• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مختلف فیہ رفع الیدین منسوخ ہے۔؟

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش ساتویں دلیل
عن علقمہ عن عبد اﷲ انہ قال الا اصلی بکم صلٰوة رسول اﷲﷺ فصلی فلم یرفع یدیہ الا مرة واحدة۔(نسائی )
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲﷺ کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔
پوسٹ نمبر32 میں یہ حدیث آپ نے پیش کی ہے۔
جواب

مولانا سہج صاحب یہ حدیث علت قادحہ کےساتھ معلول ہے اور سنداً ومتناَ دونوں طرح سے ضعیف ہے۔ درج ذیل آئمہ نے اسے ضعیف ومعلول قرار دیا ہے۔اس سے پہلے حدیث مع سند پیش کیے دیتا ہوں۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً۔ ( سنن نسائی جزء2 ص540)
نمبر1:
محدثین کی اکثریت نے اس روایت کو ضعیف ومعلول قراردیا ہے:
1۔ شیخ الاسلام المجاہد الثقہ عبداللہ بن المبارک نے کہا :
" لم يثبت حديث .... ابن مسعود " ( سنن ترمذی ج1 ص59، ح256 )
’’ ابن مسعود کی( طرف مسنوب یہ ) حدیث ثابت نہیں ہے۔
مولانا سہج صاحب بعض لوگوں نے ابن المبارک رحمۃ اللہ کی جرح کو عصر جدید میں اس حدیث سے ہٹانے کی کوشش کی ہے مگر درج ذیل آئمہ حدیث وعلمائے کرام نے ابن المبارک کی جرح کو ابن مسعود سے منسوب اس متنازعہ روایت کے متعلق قرار دیا ہے۔
1۔ ترمذی ﷫ ... ( سنن ج1 ص59 ح256)
2۔ ابن الجوزی ﷫ ... ’’ وقال فيه عبدالله بن المبارك : لايثبت هذا لحديث ‘‘ ( التحقیق ج1 صب278)
3۔ ابن عبد الہادی﷫ ... ( التنقیح ج1 ص278)
4۔ نووی﷫ ... ( المجموع شرح المہذب ج3 ص403)
5۔ ابن قدامہ﷫ ... – المغنی ج1 ص 295)
6۔ ابن حجر﷫ ... ( التلخیص ج1 ص 222)
7۔ الشوکانی﷫ ... ( نیل الاوطار ج2 ص180)
8۔ البغوی﷫ ... ( شرح السنۃ ج3 ص25)
9۔ بیہقی ﷫ ... ( السنن الکبریٰ ج2 ص79)
الغرض حدیث کے کسی امام نے یہ نہیں کہا کہ ابن المبارک کی جرح حدیث ابن مسعود سے متعلق نہیں ہے۔
نمبر2:
امام شافعی نے ترک رفع الیدین کی احادیث کو رد کردیا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہیں ۔ ( کتاب الام ج7 ص201)
نمبر3:
امام احمدبن حنبل﷫ نے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ ( جزء رفع الیدین 32، ومسائل احمد روایۃ عبداللہ بن احمد ج1 ص240)
نمبر4:
امام ابوحاتم الرازی﷫ نے کہا :
’’ یہ حدیث خطا ہےے، کہا جاتا ہے کہ ( سفیان) ثوری کو اس ( کے اختصار) میں وہم ہوا ہے ۔ کیونکہ ایک جماعت نے اس کو عاصم بن کلیب سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے نماز شروع کی، پس ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کیا اور تطبیق کی اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھا۔ کسی دوسرے نے ثوری والی بات بیان نہیں کی ہے۔ ( علل الحدیث ج1 ص96 )
نمبر5:
امام الدار قطنی﷫ نے اسے غیر محفوظ قرار دیا ۔ ( العلل للدار قطنی ج5 ص173)
نمبر6:
حافظ ابن حبان ﷫ نے الصلوۃ میں کہا :
’’ یہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے، کیونکہ اس کی علتیں ہیں جو اسے باطل قراردیتی ہیں۔ ( البدر المنیر ج3 ص494)
نمبر7:
امام ابوداؤود السجستانی﷫ نے کہا
" هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح علي هذا اللفظ " ( سنن ابی داؤود ج1 ص478)
نمبر2:
مولانا صاحب اس روایت کا دارومدار امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ پر ہے جیسا کہ اس کی تخریج سے ظاہر ہے۔ سفیان ثوری ثقہ، حافظ، عابد ہونے کےساتھ مدلس بھی تھے۔ ( تقریب التہذیل 2445)
ان کو یحیٰ بن سعید القطان (کتاب العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد ج1 ص207) ، بخاری ( العلل الکبیر للترمذی ج2 ص966) ، یحیٰ بن معین ( الجرح والتعدیل ج4 ص225) ، ابن الترکمانی حنفی ( الجوہر النقی ج8 ص262)، ابن حجر العسقلانی ( طبقات المدلسین ص32) وغیرہ نے نے مدلس قرار دیا ہے۔ اور ابوبکر الصیرفی نے کتاب الدلائل میں کہا :
’’ كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتي يقول حدتني أو سمعت ‘‘
ہر راوی جس کی غیر ثقہ رایوں سےتدلیس ظاہر ہوجائے تو اس کی روایت اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ ’’ حدثنی ‘‘ یا ’’ سمعت‘‘ نہ کہے یعنی اس کے سماع کی تصریح کے بعد ہی اس کی روایت مقبول ہوتی ہے۔ دیکھئیے النکت للزرکشی ص184، شرح الفیۃ العراقی بالتبصرۃ والتذکرۃ ج1 ص183، 184)
خلاصہ یہ ہے کہ سفیان ثوری مدلس تھے لہذا ان کی معنعن روایت متابعت کی غیر موجودگی میں ضعیف ہوتی ہے۔ اب مولانا سہج صاحب آپ سے گزارش ہے کہ یا تو اس حدیث کا متابعت لائیں یا پھر آئندہ اپنے موقف کی تقویت میں کبھی بھی اس کو پیش نہ کریں، کیونکہ اس دلیل کی حقیقت بیان تفصیل سے جان چکے ہیں۔

نمبر3:
سفیان ثوری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الدین کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا یہ روایت مجمل ہے۔ اگر اس کو عام تصور کیاجائےتو پھر مولانا آپ کا خود اس روایت پر عمل نہیں ہے۔
1۔ آپ وتر میں تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع سے پہلے رفع الیدین کرتے ہیں۔
2۔ آپ عیدین میں تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین کرتے ہیں۔
مولانا اگر وتر اور عیدین کی تخصیص دیگر روایات سے ثابت ہے تو رکوع سے پہلے اور بعد کی تخصیص بھی صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔ اگر آپ اس حدیث سے استدلال کررہے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس حدیث کے عموم سے وتر اور عیدین کے رفع الیدین کو بچانے کی کوشش کریں۔
نمبر4:
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے۔ امام فقیہ محدث ابوداؤود رحمہ اللہ نے اس ضعیف حدیث پر یہ باب باندھا ہے۔
" باب من لم يذكر الرفع عند الركوع" یعنی باب اس کا جس نے رکوع سے پہلے رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا۔ ( سنن ابی داؤود ج1 ص477)
اور یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ ( ثبوت ذکر کے بعد ) عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں ہے۔
ابن الترکمانی حنفی نے فرمایا:
" ومن لم يذكر الشيئ ليس بحجة علي من ذكرة " ( الجوہر النقی ج4 ص317)
جو کسی چیز کو ذکر نہ کرے وہ اس پر حجت نہیں ہے جو کسی چیز کو ذکر کرے۔
مشہور محدث حافظ ابن حجر﷫ نے فرمایا
" ولا يلزم من عدم ذكر الشيئ عدم وقوعه " ( الدرایۃ ج1 ص225)
لہٰذا امام سفیان ثوری کی عدم ذکر والی اس ضعیف حدیث سے بھی ترک رفع ثابت نہیں ہوسکتا۔
نمبر5:
سفیان کی حدیث میں نفی ہے اور صحیحین وغیرہما کی متواتر احادیث میں اثبات ہے۔ یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ اور مولانا شاید آپ کو بھی معلوم ہو۔
علامہ نووی نے کہا :
" ان احاديث الرفع أولي لأنها اثبات وهذا نفي فيقدم لاثبات لزيادة العلم " ( المجموع شرح المہذب ج3 ص403)
رفع الیدین کی ( صحیح ) احادیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے کیونکہ وہ اثبات ہیں اور یہ ( سفیان ثوری کی ضعیف حدیث) نفی ہے۔ پس اثبات کو زیادت علم کی وجہ سے نفی پر مقدم کیا جائے گا۔
کرخی حنفی نے بھی مثبت کو نفی پر اولیٰ بالعمل قرار دیا ہے۔ ( نور الانوار ص197)
نمبر6:
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ایک دفع رفع یدین کیابار بار نہیں کیا۔ ( مشکوۃ المصابیح ص77، ح809)
امام نووی فرماتے ہیں۔
" ذكره اصحابنا قالوا: لوصح وجب تأويله عليٰ أن معناه لايعود الي الرفع في ابتداء استفتاحه ولا في أوائل باقي ركعات الصلوة الواحدة ويتعين تأويله جمعاً بين الأحاديث " ( المجموع ج3 ص403)
’’ہمارے ساتھیوں نے ذکر کیا ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس کا مفہوم یہ ہوتا کہ شروع نماز میں اور باقی رکعات کے شروع میں دوبارہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔( اس کا رکوع والےر فع الیدین سے کوئی تعلق نہیں) اس تاویل کے ساتھ تمام احادیث ( بلحاظ جمع وتطبیق) پر عمل ہوجاتا ہے۔
سن لیا مولانا سہج صاحب۔ مزید آگے چلتے ہیں۔
نمبر7:
یہ حدیث اگر بفرض محال صحیح ہوتی تو بھی منسوخ ہوتی۔امام احمد بن الحسین البیہقی فرماتے ہیں۔
" وقد يكون ذلك في الابتداء قبل أن يشرع رفع اليدين في الركوع ثم صار التطبيق منسوخاًوصار الأمر في السنة الي رفع اليدين عند الركوع ورفع الرأس منه وخفياًجميعاً عليٰ عبد الله بن مسعود " (معرفۃ السنن والآثارج1 ص220، التحقیق الراسخ فی ان احادیث رفع الیدین لیس لہا ناسخ ص118)
’’ ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں ترک رفع یدین رہا ہو جس وقت رفع یدین کی مشروعیت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد (ابن مسعود کی) تطبیق منسوخ ہوگئی اور سنت میں رفع الیدین رکوع سے پہلے اور بعد کا شروع ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں ( تطبیق اور بعد کا شروع ہونے والا رفع یدین) سیدنا ابن مسعود پر مخفی رہ گئے۔
تنبیہ:
مولانا سہج صاحب یہ الزامی جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ابن مسعود سے ثابت ہی نہیں ہے۔ فتدبر
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش نویں دلیل

رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا أراد أن يركع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے ، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)
پوسٹ نمبر33 میں آپ نے یہ حدیث پوسٹ کی ہے۔
جواب

پہلی بات مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ حدیث آپ کے موقف پر کیسے دلیل بن سکتی ہے؟ اس میں تو رفع یدین کا ذکر ہے۔ ہاں تیسری رکعت کی رفع کا ذکر نہیں۔ اگر آپ اس حدیث سے یہ اخذ کررہے ہیں کہ رسول اللہﷺ پہلے تیسری رکعت کی رفع کرتے تھے۔ پھر اس سے رک گئے تو یہ آپ کی جہالت اور لاعلمی ہے۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ رفع کی منسوخیت تدریجاً ہوئی ہے ؟ پہلے تیسری رکعت کی رفع منسوخ ہوئی، پھر باقی رفعیں ؟
کچھ تو ا نسان میں عقل ہوتی ہے اور وہ کام کی بات کرتا ہے۔ اگر اس حدیث میں تیسری رکعت کی رفع کا ذکر نہیں تو پھر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے زمانے میں کی جاتی تھی، پھر منسوخ ہوگئی اس لیے اس حدیث میں صحابی نے اس کا ذکر نہیں کیا ؟ اگر صحابی کا تیسری رکعت کے رفع کا ذکر نہ کرنا آپ کو پہلے زمانے اور دوسری زمانے کی بات یاد دلاتا ہے تو پھر اس حدیث میں نماز سے ہی متعلق کتنے سارے اعمال ہیں جو بیان نہیں ہیں ان کے بارے میں بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ پہلے زمانے میں کیے جاتے رہے اس حدیث کے آجانے سے وہ بھی منسوخ ہوگئے ۔؟
مولانا یہ حدیث بھی میرے موقف کی تائید میں ہے۔ اور الحمد للہ آپ نے ہی پیش کرکے اپنے موقف کو کمزور اور میرے موقف کو مضبوط کردیا ہے۔ اور پھر آپ نے اس حدیث کو پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آپ تین رفعوں کو مانتے ہیں۔ لیکن آپ نے جو پہلے زمانے اور دوسرے زمانے کی چالاکی کھیلی ہے۔ وہ بے دلیل وبے بنیاد ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ٹھہرتی ہے۔


جاری ہے......

نوٹ:
مولانا سہج صاحب آپ کی طرف سے پیش کی گئی تمام وہ پوسٹ جن کا جواب ابھی تک میری طرف سے نہیں آیا۔ وہ اب پیش کررہا ہوں۔ اس لیے جب تک میری طرف سے آپ کی تمام پوسٹس پر جواب مکمل نہ ہوجائے تب تک میری طرف سے اگلی پوسٹ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں بے شک آپ ساتھ ساتھ تیار کرتے جائیں۔ جب میری طرف سے جواب لکھا جا چکے تو آپ پوسٹ کردیں۔ شکریہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم جناب سہج صاحب بجائے اس کے کہ پہلے آپ کی ان تین پوسٹ پوسٹ نمبر33 ، پوسٹ نمبر40 اور پوسٹ نمبر41 میں بیان مغالطوں کی حقیقت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ان پوسٹ میں آپ نے جو اضافی دلائل ذکر کیے جن کی تحقیق ابھی تک پیش نہیں کی گئی۔ کا جواب لکھوں، اس سے پہلے جن مقامات پر ہم رفع الیدین کرتے ہیں۔ ان کےدلائل پیش کررہا ہوں۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کی ان تین پوسٹ کاجواب لکھا جائے گا۔

پہلی حدیث:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،)
“عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے"
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
دوسری حدیث:
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام)
ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
تیسری حدیث:
وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَيَدَيْهِ۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام)
“وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
چوتھی حدیث:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالَ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ - يَعْنِى ابْنَ جَعْفَرٍ - أَخْبَرَنِى مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ فِى عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا فَلِمَ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلاَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً. قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلاَ يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلاَ يُقْنِعُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَصْنَعُ فِى الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِى بَقِيَّةِ صَلاَتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِى فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ. قَالُوا صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّى -صلى الله عليه وسلم-.(سنن أبى داود)
احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
4۔ دوسری رکعت پڑھ کر تیسری رکعت کےلیے جب اٹھے تو رفع الیدین کی
پانچویں حدیث:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744)
“علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے"
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
چھٹی حدیث:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ۔ (سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866)
“انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
ساتویں حدیث:
عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ۔ (سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868)
“جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
آٹھویں حدیث:
عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَوَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609)
“ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
نویں حدیث:
عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610)
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے"
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
دسویں حدیث:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا قَامَ فِى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ » . وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِى السُّجُودِ . ( صحيح البخارى)
محمد بن مقاتل، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں کے برابر تک اٹھاتے اور جب آپ رکوع کے لئے تکبیر کہتے یہی (اس وقت بھی) کرتے اور یہی جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے اس وقت بھی کرتے اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے (لیکن) سجدہ میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
گیارہویں حدیث:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ - عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ مَنْكِبَيْهِ وَقَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ وَلاَ يَرْفَعُهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.( صحيح مسلم)
یحیی بن یحیی تیمیی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، زہری سالم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند نہ کرتے تھے دونوں سجدوں کے درمیان۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
بارہویں حدیث:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِىُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِىُّ عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِى السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِى كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِىَ صَلاَتُهُ.(سنن أبى داود)
محمد بن مصفی، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے پھر ہاتھ اٹھاتے ہوئے رکوع کی تکبیر کہتے اس کے بعد رکوع کرتے جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پھر دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھاتے اور سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ۔ کہتے مگر سجدوں میں ہاتھ نہیں اٹھاتے بلکہ ہر رکعت میں رکوع میں جانے کے لیے جب تکبیر کہتے تب دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پوری ہو جاتی۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
تیرہویں حدیث:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ نَصْرَ بْنَ عَاصِمٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا صَلَّى رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حِيَالَ أُذُنَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ.۔(سنن النَسائي)
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن الحویرث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت تکبیر پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت رکوع فرماتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے۔ اس طریقہ سے جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح کرتے۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
چودہویں حدیث:
حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا سليمان بن داود الهاشمي حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن الفضل عن عبد الرحمن الأعرج عن عبيد الله بن أبي رافع عن علي بن أبي طالب : عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة رفع يديه حذو منكبيه ويصنع ذلك أيضا إذا قضى قراءته وأراد أن يركع ويصنعها إذا رفع رأسه من الركوع ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من سجدتين رفع يديه كذلك۔ (سنن الترمذي)
حسن بن علی خلال، سلیمان بن داؤد ہاشمی، عبدالرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبداللہ بن فضل، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے قرات کے اختتام پر رکوع میں جاتے وقت بھی ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی دونوں ہاتھوں کو شانوں تک اٹھاتے لیکن آپ تشہد اور سجدوں کے دوران ہاتھ نہ اٹھاتے (یعنی رفع یدین نہ کرتے) پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے ۔
1۔ نماز شروع کرتے ہوئے رفع الیدین
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین
4۔ دو رکعتیں پڑھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے
نوٹ:
بہت جلد آپ کی باقی تین پوسٹ کاجواب بھی سامنے آجائے گا۔ تب تک انتظار فرمائیں۔ شکریہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
قارئین سہج صاحب کی پوسٹ نمبر33 میری پوسٹ نمبر28 کا جواب ہے۔اس پوسٹ میں سہج صاحب نے کیا گل کھلائے آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

گڈمسلم صاحب ، آپ سے کتنی بار پوچھ چکا ہوں کہ بتادیجئے
١-رفع الیدین آپ کے ہاں سنت ہے یا حدیث؟
اگر سنت ہے تو دلیل پیش کردیں اور اگر حدیث ہے تو بھی دلیل پیش کریں اور ہماری جانب سے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ آپ کی دو دلیلیں ہیں یعنی قرآن اور حدیث۔ اسلئے امتیوں کے اقوال بلکل پیش نہیں کرنے۔
لیکن آپ ہیں کہ الٹا مجھ ہی سے پوچھ رہے ہیں ؟
محترم جناب آپ سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کیونکہ اس پر آپ سے پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ جو رفع آپ کرتے ہیں بادلیل اس کو فرض، واجب، مستحب، مباح وغیرہ ثابت کردیں کہ اس دلیل کی روشنی سے پہلی رفع کی یہ حیثیت ہے۔ جو آپ کا جواب ہوگا وہی میرا جواب ہوگا۔ اس لیے پہلے لکھا تھا کہ فما کان جوابکم فہو جوابنا امید ہے اب غور کرنے کی تھوڑی سے تکلیف برداشت کی جائے گی۔ اور اس بات کی بھی تکلیف برداشت کی جائے گی کہ جو رفع کی جاتی ہے اس کا مقام کیا ہے ؟۔۔بادلیل صحیح صریح۔
جناب آپ ہیں دعوے دار اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے ، اور تقلید میری یعنی اک حنفی مقلد کی کرنے کو تیار ہیں ؟
جی الحمدللہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ اس ذات نے ہمیں کسی اور کے دَر جھکنے نہیں دیا۔ اور پھر میں حیران ہوں کہ ایک تقلید کے داعی کو تقلید کیا ہے؟ کا سرے سے پتہ ہی نہیں۔ امید ہے اس بارے جاننے کی کوشش کی جائے گی۔ کیونکہ اگرآپ کو پتہ ہوتا تو پھر تقلید کا لفظ بول کر اپنی طرف نسبت نہ کرتے۔ کہ گڈمسلم سہج صاحب کی تقلید کرنے کو تیار ہے۔
جناب اگر میں کہوں کے ہم قیاس کے زریعے شروع نماز کی رفع کو "سنت" مانتے ہیں تو کیا آپ بھی یہی دلیل مان لیں گے ؟ اور اطیعوا الله و اطیعوا الرسول دعوے کا انکار کردیں گے ؟
جب آپ کہیں گے۔ میرا جواب بھی اس کے بعد آجائے گا۔۔ ہاں ایک بات یاد رکھنا کہ قیاس بھی کسی شرعی دلیل پر ہوتا ہے۔ کسی اغیرہ وغیرہ کے قیل وقال پر نہیں۔
بھئی آپ صحابی کے عمل کو تو اپناتے نہیں جس پر گواہی بھی پیش کردی ہے
کیا یہ آپ کا الزام ہے۔؟ لیکن سہج صاحب میری عادت کسی پر الزام لگانے کی نہیں۔حقیقت جاننے کےلیے اس تھریڈ کا مطالعہ کریں۔
ۤ
باقی آپ کا پیش کردہ اثر کس حقیقت پر مبنی تھا۔؟؟ اس کی تحقیق پہلے پیش کرچکا ہوں۔ اُس پوسٹ کو ملاحظہ فرمالیں۔
اور مجھ غریب کو اپنا امام بنانے پر تیار ہیں ؟
میرا امام صرف ایک ہے۔ اس کے احکامات کی موجودگی میں کسی اور کے آگے متھا ٹیکوں، میرا ضمیر برداشت نہیں کرتا۔ہاں جو تقلیدی کرتے ہیں کیا ان کا ضمیر بھی ان کو ملامت کرتا ہے ؟ یہ ان سے پوچھا جاسکتا ہے۔ شاید آپ بھی بتا سکیں کیونکہ آپ بھی مقلد ہیں ایک امتی کے۔
مسٹر گڈ مسلم یہاں آپ مجھ جاھل مقلد کے ساتھ مناظرہ ٹائپ بحث میں مشغول ہیں ۔
جی وہ تو مجھے معلوم ہی ہے کہ مخاطب جاہل ہی ہے۔
’’ اجمع الناس علي ان المقلد ليس معدوداً من اهل العلم وان العلم معرفة الحق بدليله ‘‘(جامع بيان العلم ج2 ص115)
تمام لوگوں کا اجماع ہے کہ مقلد عالم نہیں ہوتا ( یعنی جاہل ہوتا ہے) کیونکہ علم حق کو دلیل سے جاننے کا نام ہے۔
یہ تو شکر ہے کہ آپ نے خود ہی اپنی جہالت کااقرار کرلیا ویسے آپ کے مقلد ہونے کے ناطے اس بات سے پہلے بھی میں آگاہ تھا۔ کہ آپ جاہل ہی ہیں۔۔ شکریہ آپ کے بتانے کا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔ آپ نے ماننی کوئی بات ہی نہیں اس لیے ٹائم کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا لیکن سنت کا دفاع کرنے کی غرض سے بحث کو بیچ میں چھوڑوں یہ بھی برداشت نہیں۔ اس لیے اس غرض سے کہ شاید آپ کو یا باقی مقلدین کو جو اس رفع الیدین کی سنت پر عمل کرنے سے محروم ہیں سمجھ آجائے لکھنا مناسب سمجھتا ہوں۔
اور دلیل پیش کرنے سے ناجانے کیوں ڈرتے ہیں یعنی دس جگہ رفع الیدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی (یہ یاد رہے ابھی رفع یدین کو گنتی کے ساتھ ثابت کرنے کے بعد آپ نے اس کا حکم بھی بتانا ہے یعنی سنت ہے یا حدیث؟اگر سنت ثابت کرنے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو پھر یہ بھی بتانا ہے کہ فجر جیسی ہے یا عصر جیسی؟)
1۔ دلیل پیش کرنے سے نہ کبھی ڈرا اور نہ کبھی ڈرایا جاسکتا ہے۔ الحمد للہ اپنے عمل پر دلیل بھی ایسی پیش کی کہ آپ کو تسلیم کرنا پڑا کہ میں اس دلیل کا انکاری نہیں۔ لیکن آپ نے اپنے مؤقف پر جو دلائل دیئے ان کے بارے میں تحقیق پہلے پیش کرچکا ہوں۔ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہو تو ماقبل پوسٹ پر نظر گھما لینا۔
دس جگہ کرنے کا اثبات اور اٹھارہ جگہ نفی گنتی کے ساتھ یہ جملے نہ تو میرے ہیں اور نہ عین ان جملوں پر دلیل دینا میرا فرض ہے۔ میرے الفاظ نہ ہونے کے باوجودبھی آپ کے اس مطالبے کو پورا بھی کردیا گیا ہے۔ الحمدللہ۔ لیکن آپ ہیں جان کر بھی انجان بنے جارہے ہیں۔ ویسے میرے خیال میں بچے تو نہیں ہونگے آپ؟
3۔ آپ جب پہلی رفع کا حکم ماخذ شریعت سے ثابت کردیں گے تو وہی حکم باقی رفعوں کےلیے میرا بھی سمجھ لینا۔
پہلے بھی آپ کے اس اصول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور مجھے بھی کرنا ہے کی بابت یہ پوچھ چکا ہوں کہ جناب کھڑے ہوکر پیشاب ہمیشہ کرتے ہیں ؟ بھئی حدیث میں آیا ہے اور وہ بھی اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں ۔کیوں یہی کہا تھا ناں آپ نے
محترم جناب سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ الحمد للہ جو عمل باسند صحیح نبی کریمﷺ سے ثابت ہے۔ جس بھی حالات میں۔ جب اس کے کرنے کا ٹائم آتا ہے یا وہ عمل جس وقت کرنا ہوتا ہے۔ یا جس وقت کرنے کا حکم ہوتا ہے میں کرتا ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے اپنے نبیﷺ کی زندگی کے اعمال کو مجھے کرنے کی توفیق سے نوازا ہوا ہے۔
آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب والی حدیث کی بابت کہا کہ آپﷺ کا عمل اصح الکتب میں آیا ہے تو کیا گڈمسلم آپ کھڑے ہوکر پیشاب ہمیشہ کرتے ہیں؟ محترم جناب آپ کی اس ہائی لائٹ قول سے کئی باتیں سامنے آرہی ہیں
1۔ نبی کریمﷺ نے ہمیشہ کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
2۔ آپﷺ نے اس عمل کو ہمیشہ کرنے کا حکم بھی نہیں دیا۔
3۔ جب یہ حدیث اصح الکتب میں ہے تو گمان غالب ہے کہ آپ اس حدیث کو مانتے بھی ہونگے۔؟ مانتے ہیں یا نہیں ؟
اب آپ مجھے انصاف سے بتائیں کہ ایک عمل نہ نبی کریمﷺ نے خود ہمیشہ کیا ہے؟ نہ آپ نے اس عمل کو ہمیشہ کرنے کا حکم دیا ہے؟ تو آپ گڈمسلم سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ گڈمسلم اس عمل کو ہمیشہ کرے؟
اچھا بات مختصر کرتے ہیں کہ آپ یہ بتادیں کہ آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟ اگر ہاں تو پھر مکمل حدیث اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کردینا۔ اور وضاحت میں یہ بھی پیش پوش کردینا کہ نبی کریمﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ہے تو کیوں اور کن اسباب کی وجہ سے؟ اور پھر ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کردینا کہ اگر وہی اسباب ہمیں لاحق ہوجائیں تو کیا ہم اس حدیث پر عمل کرسکتے ہیں ؟ جواب کا انتظار رہے گا۔
چلو کچھ ہیلپ آپ کی میں ہی کیے دیتا ہوں۔
رد المختار میں ہے:
قَالَ الْعُلَمَاءُ يُكْرَهُ إلَّا لِعُذْرٍ، وَهِيَ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ لَا تَحْرِيمٍ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 344)
"علماء کا کہنا ہے کہ عذر کے بغیر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے اور یہ کراہت تحریمی نہیں تنزیہی ہے"
1۔ عذر کے بغیر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے۔
2۔ اگر کوئی عذر کے بغیر کھڑے ہوکر پیشاب کرلے تو حرام نہیں۔
3۔ اگر عذر ہو تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کیسا ہے؟ اس جگہ خاموشی ی ی ی ہے؟
جناب ہائی لائٹ الفاظ کو غور سے پڑھ لینا۔ مزید مکروہ تنزیہی کی تعریف احناف کے ہاں یوں کی جاتی ہے:
مَا كَانَ تَرْكُهُ أَوْلَى مِنْ فِعْلِهِ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 131)
"جسے چھوڑنا اسے کرنے سے اولیٰ ہو"
اولیٰ خلاف اولیٰ کی بات ہے محترم۔ اور یہاں آپ کی ہی کتب بغیر عذر کا کہہ رہی ہیں۔ کہ بغیر عذر کے اگر کوئی کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے تو پھر خلاف اولیٰ ہے۔ یہ عمل فاعل کےلیے حرام نہیں اور آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ شاید خلاف اولیٰ عمل پر گناہ بھی نہیں ہوتا۔
لیکن آپ کے حنفی اپنے ہی علماء کی فقاہت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو صغیرہ گناہ میں شامل کرتے ہیں۔۔
کیا بات ہے۔ماشاء اللہ
یہ باتیں موضوع سے تو خارج ہیں لیکن آپ نے بات کردی اس لیے نمونہ کے طور پر پیش کردیا ہے۔۔۔ ہماری اصل بحث رفع الیدین پر ہے اس لیے گزارش ہے کہ زیر بحث مسئلہ پر ہی گفتگو کریں۔ ادھر ادھر کی اختلافی ابحاث کا تذکرہ درست نہیں۔۔گریز کیجیے گا۔ شکریہ
اور ابھی تو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہنے کی بھی دلیل آپ پر باقی ہے جناب ۔ جلدی کیجئے اور یہ بھی ثابت کیجئے اپنے دعوے اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے مطابق ۔
اصح الکتب مَیں اکیلے نے نہیں بلکہ جمع غفیر نے کہا ہے۔ اور وہ بھی اخباری بیانات دینے والوں نے نہیں بلکہ علماء، فضلاء اور محدثین نے اس بات کا اقرار کیا ہے۔ اس بات پر یہ شور مچانا شور نہ کردینا کہ گڈمسلم اتنے سارے علماء کی تقلید کررہا ہے۔ تقلید کا دھبہ مجھ پر لگانے سے پہلے تقلید کیا ہے؟ جان لینا۔۔اگر پتہ ہے تو پھر اس تھریڈ میں آکر مجھے بھی بتانا۔ تاکہ آپ کا مجھ پہ مقلد ہونے کا الزام میں قبول کرسکوں۔

یا پھر اعلان فرمادیں کہ آپ اہل سنت والجماعت حنفی دیوبندی بننے جارہے ہیں
کبھی کبھی آپ کے اخباری بیانات پڑھ کر ہنسی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اہل سنت والجماعت کے ساتھ حنفی کا اضافہ حیران کن دِکھ رہا ہے۔ کیا جامد حنفیوں دیوبندیوں کا شمار بھی اہل سنت میں ہوتا ہے؟ ٹائم ملا تو اس عنوان سے تھریڈ بنا کر آپ سے معلومات لی جائیں گی۔
کیوں کہ آپ میری دلیل کو اپنے لئے اپنانے پر تیار ہوچکے ہیں ۔ اس بارے میں ضرور لکھئیے گا ۔
جناب لکھنا کیا ہے۔ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جو رفع آپ کرتے ہیں وہ فرض ہے؟ واجب ہے؟ مستحب ہے؟ مباح ہے؟ مکروہ ہے؟ ہنگامی حالات میں جائز اور غیر ہنگامی حالات میں ناجائز ہے؟ بادلیل ثابت کردیجیے۔ جو آپ پہلی رفع پر حکم لگائیں گے۔ وہی حکم میرا باقی رفعوں کے بارے میں بھی ہوگا۔۔ اس لیے جلدی کیجیے اور پہلی رفع کا حکم ومقام طے کیجیے وہ بھی بادلیل صحیح، صریح۔۔ اورہاں جب آپ مقام ومرتبہ بتا دیں گے تو تسلی وتشفی بھی تو کرونگا ناں کہ آپ نے کن دلائل سے کس طرح پہلی رفع کا مقام ثابت کیا ہے؟ یعنی ڈسکس
الحمدللہ غور سے پڑھا بھی ہے اور آپ کو جواب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل بھی بتادیا ہے گواہوں کی گواہی سمیت ۔
1۔ غور سے پڑھا ہوتا تو عمل بھی کرتے مولانا
2۔ ابن عمر رض کا جو اثر آپ نے پیش کیا اس کو میرے پیش کردہ اثر سے موازنہ کرلیجیے اور دونوں پر تقلیدی علماء سے تحقیق بھی کروالیجیے کہ کون سا اثر سنداً ومتناً درست طور ثابت ہے۔ اور جو اثر آپ نے پیش کیا اسنادی اعتبار سے کیا وہ اس قابل ہے کہ اس کو قبول کیا جائے؟ اس کی تحقیق پیش کرچکا ہوں۔ امید ہے فرق پڑے گا۔ ان شاءاللہ
3۔ واہ جی واہ گواہوں کی گواہی سمیت؟؟؟ کئی بار کہنے کے باوجود اپنے پیش اثر کی سند پیش نہیں کرسکے لیکن اب دعویٰ ہے کہ گواہوں کی گواہی سمیت۔۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ میں آپ کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ویڈیو نہیں دکھاسکتا ۔ مجبوری ہے گواہوں کی گواہی کو ہی ماننا پڑے گا ۔
جناب اگر آپ کے بس میں ہو تو یہ کام بھی کرگزریں۔ کیونکہ تقلیدیوں کے لیے قرآن وحدیث میں تحریف کرنا جب بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تو پھر یہ کون سا مشکل کام ہے ان کےلیے؟ آپ یہ عمل کیوں نہیں کرسکتے۔اس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ جن پر بات کرنا خارج از موضوع ہے۔
جیسے آپ کرتے ہیں امتیوں کی گواہی کو ہی تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی مانتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔
جب آپ یہ سب عمل کرکے مقلد ابی حنیفہ ہی ٹھہرتے ہیں تو پھر اگر ہم کرتے ہیں تو ہم متبع رسولﷺ نہیں ٹھہر سکتے۔ کیوں؟؟؟۔(الزامی جواب)ۤ
جناب آپ اتنے بھی کورے نہیں کہ آپ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہی پتہ نہ ہو؟ گواہوں کی گواہی تسلیم کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں ہے یا نہیں؟؟ اس بات کا جواب دے دینا اگر ہمت ساتھ دے تو۔
یہ تو آپ ہی بتائیے جناب کہ جس روایت کو آپ نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی بخاری شریف سے پیش فرمایا اس روایت کو اللہ نے صحیح قرار دیا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ نہیں کہا ناں ؟ تو پھر آپ نے کیسے مانا اس روایت کو کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فعل بیان ہوا ہے ؟
پہلے آپ میری پیش کردہ حدیث سے ثابت عمل کا انکار کریں کہ یہ عمل نبی کریمﷺ نے نہیں کیا۔ اس کے بعد بادلیل ثابت کرنا میرے پہ فرض ہے۔لکھیں کہ گڈمسلم صاحب جوحدیث آپ نے پیش کی اس حدیث سے ثابت عمل کا میں انکار کرتا ہوں۔۔
(یاد رہے یہ سوال تقلید کے منکر سے ہے)۔
یعنی جو تقلید کا منکر ہے اس سے آپ یہ بات طلب کرسکتے ہیں کہ وہ ہر آیت وحدیث کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یا نبی کریمﷺ کافرمان عالیشان پیش کرے کہ وہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟؟؟ رائٹ ؟؟؟
اچھا کیا یہ عین انصاف نہیں کہ تقلید کی مدعیوں سے بھی اس بات کا جواب طلب کیا جائے کہ وہ جس کے مقلد ہیں قرآنی ہر آیت اور ہر حدیث کے بارے میں اسی کی ہی تصریحات پیش کریں جس کے وہ مقلد ہیں ؟
محترم جناب پہلی بات یہ آپ کا کہنا، لکھنا اور پھر پوچھنا بچگانہ حرکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ضمیر مردہ ہوجائے تو پھر جو دل میں آتا ہے انسان کرتا چلا جاتا ہے۔
دوسری بات اگر آپ مجھ ( متبع رسولﷺ ) سے اس بات کا مطالبہ کرنے پر مصر ہیں تو پھر میں بھی آپ(مقلد ابی حنیفہ) سے اس بات کا مطالبہ کرنے پر مصر رہونگا کہ آپ جو بھی آیت پیش کریں۔ جو بھی حدیث پیش کریں۔ اپنے امام کی تصریح ساتھ ساتھ پیش کرنا مت بھولیے گا۔یعنی جب آپ قرآنی آیت پیش کریں تو اس آیت پر اپنے امام کا قول پیش کردینا کہ امام صاحب نے لکھا ہو کہ یہ آیت قرآنی ہے۔ اور میرے مقلدین کو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح جو بھی حدیث پیش کریں اس کی بھی سند اور متن پر امام صاحب کی تصریحات پیش کریں۔
کیونکہ آپ کے بقول میں تو ہوا غیر مقلد ( یعنی کسی کی بھی تقلید نہیں کرتا۔ جو دل میں آتا ہے وہ کرتا ہوں۔۔ دوسرے الفاظ میں آزاد خیال آدمی) لیکن آپ تو مقلد ہیں ناں اور یاد ہے آپ کو کہ مقلد بارے کیا حکم لکھے گئے ہیں۔؟؟؟
جناب مقلدین کو کیا ہدایات ہیں ایک دو پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں، تاکہ آپ کو آئینہ دکھایا جائے۔ (اور اگر تقلید پر بھی بات کرنے کا من چاہ رہا ہوں تو اس موضوع پر اسی فورم پر میری پہلے سے بحث ومباحثہ آپ کے ہی ہم مسلک لوگوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس کو دیکھ لینا اور تشفی نہ ہو تو انہیں تھریڈ میں بات کو چلا لینا۔ شافی کافی جوابات سے نوازا جائے گا۔ ان شاءاللہ)
’’ اما المقلد فمستنده قول مجتهده لا ظنه ولا ظنه ‘‘ (مسلم الثبوت ص9)
مقلد کی دلیل صرف اس کے امام کا قول ہے۔ نہ تو وہ خود تحقیق کرسکتا ہے۔ نہ اپنے امام کی تحقیق پر نظر ڈال سکتا ہے۔
’’ ہم امام کے مقلد ہیں اور مقلد کےلیے قول امام ہی حجت ہوتا ہے۔ ناکہ ادلہ اربعہ ان سے استدلال وظیفہ مجتہد ہے نیز توسع مجال کی خاطر اہل بدعت فقہ حنفی کو چھوڑ کر قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ ‘‘ (ارشاد القاری، ج1 ص228 و 412)
پڑھ لیا جناب مولانا سہج صاحب؟؟۔ اس لیے اب میں اس بات کا مطالبہ کرنے پر بھی حق بجانب ہوں کہ آپ جو بھی آیت پیش کریں یا جو بھی حدیث پیش کریں۔ میں آپ سے پوچھوں کہ آپ اس پر اپنے امام کا قول پیش کرو کیونکہ آپ کےلیے اپنے امام کا قول ہی حجت ہے۔( اگر آپ پر اپنے امام کا قول حجت نہیں تو پھر لکھیے)۔ادلہ اربعہ سے تو آپ تبرک لیتے ہیں۔۔۔ کیا خیال ہے اگر میں آپ کو تبرک نہ لینے دوں تو ؟؟؟ یعنی آپ سے ہر آیت، ہر حدیث ہر تشریح پر قول امام ہی پوچھوں؟؟؟ تو کیا خیال ہے؟
سمجھ آگیا محترم سہج صاحب۔؟ شروع سے اب تک جتنی بھی قرآنی آیات، احادیث، اقوال اور تشریحات پیش کیے ان سب پر اپنے امام کی تصریحات پیش کریں یا پھر غیر مقلد ہونے کا اعلان کریں۔کیونکہ آپ نے ابھی تک ان پر اپنے امام کی طرف سے تصریحات پیش نہیں کی ہوئیں۔ میرے خیال میں آپ کا تصریحات پیش نہ کرکے اس عمل کی وجہ سے ایک تو آپ مقلد سے غیر مقلد بھی ہوگئے ہیں اور دوسرا شاید آپ اس ہدایت کے دائرہ میں بھی آگئے ہونگے۔
" فلعنة ربنا اعداد رمل علی من رد قول ابی حنفة" (درالمختار مع شامی ص ۶۶ ج ۱)
پس اس شخص پر ریت کے زروں کے برابر لعنتیں ہوں جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرتا ہے۔
اگر آپ اپنے پیش کردہ تمام دلائل پر اپنے امام کی طرف سے تصریحات پیش کردیں تو اس ہدایت سے چھٹکارا پائیں گے ورنہ یہ ہدایت آپ کے سَر ہے۔قبول فرمالینا۔
مجھ سے پوچھیں تو آپ سوائے امتیوں کی ذاتی رائے ماننے کے اور کچھ نہیں کرتے ۔
گواہوں کی گواہی ماننے کے حکم کے ساتھ شریعت نے جب خبر کی تصدیق کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔۔ تو جناب پھر تو بچگانہ باتیں نہ کرو۔
اگر شک ہے اس بات میں تو پھر اللہ کی یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پیش کردیجئے بخاری کی روایت کے لئے ۔ کرسکتے ہیں ایسا ؟ ہاں یا نہیں بس۔ (اگر ہاں تو تصدیق پیش کرنا ضروری ہے)۔
ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا کیا یہ حکم صرف اور صرف اللہ نے اپنے رسولﷺ کو ہی دیا ہے ؟ یا اس کے خطاب میں امت محمدیہﷺ بھی شامل ہے؟ ۔۔۔ہاں یا ناں میں جواب
بس ؟؟ اتنا ہی کہنا تھا آپ نے ؟ گڈ مسلم صاحب بات جیسی ہوئی ہو ویسا ہی جواب دیا جانا چاھئیے یا اپنی مرضی سے کاٹم پیٹی کرکے غلط رخ دکھانا چاھئیے ؟
الحمدللہ بات پوری پڑھتا ہوں۔ پوری بات کا جواب بھی دیتا ہوں کاٹم پیٹی مشغلہ متبع نہیں بلکہ وظیفہ مقلد ہے۔
آپ نے موصوف شاھد نزیر کے شکریہ کے ساتھ کچھ پیش کیا تھا ۔دیکھئیے
کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔
کبھی رفع الیدین کو متروک و منسوخ قرارد یتے ہیں۔
کبھی رفع الیدین کو ناپسندیدہ یعنی مکروہ اور خلاف اولیٰ کہتے ہیں۔
کبھی اس سنت کو بدعت بھی کہہ دیتے ہیں۔
کبھی رفع الیدین ایک اختلافی مسئلہ بن جاتا ہے۔
کبھی نماز میں رفع الیدین کرنا باعث فساد ہے۔
کبھی رفع الیدین کی سنت مبارکہ کو قابل نفرت قرار دیتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین شاذ ہے۔
کبھی جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔
کبھی کبھی رفع الیدین کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔
اسکے جواب میں میں نے عرض کیا تھا
ان سب کا جواب دے کر میں اپنا وقت برباد نہیں کروں گا ، اگر تو یہ سب باتیں میں نے کی ہیں تو پھر آپ اور شاہد نذیر کو مبارک ہو اور اگر میں نے یہ سب نہیں کہا تو پھر بھی آپ دونوں کو مبارک۔ یہاں میں صرف ایک بات پر کچھ کہنا چاھوں گا ۔
کبھی جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
اسے کہتے ہیں ڈوب جانا ۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے؟
1۔ سب سے پہلی بات ریڈ کلر کی ہائی لائٹ عبارت میں آپ نے اپنے علماء کو بچھاڑا ہے۔ ویسے تو آپ لوگ اکابرین اکابری کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں لیکن جب اکابرین کے اقوال سامنے آتےہیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ ’’ یہ سب باتیں میں نے کیں ہیں ‘‘‘؟؟؟ بہت خوب۔۔ چلو خیر یہ آپ کا عمل ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں
2۔ آپ نے باقی موقفوں کو پس پشت ڈال کر ایک موقف (کبھی جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔) کا جواب دینے کی حدیث سے لاحاصل سعی کی ہے۔ جس کا تفصیلی جواب تو آپ کو دیا جاچکا ہے۔ اسی جواب سے ایک جواب پیش ہے۔۔ آپ سے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔۔ اگر ہمت ہے تو تبصرہ کردینا۔
’’ مولانا صاحب اگر اس حدیث کے الفاظ کو رفع الیدین پر محمول کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا ایک قبیح فعل ہے۔ چونکہ مختلف فیہ رفع الیدین نبی کریمﷺ سے باسند صحیح تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔(جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں) اور نبی کبھی بھی فعل قبیح کا مرتکب نہیں ہوا کرتا (نعوذباللہ اگر ہوتا ہے تو بتائیں) تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا اختلافی رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ورنہ نعوذ باللہ نبی ﷺ کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا۔ جس کے تصور سے ہی ہم پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ بلا خوف وخطر اپنے کمزور وبے دلیل مؤقف کو ثابت کرنے کےلیے قیل وقال سے سہارا لیے ساتھ ساتھ سنت نبویﷺ کو غلط تشبیہات بھی دیئے جارہے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ایک ایسا فعل جس پر نبی کریمﷺ خود عامل رہے ہیں بری تشبیہ دیئے جارہا ہوں۔‘‘
اس عبارت پر آپ کا تبصرہ مطلوب ہے۔
الحمدللہ مجھے سمجھ ہے اچھی طرح اور لگتا ہے کچھ کچھ آپ کو بھی آنے کو ہے ۔ ان شاء اللہ ، تو پھر میں امید رکھوں کہ آپ شروع نماز کی رفع یدین پر کوئی لفظ نہیں لکھیں گے ؟
واہ بہت چالاک ہیں مولانا سہج صاحب۔۔دیکھیے محترم تین باتیں ہیں۔
1۔ چار رکعات میں پہلی رکعت کے آغاز میں کی جانے والی رفع مختلف فیہ ہے یا نہیں؟
2۔ چار رکعات میں باقی تین مقامات پر کی جانے والی رفع مختلف فیہ ہے یا نہیں؟
3۔ سجدوں کی رفع مختلف فیہ ہے یا نہیں ؟
پہلی بات تیسرےنمبر کی رفع کے نہ آپ قائل اور نہ ہم قائل۔۔ کیونکہ کئی احادیث میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ (وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.۔۔سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609) یعنی تصریح موجود ہے۔ اس لیے آپ بھی عمل نہیں کرتے اور ہم بھی نہیں کرتے۔۔ اور یہ تصریح صرف ان لوگوں کےلیے جو رفع یدین کو سنت سمجھتے ہیں۔۔ جو سرے سے رفع کے سنت ہونے کے انکاری ہیں۔۔اس کےلیے کسی کام کی نہیں۔۔اس لیے میں نے لکھا تھا کہ
گڈمسلم ’’ اس لیے یہاں ہم اس رفع پر بات کریں گے جس رفع پر ہمارا اختلاف ہے۔ اگر ہم سجدوں کی رفع کرتے ہوتے اور آپ نہ کرتے ہوئے یا آپ کرتے ہوتے اور ہم نہ کرتے ہوتے تب اس پر بات کرنے کا کوئی مقصد بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن اب جب فریقین کے بیچ اختلاف ہی نہیں ہے۔ پھر اس پر رولا ڈالنے کا کیا فائدہ ؟ ‘‘
دوسری بات میں مانتا ہوں کہ پہلی رفع آپ بھی کرتے ہیں ہم بھی کرتے ہیں۔۔ یعنی جب دونوں عامل ہیں تو پھر اس رفع کو بھی زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔لیکن جناب یہ رفع کیوں زیر بحث لائی جاتی ہے۔؟؟۔اس کا سبب بھی آپ لوگ ہیں۔
دیکھیئے آپ لوگ رفع یدین پرجو ڈھکے چھپے الفاظ میں دعویٰ پیش کرتے رہتے ہیں۔(ویسے تو مقلدین کی طرف سے بہت سارے دعوے ہوتے ہیں لیکن یہاں آپ نے منسوخ کا دعویٰ کیا ہوا ہے۔) تو کیا اس کے عین مطابق آپ نے دلیل پیش کی ؟؟ جب تھریڈ کا عنوان ہی مختلف فیہ رفع ہے تو پھر آپ نے شروع سے اب تک دعویٰ کے عین مطابق صرف اور صرف مختلف فیہ پر کتنے دلائل پیش فرماچکے ہیں جناب۔؟؟؟۔۔( یادر رہے صرف اور صرف مختلف فیہ رفع کی منسوخیت پر ) آپ کے وہ دلائل بالکل قابل قبول نہیں جن میں غیر اختلافی رفع کا بھی ذکر ہو۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو صریح صحیح ایسی دلیل پیش کرنی چاہیے کہ جس میں
1۔ چار رکعات میں پہلی رکعت کےشروع میں جو رفع کی جاتی ہے اس کا بالکل ذکر تک نہ ہو۔۔( کیونکہ یہ مختلف فیہ نہیں ہے۔جس طرح میرے دلائل میں سجدوں کی رفع کا ذکر نہیں ہوتا۔ ہاں اس بات کی صراحت مل جاتی ہے کہ سجدوں میں رفع نہیں کرنی چاہیے)۔ لیکن اگر ذکر ہو بھی تو اس بات کی صراحت ہو کہ پہلی رفع کرنی چاہیے اور باقی تین جگہوں پر رفع نہیں کرنی چاہیے۔
2۔ چار رکعات میں باقی تین مقامات پر جو رفع کی جاتی ہے۔پیش کی جانے والی دلیل میں صرف ان تین جگہوں کی رفع کی منسوخیت کا ذکر ہو۔۔( پہلی رفع جو مختلف فیہ نہیں اس کا ذکر نہ ہو۔ اگر ہو بھی تو پہلی کا اثبات باقی تین کی نفی ومنسوخیت کی تصریح)

تو جناب آپ لوگ جب دلائل پیش کرنا شروع کرتے ہیں تو اپنے دلائل میں ان دو باتوں کا خیال رکھتے ہیں ؟ آپ لوگ ایسی رفع کا کیوں ذکرکرتے ہیں جو اختلافی نہیں ہے؟
آپ اس پہلی غیر اختلافی رفع کے ذکر کے علاوہ دلائل پیش کریں۔۔ ان شاءاللہ میں کبھی آپ سے پہلی رفع پر کوئی مطالبہ نہیں کرونگا۔۔
جب آپ دلائل پیش کرتے ہوئے اس غیر اختلافی رفع کا تذکرہ بیچ میں لاتے ہیں اور باقیوں کے بارے میں بغیر صراحت کے کہہ دیتے ہیں کہ ’’ پہلی کے علاوہ اور نہیں کرتے تھے‘‘ (اور کون سی نہیں کرتے تھے؟؟ دوسری رکعت کے رکوع جاتے ہوئے یا رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے الخ۔) تو جناب آپ کے ہی اس رفع کو دلائل میں ذکر کرنے کی وجہ سے اِس غیر اختلافی پہلی رفع پر سوالات کیے جاتے ہیں۔۔آگئی ناں سمجھ مولانا سہج صاحب۔؟؟؟
آپ دلائل ایسے ذکر کریں جس میں اس پہلی غیر اختلافی رفع کا ذکر تک نہ ہو۔ میں بھی آپ سے اس بارے کوئی مطالبہ یا سوال نہیں کرونگا۔ لیکن جب آپ دلائل میں اس کا ذکر لائیں گے تو پھر میں بھی اس غیر اختلافی رفع پر آپ سے مطالبات وسوالات کرونگا۔۔۔ جو منظور ہو قبول فرمالیجیے۔
جناب میرا اپنے پہ احسان سمجھیں یا میری شرافت کہ شروع سے اب تک مختلف فیہ رفع کی منسوخیت پر آپ سے صریحی دلیل طلب ہی نہیں کی۔ کہ جناب سہج صاحب پہلی رفع بھی مختلف فیہ رفع سے خارج ہے اور اسی طرح سجدوں کی رفع بھی مختلف فیہ رفع سے خارج ہے۔ آپ اپنے دعویٰ کے مطابق باقی تین جگہوں پر جو رفع کی جاتی ہے ان کی منسوخیت پر دلیل صحیح پیش فرمائیں۔( کیونکہ ہماری بحث صرف مختلف فیہ رفع پر ہے۔ جس پر تھریڈ کا عنوان بھی گواہ ہے)
پہلی رفع جو کہ مختلف فیہ رفع میں شامل نہیں لیکن پھر بھی اس کو تذکرہ میں لایا جاتا ہے۔کیوں لایا جاتا ہے؟ مفتی سہج صاحب اس کا لاجک سمجھ آگیا کہ نہیں ؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
قارئین کرام سہج صاحب کی پوسٹ نمبر33 میری پوسٹ نمبر28 کا جواب ہے۔اس پوسٹ کے کچھ حصے کا جواب پوسٹ نمبر54 میں پیش کیا تھا۔ کچھ مصروفیات کی وجہ سے باقی حصے کا جواب اب پوسٹ کیا جارہا ہے۔

دیکھئیے گڈ مسلم صاحب ہم چھوڑتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کی دلیل آپ کو دکھا چکا ہوں، یعنی چار رکعت شروع نماز کی کرتے ہیں اور جو رفع یدین نماز میں ہے اسے نہیں کرتے ، یعنی رکوع ،سجود وغیرہ
محترم المقام مانتا ہوں آپ دلیل دکھا چکے ہیں۔ جناب دلیل دکھانے کی غرض سے پیش نہیں کرنی اور نہ ہی آپ کی ایسی دلیل قابل تسلیم ہوگی جو صرف دکھانے کی حد تک ہوگی۔ جناب یہ شرعی مسئلہ ہے، اور یہاں دلائل دکھائے نہیں جاتے بلکہ ایسے دلائل پیش کیے جاتے ہیں جو صحیح بھی ہوں۔ جو آپ نے دلیل دکھائی یعنی پیش کی تھی اس وقت جب میں نے بخاری سے ان مقامات پر رفع الیدین کرنے کی صریح حدیث پیش کی تھی جن مقامات پہ ہم رفع الیدین کرتے ہیں اور دلیل بھی ایسی تھی کہ آپ کو اقرار کرنا پڑا کہ میں اس دلیل کو مانتا ہوں ( مان کر عمل سے کیوں انکاری ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے حدیث دشمنی آڑے ہے یا تقلید کا پھندا یہ میں نہیں جانتا ) تو آپ نے اس کے جواب میں جو دلیل پیش فرمائی اس کا مقام کیا تھا وہ پوسٹ نمبر46 میں بیان کیا جاچکا ہے۔ اگر تکلیف برداشت ہوسکے تو اس پوسٹ کی طرف رجوع کرلیں۔ مطالعہ کے بعد اگر کوئی علمی اعتراض ہو تو پیش کیجیے گا۔ بازاری اعتراضات کے جواب دینے کا وقت نہیں ہے میرے پاس۔
دیکھئیے اور سمجھئیے
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
یہاں جس رفع یدین کو منع کیا گیا ہے وہ نماز کے اندر والی ہے اور آپ جو رفع یدین کرتے ہیں وہ نماز کے اندر ہی ہے ۔ ہے ناں ؟
حضور سہج صاحب آپ نے فرمایا ہوا ہے کہ آپ رفع الیدین کو منسوخ مانتے ہیں۔ ( حالانکہ آپ نے تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا اختصاص نہیں کیا۔ چلیں آپ کی غلطی ہی تسلیم کی جاتی ہے۔ ورنہ آپ کو اپنے الفاظ میں وضاحت کرنا چاہیے تھی جب آپ رفع الیدین کو منسوخ کہنے جارہے تھے۔ کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے علاوہ باقی رفعوں کو منسوخ مانتا ہوں) اور اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کےلیے ایک ایسی حدیث بھی پیش فرمادی جس کا اختلافی رفع سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ آپ کی پیش کردہ حدیث آپ کے مؤقف پر دلیل بن سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا مفصل جواب پوسٹ نمبر47 میں دیا جا چکا ہے۔ برائے مہربانی وہاں کا چکر لگائیں۔ شکریہ ۔۔۔ چکر لگانے کے بعد آپ کو سمجھ آجائے گا کہ میں نے جو دلیل پیش کی ہے اس سے میرا مدعا ثابت بھی ہوتا ہے کہ نہیں ؟؟ اس لیے میں کہنا چاہونگا کہ آپ نے ابھی تک اپنے مؤقف پر کوئی صحیح، صریح دلیل پیش ہی نہیں کی۔۔ برائے مہربانی اپنے مؤقف پر کوئی ایک صحیح، صریح حدیث پیش کرکے ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں۔ ورنہ میری پیش کردہ حدیث کے مطابق عمل شروع کردیں کیونکہ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ میں اس حدیث کا انکاری نہیں۔۔۔
اس روایت سے نماز کو شروع کرتے وقت کی نفی ہے ہی نہیں۔
یہ حدیث آپ کے مؤقف کی دلیل ہے ہی نہیں۔
اور آپ کی پیش کردہ روایت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ دیکھئیے
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
میری پیش کردہ حدیث سے کیا بات ثابت ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل سے وضاحت پہلے بھی پیش فرما چکا ہوں، مختصر دوبارہ بھی عرض ہے کہ
1۔ نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کرنا سنت رسولﷺ ہے
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا سنت رسولﷺ ہے
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنا سنت رسولﷺ ہے
4۔ دو رکعت پڑھنے کے بعد جب تیسری رکعت کا آغاز کرنا ہے تو اس وقت رفع الیدین کرنا بھی سنت رسولﷺ ہے۔
اور ہم اہل حدیث الحمدللہ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں اور ان شاءاللہ قیامت تک کرتے رہیں گے۔ اور فرق باطلہ کے اعتراضات کے جوابات بھی منہ توڑ دیتے رہیں گے۔۔ان شاءاللہ
دوسری بات مولانا چالاک بننے کی تو بہت کوشش کرتے ہیں لیکن چالاک بننا نہیں جانتے یا جس سے پڑھ کر آتے ہیں اس کے بتائے ہوئے تمام ڈھنگ یاد ہی نہیں رکھ پاتے۔ آپ نے ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ والی حدیث پیش کرکے اپنے تائیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم نماز کی اندر والی رفع الیدین نہیں کرتے۔ اور دلیل پکڑی ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ سے۔ اور پھر اپنی تائید حاصل کرنے کےلیے میری پیش کردہ حدیث کو بھی بغیر سوچے سمجھے ذکر کردیا ۔۔اور فرمان جاری کردیا کہ ’’ آپ کی پیش کردہ روایت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ‘‘ واہ جناب واہ
سہج صاحب آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں اور میں نے جو حدیث پیش کی اس میں بھی ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کی الفاظ ہیں۔۔ دیکھیئے اپنی حدیث ’’ اسکنوا فی الصلوٰة ‘‘ اور دیکھیئے میری حدیث ’’ كان إذا دخل في الصلاة ‘‘ جب اپنی حدیث کا ترجمہ پیش کیا تو ان الفاظ کا ترجمہ کیا ’’ تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔‘‘ اور جب میری حدیث کا ترجمہ پیش کیا تو ہیڈنگ ٹو لگا کر یوں پیش کیا (میں نے کیا ترجمہ کیا تھا وہ میری سردردی تھی۔پر آپ کو کیا ترجمہ پیش کرنا چاہیے تھا وہ آپ اپنی پیش کردہ حدیث سے موازنہ کرتے ہوئے اس بات کا خصوصی خیال کرتے) ’’ جب نماز کا آغاز فرماتے ‘‘ محترم جناب جب آپ نے اپنے الفاظ ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کا ترجمہ نماز میں کیا ہے تو پھر میرے الفاظ ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کا ترجمہ نماز کا آغاز کرتے کیوں کیا ہے ؟ ( میں نے کیا ترجمہ کیا ہوا ہے اس بات کو رگڑنے مت بیٹھ جانا جو آپ سے پوچھا ہے اس کا جواب دینا شکریہ ) یہ تو ہوئی ترجمہ کی بات۔۔
اور پھر جناب اگر آپ اپنی حدیث سے تکبیر اولیٰ والی رفع الیدین کے علاوہ باقی رفعوں کو منسوخ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں تو پھر آپ کو میری حدیث سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ تکبیر اولیٰ والی رفع الیدین بھی نماز میں کی جاتی ہے۔ کیونکہ دونوں احادیث میں ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اگر آپ اپنی حدیث سے تکبیر اولیٰ والی رفع کو خارج کررہے ہیں اور باقی رفعوں کی منسوخیت پر ایز اے دلیل پیش کررہے ہیں تو پھر میری پیش کردہ حدیث سے بھی تکبیر اولیٰ والی رفع کو خارج تسلیم کرنا ہوگا۔اور آپ کو کہنا ہوگا کہ گڈمسلم صاحب آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں تکبیر اولیٰ والی رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے جب آپ تسلیم کرلیں گے کہ گڈمسلم صاحب آپ کی حدیث سے بھی میں تکبیر اولیٰ والی رفع کو خارج مانتا ہوں۔ تو پھر ان شاءاللہ مزید باتیں ہونگی۔۔ فی الحال اس پر آپ کا جواب مطلوب ہے۔۔
حاصل یہ کہ نماز میں داخل ہونے کے لئے تکبیر اور رفع یدین کرتے ہیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین منع کردی گئیں کیوں کہ وہ فی الصلاۃ ہیں اور "سکون " کے خلاف ہیں۔(یاد رہے آپ اور ہم چار رکعت نماز کے بارے میں بات کر رہے ہیں )
بہت خوب دوھرا معیار۔۔ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ نماز میں داخل ہونے کےلیے تکبیر اور رفع یدین کرتے ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین منع کردی گئی ہیں۔۔ حالانکہ دونوں میں الفاظ ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے ہیں۔ ترجمہ میں فرق کس بناء پہ کررہے ہیں مولانا ؟ آپ کی ہی باتیں اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ کی بھی پیش کردہ دلیل بھی آپ کے مؤقف کے خلاف ہے۔۔ اور اس کی تفصیلی وضاحت پوسٹ نمبر47 میں پیش بھی کی جاچکی ہے۔
پہلے آپ اعلان تو کریں گڈ مسلم صاحب حنفی مقلد ہونے کا پھر میں آپ کو بتادوں گا کہ میں بلکہ آپ کو خود بخود دلیلیں سمجھ آجائیں گی ۔
بات کو گھمانے کی کوشش بہت کرتے ہیں مولانا سہج صاحب آپ۔ لیکن گھما سکتے نہیں۔ اس لیے ناکام ہی رہ جاتے ہیں۔ جناب میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ جو بلا دلیل کہہ دیں گے میں مان لونگا بلکہ میں نے ’’ بادلیل ‘‘ کے الفاظ بھی بولے تھے۔ اور جناب کو تقلید کی تعریف بھی شاید یاد ہوگی کہ ’’ تقلید بلادلیل بات مان لینے کو کہتے ہیں۔‘‘ اس لیے جناب میری بولے گئے الفاظ ’’فما کان جوابکم فہو جوابنا ‘‘ پر آپ کا مجھے حنفی مقلد ہونے کی نصحیت کرنا ناسمجھی پر دلالت کرتا ہے۔ گزارش ہے ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور آپ ہمیں بادلیل بتائیں کہ آپ جو رفع کرتے ہیں وہ سنت ہے؟ یا حدیث ہے؟ یا فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟ یا عصر کی سنتوں کی طرح ہے۔ جو جواب آپ کا وہی جواب میرا۔ جناب جواب دینے میں ذرا جلدی کیجیے۔اور مجھے اپنے ساتھ ملا لیجیے۔ لیکن جناب جواب دلیل صحیح کے ساتھ تسلیم ہوگا۔ اغیرہ وغیرہ کے قول پر نہیں۔۔ اس بات کا دھیان کرلینا۔
آپ کے اس فرمان عالیشان ’’ خود بخود دلیلیں سمجھ آجائیں گی۔‘‘ نے حیرانگی کی انتہاء میں ڈالنے کے ساتھ ششدر کرکے رکھ دیا ہے۔ کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہم دلائل کو سمجھ ہی نہیں سکتے اس لیے کسی مجتہد کی تقلید واجب ہے۔ اور دوسری طرف آپ جیسے کچھ کرم نوا ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مقلد بن جاؤ دلائل خود بخود سمجھ آجائیں گے۔۔ بھائیوں مقلد بننے کے بعد آپ لوگ ایسی کیا چیز پلاتے ہیں؟ جس کی وجہ سے دلائل خودبخود سمجھ آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم پر ترس کرکے وہ چیز ہمیں بھی دینے کی نیکی کریں گے؟ ( اگر مہنگی ہے تو ہم اس کی قیمت بھی دینے کو تیار ہیں۔) تاکہ غیر مقلد ہوتے ہوئے بھی ہمیں دلائل خودبخود سمجھ آجائیں اور ہم اسی طرح زندگی گزارنا شروع کردیں جس طرح نبی کریمﷺ نے بتائی اور صحابہ نے عملی نمونہ پیش کرکے دکھایا۔۔اگر وہ چیز جس سے دلائل خود بخود سمجھ آجاتے ہیں پینے کے بعد مقلد ہونا ضروری ہوا تو مقلد بھی ہوجائیں گے۔ (کیونکہ مقصود مقلد یا غیر مقلد ہونا نہیں بلکہ زندگی کا مقصد اسوۂ رسولﷺ کے مطابق چلنا ہے) لیکن پہلے ذرا اس چیز کا تعارف اور ایز اے ٹرائیل ہمیں دی تو جائے ناں۔( جس طرح سوفٹ وغیرہ کے ٹرائیل ورژن دیئے جاتے ہیں۔) کیا خیال ہے مولانا سہج صاحب پھر کب مجھے ٹی سی ایس کروا رہےہیں ؟
لیکن اگر آپ غیر مقلد رہتے ہوئے چاھتے ہیں کہ آپ ایک مقلد کی دلیل کو اپنا بنالیں تو یہ ممکن نہیں
جناب کی خدمت میں ایک گزارش کرتا چلوں کہ گڈمسلم صاحب شخصیات کو نہیں دلائل کو دیکھتا ہے۔ اور آپ کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ شرعی معاملات میں دلائل کو دیکھا کریں شخصیات کو مت دیکھا کریں۔اسی میں ہی بھلائی ہے۔اور آپ سے بھی جو مطالبہ کیا تھا وہ بھی دلیل کے ساتھ تھا۔۔ اس لیے جب آپ دلیل کے ساتھ میرے مطالبے کو پورا کردیں گے۔ تو گڈمسلم صاحب دلائل کو دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی آپ کے مؤقف کو تسلیم کرے گا۔۔ اور پھر کہے گا کہ ٹھیک ہے میرا بھی یہی جواب ہے لیکن دلیل کے بغیر آپ کہہ دیں اور پھر یہ خیال کرلیں کہ گڈمسلم صاحب بھی میرے اس مؤقف کو تسلیم کرلیں یہ ممکن نہیں۔۔ناممکن ہے۔
کیونکہ پھر آپ اپنے آپ کو مشرک مانیں گے اور جب بندہ خود اپنے شرک پر آگاہ ہوجائے اور اس پر قائم رہے تو بہت سخت برا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے ؟
جناب مولانا سہج صاحب بعد کی باتیں بعد میں ۔۔ پہلے کی باتیں پہلے۔۔ اس لیے پہلے ثابت کریں۔۔ بعد کےمراحل تک ہاتھ کو باندھ کر رکھیں۔۔شکریہ
اسلئیے آپ یا تو حنفی ہونے کا اعلان کیجئے یا پھر دلیل پیش کردیجئے اپنے دعوے کے مطابق یعنی اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے عین مطابق ۔
جناب آپ ثابت تو کریں ناں۔۔ یہ کیا بات ہے کہ ثابت کرتے نہیں اور مجھے مشورے دیتے جارہے ہو کہ آپ مقلد ہوجائیں حنفی ہونے کا اعلان کردیں۔ دلائل خود بخود سمجھ آجائیں گے۔۔ دن رات اور رات دن ہوجائے گی۔ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔۔ اللہ کے ولی پہلے ثابت تو کرو۔۔ لیکن ثابت کرتےہوئے میری اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ ’’ دلیل کے ساتھ ‘‘ اور پھر میں آپ ک بتاؤں گا کہ دلیل کے ساتھ جو بات مانی جائے اس بارے حنفی علماء کیا کہتے ہیں؟ کیا اس کو بھی تقلید کانام دیتے ہیں ؟ اس لیے واویلا اور ادھر ادھر کی باتوں سے بہتر ہے کہ سارا فوکس اس بات کو ثابت کرنے پر لگائیں کہ آپ جو رفع کرتے ہیں وہ سنت ہے؟ یا حدیث ہے؟ یا فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟ یا عصر کی سنتوں کی طرح ہے۔ بادلیل ثابت کرنا ہے۔
سوال پھر سے دیکھ لیجئے
آپ میری بات کو بھی پھر سے دیکھ لیجیے، سمجھ لیجیے اور اگر سمجھ آجائے تو جواب بھی عنایت کردیجیے۔۔ بہت بہت شکریہ ہوگا۔
اوپر کچھ وضاحت کی تھی میں نے ، دوبارہ پیش کردیتا ہوں دیکھ لیجئے۔
میں نے بھی بہت اچھی طرح پہلے بھی وضاحت کی تھی اور اب بھی کردی ہے۔ اس لیے آپ بار بار دیکھ لیجیے۔
شافعی، حنبلی اور مالکیوں سے نہیں صرف حنبلی اور شافعی کہیں ۔ کیوں ؟ اس کی بھی تحقیق کرلیجئے گا ۔ شافعی کی رفع یدین اور حنبلیوں کی بھی اور مالکی جو عمل کرتے ہیں اس پر بھی الحمدللہ اہل سنت والجماعت کی دلیل موجود ہے جیسے احناف کے پاس بھی دلیل موجود ہے ۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ شافعی، حنبلی اور مالکیوں کا رفع الیدین کے بارے کیا مذہب ہے؟ آپ مجھے بس اس بات کا جواب دیں کہ شافعیوں کے پاس جو رفع الیدین کے مسنون ہونے پر دلائل ہیں وہ کیسے ہیں ؟ کہاں سے لائے گئے ہیں ؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیا وہ احادیث کی صورت میں ہیں؟ یا ان کے امام کے اقوالات ہیں؟ اور اگر ہوسکے تو شافعیوں کی دو چار دلیلیں بھی ذکر کردینا تاکہ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ان مسئلہ پر شافعیوں کے پاس وہ کیسے دلائل ہیں؟ جو آپ کو بھی قابل قبول ہیں اور آپ ان کو بھی حق پر سمجھتے ہیں۔۔ شافعی بھی رفع الیدین کرتے ہیں ہم بھی رفع الیدین کرتے ہیں وہ درست اور ہم غلط ۔ذرا سمجھ نہ آنے والی بات ہے۔۔ آخر وہ کیسا رفع الیدین کرتے ہیں؟ یا ان کے پاس رفع الیدین کے کیسے دلائل ہیں؟ ان سے واقفیت ہمیں سہج صاحب کروائیں گے۔۔ اگر ہمت ہوئی ان میں تو۔۔
لمحہ فکریہ غیر مقلدوں یعنی تقلید کے منکرین یعنی تقلید کو شرک اور گمراہی کہنے والوں یعنی فرقہ جماعت اہلحدیث کے افراد کےلئے ہے ۔
ہماری لیے لمحہ فکریہ نہیں اور نہ صحیح دلائل پر چلنے والوں کےلیے لمحہ فکریہ کبھی ہوسکتا ہے۔۔ لمحہ فکریہ تو آپ جیسے تقلید پرستوں کےلیے ہے۔۔ اور مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اس مسئلہ پر کس کس فورم پہ لکھا ہوا ہے اور آپ نے کیا کیا مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔۔ ان شاءاللہ آپ کو دکھاؤں گا کہ آپ کا بھی اس مسئلہ پر ایک موقف نہیں بلکہ کسی جگہ کچھ اور کسی جگہ کچھ۔۔ اس لیے لمحہ فکریہ کے الفاظ کا رخ اپنی طرف ہی پھیر لیں تو مناسب ہوگا۔۔
جو تقلید اختلاف کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہم اس تقلید کو گمراہی کہتے ہیں اور یہ تقلید ارباب من دون اللہ کے مترادف ہے۔۔
کہ گڈ مسلم صاحب محتاج نظر آتے ہیں اہل سنت والجماعت شافعی و حنبلیوں کی دلیل کے ۔حضور آپ اپنی دلیل پیش کریں دس جگہ رفع الیدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ نفی کی ۔
ہم صحیح دلائل کے محتاج ہوتے ہیں جناب۔۔۔ اس بات کے محتاج نہیں کہ دلیل کہاں سے اور کس گروہ سے آرہی ہے۔۔ شافعیوں اور حنبلیوں نے دلائل اپنے گھر سے نہیں بنا لیے۔ جو وہ دلائل اس مسئلہ پر پیش کرتے ہیں اگر صحیح ہیں تو قابل تسلیم لیکن اگر صحیح نہیں تو پھر ان دلائل کو نہیں مانا جائے گا۔۔ چاہے وہ غیر صحیح دلائل اثبات میں ہی کیوں نہ ہوں۔۔ ہم لوگ آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ اپنے مؤقف پر ہر طرح کی دلیل چاہے وہ ضعیف ہو یا موضوع تسلیم ہے لیکن مؤقف کے خلاف صحیح دلیل میں بھی تاویل پیدا کرکے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔۔۔ ہمیں چاہے اثبات پر دلائل دیئے جائیں یا نفی پر ۔۔ شرط ہے کہ دلائل کا صحیح ہونا ضروری ہے۔۔ باقی میں اپنے عمل پر ایسی حدیث پیش کرچکا ہوں جس کے بارے آپ کو اعلان کرنا پڑا کہ میں آپ کی دلیل کا انکاری نہیں۔۔ اور اس دلیل میں ہی آپ کے چورے کیے گئے الفاظ کا عین جواب موجود ہے۔۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ گڈمسلم صاحب یہ الفاظ ’’ دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ‘‘ آپ کے دعویٰ میں ہیں اور آپ کو عین دعویٰ کے مطابق دلیل دینا ہوگی تو جناب کےلیے عرض ہے میں نے اس طرح کے الفاظ نہیں لکھے۔۔بلکہ آپ کی ضدیت کو اچھی طرح توڑا ہے لیکن آپ کی طرف سے ہٹ دھرمی بھی شرما گئی ہے۔۔۔
ہٹ دھرمی شرمائے کیوں ناں ؟ کیونکہ خود تسلیم کرلیا کہ گڈمسلم صاحب آپ نے چار کی تعداد تو حدیث سے دکھائی لیکن باقی چھ کی تعداد آپ نے قیاس سے دکھائی ہے۔۔ آپ قیاس کو نہیں مانتے اس لیے چھ کی تعداد بھی حدیث سے دکھائیں۔۔۔ جوابی طور میں نے جب کہہ دیا کہ پہلی بات یہ قیاس ہے ہی نہیں (اگر قیاس ہے تو ثابت کیجیے ) بلکہ آپ کی طرح اگر گنتی پر آئیں تو چار کی طرح چھ بھی حدیث سے ثابت ہیں لیکن اگر آپ اس پر قیاس قیاس کا ہی نعرہ لگانے سے نہیں رکتے تو پھر سن لو قرآن وحدیث سے مستنبط قیاس کو میں مانتا ہوں۔ اس لیے باقی چھ رفعیں بھی ثابت ہوگئی۔۔ اب بھی نہ ماننے کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس وجہ سے آپ تسلیم کرنے پر راضی نہیں ؟؟؟
اس دعوے پر کوئی دلیل صریح؟ جس میں ہو کہ اختلافی رفع یدین منسوخ نہیں ۔
سچ کہتے ہیں کہ جب جاہل لوگ بھی مسائل دینیہ میں گفت وشنید کرنے لگ پڑیں تو اس طرح کی بو العجبیاں سامنے آیا کرتی ہیں۔۔( جناب جاہل آپ خود اپنے آپ کو کہہ چکے ہیں اس لیے میرے الفاظ پہ غصہ مت کرنا) اب میں آپ کو ایسی صریح دلیل دوں کہ جس میں ہو نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ رفع الیدین پر اختلاف ہوگا یاد رکھو اختلافی رفع الیدین منسوخ نہیں۔۔ اگر میں آپ سے پوچھ لوں کہ آپ اپنے دعویٰ رفع الیدین منسوخ ہے صرف دعویٰ پر صریح دلیل پیش کریں تو کیا خیال ہے جناب کو سانپ تو نہیں سونگھ جائے گا ؟؟ بچے بھی ایسی حرکتیں اور باتیں نہیں کرتے جو آپ کرنا شروع ہوگئے ہیں۔۔ سب خیریت تو ہے ناں ؟؟
اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب آپ دس جگہ رفع یدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کے نفی کی دلیل صریح پیش کردیں ،اب بات ختم کریں اور مبارک وصول کریں ۔
ابتسامہ پر ابستامہ .... ایک طرف کہا جارہا ہے کہ دعویٰ پر دلیل صریح دو اور پھر اسی کی وضاحت میں کہا جارہا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔۔ واہ جی واہ ۔۔۔۔ یہ ہوئی ناں کمال کی بات۔۔۔ جناب بات بھی ختم ہوچکی ہے اور مبارک بھی وصول کر چکا ہوں کیونکہ میں اپنے عمل کے عین مطابق ( اگر آپ کی طرح گنتی پر آئیں تو دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی بھی ثابت ہوتی ہے) ایسی دلیل پیش کرچکا ہوں جس کے بارے میں آپ نے خود کہہ دیا کہ میں انکاری نہیں۔۔ اب نہ ماننے میں کیا مجبوری ہے وہ آپ جانتے ہیں۔۔ اگر بیان کردیں تو ہوسکتا ہے میں یا کوئی اور قاری آپ کی کوئی ہیلپ کرسکیں۔۔ شرمائیے مت۔۔ اللہ سب بھلا کرے۔۔
کوئی مغالطہ اور چکر وکر نہیں صاف اور سیدھا سوال کیا تھا جس کو دلیل کے ساتھ دکھانے میں آپ ناکام ہیں ۔ اور کبھی شافعیوں اور کبھی حنبلیوں کا در جھانکتے ہیں ۔
آپ لوگ مغالطہ وچکرو چکر کو بھی درست عمل کہتے رہتے ہیں۔۔ جناب اگر آپ نے سیدھا سادھا بیچأرہ سوال اپنی طرف سے یا چوری کرکے پیش کیا ہے جو کہ میری طرف سے بیان ہوا ہی نہیں لیکن پھر بھی جواب میں میں نے بھی ایسی دلیل پیش کی ہے جس کو آپ تسلیم کرگئے ہیں۔۔اور ہاں در بدر ہم نہیں جھانکتے ہمیں صرف ایک در جھانکنے کی تعلیم دی گئی ہے یہ تو آپ لوگ ہیں کبھی امام ابوحنیفہ کے در جھکتے ہیں کبھی امام محمد کے در کبھی امام یوسف کے در تو کبھی امام زفر کے در۔۔ سچ کہا کہنے والوں نے کہ جو ایک در کو چھوڑتا ہے وہ در در کی ٹھوکری کھاتا ہے۔۔ اور یہی حال آپ لوگوں کا ہے۔۔۔
جناب آپ دعوے دار ہیں اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے ۔
جی الحمد للہ
اور دعوٰی آپ نے پیش کیا ہے میں اختلافی رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل نہیں
جی بالکل میں منسوخیت کا قائل نہیں
اور دلیل میں جو عمل پیش کیا جس صحابی سے، وہی صحابی رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے بعد کے زمانے میں ۔
مذاق بہت اچھی طرح کرلیتے ہیں۔۔ وہی صحابی رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ؟ اس بارے مکمل تفصیل بیان کرچکا ہوں۔۔ جس کو دوبارہ یہاں پیش نہیں کرنا چاہتا۔۔۔سہولت کےلیے لنک پیش ہے۔۔پوسٹ نمبر46
تو پھر آپ ہی بتائیے کہ ہمیں بعد کے زمانے کا عمل اپنانا چاھئے کہ جو جاری ہوا یا پھر پہلے زمانے کے اعمال پر عمل کریں جو بعد میں تکمیل پاچکے؟
بعد کے زمانے کا عمل آپ صحیح صریح دلائل سے ثابت تو کریں جناب ۔۔۔ اور جس میں اس بات کی بھی وضاحت ہو کہ یہ پہلے زمانے کی بات ہے اور یہ آخری زمانے کی۔۔ اگر یہ صراحت نہ ہو تو دلائل پیش کرتے ہوئے آپ خود اس بات کو ثابت کرتے جانا کہ یہ حدیث پہلے زمانے کی ہے اور یہ آخری زمانے کی۔۔۔تب آپ کی زمانے والی بات تسلیم کی جائے گی۔ اور پھر آپ کو زمانہ کے حساب سے بھی دکھایا جائے گا کہ آخری فعل نبی کریمﷺ کا کونسا تھا۔ رفع کرنے والا یا نہ کرنے والا۔۔باللہ التوفیق۔۔۔ ہاں ایک بات کا جواب دیتے جانا کہ ایک کام نبی کریمﷺ سے ثابت ہو آپﷺ نے کیا آپ کی وفات کے بعد کوئی صحابی اس کام کو منسوخ کرسکتا ہے؟ ہاں یا ناں میں جواب
خود صحابہ کے طریقے ثابت کرتے ہیں۔ کہ نماز میں پہلے ہر ہر اونچ نیچ پر اور ہر ہر تکبیر پر رفع یدین کیا جاتا تھا ، دوران نماز باتیں بھی کرلی جاتی تھیں ، خود ایک روایت میں نمازی کو دوران نماز اپنے پیر کے نیچے تھوک پھینکنے کا ارشاد فرمایا ، وغیرہ ۔۔۔ کیونکہ موضوع ہے رفع یدین تو اسی مناسبت سے آپ کو ایک اور روایت دکھاتا ہوں جس میں ہر ہر تکبیر و اونچ نیچ پر رفع یدین کرنے کا زکر ہے ۔
نماز میں ہر اونچ نیچ پر رفع کا ہونا ، نماز میں باتیں کرنا، نماز میں پیر کے نیچے تھوک پھینکنا اس پر مفصل تحریر الگ پوسٹ میں کی جائے گی۔۔ انتظار کی تکلیف برداشت کرنا ہوگی۔
اول

عن ابن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً کان يرفع يديہ فی کل خفض ورفع ورکوع وسجود وقیام وقعود بين السجدتين .... الخ
(شرح مشکل الاثار لطحاوی ج ۲ ص ۰۲ رقم الحديث ۴۲، وسندہ صحيح علی شرط البخاری و مسلم، بیان الوہم لابن القطان ج۵ ص ۳۱۶ وقال صحيح، طرح التثريب للعراقی ج۱ ص۱۶۲)
حضرت سىدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ ﷺ ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرتے تھے۔
اس حدیث میں بھی وہ بات ہے جس کے بارے میں لکھ چکا ہوں، ان شاءاللہ بہت جلداس حدیث کے ساتھ باقی جن باتوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے الگ پوسٹ میں جواب لکھا جائے گا۔ ان شاءاللہ
اگر عربی سے کجھ واقفیت ہے تو پھر اس مضمون کو پڑھ لیں۔
سؤال حول رفع اليدين عند كل خفض و رفع
اور آپ نے پیش کی تھی جو روایت اسے بھی دیکھ لیجئے
جی دیکھ لیا ہے۔ بلکہ صرف دیکھا نہیں عمل بھی کرتا ہوں۔۔الحمد للہ
اب بتادیجئے کہ پہلے زمانے کی کون سی روایت ہے ؟اور بعد کی کون سی ؟
ہم م م م م ۔۔۔ آپ کی طرف سے پیش اثر کی مکمل تحقیق پیش کرنے کے باوجود آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں کہ آپ کے پیش اثر میں ایسا کون سا قرینہ ہے جس کی وجہ سے آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ بعد کے زمانے کی حدیث ہے اور آپ والی پہلے زمانے کی۔۔۔ (جس قرینہ کا آپ ذکر کریں گے الحمد للہ بخوبی اس سے واقف ہوں، لیکن ذرا آپ کے قلم سے بیان ہوجائے تو بہتر ہوگا)
اگر اول روایت کو دیکھیں تو اسمیں ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرنے کا معلوم ہوتا ہے اور دوم روایت کو دیکھیں تو نماز شروع اور رکوع جاتے ،اٹھتے،اور تیسری رکعت کا پتا چلتا ہے کہ یہاں یہاں رفع یدین کیا جاتا تھا۔ٹھیک؟
جناب زمانہ کی بات بہت کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ صرف اتنا کہنے سے کہ یہ بعد کے زمانے کی حدیث ہے اور یہ پہلے زمانے کی تسلیم کرلیا جائے گا یا بادلائل ثابت بھی کرنا ہوگا کہ یہ حدیث پہلے زمانے کی ہے اور یہ بعد کے زمانے کی۔۔۔؟؟ عجیب بات ہے یار زمانہ زمانہ کی رٹ تو لگا رکھی ہے لیکن ثبوت پیش کرتے ہی نہیں ۔۔۔ چاہیے تو یہ تھا کہ زمانہ کی بات کرنے سے پہلے جو احادیث آپ پیش کرتے اس کو ثابت بھی کرتے کہ یہ بعد کے زمانہ کی ہیں۔۔
اب یہ روایات بھی دیکھ لیں
یہ روایت آپ ایک بار نہیں کئی بار اس تھریڈ میں پیش کرچکے ہیں۔۔ اس کا مکمل جواب دے دیا گیا ہے۔۔پوسٹ نمبر47
نماز میں سکون کاحکم دیا گیا اور یہ میں بتاچکا کہ رکوع جانا اٹھنا اور تیسری رکعت اٹھنا یہ سب نماز میں ہی ہوتا ہے ،شروع میں نہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے مؤقف پر یہ دلیل بن سکتی ہے یا نہیں اس بارے لکھ چکا ہوں، کوئی علمی اعتراض ہو تو پیش کرنا
دوسری بات ’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے بارے میں بھی مکمل وضاحت کرکے اس پر سوال طلب کیا گیا ہے اس کا جواب مطلوب ہے۔
تیسری بات چلو کچھ دیر کےلیے اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ آپ کے مؤقف پر یہ دلیل بن سکتی ہے۔(حقیقت یہ ہے کہ قطعاً آپ کے مؤقف پر یہ دلیل نہیں بن سکتی۔تفصیل دیکھیں) آپ مجھے بادلیل بتائیں کہ میری پیش کردہ حدیث ’’ " كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739) ‘‘ اور آپ کی یہ پیش کردہ حدیث ’’ عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ ‘‘ ان دونوں میں سے پہلے زمانے کی کونسی حدیث ہے اور بعد کے زمانے کی کونسی۔؟؟ صرف کہنا نہیں بلکہ اس پر ثبوت بھی پیش کرنا ہے۔
اب چند روایات اور دیکھیں
یہ روایات بھی کئی بار صرف اس لیے پیش کی گئی ہیں تاکہ کم سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ تأثر دیا جائے کہ سہج صاحب نے تو احادیث کے ڈھیر ہی لگا دیئے۔ حالانکہ اصول یہ ہوتا ہے کہ ایک بار جب حدیث پیش کردی جائے تو دوبارہ نئی دلیل کے طور پر اسے پیش نہ کیا جائے ہاں تائید میں اگر پیش کی جاسکتی ہیں۔۔یا اگر فریق مخالف نے جواب میں دھوکہ دہی کی ہے تو اس پر متنبہ کرنے کےلیے پیش کیا جاسکتا ہے۔۔ لیکن نئی دلیل کے طور پر پیش کرنا کم سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو دھوکے میں ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔۔ کہ ہمارے پاس اتنے سارے دلائل ہیں۔۔ یہ روش آپ کی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔۔ امید ہے مشورہ قبول کیا جائے گا۔۔
ان روایات کا جواب دیا جا چکا ہے۔۔ امید ہے تسلی ہوجائے گی۔۔ ان شاءاللہ
یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اول زمانے میں ہر تکبیر اور اونچ نیچ پر رفع یدین کرتے تھے ،دوم زمانے میں صرف رکوع اور تیسری رکعت ،سوئم زمانے میں نماز کے اندر کی رفع یدین کو منع کیا گیا اور چہارم زمانے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی کا عمل بتاتا ہے کہ وہ صرف نماز کو شروع کرتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے ۔
پہلی بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اس مسئلہ پر عمل کیا تھا۔۔ اور آپ کے پیش کردہ اثر کی تحقیقی حیثیت کیا ہے۔۔ اس بارے تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔۔ پوسٹ نمبر46
دوسری بات میں نے بھی ابن عمر کے حوالے سے حدیث پیش کی ہے اور آپ نے بھی ابن عمر کی طرف منسوب اثر پیش کیا ہے۔۔ دونوں روایتوں کی حیثیت کیا ہے۔ذرا اس پر بھی نظر کرم کرلیں۔۔ شاید حدیث پر کوئی ترس آجائے۔۔
تیسری بات سوال پہلے بھی کرچکا ہوں دوبارہ بھی کررہا ہوں کہ صحابی کاعمل نبی کریمﷺ کے عمل کو منسوخ کرسکتا ہے یا نہیں ؟؟
محترم جناب اگر آپ نے زمانے کی ہی بات کرنی ہے تو پھر آپ کو ایسے آثار پیش ہی نہیں کرنا چاہیے جو نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد والےہوں۔۔ آپ شارع سے ہی ثابت کریں کہ یہ رفع الیدین کرنے والا فعل نبی کریمﷺ کا پہلے والا تھا اور پھر آپ نے منع کردیا تھا اور خود بھی اس رفع سے رک گئے تھے۔۔ تب بنتی ہے بات۔۔ لیکن آپ اتنے گزر گئے ہیں کہ اپنے غلط مؤقف پر ایک تو ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ دلائل آپ کا ساتھ نہیں دے رہے اور دوسرا نبی کریمﷺ کے عمل کے مقابلے میں صحابی کے ایسے عمل کو بار بار لائے جارہے ہیں جو صحابی سے ثابت بھی نہیں۔۔۔ جناب آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ شارع کوہی نسخ کا اختیار ہوتا ہے۔۔ جب شارع نہ رہے تو نسخ بھی نہیں ہوتا۔۔ جو جو اعمال شارع سے واقع ہوئے ہوتے ہیں وہ شریعت بن جایا کرتے ہیں۔۔ امید ہے اب زمانے کی جب بات کریں گے تو نبی کریمﷺ کی زندگی میں رہتے ہوئے کریں گے۔۔۔ان شاءاللہ
مجھے معلوم ہے،اب آپ نے زمانے پر اعتراض کرنا ہے تو اسے بھی ایک روایت سے ہی سمجھ لیجئے
جہاں آپ کی طرف سے زمانے کی وضاحت نہیں ہوگی، اعتراض کے ساتھ ثبوت بھی مانگا جائے گا۔۔ لیکن جہاں وضاحت ہوگی،وہاں اگر ایسی دلیل سے وضاحت ہوگی جو صحیح ہوگی وہ تسلیم کی جائے گی۔۔ ان شاءاللہ ۔۔ کیونکہ ہم اہل حدیث ہیں اور اہل حدیث کبھی بھی چور دروازے تلاش نہیں کیا کرتے۔۔۔ اس ڈھنگ کے پختہ کار عالم خاص طور مقلدین ابی حنیفہ ہیں۔۔۔ اللہ رحم کرے۔۔
حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں
واہ جی واہ آپ مولوی نہیں بلکہ مولبی لگتے ہیں۔۔ زمانے والی بات کو کیسے ثابت کیا ہے۔؟ بہت خوب۔۔ حضور سہج اللہ تیرا بھلا کرے کچھ غیرت نام کی بھی چیز ہے آپ میں۔۔ میں وضاحت کرتا ہوں
پہلے حدیث پر وضاحت کردوں کہ جناب یہاں اس مسئلہ کو بیان کیا جارہا ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کےلیے کیا حکم ہے؟ کہ وہ بھی امام کی اقتداء میں بیٹھ کر پڑھیں یا وہ کھڑے رہیں۔؟ آپﷺ نے اس بارے صحابہ کو پہلے نہیں بتایا ہوا تھا اس لیے جب آپ نے پہلی بار یہ عمل کیا تو صحابہ بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے مسئلہ بتا دیا کہ
‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"
جناب اس حدیث کا محل سمجھ آیا کہ نہیں ؟ یہ حدیث اس مسئلہ پر وضات کےلیے ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کےلیے کیا حکم ہے؟ کہ وہ بھی امام کی اقتداء میں بیٹھ کر پڑھیں یا وہ کھڑے رہیں۔؟
اگر اتنی بات سمجھ آگئی ہے تو سنیے
پہلی بات آپ نے اس مسئلہ پر تو حدیث پیش کردی کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں۔۔ اب ذرا وہ حدیث بھی پیش کردینا کہ جس میں آپﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہو اور صحابہ کرام نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی ہو۔۔
دوسری بات اس حدیث میں امام صاحب کی صراحت ہے کہ دونوں عمل نبی کریمﷺ نے خود کیے ہیں۔ پہلے آپﷺ نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھی، صحابہ کرام نے بھی بیٹھ کر پڑھی۔۔ پھر کسی وقت نبی کریمﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی لیکن صحابہ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔۔ دونوں کام شارع نے ہی کیے ہیں۔۔ اس بات کو ایسا ذہن نشین کرلینا کہ کبھی بھولنے نہ پائے
تیسری بات امام حمیدی رحمہ اللہ کا بیان ہے نبی کریمﷺ کا فرمان نہیں۔۔۔ ہاں یہ بات مجھے بھی قبول ہے کہ امام صاحب دونوں طرح کی احادیث کو سامنے رکھ کر ہی یہ نتیجہ نکال رہے ہیں۔۔ آپ بھی نبی کریمﷺ کی دو اس طرح کی احادیث کو (ایک میں ہو کہ آپ نے رفع الیدین کیا دوسری میں ہو کہ آپ نے پہلی رفع کے علاوہ رفع الیدین کیا ہی نہیں۔۔شرط یہ ہے کہ احادیث صحیح ہوں۔ضعیف احادیث کی شریعت میں کوئی جگہ نہیں ہے) سامنے رکھ کر وضاحت پیش کریں۔۔ بغیر دلیل کے صرف کہتے جانا تسلیم نہیں کیاجائے گا۔۔ آپ کو اچھی طرح یاد کرلینا چاہیے۔۔۔ مولانا مفتی سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ
چوتھی بات آپ نے اب تک جتنی بھی حدیثیں پیش کی ہیں اور ان پر کہا ہے کہ یہ پہلے زمانے کی ہے اور یہ بعد کے زمانے کی۔۔ کیا آپ نے کوئی ایسی صراحت پیش کی ہے۔؟؟ اگر کی ہے تو مجھے اس پر مطلع کریں اور اگر نہیں کی تو برائے مہربانی پیش کریں۔۔ چاہے اپنے امام سے ہی کیوں نہ ہو۔۔
زمانے کا فرق آپ کو یقینا سمجھ آگیا ھوگا ۔
جناب جب فرق کو بادلیل صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تو سمجھ کیوں نہ آتا۔۔؟ اور آپ سے بھی کئی بار کہا گیا کہ آپ بادلائل فرق ثابت تو کریں۔۔ کیا آپ نے ثابت کیا ؟ جو اب درس دینے چلے آئے کہ فرق سمجھ آگیا ہوگأ۔۔ واہ بہت خوب
اسلئے الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت حنفی طریقہ نبوت کے عین مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔جن پر آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ کی گواہی موجود ہے۔
مکمل طریقہ نبوت کے مطابق نماز پڑھنے کا سفید جھوٹ ہے۔ فقہ حنفی کی کتب کی روشنی میں آپ کی نماز کی کیا شکل بنتی ہے اسے جاننے کےلیے ایک مشہور واقعہ پیش کرنا دلچسپی سےخالی نہیں ہوگا۔۔ سنیے واقعہ
’’ سلطان محمود بادشاہ امام ابوحنیفہ کے مذہب پر تھا اور علم حدیث کی حرص رکھتا تھا۔ مشائخ سے حدیثیں سنتا اور استفسار کیا کرتاتھا۔ پس اکثر احادیث کو اس نے شافعی مذہب کے مطابق پایا۔ اس نے فقہاء کو جمع کیا اور ان سے ایک مذہب کے دوسرے مذہب پر ترجیح کا مطالبہ کیا تو اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں مذاہب کے موافق دو دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے اور اس نماز میں نظر اور فکر کرنے سے جو مذہب اچھا معلوم ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے پس قفال مروزی نے نماز پڑھنے کےلیے پوری شرطوں سے وضوء کیا۔ صاف لباس پہنا اور استقبال قبلہ بھی بخوبی کیا اورنماز کے ارکان اور ہیئتیں اور فرض اور سنتیں اور آداب کو بوجہ کمال اداء کیا اور ایسی نماز اداء کی جس سےکمی کرنا امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں۔ پھر دو رکعتیں اس طریقے سے اداء کیں جو امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہوں۔ پس کتے کی دباغت دی گئی کھال کو پہنا اور اسے چوتھائی نجاست سے آلود کیا کھجور کی نبیذ سے وضوء کیا چونکہ گرمی کا موسم تھا اس لیے مکھیاں اور مچھر اس پر جمع ہوگئے بغیر نیت کے وضوء کیا اوروہ بھی الٹا ( یعنی پہلے پاؤں اوراخیر میں ہاتھ دھوئے) پھر نماز م یں داخل ہوا اللہ اکبر کے بجائے فارسی میں ( خدائے بزرگ است ) کہا۔ پھر قراءت کی تو ( مدھامتان کی جبائے فارسی میں دو بزرگ است کہا۔پھر بجائے سجود کے مرغ کی طرح بغیر فرق کے دو ٹھونگیں مارلیں پھر تشہد پڑھ کر گوز ماردیا۔بغیر سلام کے نماز ختم کی۔ اور کہا ائے بادشاہ یہ نمام امام ابوحنیفہ کی ہے۔ بادشاہ نے کہا اگر اس طرح کی نماز ابوحنیفہ کی نہ ہوتی تو میں تجھے قتل کردونگا۔ اس لیے کہ ایسی نماز تو کوئی صاحب دین جائز نہیں سمجھتا۔ پس حنفیوں نے امام ابوحنیفہ کی اس طرح کی نماز سے انکار کردیا۔(جیسا اب بھی کرجاتے ہیں) تو قفال مروزی نے حنفی مذہب کی کتابیں طلب کیں۔ بادشاہ نےمنگوا دیں اور ایک نصرانی عالم کو بلایا اور اس کو شافعی اور حنفی مذہب کی کتابیں پڑھنے کا حکم دیا توابوحنیفہ کی نماز ویسی ہی پائی گئی جیسی کہ قفال مروزی نے پڑھ کر دکھائی تھی۔ پس بادشاہ نے امام ابوحنیفہ کے مذہب کو چھوڑ دیا اور امام شافعی کے مذہب کو اختیار کرلیا۔ ( حیاۃ الحیوان الکبریٰ ج2 ص214)
واقعہ کی اسنادی حالت کیا ہے؟ اس کی بحث میں پڑے بغیر حنفی مذہب کے مطابق نماز اداء کرتے ہوئے جو افعال کیے گئے ہیں۔ ان کے حوالہ جات بھی پیش ہیں۔
محترم سہج صاحب اہل حدیث اور آپ حنفیوں کی نمازوں میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔۔ فقہ حنفی کی رو سے جو نماز کی کیفیت بنتی ہے۔ کیا صحابہ کرام میں سے بھی کسی نے ایسی نماز پڑھی تھی۔(نعوذباللہ) جو آپ کہے جارہے ہیں کہ آثار صحابہ اور تابعینؒ کی گواہی موجود ہے۔۔۔ فقہ حنفی میں جو نماز ہے اس پر واقعہ بیان کردیا ہے اب اس واقعہ میں جو افعال کیے گئے ہیں ان کے حوالہ جات بھی پیش ہیں۔
آپ کے ہاں وضوء بلانیت1، بےترتیب2 اور نشہ آور3 نبیذ سے بھی کرنا جائز ہے۔
آپ کے ہاں باہم ننگے مردو عورت کی شرمگاہیں مل جانے سے4، اپنے ذَکر یا دوسرے کے ذَکر کو پکڑنے سے5، زندہ یا مردہ جانور یا کم عمر لڑکی سے جماع کرنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا 6۔
لیکن جناب آپ کے ہاں البتہ دکھتی آنکھوں سے آنسو نکلنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔7
آپ کے ہاں پتلی نجاست ( پیشاب) ہتھیلی کی گہرائی کے برابر معاف ہے۔8
آپ کےہاں مغلظ نجاست یعنی پاخانہ، منی، مذی بقدر ساڑھے تین ماشہ کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا پاک ہے۔9
آپ کے ہاں سور یا کتے کی پیٹھ پر غبار ہو تو تیمم جائز ہے۔(ابوحنیفہ) 10
آپ کے ہاں آذان فارسی وغیرہ ہرزبان میں جائز ہے۔11
آپ کے ہاں نماز کے سب اذکار، خطبہ اور ثناء وغیرہ ہر زبان میں درست ہے۔12
آپ کے ہاں امام قراءت شروع کرے تو مقتدی سبحانک اللہم پڑھ لے۔13 ( اب واذ قریء القرآن.... کا حکم کہاں گیا )
آپ کے ہاں امام کے پیچھے الحمد پڑہنے والے کے منہ میں پتھر اور انگارے ہیں۔14
آپ کے ہاں درود پڑھنا فرض نہیں۔15
آپ کے ہاں تشہد پڑھ کر قصداً گوز ماردیا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اور سلام پھیرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ 16
حوالہ جات
1۔ در مختار جلد1 ص49
2۔بہشتی زیور حصہ1 ص57
3۔فتاویٰ عالمگیری ج1 ص28
4۔ہدایہ ج1 ص47
5۔فتاویٰ عالمگیری ج1 ص16
6۔فتاویٰ عالمیگری ج1 ص83
7۔بہتشی زیور حصہ1 ص 63
8۔ہدایہ جلد1 ص226
9۔فتاویٰ عالمیگری ج1 ص61
10۔ ہدایہ جلد1 ص47
11۔درمختار ج1 ص225
12۔ہدایہ جلد1 ص349
13۔فتاویٰ عالمیگری ج1 ص123، منیۃ المصلی ص88
14۔ہدایہ جلد1 ص437
15۔ہدایہ جلد1 ص398
16۔قدوری ص28
تو تھا آپ لوگوں کی نماز کا سرسری جائزہ۔۔۔ جناب کیا اب بھی آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کی نماز طریقہ نبوت کے عین مطابق ہے؟؟؟ مجھے معلوم ہے آپ کہتے رہیں گے لیکن قارئین خود سمجھ لیں گے۔۔ ان شاءاللہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
قارئین کرام سہج صاحب کی پوسٹ نمبر33 میری پوسٹ نمبر28 کا جواب ہے۔اس پوسٹ کے کچھ حصے کا جواب پوسٹ نمبر54 اور پوسٹ نمبر55 میں پیش کیا تھا۔ کچھ مصروفیات کی وجہ سے باقی حصے کا جواب اب پوسٹ کیا جارہا ہے۔


اوپر والی بخاری کی ہی روایت ہے اور آپ کے ہاں اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ رکھتی ہے
جی جناب محترم مفتی سہج صاحب مجھے معلوم ہے۔۔ لیکن ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ کس خاص مسئلہ کی وضاحت کےلیے ہے۔۔ شاید اس بات سے آپ کلی طور ناواقف ہیں۔۔ تبھی تو اس سے زمانہ پر دلیل اخذ کررہے تھے۔۔ جناب اس میں تو خود ذکر ہے کہ یہ کام بعد کا ہے اور یہ کام پہلے کا ۔۔ لیکن جس میں ذکر ہی نہ ہو تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ کام پہلے کا تھا اور اب یہ ہے ۔۔ اور شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ دونوں کام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے تھے۔۔ اور حمیدی رحمہ ا للہ نے بھی دونوں احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہی استدلال کیا ہے۔۔ یہ استدلال ہوائی نہیں تھا جناب محترم۔۔ ذرا غور فرمالینا
تو کم از کم پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کے فرق کو تو تسلیم کرنے کا اعلان کرہی دیجئے ۔
اس فرق کو تسلیم کرنے کے ہی خاطر آپ سے دلیل طلب کی تھی۔۔ جب آپ دلائل سے ثابت کردیں گے کہ کہ رفع الیدین والی احادیث پہلے کے زمانے کی ہیں اور رفع الیدین نہ کرنے والی احادیث بعد کے زمانے کی ہیں۔ تب گڈمسلم صاحب ایک سیکنڈ انتظار کیے بنا آپ کی بات نہیں بلکہ احادیث کو تسلیم کرلے گا۔۔۔ ان شاءاللہ
آپ کی دلیل کیا ہے ؟ اللہ کا فرمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ۔ ٹھیک؟ بھئی آپ کہتے ہیں ناں کہ اہل حدیث کے دو اصول اطیعوا الله و اطیعوا الرسول ، تو آپ کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے ؟ گڈ مسلم صاحب آپ نے دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی دلیل دکھانی ہے ۔ صریح دلیل۔ دو جمع دو برابر چار کرکے نہیں ۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اوپر بنائی گئی ترتیب سے دکھائیں یا پھر مقامات کی نشاندھی دکھادیں چاروں رکعت میں ۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ آپ تین نمبر تک رفع یدین کرتے ہیں پھر چار پانچ چھ سات نمبر کو چھوڑتے ہیں پھر آٹھ اور نو کرتے ہیں پھر دس گیارہ بارہ تیرا کو چھوڑتے ہیں ، پھر چودہ نمبر رفع یدین کرکے ،پندرہ سولہ کرتے ہیں اور پھر سترہ اٹھارہ انیس اور بیس نہیں کرتے ، اکیس بائیس کرتے ہیں اور پھر تئیس نمبر رفع یدین سے لیکر اٹھائیس نمبر تک نہیں کرتے ۔ کیوں ایسا ہی ہے یا نہیں ؟ تو بھئی ایسے عمل کی دلیل بھی تو ہونی چاھئیے کہ نہیں ۔
سب سے پہلی بات آپ نے میری بات پوچھی گئی بات کا جواب ہی نہیں دیا اور جو کاٹم پيٹی کا الزام مجھے دیا تھا اس کا جواب میں نے کچھ یوں دیا تھا کہ ’’ کاٹم پیٹی مشغلہ متبع نہیں بلکہ وظیفہ مقلد ہے۔‘‘ عین درست جواب دیا تھا۔ جو کہ یہاں کے ساتھ کئی جگہوں پر ثابت بھی ہوچکا ہے۔۔۔دوسری بات یہ جان لیں نبی کریمﷺ کی اس سنت پر عمل ہمارے کھاتے میں ہے۔ اور ہم الحمدللہ اس سنت پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح ہمارے پیارے نبیﷺ نے عمل کرکے دکھایا۔ اور صحابہ کرام نے بیان بھی کیا اور پریکٹیکلی عمل بھی کرکے دکھایا۔۔ اور جس طرح ہم عمل کرتے ہیں میں نے بھی اسی عمل پر بخاری سے حدیث پیش کی تھی، جس کا انکار آپ کیا پوری مقلدیت کرہی نہیں سکتی۔۔اپنے عمل کے مطابق وہ حدیث دوبارہ پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔۔ شاید غور کرنے کی توفیق مل جائے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
اس حدیث کی تفصیلی وضاحت بھی پہلے پیش کرچکا ہوں۔دوبارہ یہاں پیش کرنے کے بجائے گزارش کرتا ہوں کہ اس پوسٹ کا چکر لگائیں۔
آپ اپنے کشکول سے جو الفاظ نکال کر عین انہی الفاظ پر دلیل کے طلب پر ضد پکڑے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اس ایک ہی حدیث سے پوری ہورہی ہے۔۔ الحمد للہ ۔۔سمجھ تب آئے گی جب غور کروگے۔۔اور جو آپ نے اس حدیث کے خلاف ابن عمر کا اثر پیش کیا تھا۔ اس کی حقیقت کیا تھی؟ وہ بھی یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ہم احناف چار رکعت نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے ہیں اور پھر اٹھائیس نمبر تک نہیں کرتے ۔ ایک کا اثبات اور ستائیس کی نفی ۔ٹھیک؟
آپ کیا کرتے ہیں یا کیا نہیں کرتے۔ اس بارے آپ کو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میں بھی اچھی طرج جانتا ہوں۔ محترم سہج صاحب ہمارا موضوع ہے اختلافی رفع منسوخ ہے یا نہیں؟ پہلی بات آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے ہی نہیں جس میں صرف اختلافی رفع کا ذکر ہو۔ اگر ہے تو پیش کرو۔۔بلکہ آپ کے دلائل میں پہلی رفع کا بھی ذکر موجود ہوتا ہے۔ جو کہ اختلافی نہیں ہے۔۔اس وجہ سے جب آپ نے یہ کہا تھا کہ پہلی رفع غیر اختلافی ہے اس لیے آپ اس رفع کو کیوں بیچ میں لاتے ہیں؟ تو میں نے اچھی طرح وضاحت یہاں کردی تھی کہ ہم اس پہلی غیر مختلف فیہ رفع کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔؟
دوسری بات جس طرح آپ مجھ سے اپنی طرف سے گھڑے گئے الفاظ کے عین مطابق دلیل طلب کررہے ہیں۔(یعنی ایسی دلیل دکھاؤں کہ جس میں دس کا اثبات ہو اور اٹھارہ کی نفی ہو اور وہ بھی گنتی کے ساتھ) تو جناب ذرا غور فرمالیں یہ سودا آپ کو بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ اس طرح جواب دینے کے فرسٹ مصداق آپ ہی ہیں۔۔ کیونکہ آپ کا رفع کو منسوخ کہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ رفع الیدین کو ایک وقت میں تسلیم کرتے ہیں۔ اور دوسرے وقت میں آکر منسوخ کہہ رہے ہیں۔۔ اب آپ احناف چار رکعات میں 28 رفعوں کے بجائے ایک رفع کرتے ہیں اور باقی ستائیس چھوڑتے ہیں۔۔ اس لیے آپ مجھے ایسی دلیل پیش کریں کہ جس میں ہو کہ چار رکعات نماز میں ایک رفع کرنی ہے اور ستائیس چھوڑنی ہیں۔؟؟؟ کوئی ایک دلیل پیش فرما کر اس مسئلہ میں مجھے اپنی پارٹی میں شامل کرلیں۔۔شکریہ ۔۔ ورنہ میرے دلائل کو تسلیم کرکے اس سنت صحیحہ ثابتہ پر عمل کرنا شروع کردیں۔یہی آپ کےلیے بہتری ہے۔سوال ایک بار دوبارہ پیش کردیتا ہوں کہ ایک کا اثبات، ستائیس کی نفی گنتی کے ساتھ بادلیل دلیل میں صحیح کی شرط بھی نہیں رکھتا۔ جاؤ موجیں کرو
اب اک اور دلیل دیکھ لیجئے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
قال الا اصلی بکم صلوٰة رسول اللہ ﷺ فصلی ولم یرفع یدیہ الا فی اول مرة
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاکے میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاوں پھر آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت ) رفع یدین فرمائی
صرف پہلی رفع یدین کا اثبات اور باقی سب کی نفی ثابت ہوئی یا نہیں ؟
محترم جناب سہج صاحب الحمد للہ یہ حدیث بھی پہلے نظر میں تھی، اور جس کا تفصیلی جواب بھی عنایت کردیا گیا ہے۔ تکلیف کےلیے معذرت خواہ ہوں آپ اس پوسٹ کا چکر لگائیں۔۔لیکن اس تفصیل کے ساتھ یہاں بھی ایک نقطہ کا اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔پہلی بات آپ نے اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے بریکیٹ میں(تکبیر تحریمہ کے وقت )کا اضافہ کیا ہے؟ یہ اضافہ کس بنیاد پہ کیا ہے آپ نے؟ ذرا مجھے اس سوال کا جواب دیتے جانا۔ دوسری بات اسی حدیث میں ’’ فی ‘‘ کا لفظ ہے۔ اور آپ کا تو کہنا ہے کہ ’’ فی ‘‘ والی رفع تو منسوخ ہے؟ پھر یہاں اس حدیث سے کیوں دلیل پکڑ رہے ہیں جناب والا ؟ ۔۔ ان دو باتوں کے جواب کے ساتھ لنک پر بیان تفصیل کا بھی جواب دیتے جانا۔۔
آپ کو یہ یاد رکھنا چاھئیے کہ آپ رفع یدین کرتے چھوڑتے کرتے چھوڑتے کرتے چھوڑتے ہیں اسلئے مقام اور گنتی دونوں کی صریح روایت پیش کرنا ضروری ہے ، دو جمع دو چار نہیں کرنا پڑے ۔ جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل والی روایات میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ احناف بھی ویسا ہی کرتے ہیں جو صحابہ کا عمل ہے ۔
صحابہ کا عمل کیاتھا؟ اور کیا احناف بھی صحابہ کے عمل کے مطابق عمل کرتے ہیں۔۔ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ آپ کے دلائل کی حقیقت آشکارا ہونے پر یہ بات بھی بخوبی واضح ہوچکی ہے کہ آپ کا عمل صحابہ کے عمل کے مطابق ہے یا نہیں؟
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بارے مکمل تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔۔ صحابہ کا عمل کیا تھا۔ میں آپ کو دکھاتا ہوں۔
دیکھ لیا جناب سہج صاحب؟ محترم ہم لوگ باتیں بنانے والے نہیں بلکہ عمل کرنے والے ہیں۔۔ آپ نے صرف بات کی ہم نے ثبوت بھی پیش کردیا۔۔ کیونکہ ہم اہل حدیث ہیں۔ امتیوں کے مقلد نہیں۔
اوپر کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی ، اسے دیکھ لیجئے ۔ کیونکہ اگر یہاں ہی پیش کردو دوبارہ تو پوسٹ اور زیادہ لمبی ہوجائے گی۔
پہلی بات میں نے بھی بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے اور کررہا ہوں اور ان شاءاللہ کرتا رہونگا۔ کیونکہ یہ تیرے میرے گھر کا مسئلہ نہیں بلکہ عمل رسولﷺ کا مسئلہ ہے۔۔اور اگر میں بھی تفصیل دوبارہ یہاں نقل کردوں تو پوسٹ لمبی ہونے کے ساتھ آپ کےلیے پڑھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔۔دوسری بات آپ کی یہ بات میرے سوال کا جواب بھی نہیں۔۔ یاد رکھیئے گا۔۔
جیسے آپ کو اچھا لگے ۔
تمام دلائل کی حقیقت واضح کردی گئی ہے۔۔ اور یہی مجھے اچھا لگا ہے۔۔ تاکہ آپ لوگ جو ایک سنت صحیحہ ثابتہ بلکہ ایسی سنت جو متواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کو منسوخ کہتے رہتے ہیں۔۔ سب کو پتہ چل جائے کہ اس ٹولی کے دلائل کی کیا حقیقت ہے۔؟
آپ کیا سمجھتے ہیں صحابی کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر ہوتا ہے ؟
پہلی بات کوئی بھی صحابی جان بوجھ کر ایسا عمل کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ متبع رسولﷺ تھے جس طرح آج ہم ہیں۔ یہ حرکت خاص تو مقلدین ہی کیا کرتے ہیں۔۔جانتے بھی ہوتے ہیں کہ حق کسی اور طرف ہے لیکن پھر بھی یہ کہہ کر بات کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد ہیں اس لیے ہم پر تقلید واجب ہے۔۔۔ ہاں لاعلمی الگ بات ہے۔کتب کی چھان بین سے کئے مسائل ایسے مل جائیں گے جن پر لاعملی میں صحابی کا عمل خلاف سنت رہا ہوگا۔واللہ اعلم
دوسری بات میرے سوال کاجواب دیں سوال دوبارہ پیش ہے ’’ پھر آپ نے صحابی کا عمل پیش کردیا ؟ کیا آپ کے پاس نبی کریمﷺ کا عمل نہیں ہے ؟ ‘‘
تیسری بات آپ کا دعویٰ نسخ کا ہے۔اور نسخ کی تعریف بھی آپ کو بتلاتا چلوں کہ
’’ هور فع الحكم الشرعي بدليل شرعي متاخر ‘‘ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ج2 ص53)
’’ کسی سابقہ شرعی حکم کو ختم کرنا ہےکسی بعد میں آنے والی شرعی دلیل کی بنیاد پر‘‘
اور آپ کو معلوم ہے کہ شریعت کس پہ اترتی تھی ؟ محمدﷺ پہ یا صحابہ کرام پہ ؟ اگر شریعت محمدﷺ پہ اترتی تھی تو آپ کو رفع کی منسوخیت پہ محمدﷺ سے دکھانی ہوگی۔ نہ کہ ایک صحابی (واللہ صحابی کی طرف منسوب صاف جھوٹ ہے) کے عمل سے؟ اس لیے میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ رفع کی منسوخیت پر نبی کریمﷺ کا عمل یا قول نہیں ہے آپ کے پاس ؟ جس پر آپ نے سوال داغ دیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صحابی کا عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےمقابلے پر ہوتا ہے؟ ۔۔ جناب باتوں کو گھمایا پھرایا نہ کریں اور سیدھی طرح جواب دے دیا کریں۔۔شکریہ
یہی تو فرق ہے جناب اہل سنت والجماعت اور غیر مقلدین یعنی اپنے آپ کو اہلحدیث کہنے والوں میں ۔ کہ ہم صحابی کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر لیتے ہیں کیونکہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو پہنچانے والے ہیں اور آپ غیر مقلدین صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہی عمل دکھانے کو توہین قرار دے رہے ہیں ؟
عجیب فلسفہ ہے یار آپ لوگوں کا ؟ ایک طرف نبی کریمﷺ کا عمل میں نے آپ کو دکھایا دوسری طرف آپ نے صحابی کی طرف منسوب اثر پیش کیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف بھی ہیں اور آپ کے اثر کی حقیقت بھی واضح کردی پھر بھی آپ کہی جارہےہیں کہ ہم توہین کرتے ہیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جناب اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف نبی کریمﷺ کا عمل ہے اور دوسری طرف صحابی کی طرف غلط منسوب اثر۔۔ آپ نبی کریمﷺ کے عمل کے بجائے غیر ثابت شدہ اثر پر عمل کررہے ہیں۔ کیا یہ توہین وتنقیص کے ذمرے میں نہیں آتا ؟؟ ۔۔ کتنی ڈھٹائی سے کہا جارہا ہے کہ ہم توہین کرتے ہیں۔۔ فیااسفیٰ
جب آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی صحابی نبی کریمﷺ کے عمل کے خلاف عمل کرہی نہیں سکتا۔ تو پھر آپ کو یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ ابن عمر کی طرف منسوب اثر درست نہیں ہے۔ جس کی حقیقت گڈمسلم بھائی نے میرے سامنے پیش بھی کردی ہے۔۔اس لیے مجھے نبی کریمﷺ کے عمل کے مطابق رفع الیدین کرنا شروع کردینا چاہیے۔۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اک اور صحابی کی روایت بھی دیکھ لیجئے اور مجھے گنتی کرکے بتائیے کہ کتنی رفع یدین کی گئیں ؟
رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا أراد أن يركع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا‏.
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے ، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)
اب آپ گڈ مسلم صاحب سے التماس ہے کہ بتائیے کبھی اس حدیث پر بھی عمل کیا آپ نے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کیا یہاں بھی زمانے کا مسئلہ پیش ہے یا پھر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے ؟
محترم جناب نسخ کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ناسخ اور منسوخ میں حقیقی تعارض ہو تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو۔یہ شرط یاد کرلینے کے بعد اب آتے ہیں آپ کی پیش کردہ حدیث کی طرف۔سب سے پہلے تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی تھی یا چار رکعات ؟ اگر دو رکعات نماز پڑھی تھی تو پھر یہ حدیث میرے مؤقف کی تائید میں ہے۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ چار رکعات پڑھی تھی تو پھر آپ کو بادلیل پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ نماز چار رکعات ہی تھی ؟ یہ تو آپ نے ثابت کرنا ہے۔ جب آپ ثابت کردیں گے پھر مجھے کہنا کہ یہاں زمانے کی بات ہے۔
میں کہتا ہوں کہ پہلی بات اس روایت میں صراحت ہی نہیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے کتنی رکعات نماز پڑھی تھی؟ چاہے دو پڑھی ہوں یا چار ۔ تیسری رکعت کے رفع کے عدم ذکر سے اس کا منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ یہ اصولی جواب ہے۔ اگر عدم ذکر سے بھی منسوخ ہونا لازم آتا ہے تو پھر اس حدیث میں کتنی باتوں کا ذکر نہیں ان کا نسخ بھی آپ کو تسلیم کرنا ہوگا۔۔

نوٹ:
پوسٹ کے باقی حصے کے جواب اگلی پوسٹ میں دیا جائے گا۔۔۔ جب تک میرا جواب مکمل نہ ہوجائے میری پوسٹ کے آگے میری طرف سے آپ کو پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں۔ والسلام
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
قارئین کرام سہج صاحب کی پوسٹ نمبر33 میری پوسٹ نمبر28 کا جواب ہے۔اس پوسٹ کے کچھ حصے کا جواب پوسٹ نمبر54 ، 55 اور 56 میں پیش کیا تھا۔ باقی جواب اب پیش کیا جارہا ہے۔

الحمدللہ سب کو نظر آرہا ہوگا کہ دلائل کے ساتھ کون بات کررہا ہے اور خالی باتیں کون ۔ اپنی اسی مغالطہ والی بات کو اوپر دی گئی روایت جو کہ آپ کے بقول اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی ہی ھے ، کو حل کرلیجئے ان شاء اللہ قبلہ اول والی مثال کے ساتھ ساتھ پہلے زمانے اور بعد والے زمانے کی بھی سمجھ آجائے گی۔
الحمد للہ یہ بات بھی سب کو نظر آجائے گی بلکہ نظر آہی گئی ہوگی کہ جو دلائل جناب کی طرف سے پیش پوش کیے گئ+ے تھے۔ ان کا معیار کیا تھا ؟ ضعیف احادیث وغیرہ کے کشکول تو فل ہیں کوئی صحیح حدیث بھی اس ضمن میں پیش کردو تاکہ سب کو پتہ چلے کہ جناب کے پاس ضعیف حدیث کے ساتھ صحیح حدیث بھی ہیں۔۔ اہل الحدیث کی کاوشوں سے الحمد للہ اب اس بات سے ہر عام وخاص تو مطلع ہوہی گیا ہے کہ ضعیف حدیث سے مسائل ثابت نہیں کیے جاتے۔ اور نہ دین میں ضعیف حدیث حجت ہوتی ہے۔۔ اس لیے آپ نے اب تک جتنی محنت کی سب کھوہ کھاتے ہوئی۔۔اس لیے گزارش یہ ہے کہ ضعیف احادیث کے انبار مت لگائیں اپنے مؤقف پہ صرف ایک صحیح صریح روایت پیش کردیں، جس طرح میں نے پیش کی ہوئی ہے۔۔
میں نے پہلے بھی کہا اور اب دوبارہ بھی کہہ رہا ہوں کہ قبلہ اول کی مثال اگر آپ یہاں پر فٹ کررہے ہیں تو آپ کو قبلہ اول کی طرح دلیل بھی دینا ہوگی۔۔ شاید آپ اس بات سے لاعلم ہوں کہ ہم اہل حدیث ہیں۔ اور دین میں دلائل کے بغیر کوئی بات تسلیم نہیں کیا کرتے۔۔
میں نے اپنے مؤقف پر صریح دلیل پیش کردی اور پھر مزید دلائل بھی پیش کردیئے اور ان شاءاللہ مزید دلائل پیش بھی کرونگا۔اس لیے آپ اپنے مؤقف کے مطابق ’’ یعنی ایک کا اثبات ستائیس کی نفی گنتی کے ساتھ ‘‘ صریح صحیح دلیل پیش کریں۔۔شکریہ ۔۔یا پھر میری پیش کردہ دلیل کو قبول کرتے ہوئے چار جگہوں پر رفع کرنا شروع کردیں۔(ویسے تو آپ قولاً تسلیم کربھی چکے ہیں )۔نماز کے شروع میں۔۔رکوع جاتے ہوئے۔۔رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کے آغاز میں۔۔۔
اگر ایسی بات ہے تو نیا تھریڈ شروع کیجئے اور اسمیں نماز کی شرائط،ارکان، فرائض،واجبات،سنن،ومستحبات و مکروہ و حرام اور نماز فاسد ہوجانے وغیرہ کے دلائل قرآن اور حدیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کیجئے ۔
اوکے مجھے منظور ہے۔۔ لیکن تھریڈ شروع کرنے سے پہلے یہاں پر میرے سوال کا جواب ہاں یا ناں میں دے دو۔۔ کیا قرآن وحدیث نے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ نماز کی کیا شرائط ہیں ؟ کیا ارکان ہیں؟ فرائض واجبات سنن ومستحاب کیا ہیں؟ مکروہ اور حرام افعال کیا ہیں؟ جواب ۔۔۔ہاں ۔۔۔ ناں۔۔۔ باقی باتیں جب تھریڈ قائم کروگے، وہاں پر ہونگی۔۔ یا پھر اس سوال کا جواب بھی اگر یہاں نہیں دینا تو مجھے بتا دینا میں تھریڈ قائم کرلوں گا۔ اور اس سوال سے شروع کردیں گے۔۔ ان شاءاللہ
اور ساتھ میں اک سوال ایڈوانس لے لیجئے جواب وہیں دے دیجئے گا "دلیل" کے ساتھ ۔
سوال:-اگر نمازی دوران رکوع سبحان ربی العظیم کی بجائے سبحان ربی العلی کا زکر کرلے تو کیسا ہے ؟ درست ہے تو دلیل ؟ غلط ہے تو دلیل؟
میرے ہاں ایڈوانس نہیں چلتا ہوتا نقدو نقد سودا کرتا ہوں۔۔ تھریڈ قائم کرو۔ یا مجھے بتا دو میں قائم کرلونگا۔۔ وہاں پر ایڈوانس بھی لیں دیں گے اور ادھار بھی چلتا رہے گا۔۔
جی بلکل ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ راستہ دکھانے والے کے پیچھے جو چلتے ہیں ۔
کس طرح کا راستہ دکھایا جاتا ہے؟ ہم اچھی طرح واقف ہیں۔۔لیکن ہم تو خود بھی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو کہتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق کی دعا بھی کرتے ہیں ۔۔ کہ ہمیں سیدھے راستے پہ چلائے۔۔اور آپ ان حقوق سے محروم ہوتے ہیں کیونکہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی کے پیچھے چلتے ہیں۔۔اس لیے آپ کو اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ وہ جہاں مرضی لے جائے ہمیں کیا پرواہ ؟۔۔۔ مقلد کا لفظ آپ پر بہت فٹ آتا ہے۔۔۔
اسے کہتے ہیں اعتماد
بہت خوب لطیفہ چھوڑا ہے۔ یعنی جس کے آپ مقلد ہیں اس سے آپ کچھ پوچھ ہی نہیں سکتے (شاید آپ کی پارٹی میں پوچھنا بھی گستاخی تصور کیا جاتا ہو)۔۔چاہے وہ جو مرضی کرواتا پھرے۔۔۔ اچھا آپ اس حدیث سے واقف ہونگے
" صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الْعَصْرِ ، فَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ ، فَقَامَ ذُو الْيَدَيْنِ ، فَقَالَ : أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ " ، فَقَالَ : قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ . فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ ، فَقَالَ : " أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ ؟ " ، فَقَالُوا : نَعَمْ . فَأَتَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنْ صَلاتِهِ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ التَّسْلِيمِ وَهُوَ جَالِسٌ"
آپ مجھے بتائیں گے کہ کیا ذواليدين اور مزید سب صحابہ کو نعوذباللہ نبی کریمﷺ پر اعتماد نہیں تھا ؟ جو پوچھ لیا ؟۔۔۔کیا جس پر اعتماد ہوتا ہے اس سے کچھ نہیں پوچھا جاتا ؟۔۔ جناب تمہاری پارٹی میں اور ہماری پارٹی میں یہی تو فرق ہے۔۔ آپ لوگ اندھا دھند چلتے ہو۔ چاہے قرآن وحدیث کی صریح مخالفت ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔۔لیکن ہم لوگ الحمد للہ ایسے نہیں ہیں اور ایسی اندھا دھند پیروی کوشرک کہتے ہیں۔
نہیں گڈ مسلم صاحب عالم کے مقلد نہیں ہوں گے کیونکہ عالم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ائمہ احناف کی تشریحات کے مطابق ہی بتاتے ہیں ۔اسلئے مقلد تو ہم امام اعظم ابوحنیفہ کے ہی رہیں گے ۔
اچھا جی ۔۔ بہت خوب ۔۔۔ اور اگر ہم اپنے علماء سے قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل پوچھ کر عمل کرتے ہیں تو ہم متبع قرآن وسنت نہیں بلکہ مقلد علماء ہوجاتے ہیں۔؟۔اور ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ تقلید آپ بھی کرتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ شریعت کو من مانا مفہوم قسم وقسم کے مولویوں سے دلوا کر عمل کرتے ہیں اور اپنی نسبت اس لیے امام صاحب کی طرف کرتے ہیں کہ آپ مولوی امام ابوحنیفہ کی تشریحات کی روشنی میں مسائل بتاتے ہیں۔۔ماشاءاللہ
ویسے اس بات کا تعلق تقلید سے ہے۔۔ کیا خیال ہے تقلید پر بھی بات کرلی جائے ؟۔۔ کرنی آپ سے ہے، کیونکہ آپ سے بات کرنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔
گڈ مسلم پھر ایسا کریں کہ آپ دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نفی کی دلیل پیش کردیں ، تاکہ ہم آپ میں اور اپنے میں فرق جانچ سکیں ۔ کیا خیال ہے ؟
دلیل پیش کردی ہے۔۔اور آپ تسلیم بھی کرچکے ہیں۔۔۔اب آپ اپنے دعویٰ کے مطابق دلیل پیش کریں گے یعنی ’’ ستائیس کی نفی ایک کا اثبات گنتی کے ساتھ مع دلیل ‘‘
آپ یہاں سے فارغ ہوجائیں پر ان شاء اللہ وہاں جو آپ نے فرقہ اہل حدیث کی کھوکھلی جڑوں کو اکھاڑا ہے اس پر بھی کچھ پیش پوش کردیں گے ۔ بے فکر رہئیے۔
ہم کسی کے مقلد نہیں۔۔ فکر مقلدین کو رہتی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔۔۔مجھے بھی انتظا رہے گا کہ کب آپ پیش پوش کرنا پسند کریں گے۔۔۔ پیش پوش سے پہلے میری ایک بات یاد رکھ لینا کہ قرآن وحدیث کے دلائل پیش کرنا۔۔ اپنے یا ہمارے مولویوں کے اقوالات نہیں۔۔کیونکہ ہمارا کیا اصول ہے آپ واقف ہو ہی گئے ہونگے۔
کہ اصل جھوٹا کون ؟ یہی مطلب ہے آپ کا ؟
پہلی بات یہ تو سب کو معلوم ہو ہی رہا ہے کہ جھوٹ بولنے کا سہارا کون لے رہا ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔۔ اور دوسرا جب آپ نے مجھ پر الزام لگایا کہ آپ قرآن وحدیث ہی مانتے ہیں تو اس پر میں نے تھریڈ بنام ’’ مقلدین کا الزام اور اس کا جواب ‘‘ کا لنک دے کر آپ کے اس الزام کو جھوٹا ثابت کردیا۔۔اور میرے لنک پیش کرنے اور وہاں پر موجود باتیں پڑھنے سے سب پر عیاں ہوہی گیا ہوگا کہ اصل جھوٹا کون تھا اور کون ہے؟۔۔۔ برائے مہربانی میں آپ سے پوچھوں یا آپ مجھ سے پوچھیں اور پھر اس بات کا باثبوت اظہار ہو، اچھا ہے کہ قارئین پر فیصلہ رکھ لیتے ہیں۔۔
یعنی آپ اب نسائی سے روایت پیش کرنے کو چکر جانتے ہیں ؟ آپ کی نظر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت دلیل ہی نہیں ؟؟
غلط سمجھے جناب چکر اور دھوکہ دینا کیا ہوتا ہے اس سے آب بھی واقف ہونگے۔۔اگر نہیں واقف تو میں بتا دونگا۔۔۔ اور میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت دلیل نہیں؟ جناب یہ بات آپ کو سوچنی چاہیے کہ آیا آپ کے مؤقف پر یہ دلیل ہے بھی کہ نہیں۔؟ ۔۔۔ پھر اس کاجواب تو ماقبل دیا جاچکا ہے۔۔وہاں کا رجوع کریں۔۔
گڈ مسلم صاحب آپ کی اور میری ایک مسئلہ میں یہاں بحث جاری ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ صحابہ کی روایات کی توہین کرتے رہیں ؟
جناب نہ میں نے توہین کی۔ نہ توہین کرتا ہوں اور نہ توہین کرنے کی مجھ میں جسارت ہے۔ اور نہ کر سکتا ہوں۔۔لیکن روایت کا سہارا لے کر جو آپ نے چکر اور دھونا دینے کی کوشش کی ہے۔۔ میں نے اس کی ضرور توہین بھی کہے۔۔ ٹھکرایا بھی ہے۔۔ مردود بھی کہتا ہوں۔۔۔ اگر آپ اس پر غصے ہوتے ہیں تو ضرور ہوں لیکن یہ تاثر دینے کی کوشش نہ کریں کہ میں نعوذباللہ صحابہ کرام کی توہین کررہا ہوں۔۔کم از کم مجھ غریب پر یہ ظلم تو نہ کریں۔۔۔ باقی میرے الفاظ نعوذباللہ صحابی کے بارے میں نہیں تھے بلکہ جو آپ نے صحابی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے اس پر ہیں۔۔خوب سمجھ لیں۔۔ اورآئندہ اس طرح کی باتوں کی نسبت کرنے سے پہلے سوچ بھی لینا۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقام جاننے کے لئے تحقیق فرمالیں اور کچھ الفاظ کا چناؤ کرنا بھی ۔
جناب مجھے معلوم ہے الحمد للہ اور میں نے صحابی کے بارے میں کچھ کہا بھی نہیں۔۔۔لیکن آپ لوگ صحابہ کرام کے بارے میں کیا کہتے رہتے ہیں؟ یا کیا صحابہ کرام کی عزت کرتے ہیں۔ اور آپ کے مسلک میں صحابہ کرام کے اقوال وفعال کا کیا مقام ہے؟ بلکہ صحابہ کرام تو کیا نبی کریمﷺ کے اقوال وافعال کا کیا مقام ہے۔ یہ ہمیں معلوم ہے۔۔ اگر جاننا ہے تو پھر بناؤ تھریڈ ’’ گستاخ صحابہ کون ؟ ‘‘ وہاں پتہ چل جائے گا کہ حب دار صحابہ کون ہیں اور صحابہ کے نام پر روٹیاں کھانے والے کون ہیں۔۔۔غیر فقیہ غیر فقیہ کی گردانیں آپ کی طرف سے سکھائی جاتی ہیں۔۔
مسٹر مسٹر کہنا بداخلاقی ہے تو پھر ہر اس دعوت نامے کو پھاڑ دینا جس پر آپ کے نام کے ساتھ مسٹر لکھا ھو۔اور ہر اس بندے کو کھری کھری سنادینا جو آپ کو مخاطب کرے مسٹر کہہ کر ، بلکہ اک کام کرو گڈ مسلم کہ اس فورم پر مسٹر کہنے پر بین لگوادو اور ہاں یاد آیا میں نے تو آپ کو صاحب صاحب بھی کہا ھے۔ چلو اس پر بھی بین لگوادیتے ہیں ۔ ارے بھئی یہ تو کباڑا ہی ہو گیا ۔ کیونکہ میں تو آپ کو گڈ مسلم گڈ مسلم بھی کہتا ہوں ، تو کیوں نہ اس گڈ مسلم پر بھی بین لگوالیں ؟ اگر ایسا ہوجائے تو پھر کتنا اچھا لگے گا کہ آپ کو گڈ کی بجائے کچھ اور کہہ کر مخاطب کرے گا ۔ یہ مزاک نہیں ہے گڈ مسلم صاحب ، افسوس کا مقام ہے کہ آپ میری طرف سے پیش کئے گئے ہر ہر لفظ پر اعتراض ہی کر رہے ہیں ۔ اور ایسے جھوٹے الزامات لگارہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں ۔ کیا مسٹر کہنے سے آپ کی تزلیل ہوتی ہے ؟ گڈ مسلم آپ کا نک نیم آپ نے خود ہی رکھا ہے یا کسی مقلد نے ، جو آپ کو مسٹر کہنے پر اعتراض ہے ؟
مسٹر مسٹر کہنا بذات خود بداخلاقی نہیں لیکن کہنے والے کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس رو میں آکر کہہ رہا ہے۔۔ جناب سچ بتائیں کہ اگر آپ تعصب، ضد اور کسی بھی طرح کی ہٹ دھرمی ودل میں نفرت کے بناء کہہ رہے تھے تو کہتے رہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ لیکن جس انداز سے آپ کہہ رہے ہیں اس انداز سے بچہ بچہ بھی واقف ہوجائے گا کہ یہ کس وجہ سے کہا جارہا ہے۔۔ اگر میں کہنا شروع کر دوں تو معاملہ بگڑ جائے گا۔۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ تھریڈ انتظامیہ مقفل کرے۔۔کیونکہ آپ کے ہر پول کو کھوکھلا کرنے کا ادارہ ہے ۔۔ ان شاءاللہ
باقی رہی بات دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی کی دلیل دکھانا تو جناب آپ مجھے اور زیادہ پھنسادیجئے دلیل دکھا کر ، بغیر دو جمع دو برابر چار کئے ۔ جلدی کیجئے اور بری طرح پھنسا دیجئے ۔ آئی ایم ریڈی فور پھنسنگ۔
یو آر پھنسنگ ان ایسی دلیل ۔۔ انکار ناٹ کرنگ۔۔چوری اور گھڑے الفاظ کا سہارا لےونگ۔۔بٹ گڈمسلم زیادہ دیر اس طرح کے الفاظ کاسہارا ناٹ لیونگ دیونگ۔۔اور پھر دلیل میں دو جمع دو چار بھی نہیں کیا جناب۔۔۔اس حدیث میں آپ کے چورے کیے گئے الفاظ کا عین جواب موجود ہے اور کیسے موجود ہے؟ آپ کو بتا دیا ہے۔۔۔ہاں یاد آیا آپ نے تو کہا تھا کہ آپ نے قیاس سے ثابت کیا ہے؟۔۔ یعنی چار دلیل سے اور چھ قیاس سے۔۔ تو جناب پہلی بات یہ قیاس کیسے ہے؟ یہ آپ نے سمجھانا ہے اور دوسرا اگر آپ کے بقول یہ قیاس ہی ہے تو میں قرآن وحدیث سے مستنبط قیاس کو مانتا ہوں۔۔ اگر میرا یہ قیاس قرآن وحدیث کی کسی دلیل کے خلاف ہے تو واضح کریں۔۔ ورنہ پھر قبول فرمائیں۔۔۔اور رفع الیدین شروع کریں۔۔جزاک اللہ ۔۔ اور اپنے دوسرے حنفیوں کو بھی اس عمل بارے بتائیں۔
دلیل پیش کیجئے جناب دلیل ، لیکن پہلے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔ اوکے۔ پھر بتائیے کہ رفع یدین سنت ہے یا حدیث ؟ اسکے بعد باقی بات
جواب دیجیے جناب جواب ۔۔۔ جو پوچھا تھا دوبارہ پیش کررہا ہوں
’’ جن چیزوں کو آپ فرض، سنت، مستحب وغیرہ وغیرہ کہتے پھرتے ہو ان کو کس نے یہ درجہ ومقام دیا ہے ؟ نبی کریمﷺ نے یا کسی اور نے ؟ اگر نبی کریمﷺ نے دیا ہے تو پھر آپ بھی ثابت کریں گے۔ لیکن اگر کسی اور نے دیا ہے تو کیا نبی کریمﷺ ان بارے تعلیم نہیں دےسکتے تھے جو کسی اور کو دینا پڑ گئی ؟ کیا آپ کو ان کا علم نہیں تھا یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو روک دیا تھا؟ کیا بعد میں جس نے بھی یہ تعلیم دی اس صاحب کا علم نبی کریمﷺ کے علم سے زیادہ ہوگیا تھا۔نعوذباللہ؟ ‘‘
باقی دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی پر دلیل پیش کردی ہے۔لیکن ذہن شریف اور دماغ شریف کو ذرا اس پر غور کرنے کی تکلیف دے دینا کہ یہ نہ میرے الفاظ ہیں اور نہ میں نے اس طرح کوئی دعویٰ کیا ہے۔ اور نہ مجھے اس عمل پر گنتی کرنا اچھا لگتا ہے۔۔ کیونکہ گنتے کے چکروں میں اگر پھنسیں گے تو بات بہت لمبی ہوتی چلے جائے گی۔۔ جیسا کہ ہوبھی گئی ہے۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرا دعویٰ منسوخیت کا نہیں آپ کا منسوخیت کا ہے۔۔بجائے اس کے کہ آپ منسوخیت کی دلیل پیش کرتے۔لفظوں کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔۔جناب نہ اپنا ٹائم ضائع کریں اور نہ میرا۔۔پس اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کردییجے۔۔اگر آپ نے گنتی کی طرف ہی آنا ہے تو پھر منسوخیت کے قائل آپ ہیں۔۔ آپ چار رکعات میں ایک دفعہ کرتے ہیں باقی ستائیس دفعہ نہیں کرتے۔۔ اس لیے ’’ ایک کا اثبات ستائیس کی نفی گنتی کے ساتھ مع دلیل‘‘
اچھا تو جناب اسلئے "تحقیق " کرنے کا فرمارہے تھے ۔ کیونکہ آپ کے فرقے اہلحدیث کی نظر میں مقلد فاسق ہیں شاید ؟ تو کیجئے تحقیق ، لیکن مجھے یہ بتادیجئے کہ آپ کسی دلیل سے "تحقیق" کریں گے ؟ یا خود جاکر چودا سو سال پیچھے ، تحقیق کی تصدیق کروائیں گے ؟
يأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم ندِمينَ .............. فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
کیونکہ امتیوں کی تصدیقات کو شاید آپ مانتے ہی نہیں۔
جھوٹ ہے۔۔۔ ہمارا اصل واصول یہ ہے کہ ہم ہر اس امتی کی ہر اس بات کو نہیں مانتے جو ذات باری تعالیٰ اور فرمان رسولﷺ کے خلاف ہو۔۔۔سیدھا سادھ سا اصول ۔۔اس کو ہمیشہ کےلیے ذہن میں بھی بٹھالیجیے۔۔شکریہ
میں پہلے زمانے کی عمل نہیں کرتا جناب بعد کے آخری زمانے کے عمل پرعمل کرتا ہوں ، پہلے کا عمل آپ کو ہی مبارک ۔
جناب جب دلائل سے ایسی صورت ثابت ہو تو ہم بھی بعد کے زمانے کی بات کو مانتے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن دلائل کی شرط پر ۔۔۔ بغیر دلائل کے کسی عمل کو پہلے وآخری زمانے کاعمل کرکے جان چھڑا لینا آپ کو مبارک ہو۔۔۔ اگر دلائل کی وجہ سے آپ منسوخیت کو بعد کے زمانے کا عمل سمجھتے ہیں تو پیش کیجیے ۔۔چھپا کر کیوں رکھے ہیں۔؟
یہ آپ کا جھوٹا الزام ہے مجھ پر ، اب اسے ثابت کیجئے ۔ دوسری بات یہ کہ پیچھے کسی جگہ میں نے شروع نماز اور نماز میں کا فرق بتایا ہے اسے ڈھونڈ کر دیکھ لیجئے ۔
پہلی میری جس بات کی وجہ سے آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے آپ پر الزام لگایا ہے، اس کا تفصیلی جواب یہاں ملاحظہ کریں۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ نے دینی مسئلہ میں کیسی خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔
دوسری بات میں نے بھی ماقبل ’’ فی ‘‘ بارے تفصیلی گفتگو کی ہے، اس کو ملاحظہ کرلینا۔۔صرف ملاحظہ نہیں کرنا بلکہ اس پر کچھ پیش پوش بھی کرنا ہے۔
آپ کسی ایک روایت میں نماز کے شروع کی رفع یدین کا "انکار" دکھا سکتے ہیں ؟جب آپ انکار دکھائیں گے تب ان شاء اللہ میں آپ کو آپ کے سوال کہ سنت یا حدیث؟ کا جواب پیش کردوں گا ۔ فلحال تو آپ متحقق رہئیے کہ آپ جو رفع یدین کرتے ہیں وہ سنت ہے یا حدیث ، میرا مطلب ہے دلیل ڈھونڈئیے دلیل ۔
مزاحیہ بننے کی بہت کوشش کرتے ہیں۔؟ جناب پہلی بات رفع کی منسوخیت پر جو دلائل آپ نے دیئے اس میں کسی رفع کی تخصیص ہی نہیں۔ اگر اس سے پہلی رفع کے علاوہ باقی رفعوں کو منسوخ ثابت کیا جاسکتا ہے تو پھر پہلی رفع کا استثنیٰ کس وجہ سے ؟۔۔کیا ان دلائل سے پہلی رفع کا انکار نہیں لیا جاسکتا ؟۔ مجھ سے دلیل کیا لینی ہے آپ اپنی دلیلوں پر غور کرلیں۔۔
دوسری بات اگر آپ’’ آغاز ‘‘ اور ’’ میں ‘‘ کی بات کرنے لگ جائیں میری پیش کردہ حدیث ’’ دخل فی الصلاۃ ‘‘ اور اپنی پیش کردہ حدیث ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کو بھی اچھی طرح دیکھ لینا۔ اس بارے ماقبل پوسٹ میں بھی لکھ چکا ہوں۔
تیسری بات آپ مجھ سے صاف انکار کی دلیل طلب کررہے ہیں تو کیا آپ جو رفع ہم کرتے ہیں اس کے انکار کی صاف اور واضح دلیل جو کہ ضعیف نہ ہو دکھاسکتے ہیں؟۔چوتھی بات اگر ہماری رفع کی نہیں دکھانی تو پھر اپنی رفع کی صاف اور واضح دلیل ہی پیش کردیجیے یعنی ’’ ایک کا اثبات، ستائیس کی نفی گنتی کے ساتھ مع دلیل صحیح ‘‘
آیت پیش کس نے کی تھی ؟؟؟؟اور میں نے سوال کیا پوچھا تھا وہ سب گول مول ہوگیا ؟ دیکھئے آپ کا فرمانا کیا تھا
اسکے جواب میں میں نے گزارش کی تھی
یہ تھی اصل بات اور آپ نے جواب دئیے بغیر کچھ اور ہی رنگ دینے کی کوشش کی ۔ اللہ تعالٰی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے ۔ آمین
جناب حضور بغل بجانے کی ضرورت نہیں۔۔ ہماری جس مسئلہ پر بات ہے، وہ نماز سے متعلق ہے۔ اور میں نے اپنے ان الفاظ میں نماز بارے ہی کہا ہوا ہے دیکھیے میرے ان الفاظ کو
’’ آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ اہل حدیث جو قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں عمل بھی کرتے ہیں اور دعوت بھی دیتے ہیں وہ نماز وغیرہ کے تمام احکامات دلائل سے ثابت نہیں کرسکتے لیکن احناف نے ایسے اصول بنا رکھے ہیں کہ ان اصول کی روشنی میں تمام مسائل ثابت ہوجاتے ہیں۔‘‘
دیکھ لیا جناب مسٹر سہج صاحب میں نے کس بارے بات کی تھی۔؟ ۔ ہماری بات نماز سے متعلق ایک مسئلہ پر ہے۔ اس لیے میں نے بھی آیت سے اسی مسئلہ کو ہی مراد لیا۔۔آپ ماقبل پوسٹ پڑھیں شاید سمجھ بھی آجائے۔؟ اس لیے آپ کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا کیونکہ وہ ہماری جاری بحث سے متعلق تھا ہی نہیں۔۔ لیکن جب آپ یہ کہیں گے کہ اس آیت کے بعد رفع الیدین منسوخ ہوئی ہے تو پھر یہ بحث آئے گی کہ اس آیت کے بعد کے افعال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟۔۔۔ جناب میں نے گول مگول نہیں کیا آپ بات کو گول مگول کرکے کسی اور چکروں میں ہیں۔۔
آپ برائے مہربانی بتادیجئے کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے نزول کے بعد کے اعمال رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا سمجھتے ہو ؟
یہ بات موضوع سے خارج ہے۔ اور ویسے بھی اس کا اصولی جواب اس سے اوپر دے دیا ہے۔۔ اگر زیادہ شوق ہے اس آیت پر بات کرنے کا تو کوئی بات نہیں جلدی کس بات کی ہے۔۔ کرلیں گے۔۔ ان شاءاللہ ۔۔ اگر آپ یہ کہیں کہ نبی کریمﷺ نے اس آیت کے بعد رفع الیدین نہ کرنے کا کہا تو پھر ہماری اس پر بات ہوگی کہ اس حکم کے بعد کے احکام کی شرعی حیثیت ہمارے لیے کیا ہے؟۔۔فی الحال اس پر زیادہ جوش دکھانے کی ضرورت نہیں۔۔ موضوع پر رہیں۔۔شکریہ
باقی یہ بات کہ اس آیت کے بعد شریر گھوڑو کی دموں سے رفع یدین کو تشبیع دی گئی تو اس بارے میں میری معلومات صفر ہیں آپ ہی کچھ پیش کیجئے ۔
بہت خوب۔۔ میں نے یہ کب کہا کہ اس آیت کے بعد رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے؟۔۔
جب آپ بتادیں گے کہ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی کی یہ دلیل ہے اور رفع یدین سنت یا حدیث ہے اس دلیل سے اور فجر جیسی یا عصر جیسی تو پھر میرا وعدہ ہے کہ میں بھی آپ کو تحریمہ والی رفع یدین کے سنت ہونے کی دلیل دے دوں گا ۔
جناب کن سوچوں میں مگن ہیں۔۔ شاید آپ کو پتہ نہ ہو کہ آپ جو رفع کرتے ہیں وہ پہلے آتی ہے۔۔اور پھر شاید آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا موضوع منسوخ اور غیر منسوخ کا ہے۔۔اگر سنت یا حدیث کی ہی بات کرنی ہے تو پھر میں نے پہلے بھی دریا دلی دکھائی اور اب دوبارہ وہی الفاظ نقل کررہا ہوں۔
’’ اور یہی سمجھ آپ کو بھی نہیں آتی کہ جس رفع کو آپ کرتے ہیں وہ فجر کی سنتوں کی طرح ہے یا عصر کی سنتوں کی طرح۔ اور میں نے دریا دلی سے کہہ بھی دیا کہ جو آپ کا جواب وہی میرا جواب۔ ‘‘
جو آپ جواب دیں گے وہی جواب میرا ہوگا۔۔ جناب ۔۔۔لیکن آپ کو پوچھ گوچھ سے گزرنا ہوگا۔۔ اگر پاس ہوگئے تو پھر میرا جواب بھی وہی ہوگا جو آپ نے دیا ہوگا۔لیکن اگر فیل ہوگئے تو پھر نیو جواب لانا ہوگا۔۔
اسی لئے آپ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی اپنی دلیل سے دکھارہے ہیں یعنی اثبات کے لئے دو جمع دو برابر چار اور جب اٹھارہ کی نفی دکھانے کا وقت آئے گا تو پھر ناجانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔
مجھے کوئی پاپڑ نہیں بیلنے پڑیں گے اور نہ اب تک اہل الحدیث کو پاپڑ بیلنے کی ضرورت پڑی ہے۔۔ یہ خوش کن فعل تو آپ کے کھاتے میں ہمیشہ کےلیے رکھا گیا ہے۔۔آپ کی ہی نظر سے اگر دیکھا جائے تو جو حدیث میں نے پیش کی ہے۔ اس میں جس کا اثبات بھی ہے اٹھارہ کی نفی بھی ہے۔۔ اور حدیث بھی ایسی ہے جس کا آپ نے بھی اقرار کرلیا ہوا ہے۔۔۔
پہلی بات یہ کہ آپ قرآن اور حدیث کا صرف دعوٰی کرتے ہیں اس سے دلیل پیش کرتے ہی نہیں بس دو جمع دو برابر چار کرتے ہیں ،
جناب دو جمع دو چار بھی اگر کہا ہے تو نہ ذاتی رائے سے اور نہ آپ کے کہنے پہ۔۔ یہ بھی اس دلیل سے ثابت ہے۔ جو میں نے پیش کردی ہے۔۔الحمد للہ ۔۔ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ دو جمع دو جمع حدیث کے الفاظ نہیں بلکہ قیاس ہے تو قیاس بارے بھی اپنا مؤقف بتا چکا ہوں۔۔دوبارہ بھی سن لیں ’’ قرآن وحدیث سے مستنبط قیاس کو میں مانتا ہوں ‘‘ اب اگر تو یہ قیاس قرآن وحدیث سے مستنبط نہیں بلکہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے تو مجھے بتائیں، ورنہ پھر تسلیم کرنے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ شافعی الحمدللہ اہل سنت والجماعت ہیں اور چاروں دلیلیں مانتے ہیں ۔ اور سیدھی سی بات ہے وہ امام کا قیاس مانتے ہیں ،جو امام شافعی نے قرآن و سنت اور اجماع کی تحقیق کر کے کیا ۔اور اس کا انہیں حق حاصل تھا کیونکہ امام شافعی مجتہد تھے ۔
میری پیش کردہ عبارت کا جواب نہیں۔ جناب عبارت دوبارہ پیش کررہا ہوں۔ اس لیے عبارت پر ہی لکھیں۔۔ادھر ادھر کی باتیں بیچ میں داخل نہ کریں
’’ یعنی شافعی حق پر ہیں ۔۔ کیونکہ ان کے پاس رفع الیدین کرنے کے دلائل ہیں۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شافعیوں کے پاس ہمارے پیش کردہ دلائل کے علاوہ کوئی اور دلائل ہیں یا یہی ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں ؟ اگر یہی ہیں تو پھر وہ کیسے حق پہ ہم کیسے گمراہ ؟ اور اگر کوئی اور ہیں تو پھر آپ ان کو حق پہ سمجھتے ہوئے بھی ان کے دلائل کیوں نہیں قبول کرلیتے۔؟
آپ نے کہا کہ شافعی چار دلیلیں مانتے ہیں۔ ہم باقی مسائل کے بارے میں نہیں پس آپ مجھے رفع کے بارے میں بتا دیں کہ شافعی رفع الیدین کے اثبات کےلیے اجماع سے دلیل پیش کرتے ہیں یا قیاس سے ؟ یا دونوں سے ؟ قرآن وحدیث کی بات نہیں کرنی۔ کیونکہ قرآن وحدیث سے تو دلائل ہم بھی پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
یعنی آپ مانتے ہیں کہ آپ امام شافعی کے مقلدین کو حق پر سمجھتے ہیں ؟ ہاں یا ناں ؟
ہاں یا ناں میں کیوں پڑتے ہیں دامت برکاتہم العالیہ۔۔ اس کا تفصیلی جواب ملاحظہ کریں
’’ محترم میں کسی مذہب کو نہیں بلکہ ہر اس آدمی کو حق پہ سمجھتا ہوں جو انہی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزار رہا ہے جو تعلیم نبی کریمﷺ نےصحابہ﷢ کو دی تھی۔چاہے وہ اپنے آپ کو جس بھی نام سے پکارے۔ ناموں سےمجھے کوئی واسطہ نہیں .... آگئی ناں سمجھ سہج صاحب میرے موقف کی ؟ ‘‘
یاد رکھئے مجھے آپ کی پیش کردہ روایت پر کوئی اعتراض نہیں ، بلکہ اس پر آپ نے جو قیاس فرمایا ہے یعنی دو + دو=4اور 4+4=8 اس کی دلیل مانگی ہے ، مہربانی فرمائیے
پہلے آپ ثابت کریں کہ میں نے قیاس کیا ہے ؟۔۔مزید باتیں بعد میں۔۔
مسٹر گڈ مسلم ، کچھ تو خیال کیجئے کیا کر رہے ہیں آپ ؟ جناب میں نے نبی کے مقابلے میں صحابی کا فعل پیش نہیں کیا ، یہ آپ کی غلط بیانی ہے ۔
جناب پیش کیا ہے۔ جو میں نے لکھا وہ دوبارہ دیکھیں

’’ 1۔ میں نے نبی کریمﷺ کا عمل پیش کیا آپ نے اس کے مقابلے میں صحابی﷜ کا
2۔ میں نے اسی ہی صحابی﷜ سے آپﷺ کا عمل ثابت کیا آپ نے اسی ہی صحابی﷜ کا عمل نبی کریمﷺ کے خلاف ثابت کردیا۔ یعنی صحابی﷜ نے آپﷺ کا عمل دیکھ کر اور پھر اس کو آگے بیان کرکے بھی مخالفت کرتے رہے؟ نعوذ باللہ
3۔ صحابی﷜ کے پاس یہ اختیار کہاں سے آگیا تھا کہ وہ﷜ نبی کریمﷺ کے عمل کےخلاف عمل کرکے نبی کریمﷺ کے عمل کو منسوخ قرار دے دیں۔ ‘‘
اب میں نے کیسے غلط بیانی کی آپ خود پڑھ کر فیصلہ کرلیں۔۔ہوسکتا ہے پہلے آپ کو سمجھ ہی نہ آئی ہو؟
اللہ آپ کو گڈ مسلم بنائے ۔ بولیں آمین ۔
آمین ثم آمین ۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی حق تسلیم کرنے اور حق کے آگے سرخم کرنے والا بنائے۔۔بولو آمین
زمانے کے بارے میں موجودہ پوسٹ میں پڑھ لیجئے گا جناب اور روایات کو جو ترتیب سے پیش کیا ہے
مزاق ویسے کرلیتے ہیں۔۔ ایک روایت میں ایک بات کا ہونا۔ دوسری میں دوسری کا ہونا تیسری میں تیسری کا ہونا چوتھی میں چوتھی کا ہونا۔۔ جناب اس سے زمانے والی بات کہاں ثابت ہوتی ہے؟ یہ خواب خیالیاں تو نہیں چلا کرتی دینی معاملات میں۔؟۔۔زمانے کی بات اگر کرنی ہیں تو پھر دلیل بھی دینا ہوگی۔ یہ تو کوئی دلیل نہیں کہ ایسی روایات پیش کردیں اور پھر کہہ دیا کہ یہ سب زمانے کی وجہ سے ہے۔۔۔اگر زمانے کے الفاظ کا ہی سہارا لینا ہے تو مجھے ایک بات کا جواب دو
’’ آپ کے بقول رفع الیدین کی جو احادیث آپ نے جس ترتیب سے پیش کیں اس میں زمانے کا بیان ہے۔یعنی ایک زمانے میں ایک رفع کا حکم ہوا، دوسرے زمانے میں دوسری رفع کا بھی ساتھ حکم ہوا، تیسرے زمانے میں تیسری رفع کا بھی ساتھ حکم ہوگیا۔ یعنی تین رفعیں ہوتی رہیں پھر ایک رفع مزید کا حکم دیا گیا یعنی کل چار رفعیں ایک زمانہ تک ہوتی رہیں۔ پھر زمانہ آیا کہ پہلی رفع رہ گئی اور باقی منع یعنی منسوخ کردی گئیں؟ آپ مجھے دلائل کی روشنی میں بتا سکتے ہیں کہ اس عمل میں کونسی قباحت آگئی تھی جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ناپسند کرنا شروع کردیا اور عمل سے روک دیا ؟؟ دوسری بات یہی رفع جو ہم کرتے ہیں شافعی بھی کرتے ہیں۔۔تو کیا جو رفع منسوخ ہوئی شافعی اس کے علاوہ کوئی رفع کرتے ہیں یا جو منسوخ ہوئی وہ کرتے ہیں۔۔اگر کوئی اور رفع کرتے ہیں تو ہمیں بھی بتائیں لیکن اگر یہی رفع کرتے ہیں اور ان مقامات پر کرتے ہیں جن مقامات پر ہم کرتے ہیں تو پھر ایک ہی عمل ایک ہی طرح کرنے والے دو لوگوں میں سے ایک درست اور ایک غلط کیسے ہوگیا ؟ ‘‘
امید ہے سمجھ آگئی ہوگی کیونکہ آسان ترین الفاظ میں لکھا ہے۔
اسے بھی اور ایسے ہی غلط سلط کسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یا صحابی کی توہین کا الزام لگانا نہیں چاھئے ۔
میں نے غلط سلط نہیں لگایا۔ بلکہ آپ کو بتایا بھی ہے۔۔ کہ آپ نبی کریمﷺ کے عمل کے مقابلے میں صحابی کو لارہے ہیں کچھ غور کریں؟ شاید سمجھ آجائے۔۔لیکن زمانے زمانے کی گردان کرتے جارہے ہیں اور توہین کا ارتکاب بھی۔۔ یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔۔
اب بتائیے گڈ مسلم صاحب ، کیا میں بھی کہہ دوں کہ آپ اتنے ضدی ہوچکے ہیں کہ خود لکھ رہے ہیں کہ "چاھے سہی سند سے ثابت ہوجائے" پھر بھی تسلیم ہی نہیں ؟ کیا اسے بھی گستاخی قرار دے دیا جائے ؟ ہوش کیجئے کچھ بھائی صاحب ۔
مجھے ہوش ہے اور آپ کبھی گستاخی کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ گستاخی ہے ہی نہیں۔۔آپ کہیں گے کیسے لیکن جناب ذرا اس عبارت کو غور سے پڑھو
’’ محترم کیوں بے تکی اور بچگانہ حرکتیں وباتیں کرتے جارہے ہیں آپ ؟ یہ توالگ بات ہے کہ آپ نے جو صحابی﷜ کا عمل پیش کیا وہ صحیح اسناد سے ثابت ہی نہیں۔ لیکن عقلی طور پر بھی اس میں اتنی باتیں ہیں کہ زندہ دل مسلمان کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کرے گا۔ چاہے صحیح سند سے ثابت بھی ہوجائے۔‘‘
امید ہے اب عبارت کو سمجھنے کی تکلیف سے اپنے آپ کو ہمکنار کریں گے۔۔ اگر نہ سمجھ آئے تو کسی دوسری تیسری بات کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لینا۔۔شکریہ
پوچھنا ؟
چلیں پھر پوچھ ہی لیتے ہیں ۔۔مولانا مفتی صاحب آپ بتائیں کہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا اپنا عمل کیا تھا ؟
سرجی روایات پیش خدمت کرچکا ہوں میں آپکی ؟ اعتراض ہے تو کیجئے اور جھوٹ ثابت کیجئے ان روایات کو بھی
تمام روایات کی تحقیق بھی پیش کردی گئی ہے۔۔ اب اگر آپ کو اعتراض ہے تو پیش کرنا
اور موجودہ پوسٹو میں بھی چند روایات ہیں اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے بھی انہیں غور سے پڑھ لیجئے گا اور پھر دوبارہ سے تحقیق کیجئے گا ۔
غور سے پڑھ لیا ہے الحمد للہ۔۔ اور جواب بھی دے دیا ہے۔
بے فکر رہئیے گڈ مسلم صاحب بھاگنے والا نہیں اللہ کے فضل سے ۔
مجھے بھی ایسے آدمی کی تلاش تھی۔
باقی اگر ویسے ہی پوچھ رہے ہیں تو جی ہاں چار رکعت میں چار بار رکوع ہوتا ہےاور اٹھنا بھی ۔۔۔۔
ماشاءاللہ .... ماشاءاللہ ثم ماشاءاللہ .... پھر .... ماشاءاللہ .... تو جناب اب جو میں نے حدیث پیش کی اس کو پڑھیں
’’ وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه‘‘
اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے،
یعنی جب نماز میں رکوع کرتے (یہ وضاحت نہیں کہ کس رکعت کا رکوع۔پہلی کا؟ دوسری کا یا پھر چوتھی کا؟ بس رکوع کا لفظ ہے جو کہ عام ہے اور یہ عام عام ہی رہے گا۔ اور ہر رکوع پر اس کا اطلاق ہوگا چاہے پہلے رکعت کا ہو یا آخری رکعت کا۔۔الا کہ تخصیص کی دلیل آجائے) تو رفع یدین کرتے۔اور جب رکوع سے سراٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔۔اور اب آپ نے خود تسلیم کرلیا کہ چار رکعات میں چار بار رکوع میں جانا ہوتا ہے۔۔اور چار بار رکوع سے سر اٹھانا ہوتا ہے۔۔جب چار بار رکوع میں جائیں گے تو ہر دفع رفع الیدین کریں گے۔ اور جب چار بار رکوع سے سر اٹھائیں گے تب بھی ہر بار رفع الیدین کریں گے۔۔4+4=8 جناب آٹھ رفعیں تو تم نے خود تسلیم کرلیں۔۔اور پہلی رفع اور تیسری رکعت کے آغاز کی رفع میں پہلے ہی دکھا چکا ہوں۔۔۔یعنی کل دس اثباتی رفع الیدین جو ہم کرتے ہیں۔۔۔اپنے آپ ہی تسلیم کرلیا ۔۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ ۔۔۔اب رہ گئی باقی اٹھارہ رفعیں۔۔ وہ آپ کے ہی اصول سے ثابت کررہا ہوں۔۔ آپ کا اصول ہے کہ جس بات کا ذکر نہ ہو وہ منسوخ ہوتی ہے۔۔ اور جو روایت میں نے پیش کی اس میں ان اٹھارہ کا ذکر نہیں لہذا یہ بھی منسوخ۔۔۔ آگیا جواب دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی والا با دلائل ؟؟۔۔جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا
ارے ارے ٹھہرو مسٹر گڈ مسلم ،،کہیں پھر سے دو جمع دو برابر چار نہیں شروع کردینا ۔ قیاس نہیں دلیل فرقہ جماعت اہل حدیث والی ۔
پاپڑ بیل دیا آپ نے ؟۔۔تسلیم کرکے بھی انکاری۔۔اللہ رحم کرے۔۔جناب دو جمع دو نہیں کیا بلکہ اس کا جواب تو آ پنے خود ہی دے دیا ہے۔۔ اس لیے اب اپنے آپ کو ہی کوستیں رہیں یا پھر عمل کرنا شروع کردیں۔۔
دو اور تین نمبر کو چھوڑ دیتا ہوں اور صرف نمبر ایک پر کچھ کہوں گا ۔
جب کہیں گے تو جواب بھی سامنے آجائے گا۔۔ ان شاءاللہ
لگے ہاتھوں ایک اور روایت اصح الکتب سے پیش خدمت ہے ۔
عن أبي هريرة،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل المسجد فدخل رجل فصلى ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فرد النبي صلى الله عليه وسلم عليه السلام فقال ‏"‏ ارجع فصل فإنك لم تصل ‏"‏ فصلى،‏‏‏‏ ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ارجع فصل فإنك لم تصل ‏"‏‏.‏ ثلاثا‏.‏ فقال والذي بعثك بالحق فما أحسن غيره فعلمني‏.‏ قال ‏"‏ إذا قمت إلى الصلاة فكبر،‏‏‏‏ ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن،‏‏‏‏ ثم اركع حتى تطمئن راكعا،‏‏‏‏ ثم ارفع حتى تعتدل قائما،‏‏‏‏ ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا،‏‏‏‏ ثم ارفع حتى تطمئن جالسا،‏‏‏‏ ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا،‏‏‏‏ ثم افعل ذلك في صلاتك كلها ‏"‏‏.‏
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز کے بعد اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آ کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ دوبارہ جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین بار اسی طرح ہوا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا۔ میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے آپ مجھے سکھلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو (پہلے) تکبیر کہہ پھر قرآن مجید سے جو کچھ تجھ سے ہو سکے پڑھ، اس کے بعد رکوع کر اور پوری طرح رکوع میں چلا جا۔ پھر سر اٹھا اور پوری طرح کھڑا ہو جا۔ پھر جب تو سجدہ کرے تو پوری طرح سجدہ میں چلا جا۔ پھر (سجدہ سے) سر اٹھا کر اچھی طرح بیٹھ جا۔ دوبارہ بھی اسی طرح سجدہ کر۔ یہی طریقہ نماز کے تمام (رکعتوں میں) اختیار کر۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا تھا
گڈ مسلم صاحب مجھے بتائیے گا ضرور کہ اس روایت کو بھی آپ تسلیم نہیں کرتے ؟
ضرور تسلیم کرتا ہوں جناب پر اس مقصود کو تسلیم نہیں کرتا جو آپ اس روایت سے حاصل کرنے کے چکرومکر میں ہیں۔۔ یہ آپ کا دھوکہ ہے۔۔ اس روایت کی تعلیم آپﷺ جس مقصد کےلیے دے رہے ہیں، میں اس کو بعینہ تسلیم کرتا ہوں لیکن آپ لوگ تسلیم نہیں کرتے۔۔تسلیم نہ کرنے کا اگر ثبوت چاہیے ہو تو پیش پوش کردیا جائے گا۔۔فکر ناااااااٹ
آپ اوپر پیش کردہ بخاری کی روایت پر عمل کا اعلان کیجئے ،
الحمد للہ میں عمل کرتا ہوں لیکن آپ مقلدین کی فقہ میں کچھ اور ہے۔۔شاید آپ کو معلوم ہوگا۔
ان شاء اللہ رفع یدین کو چھوڑئیے
ہا ہا ہا ہا ۔۔ تو جناب آپ مجھے بتائیں کہ اس رفع میں پہلی رفع کا ذکر ہے ؟۔۔ آپ پہلی رفع کو چھوڑنے کا اعلان کیجیے۔۔ مجھے آپ کے اعلان کا انتظار رہے گا۔۔
اور پھر مجھ سے پہلی رفع کی دلیل مانگئے میں آپ کو احادیث سے دکھاؤں گا ان شاء اللہ ،
کیا اس حدیث میں پہلی رفع منسوخ ثابت نہیں ہورہی ؟۔ اگر ثابت ہورہی ہے تو ٹھیک اور اگر نہیں ہورہی تو کیوں ؟ ۔۔ اس کےجواب کے بعد میں اپنے عمل پر ایسی صریح، صحیح احادیث پیش کر چکا ہوں جس کا آپ کیا پوری مقلدیت انکار کرہی نہیں سکتی۔۔ اللہ کے فضل سے۔۔
پھر آپ بھی کہہ سکیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے نماز سکھائی تھی ویسی ہی گڈ مسلم ادا کرتا ھے ۔
کہہ نہیں سکیں گے۔۔ الحمد للہ گڈمسلم ویسے ہی نماز اداء کرتا ہے جیسے آپﷺ نے سکھائی تھی۔ اور جو بادلائل صحیحہ ہم تک پہنچی ہے۔۔ نہ کمی کرتا ہے گڈمسلم اور نہ زیادتی کرتا ہے گڈمسلم۔۔
دیکھنے پڑھنے والے خود فیصلہ کریں کہ بے تکی باتیں کہاں سے آرہی ہیں ۔ اور بادلیل باتیں کہاں سے ۔ اور اب صرف دو جمع دو برابر چار ہی نہیں ہونا چاھئے ۔
جی جناب جی۔۔ خود فیصلہ کرلیں گے۔۔ ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں۔۔ دلائل قوی کس کی طرف سے پیش کیے گئے اور کشکول سے ضعیف احادیث کس نے پیش کیں۔۔سب واضح کردیا ہے۔۔۔اور دو جمع دو چار ہوتا ہے یا پانچ یہ بھی تفصیل سے بتا دیا ہے۔۔
دو جمع دو چار کے علاوہ جو دلائیل آپ نے دئیے ہیں ان کو گنتی کے ساتھ پیش کیجئے گا ، اسکے بعد ان شاء اللہ میں بھی جو دلائیل پیش کرچکا ان گنتی کے ساتھ پیش کروں گا ۔ دس جگہ رفع یدین کرنے کی دلیل آپ نے خاص طور پر پیش کرنی ہے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ کون سی دلیل تھی۔
باقی باتوں کو صرف نظر کرتے ہوئے بات یوں کرتے ہیں کہ آپ کے بقول میں نے چار رفعیں حدیث سے ثابت کیں اور باقی چھ رفعیں قیاس سے۔۔ آپ سے گزارش ہے کہ صرف پہلی رفع صحیح حدیث سے ثابت کریں۔یا قرآن وحدیث سے قیاس سے ثابت کریں۔۔ یاد رہے صرف پہلی رفع اور پھر صحیح حدیث۔۔۔شاید آپ کی پارٹی ضعیف کو بھی صحیح کہنے کی عادی ہے۔۔لیکن ہماری پارٹی صحیح اس کو سمجھتی ہے جس کو محدثین نے صحیح کہا ہو۔۔ اس لیے ہماری پارٹی کے ہاں جو صحیح کا مفہوم ہے وہ حدیث پیش کرنا۔۔۔
شکریہ
شکریہ


نوٹ:
پوسٹ نمبر33 کا جواب کمپلیٹ ہوا۔۔ اب ان شاءاللہ آپ کی پوسٹ نمبر40 اور پوسٹ نمبر41 کی باری ہے۔ اور اس کے بعد آپ کی طرف سے پیش کی گئی ایسی احادیث جن پر تحقیق پیش نہیں کی گئی ہوگی۔ وہ سامنے لائی جائے گی۔ پھر پورے تھریڈ پر ایک طائرانہ نظر کرنے کے ساتھ آخر میں رفع الیدین پر مزید دلائل پیش کرونگا۔۔ اس کے بعد آپ کو لکھنے کی اجازت ہوگی۔۔تب تک انتظار کا گھونٹ لیں۔۔شکریہ۔۔اور ۔۔مہربانی
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
مولانا سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی پوسٹ نمبر40 کے کچھ حصے کا جواب

پہلے آپ حدیث کی جتنی قسمیں مانتے ہیں انکی گنتی پیش کریں ودھ "دلیل"۔ یعنی مجھے معلوم تو ہو کہ آپ ماشاء اللہ احادیث کی "قسمیں" بھی مانتے ہیں ، یعنی قسم پر پوری اترے گی تو حدیث ماننی ہے ورنہ انکار ۔
مولانا سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ میں حدیث کی اقسام کی بات نہیں کی۔ میں نے صرف یہ پوچھا کہ میری پیش کردہ حدیث حدیث کی کس قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ آپ حدیث کی اقسام کے چکروں میں نہ پڑیں، بس مجھے بتا دیں کہ آپ کی حدیث حدیث کی فلاں قسم سے تعلق رکھتی ہے۔میں احادیث کی کتنی قسمیں مانتا ہوں یا میرے نزدیک حدیث کی کتنی قسمیں ہیں؟ ان باتوں میں نہ پڑیں آپ کے نزدیک حدیث کی جتنی بھی قسمیں ہیں ان قسموں میں سے اس حدیث کا کیا تعلق ہے۔ مجھے وہ بتائیں۔۔شکریہ
آپ کو معلوم نہیں کہ آپ نے کیا پیش کیا ؟ چلیں میں بتاتا ہوں ۔ آپ نے چار تک کی گنتی فرمائی ہے صرف ۔
ہٹ دھرمی، ضد اور بے شرمی کی بھی انتہاء ہوتی ہے۔ حدیث دوبارہ دیکھیں ’’ " كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " جناب ذرا بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہاں گنتی ہے یا مقام کی نشاندہی ؟ میں کہتا ہوں مقام کی نشاندہی ہے۔ یعنی مقام نمبر1 نماز کا جب شروع کریں تو رفع کریں۔ مقام نمبر2 جب رکوع کریں تو رفع کریں۔ مقام نمبر3جب رکوع سے اٹھیں تو رفع کریں۔مقام نمبر4 جب تیسری رکعت کا آغاز کریں تو رفع کریں۔۔اگر تعداد کا ذکر ہوتا تو حضور اعلیٰ پھر یوں ہوتا جب نماز شروع کریں تو ایک رفع کریں، جب رکوع کریں تو دوسری رفع کریں جب رکوع سے سر اٹھائیں تو تیسری رفع کریں اور جب تیسری رکعت کا آغاز کریں تو چوتھی رفع کریں۔ یا پھر یوں ہوتا کہ جب نماز کا آغاز کریں تو ایک رفع کریں جب پہلی رکعت کا رکوع کریں تو دوسری رفع کریں جب پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھیں توتیسری رفع کریں۔پھر چوتھی رفع سے چودھویں رفع سمیت چھوڑ دیں، پھر پندرھویں رفع کریں اور سولہویں رفع سے اٹھائیسویں رفع تک چھوڑ دیں۔۔ لیکن یہاں پر تو ایسی کوئی صورت نہیں پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میری پیش کردہ حدیث میں چار مقامات نہیں بلکہ چار رفعوں کا ذکر ہے؟
زمانہ جناب "زمانے کا فرق " ہے ۔
بلا دلیل سامنے کے فرق کو تو میں تسلیم نہیں کرسکتا۔۔ معذرت چاہتا ہوں۔۔۔ اگر رفع الیدین کو زمانے کے حساب سے منسوخ ثابت کرنا ہے تو پھر دلیل بھی اسی حساب کی دینا ہوگی۔۔امید ہے سمجھ آگئی ہوگی۔
ابھی تک "ثابت" فرمانے میں سخت ناکام رہے ہیں ۔ ہاں دو جمع دو برابر چار ضرور کیا ہے اور اسکی دلیل بھی پیش نہیں کرسکے ۔
استغفراللہ جناب میرا سوال کیا تھا دوبارہ غور کریں ’’ حدیث سے وہ مقامات جن پر ہم رفع کرتے ہیں وہ میں نے بادلیل پیش کیے یا نہیں ؟ ‘‘ آ پ نے فرمان جاری کیا کہ’’ ثابت کرنے میں سخت ناکام رہے ہیں۔ ‘‘ یعنی آپ اس حدیث کا انکار کررہے ہیں جو میں نے پیش کی۔ تبھی تو فرمارے ہیں کہ آپ سخت ناکام رہے ہیں۔ جناب آپ کے ان الفاظ سے حدیث کا انکار ہورہا ہے۔ کچھ سوچیں اور پھر مجھے آپ کی دوغلا پالیسی بالکل سمجھ نہیں آئی۔کبھی کہتے ہیں میں حدیث کا انکار نہیں کرتا کبھی کہتے ہو آپ ثابت کرنے میں سخت ناکام رہے ہیں۔۔ کھل کر کیوں بات نہیں کرتے۔۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ احادیث رفع الیدین ہمارے مذہب کے خلاف ہیں اس لیے ہم نہیں مانتے کیونکہ ہم مقلد ہیں۔ اور مقلد کو دلائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
صحابی کا عمل ہے۔
کس جہت سے آپ فرمارے ہیں ؟
یہ سوال تو خود آپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے گڈ مسلم صاحب ، کیونکہ آپ اپنی دلیل کے مطابق کوئی بھی روایت ثابت نہیں کرسکتے۔
سوال گندم جواب چنا۔۔سوال دوبارہ پیش ہے ’’ ایک طرف صحابی رضی اللہ عنہ کاعمل ہو اور ایک طرف نبی کریمﷺ کا تو کس کا عمل لیا جائے گا ؟
ہاں امتیوں کی تقلید کریں تو الگ بات ہے ۔
ہم مقلد نہیں بلکہ متبع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔۔اور دلائل پر چلنا تقلید نہیں کہلاتا یہ آپ کے مولوی بھی فرما کر چلے گئے۔۔ اگر آپ ابھی تک ناواقف ہیں تو جاننے کی کوشش کریں۔
اب آپ ہی بتادیجئے کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں کس نے لکھا ہے یا کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے یا رہا ؟ پھر اسے اپنی دلیل سے ہی ثابت فرمائیے گا ۔
اجماع۔۔اب آپ کہیں گے کہ اجماع نے کیسے کہا۔۔ تو جناب یہ بخاری کی حدیث ہے اور بخاری کی صحت پر اجماع ہے۔۔ اگر نہیں پتہ تو بتا دیا جائے گا۔۔ آپ کے ہی مولویوں کی تحاریر سے۔۔کبھی کبھی ایک بات سوچتے سوچتے حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہوں کہ اسی مسئلہ پر آپ کی پارٹی کے جید علماء لکھ کر گئے ہیں کہ رفع الیدین متواتر کی حد تک پہنچی ہوئی سنت ہے۔ اور جو نسخ کا دعویٰ کرے اس کا یہ دعویٰ باطل ہے۔۔ اس کے باوجود چند وہ مفتیان کرام جن کی عربی تو کیا اردو بھی درست نہیں وہ دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہوگیا ہے۔۔۔۔علامات قیامت میں سے ایک نشانی ہی ہے۔
حدثنا عياش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبد الأعلى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبيد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن ابن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا ركع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قام من الركعتين رفع يديه‏.‏ ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی (رفع یدین) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: (چار رکعت نماز میں) قعدہ اولٰی سے اٹھنے کے بعد رفع یدین کرنا
ایک مثال دی جاتی ہے (اپنے پہ فٹ مت کرلینا) کہ ہمیشہ جھوٹ بولنے والا بھی کبھی کبھی سچ بول دیتا ہوتا ہے۔۔ یہی حال آپ کا ہے مولانا سہج صاحب۔وہ کیسے؟ میں بتاتا ہوں۔۔ آپ نے صحیح بخاری سے جو یہ روایت پیش کی ہے۔۔ پہلی تو بات یہ ہے کہ بخاری کی اس روایت کو آپ تسلیم کرتے ہونگے۔۔اگر نہیں کرتے تو بتا دینا۔۔ دوسری بات اس حدیث سے ان چار مقامات کی رفع ثابت ہورہی ہے جو ہم کرتے ہیں۔الحمدللہ یعنی نماز شروع کرتے ہوئے، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سراٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کے آغاز میں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ آپ اس روایت پر بغیر قیل وقال کے عمل شروع کردیتے لیکن جہاں تک آپ کا اس حدیث کو پیش کرنے کے مقصد کو میں سمجھ پایا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی عیاش ہے۔۔اور آپ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر جو پیش کرچکے ہیں۔ اس میں بھی عیاش نامی روای ہے۔۔جب دونوں روایتوں میں ایک ہی راوی ہے تو ایک روایت صحیح تو دوسری ضعیف کیوں ؟۔۔جناب ناں ناں۔۔دھوکہ دینے کی کوشش ناٹ۔۔ ابوبکر بن عیاش بارے تفصیلی بات یہاں پیش کرچکا ہوں، وہاں کی طرف رجوع کریں۔۔تکلیف کےلیے معذرت خواہ ہوں۔
7۔آپ نے میری پیش کردہ صریح دلیل کے درجہ کی دلیل کیوں نہیں پیش کی ؟ کیا آپ کے پاس اس طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے ؟
"صریح" کہنے کی دلیل بھی پیش کردیجئے، اور "درجہ" کی بھی دلیل "صریح" ٹھیک ۔ پھر اگلی بات کریں گے۔
مفتی سہج صاحب درجہ متعین ہے، اس لیے بتانے کی ضرورت ہی نہیں باقی (اشارہ کردیتا ہوں کہ بخاری کی حدیث ہے) رہی بات صریح والی تو لفظ صریح کا معنی جاننے کی کوشش کریں۔ دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔۔مجھے تو آپ پر ہنسی آتی ہے کہ طلب دلیل کا اتنا نشہ چڑھ چکا ہے کہ اب الفاظ کے معنیٰ جاننے کےلیے بھی اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان طلب کیے جارہے ہو؟۔۔کیا قرآن وحدیث کو کھیل تماشا بنایا جارہا ہے؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔صریح کیا ہوتا ہے اس بارے یا تو اللہ تعالیٰ بتائیں یا نبی کریمﷺ آکر ہمیں بتائیں تب ہمارے نام نہاد موحدین اس بات کو تسلیم کریں گے۔۔شرم مگر تم کو آتی نہیں۔۔جناب دلائل وہاں طلب کیے جاتے ہیں جہاں کسی کام کو یا تو عبادت سمجھ کر کیا جارہا ہو یا کسی کام کو غلط کہا جارہا ہو تب پوچھا جاتا ہے کہ اگر یہ کام عبادت سمجھ کر رہے ہو تو اس کی کیا دلیل ہے؟ یا اگر اس کام کو غیرشرعی کہہ رہے ہو تو اس کی کیا دلیل ہے۔۔
میں نے صریح اس لیے کہا کیونکہ میری پیش کردہ حدیث میں وہ عمل روز روشن کی طرح واضح ہے جو ہم کرتے ہیں۔۔اس لیے سوال کیا تھا کہ آپ نے میری پیش کردہ صریح دلیل کے جواب میں اسی طرح کے درجہ او رصراحت والی حدیث پیش نہیں کی۔ کیوں ؟ کیا آپ کے پاس اس مثل کوئی دلیل نہیں ؟۔۔فتدبر
8۔ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا اور چار بار رکوع سے سر اٹھانا ہوتا ہے یا نہیں ؟
جی ہاں ہوتا ہے ۔
جزاک اللہ دیکھا تسلیم کرتے ہوئے کتنا اچھا لگا ہے۔۔ اب آپ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا بھی ہوتا ہے اور چار بار رکوع سے سراٹھانا بھی ہوتا ہے۔۔ اور میں آپ کو ثابت کرچکا ہوں ایسی دلیل سے جس کو آپ خود تسلیم کرچکے ہیں کہ جب بھی آپﷺ رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب بھی رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے۔۔مزید سمجھانے کی تو شاید ضرورت نہیں۔۔باقی کچھ باتی پوسٹ نمبر57 میں اس حوالے سے کرچکا ہوں، وہاں کا سفر کریں۔۔شکریہ
تو اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاھتے ہیں ؟ رفع یدین؟
جی بالکل۔۔۔جناب ان چار مقامات پر رفع کی دلیل جن پر ہم کرتے ہیں میں نے پیش کردی اور آپ نے تسلیم کرلی۔۔جب گنتی کی طرف آئے تو آپ نے خود تسلیم کرلیا کہ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا بھی ہوتا ہے اور چار بار رکوع سے سر اٹھانا بھی ہوتا ہے۔۔الحمد للہ جن الفاظ کی گردن پکڑ کر کئی دن سے رگڑے جارہے تھے، آج ان کا جواب خود ہی اپنی قلم سے دے دیا۔۔شکراً یا ربی الکریم۔۔اب اللہ تعالیٰ سے عمل کرنے کی توفیق کی دعا مانگتے ہوئے عمل شروع کردیں۔۔جزاک اللہ خیرا
گڈ مسلم صاحب جیسے آپ نے چار تک گنتی دکھائی ہے ویسے ہی آگے کی گنتی بھی دکھادیجئے۔دو جمع دو برابر چار کئیے بغیر ۔ تب کہئیے گا "صریح"۔
پاپڑ بیلدیا ناں ؟ جناب گنتی کی تو بات میں نے کی ہی نہیں۔ اور نہ گنتی ہمارے دونوں کے دعویٰ میں ہے۔۔ میرا مؤقف غیر منسوخیت کا ہے آپ کا منسوخیت والا۔۔ اس لیے پیارے، میری جان آپ منسوخیت ثابت کریں اور میں عدم منسوخیت ثابت کرونگا۔۔ گنتی منتی کے چکروں میں پڑ کر اپنے آپ کو مزید چکروں میں نہ پھنسائیں۔۔۔لیکن آپ کی اس گنتی والی ضد کی وجہ سے میں نے اسی حدیث سے آپ کی طرف سے بار بار لکھے گئے الفاظ کا جواب بھی دے دیا تھا۔۔جس کو آپ نے کہا تھا کہ آپ نے چار تو دلیل سے ثابت کی ہیں لیکن باقی چھ قیاس سے۔۔ اس بارے ماقبل تفصیلی باتیں ہوچکی ہیں۔۔وہاں پڑھ لینا۔۔۔مزید جب آپ گنتی میں پڑے جارہے تھے تو میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ چار رکعات میں چار بار رکوع میں جانا اور چار بار رکوع سے سر اٹھانا ہوتا ہے یا نہیں؟ آپ نے کہاں بالکل اسی طرح ہی ہوتا ہے۔۔تو جناب اب آپ میری پیش کردہ حدیث پر غور کرنے کو تکلیف کریں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ وہاں پر رکوع میں جانا او رکوع سے اٹھنا میں عموم ہے۔۔یعنی جب بھی کسی بھی نماز میں رکوع میں جانا ہے اور رکوع سے سر اٹھانا ہے تو رفع الیدین کرنا ہے۔۔چاہے وہ نماز ایک رکعت ہو، دو رکعات ہوں، تین رکعات ہوں، چار، پانچ، سات، نو وغیرہ ہوں یا وہ نماز عیدین ہوں یا نماز خسوف، کسوف یا نماز استخارہ ہو۔۔یا نوافل وفرائض ہوں۔۔اس لیے کسی بھی نماز میں کسی بھی رکعت میں جب رکوع جانا ہے اور رکوع سے سر اٹھانا ہے تو رفع یدین کرنا ہے۔۔نہ گنتی کا تذکرہ نہ تعداد کا تذکرہ اور نہ اس بات کا تذکرہ کہ وہ نماز فرض ہو یا نفل عید الفطر کی نماز ہو یا عید الاضحیٰ کی۔۔۔۔ کچھ سمجھ آیا سہج صاحب کی نہیں ؟
9۔ چار رکعات نماز میں کتنے قیام، کتنی بار رکوع میں جانا، کتنی بار رکوع سے اٹھنا، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوا کرتے ہیں ؟
اس بارے میں آپ "تعلیم" الاسلام " کا مطالعہ کیجئے ۔ ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
اس بارے تفیہم الاسلام میں جو کچھ ہے، وہ یہاں پیش کردیجیے تاکہ سب مستفید ہوسکیں۔۔کتابوں کی طرف ریفر کرنے سے کتاب سے مطلوبہ بات کو یہاں پیش کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔ اس لیے یہ غلطی دوبارہ مت کرنا۔۔
10۔آپ نے کہا کہ میں نے باقی رفعوں کو بالقیاس ثابت کیا ہے۔ آپ کی اس بات کا جواب میں بالتفصیل دیا لیکن آپ کاجواب ؟
یعنی آپ دو جمع دو برابر چار کو "قیاس " نہیں مانتے ؟ اور جو جواب آپ نے دیا تھا اسے سوال کے ساتھ ، اور میرے جواب کے ساتھ پیش کیجئے۔
میں نے یہ سوال کیا تھا کہ آپ نے میری اس وضاحت کو کیسے قیاس کہا ہے۔؟ آپ مجھے سمجھ جائیں۔۔ شاید آپ قیاس سے ناواقف ہوں۔۔ قیاس بارے جاننے کےلیے آپ اس لنک کووزٹ کریں۔ اور پھر اس کی روشنی میں مجھے بتائیں کہ میری اس وضاحت کو آپ نے کیسے اور کیوں قیاس کہا ہے؟
11۔ روایات کے ٹکراؤ میں حنفی اصول کی روشنی میں کچھ پوچھا ہے آپ سے ؟
بتاچکا ہوں جناب کو کہ پھر اہل سنت والجماعت اجماع کی جانب اور اگر ضرورت ہو تو پھر امام کے قیاس کی جانب جاتے ہیں ۔
تو جناب اذا تعارضا تساقطا پر عمل کب ہوتا ہے؟
12۔میں قیاس کو مانتا ہوں یا نہیں اس الزام کی حقیقت پیش کی لیکن آپ نے الزام واپس لیا ؟
آپ نے ناہی اپنے قیاس کو ماننے کا انکار کیا ہے اور ناہی واضح اقرار،
جناب میں نے قیاس کیا ہی نہیں۔۔یہ تو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے قیاس سے باقی چھ رفعوں کو ثابت کیا ہے۔۔جب آپ کہہ رہے ہیں تو ثابت بھی آپ کو کرنا ہوگا کہ آپ نے جو وضاحت کی وہ اس لحاظ سے قیاس بنتی ہے۔۔ تاکہ ہمیں آپ سے قیاس کی بحث پڑھنے کا بھی موقع ملے۔۔ تو بتائیے جنا دیر مت کیجیے کہ آپ میری باقی چھ رفعوں پر کیسے کہہ رہے ہیں کہ میں نے ان کو قیاس سے ثابت کیا ہے؟
رہی دوسرے تھریڈ کی بات جس کا لنک آپ نے دیا ، اسکے بارے میں ان شاء اللہ وہیں بات ہوگی۔
جب بات ہوگی تو دیکھی جائے گی۔ ان شاءاللہ
یہاں اگر قیاس کا اثبات کرنا ہو تو کریں۔
جب قیاس بارے آپ خود کہہ رہے ہیں کہ دیئے گئے لنک پر بات ہوگی تو پھر وہاں ہی بات ہوگی۔۔ ان شاءاللہ
تاکہ میرا الزام آپ خود ثابت کریں اپنے بارے میں اور پھر دو جمع دو چار کے بارے میں بھی واضح طور پر خود ہی اقرار کرلیجئے گا کہ وہ آپ کی " دلیل قیاس " ہے جس کا نمبر تیسرا ہے ۔
یہ تو وہی بات ہوئی ’’ نقصان کوئی کرے چٹی کوئی دھرے ‘‘۔جناب الزام آپ نے لگایا ہے تو ثابت میں کیوں کروں ؟ میں نے تو آپ کی بات کو الزام کہہ دیا ہے۔ اب آپ ثابت کریں گے کہ میں نے جو بات کی وہ الزام میں نہیں آتی بلکہ حقیقت ہے۔۔ ویسے بچے تو نہیں ہیں جو بچوں سے بھی زیادہ بچگانہ باتیں کررہے ہیں۔۔
13۔پیش کردہ صحیح مسلم کی حدیث میں کس رفع کی بات ہے؟ پہلی رفع کی ؟ یا باقی رفعوں کی ؟ یا سب رفعوں کی ؟
اسكنوا في الصلاة
اسکا ترجمہ خود کروا لیجئے ۔سمجھ آجائے گا ۔ اور میں بتا چکا کہ یہ حکم نماز میں سکون کے بارے میں ھے ۔
میں اس کا ترجمہ کروالونگا آپ ان الفاظ کا ترجمہ کروالینا ۔۔۔ اذا دخل فی الصلاۃ۔۔باقی اس بارے تفصیلی بات پہلے کسی پوسٹ میں پیش کرچکا ہوں۔۔ ڈھونڈ لینا۔۔شکریہ
اور یہ آپ کی غلط بیانی ہے کہ آپ کی باتوں کو "ھضم " کرگیا ہوں ، چلیں جن باتوں کو ھضم کیا ہے ان کی نشاندھی کردیجئے ۔
غلط بیانی نہیں۔۔حقیقت ہے۔۔ پہلے آپ خود غور کرلیں، اور پھر کہنا کہ گڈمسلم نے غلط بیان کی ہے۔۔فی الحال آپ بغیر سوچے سمجھے کہہ رہے ہیں۔۔

جاری ہے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
مولانا سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی پوسٹ نمبر40 کے کچھ حصے کا جواب

حیل میل جہاں کیا ہے آپ کی پیش کردہ روایت کے بارے میں اسے پیش کیجئے ۔ اور اپنے بارے میں بھی بتادیجئے کہ آپ اب تک پیش کردہ روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ دلیل کے ساتھ بتائیے گا ۔
’’ دس کا اثبات اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ ‘‘ یہ ریت کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کون چلا آرہا ہے؟ گڈمسلم صاحب؟۔یا مفتی اعظم مولانا سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ ؟۔ اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ہمارا موضوع ہی نہیں بلکہ ہمارا موضوع ہے کہ مختلف فیہ رفع منسوخ ہے یا نہیں؟ آپ منسوخ کہتے ہیں اور میں منسوخ نہیں مانتا۔۔منسوخ وغیر منسوخ کی بحث کو گھڑے گئے الفاظ کے ساتھ جوڑ کر دھوکہ دیتے جانا کیا ثابت کرتا ہے؟ کیا یہ حیل میل سے کم کھیل کھیلا جارہا ہے؟۔۔محترم جناب غور سے سن لیں کہ
1۔ منسوخیت اور عدم منسوخیت الگ بحث ہے
2۔ کہاں کہاں، کتنی بار اور کیسے کیسے کرنا ہے یہ الگ بحث ہے۔
اس لیے آپ سے پہلے بھی تفصیلی طور پوسٹ نمبر44 میں گزارش کرچکا ہوں، اور وہی گزارش یہاں پیش کیے بناء اس کا لنک دے رہا ہوں لیکن اس میں سے اہم پوائنٹ کو یہاں دوبارہ بھی نقل کررہا ہوں
حضرت وائل بن حجر غزوۂ تبوک کے بعد 9 ھ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ ج5، ص75) ، شرح العینی علی صحیح البخاری ج9 ص43) اور آئندہ سال جب حضرت وائل بن حجر رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا ۔ انہوں نے صحابہ کرام کو کپڑے کے نیچے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ اور یہ 10 ھ کے آخری مہینے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 10 ھ کے آخر تک رفع الیدین نہ منسوخ ہوا اور نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اس کے بعد 11ھ میں سرورِ دو عالمﷺ اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔تو جناب کہنے کا مقصد اب پیش ہے کہ نسخ کےلیے ضروری ہے کہ ناسخ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی دوسری مرتبہ آمد کے بعد ثابت ہو۔ اس لیے جناب آپ نے جو دلیل دینی ہے وہ 10ھ کے آخری مہینوں میں سے لے کر 11ھ ہجری آپ ﷺ کے وفات والے مہینے کے بیچ بیچ کسی مہینے میں بیان ہوئی ہو۔
امید ہے میرا مدعا سمجھ گئے ہونگے، اس لیے اب آپ نے صرف اور صرف منسوخیت پر دلیل دینی ہے اور وہ بھی بتائی گئی تفصیل کے عین مطابق۔۔ باقی کہاں کہاں، کتنی بار اور کیسے رفع الیدین کرنی ہے، وہ ان شاءاللہ جب اس بات کا فیصلہ ہوجائے گا کہ رفع منسوخ ہے یا نہیں۔؟۔پھر کرلیں گے۔۔ ان شاءاللہ ۔۔ کیا خیال ہے مولانا کا ؟
اپنی بدگمانی ماننے پر شکریہ ۔
اپنے الفاظ میں تفصیلی وضاحت کرنے کا بھی بہت بہت شکریہ۔ بدگمانی آپ کی وجہ سے شروع ہوئی اور آپ نے ہی ختم کرنی تھی، اس لیے کردی۔۔۔اگر وضاحت نہ کرتے تو ہماری بدگمانی اسی طرح ہی بدگمان بن کر باقی رہتی۔۔ یہ توشکر ہے کہ آپ نے وضاحت کردی۔
تو پھر پیش کردیجئے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔
پیش کردی ہے ایسی روایت جس کا آپ انکار کربھی نہیں سکتے تھے، آپ کیا آپ کی پوری پارٹی بھی انکار کرنے کا سوچ نہیں سکتی۔ ہاں قیل وقال اور حیل میل کے سہارے لے کر انکار کیا جاتا رہا ہے اور کیا بھی جارہا ہے۔
دیکھ لیجئے کہ کہاں آپ نے گنتی دکھانے کی بات کی تھی
میں نے کہیں بھی گنتی دکھانے کی بعد نہیں کی، اورنہ گنتی پر گفتگو کرنا میرا موضوع ہے، کیونکہ اگر شرعی اوامر کو اسی طرح گنتی کے ساتھ ملا لیں تو پھر بات بہت دور چلی جائے گی۔ اور تو اور پھر یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ نماز کے شروع میں کتنی بار رفع کرنی ہے؟ ایک بار؟ دو بار؟ تین بار؟ یا اٹھائیس بار ؟ کیونکہ یہ حکم تو ہے کہ نماز شروع کرتے ہوئے رفع کرنی ہے لیکن یہ کہاں سے ثابت ہے یا کہاں حکم ہے کہ کتنی بار کرنی ہے؟ اگر ثابت ہے تو پیش کریں صریح دلیل؟ جس میں ذکر ہو کہ نماز شروع کرتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔۔یاد رہے تعداد کا ذکر ہو۔ اس لیے محترم گزارش یہ ہے کہ آپ میری طرف سے پوچھی گئی باتوں کو دوبارہ سے پڑھیں اور پھر پوچھی گئی باتوں پر لب کشائی کریں، عبارت کچھ ہوتی ہے اور جناب کی طرف سے لکھا کچھ گیا ہوتا ہے۔۔ وہ تمام باتیں دوبارہ پیش ہیں۔
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
سہج صاحب: آپ نے کہا کہ آپ نے چار رفع یدین دکھائی ہیں۔حالانکہ اس حدیث میں کہاں گنتی کے ساتھ میں نے چار رفع دکھائی ہیں ؟ ذرا وضاحت کرنا پیش فرمائیں گے ؟ میں نے تو چار مقام واضح کیے ہیں۔
1۔ نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کرنا
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئےر فع الیدین کرنا
4۔ دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے رفع الیدین کرنا
توجہ کیجیے اور بتائیے کہ میں نے چار رفعوں کو ثابت کیا ہے یا چار مقاموں کو ؟ کیونکہ آپ چکر دینے کے ساتھ خود بھی چکر میں پھنسے جارہے ہیں۔ اس لیے متضاد باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ آپ صحیح حدیث کو تسلیم کرلیں۔ جو واضح، صریح اور صحیح ہے۔
کچھ سمجھ آیا کہ نہیں ؟ یہاں گنتی ہے یا مقامات کی نشاندھی ؟۔۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ یہاں مقامات کی نشاندھی نہیں بلکہ گنتی ہی ہے تو پھر ذرا مجھے اس بات کی تفصیل بھی بتاتے جاؤ کہ اگر وضوء بارے یوں حکم ہوتا کہ ہاتھ دھونے ہیں،پھر کلی کرنی ہے، پھر ناک میں پانی ڈالنا ہے، پھر منہ دھونا ہے، پھر بازو دھونے ہیں، پھر مسح کرنا ہے،پھر پاؤں دھونے ہیں۔۔ تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ ہاتھ کتنی بار دھونے ہیں؟ کلی کتنی بار کرنی ہے؟ ناک میں پانی کتنی بار ڈالنا ہے؟ چہرہ کتنی بار دھونا ہے؟ بازو کتنی بار دھونے ہیں؟ الخ۔۔۔ محترم جناب یہاں سے ایک بات سمجھ لیجیے کہ جہاں شریعت گنتی بتانے کو ضروری سمجھتی ہے تو وہاں بتا بھی دیتی ہے، جیسا کہ آپ وضوء کے طریقہ پر غور کرلیں۔ لیکن جہاں صرف مقامات ہی بتانے ہوتے ہیں وہاں گنتی نہیں بتائی جاتی۔۔اگر کنتی پر آتے ہیں تو پھر پانچوں نمازوں کا اثبات بھی آپ کےلیے مشکل ہوجائے گا۔۔حضور سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ۔۔۔امید ہے اب بچوں کی طرح باتیں نہیں کیا کروگے ۔۔ ان شاءاللہ
آپ کا یہ فرمان شاہد ہے "" میں نے الحمد للہ حدیث سے وہ تمام مقامات پیش کردیئے ہیں۔ جن پر رفع کرتے ہوئے اگر گنتی کی جائے تو آپ کے مطالبہ کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے۔"" آپ کی غلط بیانی کا ثبوت
اس کو نام دیا جاتا ہے دھوکہ دینا اور ساتھ حد درجے کی ہٹ دھرمی۔۔۔میرے ان الفاظ پر دوبارہ غور کریں۔شاید کہ سمجھ والا مادہ کام کرنا شروع کردے۔
’’ میں نے الحمد للہ حدیث سے وہ تمام مقامات پیش کردیئے ہیں۔ جن پر رفع کرتے ہوئے اگرگنتی کی جائے تو آپ کے مطالبہ کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے۔‘‘
اگر اس لائن کو پڑھنے کے بعد سمجھ شریف کام شروع نہ کرے تو پھر اس سے پچھلی لائن پڑھ لینا
’’ اور پھر میں نے مقام والی بات پہلی کئی پوسٹ میں کی کہ سہج صاحب جب مقام واضح ہوجائیں گے کہ ان ان مقامات پر رفع کرنا سنت ہے تو پھر گنتی کرنا کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا۔‘‘
امید کافی ہے کہ اتنی وضاحت پر سوچ کام کرنا شروع کردے گی۔ ان شاءاللہ ۔۔۔جب سوچ کام کرنا شروع کردے تو پھر یہ غلط بیانی کے الفاظ کا رخ ذرا اپنی طرف موڑ کر دیکھ لینا بہت سجیں گے۔۔
اور واضح، صریح اور صحیح دلیل کے بارے میں اوپر آپ سے سوال کیا ہے اس کا جواب بھی "دلیل" کے ساتھ عنایت کردیجئے ۔
اس پر تفصیل سے میں نے بھی کچھ لکھ دیا ہے۔ امید ہے غور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاءاللہ
رہی بات روایت کو تسلیم کرنے کی تو میں نے اس کا انکار ہی کب کیا ہے جناب ؟ ہاں زمانے کا فرق آپ کو بتایا ہے ۔ اسے آپ سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں ۔
جناب انکار کب کیا ہے کجا انکار کر بھی نہیں سکتے تھے۔۔آپ اپنی سمجھ شریف سے زمانے کا فرق بیچ میں مت لائیں۔۔ مجھے اس پر دلیل مطلوب ہے۔۔اور دلیل بھی کعبہ کی مثال جیسی جو آپ نے خود دی تھی۔۔اور مزید ناسخ و منسوخ کےلیے رب کائنات کا کلیہ کیا ہوتا ہے؟ اور پھر علمائے موحدین نے ناسخ منسوخ کی کیا کیا شرائط لگائی ہیں۔۔ وہ بھی ازبر کرلینا۔
حضرت مجاھد رحمۃ اللہ کا عمل کیا تھا ؟ یہ آپ کی دلیل بن سکتا ہے تو آپ ہی ضرور ضرور ضرور پیش کیجئے۔
مولانا پہلی بات آپ نے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کا کی طرف منسوب اثر پیش کیا ہے، اس میں ایک راوی مجاہد بھی ہیں۔ اور اس بارے ماقبل بھی پوچھ چکا ہوں کہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا اپنا عمل مختلف فیہ رفع پر کیا تھا۔؟ جس کا جواب آپ نے ابھی تک نہیں دیا اور نہ دے سکتے ہیں۔۔ کیونکہ اگر آپ نے جواب دے دیا تو پھر آپ کا پول سب کے سامنے آجائے گا۔ اس لیے ادھر ادھر کی باتوں سے ہی جان چھڑانے کے چکر میں ہیں لیکن گڈمسلم آپ کو جان نہیں چھڑانے دے گا۔ ان شاءاللہ
لیکن پہلے اعلان کیجئے گا کہ آپ امتیوں کے عمل کو بھی اپنی "دلیل" مانتے ہو اور اس "دلیل کا نام " بھی بتادیجئے گا ۔
جناب ہم امتیوں کے اقوال وافعال کو دلیل نہیں مانتے۔ ہم تو صرف اور صرف اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے اقوالات وفرامین کو دلیل کہتے، مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔۔ یہ مبارک عمل آپ لوگوں کے کھاتے میں آیا ہے کہ مولانا صاحب جو مرضی کہتے اینڈ کرتے پھریں، آپ لوگ چوں چراں نہیں کرسکتے۔۔ کیونکہ اعتبار جو ہوتا ہے ناں۔۔شرعی معاملات میں ہم قرآن وحدیث سے دلیل کے قائل ہیں۔
اور آپ نے کہا کہ آپ میری پیش کردہ روایات کا انکار کرتے ہیں انہیں درست نہیں مانتے۔ تو گڈ مسلم صاحب آپ نے مزکورہ روایات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان پر اعتراض کرنا ہے اور اسے اپنی دلیلوں سے ہی ثابت بھی کرنا ہے کیونکہ آپ ناہی نبی ہو اور ناہی خدا ۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ؟ اور اس فرمان پر دلیل پیش کردیجئے
1۔ جب تک آپ اپنی روایات کی تحقیق پیش نہیں کریں گے۔ تب تک میں کیسے تسلیم کرسکتا ہوں۔ کیونکہ اگر آپ کی روایات کو تسلیم کروں تو صحیح، صریح روایات کا انکار آتا ہے۔۔اس لیے آپ سے تب ہی کہا تھا جب آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر پیش کیا تھا کہ اس کی سند پیش فرمادیں لیکن آپ نے ابھی تک سند پیش کرنے کی جرات نہیں کی۔ اور نہ میرے اس سوال کا جواب دیا کہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا عمل کیا تھا ؟۔۔انکار کرنے کی وجہ
2۔ میری پیش کردہ روایت میں اور کی پیش کردہ روایت دونوں متضاد ہیں۔۔نشاندھی۔۔۔اب آپ کو اس بات پر بھی اللہ کا فرمان یا نبی کریمﷺ کا فرمان پیش کروں کہ یہ دونوں روایات آپس میں متضاد ہیں۔۔شرم مگر تم کو آتی نہیں۔
منکر پر قسم اور مدعی پر دلیل ہوا کرتی ہے باحوالہ ۔
کیا یہ فقہاء کا اصول نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر آپ بھی تسلیم کرتے ہیں اس لیے جب دونوں تسلیم کرتے ہیں تو دلیل کی ضرورت ہی نہیں لیکن اگر آپ انکار کرتے ہیں تو پھر پہلے ثابت کریں کہ یہ اصول قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔۔ کیونکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہ اصول قرآن وحدیث کے خلاف نہیں ہے۔۔ جب آپ یہ ثابت کردیں گے کہ یہ اصول قرآن وحدیث کے خلاف ہے پھر ان شاءاللہ باحوالہ میں بھی ثابت کردونگا کہ یہ اصول قرآن وحدیث کے موافق ہے۔۔
تاکہ پھر آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے کہ آپ نماز کے اندر کی رفع یدین کرنے کی وجہ سے مدعی بنے اور میں اس کا انکار کرنے کی وجہ سے منکر ہوا کہ نہیں ؟
ناں جناب ناں۔۔ آپ کا دعویٰ منسوخیت کا ہے۔ اور آپ یہ دعویٰ کرکے اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں رفع الیدین پہلے منسوخ نہیں تھا۔ یعنی اس پر عمل کیا جاتا تھا۔ یہاں تک میں آپ کے ساتھ ہوں۔ لیکن جب آپ نے منسوخیت کا دعویٰ شروع کیا تو پھر حضور توجہ کیجیے اصل مدعی کون ہے؟۔۔اور اصل منکر کون ہے؟ آپ منسوخ کہتے ہیں اور میں منسوخ کا انکاری ہوں۔۔۔ تو جناب اب آپ بتائیں گے کہ دلیل کس پر ہے اور قسم کس پر ہے۔۔؟۔۔یہاں تک تو بات امید ہے سمجھ آگئی ہوگی۔۔اب آتا ہوں کہ میں نے اس اصول کی طرف رہنمائی کیوں کی۔
جناب آپ نے ابن عمررضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر پیش کیا۔ میں نے کہا میں نہیں مانتا۔لیکن آپ تسلیم کررہے ہیں۔تو جناب یہاں پر مدعی کون ہے اور منکر کون ہے؟۔۔ باتوں کو گھمانا پھرانا اور گھر سے بے گھر کرنے کا فن ٹھیک ہے آپ بے کامل رکھتے ہیں لیکن یاد رکھو سامنے بھی گڈمسلم ہے۔۔بھاگنے یا ادھر ادھر جانے کی کوشش نہیں کرنے دے گا۔ ان شاءاللہ
یہ عجیب اصول ہے آپ کا وہ بھی بے دلیل کہ جہاں جی چاہا وہاں مدعی بن گئے اور جہاں جی چاہا وہاں منکر ۔
یہ اصول عجیب ہے یا غریب ۔۔ آپ کے اس عجیب کہنے کو رد کردیا ہے۔۔ اس لیے آپ اس اصول بیچارے پر ظلم نہ ڈھائیں۔۔ اور اگر اس اصول کو مانتے ہیں تو اس اصول پر عمل کرتے ہوئے دلائل پیش کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ میری نہیں۔۔شاباش کوئی صریح صحیح دلیل اپنے مؤقف پر پیش فرمائیں۔۔۔منسوخیت کی دلیل پیش کرنے سے پہلے اگر حوصلہ ہو تو پھر نیل الفرقدین از مولانا انور شاہ حنفی، التعلیق الممجد از مولانا عبدالحئی اور ایضاح الادلہ از مولانا محمود الحسن کا بھی مطالعہ کرلینا شاید معلوم ہوجائے کہ آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ اور یہ آپ کے علماء کیا کہتے ہیں۔ اور پھر آپ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں اعتبار ہوتا ہے اس لیے دلیل طلب نہیں کرتے۔
گڈ مسلم صاحب دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی والی آپ نے ابھی تک کوئی دلیل صریح پیش نہیں کی اور ناہی گنتی پوری کی ہے،
جناب غیر تعصبی آنکھوں سے دیکھیں اور غیر متعصب دل ودماغ سے سوچیں اور الفت نبیﷺ کو اجاگر کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ گڈمسلم نے روایت پیش کی ہے یا نہیں؟ جناب میں نے جو روایت پیش کی اس میں چار ان مقامات کا ذکر ہے جن پر ہم رفع یدین کرتے ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ نے چار رفعوں کو ثابت کردیا ہے۔ باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت کیا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے بقول آپ کے اگر چار رفعیں دلیل سے ثابت کردیں اور چھ قیاس سے تو یہاں پر جو قیاس کیا اس کا قیاس کا میں انکاری نہیں۔اور قیاس کو آپ بھی مانتے ہیں۔ اس لیے اگر گنتی مطلوب ہے تو پھر تسلیم کرلیں۔لیکن آپ جناب ہٹ دھرمی کا خوب مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک دس کا اثبات، اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ کے الفاظ دھرائے جارہے ہو۔۔ کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ جناب اس روایت میں چار رفعوں کا نہیں چار مقامات کا تذکر ہے۔۔جب آپ کی ہٹ دھری بڑھی تو آپ سے پوچھا کہ چار رکعات میں کتنی بار رکوع میں جانا ہوتا ہے اور کتنی بار اٹھنا ہوتا ہے۔۔ آپ نے اس بات کو بھی تسلیم کرلیا کہ چار بار رکوع میں جانا ہوتا ہے اور چار بار رکوع سے اٹھنا ہوتا ہے۔۔یعنی خود تسلیم کرلیا کہ چار رکعات میں دس رفعیں کی جاتی ہیں۔۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ نہ میں نے یہ کہا کہ ہم چار رکعات پر بات کریں گے اور نہ میں نے یہ کہا کہ ہم رفعوں کی گنتی پر بات کریں گے۔۔ ہماری بات منسوخ اور عدم منسوخ پر ہے۔۔ آپ کے پاس منسوخیت پر دلیل نہیں اس لیے آپ ساتھ ان الفاظ کا بھی سہارا لے کر چلے آرہے ہیں۔۔ جناب گنتی کی بات آپ کےلیے بہت مشکلیں کھڑی کردے گی۔۔اور تو اور آپ پانچوں نمازیں بھی ثابت نہیں کرسکو گے۔۔ اس لیے پہلے بھی کہا اب بھی کہتا ہوں کہ جہاں گتنی کا بیان شریعت ضروری سمجھتی ہے وہاں گنتی بیان ہوجاتی ہے اور جہاں مقام بتانا مقصود ہوتا ہے وہاں صرف مقام ہی بتایا جاتا ہے۔۔فتدبر
رہی بات ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی جو آپ نے پیش کی ہے ، تو بھئی میں نے اس کا انکار تو شروع سے ابھی تک کیا ہی نہیں۔ ہاں اگر" زمانے " کے فرق کو آپ نہیں مانتے تو کوئی صریح دلیل پیش فرمادیجئے ۔
قولاً تو انکار نہیں کیا لیکن عملاً بغیر دلیل کے انکار کیے جارہے ہو جناب۔۔ آپ زمانے مزانے کے فرق کو ثابت تو کریں۔۔یا پھر آپ جتنے دلائل تسلیم کرتے ہیں کہیں سے اس بات کی دلیل پیش کردیں کہ زمانہ بھی ناسخ ہوا کرتا ہے۔؟
ماشاء اللہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی دلیل مانگی تو فرمادیا " بلا تبصرہ "؟ صاف صاف کہہ دیتے بھئی کہ امتی کا قول ہے ۔
ایک بار پھر بلاتبصرہ۔۔۔ لیکن دو تھریڈ کے لنک شامل کررہا ہوں۔
1۔ کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے؟
2۔ صحیح‌ بخاری کی احادیث کی صحت

جاری ہے
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
مسٹر گڈ مسلم اس تھریڈ پر سترہ جنوری دوھزار تیرہ سے مسلسل جاری ہے کا ورد جاری کئے ہوئے ہیں آج بروز ھفتہ ،آٹھ جون دوھزار تیرہ تک ، مسٹر گڈ مسلم میری پوسٹ نمبر چالیس کے درمیان تک ہی پہنچے ہیں اور مزید کا جواب دینے یعنی پوسٹ نمبر چالیس آدھی اور اکتالیس نمبر پوسٹ مکمل ، اس کا جواب شاید مسٹر گڈ مسلم نے آئیندہ سال کے لئے جمع کر لیا ہے تو پھر ایسا کرتے ہیں اور میں مسٹر گڈ مسلم کی اب تک کی پوسٹ کی گئی آخری پوسٹ جس کا نمبر انسٹھ ہے جسے مسٹر گڈ مسلم نے آٹھ مارچ دوھزار تیرہ کو پوسٹ کیا تھا، تک کے جواب پیش کردیتا ہوں ۔
اور مسٹر گڈ مسلم اب آپ کو اجازت ہے آپ بے شک اگلے سال تک جواب لکھتے ،پوسٹ کرتے اور جاری ہے کا لیبل لگاتے جاؤ۔ ٹھیک؟

اور اک گزارش عرض کی ہے مسٹر گڈ مسلم سے کہ آپ اب میری پوسٹیں مکمل ہونے تک اپنی پوسٹوں کو اپنے کمپیوٹر تک ہی محفوظ رکھئیے گا ، کیونکہ آپ کو میں نے پورا پورا موقع دیا اور ایک عرصہ تک انتظار کیا ، لیکن آپ نے اپنی ادھوری پوسٹوں کو مکمل بھی نہیں کیا اور ناہی الحمدللہ اب تک آپ اپنے عمل یعنی دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی رفع الیدین کے باب میں ، کو ناہی کسی حدیث سے دکھاسکے ہیں اور ناہی قرآن سے۔ بلکہ مسٹر گڈ مسلم قیاس فرماتے ہیں یعنی دوجمع دوچار۔
آخری بات

انشاء اللہ میں چند دنوں کے اندر اندر گڈ مسلم صاحب کو انکی اب تک کی گئی تمام پوسٹوں کا جواب پیش کر دوں گا یعنی پوسٹ نمبر 59 تک۔

نوٹ:- چونکہ فورم کو نئے انداز پر منتقل کئے جانے سے پہلے سے ہی میں گڈ مسلم کی پوسٹوں کا جواب ترتیب دے چکا تھا اور اب فورم کا انداز وکھرا وکھرا ہوچکا تو ہوسکتا ہے آپ کو کہیں کہیں بلکہ اکثر جگہوں پر کوڈنگ کے الفاظ الگ سے لکھے نظر آئیں اور خصوصی طور پر "اقتباسات" جو کہ مسٹر گڈ مسلم کے پوسٹوں کے ہیں ، ان میں کچھ عجیب عجیب سا نظر آئے ۔اسلئے اس بارے میں معزرت چاھتا ہوں کہ میں اب ان اقتباسات کو دوبارہ سے ترتیب دینے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ میرے پاس مسٹر گڈ مسلم جیتنا وقت نہیں کہ میں ایک پوسٹ کو پوسٹ کرنے میں مہینوں صرف کروں ۔
شکریہ
 
Top