جنا ب کا دعوی یہ تھا کہ سب کے نزدیک مرجوح قول کے مطابق فتوی دینا ٹھیک ہے اور اس کی دلیل یہ دی گئی ہے:
جب کسی کتاب میں کسی روایت کو ذیل (اضافہ، حاشیہ۔۔۔ ناقل) میں ذکر ہو تو اصح یا اولی پر اعتماد کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ الی آخرہ
یہاں کتاب میں موجود اقوال پر فتوی و حکم کا ذکر ہے۔
"میں کہتا ہوں: لیکن یہ ضرورت کے علاوہ کی جگہوں پر ہے۔ بحر الرائق کی حیض کی بحث میں خون کے رنگوں کی بحث میں ضعیف قول ذکر کیے ہیں۔ پھر کہا: معراج میں فخر الائمۃ سے مروی ہے: اگر کوئی مفتی ان اقوال میں سے ضرورت کے مواقع پر کسی قول پر فتوی دے آسانی کے لیے تو یہ بہتر ہے۔"
ضرورت سے مراد ضرورت شرعیہ ہوتی ہے لیکن اس کی تحدید کیا ہے۔ واللہ اعلم
اور میں نے اس کا یہ رد پیش کیا تھا:
وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل و خرق لا جماع
اور یہ کہ قاضی کا حکم اور مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت ہے اور اجماع کا پھاڑنا ہے یعنی حرام اور باطل ہے (در مختارج1،ص14)