sahj
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2011
- پیغامات
- 458
- ری ایکشن اسکور
- 657
- پوائنٹ
- 110
پوسٹ نمبر15
الحمدللہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا "انکار" آج تک نہیں کیا اور الحمدللہ آپ کی پیش کردہ روایت کا بھی انکار نہیں کیا ۔ تو پھر یہ بدگمانی کیوں بھئی ۔ جناب میں نے دیکھنے کی بات اسلئے کی تھی کہ شاید اس میں آپ دس تک کی گنتی دکھارہے ہیں ۔ لیکن اس میں تو صرف چار رفع یدین دکھائی ہیں آپ نے ۔اور میں نے جو روایات پیش کی ہیں وہ پہلی رفع کی تائید اور باقی تمام کی نفی کرتی ہیں ، الحمد للہ میرا اور تمام اہل سنت والجماعت احناف کا عمل ثابت ہوتا ہے۔۔ کیوں ٹھیک کہا ہے ناں میں نے؟محترم سہج صاحب دیکھنا دوکھنا نہیں ( کیونکہ دیکھنا لفظ مفہوم میں مشتابہ ہے بعض اوقات دھکمی پر بھی بولا جاتا ہے۔ کہیں آپ احادیث کی کتر بتر کرنے کی صورت میں دھکمی سے تو نہیں نواز رہے؟) بلکہ ماننے کی غرض سے دیکھنا ہے۔ اور غور وفکر کرنا ہے۔ اللہ توفیق بھی دے گا تب جب نیت میں فطور نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ
میں نے بخاری کی حدیث پیش کی۔ الحمد اللہ۔ جس میں صحابی نبی کریمﷺ کا عمل بتلا رہا ہے۔ (اور آپ اگر اصول حدیث کے ابجد سے بھی واقف ہیں تو آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ حدیث حدیث کی کس قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر معلوم نہ ہو تو پوچھ لینا۔ بتانے میں کوئی بوجھ محسوس نہیں کرونگا ہاں آپ پوچھنے میں پلیز شرم مت کرنا۔ )
آپ کی پیش کردہ روایت
اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد آپ نے صرف چار رفع دکھائی ہیں اور باقی کو دو+دو=چار کرکے گنتی مکمل کی ہے ۔ کیوں ٹھیک کہا ناں میں نے ؟؟ جبکہ میں نے اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کے عمل کے عین مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل راویوں کی گواہی کے ساتھ پیش کردیا کہ ہم پہلی رفع یدین کے بعد کوئی رفع یدین نہیں کرتے رکوع سے لیکر سلام تک۔صحابی فرماتے ہیں کہ آپﷺ
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
ایک-ترجمہ :- حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
شرح معانی الآثار للطحاوی جلد،صفحہ ایک سو پچپن
دو-ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
تین-ترجمہ : عبدالعزیز بن حکیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے کانوں کے برابر اسکے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نوے
چار-ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
معرفۃ السنن و الآثار، جلد دو، صفحہ چارسواٹھائیس
گڈ مسلم صاحب اگر تو میں نے بخاری کی پیش کردہ روایت کو غلط کہا ہوتا یا اعتراض کیا ہوتا تو بات الگ تھی لیکن یہاں تو بات آپ کرتے ہیں کہ آپ کے صرف دو ہی اصول ہیں اطيعواالله و اطيعوا الرسول اور دو جمع دو چار آپ خود کرتے ہیں ؟ کیا یہ تضاد نہیں آپ کے قول و عمل میں ؟ اسی لئے تو میں بار بار آپسے مطالبہ کر چکا کہ بھئی اپنی دلیل سے دس کا اثبات پیش کریں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ تاویل اور قیاس فرمانا شروع کریا آپ نے ۔اسلئے بغیر قیاس کیئے یا دو جمع دو کئے دس کا اثبات پیش کیجئے ، پھر ان شاء اللہ نفی کی طرف بڑھیں گے ۔چار رکعات نماز میں بقول صحابی آپﷺ چار مقام پر رفع کرتے تھے۔ کیا آپ بھی میاں سہج صاحب اس حدیث سے یہی سمجھے ناں ؟ جو میں نے سمجھا یا ہے۔ یا کچھ اور ؟
اور پھر میں نے مقام والی بات پہلی کئی پوسٹ میں کی کہ سہج صاحب جب مقام واضح ہوجائیں گے کہ ان ان مقامات پر رفع کرنا سنت ہے تو پھر گنتی کرنا کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا۔ اور میں نے الحمد للہ حدیث سے وہ تمام مقامات پیش کردیئے ہیں۔ جن پر رفع کرتے ہوئے اگر گنتی کی جائے تو آپ کے مطالبہ کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے۔ یعنی دس کا اثبات۔
اگر آپ کے ہاں یہ حدیث صحیح نہیں ؟ یا جو میں نے ترجمہ کیا ہے وہ درست نہیں ؟ یا کوئی اور بات ہے تو پیش کریں۔ آپ کا حدیث پر کچھ نہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ان چار مقامات کو تسلیم کرچکے ہیں۔ تسلیم کرلیے ہیں یا نہیں ؟ ذرا تصدیق ہوجائے تو مزہ آجائے گا۔ ان شاء اللہ
اگر تصدیق نہیں کرسکتے تو پھر حدیث کی صحت پر بات کریں یا حدیث کے ترجمہ ومفہوم پر بات کریں یا کوئی تاویل وغیرہ کے ذریعے ان چار مقامات میں رفع کی نفی پیش کریں۔ کچھ تو کریں محترم سہج صاحب۔ اگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تو پھر دو راستے ہیں ایک ماننے کا اور دوسرا سینہ تان کر اینڈ ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے نا ماننے کا ۔ مان کر عمل شروع کردیں گے تو آپ کا عمل عمل رسولﷺ کے موافق ہوجائے گا لیکن اگر نہیں مانیں گے تب بھی میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ کیونکہ گھول کر تو میں آپ کو پلا نہیں سکتا۔
خلاصتاً دو باتیں ہیں
1۔ حدیث میں وہ مقامات جن پر ہم رفع کرتے ہیں وہ میں نے بادلیل پیش کیے یا نہیں ؟ اگر نہیں پیش کیے تو بتلایئے حدیث دوبارہ پیش کردونگا۔ اور اگر کردیئے ہیں تو
2۔آپ نے حدیث پر کوئی اعتراض کیا یا نہیں ؟ اگر کیا ہے تو میں نے آپ کی پوسٹ میں نہیں پڑھا دوبارہ پیش کردیں اور اگر نہیں کیا بلکہ کرنے کا ارادہ ہے تب بھی پیش کریں۔ مجھے آپ کے فرمان کا انتظار رہے گا لیکن اگر نہیں کرنا تب ماننے میں کیا حرج پیدا ہورہا ہے محترم سہج صاحب آپ کو ؟
جی گڈ مسلم صاحب آپ نے درست کہا کہ آپ نے بخاری سے صحابی کا عمل پیش کیا اور میں نے دوسری کتابوں کی روایات سے ، تو بھائی صاحب اس میں جو نقص ہے وہ بھی آپ بتادیتے ؟ بخاری کو اصح آپ کس دلیل سے مانتے ہیں گڈ مسلم صاحب یہ بھی بتادیجئے گا ؟ کیونکہ یہ کوئی چھوٹا موٹا بول نہیں ۔ اسلئے دلیل ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر اگر ایمان ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا فرمانا ہے آپ کا ؟میاں سہج صاحب میں نے راوی کا وہ قول پیش کیا جو اس نے نبی کریمﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اور آپ نے اس کے مقابلے میں شرح معانی الآثار، مصنف ابن ابی شیبۃ اور موطاء امام محمد سے ابن مجاہد?کے ذریعے ابن عمر کا عمل پیش کیا۔ میری پیش کردہ بخاری کی حدیث میں ابن عمر خود نبی کریمﷺ کا عمل بتلارہے ہیں۔ اور یہاں پر مجاہد? ابن عمر کاعمل بتلار ہے ہیں۔ میں نے درست کہا ناں مسٹر سہج صاحب ؟ایک صحابی ہیں جو نبی کریمﷺ کا عمل بتلارہے ہیں اور وہ عمل ہے بھی ایسی کتاب میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔ اور دوسرے مجاہد? ہیں جو صحابی نہیں وہ ایک صحابی کا عمل بتلارہے ہیں۔اور وہ بھی ایسی کتب میں جن کو یہ لقب ’’ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ‘‘ نہیں ملا۔ تو محترم سہج صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ’’ ان دونوں اعمال کی حیثیت ماننے اور یقین کرنے کے اعتبار سے ایک جیسی ہے ؟ اگر ایک جیسی ہے تب بتائیں اور اگر ایک جیسی نہیں تو پھر کیا چیز مانع ہے کہ اصح ترین کتاب کی بات لینے کے بجائے باقی کتب پر یقین کررہے ہیں آپ ؟ ( میرا اس سے مقصود یہ نہیں کہ باقی کتب احادیث میں صحیح احادیث نہیں لیکن کتب کے درجات ہیں۔ اور افضل درجہ پر بخاری ومسلم ہیں۔ اور ان دو کتب کے بارے میں تمام فرقوں کے علماء کا اتفاق ہے کہ اس میں بیان سب باتیں حضورﷺ کی ہیں۔) تو بجائے اس کے آپ میری پیش کردہ حدیث کو مانتے یا اس کی مثل اسی کتاب سے میری پیش کردہ حدیث کے خلاف حدیث پیش کرتے۔ آپ نے دوسری کتب میں بیان ابن عمر کے عمل پر یقین کرلیا ۔ ( ابن عمر کا عمل اور حضرت مجاہد? کاعمل رفع الیدین کرنے کا تھا یا یہ دونوں مسنوخیت کے قائل تھے۔ یہ بھی آپ سے پوچھا جائے گا۔) ناں ناں سہج صاحب یہ ظلم نہ کریں۔ بلکہ آپ یوں کریں کہ
میری پیش کردہ حدیث میں جن جن مقامات پر رفع کرنے کا ثبوت ہے۔ آپ اس کے معارض اسی درجہ کی کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں اول مقام کا اثبات اور باقی تین مقامات کی نفی ہو۔میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ ایک رفع کا اثبات اور باقی ستائیس رفعوں کی نفی پیش کریں۔ نہیں نہیں سہج صاحب۔ آپ بس میری پیش کردہ حدیث کے مقابلے میں اسی درجہ کی ایک مقام پہ رفع کرنے والی حدیث اور تین مقامات پر رفع نہ کرنے والی حدیث پیش کریں۔
عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه، فجحش شقه الأيمن، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ". قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله " إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ". هو في مرضه القديم، ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما، لم يأمرهم بالقعود، وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان
جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اس روایت کی اس بات کی آپ کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟ کیا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں؟ اور دیکھ لیجئے اس میں بھی پہلی رفع سمیت بعد کی رفع یدین کا بلکل زکر نہیں ، تو پھر بتائیے اس حکم پر آپ کیوں عمل نہیں کرتے ؟ یہ بھی "اصح الکتب " میں ہی موجود ہے ۔یا پھر اس کو آپ " عمل" میں نہیں لاتے یا پھر کوئی اور تاویل ؟
لاجک کی ضرورت ہے آپ کو کہ آپ اس کو پیش کریں ؟ بھئی آپ اطيعواالله و اطيعوا الرسول کو ہی ماننے والے ہیں اسلئے اسی سے بتانا ہے آپ نے ۔ ہر آدمی کو کون بتاتا ہے یا ہر آدمی کہاں سے یہ علم حاصل کرتا ہے کہ ار رکعات نماز میں کتنے قیام ہوتے ہیں؟، کتنے رکوع ہوتے ہیں؟ چار رکعتوں میں کتنی بار رکوع میں جایا جاتا ہے؟، کتنی بار رکوع سے اٹھا جاتا ہے؟، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوتے ہیں؟ کتاب اللہ سے یا حدیث سے ؟ بتانا ضرور ۔اگر میں نے دلیل نہیں دی تو آپ نے انکار بھی نہیں کیا ۔ کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا نہیں ہوتا اور چار بار رکوع سے اٹھنا نہیں ہوتا۔ آپ اپنے انکار کو ثابت کردیں میں ان شاء اللہ اثبات کو ثابت کروونگا۔ کیا خیال ہے محترم سہج صاحب اینڈ حسین صاحب ؟
یہ تو اتنی سیمپل سی بات ہے کہ ہر آدمی کو پتہ ہوتا ہے ( جو مسلمان ہو) کہ چار رکعات نماز میں کتنے قیام ہوتے ہیں؟، کتنے رکوع ہوتے ہیں؟ چار رکعتوں میں کتنی بار رکوع میں جایا جاتا ہے؟، کتنی بار رکوع سے اٹھا جاتا ہے؟، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوتے ہیں۔ وغیرہ۔ پتا ہوتا ہے یا نہیں ؟ یا یہ اتنی مشکل لاجک ہے کہ کوئی آدمی نہ یاد کرسکتا ہے اور نہ یاد کرنے کی کوشش کرسکتا ہے اور نہ یہ لاجک کبھی اس کی سمجھ میں آسکتی ہے ؟
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔آپ کو جب قیاس کا ہی نہیں پتہ تو آپ نے یہ ہی کہنا تھا کہ ’’ میری نظر میں یہ آپ نے قیاس کیا ہے ‘‘ بجائے اس کے کہ ایک نیا موضوع کھول کر آپ کو قیاس سمجھانے بیٹھ جاؤں اس سے بہتر ہے آسان طریقے سے آپ کو ذیل میں بات سمجھانا۔
دیکھیں محترم المقام سہج صاحب۔ میں نے دلیل سے یہ بات ثابت کردی ہے (اور آپ نے انکار بھی نہیں کیا) کہ آپﷺ رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرتے تھے۔ اور نماز میں رکوع کس کو کہتے ہیں ؟ مجھے قوی امید ہے آپ کو معلوم ہی ہوگا۔( اگر نہیں معلوم ہوگا تو تفصیل سے بتا دیا جائے گا فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔) اور حدیث میں لفظ رکوع کا اطلاق چار رکعتوں میں کسی خاص رکعت کے رکوع پر نہیں۔ بلکہ مطلق بولا گیا ہے۔(اگر کسی خاص رکعت کے رکوع پر ہے تو بتائیں؟) جس کا صاف مطلب ہے کہ جو بھی رکوع ہوگا چاہے فرض نماز میں ہو یا نوافل میں۔ چاہے پہلی رکعت کا رکوع ہو یا دوسری وآخری رکعت کا۔ تمام رکوعوں میں رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کی جائے گی۔ یہاں تک بات سمجھ آگئی ناں مسٹر سہج صاحب ؟ چلیں گڈ ....پھر آگے چلتے ہیں۔ سنیں
صحیح مسلم جلد ایک
اس بارے میں بھی آگاہ کیجئے کہ یہ حکم مطلق کے ذمرہ میں آتا ہے کہ نہیں ۔ چلیں اب آگے چلتے ہیں ۔
وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، ) تیسری رکعت کی تو بات ہے ناں ؟ تو پھر دوسری اور چوتھی رکعت کی نفی کا مطلب آپ نکالتے ہیں یا نہیں ؟کیا وہ قیاس ہے ؟قیاس تب ہوتا مسٹر سہج صاحب جب پہلی رکعت کے رکوع کا حکم حدیث میں ہوتا کہ پہلی رکعت کے قیام میں یہ کرنا ہے، اور رکوع میں رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے آپ نے رفع کرنا ہے۔ اور پھر میں کہتا کہ آپﷺ نے پہلی رکعت کے رکوع کے بارے میں یہ فرمایا ہے۔ اور دوسری رکعت کا بھی رکوع پہلی رکعت کے رکوع کی مثل ہے۔لیکن آپﷺ نے دوسری رکعت کے رکوع کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا اس لیے آپﷺ کا پہلی رکعت کے رکوع پر بولا جانےوالا حکم دوسری رکعت کے رکوع پر بھی لاگو ہوگا۔ لیکن مسٹر سہج صاحب میں نے یہاں یہ بات نہیں کی۔بلکہ میں نے رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع کو ثابت کیا ہے۔اس لیے جس عمل پر رکوع کا لفظ بولا جائے گا چاہے وہ جس بھی نماز کا جس میں رکعت کا ہوگا آپ کو رفع کرنا ہوگا رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے۔آئی سمجھ سہج صاحب ؟؟؟؟؟؟
اگر آپ کی باتوں پر آیا جائے تو پھر ایک رکعت، دو رکعات، تین رکعات، چار رکعات، پانچ رکعات، سات رکعات، نو رکعات، گیارہ رکعات، تیرہ رکعات وغیرہ ان سب میں رفع الیدین کی تعداد اٹھائیس سے بڑھتی اور کم ہوتی رہے گی۔
عن عائشة، أنها قالت خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، فقام فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فأطال القيام وهو دون القيام الأول، ثم ركع فأطال الركوع، وهو دون الركوع الأول، ثم سجد فأطال السجود، ثم فعل في الركعة الثانية مثل ما فعل في الأولى، ثم انصرف وقد انجلت الشمس، فخطب الناس، فحمد الله، وأثنى عليه ثم قال " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا، وصلوا وتصدقوا ". ثم قال " يا أمة محمد، والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته، يا أمة محمد، والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ".اس لیے جس عمل پر رکوع کا لفظ بولا جائے گا چاہے وہ جس بھی نماز کا جس میں رکعت کا ہوگا آپ کو رفع کرنا ہوگا رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہو جائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
صحیح بخاری
امید ہے آپ کو بھی سمجھ آگئی ہوگی کیونکہ اوپر پیش کردہ روایت میں رکوع تو ہے لیکن رفع یدین کا زکر نہیں ، اور یہ روایت بھی بخاری کی ہی ہے ۔کیا آپ اس پر عامل ہیں ؟
دس کا اثبات بھی نہیں دکھایا اور نفی کا باب تو ابھی کھلا ہی نہیں اسلئے گڈ مسلم صاحب دلیل پیش کیجئے صریح دو جمع دو برابر چار تو ہر عام آدمی کرلیتا ہے ، لیکن آپ کا دعوٰی ہے اطيعواالله و اطيعوا الرسولاس لیے میں نے شروع میں بھی کہا اور اب بھی کہتا ہوں کہ دس کا اثبات اور وہ بھی گنتی کے ساتھ اسی طرح اٹھارہ کی نفی وہ بھی گنتی کے ساتھ یہ تمام آپ کی بچگانہ باتوں کے ساتھ بے تکے سوالات اور شریعت کا مذاق ہے۔ رکعت چاہے ایک ہو یا تیرہ ہم وہ مقامات ثابت کردیتے ہیں جن پر ہم رفع کرتے ہیں۔ باقی گنتی کے پیچھے آپ لگے ہوئے ہیں۔ آپ جانیں آپ کی گنتی۔
اور پھر آپ کے اس گنتی والے مطالبے کو پورا بھی کردیا ہے۔ جو کہ غور وفکر کرنے سے سمجھ آے گا۔
بے شک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل نقل کرتا ہے اور اسی نقل کو تابعی نقل کرے تو ؟پہلی بات:
کیوں مذاق کے موڈ میں ہیں آپ سہج صاحب ....صحابی کا عمل نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کاعمل اور صحابی کا بیان۔
اگر میں نے انکار کیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا تو پھر ضرور زور لگالیجئے گا ۔ اور فضول باتوں کی نشاندہی بھی کرتے جائیے۔دوسری بات:
اس عمل کو بسند صحیح آپ سے ثابت بھی کروانا ہے۔ پہلی آپ کی فضول باتوں پر اچھی طرح گرفت کرلوں۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما.تیسری بات:
بقول آپ کے اگر روایات کا آپس میں ٹکراؤ ہے۔(حنفی اصول ٹکراؤ آجانے میں کیاکہتا ہے۔ اس بارے ایک مستقل پوسٹ کردی تھی) تو روایات کے درجہ ومقام میں بھی فرق ہے۔فرق ہے ناں ؟ ایک بات مولوی کرے اور دوسرا عام آدمی تو آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ ایک بات قرآن میں ہو اور دوسری بات حدیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ ایک بات بخاری ومسلم کی کتب میں ہو اور دوسری باقی کتب احادیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ میں نے صحابی کے بیان میں آپﷺ کا عمل پیش کیا اور آپ نے تابعی کے بیان میں صحابی کاعمل پیش کیا ترجیح کس کو ہوگی ؟ ( فی الحال آپ کے بیان کی حقیقت کیا ہے اس پر بات نہیں ) غور کریں محترم المقام صاحب ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
بخاری
دیکھئیے مسٹر گڈ مسلم ، آپ خود بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں اور خود ہی بخاری کو ترجیع بھی دیتے ہیں تو جناب سے سوال عرض کیا ہے کہ بخاری کی اس روایت پر کب عمل کرتے ہیں کبھی کبھی یا کبھی نہیں ؟ اور اگر بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں تو کیا سمجھ کر ؟ اگر "سنت" سمجھتے ہیں تو (یہ الگ بات ہے کہ اسے بھی "سنت" آپ اپنی دلیل سے ثابت نہیں کرسکتے)کیا بخاری کے مقابلہ میں کسی اور کتاب کو ترجیع دیتے ہیں ؟ایسے معاملہ میں بھی ترجیع بخاری کو ہی دیجئے ۔ اور ہاں اعلان ضرور کیجئے گا یہاں ایچ ون دباکر ۔
یہ آپ پر لازم ہے مسٹر گڈ مسلم ، کیونکہ آپ صرف دوہی اصول رکھتے ہیں یعنی اطیعوا الله و اطیعوا الرسول بس ۔ اور ہم بحمدللہ چار دلائیل رکھتے ہیں ۔چوتھی بات:
آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی پہلی رفع کے بارے میں نبی کریمﷺ کا فیصلہ سنائیں کہ آپ نے فرمایا ہو کہ پہلی رفع سنت ہے۔
انتظار نہ کروائیے "وقعت" دبھی دکھا دیجئے ۔پانچویں بات:
آپ کے دلائل کی وقعت پیش کرنے سے پہلے آپ سے کچھ پوچھا ہے۔
جی بلکل درست کہا آپ نے ۔ ان شاء اللہ جلد نمونہ دیکھیں گے دیکھنے والے۔چھٹی بات:
کبھی انکار کربھی نہیں سکتے ۔ ہاں ایک صورت میں جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی سے ہدایت چھین لے۔تب وہ احادیث کا انکار کرنا شروع کردیتا ہے۔
گڈ مسلم صاحب پیش تو کیا ہے ابن عمر رضٰ اللہ عنہ کا عمل ؟ گواہی سمیت ؟ اور الحمد للہ ثابت ہوا ہوا ہے ۔ساتویں بات:
یہ بات تب کرنا جب آپ سے ابن عمر کے رفع الیدین کے بارے میں پوچھا جائے کہ ان کا اپنا عمل کیا تھا ؟ اور آپ بادلائل صحیحہ اس بات کو ثابت بھی کردیں۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخکیا صحابی کو اختیار ہے کہ آپﷺ کے عمل کے خلاف کوئی عمل جاری کریں ؟ اگر اختیار نہیں تو پھر دو باتیں ہیں۔ پہلی بات آپﷺ نے خود رفع الیدین کومنسوخ قرار دیا ہوگا تب ہی صحابی نے رفع الیدین نہیں کیا۔ دوسری بات صحابی کی طرف منسوب وہ بات جو آپ نے پیش کی ضعیف ہو۔ اگر منسوخ ہوجانے سے صحابی نے رفع نہیں کیا تب آپ کو مسنوخیت کی دلیل پیش کرنا ہوگی اور اگر دوسری بات تسلیم کرلیں گے تب ہم بھی آپ کو دلیل کی تکلیف نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ خود ہی تسلیم کرلیں گے کہ میری پیش کردہ بات ہی اس قابل نہیں کہ حدیث کے مقابلے میں اس کو پیش کیا جائے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
جی ہاں اندازہ ہوا ہوا ہے ، کہ کہاں گھوم رہا ہوں یعنی دیوار سے ٹکریں مارتا محسوس کر رہا ہوں ۔یا ہوا میں تیر چلارہا ہوں ، کیونکہ مخاطب کو اسکی دلیلیں بھی مجھے ہی بتانا پڑتی ہیں ، یاد کروانا پڑتا ہے کہ بھئی آپ اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کی صدا لگاتے ہو اس سے نہ ہٹو ۔لیکن۔۔۔۔۔آٹھویں بات:
آپ قبلہ اول کی طرح اس مسئلہ پر غور وفکر سے دلیل پیش کرنے پر جب بیٹھیں گے تو آپ کے سامنے بھی حقیقت کھلے گی کہ میں کہاں گھوم رہا ہوں۔
اگر آپ دو جمع دو برابر چار کو دلیل مانتے ہیں تو اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کا نعرہ لگانا چھوڑ دیجئے ۔ پھر دو جمع دو برابر چار اور چار جمع چار برابر آٹھ کہیں گے تو تسلیم کیا جائے گا ، ایسے نہیں سر جی ۔مزاح نہیں محترم... پتہ نہیں آپ کو ابھی سے کیا ہوگیا ہے حقیقت کو بھی مزاح کہہ دیتے ہیں۔؟ دلیل پیش کی ہے۔ آپ خود دیکھ لیں۔ دس کا اثبات پیش کیا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں۔ ایک بات کو پورا کردیا ہے۔ یہ بھی آپ خود دیکھ لیں محترم سہج صاحب۔
آپ صرف دس کے اثبات اور اٹھارہ کے نفی والی "دلیل" پیش کیجئے ، تاکہ ہم پھر اگلی بات کی طرف بڑھیں ۔ یعنی سنت یا حدیث اور اگر سنت تو پھر فجر جیسی یا عصر جیسی ۔۔۔۔۔کردیا ہے۔ آپ جب سمجھیں گے۔سمجھ آجائے گی۔ لیکن اگر نہ بھی سمجھ آئے تو آسان ترین انداز میں آپ کو سمجھا بھی دیا جائے گا۔ پریشان نہ ہوں۔
سبحان اللہ ، خوشی ہوئی جان کر کہ آپواہ خوب سہج صاحب کیا اب آپ الزام لگانے پہ آگئے ہیں؟ اس کے علاوہ اب باقی کچھ نہیں بچا کہنے کو ؟ ’’بھئی قیاس آپ کے ہاں دلیل شرعی نہیں ۔‘‘ میں نے کہاں اور کس جگہ کہا ہے کہ میں قیاس کو نہیں مانتا۔ ثبوت ۔ثبوت۔ثبوت۔ ورنہ الزام قبول فرمائیں۔
کے علاوہ "قیاس" بھی مانتے ہیں ۔ کیا خیال ہے آپ کی اس بات پر اک نیا تھریڈ نا جاری کریں ؟اطیعوا الله و اطیعوا الرسول
یہ ہے فرقہ اہل حدیث کا اصل انداز بیان ۔ فلحال اس سے زیادہ نہیں کہوں گا ۔۔۔۔۔ بس حقیقت کا انتظار کرتے ہیں ۔ابن عمر کی پیش دلیل کی حقیقت سامنے آنے سے پہلے تک آپ کو اس پر گزارہ کرنے کی اجازت بھی ہے اور آپ سے تب تک کوئی نہیں پوچھے گا۔کم از کم میں نہیں۔ لیکن جب اس پیش کردہ روایت کی حقیقت سامنے آجائے گی تب اس دلیل کے پاس بھی آپ کو پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔۔ سن لیا محترم سہج صاحب۔ فلحال آپ اسی عارضی گزارہ پر ہی گزارہ کریں۔
ایک تانگہ چلانے والے سے تصدیق کروائی تھی کسی نے تو اس نے بتایا تھا کہ جب گھوڑا بدمعاشی کرتا ہے اس وقت وہ اوپر نیچے دم مارتا ہے ۔ باقی آپ "تحقیق" کرلیجئے گا ۔آپ نے صحیح مسلم کی حدیث پیش کی... پہلی بات کیا آپ بتا سکتے ہیں اس میں کس رفع کے بارے میں کہا جارہا ہے؟ پہلی رفع کے بارے میں؟ یا باقی رفعوں کےبارے میں ؟ یا سب کے بارے میں ؟ دوسری بات آپ نے کن الفاظ سے پہلی رفع کا استثناء ثابت کرکے باقی رفعوں کو شریر گھوڑوں کی دموں کی مثل قرار دیا ہے ؟ تیسری بات کیا آپ کے علاقے میں گھوڑے اوپر نیچے دم ہلاتے ہیں یا دائیں بائیں ؟ یا ایک بار اوپر ایک بار دائیں ایک بار نیچے ایک بار بائیں ؟
صریح دلیلیں پیش کردی گئی ہیں ۔جی جی بھائی جان جی......یہ تو آپ سے مطالبہ ہے اور رہے گا۔
آپ خود ہی بتائے جب آپ " مقلد" کو کہ جس کے گلے میں "پٹہ" ڈلا ہوا ہے وہ ایس کھل کرکھیلتا ہے اور اپنی مرضی چلاتا ہے تو پھر جو "غیر مقلد " پٹہ " توڑ چکے ان کا کیا حال ہوگا ؟ بتانا پسند کریں تو بتادیجئے۔یعنی جو مقلد ہو وہ کھل کھیلے۔۔ وہ کسی چیز کا پابند نہیں ؟ چلیں کم از کم آپ جو اعمال کرتے ہیں ہم انہیں کی دلائل تو صریح صحیح مانگ سکتے ہیں یا یہ بھی حق آپ کے مقلد ہونے سے ہم سے چھین لیا جاتا ہے۔ کیا مقلد جو مرضی کرے جس طرح شریعت میں من مانی کرے کوئی اس بات کے قابل نہیں کہ وہ مقلد سے صریح صحیح دلیل کامطالبہ کرسکے۔ ..... بھائی جان آخر قلد ہوکر آدمی ایسی کس خصوصیت کو پا لیتا ہے کہ اس کو شریعت کے اندر من مانی کرنے کی سرٹیفکیٹ مل جاتی ہے۔۔۔ ذرا ہمیں بتانا پسند فرمائیں گے ؟
جی ہاں مجھ پر بھی ہے اور میں الحمدللہ دلائل پیش کرچکا ایک کا اثبات اور باقی کی نفی ۔ اور آپ نے دلیل پیش کرنی ہے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔ ٹھیک ؟اگر یہ پابندی ہم پر ہے تو بالاولیٰ آپ پر بھی ہے۔
میرے اٹھائے گئے سوالات کے جواب اب پیش کرنے ہیں آپ نے صرف ۔یعنیسمجھ تو پہلے گیا تھا۔ اور سمجھ کر ثابت بھی کردیا تھا لیکن آپ کی سمجھ کو پتا نہیں کس کی سمجھ لگ گئی ہے۔ جو آپ کو آسان انداز میں لکھی اردو بھی سمجھ نہیں آرہی۔۔چلیں خیر کوئی بات نہیں۔
دس جگہ رفع یدین کرنے کا اثبات مکمل، اور اٹھارہ جگہ کی نفی مکمل
بغیر قیاس لگائے، اور اگر قیاس آپ کی تیسری دلیل بن چکی ہے تو اس کی دلیل فراہم کردیں پھر ان شاء اللہ آپ سے دو دلیلیں نہیں تین مانگیں گے اور ساتھ میں آپ کو اپنا نام بھی تبدیل کرنا ہوگا جیسے ہم چار دلیلیں مانتے ہیں تو ہم ہوئے اہل سنت والجماعت حنفی ویسے ہی آپ کو بھی نام رکھنا ہوگا جیسے کہ اہل حدیث والقیاس، کیا خیال ہے ۔
بغیر تاویلات
امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ ؟ سوری بھول گیا تھا کہ آپ کہہ چکے
شکریہسمجھ تو پہلے گیا تھا۔
نوٹ : گڈ مسلم نے پوسٹ نمبرچھبیس اور اٹھائیس بھی پیش کی ہوئی ہے ۔ ان شاء اللہ اس پر بھی گزارشات پیش کرو گا ۔ وقت ملتے ہی