ہے. جزاک اللہ خیرا.
 
Top