قارئین کرام سہج صاحب کی پوسٹ نمبر33 میری پوسٹ نمبر28 کا جواب ہے۔اس پوسٹ کے کچھ حصے کا جواب پوسٹ نمبر54 میں پیش کیا تھا۔ کچھ مصروفیات کی وجہ سے باقی حصے کا جواب اب پوسٹ کیا جارہا ہے۔
دیکھئیے گڈ مسلم صاحب ہم چھوڑتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کی دلیل آپ کو دکھا چکا ہوں، یعنی چار رکعت شروع نماز کی کرتے ہیں اور جو رفع یدین نماز میں ہے اسے نہیں کرتے ، یعنی رکوع ،سجود وغیرہ
محترم المقام مانتا ہوں آپ دلیل دکھا چکے ہیں۔ جناب دلیل دکھانے کی غرض سے پیش نہیں کرنی اور نہ ہی آپ کی ایسی دلیل قابل تسلیم ہوگی جو صرف دکھانے کی حد تک ہوگی۔ جناب یہ شرعی مسئلہ ہے، اور یہاں دلائل دکھائے نہیں جاتے بلکہ ایسے دلائل پیش کیے جاتے ہیں جو صحیح بھی ہوں۔ جو آپ نے دلیل دکھائی یعنی پیش کی تھی اس وقت جب میں نے بخاری سے ان مقامات پر رفع الیدین کرنے کی صریح حدیث پیش کی تھی جن مقامات پہ ہم رفع الیدین کرتے ہیں اور دلیل بھی ایسی تھی کہ آپ کو اقرار کرنا پڑا کہ میں اس دلیل کو مانتا ہوں ( مان کر عمل سے کیوں انکاری ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے حدیث دشمنی آڑے ہے یا تقلید کا پھندا یہ میں نہیں جانتا ) تو آپ نے اس کے جواب میں جو دلیل پیش فرمائی اس کا مقام کیا تھا وہ
پوسٹ نمبر46 میں بیان کیا جاچکا ہے۔ اگر تکلیف برداشت ہوسکے تو اس پوسٹ کی طرف رجوع کرلیں۔ مطالعہ کے بعد اگر کوئی علمی اعتراض ہو تو پیش کیجیے گا۔ بازاری اعتراضات کے جواب دینے کا وقت نہیں ہے میرے پاس۔
دیکھئیے اور سمجھئیے
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
یہاں جس رفع یدین کو منع کیا گیا ہے وہ نماز کے اندر والی ہے اور آپ جو رفع یدین کرتے ہیں وہ نماز کے اندر ہی ہے ۔ ہے ناں ؟
حضور سہج صاحب آپ نے فرمایا ہوا ہے کہ آپ رفع الیدین کو منسوخ مانتے ہیں۔ ( حالانکہ آپ نے تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا اختصاص نہیں کیا۔ چلیں آپ کی غلطی ہی تسلیم کی جاتی ہے۔ ورنہ آپ کو اپنے الفاظ میں وضاحت کرنا چاہیے تھی جب آپ رفع الیدین کو منسوخ کہنے جارہے تھے۔ کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے علاوہ باقی رفعوں کو منسوخ مانتا ہوں) اور اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کےلیے ایک ایسی حدیث بھی پیش فرمادی جس کا اختلافی رفع سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ آپ کی پیش کردہ حدیث آپ کے مؤقف پر دلیل بن سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا مفصل جواب
پوسٹ نمبر47 میں دیا جا چکا ہے۔ برائے مہربانی وہاں کا چکر لگائیں۔ شکریہ ۔۔۔ چکر لگانے کے بعد آپ کو سمجھ آجائے گا کہ میں نے جو دلیل پیش کی ہے اس سے میرا مدعا ثابت بھی ہوتا ہے کہ نہیں ؟؟ اس لیے میں کہنا چاہونگا کہ آپ نے ابھی تک اپنے مؤقف پر کوئی صحیح، صریح دلیل پیش ہی نہیں کی۔۔ برائے مہربانی اپنے مؤقف پر کوئی ایک صحیح، صریح حدیث پیش کرکے ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں۔ ورنہ میری پیش کردہ حدیث کے مطابق عمل شروع کردیں کیونکہ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ میں اس حدیث کا انکاری نہیں۔۔۔
اس روایت سے نماز کو شروع کرتے وقت کی نفی ہے ہی نہیں۔
یہ حدیث آپ کے مؤقف کی دلیل ہے ہی نہیں۔
اور آپ کی پیش کردہ روایت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ دیکھئیے
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
میری پیش کردہ حدیث سے کیا بات ثابت ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل سے وضاحت پہلے بھی پیش فرما چکا ہوں، مختصر دوبارہ بھی عرض ہے کہ
1۔ نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کرنا سنت رسولﷺ ہے
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا سنت رسولﷺ ہے
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنا سنت رسولﷺ ہے
4۔ دو رکعت پڑھنے کے بعد جب تیسری رکعت کا آغاز کرنا ہے تو اس وقت رفع الیدین کرنا بھی سنت رسولﷺ ہے۔
اور ہم اہل حدیث الحمدللہ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں اور ان شاءاللہ قیامت تک کرتے رہیں گے۔ اور فرق باطلہ کے اعتراضات کے جوابات بھی منہ توڑ دیتے رہیں گے۔۔ان شاءاللہ
دوسری بات مولانا چالاک بننے کی تو بہت کوشش کرتے ہیں لیکن چالاک بننا نہیں جانتے یا جس سے پڑھ کر آتے ہیں اس کے بتائے ہوئے تمام ڈھنگ یاد ہی نہیں رکھ پاتے۔ آپ نے
’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ والی حدیث پیش کرکے اپنے تائیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم نماز کی اندر والی رفع الیدین نہیں کرتے۔ اور دلیل پکڑی
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ سے۔ اور پھر اپنی تائید حاصل کرنے کےلیے میری پیش کردہ حدیث کو بھی بغیر سوچے سمجھے ذکر کردیا ۔۔اور فرمان جاری کردیا کہ
’’ آپ کی پیش کردہ روایت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ‘‘ واہ جناب واہ
سہج صاحب آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں اور میں نے جو حدیث پیش کی اس میں بھی
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کی الفاظ ہیں۔۔ دیکھیئے اپنی حدیث
’’ اسکنوا فی الصلوٰة ‘‘ اور دیکھیئے میری حدیث
’’ كان إذا دخل في الصلاة ‘‘ جب اپنی حدیث کا ترجمہ پیش کیا تو ان الفاظ کا ترجمہ کیا ’’ تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔‘‘ اور جب میری حدیث کا ترجمہ پیش کیا تو ہیڈنگ ٹو لگا کر یوں پیش کیا
(میں نے کیا ترجمہ کیا تھا وہ میری سردردی تھی۔پر آپ کو کیا ترجمہ پیش کرنا چاہیے تھا وہ آپ اپنی پیش کردہ حدیث سے موازنہ کرتے ہوئے اس بات کا خصوصی خیال کرتے) ’’ جب نماز کا آغاز فرماتے ‘‘ محترم جناب جب آپ نے اپنے الفاظ
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کا ترجمہ نماز میں کیا ہے تو پھر میرے الفاظ
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کا ترجمہ نماز کا آغاز کرتے کیوں کیا ہے ؟
( میں نے کیا ترجمہ کیا ہوا ہے اس بات کو رگڑنے مت بیٹھ جانا جو آپ سے پوچھا ہے اس کا جواب دینا شکریہ ) یہ تو ہوئی ترجمہ کی بات۔۔
اور پھر جناب اگر آپ اپنی حدیث سے تکبیر اولیٰ والی رفع الیدین کے علاوہ باقی رفعوں کو منسوخ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں تو پھر آپ کو میری حدیث سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ تکبیر اولیٰ والی رفع الیدین بھی نماز میں کی جاتی ہے۔ کیونکہ دونوں احادیث میں
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اگر آپ اپنی حدیث سے تکبیر اولیٰ والی رفع کو خارج کررہے ہیں اور باقی رفعوں کی منسوخیت پر ایز اے دلیل پیش کررہے ہیں تو پھر میری پیش کردہ حدیث سے بھی تکبیر اولیٰ والی رفع کو خارج تسلیم کرنا ہوگا۔اور آپ کو کہنا ہوگا کہ گڈمسلم صاحب آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں تکبیر اولیٰ والی رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے جب آپ تسلیم کرلیں گے کہ گڈمسلم صاحب آپ کی حدیث سے بھی میں تکبیر اولیٰ والی رفع کو خارج مانتا ہوں۔ تو پھر ان شاءاللہ مزید باتیں ہونگی۔۔ فی الحال اس پر آپ کا جواب مطلوب ہے۔۔
حاصل یہ کہ نماز میں داخل ہونے کے لئے تکبیر اور رفع یدین کرتے ہیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین منع کردی گئیں کیوں کہ وہ فی الصلاۃ ہیں اور "سکون " کے خلاف ہیں۔(یاد رہے آپ اور ہم چار رکعت نماز کے بارے میں بات کر رہے ہیں )
بہت خوب دوھرا معیار۔۔ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ
نماز میں داخل ہونے کےلیے تکبیر اور رفع یدین کرتے ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ
نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین منع کردی گئی ہیں۔۔ حالانکہ دونوں میں الفاظ
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے ہیں۔ ترجمہ میں فرق کس بناء پہ کررہے ہیں مولانا ؟ آپ کی ہی باتیں اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ کی بھی پیش کردہ دلیل بھی آپ کے مؤقف کے خلاف ہے۔۔ اور اس کی تفصیلی وضاحت
پوسٹ نمبر47 میں پیش بھی کی جاچکی ہے۔
پہلے آپ اعلان تو کریں گڈ مسلم صاحب حنفی مقلد ہونے کا پھر میں آپ کو بتادوں گا کہ میں بلکہ آپ کو خود بخود دلیلیں سمجھ آجائیں گی ۔
بات کو گھمانے کی کوشش بہت کرتے ہیں مولانا سہج صاحب آپ۔ لیکن گھما سکتے نہیں۔ اس لیے ناکام ہی رہ جاتے ہیں۔ جناب میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ جو بلا دلیل کہہ دیں گے میں مان لونگا بلکہ میں نے
’’ بادلیل ‘‘ کے الفاظ بھی بولے تھے۔ اور جناب کو تقلید کی تعریف بھی شاید یاد ہوگی کہ ’’ تقلید بلادلیل بات مان لینے کو کہتے ہیں۔‘‘ اس لیے جناب میری بولے گئے الفاظ
’’فما کان جوابکم فہو جوابنا ‘‘ پر آپ کا مجھے حنفی مقلد ہونے کی نصحیت کرنا ناسمجھی پر دلالت کرتا ہے۔ گزارش ہے ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور آپ ہمیں بادلیل بتائیں کہ آپ جو رفع کرتے ہیں
وہ سنت ہے؟ یا حدیث ہے؟ یا فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟ یا عصر کی سنتوں کی طرح ہے۔ جو جواب آپ کا وہی جواب میرا۔ جناب جواب دینے میں ذرا جلدی کیجیے۔اور مجھے اپنے ساتھ ملا لیجیے۔ لیکن جناب جواب دلیل صحیح کے ساتھ تسلیم ہوگا۔ اغیرہ وغیرہ کے قول پر نہیں۔۔ اس بات کا دھیان کرلینا۔
آپ کے اس فرمان عالیشان
’’ خود بخود دلیلیں سمجھ آجائیں گی۔‘‘ نے حیرانگی کی انتہاء میں ڈالنے کے ساتھ ششدر کرکے رکھ دیا ہے۔ کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہم دلائل کو سمجھ ہی نہیں سکتے اس لیے کسی مجتہد کی تقلید واجب ہے۔ اور دوسری طرف آپ جیسے کچھ کرم نوا ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مقلد بن جاؤ دلائل خود بخود سمجھ آجائیں گے۔۔ بھائیوں مقلد بننے کے بعد آپ لوگ ایسی کیا چیز پلاتے ہیں؟ جس کی وجہ سے دلائل خودبخود سمجھ آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم پر ترس کرکے وہ چیز ہمیں بھی دینے کی نیکی کریں گے؟ ( اگر مہنگی ہے تو ہم اس کی قیمت بھی دینے کو تیار ہیں۔) تاکہ غیر مقلد ہوتے ہوئے بھی ہمیں دلائل خودبخود سمجھ آجائیں اور ہم اسی طرح زندگی گزارنا شروع کردیں جس طرح نبی کریمﷺ نے بتائی اور صحابہ نے عملی نمونہ پیش کرکے دکھایا۔۔اگر وہ چیز جس سے دلائل خود بخود سمجھ آجاتے ہیں پینے کے بعد مقلد ہونا ضروری ہوا تو مقلد بھی ہوجائیں گے۔ (کیونکہ مقصود مقلد یا غیر مقلد ہونا نہیں بلکہ زندگی کا مقصد اسوۂ رسولﷺ کے مطابق چلنا ہے) لیکن پہلے ذرا اس چیز کا تعارف اور ایز اے ٹرائیل ہمیں دی تو جائے ناں۔( جس طرح سوفٹ وغیرہ کے ٹرائیل ورژن دیئے جاتے ہیں۔) کیا خیال ہے مولانا سہج صاحب پھر کب مجھے ٹی سی ایس کروا رہےہیں ؟
لیکن اگر آپ غیر مقلد رہتے ہوئے چاھتے ہیں کہ آپ ایک مقلد کی دلیل کو اپنا بنالیں تو یہ ممکن نہیں
جناب کی خدمت میں ایک گزارش کرتا چلوں کہ گڈمسلم صاحب شخصیات کو نہیں دلائل کو دیکھتا ہے۔ اور آپ کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ شرعی معاملات میں دلائل کو دیکھا کریں شخصیات کو مت دیکھا کریں۔اسی میں ہی بھلائی ہے۔اور آپ سے بھی جو مطالبہ کیا تھا وہ بھی دلیل کے ساتھ تھا۔۔ اس لیے جب آپ دلیل کے ساتھ میرے مطالبے کو پورا کردیں گے۔ تو گڈمسلم صاحب دلائل کو دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی آپ کے مؤقف کو تسلیم کرے گا۔۔ اور پھر کہے گا کہ ٹھیک ہے میرا بھی یہی جواب ہے لیکن دلیل کے بغیر آپ کہہ دیں اور پھر یہ خیال کرلیں کہ گڈمسلم صاحب بھی میرے اس مؤقف کو تسلیم کرلیں یہ ممکن نہیں۔۔ناممکن ہے۔
کیونکہ پھر آپ اپنے آپ کو مشرک مانیں گے اور جب بندہ خود اپنے شرک پر آگاہ ہوجائے اور اس پر قائم رہے تو بہت سخت برا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے ؟
جناب مولانا سہج صاحب بعد کی باتیں بعد میں ۔۔ پہلے کی باتیں پہلے۔۔ اس لیے پہلے ثابت کریں۔۔ بعد کےمراحل تک ہاتھ کو باندھ کر رکھیں۔۔شکریہ
اسلئیے آپ یا تو حنفی ہونے کا اعلان کیجئے یا پھر دلیل پیش کردیجئے اپنے دعوے کے مطابق یعنی اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے عین مطابق ۔
جناب آپ ثابت تو کریں ناں۔۔ یہ کیا بات ہے کہ ثابت کرتے نہیں اور مجھے مشورے دیتے جارہے ہو کہ آپ مقلد ہوجائیں حنفی ہونے کا اعلان کردیں۔ دلائل خود بخود سمجھ آجائیں گے۔۔ دن رات اور رات دن ہوجائے گی۔ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔۔ اللہ کے ولی پہلے ثابت تو کرو۔۔ لیکن ثابت کرتےہوئے میری اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ
’’ دلیل کے ساتھ ‘‘ اور پھر میں آپ ک بتاؤں گا کہ دلیل کے ساتھ جو بات مانی جائے اس بارے حنفی علماء کیا کہتے ہیں؟ کیا اس کو بھی تقلید کانام دیتے ہیں ؟ اس لیے واویلا اور ادھر ادھر کی باتوں سے بہتر ہے کہ سارا فوکس اس بات کو ثابت کرنے پر لگائیں کہ آپ جو رفع کرتے ہیں
وہ سنت ہے؟ یا حدیث ہے؟ یا فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟ یا عصر کی سنتوں کی طرح ہے۔ بادلیل ثابت کرنا ہے۔
آپ میری بات کو بھی پھر سے دیکھ لیجیے، سمجھ لیجیے اور اگر سمجھ آجائے تو جواب بھی عنایت کردیجیے۔۔ بہت بہت شکریہ ہوگا۔
اوپر کچھ وضاحت کی تھی میں نے ، دوبارہ پیش کردیتا ہوں دیکھ لیجئے۔
میں نے بھی بہت اچھی طرح پہلے بھی وضاحت کی تھی اور اب بھی کردی ہے۔ اس لیے آپ بار بار دیکھ لیجیے۔
شافعی، حنبلی اور مالکیوں سے نہیں صرف حنبلی اور شافعی کہیں ۔ کیوں ؟ اس کی بھی تحقیق کرلیجئے گا ۔ شافعی کی رفع یدین اور حنبلیوں کی بھی اور مالکی جو عمل کرتے ہیں اس پر بھی الحمدللہ اہل سنت والجماعت کی دلیل موجود ہے جیسے احناف کے پاس بھی دلیل موجود ہے ۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ شافعی، حنبلی اور مالکیوں کا رفع الیدین کے بارے کیا مذہب ہے؟ آپ مجھے بس اس بات کا جواب دیں کہ شافعیوں کے پاس جو رفع الیدین کے مسنون ہونے پر دلائل ہیں وہ کیسے ہیں ؟ کہاں سے لائے گئے ہیں ؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیا وہ احادیث کی صورت میں ہیں؟ یا ان کے امام کے اقوالات ہیں؟ اور اگر ہوسکے تو شافعیوں کی دو چار دلیلیں بھی ذکر کردینا تاکہ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ان مسئلہ پر شافعیوں کے پاس وہ کیسے دلائل ہیں؟ جو آپ کو بھی قابل قبول ہیں اور آپ ان کو بھی حق پر سمجھتے ہیں۔۔ شافعی بھی رفع الیدین کرتے ہیں ہم بھی رفع الیدین کرتے ہیں وہ درست اور ہم غلط ۔ذرا سمجھ نہ آنے والی بات ہے۔۔ آخر وہ کیسا رفع الیدین کرتے ہیں؟ یا ان کے پاس رفع الیدین کے کیسے دلائل ہیں؟ ان سے واقفیت ہمیں سہج صاحب کروائیں گے۔۔ اگر ہمت ہوئی ان میں تو۔۔
لمحہ فکریہ غیر مقلدوں یعنی تقلید کے منکرین یعنی تقلید کو شرک اور گمراہی کہنے والوں یعنی فرقہ جماعت اہلحدیث کے افراد کےلئے ہے ۔
ہماری لیے لمحہ فکریہ نہیں اور نہ صحیح دلائل پر چلنے والوں کےلیے لمحہ فکریہ کبھی ہوسکتا ہے۔۔ لمحہ فکریہ تو آپ جیسے تقلید پرستوں کےلیے ہے۔۔ اور مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اس مسئلہ پر کس کس فورم پہ لکھا ہوا ہے اور آپ نے کیا کیا مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔۔ ان شاءاللہ آپ کو دکھاؤں گا کہ آپ کا بھی اس مسئلہ پر ایک موقف نہیں بلکہ کسی جگہ کچھ اور کسی جگہ کچھ۔۔ اس لیے لمحہ فکریہ کے الفاظ کا رخ اپنی طرف ہی پھیر لیں تو مناسب ہوگا۔۔
جو تقلید اختلاف کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہم اس تقلید کو گمراہی کہتے ہیں اور یہ تقلید ارباب من دون اللہ کے مترادف ہے۔۔
کہ گڈ مسلم صاحب محتاج نظر آتے ہیں اہل سنت والجماعت شافعی و حنبلیوں کی دلیل کے ۔حضور آپ اپنی دلیل پیش کریں دس جگہ رفع الیدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ نفی کی ۔
ہم صحیح دلائل کے محتاج ہوتے ہیں جناب۔۔۔ اس بات کے محتاج نہیں کہ دلیل کہاں سے اور کس گروہ سے آرہی ہے۔۔ شافعیوں اور حنبلیوں نے دلائل اپنے گھر سے نہیں بنا لیے۔ جو وہ دلائل اس مسئلہ پر پیش کرتے ہیں اگر صحیح ہیں تو قابل تسلیم لیکن اگر صحیح نہیں تو پھر ان دلائل کو نہیں مانا جائے گا۔۔ چاہے وہ غیر صحیح دلائل اثبات میں ہی کیوں نہ ہوں۔۔ ہم لوگ آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ اپنے مؤقف پر ہر طرح کی دلیل چاہے وہ ضعیف ہو یا موضوع تسلیم ہے لیکن مؤقف کے خلاف صحیح دلیل میں بھی تاویل پیدا کرکے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔۔۔ ہمیں چاہے اثبات پر دلائل دیئے جائیں یا نفی پر ۔۔ شرط ہے کہ دلائل کا صحیح ہونا ضروری ہے۔۔ باقی میں اپنے عمل پر ایسی حدیث پیش کرچکا ہوں جس کے بارے آپ کو اعلان کرنا پڑا کہ میں آپ کی دلیل کا انکاری نہیں۔۔ اور اس دلیل میں ہی آپ کے چورے کیے گئے الفاظ کا عین جواب موجود ہے۔۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ گڈمسلم صاحب یہ الفاظ ’’ دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ‘‘ آپ کے دعویٰ میں ہیں اور آپ کو عین دعویٰ کے مطابق دلیل دینا ہوگی تو جناب کےلیے عرض ہے میں نے اس طرح کے الفاظ نہیں لکھے۔۔بلکہ آپ کی ضدیت کو اچھی طرح توڑا ہے لیکن آپ کی طرف سے ہٹ دھرمی بھی شرما گئی ہے۔۔۔
ہٹ دھرمی شرمائے کیوں ناں ؟ کیونکہ خود تسلیم کرلیا کہ گڈمسلم صاحب آپ نے چار کی تعداد تو حدیث سے دکھائی لیکن باقی چھ کی تعداد آپ نے قیاس سے دکھائی ہے۔۔ آپ قیاس کو نہیں مانتے اس لیے چھ کی تعداد بھی حدیث سے دکھائیں۔۔۔ جوابی طور میں نے جب کہہ دیا کہ پہلی بات یہ قیاس ہے ہی نہیں (اگر قیاس ہے تو ثابت کیجیے ) بلکہ آپ کی طرح اگر گنتی پر آئیں تو چار کی طرح چھ بھی حدیث سے ثابت ہیں لیکن اگر آپ اس پر قیاس قیاس کا ہی نعرہ لگانے سے نہیں رکتے تو پھر سن لو قرآن وحدیث سے مستنبط قیاس کو میں مانتا ہوں۔ اس لیے باقی چھ رفعیں بھی ثابت ہوگئی۔۔ اب بھی نہ ماننے کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس وجہ سے آپ تسلیم کرنے پر راضی نہیں ؟؟؟
اس دعوے پر کوئی دلیل صریح؟ جس میں ہو کہ اختلافی رفع یدین منسوخ نہیں ۔
سچ کہتے ہیں کہ جب جاہل لوگ بھی مسائل دینیہ میں گفت وشنید کرنے لگ پڑیں تو اس طرح کی بو العجبیاں سامنے آیا کرتی ہیں۔۔( جناب جاہل آپ خود اپنے آپ کو کہہ چکے ہیں اس لیے میرے الفاظ پہ غصہ مت کرنا) اب میں آپ کو ایسی صریح دلیل دوں کہ جس میں ہو نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ رفع الیدین پر اختلاف ہوگا یاد رکھو اختلافی رفع الیدین منسوخ نہیں۔۔ اگر میں آپ سے پوچھ لوں کہ آپ اپنے دعویٰ رفع الیدین منسوخ ہے صرف دعویٰ پر صریح دلیل پیش کریں تو کیا خیال ہے جناب کو سانپ تو نہیں سونگھ جائے گا ؟؟ بچے بھی ایسی حرکتیں اور باتیں نہیں کرتے جو آپ کرنا شروع ہوگئے ہیں۔۔ سب خیریت تو ہے ناں ؟؟
اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب آپ دس جگہ رفع یدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کے نفی کی دلیل صریح پیش کردیں ،اب بات ختم کریں اور مبارک وصول کریں ۔
ابتسامہ پر ابستامہ .... ایک طرف کہا جارہا ہے کہ دعویٰ پر دلیل صریح دو اور پھر اسی کی وضاحت میں کہا جارہا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔۔ واہ جی واہ ۔۔۔۔ یہ ہوئی ناں کمال کی بات۔۔۔ جناب بات بھی ختم ہوچکی ہے اور مبارک بھی وصول کر چکا ہوں کیونکہ میں اپنے عمل کے عین مطابق ( اگر آپ کی طرح گنتی پر آئیں تو دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی بھی ثابت ہوتی ہے) ایسی دلیل پیش کرچکا ہوں جس کے بارے میں آپ نے خود کہہ دیا کہ میں انکاری نہیں۔۔ اب نہ ماننے میں کیا مجبوری ہے وہ آپ جانتے ہیں۔۔ اگر بیان کردیں تو ہوسکتا ہے میں یا کوئی اور قاری آپ کی کوئی ہیلپ کرسکیں۔۔ شرمائیے مت۔۔ اللہ سب بھلا کرے۔۔
کوئی مغالطہ اور چکر وکر نہیں صاف اور سیدھا سوال کیا تھا جس کو دلیل کے ساتھ دکھانے میں آپ ناکام ہیں ۔ اور کبھی شافعیوں اور کبھی حنبلیوں کا در جھانکتے ہیں ۔
آپ لوگ مغالطہ وچکرو چکر کو بھی درست عمل کہتے رہتے ہیں۔۔ جناب اگر آپ نے سیدھا سادھا بیچأرہ سوال اپنی طرف سے یا چوری کرکے پیش کیا ہے جو کہ میری طرف سے بیان ہوا ہی نہیں لیکن پھر بھی جواب میں میں نے بھی ایسی دلیل پیش کی ہے جس کو آپ تسلیم کرگئے ہیں۔۔اور ہاں در بدر ہم نہیں جھانکتے ہمیں صرف ایک در جھانکنے کی تعلیم دی گئی ہے یہ تو آپ لوگ ہیں کبھی امام ابوحنیفہ کے در جھکتے ہیں کبھی امام محمد کے در کبھی امام یوسف کے در تو کبھی امام زفر کے در۔۔ سچ کہا کہنے والوں نے کہ جو ایک در کو چھوڑتا ہے وہ در در کی ٹھوکری کھاتا ہے۔۔ اور یہی حال آپ لوگوں کا ہے۔۔۔
جناب آپ دعوے دار ہیں اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے ۔
جی الحمد للہ
اور دعوٰی آپ نے پیش کیا ہے میں اختلافی رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل نہیں
جی بالکل میں منسوخیت کا قائل نہیں
اور دلیل میں جو عمل پیش کیا جس صحابی سے، وہی صحابی رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے بعد کے زمانے میں ۔
مذاق بہت اچھی طرح کرلیتے ہیں۔۔ وہی صحابی رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ؟ اس بارے مکمل تفصیل بیان کرچکا ہوں۔۔ جس کو دوبارہ یہاں پیش نہیں کرنا چاہتا۔۔۔سہولت کےلیے لنک پیش ہے۔۔
پوسٹ نمبر46
تو پھر آپ ہی بتائیے کہ ہمیں بعد کے زمانے کا عمل اپنانا چاھئے کہ جو جاری ہوا یا پھر پہلے زمانے کے اعمال پر عمل کریں جو بعد میں تکمیل پاچکے؟
بعد کے زمانے کا عمل آپ صحیح صریح دلائل سے ثابت تو کریں جناب ۔۔۔ اور جس میں اس بات کی بھی وضاحت ہو کہ یہ پہلے زمانے کی بات ہے اور یہ آخری زمانے کی۔۔ اگر یہ صراحت نہ ہو تو دلائل پیش کرتے ہوئے آپ خود اس بات کو ثابت کرتے جانا کہ یہ حدیث پہلے زمانے کی ہے اور یہ آخری زمانے کی۔۔۔تب آپ کی زمانے والی بات تسلیم کی جائے گی۔ اور پھر آپ کو زمانہ کے حساب سے بھی دکھایا جائے گا کہ آخری فعل نبی کریمﷺ کا کونسا تھا۔ رفع کرنے والا یا نہ کرنے والا۔۔باللہ التوفیق۔۔۔ ہاں ایک بات کا جواب دیتے جانا کہ
ایک کام نبی کریمﷺ سے ثابت ہو آپﷺ نے کیا آپ کی وفات کے بعد کوئی صحابی اس کام کو منسوخ کرسکتا ہے؟ ہاں یا ناں میں جواب
خود صحابہ کے طریقے ثابت کرتے ہیں۔ کہ نماز میں پہلے ہر ہر اونچ نیچ پر اور ہر ہر تکبیر پر رفع یدین کیا جاتا تھا ، دوران نماز باتیں بھی کرلی جاتی تھیں ، خود ایک روایت میں نمازی کو دوران نماز اپنے پیر کے نیچے تھوک پھینکنے کا ارشاد فرمایا ، وغیرہ ۔۔۔ کیونکہ موضوع ہے رفع یدین تو اسی مناسبت سے آپ کو ایک اور روایت دکھاتا ہوں جس میں ہر ہر تکبیر و اونچ نیچ پر رفع یدین کرنے کا زکر ہے ۔
نماز میں ہر اونچ نیچ پر رفع کا ہونا ، نماز میں باتیں کرنا، نماز میں پیر کے نیچے تھوک پھینکنا اس پر مفصل تحریر الگ پوسٹ میں کی جائے گی۔۔ انتظار کی تکلیف برداشت کرنا ہوگی۔
اول
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً کان يرفع يديہ فی کل خفض ورفع ورکوع وسجود وقیام وقعود بين السجدتين .... الخ
(شرح مشکل الاثار لطحاوی ج ۲ ص ۰۲ رقم الحديث ۴۲، وسندہ صحيح علی شرط البخاری و مسلم، بیان الوہم لابن القطان ج۵ ص ۳۱۶ وقال صحيح، طرح التثريب للعراقی ج۱ ص۱۶۲)
حضرت سىدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ ﷺ ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرتے تھے۔
اس حدیث میں بھی وہ بات ہے جس کے بارے میں لکھ چکا ہوں، ان شاءاللہ بہت جلداس حدیث کے ساتھ باقی جن باتوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے الگ پوسٹ میں جواب لکھا جائے گا۔ ان شاءاللہ
اگر عربی سے کجھ واقفیت ہے تو پھر اس مضمون کو پڑھ لیں۔
سؤال حول رفع اليدين عند كل خفض و رفع
اور آپ نے پیش کی تھی جو روایت اسے بھی دیکھ لیجئے
جی دیکھ لیا ہے۔ بلکہ صرف دیکھا نہیں عمل بھی کرتا ہوں۔۔الحمد للہ
اب بتادیجئے کہ پہلے زمانے کی کون سی روایت ہے ؟اور بعد کی کون سی ؟
ہم م م م م ۔۔۔ آپ کی طرف سے پیش اثر کی مکمل تحقیق پیش کرنے کے باوجود آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں کہ آپ کے پیش اثر میں ایسا کون سا قرینہ ہے جس کی وجہ سے آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ بعد کے زمانے کی حدیث ہے اور آپ والی پہلے زمانے کی۔۔۔ (جس قرینہ کا آپ ذکر کریں گے الحمد للہ بخوبی اس سے واقف ہوں، لیکن ذرا آپ کے قلم سے بیان ہوجائے تو بہتر ہوگا)
اگر اول روایت کو دیکھیں تو اسمیں ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرنے کا معلوم ہوتا ہے اور دوم روایت کو دیکھیں تو نماز شروع اور رکوع جاتے ،اٹھتے،اور تیسری رکعت کا پتا چلتا ہے کہ یہاں یہاں رفع یدین کیا جاتا تھا۔ٹھیک؟
جناب زمانہ کی بات بہت کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ صرف اتنا کہنے سے کہ یہ بعد کے زمانے کی حدیث ہے اور یہ پہلے زمانے کی تسلیم کرلیا جائے گا یا بادلائل ثابت بھی کرنا ہوگا کہ یہ حدیث پہلے زمانے کی ہے اور یہ بعد کے زمانے کی۔۔۔؟؟ عجیب بات ہے یار زمانہ زمانہ کی رٹ تو لگا رکھی ہے لیکن ثبوت پیش کرتے ہی نہیں ۔۔۔ چاہیے تو یہ تھا کہ زمانہ کی بات کرنے سے پہلے جو احادیث آپ پیش کرتے اس کو ثابت بھی کرتے کہ یہ بعد کے زمانہ کی ہیں۔۔
اب یہ روایات بھی دیکھ لیں
یہ روایت آپ ایک بار نہیں کئی بار اس تھریڈ میں پیش کرچکے ہیں۔۔ اس کا مکمل جواب دے دیا گیا ہے۔۔
پوسٹ نمبر47
نماز میں سکون کاحکم دیا گیا اور یہ میں بتاچکا کہ رکوع جانا اٹھنا اور تیسری رکعت اٹھنا یہ سب نماز میں ہی ہوتا ہے ،شروع میں نہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے مؤقف پر یہ دلیل بن سکتی ہے یا نہیں اس بارے لکھ چکا ہوں، کوئی علمی اعتراض ہو تو پیش کرنا
دوسری بات
’’ فی الصلاۃ ‘‘ کے بارے میں بھی مکمل وضاحت کرکے اس پر سوال طلب کیا گیا ہے اس کا جواب مطلوب ہے۔
تیسری بات چلو کچھ دیر کےلیے اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ آپ کے مؤقف پر یہ دلیل بن سکتی ہے۔(حقیقت یہ ہے کہ قطعاً آپ کے مؤقف پر یہ دلیل نہیں بن سکتی۔
تفصیل دیکھیں) آپ مجھے بادلیل بتائیں کہ میری پیش کردہ حدیث ’’ "
كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:739) ‘‘ اور آپ کی یہ پیش کردہ حدیث
’’ عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ ‘‘ ان دونوں میں سے پہلے زمانے کی کونسی حدیث ہے اور بعد کے زمانے کی کونسی۔؟؟ صرف کہنا نہیں بلکہ اس پر ثبوت بھی پیش کرنا ہے۔
یہ روایات بھی کئی بار صرف اس لیے پیش کی گئی ہیں تاکہ کم سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ تأثر دیا جائے کہ سہج صاحب نے تو احادیث کے ڈھیر ہی لگا دیئے۔ حالانکہ اصول یہ ہوتا ہے کہ ایک بار جب حدیث پیش کردی جائے تو دوبارہ نئی دلیل کے طور پر اسے پیش نہ کیا جائے ہاں تائید میں اگر پیش کی جاسکتی ہیں۔۔یا اگر فریق مخالف نے جواب میں دھوکہ دہی کی ہے تو اس پر متنبہ کرنے کےلیے پیش کیا جاسکتا ہے۔۔ لیکن نئی دلیل کے طور پر پیش کرنا کم سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو دھوکے میں ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔۔ کہ ہمارے پاس اتنے سارے دلائل ہیں۔۔ یہ روش آپ کی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔۔ امید ہے مشورہ قبول کیا جائے گا۔۔
ان روایات کا جواب دیا جا چکا ہے۔۔ امید ہے تسلی ہوجائے گی۔۔ ان شاءاللہ
یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اول زمانے میں ہر تکبیر اور اونچ نیچ پر رفع یدین کرتے تھے ،دوم زمانے میں صرف رکوع اور تیسری رکعت ،سوئم زمانے میں نماز کے اندر کی رفع یدین کو منع کیا گیا اور چہارم زمانے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی کا عمل بتاتا ہے کہ وہ صرف نماز کو شروع کرتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے ۔
پہلی بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اس مسئلہ پر عمل کیا تھا۔۔ اور آپ کے پیش کردہ اثر کی تحقیقی حیثیت کیا ہے۔۔ اس بارے تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔۔
پوسٹ نمبر46
دوسری بات میں نے بھی ابن عمر کے حوالے سے حدیث پیش کی ہے اور آپ نے بھی ابن عمر کی طرف منسوب اثر پیش کیا ہے۔۔ دونوں روایتوں کی حیثیت کیا ہے۔ذرا اس پر بھی نظر کرم کرلیں۔۔ شاید حدیث پر کوئی ترس آجائے۔۔
تیسری بات سوال پہلے بھی کرچکا ہوں دوبارہ بھی کررہا ہوں کہ صحابی کاعمل نبی کریمﷺ کے عمل کو منسوخ کرسکتا ہے یا نہیں ؟؟
محترم جناب اگر آپ نے زمانے کی ہی بات کرنی ہے تو پھر آپ کو ایسے آثار پیش ہی نہیں کرنا چاہیے جو نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد والےہوں۔۔ آپ شارع سے ہی ثابت کریں کہ یہ رفع الیدین کرنے والا فعل نبی کریمﷺ کا پہلے والا تھا اور پھر آپ نے منع کردیا تھا اور خود بھی اس رفع سے رک گئے تھے۔۔ تب بنتی ہے بات۔۔ لیکن آپ اتنے گزر گئے ہیں کہ اپنے غلط مؤقف پر ایک تو ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ دلائل آپ کا ساتھ نہیں دے رہے اور دوسرا نبی کریمﷺ کے عمل کے مقابلے میں صحابی کے ایسے عمل کو بار بار لائے جارہے ہیں جو صحابی سے ثابت بھی نہیں۔۔۔ جناب آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ شارع کوہی نسخ کا اختیار ہوتا ہے۔۔ جب شارع نہ رہے تو نسخ بھی نہیں ہوتا۔۔ جو جو اعمال شارع سے واقع ہوئے ہوتے ہیں وہ شریعت بن جایا کرتے ہیں۔۔ امید ہے اب زمانے کی جب بات کریں گے تو نبی کریمﷺ کی زندگی میں رہتے ہوئے کریں گے۔۔۔ان شاءاللہ
مجھے معلوم ہے،اب آپ نے زمانے پر اعتراض کرنا ہے تو اسے بھی ایک روایت سے ہی سمجھ لیجئے
جہاں آپ کی طرف سے زمانے کی وضاحت نہیں ہوگی، اعتراض کے ساتھ ثبوت بھی مانگا جائے گا۔۔ لیکن جہاں وضاحت ہوگی،وہاں اگر ایسی دلیل سے وضاحت ہوگی جو صحیح ہوگی وہ تسلیم کی جائے گی۔۔ ان شاءاللہ ۔۔ کیونکہ ہم اہل حدیث ہیں اور اہل حدیث کبھی بھی چور دروازے تلاش نہیں کیا کرتے۔۔۔ اس ڈھنگ کے پختہ کار عالم خاص طور مقلدین ابی حنیفہ ہیں۔۔۔ اللہ رحم کرے۔۔
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه، فجحش شقه الأيمن، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ". قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله " إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ". هو في مرضه القديم، ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما، لم يأمرهم بالقعود، وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں
واہ جی واہ آپ مولوی نہیں بلکہ مولبی لگتے ہیں۔۔ زمانے والی بات کو کیسے ثابت کیا ہے۔؟ بہت خوب۔۔ حضور سہج اللہ تیرا بھلا کرے کچھ غیرت نام کی بھی چیز ہے آپ میں۔۔ میں وضاحت کرتا ہوں
پہلے حدیث پر وضاحت کردوں کہ جناب یہاں اس مسئلہ کو بیان کیا جارہا ہے کہ
اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کےلیے کیا حکم ہے؟ کہ وہ بھی امام کی اقتداء میں بیٹھ کر پڑھیں یا وہ کھڑے رہیں۔؟ آپﷺ نے اس بارے صحابہ کو پہلے نہیں بتایا ہوا تھا اس لیے جب آپ نے پہلی بار یہ عمل کیا تو صحابہ بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے مسئلہ بتا دیا کہ
" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون "
جناب اس حدیث کا محل سمجھ آیا کہ نہیں ؟ یہ حدیث اس مسئلہ پر وضات کےلیے ہے کہ
اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کےلیے کیا حکم ہے؟ کہ وہ بھی امام کی اقتداء میں بیٹھ کر پڑھیں یا وہ کھڑے رہیں۔؟
اگر اتنی بات سمجھ آگئی ہے تو سنیے
پہلی بات آپ نے اس مسئلہ پر تو حدیث پیش کردی کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں۔۔ اب ذرا وہ حدیث بھی پیش کردینا کہ جس میں آپﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہو اور صحابہ کرام نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی ہو۔۔
دوسری بات اس حدیث میں امام صاحب کی صراحت ہے کہ دونوں عمل نبی کریمﷺ نے خود کیے ہیں۔ پہلے آپﷺ نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھی، صحابہ کرام نے بھی بیٹھ کر پڑھی۔۔ پھر کسی وقت نبی کریمﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی لیکن صحابہ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔۔
دونوں کام شارع نے ہی کیے ہیں۔۔ اس بات کو ایسا ذہن نشین کرلینا کہ کبھی بھولنے نہ پائے
تیسری بات امام حمیدی رحمہ اللہ کا بیان ہے نبی کریمﷺ کا فرمان نہیں۔۔۔ ہاں یہ بات مجھے بھی قبول ہے کہ امام صاحب دونوں طرح کی احادیث کو سامنے رکھ کر ہی یہ نتیجہ نکال رہے ہیں۔۔ آپ بھی نبی کریمﷺ کی دو اس طرح کی احادیث کو (ایک میں ہو کہ آپ نے رفع الیدین کیا دوسری میں ہو کہ آپ نے پہلی رفع کے علاوہ رفع الیدین کیا ہی نہیں۔۔شرط یہ ہے کہ احادیث صحیح ہوں۔ضعیف احادیث کی شریعت میں کوئی جگہ نہیں ہے) سامنے رکھ کر وضاحت پیش کریں۔۔ بغیر دلیل کے صرف کہتے جانا تسلیم نہیں کیاجائے گا۔۔ آپ کو اچھی طرح یاد کرلینا چاہیے۔۔۔ مولانا مفتی سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ
چوتھی بات آپ نے اب تک جتنی بھی حدیثیں پیش کی ہیں اور ان پر کہا ہے کہ یہ پہلے زمانے کی ہے اور یہ بعد کے زمانے کی۔۔ کیا آپ نے کوئی ایسی صراحت پیش کی ہے۔؟؟ اگر کی ہے تو مجھے اس پر مطلع کریں اور اگر نہیں کی تو برائے مہربانی پیش کریں۔۔ چاہے اپنے امام سے ہی کیوں نہ ہو۔۔
زمانے کا فرق آپ کو یقینا سمجھ آگیا ھوگا ۔
جناب جب فرق کو بادلیل صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تو سمجھ کیوں نہ آتا۔۔؟ اور آپ سے بھی کئی بار کہا گیا کہ آپ بادلائل فرق ثابت تو کریں۔۔ کیا آپ نے ثابت کیا ؟ جو اب درس دینے چلے آئے کہ فرق سمجھ آگیا ہوگأ۔۔ واہ بہت خوب
اسلئے الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت حنفی طریقہ نبوت کے عین مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔جن پر آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ کی گواہی موجود ہے۔
مکمل طریقہ نبوت کے مطابق نماز پڑھنے کا سفید جھوٹ ہے۔
فقہ حنفی کی کتب کی روشنی میں آپ کی نماز کی کیا شکل بنتی ہے اسے جاننے کےلیے ایک مشہور واقعہ پیش کرنا دلچسپی سےخالی نہیں ہوگا۔۔ سنیے واقعہ
’’ سلطان محمود بادشاہ امام ابوحنیفہ کے مذہب پر تھا اور علم حدیث کی حرص رکھتا تھا۔ مشائخ سے حدیثیں سنتا اور استفسار کیا کرتاتھا۔ پس اکثر احادیث کو اس نے شافعی مذہب کے مطابق پایا۔ اس نے فقہاء کو جمع کیا اور ان سے ایک مذہب کے دوسرے مذہب پر ترجیح کا مطالبہ کیا تو اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں مذاہب کے موافق دو دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے اور اس نماز میں نظر اور فکر کرنے سے جو مذہب اچھا معلوم ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے پس قفال مروزی نے نماز پڑھنے کےلیے پوری شرطوں سے وضوء کیا۔ صاف لباس پہنا اور استقبال قبلہ بھی بخوبی کیا اورنماز کے ارکان اور ہیئتیں اور فرض اور سنتیں اور آداب کو بوجہ کمال اداء کیا اور ایسی نماز اداء کی جس سےکمی کرنا امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں۔ پھر دو رکعتیں اس طریقے سے اداء کیں جو امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہوں۔ پس کتے کی دباغت دی گئی کھال کو پہنا اور اسے چوتھائی نجاست سے آلود کیا کھجور کی نبیذ سے وضوء کیا چونکہ گرمی کا موسم تھا اس لیے مکھیاں اور مچھر اس پر جمع ہوگئے بغیر نیت کے وضوء کیا اوروہ بھی الٹا ( یعنی پہلے پاؤں اوراخیر میں ہاتھ دھوئے) پھر نماز م یں داخل ہوا اللہ اکبر کے بجائے فارسی میں ( خدائے بزرگ است ) کہا۔ پھر قراءت کی تو ( مدھامتان کی جبائے فارسی میں دو بزرگ است کہا۔پھر بجائے سجود کے مرغ کی طرح بغیر فرق کے دو ٹھونگیں مارلیں پھر تشہد پڑھ کر گوز ماردیا۔بغیر سلام کے نماز ختم کی۔ اور کہا ائے بادشاہ یہ نمام امام ابوحنیفہ کی ہے۔ بادشاہ نے کہا اگر اس طرح کی نماز ابوحنیفہ کی نہ ہوتی تو میں تجھے قتل کردونگا۔ اس لیے کہ ایسی نماز تو کوئی صاحب دین جائز نہیں سمجھتا۔ پس حنفیوں نے امام ابوحنیفہ کی اس طرح کی نماز سے انکار کردیا۔(جیسا اب بھی کرجاتے ہیں) تو قفال مروزی نے حنفی مذہب کی کتابیں طلب کیں۔ بادشاہ نےمنگوا دیں اور ایک نصرانی عالم کو بلایا اور اس کو شافعی اور حنفی مذہب کی کتابیں پڑھنے کا حکم دیا توابوحنیفہ کی نماز ویسی ہی پائی گئی جیسی کہ قفال مروزی نے پڑھ کر دکھائی تھی۔ پس بادشاہ نے امام ابوحنیفہ کے مذہب کو چھوڑ دیا اور امام شافعی کے مذہب کو اختیار کرلیا۔ ( حیاۃ الحیوان الکبریٰ ج2 ص214)
واقعہ کی اسنادی حالت کیا ہے؟ اس کی بحث میں پڑے بغیر حنفی مذہب کے مطابق نماز اداء کرتے ہوئے جو افعال کیے گئے ہیں۔ ان کے حوالہ جات بھی پیش ہیں۔
محترم سہج صاحب اہل حدیث اور آپ حنفیوں کی نمازوں میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔۔ فقہ حنفی کی رو سے جو نماز کی کیفیت بنتی ہے۔ کیا صحابہ کرام میں سے بھی کسی نے ایسی نماز پڑھی تھی۔(نعوذباللہ) جو آپ کہے جارہے ہیں کہ آثار صحابہ اور تابعینؒ کی گواہی موجود ہے۔۔۔ فقہ حنفی میں جو نماز ہے اس پر واقعہ بیان کردیا ہے اب اس واقعہ میں جو افعال کیے گئے ہیں ان کے حوالہ جات بھی پیش ہیں۔
آپ کے ہاں وضوء بلانیت1، بےترتیب2 اور نشہ آور3 نبیذ سے بھی کرنا جائز ہے۔
آپ کے ہاں باہم ننگے مردو عورت کی شرمگاہیں مل جانے سے4، اپنے ذَکر یا دوسرے کے ذَکر کو پکڑنے سے5، زندہ یا مردہ جانور یا کم عمر لڑکی سے جماع کرنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا 6۔
لیکن جناب آپ کے ہاں البتہ دکھتی آنکھوں سے آنسو نکلنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔7
آپ کے ہاں پتلی نجاست ( پیشاب) ہتھیلی کی گہرائی کے برابر معاف ہے۔8
آپ کےہاں مغلظ نجاست یعنی پاخانہ، منی، مذی بقدر ساڑھے تین ماشہ کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا پاک ہے۔9
آپ کے ہاں سور یا کتے کی پیٹھ پر غبار ہو تو تیمم جائز ہے۔(ابوحنیفہ) 10
آپ کے ہاں آذان فارسی وغیرہ ہرزبان میں جائز ہے۔11
آپ کے ہاں نماز کے سب اذکار، خطبہ اور ثناء وغیرہ ہر زبان میں درست ہے۔12
آپ کے ہاں امام قراءت شروع کرے تو مقتدی سبحانک اللہم پڑھ لے۔13 ( اب واذ قریء القرآن.... کا حکم کہاں گیا )
آپ کے ہاں امام کے پیچھے الحمد پڑہنے والے کے منہ میں پتھر اور انگارے ہیں۔14
آپ کے ہاں درود پڑھنا فرض نہیں۔15
آپ کے ہاں تشہد پڑھ کر قصداً گوز ماردیا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اور سلام پھیرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ 16
حوالہ جات
1۔ در مختار جلد1 ص49
2۔بہشتی زیور حصہ1 ص57
3۔فتاویٰ عالمگیری ج1 ص28
4۔ہدایہ ج1 ص47
5۔فتاویٰ عالمگیری ج1 ص16
6۔فتاویٰ عالمیگری ج1 ص83
7۔بہتشی زیور حصہ1 ص 63
8۔ہدایہ جلد1 ص226
9۔فتاویٰ عالمیگری ج1 ص61
10۔ ہدایہ جلد1 ص47
11۔درمختار ج1 ص225
12۔ہدایہ جلد1 ص349
13۔فتاویٰ عالمیگری ج1 ص123، منیۃ المصلی ص88
14۔ہدایہ جلد1 ص437
15۔ہدایہ جلد1 ص398
16۔قدوری ص28
تو تھا آپ لوگوں کی نماز کا سرسری جائزہ۔۔۔ جناب کیا اب بھی آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کی نماز طریقہ نبوت کے عین مطابق ہے؟؟؟ مجھے معلوم ہے آپ کہتے رہیں گے لیکن قارئین خود سمجھ لیں گے۔۔ ان شاءاللہ