ابھی تک کی گفتگو کا خلاصہ
پوسٹ نمبر24: میں میں نے موصوف کے مطالبہ کے بعد اہل الحدیث کی شرائط و اوصاف ذکر کئے
جناب ابوعبد الرافع صاحب! آپ نے فرمایا کہ وہ اوصاف گنوا دوں جو اہل الحدیث یعنی صاحب الحدیث اور اصحاب الحدیث میں پائی جانا ضروری ہے ، لہذا آپ کے مطالبہ کے مطابق میں نے ضروری سمجھا کہ ایک دفعہ ان شرائط کو بیان کر دیا جائے ملاحظہ فرمائیں
پہلی شرط:اہل الحدیث کے لئے حافظ الحدیث ہونا ضروری ہے
دوسری شرط:اہل الحدیث ہونے کے لئے عربی لغت کا جاننا ضروری ہے،
تیسری شرط:صحابہ کی سیرت اور فضائل کو جاننا ضروری ہے جو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے احادیث نقل کرتے ہیں
چوتھی شرط:صحابہ کرام سے احادیث نقل کرنے والے رواۃ کی احوال جاننا ضروری ہے۔
پانچویںشرط:رواۃ کی مکمل تاریخ معلوم ہونا ضروری ہے۔
چھٹی شرط:رواۃ سے متعلق تمام خبروں کا جاننا ضروری ہے۔
ساتویں شرط:کون سے راوی عادل ہیں ان کا جاننا ضرور ی ہے۔
آٹھویں شرط:کون سے راوی غیرعادل ہیں ان کا جاننا ضروری ہے
نویں شرط:امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک صرف کتابت حدیث کافی نہیں بلکہ حدیث پر عمل بھی ضروری ہے۔
نوٹ: امام حاکم رحمہ اللہ کی بیان کردہ اہل الحدیث کی شرائط بھی مل چکی ہیں وہ مناسب موقع پر ذکر کی جائیں گی اگر موصوف نے بات کو اگے چلنے دیا تو کیونکہ موصوف کی نیت بات کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔
پوسٹ نمبر 26: میں میری بیان کردہ شرائط اپنے نام نہاد اہل حدیث میں ثابت کرنے کی بجائے ایک دفعہ پھر موصوف کا یہ اصرار شروع ہوگیا کہ میں اہل حدیث سے عوام کے خارج ہونے کی دلیل دوں حالانکہ اہل حدیث کی شرائط بیان کرکے میں ثابت کر چکا تھا کہ جس میں یہ شرائط نہ ہوں وہ اہل حدیث نہیں، ھشیم رحمہ اللہ کی عبارت میں تو بالکل واضح تھا کہ جو حافظ الحدیث نہیں وہ اہل الحدیث نہیں۔
پوسٹ نمبر32: میں موصوف نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بات سے ایک مطلب تراشہ کہ’’ کہ اہل حدیث صرف وہ ہے جو قرآن و حدیث پر عمل کرے۔
اسی پوست میں: موصوف نے ایک نیا پلٹہ لیا اور فرمایا کہ عامل بالحدیث بھی اہل حدیث ہے، حالانکہ اہل حدیث کی شرائط میں عامل بالحدیث ہونا بھی ایک شرط ہے، موصوف کو یہ لکھنا چاہیے تھا کہ ایسا عامل بالحدیث جو اہل حدیث کی باقی شرائط پر پورا نہ اترتا ہوں وہ بھی اہل الحدیث ہے، لیکن جناب یہ ہمت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پھر اسے ثابت بھی کرنا پڑتا جو کہ ناممکن تھا۔
اسی پوسٹ میں: موصوف نے اپنے نئے تیر کو آزمانے کی کوشش کی کہ میرے پاس اب صرف دو راستے رہ گئے ہیں
یا تو میں عامل بالحدیث کو اہل حدیث شما ر کروں (حالانکہ میں نے یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ عامل بالحدیث اہل حدیث سے خارج ہے کیونکہ یہ اہل الحدیث کی شرائط میں سے بنیاد شرط ہے، میں تو صرف اس عامل بالحدیث کو خارج کہتا ہوں جو اہل حدیث کی شرائط کو پورا نہ کرے
دوسرے راستہ میں موصوف نے اہل حدیث کی محنت پر چند جملوں میں پانی پھیر دیا کہ جو اہل حدیث کی شرائط پر پورا نہ بھی اترے وہ اہل حدیث ہی ہوگا
پوسٹ نمبر33: میں موصوف نے وقت ضائع کیا اور آخر میں مجھ پر الزام لگایا کہ میں عامل بالحدیث کو اہل حدیث سےخارج کیا ہے۔
نوٹ: میں نے صرف عامل بالحدیث کو ہل الحدیث سے خارج نہیں کیا کیونکہ یہ اہل الحدیث کی بنیادی شرط ہے، میں نے ایسے عامل بالحدیث کو خارج کیا ہے جو اہل حدیث کی دیگر شرائط کو پورا نہ کرتا ہو۔
پوسٹ نمبر34: موصوف نے اپنے جھوٹے الزام کو ایک بار پھر دہرایا
پوسٹ نمبر35: میں موصوف نے ایک نرالی بات کر دی کہ محدثین ہماری گفتگو کا موضوع ہی نہیں،
حالانکہ میں نے تو اہل حدیث کا اطلاق ثابت ہی محدثین پر کرنا ہے کیونکہ میرا تو دعوی ہی یہی ہے کہ اہل حدیث کا لفظ صرف محدثین کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کہ شرائط کے ساتھ ثابت کر چکا ہوں۔
پوسٹ نمبر36: میں موصوف نے ایک بار پھر خروج کی صریح دلیل کا مطالبہ کر ڈالا حالانکہ موصوف بھی مانتے ہیں کہ خروج یا عدم اطلاق میں کوئی فرق نہیں، ھاھاھاھاھا ھاھا
پوسٹ نمبر32: میں امام احمد بن حنبلی رحمہ اللہ کے فرمان سے تراشے ہوئے من گھڑت مطلب کو ثابت کرنے کے لئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول دیا کہ ترجمہ کرکے ذرا وہ مطلب ثابت کردیں ، ابھی تک تو ثابت نہیں ہوا ہوسکتا ہے مستقبل میں کبھی کردیں۔
اسی پوسٹ میں: ان کی اپنی کتاب کا حوالہ پیش کیا جس میں امام احمد رحمہ اللہ کے قول کے نزدیک بھی اہل الحدیث یا اصحاب الحدیث سے مراد محدثین لکھا ہوا ہے
پوسٹ نمبر41: میں جناب نے چند سوالات کئے اور جواب کا مطالبہ ہاں یاناں میں کیا تاکہ میرے جواب کو اپنی مرضی کا رنگ دے کا پراپیگنڈ مہم شروع کیا جائے، لیکن ساتھ موصوف نے کہا کہ جب جواب دو گے پھر میں باقی باتوں کا جواب دونگا۔
پوسٹ نمبر42: میں موصوف کے سوالات کا تفصیلی جواب دے کر موصوف کی پراپیگنڈا مہم کی خواہش پر پانی پھر دیا لیکن کوئی جواب نہیں آیا
اسی پوسٹ میں: نام نہاد اہل حدیث کے لئے اور جہلاء کے لئے سب سے پہلے اہل حدیث کا لفظ کب اور کس کے دور میں استعمال ہوا انہی کی کتابوں سے پانچ حوالے پیش کئے جن کا جواب ابھی تک نہیں آیا
پوسٹ نمبر46 اور 47: میں موصوف نے اپنے لئے جرات و بہادری کے نعرے اور دیوبند و احناف کے لئے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عورتوں کی طرح طعنے کا سلسلہ شروع کیا
پوسٹ نمبر49: میں موصوف نے وقت ضائع کیا بلآخر وہی پرانا مطالبہ سامنے رکھ دیا کہ خارج ہونا ثابت کرو حالانکہ موصوف کے نزدیک خارج ہونے یا عدم اطلاق میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پوسٹ نمبر52: میں موصوف نے اچھا خاصہ زور لگایا، کافی خیانت کا مظاہرہ بھی کیا اور میرا دعوی لکھنے کے بعد فرمایا کہ آپ کے دعوی میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ عامل بالحدیث پر اہل حدیث نہیں بولا جاسکتا
یہ دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی کہ معلوم نہیں موصوف کے نزدیک صراحت کا کیا مطلب ہے، ویسے عام طور پر صراحت کا جو مطلب ہوتا ہے اس کے مطابق میرے دعوی میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے۔
پوسٹ نمبر53: میں موصوف نے مجھ پر دعوی سے فرار ہونے کا الزام لگایا حالانکہ میں اپنے دعوی پر دلائل مکمل کرکے جناب کے منہ پر مار چکا تھا اور موصوف کی طرف سے جواب نہ بن پڑنے کی صورت میں خارج کی بات ایسا مضبوطی سے پکڑا کہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے حالانکہ موصوف کے نزدیک بھی خارج ہونا اور عدم اطلاق ایک ہی چیز ہیں۔
پوسٹ نمبر54 تا 58: میں نے موصوف کے کچھ سوالات کے جوابات دیئے، اور موصوف سے کچھ سوالات کے جوابات کا مطالبہ کیا لیکن کیا مجال کی میرے سوالات کا جواب دیتے۔
پوسٹ نمبر59 تا 65: میں موصوف نے میرے اقتباسات کا نام تو لیا لیکن وہ اقتباسات لگائے نہیں اور ان اقتباسات کی بات کرکے خوب زور لگایا اور بالآخر نتیجہ کیا نکلا کہ’’ اہل حدیث سے عوام کے خارج ہونے کی صریح دلیل دو‘‘
اسی پوسٹ میں موصوف نےجواد بھائی کی مبشر حسن بنگش سے گفتگو کا حوالہ دیا اور عقائد پر مولانا گھمن صاحب کے عمر صدیق صاحب سے مناظرے کا حوالہ دیا حالانکہ وہاں کہانی ہی مختلف تھی، مبشر حسن بنگش تنقیحات پر ہی بھاگ گیا اور عمر صدیق جو دعوی کر رہا تھا اسے لکھ کر دینے لئے لئے ہی تیار نہیں تھا اور مولانا گھمن صاحب کا اصرار تھا کہ جو دعوی کرتے ہو اسے لکھتے کیوں نہیں اسے لکھو، جبکہ ہماری گفتگو میں ، میں نے اپنا دعوی صراحتا لکھ دیا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے،
پوسٹ نمبر68: میں موصوف نے دعوی کی تعریف کی جس کے مطابق میرا دعوی بالکل درست ہے، لیکن تعریف کی رو سے بھی میرے دعوی کو ماننے کے لئے تیار نہیں
اسی پوسٹ میں: جناب نے فرمایا کہ آپ نے کتنی دفعہ اتفاق کیا ہے اور پھر جہلاء اہل حدیث سے خارج ہیں اپنے دعوی میں بھی لکھا ہے،
لعنۃ اللہ علی الکاذبین، میں نے دعوی میں ایسے الفاظ نہیں لکھے البتہ جو الفاظ لکھے ہیں ان کا مطلب وہی ہے جو خارج ہونے کا اور جناب میرے ساتھ اتفاق کر چکے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، جب فرق نہیں ہے تو پھر عدم اطلاق کے دلائل کو برداشت کرو اور جواب دو۔
پوسٹ نمبر69: میں موصوف نے جو لکھا ہے بعینہ نقل کر دیتا ہوں لیکن اسے ثابت کرنے کی ہمت نہیں کرسکیں گے جناب
٭ارے ہمارا تو برملا اعلان ہے، اور گج وج کے ہم کہتے ہیں کہہر وہ بندہ جو عامل بالحدیث ہو، وہ اہلحدیث کہلوا سکتا ہے، اہلحدیث لکھ سکتا ہے۔ ایسی جماعت کو اہلحدیث لکھا ، بولا جاسکتا ہے۔
٭ابتسامہ ...عمل کی سستی اخراج پر دال نہیں ہوتی۔اگر ایسی بات ہے تو پھر نہ کوئی حنفی رہے گا، نہ کوئی بریلوی رہے گا ، نہ کوئی شیعہ رہے گا، نہ کوئی قادیانی رہے گا، نہ کوئی عیسائی رہے گا، نہ یہودی رہیں گے وغیرہ وغیرہ، نام آپ لیں، خارج میں کرتا جاؤنگا۔ اس لیے بچگانہ سوالات سے سہارا لینے کے بجائے ٹھوس باتیں کریں، اور اپنے دعویٰ کو ثابت کریں۔شکریہ
٭بالکل ایک حنفی بھی اہلحدیث ہوسکتا ہے، ایک شافعی بھی اور ایک حنبلی بھی اور ایک مالکی بھی۔ کیونکہ بات نام کی نہیں عمل کی ہے، جس جس کا بھی عمل قرآن وحدیث پر ہوگا وہ اہلحدیث ہے، اورچاہے وہ اپنی نسبت کس گروہ کی طرف مرضی کرے۔ یا چاہے وہ اپنے آپ کو اہلحدیث لکھے یا نہ لکھے۔ بس عمل اس کا اہل حدیث والا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے۔
٭حدیث پر سنت کا لفظ اور سنت پر حدیث کا لفظ بولا گیا ہے۔آپ کے ہی علماء سے ثابت کرسکتا ہوں
(لیکن سنت اور حدیث میں فرق کونہیں مانیں گے جناب)۔ الحمدللہ۔لیکن تھوڑا فرق کرنا ضروری ہے اہل السنۃ والجماعت میں شمولیت کا ہر فرقہ دعوے دار ہے۔جبکہ اظہر من الشمس ہے کہ ان کا اہل السنۃ والجماعت سے کوئی رشتہ ناطہ ہے ہی نہیں۔ جب یہ صورت ہے تو پھر اہل بدعت جو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت میں شامل کرتے ہیں سے فرق کرنے کےلیے لفظ اہلحدیث جو خالص کتاب وسنت پر عاملین کےلیے ہے، بولا جاتا ہے۔لکھنا، بولنا اور اس لفظ کی طرف جماعت کو منسوب کرنا اور ایسی جماعت کا یہ صفاتی نام رکھنا ثابت بھی ہے، اور رکھا بھی گیا ہے۔ اور رکھنا ضروری بھی ہے۔ تاکہ اہل بدعت سے تفریق ہوسکے۔
پوسٹ نمبر71اور 72: میں موصوف فرماتے ہیں کہ آپ نے لفظ اہل حدیث کو خاص کیا ہے تو اس کی دلیل بھی دیں، لیکن موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے صرف خاص ہی نہیں کیا بلکہ اہل حدیث کے اوصاف و شرائط بھی ذکر کردیئے ہیں، اگر شرائط اور اوصاف تخصیص کی دلیل نہیں ہے تو معلوم نہیں جناب کے ہاں تخصیص کس چیز کا نام ہے۔
لیکن موصوف خود عموم کے دعویدار ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اگر اہل الحدیث عام ہے توپھر اہل الحدیث کی شرائط کو کیا کریں گے؟؟؟ اپنے دعوی کو ثابت کرنے سے کیوں فرار ہیں عموم ثابت کریں پھر۔
پوسٹ نمبر۷۳: میں موصوف نے پہلے کی طرح کاپی پیسٹ کا طعنہ دیا لیکن یہ نہیں دیکھا کہ کاپی پیسٹ میں جو دلائل دیئے ہیں ان جواب بھی دینا ہے۔
پوست نمبر74: میں موصوف کو اطلاق کے لفظ پر بھی اعتراض ہوگیا کیونکہ یہ ان کی راہ میں رکاوٹ ہے، حالانکہ جب اصطلاح اہل حدیث کے بارے میں بات ہورہی ہے تو پھر اس اصطلاح کے اطلاق کی ہی بات ہوگی کہ کہاں اطلاق ہوگا اور کہاں نہیں۔
گزشتہ گفتگو کا خلاصہ توبیان ہوگیا
دیگر پوسٹوں کا جواب باقی ہے
جاری ہے