السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ قاعدہ کس کتاب میں بیان ہوا ہے؟ درجہ ثقاہت کی صراحت کے ساتھ دکھائیے گا.
اپنی ہی پیش کی ہوئی عبارات کو سمجھتے تو یہ قاعد ہ نظر آجاتا کہ امام و حافظ کے کلمات ثقہ راوی کے درجات ثقاہت کے بیان کے لئے ہیں! یہ کلمات کسی ضعیف راوی کی ثقاہت کے اثبات کے لئے قطعی مفید نہیں!
وكما وضعوا أساس ترتيب الرواة وبذوره وضعوا أيضًا بعض المصطلحات والألفاظ التي تضع الراوي في مرتبته اللائقة به من حيث ضبطه وعدالته، ويكتفىبإطلاق مصطلح من المصطلحات هذه لبيان مدى ضبطه ومقدار حفظه وعدالته، وكل الأئمة قد أسهم تقريبًا في هذا المجال
أطلقوا -مثلًا- على أعلى درجات الضبط والعدالة من الألفاظ: "ثقة" أو "ثبت" مكررًا أو لفظ "حجة" أو "إمام"؛ قال سفيان بن عيينة في عمرو بن دينار: "ثقة"وكررها أكثر من مرة ليبين أنه في على درجات۔۔۔
(توثيق السنة في القرن الثاني الهجري أسسه واتجاهاته، ص 174، ط: مکتبۃ الخنانجی)
المرتبة الثانية: ما كرر فيه أحد ألفاظ التعديل إما لفظا كثقة ثقة، أو ثبت ثبت1 أو حجة حجة، أو معنى كثقة حجة، أو ثقة حافظ، أو ثقة حجة، أو حجة حافظ إلى نحو ذلك.
المرتبة الثالثة: ثقة، أو ثبت، أو حجة، أو إمام، أو حافظ، أو متقن، أو عدل إلى نحو ذلك.
باقی رہی ضعیف روات کے لئے کلمات تو امام ذہبی اور ابن حجر رحمہااللہ کے کلام کو دیکھیں:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
اب یہاں کیا امام ذہبی رحمہ اللہ نے پہلے عمر بن هارون ''الامام'' کہہ کر اسے مرتبہ ثانیہ کا ثقہ قرار دیا ، اور پھر اسی عبارت میں آگے اسے ضعیف قرار دیا، بلکہ یوں کہا کہ اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!
نہیں ایسا نہیں، امام ذہبی کے کلام میں تضاد نہیں، بات سیدھی سی ہے کہ امام ذہبی کا عمر بن ھارون کو ''الامام'' اور الحافظ'' لکھنا اس کی توثیق نہیں! اور یہ کلمات ضعیف رواة کی توثیق نہیں ہوتے!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے تقريب التهذيب میں عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية
اب ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے کیا عمر بن ھارون کو ''حافظ'' کہہ کر مرتبہ ثانیہ کا ثقہ قرار دیا ، اور اس سے قبل اسی جملہ میں اسے متروک بھی قرار دیا!
نہیں ایسا نہیں! امام ابن حجر العسقلانی کے کلام میں بھی تضاد نہیں، ابن حجر العسقلانی نے عمر بن ھاورون کی توثیق نہیں کی، اور نہ ہی ''حافظ'' کے کلمہ کسی ضعیف راوی کی توثیق ہوتے ہیں!
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:
ابن خِراش:الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي.
میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
اب کیا کوئی یہ کہے گا کہ امام ذہبی نے ابن خراش رافضی کو الحافظ کہہ کر اسے تیسرے درجہ کا ثقہ قرار دیا ہے؟
قطعی نہیں! امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن خراش کی قطعی کوئی توثیق نہیں کی!
یہ بھی بتا دیجیے گا کہ یہ لفظ امام ثقہ راوی کا درجہ ثقاہت بیان کرتا ہے تو ضعیف راوی میں کیا بیان کرتا ہے؟ آخر کسی مقصد سے تو لایا جاتا ہوگا نا ضعیف راوی کے لیے؟ یا ایویں ہی ذکر کیا جاتا ہے صفحات بھرنے کے لیے؟
کسی بھی لئے ضعیف رواة کے لئے امام و حافظ وغیرہ کے کلمات ادا کئے گئے ہوں، لیکن یہ بات قطعی ہے کہ توثیق کے لئے نہیں کیئے گئے! اور نہ ہی ان کلمات سے ان کی توثیق لازم آتی ہے!
باقی ! یہ نکتہ کہ کس لئے یہ الفاظ ادا کیئے گئے ہیں! تو یہ ایک دوسری بحث ہے!