• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متقدمین فقہا کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل و خرق لا جماع
اور یہ کہ قاضی کا حکم اور مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت ہے اور اجماع کا پھاڑنا ہے یعنی حرام اور باطل ہے (در مختارج1،ص14)
اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ اس سے مراد اپنے مذہب کا مرجوح قول ہے،نہ کہ کسی عالم کا اپنا مرجوح قول؛کیوں بھائی،یہی ہے نا جواب؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اجماعی مسائل (مثلاً نماز وروزے وحج کی فرضیت، سود ورشوت کی ممانعت وغیرہ وغیرہ) میں تقلید کی ضرورت نہیں۔

میرے بھائی! اجماعی مسائل میں تقلید کون کرے گا؟! جب اس میں کسی کا اختلاف ہی نہیں ہے۔ پھر اجماع بذات خود ایک دلیل ہے۔ دلیل کی پیروی کو تو تقلید کہتے ہی نہیں۔ مسلم الثبوت میں ہے:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه


گویا آپ کے نزدیک صحیح وصریح نص کے خلاف قول کی تقلید ہو سکتی ہے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون! اسی بات کا عملی مظاہرہ آپ کے علماء اور پچھلی پوسٹس میں آپ نے کیا ہے۔ احناف کی اسی تقلید جامد کی روِش سے ہمیں اختلاف ہے۔

میرے بھائی! میں تو جواب میں صرف یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈریں اور درج ذیل آیات کریمہ پر غور کریں! (اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں!)
﴿ أَلا يَظُنُّ أُولـٰئِكَ أَنَّهُم مَبعوثونَ ٤ لِيَومٍ عَظيمٍ ٥ يَومَ يَقومُ النّاسُ لِرَبِّ العـٰلَمينَ ٦ ﴾ سورة المطففين

﴿ المص ١ كِتـٰبٌ أُنزِلَ إِلَيكَ فَلا يَكُن فى صَدرِكَ حَرَجٌ مِنهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكرىٰ لِلمُؤمِنينَ ٢ اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَبِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ۗ قَليلًا ما تَذَكَّرونَ ٣ وَكَم مِن قَريَةٍ أَهلَكنـٰها فَجاءَها بَأسُنا بَيـٰتًا أَو هُم قائِلونَ ٤ فَما كانَ دَعوىٰهُم إِذ جاءَهُم بَأسُنا إِلّا أَن قالوا إِنّا كُنّا ظـٰلِمينَ ٥ فَلَنَسـَٔلَنَّ الَّذينَ أُرسِلَ إِلَيهِم وَلَنَسـَٔلَنَّ المُرسَلينَ ٦ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيهِم بِعِلمٍ ۖ وَما كُنّا غائِبينَ ٧ وَالوَزنُ يَومَئِذٍ الحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَت مَوٰزينُهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ٨ وَمَن خَفَّت مَوٰزينُهُ فَأُولـٰئِكَ الَّذينَ خَسِروا أَنفُسَهُم بِما كانوا بِـٔايـٰتِنا يَظلِمونَ ٩ ﴾ سورة الأعراف

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
ٹھیک ہے آپ اسے تقلید میں نہ مان لیں لیکن دعوی یہ ہے کہ صریح معاملات میں تقلید نہیں ہوتی۔ وہ تو ثابت ہو ہی رہا ہے۔ صریح معاملات آخر دلیل سے ہی واضح ہوتے ہیں چاہے وہ قرآن ہو، حدیث ہو یا اجماع ہو۔

میرے محترم بسا اوقات نص صریح ہوتی ہے لیکن اس کے معارض ایک اور نص صریح موجود ہوتی ہے۔
کیا آپ ان میں سے ایک پر عمل نہیں کرتے؟ اور کیا آپ کے عوام آپ علماء کی بتائی ہوئی ترجیح پر اعتماد کر کے جو کہ ایک قول ہی ہوتا ہے ایک پر عمل پیرا نہیں ہوتے؟
یہ تو مشہور ہے کہ ابحاث میں نص صحیح صریح غیر متعارض مانگی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ تینوں بذات خود الگ الگ شرائط ہیں۔ میں نے یہ سوچ کر ہی لکھا تھا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مرجوح قول کی تمہارے نزدیک کیا حیثیت ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں:
وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل و خرق لا جماع
اور یہ کہ قاضی کا حکم اور مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت ہے اور اجماع کا پھاڑنا ہے یعنی حرام اور باطل ہے (در مختار ج ۱ /ص۱۴
جناب تقلید کی وجہ سے آپ کے علم کو زنگ لگ رہا ہے ذرا ہوش کے ناخن لیں جزاک اللہ


اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ اس سے مراد اپنے مذہب کا مرجوح قول ہے،نہ کہ کسی عالم کا اپنا مرجوح قول؛کیوں بھائی،یہی ہے نا جواب؟؟
جواب آپ نے دے دیا۔ جزاک اللہ خیرا
لیکن تاویل نہیں مراد یہ ہے۔ خود ہی پڑھ لیں کہ بات کتابوں میں موجود اقوال کی ہو رہی ہے:۔


ثم رأيت في رسالة آداب المفتي: إذا ذيلت رواية في كتاب يعتمد بالأصح أو الأولى، أو الأوفق أو نحوها، فله أن يفتي بها وبمخالفها أيضا أيا شاء، وإذا ذيلت بالصحيح أو المأخوذ به، أو وبه يفتى، أو عليه الفتوى لم يفت بمخالفه إلا إذا كان في الهداية مثلا هو الصحيح. وفي الكافي بمخالفه هو الصحيح فيخير فيختار الأقوى عنده والأليق والأصلح اهـ فليحفظ
وحاصل ما ذكره الشيخ قاسم في تصحيحه: أنه لا فرق بين المفتي والقاضي إلا أن المفتي مخبر عن الحكم والقاضي ملزم به، وأن الحكم والفتيا بالقول المرجوح جهل وخرق للإجماع،

ابن عابدین کی شرح بھی پڑھ لیجیے۔
(قوله: وأن الحكم والفتيا إلخ) وكذا العمل به لنفسه. قال العلامة الشرنبلالي في رسالته [العقد الفريد في جواز التقليد] : مقتضى مذهب الشافعي كما قاله السبكي منع العمل بالقول المرجوح في القضاء والإفتاء دون العمل لنفسه. مطلب لا يجوز العمل بالضعيف حتى لنفسه عندنا
ومذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتى لنفسه لكون المرجوع صار منسوخا اهـ فليحفظ، وقيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنى النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه، نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عاميا فلم أره، لكن مقتضى تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك. قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنى النصوص والأخبار وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه اهـ.
قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة، فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة، ثم قال: وفي المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا. اهـ. وكذا قول أبي يوسف في المني إذا خرج بعد فتور الشهوة لا يجب به الغسل ضعيف، وأجازوا العمل به للمسافر أو الضيف الذي خاف الريبة كما سيأتي في محله وذلك من مواضع الضرورة.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جواب آپ نے دے دیا۔ جزاک اللہ خیرا
لیکن تاویل نہیں مراد یہ ہے۔ خود ہی پڑھ لیں کہ بات کتابوں میں موجود اقوال کی ہو رہی ہے:۔


ثم رأيت في رسالة آداب المفتي: إذا ذيلت رواية في كتاب يعتمد بالأصح أو الأولى، أو الأوفق أو نحوها، فله أن يفتي بها وبمخالفها أيضا أيا شاء، وإذا ذيلت بالصحيح أو المأخوذ به، أو وبه يفتى، أو عليه الفتوى لم يفت بمخالفه إلا إذا كان في الهداية مثلا هو الصحيح. وفي الكافي بمخالفه هو الصحيح فيخير فيختار الأقوى عنده والأليق والأصلح اهـ فليحفظ
وحاصل ما ذكره الشيخ قاسم في تصحيحه: أنه لا فرق بين المفتي والقاضي إلا أن المفتي مخبر عن الحكم والقاضي ملزم به، وأن الحكم والفتيا بالقول المرجوح جهل وخرق للإجماع،

ابن عابدین کی شرح بھی پڑھ لیجیے۔
(قوله: وأن الحكم والفتيا إلخ) وكذا العمل به لنفسه. قال العلامة الشرنبلالي في رسالته [العقد الفريد في جواز التقليد] : مقتضى مذهب الشافعي كما قاله السبكي منع العمل بالقول المرجوح في القضاء والإفتاء دون العمل لنفسه. مطلب لا يجوز العمل بالضعيف حتى لنفسه عندنا
ومذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتى لنفسه لكون المرجوع صار منسوخا اهـ فليحفظ، وقيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنى النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه، نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عاميا فلم أره، لكن مقتضى تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك. قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنى النصوص والأخبار وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه اهـ.
قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة، فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة، ثم قال: وفي المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا. اهـ. وكذا قول أبي يوسف في المني إذا خرج بعد فتور الشهوة لا يجب به الغسل ضعيف، وأجازوا العمل به للمسافر أو الضيف الذي خاف الريبة كما سيأتي في محله وذلك من مواضع الضرورة.
شاید اس کا ترجمہ اس لیے نہین کیا گیا تا کہ لوگوں کو اصل بات کا علم نہ ہوجاے ، یا اس لیے نہین کیا گیا کہ ترجمہ کرنا آتا ہی نہین ہے ، جس طرح میں نے دو ٹوک بات کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی کیا ہے اس طرح بات کرو تا کہ بات واضح ہو جاے یا کم از کم محل شاہد کا ترجمہ تو ضرور کرو
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
شاید اس کا ترجمہ اس لیے نہین کیا گیا تا کہ لوگوں کو اصل بات کا علم نہ ہوجاے ، یا اس لیے نہین کیا گیا کہ ترجمہ کرنا آتا ہی نہین ہے ، جس طرح میں نے دو ٹوک بات کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی کیا ہے اس طرح بات کرو تا کہ بات واضح ہو جاے یا کم از کم محل شاہد کا ترجمہ تو ضرور کرو
آپ کی طرح فارغ نہیں بیٹھا ہوتا۔ آپ نے خود ترجمہ کیا ہے کیا؟؟
اگر خود ترجمہ کر سکتے ہیں تو اس کا بھی کر کے سمجھ لیں ورنہ دوسروں کا کیا ہوا ترجمہ لگانا بہت آسان ہے خود کرنے میں وقت لگتا ہے بھائی جان۔ جب ان بحثوں میں گھسنا ہو اور عربی عبارات پر اعتراض کرنا ہو تو کچھ سیکھ کر آیا کریں۔ یہ تو نری تقلید ہے کہ کسی نے ایک ٹکڑے کا ترجمہ کر دیا اور آپ نے لگا دیا۔ جس سے ٹکڑے کا ترجمہ کیا ہے اسی سے باقی کا بھی کروا لو اور اسے کہو کہ جاہل آدمی مجھے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ بتاتے ہو۔ میں نے قیامت میں خدا کو منہ بھی دکھانا ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
مجھے
آپ کی طرح فارغ نہیں بیٹھا ہوتا۔ آپ نے خود ترجمہ کیا ہے کیا؟؟
اگر خود ترجمہ کر سکتے ہیں تو اس کا بھی کر کے سمجھ لیں ورنہ دوسروں کا کیا ہوا ترجمہ لگانا بہت آسان ہے خود کرنے میں وقت لگتا ہے بھائی جان۔ جب ان بحثوں میں گھسنا ہو اور عربی عبارات پر اعتراض کرنا ہو تو کچھ سیکھ کر آیا کریں۔ یہ تو نری تقلید ہے کہ کسی نے ایک ٹکڑے کا ترجمہ کر دیا اور آپ نے لگا دیا۔ جس سے ٹکڑے کا ترجمہ کیا ہے اسی سے باقی کا بھی کروا لو اور اسے کہو کہ جاہل آدمی مجھے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ بتاتے ہو۔ میں نے قیامت میں خدا کو منہ بھی دکھانا ہے۔
پتہ تھا کہ تمہارے اندر وہ قابلیت ہی نہین کہ ترجمہ کر سکو اور ترجمہ بھی اسلیے نہین کیا ہے کہ جھوٹ پکڑا جاے گا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کی طرح فارغ نہیں بیٹھا ہوتا۔ آپ نے خود ترجمہ کیا ہے کیا؟؟
اگر خود ترجمہ کر سکتے ہیں تو اس کا بھی کر کے سمجھ لیں ورنہ دوسروں کا کیا ہوا ترجمہ لگانا بہت آسان ہے خود کرنے میں وقت لگتا ہے بھائی جان۔ جب ان بحثوں میں گھسنا ہو اور عربی عبارات پر اعتراض کرنا ہو تو کچھ سیکھ کر آیا کریں۔ یہ تو نری تقلید ہے کہ کسی نے ایک ٹکڑے کا ترجمہ کر دیا اور آپ نے لگا دیا۔ جس سے ٹکڑے کا ترجمہ کیا ہے اسی سے باقی کا بھی کروا لو اور اسے کہو کہ جاہل آدمی مجھے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ بتاتے ہو۔ میں نے قیامت میں خدا کو منہ بھی دکھانا ہے۔
اس طرح کی واضح اور دو ٹوک بات کرو :وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل و خرق لا جماع
اور یہ کہ قاضی کا حکم اور مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت ہے اور اجماع کا پھاڑنا ہے یعنی حرام اور باطل ہے (در مختار ج ۱ /ص۱۴
کیا اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی ہے؟؟؟
جناب تقلید کی وجہ سے آپ کے علم کو زنگ لگ رہا ہے ذرا ہوش کے ناخن لیں جزاک اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عامر عثمانی دیو بندی (ایڈیٹر ماھنامہ ،، تجلی جو دیو بند سے جاری ہوتا ہے ) سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
یہ تو جواب ہوا اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہ دیں جو آپ (سائل ) نے سوال کے اختتام پر سپرد قلم کیا ہے یعنی حدیث رسولﷺ سے جواب دیں،،اس نوع کا مطا لبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ در اصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجھ ہے کہ مقلدین کے لیئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ آئمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ھے ( ماہنامہ تجلی ص ۹ شمارہ نمبر ۱۱ ماہ جنوری فروری ۱۹۶۷ ص ۴۷)

رہا آپ کا اس بات سے متفق نہ ہونا، تو عرض ہے کہ ہمارا اعتراض احناف کے منہج پر ہوتا ہے، آپ کی ذات پر نہیں۔ آپ کا اس سے متفق نہ ہونا اس سبب سے بھی ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں آپ اہلحدیث سے شدید متاثر ہو کر اہلحدیث ہوتے ہوتے رہ گئے تھے۔ شاید دل میں اب بھی اہلحدیث کے منہج سے اتفاق رکھتے ہوں گے، اسی لئے علمائے احناف سے اختلاف رکھتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
شاکر بھائی۔ ویسے اس قول کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مختلف روایات سے استنباط کر کے جو مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے اسے بعض اوقات بہت سے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ دوسرا میں نے کثرت سے دیکھا ہے کہ ایک مسئلہ تو دلیل کے ساتھ ہم بتا دیتے ہیں آگے دس مسئلہ الٹے سیدھے استنباط کر کے لوگ خود نکال لیتے ہیں حالاں کہ وہ بعض صریح نصوص کے بھی خلاف ہوتے ہیں۔ جن میں واضح نصوص ہوتی ہیں ان میں بہت سے علماء دلیل بیان کر دیتے ہیں اس لیے اسے منہج احناف نہیں کہہ سکتے۔
بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت سخت مقلد ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عوام دلیل کو صحیح طرح سمجھ ہی نہیں سکیں گے تو وہ ان میں بھی اقوال فقہاء پر اکتفا کرتے ہیں۔
اس وجہ کو احسن الفتاوی میں مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ ایک انتظامی وجہ ہے کوئی نص قرآنی نہیں۔ کوئی بیان کر سکے واضح کر کے تو کردے۔

میں متفق اس وجہ سے بھی نہیں ہوں کہ اول تو میں اکثر جگہوں پر بیان کر سکتا ہوں۔ اور ثانیا اس لیے کہ میرے اساتذہ میں چند کے علاوہ اکثر معتدل اور کھلے ذہن کے حامی رہے ہیں۔ بلکہ ایک استاد تو یہاں تک فرماتے تھے کہ جو مسائل قرآن و حدیث میں ملتے ہیں ان کے حوالے میں آیات و روایات ہی لکھنی چاہئیں فقہاء کے اقوال نہیں۔ میں ذرا ایڈیشن کر کے کہتا ہوں کہ قرآن و حدیث کے ساتھ فقہاء کے اقوال بھی لکھنے چاہئیں۔
بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں جو ہر چیز میں ماضی کے طرز پر سختی سے جمے رہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے۔ ان کے اخلاص میں ہم شبہ نہیں کر سکتے۔

مختصرا یہ کہ رائے کا اتفاق نہ ہونا بسا اوقات ماحول اور تربیت کے فرق سے بھی ہوتا ہے۔ میرے اکثر ساتھی جو اپنی رائے رکھتے ہیں وہ اپنی الگ رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ جو نہیں رکھتے وہ انہی کی رائے پر اکتفا کرتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مجھے
پتہ تھا کہ تمہارے اندر وہ قابلیت ہی نہین کہ ترجمہ کر سکو اور ترجمہ بھی اسلیے نہین کیا ہے کہ جھوٹ پکڑا جاے گا
ہاں جی میں تو ٹھہرا جاہل۔ بغیر پڑھے مجھے الہام ہوجاتا ہے نا کہ فلاں جگہ فلاں بات لکھی ہوگی وہاں سے اٹھا لوں؟
آپ ماشاء اللہ قابل شخص ہیں۔ مجھ پر ہزار احسان فرمائیے اور اس کا ترجمہ مرحمت فرمائیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس طرح کی واضح اور دو ٹوک بات کرو :وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل و خرق لا جماع
اور یہ کہ قاضی کا حکم اور مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت ہے اور اجماع کا پھاڑنا ہے یعنی حرام اور باطل ہے (در مختار ج ۱ /ص۱۴
کیا اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی ہے؟؟؟
جناب تقلید کی وجہ سے آپ کے علم کو زنگ لگ رہا ہے ذرا ہوش کے ناخن لیں جزاک اللہ
اس سے بھی زیادہ دوٹوک بات عربی میں لکھی ہے۔
میرے محترم آپ ماشاء اللہ دوٹوک بات کرنے والے ترجمہ کے ساتھ پیش کرنے والے شخص ہیں۔ میری عبارت کا بھی ترجمہ فرما کر مجھے شکرگزار ہونے کا موقع عنایت فرمائیے۔
 
Top