• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متقدمین فقہا کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ایک بات ویسے سمجھ نہیں آتی۔ جب ہم امام اعظمؒ کے تقوی اور علم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر یہ کیسے سوچیں کہ امام اعظمؒ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا ہے؟
اور آپ لوگوں کا سارا زور اسی پر کیوں ہوتا ہے کہ ہم اس قسم کے الفاظ ادا کریں "ابو حنیفہ نے قرآن کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ جاہل کو یہ بھی نہیں پتا کہ قرآن میں کیا ہے اس پر لعنت ہو" وغیرہ؟
بھائی جب ایک مسئلہ میں دلیل نہ پائیں یا کمزور پائیں تو قول کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس کے لیے ان پر تبرا ضروری ہے؟ آپ نے یقینا رفع الملام پڑھی ہوگی لیکن میرے خیال میں مناسب ہوگا کہ آپ اس کی طرف دوبارہ مراجعت فرما لیں۔
ٹھکرانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے آپ کے خیال میں؟؟
میری کوئی بات سخت لگی ہو تو معذرت لیکن آپ نے عام لوگوں کی طرح کمنٹ دیا تھا اس لیے ایسے عرض کیا۔
عزیز بھائی! میں الحمد للہ امام صاحب﷫ کے تقویٰ اور علم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اور انہیں اہل سنت کے اساطین اہل علم﷭ میں سے ایک جلیل القدر امام مانتا ہوں جس پر شاہد فورم پر بکھری ہوئی میری پوسٹس ہیں، جس پر میرے کچھ ساتھی مجھ سے نالاں بھی ہیں۔ ابتسامہ! البتہ میں انہیں ’امام اعظم‘ کہنے کے حق میں نہیں۔

شائد میرے الفاظ میں ہی کوئی کمی ہوگی جس سے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، بہرحال! یہ آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ میں نے کب کہا ہے کہ امام صاحب﷫ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فیصلہ دیا ہے؟؟؟

میں نے امام صاحب﷫ کے قول (اڑھائی سالہ مدت رضاعت) کو قرآن کے مخالف کہا ہے کیونکہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر صراحت ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔

اور کسی کا قول اگر قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کے صریح مخالف ہو تو میرا نہیں خیال کہ یہ کہنے میں کوئی گستاخی یا کسی پر تبرا ہے کہ فلاں کا قول قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کے مطابق نہیں۔

اور اسی طرح میں نے امام صاحب﷫ کو نہ ہی جاہل کہا ہے اور نہ ان پر لعنت کی ہے۔
طاہر اسلام صاحب نے ایک کمنٹ دیا تھا جس پر آپ نے اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا:
شاید آپ یہ چاہتے ہوں کہ میں آپ کی بات پڑھتے ہی ان پر مخالف حدیث، کافر اور مشرک کا فتوی لگا دوں تو آپ کی بات میرے لیے قابل احترام ضرور لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میں ایک طالب علم اور علمائے کرام کا خادِم ہوں۔
رب توفني مسلما وألحقني بالصالحين



عزیز بھائی! آپ نے شائد توجہ نہیں کی۔ میں نے اپنی پوسٹ میں کہیں نہیں کہا کہ حضرت امام ابو حنیفہ﷫ نے صریح آیت کو جھٹلایا یا ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں تھی۔ جس کا جواب دینے کی آپ نے کوشش کی ہے۔

میں نے اپنی دونوں پوسٹس آپ کے ایک جملے کے جواب میں لکھی تھیں۔ اور جس بات کے جواب میں لکھی تھی اسے ہائی لائٹ بھی کیا تھا۔ (دیکھئے میری پوسٹ نمبر 44 اور 57)

آپ نے کہا تھا:

میں نے آپ کے اس دعویٰ کے جواب میں دو مثالیں پیش کی ہیں۔ جن میں دونوں حضرات نے صریح نص کو چھوڑ کر تقلید سے کام لیا ہے۔

ايك صاحب کو اقرار ہے کہ خیار مجلس میں امام شافعی﷫ کا موقف نصوص کے مطابق ہے لیکن اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں ہم پر نبی کریمﷺ کی احادیث کی نہیں، امام ابو حنیفہ﷫ کی تقلید واجب ہے۔

دوسرے مولانا عثمانی﷫ قرآن کریم کی تشریح فرما رہے ہیں رضاعت کے متعلق ایک نہایت صریح آیت کریمہ (جس میں دو سال رضاعت کا ذکر ہے: وفصاله في عامين) کی تشریح کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ﷫ کا قول ذکر کرتے ہیں اور بقول آپ کے انہیں امام صاحب کی دلیل کا پتہ نہیں یا پتہ تو ہے لیکن اس کی دلالت ان کے نزدیک درست نہیں۔ اس سب کے باوجود وہ امام صاحب﷫ کے قول کو ردّ کرکے قرآن کریم پر عمل کرنے کی بجائے قاری کو یہی مغالطہ دیتے ہیں کہ امام صاحب کے پاس اڑھائی سال رضاعت کی کوئی دلیل ہوگی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!

اللہ تعالیٰ ان کی لغزشیں معاف اور قبریں منوّر فرمائیں اور ہم سب کو کتاب وسنت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔


میں نے واضح کر دیا ہے کہ میرا اعتراض امام ابو حنیفہ﷫ یا ان احناف پر نہیں جن کے نزدیک مدت رضاعت دو سال ہے۔ میرا اعتراض مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہما اللہ پر ہے۔
میرے محترم و مکرم بھائی صریح احکامات وہ ہوتے ہیں جن میں گنجائش اختلاف نہ ہو جب کہ ان میں دوسری جانب دلائل اور اختلاف دونوں ہی موجود ہیں اس لیے ان میں تقلید ہو رہی ہے۔
جن میں گنجائش اختلاف نہ ہو جیسے:۔ نماز قائم کرنے کا حکم، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے روزے کا حکم، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے سود کی ممانعت، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے رشوت کی ممانعت، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے حج ایک بار فرض ہونا، اس کا کوئی منکر نہیں۔
ان میں تقلید بھی نہیں ہوتی۔ ضرورت ہی نہیں ہے تو تقلید کیوں ہوگی؟
میں نے صریح نص کا نہیں صریح احکامات و معاملات کا ذکر کیا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عزیز بھائی! میں الحمد للہ امام صاحب﷫ کے تقویٰ اور علم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اور انہیں اہل سنت کے اساطین اہل علم﷭ میں سے ایک جلیل القدر امام مانتا ہوں جس پر شاہد فورم پر بکھری ہوئی میری پوسٹس ہیں، جس پر میرے کچھ ساتھی مجھ سے نالاں بھی ہیں۔ ابتسامہ! البتہ میں انہیں ’امام اعظم‘ کہنے کے حق میں نہیں۔

شائد میرے الفاظ میں ہی کوئی کمی ہوگی جس سے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، بہرحال! یہ آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ میں نے کب کہا ہے کہ امام صاحب﷫ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فیصلہ دیا ہے؟؟؟

میں نے امام صاحب﷫ کے قول (اڑھائی سالہ مدت رضاعت) کو قرآن کے مخالف کہا ہے کیونکہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر صراحت ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔

اور کسی کا قول اگر قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کے صریح مخالف ہو تو میرا نہیں خیال کہ یہ کہنے میں کوئی گستاخی یا کسی پر تبرا ہے کہ فلاں کا قول قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کے مطابق نہیں۔

اور اسی طرح میں نے امام صاحب﷫ کو نہ ہی جاہل کہا ہے اور نہ ان پر لعنت کی ہے۔
طاہر اسلام صاحب نے ایک کمنٹ دیا تھا جس پر آپ نے اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا:
میں معذرت چاہتا ہوں لیکن عموما یہاں کچھ اسی قسم کا تجربہ رہا ہے اس لیے ذرا بھی اس قسم کے الفاظ سے اسی کا گمان ہوتا ہے۔
آپ وضاحت کر دیں تو میں کون ہوں کہ قبول نہ کروں (ابتسامہ)۔
اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
صریح معاملات و احکام میں تقلید تو کوئی بھی نہیں کرتا۔
تیسری مثال اشماریہ بھائی! آپ کی اپنی ہے۔ ابتسامہ! درج بالا دونوں مسئلوں (خیارِ مجلس اور مدت رضاعت) میں آپ نے بھی اپنے علماء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صریح نصوص کو تسلیم کرنے کی بجائے تقلید کی روش کو ہی اپنایا ہے۔

میرے خیال میں آپ نے اس سلسلے میں ابو الحسن کرخی کے اصول پر عمل کیا ہے:
الأصل أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح، والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تیسری مثال اشماریہ بھائی! آپ کی اپنی ہے۔ ابتسامہ! درج بالا دونوں مسئلوں (خیارِ مجلس اور مدت رضاعت) میں آپ نے بھی اپنے علماء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صریح نصوص کو تسلیم کرنے کی بجائے تقلید کی روش کو ہی اپنایا ہے۔
میرے خیال میں آپ نے اس سلسلے میں ابو الحسن کرخی کے اصول پر عمل کیا ہے:
الأصل أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح، والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق


ابتسامہ
میری پوسٹ پڑھیے۔
میرے محترم و مکرم بھائی صریح احکامات وہ ہوتے ہیں جن میں گنجائش اختلاف نہ ہو جب کہ ان میں دوسری جانب دلائل اور اختلاف دونوں ہی موجود ہیں اس لیے ان میں تقلید ہو رہی ہے۔
جن میں گنجائش اختلاف نہ ہو جیسے:۔ نماز قائم کرنے کا حکم، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے روزے کا حکم، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے سود کی ممانعت، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے رشوت کی ممانعت، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے حج ایک بار فرض ہونا، اس کا کوئی منکر نہیں۔
ان میں تقلید بھی نہیں ہوتی۔ ضرورت ہی نہیں ہے تو تقلید کیوں ہوگی؟
میں نے صریح نص کا نہیں صریح احکامات و معاملات کا ذکر کیا ہے۔



ویسے اس اصول کے بارے میں بندہ نے رائے کا اظہار کیا تھا۔ اگر آپ ملاحظہ فرمائیں۔ لنک
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
گویا اجماعی قسم کے مسائل کو چھوڑ کر باقی میں تقلید ضروری ہے؛اور اس کے لیے محض اتنا ہی کافی ہے کہ ایک مجتہد نے اس سے اختلاف کر لیا ہے؛اب جس نے کسی امام کا قلادہ پہن لیا، وہ اس پر جم جائےاس پر تنقید کی ضرورت نہیں،کیوں کہ اس کے پاس دلیل تو ہے نا!
جناب من! اگر اس کی دلیل کا ضعف کھل کر سامنے آجاتا ہے ،تو پھر بھی وہ اسی سے چمٹا رہے؟؟ اس طرح تو یہ فرقہ وارانہ خلیج کم نہ ہو گی؛نہ بریلوی اپنے مسلک سے ہٹے گا،نہ شیعہ اس سے رجوع پر آمادہ ہوگا اور نہ کوئی دوسرا اپنے مسلک کو چھوڑے گا؛نتیجہ؟جو جہاں لگا ہے ،اسے لگا رہنے دو ؛تو بھائی،دوسروں کے رد میں اتنی کتابیں لکھنے کا کیا فائدہ؟سبھی کو اپنے پسند کے امام کی تقلید کا حق حاصل ہے!!
غالباًٍ اسی بنا پر مولانا عامر عثمانی مرحوم نے، ایک سائل کے اس مطالبے کے جواب میں کہ اس کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دیا جائے، فرمایا تھا کہ مقلد کو دلیل کے مطالبے کا حق ہی حاصل نہیں؛اب سارے اسی اصول پر عمل کریں، تو جو نتیجہ ہو گا،وہ ظاہر ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
گویا اجماعی قسم کے مسائل کو چھوڑ کر باقی میں تقلید ضروری ہے؛اور اس کے لیے محض اتنا ہی کافی ہے کہ ایک مجتہد نے اس سے اختلاف کر لیا ہے؛اب جس نے کسی امام کا قلادہ پہن لیا، وہ اس پر جم جائےاس پر تنقید کی ضرورت نہیں،کیوں کہ اس کے پاس دلیل تو ہے نا!
جناب من! اگر اس کی دلیل کا ضعف کھل کر سامنے آجاتا ہے ،تو پھر بھی وہ اسی سے چمٹا رہے؟؟ اس طرح تو یہ فرقہ وارانہ خلیج کم نہ ہو گی؛نہ بریلوی اپنے مسلک سے ہٹے گا،نہ شیعہ اس سے رجوع پر آمادہ ہوگا اور نہ کوئی دوسرا اپنے مسلک کو چھوڑے گا؛نتیجہ؟جو جہاں لگا ہے ،اسے لگا رہنے دو ؛تو بھائی،دوسروں کے رد میں اتنی کتابیں لکھنے کا کیا فائدہ؟سبھی کو اپنے پسند کے امام کی تقلید کا حق حاصل ہے!!
غالباًٍ اسی بنا پر مولانا عامر عثمانی مرحوم نے، ایک سائل کے اس مطالبے کے جواب میں کہ اس کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دیا جائے، فرمایا تھا کہ مقلد کو دلیل کے مطالبے کا حق ہی حاصل نہیں؛اب سارے اسی اصول پر عمل کریں، تو جو نتیجہ ہو گا،وہ ظاہر ہے۔
مولانا نے کس وقت اور کس تناظر میں یہ کہا تھا نہ مجھے اس کا علم ہے اور نہ میں اس بات سے متفق ہوں۔
دلیل کے ضعف کے بعد چھوڑ تو دیا جاتا ہے مسئلہ کو پھر مزید کیا رہ گیا ہے میرے بھائی؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مولانا نے کس وقت اور کس تناظر میں یہ کہا تھا نہ مجھے اس کا علم ہے اور نہ میں اس بات سے متفق ہوں۔
دلیل کے ضعف کے بعد چھوڑ تو دیا جاتا ہے مسئلہ کو پھر مزید کیا رہ گیا ہے میرے بھائی؟

عامر عثمانی دیو بندی (ایڈیٹر ماھنامہ ،، تجلی جو دیو بند سے جاری ہوتا ہے ) سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
یہ تو جواب ہوا اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہ دیں جو آپ (سائل ) نے سوال کے اختتام پر سپرد قلم کیا ہے یعنی حدیث رسولﷺ سے جواب دیں،،اس نوع کا مطا لبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ در اصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجھ ہے کہ مقلدین کے لیئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ آئمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ھے ( ماہنامہ تجلی ص ۹ شمارہ نمبر ۱۱ ماہ جنوری فروری ۱۹۶۷ ص ۴۷)

رہا آپ کا اس بات سے متفق نہ ہونا، تو عرض ہے کہ ہمارا اعتراض احناف کے منہج پر ہوتا ہے، آپ کی ذات پر نہیں۔ آپ کا اس سے متفق نہ ہونا اس سبب سے بھی ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں آپ اہلحدیث سے شدید متاثر ہو کر اہلحدیث ہوتے ہوتے رہ گئے تھے۔ شاید دل میں اب بھی اہلحدیث کے منہج سے اتفاق رکھتے ہوں گے، اسی لئے علمائے احناف سے اختلاف رکھتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میرے محترم و مکرم بھائی صریح احکامات وہ ہوتے ہیں جن میں گنجائش اختلاف نہ ہو جب کہ ان میں دوسری جانب دلائل اور اختلاف دونوں ہی موجود ہیں اس لیے ان میں تقلید ہو رہی ہے۔
جن میں گنجائش اختلاف نہ ہو جیسے:۔ نماز قائم کرنے کا حکم، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے روزے کا حکم، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے سود کی ممانعت، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے رشوت کی ممانعت، اس کا کوئی منکر نہیں۔ جیسے حج ایک بار فرض ہونا، اس کا کوئی منکر نہیں۔
ان میں تقلید بھی نہیں ہوتی۔ ضرورت ہی نہیں ہے تو تقلید کیوں ہوگی؟
گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اجماعی مسائل (مثلاً نماز وروزے وحج کی فرضیت، سود ورشوت کی ممانعت وغیرہ وغیرہ) میں تقلید کی ضرورت نہیں۔

میرے بھائی! اجماعی مسائل میں تقلید کون کرے گا؟! جب اس میں کسی کا اختلاف ہی نہیں ہے۔ پھر اجماع بذات خود ایک دلیل ہے۔ دلیل کی پیروی کو تو تقلید کہتے ہی نہیں۔ مسلم الثبوت میں ہے:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه

میں نے
صریح نص کا نہیں صریح احکامات ومعاملات کا ذکر کیا ہے۔
گویا آپ کے نزدیک صحیح وصریح نص کے خلاف قول کی تقلید ہو سکتی ہے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون! اسی بات کا عملی مظاہرہ آپ کے علماء اور پچھلی پوسٹس میں آپ نے کیا ہے۔ احناف کی اسی تقلید جامد کی روِش سے ہمیں اختلاف ہے۔

میرے بھائی! میں تو جواب میں صرف یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈریں اور درج ذیل آیات کریمہ پر غور کریں! (اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں!)
﴿ أَلا يَظُنُّ أُولـٰئِكَ أَنَّهُم مَبعوثونَ ٤ لِيَومٍ عَظيمٍ ٥ يَومَ يَقومُ النّاسُ لِرَبِّ العـٰلَمينَ ٦ ﴾ سورة المطففين

﴿ المص ١ كِتـٰبٌ أُنزِلَ إِلَيكَ فَلا يَكُن فى صَدرِكَ حَرَجٌ مِنهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكرىٰ لِلمُؤمِنينَ ٢ اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَبِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ۗ قَليلًا ما تَذَكَّرونَ ٣ وَكَم مِن قَريَةٍ أَهلَكنـٰها فَجاءَها بَأسُنا بَيـٰتًا أَو هُم قائِلونَ ٤ فَما كانَ دَعوىٰهُم إِذ جاءَهُم بَأسُنا إِلّا أَن قالوا إِنّا كُنّا ظـٰلِمينَ ٥ فَلَنَسـَٔلَنَّ الَّذينَ أُرسِلَ إِلَيهِم وَلَنَسـَٔلَنَّ المُرسَلينَ ٦ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيهِم بِعِلمٍ ۖ وَما كُنّا غائِبينَ ٧ وَالوَزنُ يَومَئِذٍ الحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَت مَوٰزينُهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ٨ وَمَن خَفَّت مَوٰزينُهُ فَأُولـٰئِكَ الَّذينَ خَسِروا أَنفُسَهُم بِما كانوا بِـٔايـٰتِنا يَظلِمونَ ٩ ﴾ سورة الأعراف

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
مرجوح قول پر عمل کیا جا سکتا ہے یہ تو سب ہی مانتے ہیں غالبا۔
مرجوح قول کی تمہارے نزدیک کیا حیثیت ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں:
وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل و خرق لا جماع
اور یہ کہ قاضی کا حکم اور مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت ہے اور اجماع کا پھاڑنا ہے یعنی حرام اور باطل ہے (در مختار ج ۱ /ص۱۴
جناب تقلید کی وجہ سے آپ کے علم کو زنگ لگ رہا ہے ذرا ہوش کے ناخن لیں جزاک اللہ
 
Top