جی عمر بھائی جرح موجود ہے۔ لیکن عابد ہونے کا علمی معاملات سے تعلق نہیں ہے۔ بہت بڑا عابد ہونا تعدیل ہو سکتی ہے کہ یہ شخص عادل ہے اور جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا لیکن توثیق نہیں ہو سکتی کہ یہ ثقہ بھی ہے اور بھولتا بھی نہیں ہے۔سَلْمِ بنِ مَيْمُوْنٍ الخَوَّاص كے متعلق میزان الاعتدال (2/186) میں ہے.
ابن عدی فرماتے ہیں:
ينفردُ بمتونٍ وبأسانيد مقلوبةٍ
ابن حبان فرماتے ہیں:
وكان من كبارِ عُبادِ أهلِ الشامِ ، غلب عليه الصلاحُ حتى غفل عن حفظِ الحديثِ وإتقانهِ ، فلا يحتجُ بهِ
عقیلی فرماتے ہیں:
حدث بمناكير لا يتابعُ عليها
ابو حاتم کہتے ہیں:
لا يكتبُ حديثهُ
اتنے بڑے عابد ہونے کے باوجود جرح موجود ہے.
لفظ فقیہ کا بھی معاملہ کچھ عابد جیسا ہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ شخص تفقہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر مطلقاً بغیر کسی جرح کے فقیہ کہا جائے تو یہ ظاہراً تعریف ہوگی کہ یہ شخص قرآن و حدیث سے استنباط میں ماہر ہے۔ لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں کہ اسے قرآن یا حدیث یاد بھی ہیں بلکہ ممکن ہے کہ یہ تحریر سے دیکھ کر استنباط کر سکتا ہو اس لیے جب اس کے ساتھ ضعف کی جرح جمع ہوگی تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص میں تفقہ کی صلاحیت تو ہے لیکن حفظ نہیں۔ اور اگر کذب کی جرح ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس میں تفقہ کی صلاحیت ہے لیکن یہ عادل نہیں ہے بلکہ جھوٹا ہے۔یہ لنک بھی فائدے سے خالی نہیں.
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
محترم عمر بھائی! ابن داود بھائی دراصل اس بات سے ہی اتفاق نہیں کر سکتے کہ لفظ امام بذات خود کلمہ توثیق ہو سکتا ہے اگر جرح موجود نہ ہو۔
اہم بات یہ ہے کہ جب لفظ ’ امام ‘ توثیق اور تجریح دونوں کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ، تو ہمیں اسے ثقاہت یا جرح میں سے کسی ایک معنی میں لینے پر اصرار نہیں ہونا چاہیے ۔ان امثلہ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ میرا مطلب ہے اگر ایک شخص کو امام کہہ کر ثقہ کہا گیا ہے تو اعتراض ہوگا کہ ثقہ پہلے سے تھا اور "امام" سے درجہ بتایا گیا ہے۔ اگر ایک جگہ امام اور دوسری جگہ ثقہ کہا گیا ہے تو بھی یہی اعتراض ہوگا۔ اور اگر صرف "امام" کہا گیا ہو اور کچھ نہ کہا گیا ہو تو اسے معترضین توثیق ہی نہیں مانیں گے۔ تو مثالوں کے ذکر کا طریقہ کار کیا ہو؟؟؟
نیز جب کسی راوی کو امام کہا جاتا ہے تو آخر کسی معنی میں تو کہا جاتا ہوگا۔ وہ معنی کیا ہیں جو توثیق کے ساتھ بھی جمع ہو جاتے ہیں اور جرح کے ساتھ بھی؟
شاید یہ پوسٹ آپ کی نظر سے رہ گئی.اہم بات یہ ہے کہ جب لفظ ’ امام ‘ توثیق اور تجریح دونوں کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ، تو ہمیں اسے ثقاہت یا جرح میں سے کسی ایک معنی میں لینے پر اصرار نہیں ہونا چاہیے ۔
ویسے یہ بہت بعید ہے کہ ایک شخص ’ امام ‘ بھی ہو ، اور اس کے متعلق جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو کہ ہم لفظ امام سے توثیق یا تجریح کا استدلال کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔
لفظ "امام" کا مطلب ہے جس کی اتباع اور اقتداء کی جائے۔ علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:
وفي إطلاق الشرع اسم للمقتدي به، المقتدي بالشرع۔۔۔
(1۔309، ط: كلية الآداب - جامعة طنطا)
"اور شریعت کے اطلاق میں اس کا نام ہے جس کی اقتداء کی جائے اور وہ شریعت کی پیروی کرنے والا ہو۔"
اس کے علاوہ قرآن کریم میں کم از کم دو جگہ اس لفظ کو تعریف کے لیے لایا گیا ہے:
انی جاعلک للناس اماما
و اجعلنا للمتقین اماما
ان دونوں جگہوں میں عموماً اور پہلے مقام پر خصوصاً یہ اعلی درجے کی تعریف ہے۔ یعنی ایسا بلیغ لفظ ہے کہ قرآن نے آگے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ "امام" کے دو معنی ہیں۔ ایک لغوی معنی ہے یعنی "جس کی اتباع کی جائے"۔ قطع نظر اس کے کہ وہ اتباع اچھائی میں ہو یا برائی میں۔ برائی کے لیے بھی قرآن کریم میں مذکور ہے: و جعلناہم ائمۃ یہدون الی النار۔ اور دوسرا معنی اصطلاح شرع کا ہے جس کے مطابق یہ تعریف ہے اور نہ صرف تعریف بلکہ بسا اوقات اعلی درجے کی تعریف بھی ہوتی ہے۔
جب محدثین کرام بغیر کسی جرح کے کسی شخص کو "امام" کہتے ہیں یا توثیق کے ساتھ امام کہتے ہیں تو یہ لغوی معنی کا مقام ہی نہیں ہوتا۔
ایک شخص مثلاً زید کو بغیر جرح یا تعدیل کے "امام" کہا جائے اور اس کے لغوی معنی لیے جائیں تو اس کے دو مطالب ہوں گے:
1۔ زید اچھائی میں مقتدا ہے۔
2۔ زید برائی میں مقتدا ہے۔
اور جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو ایسی کوئی بات کرنا جس کے دو اس قدر متضاد معانی ہوں علماء کے کلام میں ہر زبان میں عار سمجھا جاتا ہے۔ مختصر المعانی اور دیگر بلاغت کی کتب میں مقتضی حال کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ (اسے تعقید کہا جاتا ہے کما فی دروس البلاغۃ)
اس لیے یہ اصطلاحی معنی کا مقام ہے جو کہ تعریف اور مدح ہے۔
پھر علم حدیث میں ہم دو چیزیں دیکھتے ہیں: عدالت اور ثقاہت۔ اور جب کسی کو تعریف کرتے وقت امام یعنی مقتدا کہا جاتا ہے تو عدالت تو ظاہر ہوتی ہی ہے ورنہ یہ اصطلاحی معنی کے مطابق تعریف ہی نہ رہے، ثقاہت بھی اس لفظ میں ضمناً موجود ہوتی ہے کیوں کہ جس شخص کو کسی فن میں امام کہا گیا ہو اگر وہ اس فن میں ضعیف الحفظ اور اور بھلکڑ ہو تو وہ لوگوں کو غلط سمت لے جائے گا اور اس طرح بھی یہ تعریف نہیں رہے گی۔
البتہ جب محدثین کسی شخص کو جرح کے ساتھ امام کہتے ہیں اس وقت یہ لغوی معنی کا مقام ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت اصطلاحی معنی لینے سے کلام میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک جانب ایسی تعریف ہو اور دوسری جانب تنقیص۔ چنانچہ اس صورت میں اس کا لغوی معنی مراد ہوتا ہے۔
یہاں یہ یاد رکھا جائے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص ایک فن میں امام ہو اور دوسرے فن میں ضعیف۔ انہیں گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ (مثلاً یہ ممکن ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ فقہ میں بے نظیر ہوں لیکن روایت حدیث میں کمزور ہوں کیوں کہ انہوں نے اس پر محنت ہی نہ کی ہو۔ (یہاں میں نے روایت کی بات کی ہے حفظ کی نہیں۔ اسے نوٹ رکھا جائے!))
ہذا ما ظہر لی۔ و اللہ اعلم
جی میں نے یہ پوسٹ پڑھی ہے ، اس کے باوجود میری وہی رائے ہے ۔ بلکہ امام کے اسی معنی و مفہوم کے پیش نظر میں یہ سمجھتا ہوں ، یہ ہونا بہت بعید ہے کہ کوئی شخص امامت کے درجہ پر فائز ہو ، اور پھر اس کے حق میں جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو ۔شاید یہ پوسٹ آپ کی نظر سے رہ گئی.
منقول تو ہوتا ہے لیکن بسا اوقات جس محدث نے امام کہا ہو اس سے منقول نہیں ہوتا یا کم از کم اسی جگہ منقول نہیں ہوتا دوسری کتاب میں ہوتا ہے.جی میں نے یہ پوسٹ پڑھی ہے ، اس کے باوجود میری وہی رائے ہے ۔ بلکہ امام کے اسی معنی و مفہوم کے پیش نظر میں یہ سمجھتا ہوں ، یہ ہونا بہت بعید ہے کہ کوئی شخص امامت کے درجہ پر فائز ہو ، اور پھر اس کے حق میں جرح یا تعدیل میں سے کچھ بھی منقول نہ ہو ۔