• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مختلف فیہ رفع الیدین منسوخ ہے۔؟

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
محترم سہج صاحب آپ کی پوسٹ نمبر32 میری پوسٹ نمبر26 کا جواب ہے۔ پہلے تو اس بات کا جائزہ پیش کیے جاؤں کہ میں نے اپنی اس پوسٹ میں آپ سے کیا کیا پوچھا تھا ؟
1۔ گنتی کا ذکر دلیل میں ہونے کے مطالبے کو جب میں نے وضاحتی انداز میں پوچھا تب آپ نے رانگ رانگ کہا لیکن اس رانگ رانگ کے ساتھ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی، گنتی کے ساتھ کہتے جانا کیا ثابت کرتا ہے۔ ؟
دس کا اثبات یا دس تک کی گنتی آپ کے عمل کے مطابق ،آپ کی پیش کردہ "دلیل" میں مزکور نہیں ۔ ریکارڈ درست کرلیجئے ۔ رانگ رانگ سہی کہا تھا اور دس کا اثبات بھی سہی کہا اور اٹھارہ کی نفی بھی سہی کہا ۔ کیونکہ آپ ابھی تک بلکل ہی ناکام ہیں اپنے عمل کے عین مطابق "دلیل" پیش کرنے میں ۔
2۔ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کاعمل پہلے کا تھا اور صحابی﷜ کا عمل بعد کا ہے ؟ کیا نبی کریمﷺ کے عمل کو صحابی﷜ کا عمل منسوخ کرسکتا ہے ؟
منسوخ کرنہیں سکتا بلکہ منسوخ دکھا سکتا ہے ، اپنے ہی عمل سے ۔ کیونکہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل اپناتا ہے ۔وہ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری رکھا اور خلفہ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جاری رکھا ۔
3۔ صحابی﷜ کے فعل کو ماننے سے پہلے نبی کریمﷺ سے رفع الیدین کا مسنوخ ہونا ثابت کرنا ہوگا۔واضح، صریح، صحیح دلائل سے۔
یہی قانون تو آپ کا دعوٰی ہے جناب ، اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ، اور اسی کے مطابق تو آپ سے آپ کے عمل پر دلیل کا طالب ہوں ۔ اور آپ ہیں کہ صرف امتیوں کے قول پیش فرمارہے ہیں وہ بھی آپ کے عمل کو ثابت نہیں کرتے بلکہ آپ کو دو جمع دو چار کا سہارہ لینا پڑتا ہے ۔ گڈ مسلم صاحب دس جگہ رفع یدین کرنے کے اثبات کی گنتی دکھائیے صریح واضح صحیح دلیل پیش کرکے۔اور میں الحمد للہ اسکوا فی الصلاۃ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی صریح روایات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صحابی کے زریعے پیش کرچکا ۔مزید بھی ان شاء اللہ پیش کروں گا۔
4۔ نبی کریمﷺ سے منسوخیت ثابت کریں یا صحابی﷜ پر لگائے گئے الزام کے مجرم بنیں
گڈ مسلم صاحب ، الحمد للہ میں صحابی کے عمل کا بھی منکر نہیں اور صحابی کے حکم کا بھی ، یہ تو جناب کو معلوم ہی ہوگا کہ "صحابی کا قول" آپ کے فرقہ اہل حدیث میں "حجت" نہیں ۔ اسلئے ہم اہل سنت والجماعت حنفی دیوبندیوں پر یہ جھوٹا الزام نہ لگاہی لگائیے۔ رہی یہ بات کہ الزام کیا ہے تو مسٹر گڈ مسلم آپ ہی نے فرمایا تھا یہی اوپر اپنے سوال نمبر دو کا نظارہ دیکھ لیجئے
2۔ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کاعمل پہلے کا تھا اور صحابی﷜ کا عمل بعد کا ہے ؟ کیا نبی کریمﷺ کے عمل کو صحابی﷜ کا عمل منسوخ کرسکتا ہے ؟
یہ گستاخانہ سوال آپ کی ہی زبان و انگلیوں و دماغ سے سادر ہوا ہے ۔ اور یہ معانی آپ ہی نے پیش کئے ہیں "زمانے" والی بات کے رد عمل میں دیکھئیے

ساتویں بات ہاں یہ سمجھ لیں کہ آپ کا پیش کردہ عمل پہلے زمانے کا تھا اور میں نے بعد کے زمانے کا عمل پیش کیا ہے
پوسٹ نمبرپچیس
اسکے جواب میں آپ کا انداز تحریر دیکھئیے۔
یہ کیسا صحابی﷜ تھا جس نے نبی کریمﷺ کے عمل کے خلاف عمل جاری کرلیا تھا ؟
پوسٹ نمبر چھبیس
اور اب الزام بھی مجھ پر کہ "مجرم" ؟؟؟ یعنی اپنا جرم میرے سر مونڈتے ہوئے کچھ بھی خیال نہ آیا کہ کیا کرنے جارہے ہیں ؟ جناب صحابی کو نبی کے خلاف عمل بتانے کا خناس آپ کا ہے میرا نہیں میں الحمد للہ صحابی رضی اللہ عنہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر قول فعل و تقریر کو مانتا ہوں ۔ ہاں عمل اس قول فعل پر کرتا ہوں جو الحمد للہ تعالٰی "آخری" زمانے کا ہو جیسے رفع یدین سجدوں میں آپ بھی نہیں کرتے ، تو اگر نہیں کرتے تو "زمانے" کے فرق کی وجہ سے یا کوئی اور ہی وجہ ہے ؟ شاید ان تمام روایات کو "جھوٹ" مانتے ہیں آپ جن میں سجدوں کی رفع یدین کرنے کا زکر ہے ؟ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے فرقہ کے ہی اکابرین میں سے بعض سجدوں کی رفع یدین کو "مستحب " قرار دے چکے۔ ان شاء اللہ جب آپ اٹھارہ جگہ رفع یدین کی نفی کی "دلیل" پیش کریں گے تب اس پر بھی بات کریں گے ۔ابھی آپ صرف دس جگہ رفع یدین کرنے کی اثباتی دلیل تلاش کیجئے جس میں صاف صاف گنتی کے ساتھ دکھاسکیں۔
5۔ ابن عمر﷜ کے عمل پر آپ کی پیش کردہ روایت کی اسنادی حالت
پچھلے مراسلہ میں اسناد پیش کی ہیں ایک روایت کی دوبارہ دیکھ لیں۔
حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهدقال ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح .
مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
اعتراض آپ جو بھی کریں پہلے صحیح بخاری جسے آپ کا ماننا ہے کہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے ،سے ایک روایت پیش خدمت ہے اور بتائیے گا کہ اس میں روایت کرنے والے کون کون ہیں ؟

حدثنا محمد بن مقاتل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا عبد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا أبو بكر بن عياش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان التمار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنه حدثه أنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رأى قبر النبي صلى الله عليه وسلم مسنما‏الخ
صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔الخ
بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں جناب ، تو پھر بتائیے اسی اصح الکتب کے راوی پر یہ اعتراض کیسا ؟اور ناماننے کا اقرار کیوں ؟ ضد یا کچھ اور ؟
6۔ اگر نبی کریمﷺ کاعمل ثابت کردیا جائے اور حکم ثابت نہ کیا جائے تو کیا آپ مانیں گے یا نہیں ؟
الحمد للہ صحابی رضی اللہ عنہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر قول فعل و تقریر کو مانتا ہوں ۔ ہاں عمل اس قول فعل پر کرتا ہوں جو الحمد للہ تعالٰی "آخری" زمانے کا ہو ۔ جبکہ آپ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہونا کافی ہے ۔ کیوں ہے کہ نہیں ؟زمانے کے فرق کو آپ مانتے ہی نہیں ۔ جیسے کبھی تو سجدوں میں رفع یدین کی ہی ہوگی ؟آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل جو رہا تھا ۔
اخبرنا محمد بن مثنی قال حدثنا معاذ بن ھشام قال حدثنی ابی عن قتادۃ نصر بن عاصم عن مالک بن الحویرث
ان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا دخل فی الصلاۃ رفع یدیہ وذا رکع فعل مثل ذلک واذا رفع راسہ من الرکوع فعل مثل ذلک واذا رفع راسہ من السجود فعل مثل ذلک کلہ یعنی رفع یدیہ

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، نصربن عاصم، مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس
وقت نماز شروع فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے تھے تو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بھی اس طریقہ سے کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔
صحیح نسائی،باب:سجدے سے اٹھتے رفع یدین کرنا،جلد اول
پہلی بات:اب یہ آپ کو یاد رکھنا چاھئیے کہ آپ "زمانے " کے فرق کو مانتے ہی نہیں ہیں ۔
دوسری بات:مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل بتایا ہے یا معاذ اللہ کچھ اور کیا ہے ؟
تیسری بات:بتاہی دیں آج کہ اس روایت پر عمل ہے جناب کا یا نہیں ؟
چوتھی بات:یا یہ کہیں گے کہ یہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی روایت نہیں ؟
جو بھی جواب دیں اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے عین مطابق دلیل سے ۔
7۔ اجماع اور قیاس کو میں دلیل مانتا ہوں یا نہیں ؟
اس سوال کا جواب آپ اپنے فرقہ جماعت اہل حدیث یعنی اجماع اور قیاس کو گمراہی و شرک وغیرہ کہنے والوں سے پوچھئیے اور پھر مجھے بتادیجئے کہ آپ کس کشتی میں سوار ہیں ؟

یہ تو وہ باتیں تھیں جو آپ سے پوچھی گئی تھیں،اشارۃً یہاں پیش بھی کردیا ہے تاکہ آپ کو پتہ چلتا رہے کہ مجھ سے کیا کیا پوچھا گیا تھا اور میں نے کس کس کا جواب دینے کی سعی کی۔
سعی کی ہے پھر سے ، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں کوئی بات ۔

مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کو بھولنے کی بیماری کےساتھ ساتھ نظر کی کمزوری کا بھی لاحقہ ہے۔ اللہ ہر طرح کی رحمت کرے سب پر۔ محترم جناب مولانا سہج صاحب پہلے آپ نے گنتی، گنتی، گنتی کی گردان لگائی ہوئی تھی اور جگہ، جگہ، جگہ کی گردان شروع کرنے لگے ہیں ۔ کیا بات ہے سہج صاحب یہ آہستہ آہستہ الفاظ میں تبدیلیاں آنا کیوں شروع ہوگئی ہیں ؟ کیا کوئی مسئلہ تو نہیں؟ میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتا دینا۔ وسعت کے مطابق ضرور ہیلپ کرونگا۔ ان شاء اللہ
شروع سے اگر آپ کی پوسٹس پر نظر گھمائی جائے تو ہر پوسٹ میں گنتی گنتی کا مطالبہ نظر آتا ہے۔ ہاں اگر کسی جگہ آپ نے لکھ بھی دیا کہ دس جگہ کا اثبات اور اور اٹھارہ جگہ کی نفی تو سابقہ یا لاحقہ میں گنتی گنتی کی گردان ضرور پڑھی ہوتی ہے۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی وہ بھی گنتی کے ساتھ۔ مثلاَ
مزید بھی پوسٹیں آپ خود دیکھ لینا، آپ کومعلوم ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ اب آپ نے کہہ دیا کہ
مسٹر سہج صاحب اِدھر اُدھر گھم گھما کر آپ پھر اسی جگہ آجاتے ہیں۔ جہاں سے آپ نے شروع کیا ہوتا ہے۔ جب میں آپ سے وضاحتی بیان لینے کی غرض سے کہ
تو آپ جواب میں رانگ رانگ لکھتے جارہے تھے۔ اور جب میں نے پوچھ لیا کہ جناب رانگ رانگ کے ساتھ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ کیا رنگی ہے؟ تو اس رنگی کے آجانے سے ابہام مجھ سے پوچھا جارہا ہے۔؟ یہ کیا بات ہے سہج صاحب۔
مسٹر گڈ مسلم آپ دس جگہ رفع یدین کرتے ہیں یا نہیں ؟ اسی کی گنتی دکھانے کی بابت میں درجنوں بار درخواست کر چکا ہوں جسے آپ مانتے ہی نہیں۔یا دکھا ہی نہیں سکتے اور سہارہ ہے جناب کا دوجمع دو چار ۔
آپ صرف اٹھارہ(یہ گنتی ہے)
جگہ

کی نفی اور صرف دس(یہ بھی دیکھ لیں گنتی کا تقاضہ ہے)
جگہ

کا اثبات دکھائی
امید ہے سمجھ شریفہ میں بات آجائے گی اگر نہیں تو بتادیجئے باقی کا ابہام بھی دور کرنے کی کوشش کروں گا۔

آپ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہاں مجھے اس طرح کی حدیث چاہیے۔ تو پھر ان شاء اللہ میں کئی ایسے مسائل پیش کرونگا اور ان کا جواب قرآن وحدیث سے نہیں بلکہ فقہ حنفی سے طلب کرونگا کہ جناب اس اس مسئلہ میں اس اس طرح کی دلیل مطلوب ہے۔ پھر دیکھوں گا کہ آپ میرے پیش کردہ کتنے مسائل کو آپ جیسے مطالبہ کے تحت پیش کرپاتے ہیں۔ غور کرلینا ایک بار۔
آپ کی دلیل ہے کیا ؟ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ ہے کہ نہیں ؟ جناب سے ان میں سے ہی دلیل مانگی تھی آپ کے عمل کے مطابق یعنی دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ رفع یدین نہ کرنے کی ۔ بس۔ اس میں اتنا غصہ کرنے کی ضرورت کیا ہے یہ مجھے سمجھا دیں ۔

میں کتنی دلیلیں مانتا ہوں، اس کےلیے پورے ایک تھریڈ کا لنک پیش کردیا تھا۔
لنک نہیں جناب یہیں پر لکھ دیجئے دو سطروں میں صرف ۔ تاکہ معلوم ہو کہ آپ کتنی دلیلوں کا اضافہ کرچکے ہیں اور پرانا نعرہ اہل حدیث کے دو اصول اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کو چھوڑ چکے۔

پہلی بات میں نے جو دعویٰ کیا تھا کہ ہم جن جن مقام پہ رفع الیدین کرتے ہیں وہ بادلائل صحیحہ، صریحہ واضحہ ثابت کرونگا ؟ وہ تو میں نے ثابت کردیا اور آپ کی طرف سے جوابی بیان بھی مل چکا کہ مجھے اس دلیل سے کوئی انکار نہیں۔ اور پھر آپ کا یہ جواب ایک بار نہیں کئی بار مل چکا ہے۔
پہلی بات آپ نے اپنا عمل صحیح صریح دلیل سے ابھی تک نہیں دکھایا ۔ یعنی دس جگہ رفع یدین کرنے کا ۔ تو ثابت آپ نے کیا کیا ؟ جوابی بیان اب پھر دیکھ لیں
دیکھئیے گڈ مسلم صاحب میں پہلی بار کرنے کی اور باقی تمام کی تمام نہ کرنے کے دلائیل پیش کرچکا ۔ کیونکہ ہمارا عمل بھی یہی ہے ۔ اور آپ کا عمل مختلف آپ رفع یدین شروع ، رکوع جاتے ،اٹھتے،اور تیسری رکعت میں کرتے ہیں اور سجدوں وغیرہ میں چھوڑتے ہیں ۔ تو بھئی حدیث میں صراحت آپ کو دکھانا لازم ہے جس کا مطلب وہی بنے جو آپ کا عمل ہے ، اور یہ آپ نے دکھایا نہیں اور صرف دو+2=4 کیا ہے ۔ اسلئے آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ دلیل پیش کیجئے جس سے آپ کا رفع یدین کرنے والا عمل بغیر 2+2=4 کئے نظر آئے ۔
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا الحمد للہ میں ماننے والا ہوں ہاں زمانے کے فرق کی وجہ سے اس پر عامل نہیں اور یاد رکھئیے آپ زمانے کے فرق کو نہیں مانتے ۔ تو بغیر دو جمع دو چار کئے دلیل پیش کیجئے یا پھر کہہ دیں کہ آپ اسی قیاس کی وجہ سے رفع یدین کرتے ہیں میں وہ بھی مان لوں گا جھگڑوں کا بلکل نہیں ، بلکہ پھر میں اگلی دلیل مانگوں گا یعنی اٹھارہ جگہ کی نفی ، اور جب اس کے بارے میں بھی مان لیں گے کہ قیاس سے اٹھارہ چھوڑتے ہیں تو پھر آخر میں حدیث اور سنت کا سوال اٹھالیں گے ۔ اور وہاں بھی آپ کو ماننا پڑے گا مسٹر گڈ مسلم کہ آپ اگر سنت مانتے ہو رفع یدین کرنے کو تو قیاس ہی سے ۔ "دلیل" وہاں بھی آپ کے دعوے کے مطابق آپ کو نہیں ملے گی ۔

دوسری بات دس کا اثبات اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ آپ کا اپنا گھڑا ہوا بلکہ چوری کیا ہوا دعویٰ ہے، ہاں میں نے یہ کہا کہ جن مقامات پہ رفع کو میں نے ثابت کردیا ہے اگر آپ گنتی کرنا چاہتے ہیں تو دس کااثبات بھی اسی حدیث میں ہے اور اٹھارہ کی نفی بھی اسی حدیث میں ہے۔لیکن آپ ہیں جو سمجھ کو تکلیف ہی نہیں دے رہے۔
مسٹر گڈ مسلم پہلے دس جگہ رفع یدین کرنے کی اثباتی دلیل سے تو گنتی دکھالیں ، نفی والی جگہوں کی گنتی کی باری ابھی نہیں آئی اور اور اور سرجی گنتی دو جمع دو چار کی مہتاج کیوں ھے آپ کی ؟ دو جمع دو چار چھوڑدیجئے یا مان لیجئے کہ آپ دو ہی دلیلوں کا نعرہ چھوڑ کر توبہ کرچکے اب اگلی دو دلیلیں ماننے لگے ہیں ۔ میں لڑوں گا بھی نہیں اور جھگڑوں گا بھی نہیں بلکہ آپ کو سلام پیش کروں گا ۔ ان شاء اللہ

میں بھی پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ واضح انکار کر بھی نہیں سکتے ( کیونکہ کسی مسلمان میں اتنی جراءت ہی نہیں کہ وہ صاف انکار کرسکے) ہاں قیل وقال سے منکرین حدیث یا تقیہ باز لوگوں کی طرح انکار کرتے بھی جارہے ہیں۔
اس کا مطلب ہے آپ "زمانے " کے فرق کی بات کو تقیہ کہہ رہے ہیں ؟ تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ آپ سجدوں کی رفع یدین بھی کرتے ہیں ، روایت اوپر میں پیش کرچکا اس پر عمل شروع کرنے کا اعلان کیجئے پھر "زمانے" کے فرق کی بات کو تقیہ کہیں ۔ ان شاء اللہ زمانے کا فرق یہی پر سمجھ آجائے گا اگر "ضد " آرے آجائے تو بتادیجئے گا کیونکہ
اصح الکتب بعد کتاب اللہ
ہے ناں۔

٭ محترم سہج صاحب آپ کو بحث ومباحثہ کرنے کا تو بہت شوق ہے لیکن بات کیسے کرنا ہوتی ہے ؟ یا مخالف کو دلیل کیا، کیسی اور کس ٹائم دینی ہوتی ہے اس بات کی ہوا تک بھی آپ کو معلوم نہیں۔ جب میں نے ابن عمر﷜ کے بیان میں نبی کریمﷺ کا عمل پیش کیا تو بجائے اس کے کہ آپ ابن عمر﷜ کا نبی کریمﷺ کے مقابلے میں عمل پیش کرتے آپ کو ’’اسکنوا فی الصلاۃ‘‘ والی حدیث پیش کرنی چاہیے تھی، کیونکہ میں نے نبی کریمﷺ کا عمل پیش کیا آپ کو بھی نبی کریمﷺ کا عمل یا امر پیش کرنا چاہیے تھا۔ نہ کہ نبیﷺ کے عمل کے مقابلے میں صحابی﷜ کا عمل پیش کرنا۔آپ کی اس حرکت سے بہت سارے ابہام پیدا ہوگئے۔۔ چلیں میرے ساتھ بات کرتے کرتے آپ کو بات کرنے کا ڈھنگ بھی آجائے گا۔ ان شاء اللہ
جی ہاں آپ کے لئے بے شمار ابہامات پیدہ ہوگئے ہیں جیسے " زمانے کا فرق" ۔ باقی رہا کس روایت کو کب پیش کرنا ہے یہ آپ کی پریشانی نہیں ۔
٭ آپ نے پوچھا کہ
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: sahj پیغام دیکھیے
ہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ اگر ہمیشہ یعنی دنیا سے رخصت ہوتے وقت تک وہی عمل کرتے رہے جو روایت سے پیش کیا گیا تو جناب آپ ایسی حدیث پیش کردیجئے ان شاء اللہ اسے بھی مان لوں گا
آپ نے جو ابن عمر﷜ کا رفع الیدین نہ کرنے کی روایت پیش کی ۔ کیا آپ ایسی روایت پیش کرسکتے ہیں ابن عمر﷜ کے بارے میں کہ وہ﷜ دنیا سے رخصت ہوتے تک یہی عمل کرتے رہے تھے۔ یعنی رفع الیدین نہ کرنے کا۔ ان شاء اللہ میں بھی مان لونگا۔
لیکن میں آپ کو صحابی﷜ کے ذریعے نبی کریمﷺ کے بارے میں یہ الفاظ دکھا دیتا ہوں
عن ابن عمر - رضي اللّه عنهما - قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة، رفع يديه، حتى يكونا حذو منكبيه، ثم يكبر، فإذا أراد أن يركع، رفعهما مثل ذلك، وإذا رفع رأسه من الركوع، رفعهما كذلك، وقال: سمع اللّه لمن حمده، ربنا ولك الحمد. رواه البخاري، ومسلم، والبيهقي، وللبخاري: ولا يفعل ذلك حين يسجد، ولا حين يرفع رأسه من السجود. ولمسلم: ولا يفعله، حين يرفع رأسه من السجود. وله أيضاً: ولا يرفعهما بين السجدتين. وزاد البيهقي: فما زالت تلك صلاته، حتى لقي اللّه تعالى.
کچھ سمجھ آیا جناب من ؟
اگر آپ نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا کہ میں ابن عمر﷜ کے بیان کے مطابق تاحیات ان کا عمل بھی صراحت کے ساتھ پیش کروں کہ ابن عمر﷜ بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ تو پھر اس مطالبے کو پورا کرنے سے پہلے آپ میرا یہ مطالبہ پورا کریں۔کیونکہ آپ ابن عمر﷜ نے حوالے سے بات پوچھ رہے ہیں میں نے نبی کریمﷺ سے ثابت کردیا ہے۔ الحمد للہ
’’ آپ نے جو ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا ۔ کیا آپ ابن عمر﷜ کا اس عمل پر تاحیات دوام ثابت کرسکتے ہیں ؟
ہاں نبی کریمﷺ کے حوالے سے دوام میں نے ثابت کردیا ہے۔ الحمد للہ
پہلی بات:فما زالت تلك صلاته، حتى لقي اللّه تعالى یہ قول کس کا ہے ؟ بتانا پسند فرمائیں گے ؟
دوسری بات : اور یہ عمل کس کا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ؟
تیسری بات: دس جگہ کی گنتی اور اٹھارہ جگہ کی گنتی تو یہاں بھی نہیں دکھائی آپ نے ۔

٭ پھر وہی پرانی باتیں کرنا شروع ہوگئے ہیں آپ ؟ اپنی زبانی اس طرح کی دلیل پیش کرنے کو غلط بھی کہتے ہیں اور پھر اسی طرح کی دلیل کا مطالبہ بھی کرتے جاتے ہیں ؟ اگر ہر رکعت میں رکوع جانے اور رکوع سے اٹھنے کی صراحت نہیں تو پھر کیا آپ صراحت کے ساتھ یہ بات پیش کرسکتے ہیں بادلائل صحیحہ کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ ہر ہر رکعت میں دو سجدے کرنے ہیں اور چار رکعتوں میں آٹھ سجدے ہوجائیں گے ؟ ویسے کمال کے آدمی لگتے ہو ؟
یہ سوال خود آپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے جناب کہ آپ محتاج ہیں دوجمع دو چار کے ۔
٭ محترم جناب مولانا سہج صاحب اگر ہر ہر رکعت پر آپ والا اصول یا سوال ایپلائی کیا جائے تو کوئی بھی رکعت آپ کامل بادلائل صحیحہ صریحہ ثابت نہیں کرسکیں گے۔۔ اس لیے شریعت ایک قاعدہ واصول فراہم کیا کرتی ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں جزئیات کو حل کیا جاتا ہے۔
وہ اصول اور قاعدہ ہے دو جمع دو چار ۔ ٹھیک؟ اور آپ سے ابھی ساری نماز کی بات نہیں ہورہی جناب ان شاء اللہ جب اس پر بات ہوگی تو پھر اصول اور قوائد دیکھیں گے آپ کے ۔ فلحال تو آپ دس جگہ رفع یدین کے اثبات کی گنتی دکھائیے
٭ واہ بہت یعنی چوری کوئی کرے اور سزا کوئی بھرے۔۔ گواہی آپ نے پیش کی ہے مجھے اعتراض ہے آپ کی گواہی پہ تو پھر ثابت کس کو کرنا ہوگا ؟ مجھے ؟ واہ جناب واہ
پہلے بھی اک گواہی کی صداقت کا ثبوت دکھایا تھا آپ کو اب پھر اک اور دکھاتا ہوں ، اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہی سے۔
حدثنا عبد الله بن محمد،‏‏‏‏ حدثنا يحيى بن آدم،‏‏‏‏ حدثنا((((((((((((((((((((( أبو بكر بن عياش،))))))))))))))))))))((((((((((((((((‏‏‏‏ حدثنا أبو حصين،)))))))))))))))))))))))))‏‏‏‏ حدثنا أبو مريم عبد الله بن زياد الأسدي،‏‏‏‏ قال لما سار طلحة والزبير وعائشة إلى البصرة ۔۔۔الخ
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے((((((((( ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابوحصین نے بیان کیا)))))))))) ، انہوں نے کہا ہم سے ابومریم عبداللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم بصرہ کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔الخ
صحیح بخاری،کتاب الفتن


محترم جناب میں نے مقام ثابت کردیئے ہیں۔ اور کئی بار آپ کو کہہ بھی چکا ہوں کہ کیوں گنتی کے پیچھے پڑے ہو ؟ اگر جن جن مقام پہ رفع کی جاتی ہے وہ بادلائل صحیحہ ثابت ہوجائے لیکن گنتی کا اس میں ذکر نہ ہو تو کیا آپ ان دلائل کو گنتی کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے ٹھکرا دیں گے ؟
آپ دس جگہ رفع یدین کرنے کا انکار کردیجئے میں گنتی نہیں پوچھوں گا ، اگر آپ دس جگہ رفع یدین کرنے کے دعوے دار ہیں تو پھر گنتی تو دکھانی پڑے گی ۔ دو جمع دو چار کے بغیر ۔
اور پھر اگر اس گنتی کو ہی اعتراض بنایا جائے تو ایک، دو، تین، چار، پانچ، سات، نو وغیرہ رکعات کی نمازوں کےلیے الگ الگ دلائل چاہیے ہونگے کیونکہ جتنی رکعات بڑھتی جائیں گی اتنی تعداد میں رفع الیدین کی تعداد بڑھتی جائے گی
گڈ مسلم آپ چار رکعت سے زیادہ یعنی پانچ سات اور نو رکعت بھی ایک ساتھ پڑھتے ہیں ؟ پہلے بھی آپ نے ایسا ہی کچھ کسی پوسٹ میں لکھا تھا جسے میں نے نظر انداز کیا تھا کہ شاید آپ نے مزاح فرمایا ہے۔ اب پھر سے ویسا ہی لکھا ھے آپ نے تو پھر کیوں نہ آپ سے وضاحت مانگ لی جائے کہ آپ سات رکعت نماز ایک تکبیر تحریمہ کے ساتھ کب ادا فرماتے ہیں ؟ اگر فرماتے ہیں تو بتائیے دلیل کے ساتھ ورنہ بات کو چار رکعت تک ہی رکھئیے فضول مثالیں بھی دینے کی ضرورت بلکل نہیں ھے۔ اپنے لئے مشکلات بڑھانے سے بہتر ھے آسان الفاظ میں دس کے اثبات کی دلیل پیش کردیں اپنے عمل کے عین مطابق۔
اس لیے شریعت نے ہمیں مقام بتائے ہیں کہ آپ نے ان ان مقام پہ رفع کرنا ہے۔ چاہیے وہ مقام کسی بھی نماز میں جہاں جہاں بھی آئیں ۔ سمجھ گئے ناں محترم المقام صاحب ؟
اچھا؟ پھر آپ کو دو جمع دو کرنے کی اجازت شریعت کے کس اصول نے دی ہے ؟ یہ بھی بتادیجئے ؟
شریعت سے مراد اگر روایات ہیں تو ان میں رکوع سجود کے وقت رفع یدین کی روایات بھی ہیں اور رکوع جانے کی بھی اٹھنے کی بھی اور شروع نماز کے بعد کوئی بھی رفع یدین نہ کرنے کی بھی ۔ تو وہ اصول مجھے بھی بتادیجئے جس کی روشنی میں جناب نے "فیصلہ" کرلیا کہ دس جگہ رفع یدین کرنی ہیں اور اٹھارہ جگہ نہیں کرنی؟ اور اگر شریعت سے مراد آپ کی یہ ہے کہ دو جمع دو چار تو پھر بھی بتادیجئے ۔

٭ پہلے تو آپ اس بات کا اقرار کریں کہ میں نے صحابی﷜ کا عمل پیش کیا تھا یا نبی کریمﷺ کا ؟
صحابی کا ۔کیونکہ صحابی جو عمل بتاتا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہوتا ہے ۔ عمل کس پر کرنا ہے ؟ یہ ہے بات زمانے زمانے کی ۔
٭ میری غلط بیانی نہیں محترم جناب۔ درست کہہ رہا ہوں کیونکہ آپ حقیقت میں ایسا ہی کررہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ میاں مٹھو بھی بنے جارہے ہیں۔ خدارا تعصب وتنگ نظری سے دور کہیں سوچیں۔
آپ کا یہ کہنا کہ ہم تابعی یا صحابی کے عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر فوقیت دیتے ہیں یہ آپ کی غلط بیانی ہے۔
٭ آپ کا مطلب کہ صحابی﷜ کو غلط فہمی ہوئی تھی ؟ نبی کریمﷺ کچھ اور عمل کررہے تھے۔ صحابی﷜ نے کچھ اور سمجھ لیا تھا ؟ آپ کے ان الفاظ میں رافضیت کی بُو آرہی ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے کہ صحابہ کرام﷢ بغیر تسلی وتحقیق کیے اور اچھی طرح جان لینے کے بغیر سرسری نظر سے دیکھ کر آگے بیان کردیا کرتے تھے ؟ کیا آپ یہ الفاظ بول کر دین پر سے اعتبار واعتماد اٹھانا چاہتے ہیں ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بلکل بھی یہ مطلب نہیں تھا جناب کہ صحابی﷜ کو غلط فہمی ہوئی تھی ، بلکہ غلط فہم پر آپ کا اور آپ کے فرقہ اہل حدیث گامزن ہیں ۔ مسٹر گڈ مسلم ، گمراہی پھیلانے والی بات کرتے آپ کو خیال رکھنا چاھئیے میرے لکھے ھوئے الفاظ پھر سے دیکھ لیں
اصل میں صحابی نے جو دیکھا اسے اسی صورت میں بیان کردیا جیسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ۔اور سجدہ کی رفع یدین بھی روایات سے ثابت ہوتی ہے اور اس کا انکار بھی ۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپ وہاں پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کے قائل ہیں ؟ اب یہ آپ کی سمجھ کا ہی قصور ہے کہ کون اعتماد اٹھانا مقصود رکھتا ہے اور کون اعتماد کرتا ہے ۔ میں الحمدللہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مکمل اعتماد رکھتا ہوں اسی لئے ان کی کسی بات کا انکار بھی نہیں ، ہاں صحابہ نے جو بھی بتایا وہ مختلف زمانوں کی باتیں ہیں ، اسی بات کے آپ منکر ہیں اسی لئے تو دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی درد سر بنی ہوئی ہے ۔
٭ نبی کریمﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کسی وجہ سے تھا۔ اب بھی اگر وہی وجہ کسی کو لاحق ہوجائے تو وہ کھڑے ہوکر پیشاب کرسکتا ہے کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ شریعت بہت آسان ہے لیکن پیٹ کے پجاری ملّاؤں نے عوام کےلیے مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے۔
جی جی وجہ آج تک کوئی غیر مقلد "دلیل" سے نہیں بتارہا ۔ جب وجہ بتائیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہی وجہ ہو تو پھر کھڑے ہوکر پیشاب کرسکتے ہیں اور اس وجہ کی بھی دلیل ۔پیٹ کے پجاری ملاؤں کو چھوڑئیے آپ بتادیں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو آپ "سنت" مانتے ہیں یا نہیں ؟ اگر مانتے ہیں تو پھر سجدوں کی رفع یدین بھی "سنت"قرار پائے گی اور اگر جائز کہیں گے تو پھر سجدوں کی رفع یدین بھی جائز ہوگی آپ کے اصول کے مطابق ۔ کیا خیال ہے ؟
٭ سجدوں میں رفع نہ کرنے کی ممانعت اسی پوسٹ میں صریحاً بیان کردی ہے۔ جس کے الفاظ ہیں ’’ ولا يرفعهما بين السجدتين ‘‘
اچھا تو جناب اس صریح بیان کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا ؟
عن عبداللہ قال لا اخبرکم بصلوٰة رسول اللہ اقال فقام فرفع یدیہ اول مرةثم لم یعد
نسائی شریف،جلد ایک
اس روایت میں شروع نماز کی رفع یدین ثابت اور باقی کی ستائیس رفع یدینوں کی نفی موجود ہے کہ نہیں ؟ اس نفی میں سجدے بھی شامل اور رکوع جانے اٹھنے اور دوسری سے چوتھی رکعت کا شروع بھی شامل ۔ مانتے ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ زمانے کے فرق کے قائل ہوجائیں تو اچھی بات ورنہ میں ناں مانوں کا میرے پاس علاج تو کوئی نہیں مگر دکھا الحمدللہ میں نے دیا ہے آپ کو ۔
٭ محترم وہاں ہم دلائل کی رو سے فیصلہ کرتے ہیں لیکن یہاں آپ کا کشکول دلائل کی رو سے بالکل زیرو ہے۔ اس لیے ہم آپ کے فیصلے کو ایسے کیسے مان لیں کہ ایک عمل پہلےزمانے کا اور ایک عمل آخری زمانے کا۔ آپ کو اپنے دعویٰ نسخ پہ واضح دلیل پیش کرنا ہوگی۔ کہ آپﷺ نے فرمایا ہو کہ اس کام کو پہلےجاری کیا گیا تھا لیکن اب میں محمدﷺ اس کام کے بحکم رب جلیل منع کرتا ہوں۔ جس طرح کہ عورتوں کےلیے قبروں کی زیارت کامسئلہ۔ وغیرہ
ضد کا علاج میرے پاس نہیں ، یہ میں کہہ چکا ۔زمانے کا فرق تو میں دکھا چکا کہ پہلے سجدوں میں رفع تھا پھر نہیں رہا ، رکوع میں تھا پھر نہیں رہا ، آخر میں صرف شروع نماز کی رفع یدین رہی باقی سب کا خاتمہ ہوگیا ۔ ٹھیک؟
اب آپ ایک اور روایت دیکھ لیں جسے میں پہلے بھی پیش کرچکا لیکن آپ نے توجہ نہیں فرمائی ،اسلئے اب اسے پھر سے پیش کردیتا ہوں دیکھئیے۔
((اسی پیش کردہ روایت کو جناب نے اپنی پوسٹ نمبر سینتیس میں اقتباس لے کر جواب بھی دے دیا تھا لیکن "زمانے" کے فرق والی بات کو چھوا تک نہیں تھا لنک ))
عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان
گڈ مسلم صاحب اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے ہی آپ کو روایت دکھادی ہے جس میں زمانے کی بات موجود ہے کہ اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو ۔ اور آپ اب تک منکر ہیں امانے کے فرق کو ماننے کے اور امید ہے اب زمانے کے فرق یعنی پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کا انکار نہیں کریں گے ۔ اگر آپ ابتداء اور آخری زمانے کو مان لیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ روایات کا انکار کرنا چھوڑ دیں گے ۔ ان شاء اللہ
آپ کو اپنے دعویٰ نسخ پہ واضح دلیل پیش کرنا ہوگی۔ کہ آپﷺ نے فرمایا ہو کہ اس کام کو پہلےجاری کیا گیا تھا لیکن اب میں محمدﷺ اس کام کے بحکم رب جلیل منع کرتا ہوں۔[/QUOTEگڈ مسلم صاحب سے اسی ڈر سے کہ آپ ایسا ایسا فرمانا شروع کردیں گے اور یہی ہوا بھی کہ آپ نے غیر مقلدانہ اقدامات شروع فرمارکھے ہیں ۔ حضور آپ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کا مطالبہ کیا تھا کہ نہیں ؟ یاد آیا کچھ ؟ زمانے کو آپ مانتے نہیں ، اور سجدوں کی رفع یدین کا انکار بھی کرتے ہیں روایات کی موجودگی کے باوجود ، تو پھر فیصلہ آپ کو دکھانا چاھئیے یا نہیں ؟ آپ سے گزارش ہے کہ ابتداء اور آخر کے زمانے کا فرق مان لیجئے ان شاء اللہ مسئلہ ہی حل ہوجائے گا ۔ پھر آپ کو دس جگہ رفع یدین کی دلیلیں ڈھونڈنے کی ضرورت بھی نہیں پڑیں گی اور اٹھارہ کی نفی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔ کیسے ؟ وہ میں آپ کے صدق دل سے ماننے کے اعلان کے بعد بتاؤں گا ۔ ان شاء اللہ
یہی بات تو میں آپ کو سمجھانا چاہ رہا ہوں سہج صاحب۔ اور اس لیے کہا بھی کہ آپ نے ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا ذرا اس پر نظر کرلیں، امید ہے فائدہ ہوجائے گا۔۔ اور یہ پہلے اینڈ آخری زمانے کا جو آپ نے چکر چلایا ہوا ہے یہ بھی بغیر دلیل کےہونے کی وجہ سے مردود ہے۔۔ اس لیے یا تو واضح اور صریح دلیل پیش کریں یا پھر مان لیں کہ جو روایت آپ نے ابن عمر﷜ کے عمل کےحوالے سے پیش کی اس میں کچھ گڑ بڑ ہے۔
زمانے کے فرق کی وضاحتی روایت اوپر پیش کردی ہے اسے دیکھ لیں ۔
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی کی سند اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے پیش کرچکا ہوں اس سوال کا جواب بھی وہیں سے سمجھ لیجئے۔
قبلہ کامعاملہ صریح دلائل سے ثابت ہے۔ اس لیے ہم تسلیم کرتے ہیں، لیکن آپ تو بغیر دلیل کے صرف حیلوں بہانوں سے ایک کو پہلے زمانے کا اور دوسرے کو آخری زمانے کا عمل بتلا کر اصول وضع کررہےہیں کہ ہمیں تو آخری زمانے کا عمل لینا چاہیے ؟
زمانے کے فرق کی وضاحتی روایت اوپر پیش کردی ہے اسے دیکھ لیں ۔
کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صحابی﷜ نے نبی کریمﷺ کی موجودگی میں آخری عمل کیا تھا ؟ کیا اس صحابی﷜ کےعمل پر نبی کریمﷺ کی تصدیق ہے آپ کے پاس ؟ اگر کچھ بھی نہیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صحابی﷜ نبی کریمﷺ کے خلاف عمل کرلے۔ کیا صحابی﷜ کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ نبی کریمﷺ کے فعل کومنسوخ کردے ؟ آپ تین کام کریں
1۔ نبی کریمﷺ سے رفع کی منسوخیت کی واضح اور صریح دلیل پیش کریں
2۔ نبی کریمﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام﷢ نے رفع نہ کیا اور آپﷺ نےخاموشی کرلی
3۔ یا پھر مان جائیں کہ رفع سنت نبویﷺ ہے اور میں نےجو ابن عمر﷜ کاعمل پیش کیا وہ اسنادی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اس کو تسلیم کیا جائے۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
اور تیسری نمبر کی بات کا جواب میں کئی بار کرچکا ہوں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا منکر نہیں ہوں ۔ ٹھیک؟ اور یہ جو آپ نے رفع کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہے اسکی دلیل ڈھونڈ کر تیار رکھئیے ،کیونکہ جب ہم اس سوال پر پہنچیں گے تو پھر پیش کیجئے گا ، وہیں پر ان شاء اللہ میں بھی بتاؤں گا کہ میں کیا سمجھتا ہوں اس رفع یدین کو جہاں جہاں آپ کرتے ہیں اور میں نہیں کرتا ۔
باقی باتیں بلا تبصرہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جو آپ نے کہا ’’ رفع صرف پہلی رکعت کا ہی بچا تھا باقی کو چھوڑ دیا گیا ‘‘ آپ کے اس فرمان عالی شان پر کوئی دلیل ہے ؟
عن عبداللہ قال لا اخبرکم بصلوٰة رسول اللہ اقال فقام فرفع یدیہ اول مرةثم لم یعد
نسائی شریف،جلد ایک
آپ جوبار بار اسکنوا فی الصلاۃوالی حدیث اپنے موقف کی مضبوطی کےلیے پیش کررہے ہیں۔۔ اس کی وضاحت میں نے پیش کر دی ہے۔۔ قوی امید ہے تسلی ہوجائے گی۔۔ لیکن اگر کوئی کسر باقی بھی رہ گئی تو اچھی طرح پوری کردی جائے گی۔ ان شاء اللہ
میری پچھلی پوسٹ میں کچھ وضاحت میں نے بھی پیش پوش کی ہے اسے دیکھ لیجئے گا ، شاید تسلی ہوجائے۔
تراویح کتنی رکعات سنت ہے۔ اور اسی طرح طلاق کے بارے میں حقیقت کیا ہے؟ اگر شوق ہو تو بات کرلیں گے۔ ان شاء اللہ
ان شاء اللہ
پیش آپ نے کیا ہے ثابت بھی آپ کو کرنا ہوگا۔۔ اپنا بوجھ کسی اور پہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔
جو صحابی﷜ کا عمل آپ نے پیش کیا میں اس کو صحیح مانتا ہی نہیں تو پھر اعتراض والی بات کیوں کروں ؟ جب آپ صحیح ثابت کردیں گے تو پھر میرے پہ الزام آئے گا کہ میں نے صحابی﷜ پر نعوذباللہ غلط بات کی ہے۔ آپ پہلے ثابت توکریں جناب صاحب۔
اوپر کچھ پیش کیا ہے اسے دیکھ لیجئے۔
شرعی معاملات میں صحابہ کرام﷢ کا عمل دلیل محمدیﷺ کی روشنی میں لیتا ہوں۔ امید ہے یہ ایک جملہ آپ کی تسلی کےلیے کافی ہوگا۔
اس دعوے کی دلیل اور تشریح آپ خود ہی فرمادیجئے ایک الگ تھریڈ میں ۔ شکریہ
یار سہج صاحب کتنی بار آپ کہہ چکے ہیں کہ گڈمسلم صاحب میں آپ کی پیش کردہ حدیث کاانکاری نہیں تو پھر جب انکاری نہیں ماننے میں کیاحرج ہے ؟ اگر میری حدیث پہلے زمانے کی ہے تو پھر ثابت کریں؟ کیا آپ کے کہنے سے یہ حدیث پہلے زمانے کی ہوجائے گی ؟ اگر میری حدیث پہلےوالے زمانے سے تعلق رکھتی ہے تو پھر سہج صاحب آپ کو چاہیے کہ آپﷺ کے فرامین سے بعد والا عمل پیش کریں۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کے مقابلے میں صحابی﷜ کا بعد والا عمل مجھے بہت دکھ دے رہا ہے کہ آپ کو اتنی بھی سوچ نہیں کہ نبیﷺ کےمقابلے میں کسی اور کو کھڑا کررہے ہیں ؟
مانتا بھی ہوں اور انکار بھی نہیں کیا ۔ جبکہ آپ نے انکار بھی کیا ہے اور ابھی تک مانا بھی نہیں ، ناہی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو اور ناہی اسکنوا فی الصلاۃ والی روایت کواور نا ہی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو اور جناب کو اسی پوسٹ میں زمانے کی بات بھی اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے دکھائی ہے ۔ اپنی اگلی پوسٹ میں اس پر کچھ پیش پوش کیجئے گا ۔
نبی کریمﷺ کا جو فرمان میں مانتا تھا وہ پیش کردیا ۔ اور شریعت کا ضابطہ بھی یہی ہے۔ اور فطرت انسانی بھی اس چیز کو صحیح نظر سےدیکھتی ہے لیکن جن لوگوں کی فطرت ہی مردہ ہوچکی ہو ان کا اللہ ہی حافظ
یہاں بھی آپ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتانے والی باقی تمام روایات کا انکار موجود ہے ۔ اللہ تعالٰی مجھے ایسے انکار سے محفوظ رکھے ۔ آمین

پہلے بات جناب من شریعت میں کوئی ایسا امر ہے ہی نہیں جو ایک درجہ کے دلائل سے ثابت ہو اور ہو بھی متضاد۔۔۔کیونکہ فرمان رب جلیل ہے۔
وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا
اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے
اس لیے میں کہنا چاہونگا کہ جو آپ نے اگر مگر لگا کر مفروضہ قائم کیا ہے وہ دلائل کی روشنی میں صحیح ثابت شدہ امور پر قائم کیا ہی نہیں جاسکتا۔ لیکن اگر آپ کے مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو پھر تطبیق کی جاتی ہے۔ جناب سہج صاحب ؟ کیا آپ نے کبھی تطبیق کا لفظ سنا ہے ؟ اگر نہ معلوم ہو تو بتا دیا جائے گا۔ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ بھلا کرے
اور پھر آپ کتنی بڑی جسارت کررہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے مقابلے میں صحابی﷜ کا عمل پیش کرکے دونوں کو متضاد دکھا رہے ہیں ؟
تطبیق کون کرے گا جناب ؟ آپ یا کوئی مفتی جس کی آپ تقلید کرتے ہیں یہ بھی بتادیجئے گا ؟ زمانے کے فرق کے آپ منکر ہیں ،روایات کے آپ منکر ہیں ، ابھی تو دیکھنا ہے کہ اصح الکتب سے جو زمانے کے بارے میں بات پیش کی ہے جناب اس کا انکار کیسے کرتے ہیں ۔ ویسے تطبیق کا معنی دلیل کے ساتھ آپ بتادیں اور یہ بھی کہ کس کا حق ہے ؟ اور رفع یدین کرنے کی روایات (جہاں آپ کرتے ہیں) اور ہمارے عمل کے مطابق یعنی شروع میں کرنے کی اور باقی کے نہ کرنے کی ، روایات میں تو صرف زمانے کا ہی فرق ہے ، اسمیں اگر آپ تطبیق کرنا چاھتے ہیں تو پھر بسم اللہ کیجئے یہی پر اگلی پوسٹ میں سمجھائیے ۔یقنا آپ زمانے کو بیچ میں لائے بغیر تطبیق فرمادیں گے ۔

جناب غصہ کرنے کی ضرورت نہیں، میری پیش کردہ حدیث جس میں نبی کریمﷺ کاعمل ہے کو آپ پہلے زمانے کی اور اپنے پیش کردہ صحابی﷜ کے عمل کو دوسرے زمانے کا بتلا کر اور بھی بغیر دلیل کے صحابی﷜ کے عمل سے نبی کریمﷺ کاعمل منسوخ کررہے ہیں ؟
اس لیے میں نے کہا کہ زمانے کی بات آپ نے کی ہے اور اس کا ثبوت بھی آپ کو دینا ہوگا۔ میں زمانے زمونے کو نہیں دیکھتا بلکہ دلائل صحیحہ کو دیکھتا ہوں۔ ہاں جس امر بارے صراحت ملتی ہے اسی کو لیتے بھی ہے۔ الحمد للہ
غلط بیانی جناب ، آپ کو ملتا کیا ہے الٹی بات کرکے ؟ سجدوں میں رفع یدین کرنے کی روایات میں کس کے فعل کا زکر ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا یا صحابی کا ؟ وہاں آپ نبی ﷺ کے فعل کا انکار کردیتے ہیں ، اسی طرف میں نے اشارہ کیا تھا جس کے جواب میں آپ نے پھر غلط بیانی کی ۔۔۔۔دیکھئیے
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: sahj پیغام دیکھیے
ٹالئیے نہیں جناب رفع یدین اٹھارہ جگہ آپ نہیں کرتے لیکن ان کا زکر روایات میں موجود ہے ۔ وہاں جب پہنچیں گے تو آپ کو “زمانے“ کی بات نہیں کرنے دیں۔ کیا خیال ہے ؟ اور نماز میں باتیں بھی کسی “زمانے“ میں ہوتی تھیں ؟ بے فکر رہیں موضوع مجھے معلوم اور یاد ہے یہ مثال تو ویسے ہی پیش کردی ہے تاکہ آپ کو بھی “ زمانے “ یاد رہیں ۔
اب دیکھنے پڑھنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ مسٹر گڈ مسلم آسان اور عام فہم انداز میں کئے گئے سوالات اور باتوں کو الٹ سلٹ مطلب پہنا کر غلط قسم کا رزلٹ پیش کرکے کون سی دلیل پر عمل کررہے ہیں ؟اور کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت دلیل نہیں ؟ اسکنوا فی الصلاۃ والی روایت دلیل نہیں ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل جو پیش کیا اس کی روایت دلیل نہیں ؟ صحیح بخاری کی روایت پیش کرچکا جس میں "ابتداء کے زمانے اور آخری زمانے" کا زکر موجود ہے ۔اور اس روایت سے گڈ مسلم صاحب گزر بھی چکے ہیں ۔ اب اپنے عمل پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پیش کرنے کی بجائے ناجانے کہاں کہاں واکنگ کرتے پھر رہے ہیں ۔ مسٹر گڈ مسلم جس روایت میں سجدوں کی رفع یدین کا زکر ہے اسے آپ نے کیا سمجھ کر چھوڑا ہے ؟ وضاحت فرمادیجئے مختصرا ، کیونکہ تفصیل بعد میں آنی چاھئیے یعنی جب آپ اٹھارہ جگہ رفع یدین کی نفی دکھائیں گے ۔ شکریہ

شرعی معاملات میں کلمہ گو کے سامنے چاہے اس کےنبیﷺ کا عمل پیش کیا جائے، یا حکم پیش کیاجائے یا اس عمل پر نبی کریمﷺ کا سکوت پیش کیا جائے وہ اس کےلیے حجت ہوجاتا ہے۔ اور میں نے آپ کے سامنے جن مقامات پہ رفع نہیں کرتے وہ بھی ثابت کردیا ہے اور جن مقام پہ رفع کرتے ہیں وہ بھی ثابت کردیا ہے۔ الحمدللہ ۔۔ میری باتوں کو سمجھ کر پڑھیں گے تو سب سمجھ آجائے گا۔ ان شاء اللہ
کبھی آپ کہتے ہو مقامات دکھادئیے ہیں کبھی کہتے ہو مقامات کی گنتی کرو تو دو جمع دو برابر چار بنتے ہیں ۔غور کیجئے جناب ۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل مبارک اور حکم مبارک میں نے بھی پیش کیا ہے ، اور زمانے کی بھی وضاحت کردی ہے اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہی سے ۔ اور جناب اگر ابھی تک زمانے کے فرق کو نہیں مانتے تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پیش کردیجئے ، تاکہ ہمارے اختلاف کا بھی فیصلہ ہوجائے ۔ اگر فیصلہ نہیں تو مان لیجئے زمانے کے فرق کے قائل آپ بھی ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ اس کا اظہار کرنے میں ضد شریف حائل ہے ۔ امید ہے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

1۔ پہلی بات آئینہ دکھانے کےلیے یہی حدیث ’’ مسند الصحابۃ فی کتب الستعہ باب مسند عبداللہ بن مسعود، جزء26، ص43 ‘‘ پر بھی پیش ہے۔یہاں نقل کیے دیتا ہوں
حدثنا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ حدثنا وَكِيعٌ قَالَ حدثنا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً
اور پھر اس حدیث کے متصل اگلی حدیث کچھ یوں ہے۔
حدثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حدثنا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ
امام ابو داؤد﷫ کیا فرما رہے ہیں سہج صاحب ذرا پڑھ کر بتا دینا
2۔ دوسری بات محترم المقام سہج کہ اس حدیث میں میں تو صرف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک بار رفع الیدین والی نماز پڑھ کربتلائی ہے، اس سے بقیہ رفع الیدین کا ترک کہاں لازم آیا ؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گے ؟
3۔ تیسری بات کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے ؟
جب آپ ان باتوں کا جواب دیں لیں گے۔ تو پھر ان شاء اللہ جواب میں کچھ لکھنے کی کوشش کریں گے۔
بات نمبر ایک:وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ سے جناب کو وہم ہوگیا ہے شاید کہ مزکورہ روایت "جھوٹ" ہے ۔ یا پھر ابوداؤد رحمۃ اللہ آپ کے ہاں "دلیل" ہے؟ ابوداؤد کی اس بات وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ پیش پوش کردیجئے جناب عالی مسٹر گڈ مسلم ۔ مزید یہ کہ اسی حدیث کے بارے میں اک اور فرمان دیکھ لیں شاید آپ اس امتی کی بات مانتے ہوں یعنی "دلیل" بناتے ہوں۔ قال الشيخ الالباني: صحيح
بات نمبر دو:فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً سے۔اوراسی حوالے سے اک اور حدیث بھی پیش خدمت ہے ۔
حدثنا الحسن بن علي،‏‏‏‏ حدثنا معاوية،‏‏‏‏ وخالد بن عمرو،‏‏‏‏ وابو حذيفة قالوا حدثنا سفيان،‏‏‏‏ بإسناده بهذا قال فرفع يديه في اول مرة وقال بعضهم مرة واحدة ‏.‏
جناب سفیان نے اسی سند سے اس حدیث کو بیان کیا کہا پس آپ نے پہلی ہی بار اپنے ہاتھ اٹھائے۔ اور بعض نے کہا: ایک ہی بار اٹھائے۔
سنن ابوداود،ابواب تفريع استفتاح الصلاة،باب من لم يذكر الرفع عند الركوع
نسائی سے ہی اک اور روایت دیکھئیے
اخبرنا سوید بن نصر قال انبانا عبداللہ بن المبارک عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن علقمۃ عن عبداللہ
قال الا اخبرکم بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد
سنن نسائی،جلد ایک ،باب: مونڈھوں تک ہاتھ نہ اٹھانا
ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں نہ بتلادوں پھر وہ کھڑے ہوئے انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھائے پہلی مرتبہ (یعنی جب شروع کی نماز ) پھر ہاتھ نہ اٹھائے۔
بات نمبر تین: ایسا ہی سوال آپ سے ہے جناب گڈ مسلم ، کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ پیش کردہ روایات بالکل جھوٹ ہیں؟ یا کوئی گنجائش ہے ؟ دوٹوک بات کیجئے گا ۔
جہاں تک میری بات ہے تو الحمد للہ میں ان روایات کو مانتا ہوں جو ابھی پیش کیں ہیں اور اسے بھی جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا تھا ۔
پہلی بات یہ حدیث رفع الیدین کےموضوع پر ہے ہی نہیں ؟ لیکن جب آپ اس حدیث سے ہی رفع الیدین کی منسوخیت ثابت کرنا چاہ رہے تھے تو پھر اس حدیث سے پہلی رفع کی بھی منسوخیت ثابت ہوتی ہے۔ میں نے تو یہ واضح کیا ہے۔
دوسری بات میں اس حدیث کو نہ پہلی رفع کے منسوخ ہونے کی دلیل مانتا ہوں اور نہ باقی ان مقامات پر رفع کے منسوخ ہونے کی دلیل مانتا ہوں جو میں نے ثابت کردیئے۔ اور آپ نے تسلیم بھی کرلیے،(اب تسلیم کے بعد بھی عمل شروع نہیں کیا اور بحث پہ بحث کیے جارہے ہیں میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔) دلیل آپ اس حدیث سے پکڑ رہے ہیں تو اس سے ثابت مسئلہ پر آپ کو ہی عمل کرنا چاہیے۔۔ اس لیے جناب دیر مت کیجیے اور عمل کرنا شروع کردیجیے ۔۔ ادھر ادھر کی باتیں ناٹ
ماشاء اللہ ۔ گڈ مسلم صاحب کا یہ اپنی تحقیق ہے یا کسی کی تقلید کی ہے ؟ زرا تشریح فرمائیے گا پھر کہ اسکنوا فی الصلاۃ کا حکم رفع یدین کے بارے میں نہیں تو پھر کس بارے میں تھا ؟ میں تو کافی کچھ بتاچکا ہو بلکہ لکھ لکھ کر لکھاری ہوگیا ہوں ، اور آپ ہیں کہ کچھ بھی نہیں مانتے یہاں تک کہ روایات جتنی بھی پیش کی ہیں ان کو بھی ماننے سے انکاری ہیں ۔ اور کہتے ہیں بغیر دس جگہ رفع یدین دکھائے کہ میں نے ثابت کردیا ہے ، جناب سے اک بار پھر پوچھتا ہوں دو جمع دو چار آپ کی دلیل ہے سب سے پکی ؟ اگر ہے تو بتادیں ۔ ہاں یا ناں ؟صرف۔باقی رہا ہمیں عمل کرنا چاھئیے ، تو سرجی ہم الحمدللہ عمل کرتے ہیں شروع نماز کی رفع یدین کرتے ہیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین چھوڑ دیتے ہیں چاروں رکعت میں ۔
میں بھی مانتا ہوں اس آیت کو۔ اور جو اس آیات سے احکامات واضح ہورہے ہیں ان کو اسی طرح ہی مانتا ہوں جس طرح خالق حقیقی اپنے بندوں سے تقاضا کررہے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو پھر اس آیت سے ہی آپ کی وہ تمام روایات جن میں صحابیوں﷢ کے اقوال واعمال پیش کیے گئے ہیں سب رد ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک میتھڈ دیا ہے کہ اختلاف کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف لوٹنا ہے۔ کسی اور کی طرف نہیں۔
ماشاء اللہ کیا خوبصورت میتھڈ پیش کیا ہے آپ نے ۔ تو یہ بھی بتادیں اس میتھڈ پر عمل کیسے فرماتے ہیں آپ اور آپ کے فرقہ جماعت اہل حدیث کے علماء اور جہلاء ؟ سمجھے نہیں ؟ جناب گڈ مسلم صاحب ،اختلاف کی صورت میں پھر فیصلہ کرنے کی اتھارٹی آپ مانتے ہیں صرف اور صرف اللہ تعالٰی اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ کیوں ٹھیک ہے کہ نہیں؟ تو پھر جناب وہاں تک پہنچتے کیسے ہیں جہاں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ؟ بس اسکی وضاحت فرمادیجئے مہربانی ہوگی۔ اسی لئے جناب سے کئی پوسٹ پیچھے درخواست فرمائی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ارشاد فرمادیں اس اختلافی رفع یدین کے مسئلہ میں ۔ لیکن آپ وہاں سے یہاں تک شاید پوسٹیں بڑھانے کی جستجو میں مصروف ہیں ۔ اگر ایسی بات ہے تو بتادیں ۔ شکریہ
ہمارا بھی رفع الیدین پر اختلاف ہے اس لیے اب سوائے اللہ تعالیٰ یا نبی کریمﷺ کے فرامین کےعلاوہ باقی کسی کی بات پیش مت کرنا۔ آگئی ناں سمجھ محترم المقام صاحب ؟
باقی کسی کی وضاحت نہیں کی آپ نے مسٹر گڈ مسلم ؟ کیا اس باقی کسی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اثتثنٰی حاصل ہوسکتا ہے ؟ اللہ کا فرمان پیش کیا تھا میں نے اور اسکی تفسیر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جسے آپ نے ترجمہ کی خرابی کہہ کر رد کردیا ، صحابی کا عمل پیش کیا جسکا آپ نے انکار کردیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اسکنوا فی الصلاۃ دکھایا اسے آپ ماننے پر تیار نہیں ، ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان و طریقہ رسالت رفع یدین نہ کرنے کے بارے میں دکھایا اسے جناب نے امتی کے قول پر" رد "کردیا کہ روایت "صحیح" نہیں ، زمانے کی بات بھی ماننے کو تیار نہیں ہالاں کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے ہی دکھایا ۔ اب دیکھتے ہیں موجودہ پوسٹ میں پیش کردہ روایات کا انکار اگلی پوسٹ میں کرتے ہیں یا نہیں ۔ یا پھر صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پیش کردیجئے ۔
ہم رفع الیدین کسی کی تقلید میں نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
تقلید کے بیان سے ایک سوال یاد آگیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ رفع الیدین جو آپ نہیں کرتے یہ تقلید کرنے کی وجہ سے نہیں کرتے یا اپنے زعم میں دلائل ہونے کی وجہ سے ؟
تقلید نہیں کرتے تو پھر "اختلاف" کیوں ہے جناب ؟ ختم کردیجئے اختلاف کو اور فیصلہ پیش کردیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اور بات کو ختم کیجئے ۔
ہم الحمد للہ پکی دلیلیں رکھتے ہیں اپنے عمل پر ، اک اور دلیل پیش خدمت ہے
قال محمد اخبرنا محمد بن ابان ابن صالح عن عاصم بن کلیب الجرمی عن ابیہ قال رایت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب رفع یدیہ فی التکبیر الاولٰی من الصلواۃ المکتوبۃ ولم یرفھما فیما سوٰی ذلک
موطاء امام محمد صفحہ نوے
حضرت عاصم بن کلیب جرمی اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بن ابی طالب کو دیکھا کہ وہ فرض نماز میں صرف پہلی تکبیر (تحریمہ) میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اس کے علاوہ اپنے ہاتھ نہ اٹھاتے۔
کیا شافعیوں نےکوئی اپنی شریعت بنائی ہوئی ہے ؟ ہم نہ شافعیوں کی دلیل سے رفع کرتے ہیں اور نہ کسی اور کی دلیل سے بلکہ ہم تو محمد عربیﷺ کے فرامین کی روشنی میں رفع کرتے ہیں۔ اب اگر کسی کو آپﷺ کے فرامین ماننے کی توفیق ہی نہ ہو اس کےلیے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
جی جی دعا کیجئے کہ کوئی دلیل مل جائے آپ کو ، دس جگہ رفع یدین کرنے کی تاکہ آپ سرخرو ہوسکیں ۔ اب شافعیوں کے یا کسی بھی امتی کے اقوال پیش نہ فرمائیے گا ۔ کیونکہ وہ آپ کی دلیل ہیں ہی نہیں۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے؟
نوٹ:
آپ نے مطالبہ کیا تھا کہ دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ۔ اس پر میں نے کہا تھا کہ نہیں بھائی بے تکے سوالوں سے بہتر یہ ہے کہ ہم جن جن جگہوں، مقامات پہ رفع کرتے ہیں میں آپ کو بادلائل وہ جگہیں ثابت کردیتا ہوں۔ گنتی آپ خود کرتے رہنا۔ دلیل کو گنتی کے ساتھ مشروط کرکے شریعت کو مذاق مت بنائیں۔لیکن آپ ابھی تک مذاق بناتے آرہے ہیں۔ آپ کے مطالبے میں دو باتیں ہیں
1۔ دس کا اثبات+ گنتی
2۔ اٹھارہ کی نفی+گنتی
دس کا اثبات+ گنتی میں نے ثابت کردیا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ایک، دو، تین، چار، کی طرح حدیث میں گنتی وارد نہیں ہوئی بلکہ جن جن مقام پہ رفع کی جاتی ہے اگر چار رکعات میں ان رفعوں کی گنتی کی جائے تو تعداد دس کو پہنچتی ہے۔ اور اس گنتی کو پورا کرنے کےلیے کئی طرح کی مثالیں آپ کو دے چکا ہوں لیکن آپ ہیں جو ایک ہی ضد لگائے ہوئے کہ دلیل میں گنتی کی صراحت ہو ؟۔
گنتی میں خود کروں گا تو وہ آپ کی نہیں میری دلیل بنے گی جناب ۔ آپ کا دعوٰی کچھ اور ہے ۔ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول یاد آیا ؟ آپ تو ابھی تک جگہیں بھی نہیں دکھاسکے دلیل کے مطابق جس میں صراحت موجود ہو ان جگہوں کی جن کو آپ دوجمع دو چار کہہ "ثابت" قرار دیتے ہیں ۔ گنتی تو دور کی بات ہے سرجی ۔
جب حدیث میں گنتی کا دکھانا آپ کے لئے ممکن ہی نہیں تھا تو جناب دلیل سے دکھانے کو تیار کیسے ہوئے ؟ اب جب آپ بے بس ہوچکے یعنی کوئی چکر بازی نہیں چلا سکے تو جناب ایسے بیچ بیچ میں چھوٹا چھوٹا لکھ کر جان بچانا چاھتے ہیں ؟ گڈ مسلم صاحب صاف صاف لکھئیے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناتو رفع یدین کے تمام مقامات دکھاسکتا ہوں اور ناں ہی دس کی گنتی پوری دکھا سکتا ہوں ۔ ساتھ میں یہ بھی لکھئیے کہ آپ جن جن مقامات اور جتنی جتنی رفع یدین کرتے ہیں چار رکعت نماز کے اندر وہ صرف اور صرف دو جمع دو چار کے فارمولے سے ۔
دوسرا مطالبہ تھا کہ اٹھارہ کی نفی
آپ نے جو دلیل اسکنوا فی الصلاۃ والی پیش کی ہے۔ بقول آپ کے اس حدیث کی رو سے پہلی رفع کے علاوہ باقی تمام رفعیں منسوخ ہوگئی۔
رائٹ ؟

یعنی اس رفع کے علاوہ نو وہ رفعیں جو ہم اہل حدیث کرتے ہیں اور اٹھارہ وہ رفعیں جو ہمارے ساتھ آپ بھی نہیں کرتے۔ یعنی اٹھارہ کی نفی کی دلیل آپ نےخود ہی پیش کردی، اگر آپ نو کے اثبات کی نفی میں یہ دلیل مانتے ہیں تو اٹھارہ کی نفی میں کیوں نہیں مانتے ؟ اس لیے جناب آپ کی اس حدیث سے ہی واضح ہوگیا کہ اٹھارہ کی نفی کا مطالبہ آپ نے خود پورا کردیا۔ آپ اس مطالبے کی دلیل کے مجھ سے حق دار ہی نہیں۔کیونکہ اگر آپ مجھ سے پھر مطالبہ کریں گے تو میں پھر یہی حدیث پیش کردونگا آپ کی ہی زبانی یا پھر جو روایت ابن عمر﷜ کےحوالے سے پیش کی ہے کیونکہ اس حدیث میں بھی ان اٹھارہ جگہوں کا ذکر نہیں اور یہ آپ کا ہی بنا بنایا اصول ہے کہ کسی چیز کا ذکر نہ ہونا اس کے منسوخ ہونے پر دال ہوتا ہے۔اٹھارہ کی نفی میں میری طرف سے وہ تمام دلائل قبول فرمائیں جن میں ان اٹھارہ رفعوں کا ذکر نہیں۔۔ اوروہ بھی اپنے بیان اصول کی روشنی میں۔۔سمجھ گئے ناں سہج صاحب؟
گڈ مسلم صاحب ہمت پکڑئیے یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟ کیوں ایک مقلد کے دلائیل کو اپنا بناتے جارہے ہیں آپ ؟ جناب ہم اسکنوا فی الصلاۃ سے صرف اٹھارہ نہیں ستائیس رفع یدین کو منسوخ مانتے ہیں اور اس میں بے شک وہ اٹھارہ رفع یدین بھی شامل ہیں جنہیں آپ نہیں کرتے ، تو کیا آپ کوئی دلیل پیش کریں گے اس بات پر کہ ہم منسوخ مانیں تو ستائیس اور آپ مانیں تو صرف اٹھارہ ؟ یہ کس اصول کی وجہ سے فرمایا آپ نے ؟ دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمادیجئے ۔
اب ہمارا اختلاف رہ گیا ان دس رفعوں کے بارے میں جو ہم کرتے ہیں اور آپ ان میں سے ایک کرتے ہو باقی نہیں ۔
اس اختلاف پر بھی ابن عمر کےحوالے سےدلیل پیش کرچکا ہوں۔۔ الحمد للہ آپ کے ہی مطالبے کے مطابق دس جگہ کااثبات اور اٹھارہ کی نفی ثابت کردی ہے۔ اب آپ میرا مطالبہ پورا کریں گے۔۔
رفع کے مسنوخ ہونے کی صحیح صریح حدیث پیش کرتے ہوئے میرے ساتھ ان سب لوگوں پر احسان کریں گے جو رفع الیدین کو نبی کریمﷺ کا فعل سمجھ کر کررہے ہیں۔جب آپ یہ ثابت کردیں گے تو پھر باتیں ہونگی کہ جو رفع کرتے ہیں یا کرتے آئے ہیں ان کی نمازوں کے بارے میں آپ جن جن دلائل کو مانتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔ اس پر بعد میں باتیں ہونگی۔ ان شاء اللہ

گڈ مسلم صاحب پہلے فیصلہ تو پیش کیجئے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ رفع یدین کرنا ہے (وہاں وہاں جہاں جہاں آپ کرتے ہیں یعنی دس جگہ گنتی کے ساتھ) پر ہم اٹھارہ کی نفی کی جانب بڑھیں گے اور سنت یا حدیث اور پھر فجر یا عصر جیسی کی طرف ۔ ان شاء اللہ


نوٹ:
نیکسٹ پوسٹ آپ کی پوسٹ نمبر33 کا جواب ہوگی۔ ان شاء اللہ
گڈ مسلم صاحب آپ نے پوسٹ نمبر انتالیس کو پوسٹ کیا تھا تئیس دسمبر کو آج ماشاء اللہ چھبیس تاریخ ہوچکی ، شاید آپ زیادہ مصروف ہوں اسلئے آپ کی دوعدد پوسٹوں کا تو جواب حاضر خدمت ہے تیسری پوسٹ آتے ہی ان شاء اللہ اسکا جواب پیش پوش کردوں گا ۔

شکریہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
السلام علیکم ................محترم المقام فضیلت مآب مولانا سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ
پہلی بات تاخیر سے جوابی پوسٹ لکھنے پر سوری۔
دوسری بات فی الحال اس بات کی بھی سوری کہ پہلے کی طرح آپ کی فضولیات کا پردہ چاک کروں، کیونکہ ٹائم اتنا نہیں ملتا۔ ہاں جب فرصت میسر ہوگی تو آپ کی جن باتوں پہ لکھنا مناسب ہوگا۔ لکھ دیا جائے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
تیسری بات شروع تھریڈ میں جو آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا اور یقیناً آپ پورا کر بھی نہیں سکیں گے۔ ان شاء اللہ... اب یہ مت پوچھنے بیٹھ جانا کہ کیا مطالبہ کیا گیا تھا ....؟؟؟
چوتھی بات جنابِ مَن آپ اپنے تائیں ایز اے دعویٰ جو الفاظ بنا کر میری طرف منسوب کیے جارہے ہیں ۔ اور بڑے زور وشور ودھوم دھام سے انہیں الفاظ کے عین مطابق جواب طلب کررہے ہیں آپ کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ وہ میرے الفاظ نہیں ہیں ۔آپ کو جان لینا چاہیے اور اچھی طرح جان لینا چاہیے اورپھر اس بات کا علم بھی آپ کو دیتا چلوں کہ نہ کسی جگہ میں نے ان الفاظ جیسا مفہوم بیان کیا ہے۔ ہاں آپ کی لفاظی ضد کو پورا کرنے کےلیے وضاحت پیش کردی تھی۔ کہ آپ کے ضدی الفاظ کو یوں پورا کردیا گیا ہے اور وہ بھی واضح ، صریح دلیل کے ساتھ۔ اور ایسی دلیل جس کے بارے میں آپ کو اقرار کرنا پڑا کہ میں اس کا انکاری نہیں۔ لیکن آپ کا حال یہ ہے کہ تسلیم کرتے ہوئے بھی انکاری ہیں۔

اور پھر جناب مَن میں اس بات کا پابند نہیں کہ آپ کے گھڑے بلکہ چورے کیے گئے الفاظ جو آپ مجھ پہ ٹھونس دیں ، کے مطابق جواب دوں۔ محترم جناب میرا جودعویٰ یا الفاظ تھے( جو کہ ابھی تک آپ نے پوچھا ہی نہیں۔کہ گڈمسلم صاحب اس مسئلہ پر آپ کا دعویٰ کیا ہے ؟ لیکن میں آپ سے شروع پوسٹ سے اب تک کئی بار پوچھ چکا ہوں۔آپ ہیں جو بتانے سے شرما رہے ہیں) اسی کے مطابق میں نے جواب دے دیا ہے ۔ الحمد للہ ۔ مانیں یا نا مانیں آپ کی مرضی کیونکہ ہدایت اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔میں نا مانوں کا کوئی علاج نہیں۔

پانچویں بات آپ نے واضح انداز میں دعویٰ پیش کیے بنا اپنے تائیں دعویٰ پر دلائل ذکر کرکے اپنے چھپے دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن جناب من اب تک آپ کی طرف سے جو دلائل پیش کیے گئے ، وہ تما م دلائل کیا تھے؟ اور پھر ان دلائل کی نوعیت و حقیقت کیا ہے ؟ کیا آپ اپنے دعویٰ پر وہ دلائل پیش کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اس کی تفصیلی وضاحت پیش ہے۔

جناب سہج صاحب آپ کا شروع سے اب تک ایک ہی اعتراض چلا آرہا ہے کہ مجھے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی دکھائیں۔اور وہ بھی گنتی کے ساتھ۔ اس کا جواب ایک ہی حدیث پیش کرکے آپ کو دے دیا گیا ہے ، جس کا آپ نے اقرار بھی کرلیا ہے۔ لیکن آپ نے اس پر یہ اعتراض کر دیا کہ یہ پہلے کاعمل ہے اور بعد کاعمل رفع الیدین نہ کرنے کا ہے۔ حالانکہ علمی نقطہ نظر سے آپ کا یہ اعتراض بلا دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اس پر کوئی واضح صریح دلیل نہیں ہے۔ اور جو دلائل پیش بھی کیے ہیں ان کی حقیقت بھی ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔ کہ وہ دلائل آپ کے اس بیان کو تقویت دیتے بھی ہیں کہ نہیں ؟
مولانا سہج صاحب میری پیش کردہ دلیل پر آپ کا یہ کہنا کہ یہ پہلے کاعمل ہے اور بعد کا عمل رفع الیدین نہ کرنے کا ہے ؟ مجھے آپ سے اس کی دلیل مطلوب ہے، آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ گڈمسلم کی پیش کردہ دلیل پہلے کی ہے ۔اور وہ بھی بادلیل۔ بے دلیل نہیں محترم سہج صاحب۔
اور پھر جب میں نے اُس عمل کے عین مطابق جو ہم عمل کرتے ہیں (چار مقامات پر فع الیدین کرنا) رفع الیدین ثابت کردیا ہے ایسی دلیل سے جس کے بارے میں آپ کو بول کر کہنا پڑا کہ میں اس کا انکاری نہیں۔ اور پھر آپ کو ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ جناب اگر آپ کو اپنے گھڑے بلکہ چورے کیے الفاظ ( دس کا اثبات اٹھارہ کی نفی گنتی کےساتھ) کا ہی جواب مطلوب ہے تو اُس کا جواب بھی اسی دلیل میں موجود ہے۔کیسے موجود ہے؟ تفصیلاً عرض کردیا تھا۔ اس تفصیل کو پڑھنے کے بعد جواب میں آپ نے کہا کہ چار رفعوں کی گنتی کے علاوہ باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت کیا ہے اور گڈمسلم آپ قیاس کو مانتے ہی نہیں ۔اس لیے باقی چھ رفعوں کوبھی ان چار رفعوں کی گنتی کی طرح ثابت کرنا ہوگا۔آپ کے اس جواب پر آپ سے پوچھا گیا تھا کہ آپ باقی چھ رفعوں کو کیسے قیاس سے ثابت کرنا کہہ رہے ہیں؟ اس پر آپ نے لب ہلانے کی زحمت نہیں کی اور نہ کرسکتے تھے۔ کیونکہ قیاس قیاس کے نام سے تو آپ واقف ہیں لیکن قیاس کس بَلا کا نام ہے ؟ آپ کو معلوم نہیں ۔
اور پھر جب آپ نے مجھ پہ اجماع اور قیاس کے نا ماننے کا الزام جڑا تو جواب میں پورے تھریڈ کا لنک دیا جس سے آپ کا یہ الزام الزام ہی ثابت ہوا۔ حقیقت میں نہیں بدل سکا۔
اسی میں ایک نقطہ جو آپ کو سمجھ نہیں آیا، میں نے بھی اس وجہ سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ شاید آپ کو سمجھ آجائے، لیکن اب محسوس ہورہا ہے کہ آخر بحث تک آپ اس نقطہ کو نہیں سمجھ پائیں گے۔ اس لیے بیان کرنا مناسب سمجھ رہا ہوں۔
وہ نقطہ یہ ہے کہ بقول آپ کے میں نے چار رفعوں کو دلیلِ صریح سے ثابت کردیا ہے۔ اب باقی چھ رفعوں کو دلیل سے ثابت کرنا ہے۔ اور جب میں نے آپ کے لفاظی بیان کو دلیل ذکر کرکے وضاحتی بیان سے پورا کیا تو آپ نے کہا کہ گڈمسلم صاحب آپ نے چار رفعوں پر تو دلیل دی ہے لیکن چھ رفعوں کو کو قیاس سے ثابت کیا ہے۔ آپ قیاس کو نہیں مانتے اس لیے ان چھ رفعوں پر بھی آپ کو دلیل دینا ہوگی۔ قیاس نہ ماننے کے الزام کو جب میں نے پورا کردیا کہ میں قیاس کا انکاری نہیں۔ تو پھر آپ کو دس رفعوں کااثبات تسلیم کرلینا چاہیے تھا۔ لیکن یہ جان لینے کے بعد کہ گڈمسلم قیاس کا انکاری نہیں اور ساتھ یہ بھی مان لینے کے بعد کہ باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت کیا گیا ہے۔ پھر بھی اس بات کا کہتے جانا کہ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ مجھے تو ضدی کے ساتھ لاعلم شخص کا عمل لگتا ہے۔
قارئین جب ان باتوں کو
1۔ سہج صاحب چار رفعوں کے اثبات کا اقرار کرچکے ہیں۔
2۔ سہج صاحب باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت ہوجانے کا اقرار کرچکے ہیں۔
3۔ گڈ مسلم صاحب یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ قیاس کےانکاری نہیں۔
جان لینے کے بعد سہج صاحب پھر آپ کے بنائے گئے، گھڑے گئے بلکہ چورے کیے گئے الفاظ کے عین مطابق مجھ سے جواب طلب کرنے کی ضد کو دیکھیں گے تو خود سمجھ جائیں گے۔کہ دماغی علاج کس کے کروانے والا ہے ؟ ان شاء اللہ ..... کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

جاری ہے......
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
نوٹ:
مولانا سہج صاحب آپ کادعویٰ رفع کی منسوخیت کا ہے ۔جس کو دبے الفاظ میں پیش بھی فرما چکے ہیں۔ آپ کو ایک بات سے متنبہ کرتا چلوں کہ آپ نے اپنے دعویٰ پر جو دلائل دینے ہیں۔ ان تین احادیث کو سامنے رکھ کر دینے ہیں۔
پہلی روایت :
عن ابن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان اذا افتتح الصلاة رفع يديه واذا ركع واذا رفع رأسه من الركوع وكان لايفعل ذلك في السجود . فما زالت تلك صلاته حتيٰ لقي الله تعاليٰ
’’ ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب رکوع کرتے اورجب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے ( تو بھی رفع یدین کرتے) اوردونوں سجدوں کے درمیان نہ کرتے۔ تادمِ زیست آپ ﷺ کی نماز اسی طرح رہی‘‘
اس حدیث سے محمد عربیﷺ کا آخری وقت تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ اثر میں پہلے بھی پیش کرچکا ہوں۔
دوسری روایت:
عن وائل بن حجر قال: قلت لانظرن الي صلاة رسول اللهﷺ كيف يصلي فقام رسول اللهﷺ فاستقبل القبلة فكبر فرفع يديه حتي حاذتا اذنيه ثم اخذ شماله بيمينه فلما أراد أن يركع رفعهما مثل ذلك ثم وضع يده علي ركبتيه فلما رفع رأسه من الركوع رفعهما مثل ذلك۔ (ابوداؤد مع عون المعبود ج 1 ص264، سنن کبریٰ للبیہقی ج2 ص71)
’’ وائل بن حجر نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی نماز دیکھنے کاحتمی فیصلہ کیا کہ دیکھوں آپﷺ نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ آپ رو بقبلہ کھڑے ہوگئے ۔ تکبیر ( تحریمہ) کہی اور کانوں تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، پھر دونوں ہاتھ باندھے۔ جب رکوع کاارادہ کیا تو ہاتھ اٹھائے۔ پھر انہیں گھٹنوں پر رکھا ۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو اسی طرح ہاتھ اٹھائے ( رفع یدین کیا) ‘‘
مولانا سہج صاحب اس حدیث کے راوی وائل بن حجر ہیں، راوی جان لینے کے بعد راوی نے جو بیان کیا ذرا اس کو بھی ذہن نشین کرلیں، پھر تیسری حدیث پیش کرتا ہوں۔
تیسری حدیث:
عن وائل بن حجر قال أتيت النبي صلي الله عليه وسلم في الشتاء فرأيت أصحابه يرفعون أيديهم في ثيابهم في الصلاة ۔(ابوداؤد جلد1ص 265، جمع الفوائد جلد1 ص91)
’’ وائل بن حجر بیان کرتے ہیں کہ میں سردیوں میں آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے صحابہ کو دیکھا وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع الیدین کیا کرتے تھے‘‘۔
ابو داؤد کی روایت میں ہے ۔
ثم جئت بعد ذلك في زمان فيه برد شديد فرأيت الناس عليهم جل الثياب تحركت أيديهم تحت الثياب۔ ( سنن ابوداؤد مع عون المعبود ج1 ص265)
’’ وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں دوبارہ سخت سردی کے موسم میں آیا۔ لوگوں پر بھاری کپڑے تھے تو وہ ان کے نیچے سے رفع الیدین کرتے تھے‘‘۔
مولانا سہج صاحب ان تین احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت وائل بن حجر کی حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ آخر عمر تک رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ اور آپ کے علم میں یہ بھی لاتا چلوں کہ حضرت وائل بن حجر غزوۂ تبوک کے بعد 9 ھ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ ج5، ص75) ، شرح العینی علی صحیح البخاری ج9 ص43) امید ہے کہ آپ اس تاریخ سے متفق ہونگے، اگر اختلاف کیا بھی تو علمائے مقلدین کے حوالہ جات سے ثابت کردونگا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اور مولانا سہج صاحب آئندہ سال جب حضرت وائل بن حجر رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا ۔ انہوں نے صحابہ کرام کو کپڑے کے نیچے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ اور یہ 10 ھ کے آخری مہینے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 10 ھ کے آخر تک رفع الیدین نہ منسوخ ہوا اور نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اس کے بعد 11ھ میں سرورِ دو عالمﷺ اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔تو جناب کہنے کا مقصد اب پیش ہے کہ نسخ کےلیے ضروری ہے کہ ناسخ حضرت وائل بن حجر کی دوسری مرتبہ آمد کے بعد ثابت ہو۔ اس لیے جناب آپ نے جو دلیل دینی ہے وہ 10ھ کے آخری مہینوں میں سے لے کر 11ھ ہجری آپ ﷺ کے وفات والے مہینے کے بیچ بیچ کسی مہینے میں بیان ہوئی ہو۔ .....اس بات کو اب اچھی طرح ذہن میں جگہ دے دیجیے گا۔۔ اللہ بھلا کرے۔

اگر آپ کو ان بتائی گئی تاریخ میں سے کسی سے اختلاف ہے تو بادلیل پیش کریں ۔ ان شاء اللہ آپ کے اختلاف کو بادلائل پورا کیا جائے گا۔ ورنہ آپ جو بھی دلیل پیش کریں گے میرا آپ سے مطالبہ ہوگا (ہاں کسی دلیل پر مطالبہ نہ کروں وہ میری مرضی ہے) کہ آپ کی دلیل کا 10ھ کے آخری مہینوں سے لے کر 11ھ آپﷺ کی وفات تک بیچ کے کسی مہینے میں ہونا ضروری ہے۔ اور آپ کو اس پیش دلیل کو ان بیچ کے مہینوں میں ثابت کرنا ہوگا۔ اگر آپ ثابت نہ کرسکے تو آپ کی دلیل قبول نہیں کی جائے گی۔ ... اچھی طرح ان باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔ بعد میں یاد کروانے کی تکلیف نہ دیجیے گا ۔ محترم صاحب۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
سہج صاحب یہ تو تھیں تمہیدی باتیں، جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہوئے پیش کردیا ہے۔ اب اس تھریڈ کے شروع سےآپ نے جو اپنے دبے، چھپے دعویٰ پر دلائل پیش کیے ہیں وہ دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ پیش ہے۔ لیکن تحقیقی جائزہ پیش کرنے سے پہلے آپ نے جو رفع الیدین کے نسخ کا بےبنیاد دعویٰ کیا ۔ اس کی حقیقت واضح کرتا چلوں کہ یہ دعویٰ کئی لحاظ سے مردود ہے۔ اور میرے لیے حیرانگی وتعجب کی بات یہ ہے کہ آپ اپنے دامن میں مردود دعویٰ لیے بحث میں شریک ہیں۔ سبحان اللہ
نمبر1:
صریح، صحیح ناسخ موجود نہیں۔ اگر ہے تو پیش کریں۔
نمبر2:
صحابہ وتابعین کے مبارک دور میں رفع الیدین پر عمل ہوتا رہا ہے اور رفع الیدین کا ترک کسی ایک صحابی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں ہے، ( دلائل کی حاجت ہو تو پوچھ لینا)
نمبر3:
ترک رفع الیدین ہی ثابت نہیں ہے، لہٰذا دعویٰ نسخ کیسا ؟
نمبر4:
ناسخ ومنسوخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، مثلاً کتاب الحازمی، کتاب ابن شاہین، کتاب ابن الجوزی وغیرہ۔ ان کتابوں کے مصنفین نے اس مسئلہ کو اپنی کتابوں میں ذکر تک نہیں کیا، ہےےے ہمت آپ میں مولانا سہج صاحب ! کہ اس موضوع (ناسخ ومنسوخ) کی کسی ایک کتاب سے یہ مسئلہ نکال کر دکھائیں؟
نمبر5:
حضرت وائل بن حجر سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ 9ھ اور 10ھ میں رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ اب ہمیں صحیح حدیث کے ساتھ بتایا جائے کہ کس سن ہجری میں رفع الیدین منسوخ یا ترک کردیا گیا تھا۔؟؟؟
نمبر6:
اگر معاذ اللہ ! رفع الیدین منسوخ ہوگیا تھا تو پھر تکبیر تحریمہ، قنوت اور عیدین والا کس طرح اس نسخ سے بچ گیا ؟
نمبر7:
نبی ﷺ کی ساری زندگی میں صرف ایک نماز کا بھی ثبوت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے رفع الیدین نہ کیا ہو۔ جب ترک ہی ثابت نہیں تونسخ کس طرح ثابت ہوگا ؟
نمبر8:
عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما رفع الیدین نہ کرنے والوں کوکنکریوں سے مارتے تھے۔( جزء رفع الیدین)۔ کسی صحابی نے کسی کو بھی رفع الیدین کرنے پر نہیں مارا لہٰذا دعویٰ نسخ باطل ہے۔
نمبر9:
رفع الیدین کی احادیث میں ’’ کان ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
حافظ زیلعی حنفی نے کہا :
’’ فانہ بلفظ ’’ کان ‘‘ المقتضیۃ للدوام ‘‘ یعنی ’’ کان‘‘ کا لفظ دوام کا مقتضی ہے۔ ( نصب الرایہ ج1 ص31)
اور یہاں پر کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حنفیوں کےنزدیک نبی کریمﷺ ہمیشہ ( علی الدوام) رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا دعویٰ نسخ مردود ہے۔
نمبر10:
حافظ ابن قیم نے کہا:
’’ ومن ذلك أحاديث المنع من رفع اليدين في الصلوة عند الركوع والرفع منه كلها باطلة علي رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يصح منها شيئ كحديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه : انما أصلي بكم صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: فصليٰ فلم يرفع يديه الا في أول مرة ‘‘ ( المنار المنیف ص137)
’’ ( موضوع احادیث میں سے) نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کرنے کی ممانعت کی ساری احادیث باطل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ مثلاً سیدناابن مسعود کی ( سند سے منسوب) حدیث کہ انہوں نے صرف پہلی مرتبہ رفع الیدین کیا( باطل ہے۔)
محترم جناب سہج صاحب آپ بھی نسخ کے دعویداروں میں سے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ پہلے ترک تو ثابت کریں۔ اور پھر مزے کی بات تو یہ ہے کہ آپ کے بڑے اس بات کو مان گئے، اور کتب میں لکھ گئے کہ جو لوگ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کا قول بے دلیل ہے۔ مثال کے طور پر
مولانا عبد الحئی فرماتے ہیں۔
’’ یعنی حضورﷺ سے رفع الیدین کرنے کا بہت کافی اور نہایت عمدہ ثبوت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے ان کا قول بے دلیل ہے۔(التعلیق الممجدص91)
اور آپ پتہ نہیں کس چیز پر دلائل پیش کیے جارہے ہیں؟ آپ کے بڑے کہتے ہیں ان کا قول بے دلیل ہے۔ اور آپ ہیں جو شروع تھریڈ سے ایک ہی روایت کو کئی جگہ کاپی پیسٹ کرکے قارئین کو یہ تاثر دیتے جارہے ہیں کہ میرے پاس دلائل کے انبار ہیں۔ واہ سبحان اللہ

ہم م م م م اب سمجھ آیا کہ آپ واضح اور صریح الفاظ وانداز میں دعویٰ کیوں نہیں لکھ رہے تھے۔؟ سہج صاحب کیونکہ آپ کے بڑے اس بات کو مانتے ہیں کہ منسوخیت والا قول بے دلیل ہے تو آپ کس باغ کی مولی ہیں؟ کہ اس کی منسوخیت ثابت کرپائیں۔ کیا آپ مولانا عبدالحئی سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں ؟ کیا یہ مولانا علم سے کورے تھے ؟ .........الخ

احساس دلانے کےلیے کچھ پیش پوش کردیا ہے۔ اب پیش پوش ہیں آپ کے دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ......تاکہ قارئین کو معلوم ہوجائے کہ جو بندہ شروع سے اب تک دلائل ہی دلائل پیش کیے جا رہا ہے اور تقریباً ہر پوسٹ میں ماقبل پیش روایت کو مصالحہ لگا کر دوبارہ پیش کیے دیتا ہے اس کے ان دلائل کی کیا حقیقت ہے؟ کیا وہ اپنے موقف پر اور موقف کے مطابق دلائل پیش کررہا ہے یا کہیں کا روڑا کہیں کی اینٹ پھینکے جار ہا ہے۔؟ یا عارضی سہارا لیے گھوم رہا ہے۔ ؟

اس تھریڈ میں جس ترتیب سے آپ نے دلائل پیش کیے اسی ترتیب سے ان کا جواب پیش کیا جارہا ہے۔ باقی رہی آپ کی فضول واخباری باتیں یا بے تکے سوالات یا ادھر ادھر کی باتیں ان پر بھی ضرور لکھا جائے گا مگر ٹائم ملنے پر۔ ان شاء اللہ ۔ کیونکہ آپ جیسے مغالطہ باز لوگوں کی کسی بھی بات کو بغیر تبصرہ کیے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش پہلی دلیل

آپ کی طرف سے دلیل دو دلیل دو کا جب شور بڑھا تو سب سے پہلے میں نے بخاری سے ابن عمر کی حدیث پیش کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
اس حدیث کا انکار نہ کرنے کا اقرار کرتے ہوئے محترم المقام آپ نے جوابی طور پر ابن عمر کی طرف منسوب بات کو مختلف کتب سے چار دلیلوں کے طور پر پیش کیا ۔ جن میں پہلی ، دوسری اور چوتھی یہ روایات تھیں۔
دلیل نمبر1:الف:
عن مجاھد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیر الاولٰی من الصلوٰۃ ۔( شرح معانی الآثار للطحاوی جلد،صفحہ ایک سو پچپن)
ترجمہ :- حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
دلیل نمبر1 :ب:
عن مجاھد قال مارائیت ابن عمر یرفع یدیہ الافی اول مایفتتح-مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
دلیل نمبر1:ج:
عن مجاھد قال مارائیت ابن عمر یرفع یدیہ الا فی اول ما یفتتح الصلوٰۃ۔معرفۃ السنن و الآثار، جلد دو، صفحہ چارسواٹھائیس
ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
جواب

مولانا سہج صاحب آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ
٭ پہلی بات یہ اثر آپ نے عمل رسولﷺ کے مقابلے میں پیش کیا ہے۔ کیا آپ کو آپ کا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ رسولﷺ کے عمل کے مقابلے میں کسی امتی کا عمل پیش کریں۔؟ آپ نے ایسا فعل کیا ہے جو کہ توہین کے ذمرے میں بھی شمار ہوسکتا ہے۔ اللہ معاف کرے۔
٭ دوسری بات جب آپ سے بار بار اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اس اثر کی سند ذکر کریں، آپ نے اس مطالبے کو پورا کرنے کا سوچا ؟ نہیں ناں؟ تو کیوں ؟
٭ تیسری بات چلیں اب میں بتا دیتا ہوں کہ اس پیش اثر کی سند میں دو راوی (ابوبکر بن عیاش اور حصین بن عبد الرحمان) مجروح ہیں۔ اس لیےآپ اس اثر کو پیش نہیں کرسکتے کیونکہ مسائل صحیح دلائل سے ثابت ہوا کرتے ہیں۔ ضعیف وکمزور دلائل سے نہیں۔خوب سمجھ لیں۔
جناب مَن آپ نے ابن عمر  سے جوترک رفع یدین والی روایت نقل کی ہے۔ وہ صحیح نہیں ہے۔اور پھر دوسری طرف اُس صحیح روایت کے بھی خلاف ہے۔ جس میں سالم بن عبداللہ اپنے باپ عبد اللہ بن عمررض سے اور عبد اللہ بن عمررض رسول اللہ ﷺسےرفع الیدین کرنا نقل کرتے ہیں۔
’’ سلیمان الشیبانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سالم بن عبد اللہ ( بن عمررض) کودیکھا، جب وہ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے تھے پھر جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے تھے پھر جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو تو رفع یدین کرتے تھے، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے ابا( عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور انہوں نے( سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما) نے فرمایا: کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (حدیث السراج ج2 ص34، 35 ح115)‘‘
آپ نے ابن عمر کا عمل پیش کیا تھا۔ یہاں تو قول وعمل دونوں یہ بتلا رہے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما رفع الیدین کرتے تھے۔ اور پھر ذرا اس اثر پر بھی نظر کرلیں
’’ حضرت عبد اللہ بن عمر رفع الیدین نہ کرنے والوں کوکنکریاں مارتے تھے ‘‘۔( تلخیص الحبیر ، الجزء الاول ، ص220، باب صفۃ الصلاۃ)
اب آپ بتائیں کہ ہم کہاں جائیں ؟ آپ کے سامنے تین باتیں ہیں۔
1۔ اپنا پیش اثر مانیں اور میرے پیش اثر کو بادلائل رد کریں۔
2۔ اپنا اثر چھوڑیں اور تسلیم کریں کہ میں نے ضعیف اثر پیش کیا تھا ۔گڈمسلم کی طرف سے پیش یہ اثر درست ہے اور میں مانتا ہوں۔
3۔ اگر آپ نہ اپنا بیان اثر چھوڑتے ہیں، نہ میرے اثر کو باطل کہتے ہیں۔ تو پھر حنفی اصول (اذا تعارضا تساقطا) کی روشنی میں دونوں سے ہاتھ دھو لیں۔ کیونکہ تضاد آگیا ہے۔ماشاء اللہ پہلے بھی نماز کے کئی اعمال سے ہاتھ دھوئے بیٹھے ہیں۔ اگر ساتھ یہ مل جائے گا۔ تو کونسا طوفان آجائے گا۔ کیا خیال ہے ؟
اب آپ کی مرضی کیا چنتے ہیں ۔ جو چنیں گے۔ اس کی اطلاع ذرا ہمیں بھی دے دینا۔ اللہ بھلا کرے۔

آپ نے جو اثر پیش کیا۔ اس کی تحقیقی حیثیت کیا ہے؟ ذرا وہ بھی سماعت فرمالیں۔
نمبر1:
امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
" حديث أبي بكر عن حصين انما هو توهم منه لا أصل له " (جزء رفع الیدین:16، نصب الرایہ ج1 ص392)
’’ ابوبکر کی حصین سے روایت اس کا وہم ہے، اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔
محترم جناب سہج صاحب اس روایت پر امام ابن معین رحمہ اللہ کی جرح خاص اور مفسر ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ لاکھ جتن کریں، یہ حدیث بہرحال باطل ومردود ہی ہے۔ ابن معین کا نقاد حدیث میں جو مقام ہے وہ حدیث کے ابتدائی طالب علموں پر بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن شاید آپ کو اس بات کا بھی علم نہ ہو۔
مزید اس روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبل﷫ نے فرمایا:
" رواه أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد عن ابن عمر وهو باطل" (مسائل احمد روایت ابن ہانی ج1 ص50)
’’اسے ابوبکر بن عیاش نےحصین عن مجاہد عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ باطل ہے۔
دیکھ لیا مولانا سہج صاحب آئمہ حدیث نے ابوبکر بن عیاش کی اس روایت کو وہم وخطا بھی قرار دیا ہے، لہٰذا ان کی یہ روایت باطل وبے اصل ہے۔ مولانا سہج صاحب معلوم کرلیں۔اور مان بھی لیں، کیونکہ سنت رسولﷺ کا معاملہ ہے۔ میری ذاتی بات نہیں۔

ہاں مولانا سہج صاحب اس بات کو میں بھی مانتا ہوں کہ ابوبکر بن عیاش جمہور محدثین کے نزدیک صدوق ومُوثَّق راوی ہیں۔ ابوبکر بن عیاش کی توثیق وتقویت محدثین کرام سے ثابت ہے۔ لیکن جن روایات میں ابوبکر بن عیاش کو غلطیاں لگی ہیں۔اخطاء واوہام ہوئے ہیں۔ محدثین کرام کی صراحت کے مطابق جن روایات میں ابوبکر بن عیاش کو اخطاء واوہام ہوئے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی تمام روایات قابل قبول ہیں۔ فتدبر

ابوبکر بن عیاش کی روایت ترک رفع الیدین کو یحیٰ بن معین اور احمد بن حنبل وغیرہما نے بے اصل اور باطل وغیرہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ومردود ہی ہے۔
نمبر 2:
ابوبکر بن عیاش آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ ( الکواکب المنیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات لابن الکیال ص439، ونصب الرایۃ ج1 ص409، الاغتباط بمعرفۃ من رمی بالاختلاط ص26)
حافظ ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں اس کی تصریح کی ہے کہ ابن عیاش جب بڑی عمر کےہوئے توان کاحافظہ خراب ہوگیا تھا۔ جب وہ روایت کرتے تو ان کووہم ہوجاتا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس بات میں انہیں وہم ہوا ہے اسے چھوڑ دیا جائے اور غیر وہم والی روایت میں اس سے حجت پکڑی جائے۔ ( التہذیب ج12 ص39)
امام بخاری﷫ نے تفصیل سے بتایا ہے کہ
قدیم زمانے میں ابوبکر بن عیاش اس روایت کو عن حصین عن ابراہیم عن ابن مسعود مرسل( منقطع) موقوف بیان کرتے تھے اور یہ بات محفوظ ہے۔ پہلی بات ( یہ متنازعہ حدیث) خطاء فاحش ہے کیونکہ اس نے اس میں ابن عمر کے اصحاب کی مخالفت کی ہے۔ ( نصب الرایۃ ج1 ص409)
امام بخاری﷫ کا یہ قول جرح مفسر ہے جو مندمل نہیں ہوسکتی مولانا۔

سہج صاحب اب آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ ابو بکر بن عیاش نے آخری عمر میں حافظہ خراب ہونے کے بعد جو روایت بیان کی ہے اس میں انہوں نے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے، لہٰذا ان کی روایت شاذ ہوئی اور شاذ مردود کی ایک قسم ہے۔ اس وجہ سے ان کی اس روایت کو امام یحیٰ بن معین اور امام احمد رحمہم اللہ وغیرہما نے ضعیف قراردیا ہے۔ اس تفصیل کے باوجود بھی اگرآپ اس حدیث کی صحت پر اصرار کرتے ہیں تو پھر آپ کا علاج کسی دماغی ہسپتال میں کرانا چاہیے۔
دلیل نمبر1:جزء ھ:
عن عبدالعزیز بن حکیم قال رائیت ابن عمر یرفع یدیہ حزار اذنیہ فی اول تکبیرۃ افتتاح الصلوٰۃ ولم یرفعھا فیما سوٰی ذالک-موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نوے
ترجمہ : عبدالعزیز بن حکیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے کانوں کے برابر اسکے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
جواب:

مولانا سہج صاحب آپ کے کشکول میں کوئی صحیح روایت بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے۔
نمبر1:
محمد بن الحسن الشیبانی تلمیذ امام ابی حنیفہ سخت ضعیف ہے۔
جمہور محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔ امام یحیٰ بن معین نے فرمایا:
’’ جهمي كذاب ‘‘ ( جزء فی آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ج4 ص52)
( محمد بن الحسن الشیبانی ) جہمی کذاب ہے۔
امام نسائی﷫ نے کہا :
" ضعيف" ( جزء فی آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص266)
ابن عدی نے کہا:
اہل حدیث ( محدثین کرام اور متبعین حدیث) اس کی بیان کردہ حدیثوں سے بے نیاز ہیں۔ ( الکامل ج6ص218)
ابوزرعہ الرازی نے کہا :
محمد بن الحسن جہمی تھا۔ ( کتاب الضعفاء لابی زرعۃ ص570)
عمرو بن علی الفلاس نے کہا:
" ضعيف" (تاریخ بغداد ج2 ص181)
محمد بن الحسن الشیبانی پر تفصیلی جرح کےلیے مولانا صاحب آپ پوسٹ کیے گئے اس تھریڈ کا مطالعہ کریں، امید ہے بہت افاقہ ہوگا۔

نمبر2:
محمد بن ابان بن صالح الجعفی ضعیف راوی ہے۔ جمہور محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔( لسان المیزان ج5 ص122)
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش دوسری دلیل

عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔ صحیح مسلم جلد ایک۔
جواب

پہلی بات مولانا سہج صاحب آپ کو امام نووی نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا ہے کہ یہ تشہد کے متعلق ہے۔ لیکن آپ ہیں کہ پھر بھی نہیں مان رہے۔
دوسرا خود امام مسلم نے ہی مفصل حدیث لا کر فیصلہ کردیا ہے کہ یہ حدیث سلام سے متعلق ہے۔ کیونکہ مولانا جس طرح قرآن مجید اپنی تشریح خود کرتا ہے اسی طرح حدیث، حدیث کی تشریح بھی کرتی ہے۔
نمبر1:
سیدنا جابر بن سمرہ فرماتے ہیں:
’’ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ( نماز کے آخر میں ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: تمھیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں۔ تم میں سے جب کوئی ( نماز کے آخر میں ) سلام پھیرے تو اپنے بھائی کی طرف منہ کرکے صرف زبان سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم ج1 ص181، ح430، وترقیم دارالسلام:971)
سیدنا جابر بن سمرہ کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو ( نماز کے آخر میں ) دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا کرو۔( صحیح مسلم، خ430، وترقیم دار السلام: 970)
لفظ ’’ اذناب خيل شمس ‘‘ تینوں احادیث میں موجوود ہے جو اتحاد واقعہ کی واضح دلیل ہے سہج صاحب.... لہٰذا اس حدیث کے ساتھ استدلال بالکلیہ مردود ہے۔

یاد آیا آپ نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ یہ حدیث الگ الگ واقعہ پر دلالت کرتی ہے تو مولانا آپ کے پاس اپنی اس بات کی کیا دلیل ہے۔؟ اگر ہے تو پیش کریں ورنہ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ یہ احادیث ایک ہی واقعہ کے متعلق ہیں۔ اگر آپ مجھے دلیل پر مجبور کریں کہ گڈمسلم صاحب آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ احادیث اتحاد واقعہ پر دلالت کرتی ہیں تو جناب ذرا ان احادیث کا غور سے مطالعہ کرنا اسی حدیث میں ہی الفاظ کا اشارہ اس بات پر دلالت کررہا ہے۔کہ یہ تمام احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ اور دوسری بات ایک حدیث اختصار اور دوسری تفصیل پر مبنی ہے۔ اور ایسا کئی امور میں ہونا شریعت اسلامیہ سے ثابت ہے۔ اس لیے مولانا اس بات (تمام احادیث ایک ہی واقعہ کے متعلق ہیں) کو تسلیم کیے بنا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ خوب سمجھ لیں۔
نمبر2:
تمام محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کےساتھ ہے۔ خیرالقرون میں کسی نے بھی اس حدیث کے ساتھ رفع الیدین کی ممانعت پر استدلال نہیں کیا ہے۔ (مولانا سہج صاحب اگر کیا ہے تو پیش کیجیے۔ تاکہ آپ کی صداقت کا پتہ چلے۔) مثلاً درج ذیل محدثین نے اس حدیث پر ’’ سلام ‘‘ کے ابواب باندھے ہیں:
1۔ علامہ نووی﷫
’’باب الامر بالسكون في الصلوة والنهي عن الإشارة باليد ورفعها عند السلام ‘‘ ( صحیح مسلم مع شرح النووی ج4 ص152)
2۔ ابوداؤد﷫
’’باب في السلام ‘‘ ( سنن ابی داؤود:998، 999)
3۔ الشافعی﷫
’’ باب السلام في لاصلوة ‘‘ ( کتاب الام ج1 ص122)
4۔ النسائی
’’ باب السلام بالأيدي في الصلوة وباب موضع اليدين عندالسلام ‘‘ ( المجتبیٰ فبل ح:1185، الکبریٰ قبل ح:1107)
5۔ طحاوی
’’ باب السلام في الصلوة كيف هو؟ ‘‘ ( شرح معانی الآثار ج1 ص268، 269)
5۔ بیہقی
’’ باب كراهة الايماء ياليد عند التسليم من الصلوة ‘‘ ( السنن الکبریٰ ج2 ص181)
کسی بھی محدث نے اس پر منع رفع الیدین کا باب نہیں باندھا ، محدثین کی اس اجماعی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کا تعلق صرف تشہد والے رفع الیدین کے ساتھ ہے۔ اختلافی رفع الیدین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر﷫ نے کہا :
’’ (سیدنا جابر بن سمرہ کی پہلی حدیث )سے رکوع کے وقت رفع الیدین کے منع پر دلیل لانا درست نہیں ہے کیوں کہ پہلی حدیث دوسری طویل حدیث کا اختصار ہے۔ ( التلخیص الحبیر ج1 ص 221 )
امام بخاری نے فرمایا:
یہ بات مشہور ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے۔ ( التلخیص الحبیر ج1 ص221، جزء رفع الیدین: 37)
اور یہی وجہ ہے کہ امام بخاری﷫ فرماتے ہیں۔
" من احتج بحديث جابر بن سمرة علي منع الرفع عند الركوع فليس له حظ من العلم"۔
’’ جو شخص جابر بن سمرۃ کی حدیث سے رفع الیدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے۔وہ جاہل اور علم سے ناواقف ہے۔ کیونکہ "اسكنوا في الصلوة فانما كان في التشهد في في القيام" نبی کریمﷺ نے اسکنوا تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں۔ (بخاری ص16، تلخیص ص83، تحفہ ص223)
نووی شارح صحیح مسلم نے کہا :
اس حدیث سے رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے نہ کرنے پر استدلال کرنے والا جہالت قبیحہ کا مرتکب ہے اور بات یہ ہے کہ عند الرکوع رفع الیدین کرنا صحیح وثابت ہے جس کا رد نہیں ہوسکتا۔ پس نہیں خاص اپنے مورد خاص پر محمول ہوگی تاکہ دونوں میں توفیق وموافقت ہو اور ( مزعومہ) تعارض رفع ہوجائے۔ ( المجموع شرح المہذب ج3 ص403، وحاشیۃ السندی علی النسائی ص176)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’ اس حدیث سے استدلال انتہائی بری جہالت ہے جسے سیدنا رسو ل اللہ کی سنت کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے بارے میں وارد نہیں ہوئی۔ وہ تو نماز کی حالت سلام میں ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے... اس میں اہل حدیث ( محدثین ) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور جس شخص کو حدیث کے ساتھ ذرہ برابر تعلق ہے وہ بھی تسلیم کرتا ہے ( کہ رفع یدین قبل الرکوع وبعدہ کے خلاف پیش کرناغلط ہے۔) ( البدر المنیر ج3 ص485)
نمبر3:
مولانا اگر یہ حدیث رفع الیدین کی ممانعت پر دلیل ہے تو پھر تکبیر تحریمہ، وتر اور عیدین کی نماز میں آپ رفع الیدین کیوں کرتے ہیں۔؟ اگر رکوع والا رفع الیدین اس حدیث کے ساتھ ممنوع ہے تو پھر یہ تینوں رفع الیدین بطریق اولیٰ ممنوع ہونے چاہئیں۔کیا خیال ہے مولانا صاحب؟
جو آپ کا خیال وجواب وہی میرا خیال و جواب ہے۔ اگر ان ( تکبیر تحریمہ، وتر، عیدین) کی تخصیص دوسری احادیث کے ساتھ ہے تو اہل حدیث جن مقامات پہ رفع الیدین کرتے ہیں ان کی بھی تخصیص دوسری احادیث کے ساتھ ہے۔
نمبر4:
آپ کی طرف سے پیش کردہ اس حدیث میں رفع الیدین کا ذکر اور صراحت نہیں۔ لیکن میری طرف سے پیش کردہ حدیث رفع الیدین کا ذکر اور صراحت ہے۔ لہذا مفسر کو مجمل پر مقدم کیا جائے گا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں:
" وهذا المفسر مقدم علي المبهم " ( فتح الباری ج10ص283 تحت ح 5827)
اور یہ مفسر مبہم پر مقدم ہے۔
نمبر5:
مولانا صاحب اگر اس حدیث کے الفاظ کو رفع الیدین پر محمول کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا ایک قبیح فعل ہے۔ چونکہ مختلف فیہ رفع الیدین نبی کریمﷺ سے باسند صحیح تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔(جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں) اور نبی کبھی بھی فعل قبیح کا مرتکب نہیں ہوا کرتا(نعوذباللہ اگر ہوتا ہے تو بتائیں) تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا اختلافی رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ورنہ نعوذ باللہ نبی ﷺ کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا۔ جس کے تصور سے ہی ہم پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ بلا خوف وخطر اپنے کمزور وبے دلیل مؤقف کو ثابت کرنے کےلیے قیل وقال سے سہارا لیے ساتھ ساتھ سنت نبویﷺ کو غلط تشبیہات بھی دیئے جارہے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ایک ایسا فعل جس پر نبی کریمﷺ خود عامل رہے ہیں بری تشبیہ دیئے جارہا ہوں۔اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے۔
تنبیہ:
مولانا آپ جیسے بعض لوگوں نے پہلے جواب کاجواب دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’ یہ حدیث تعدد واقعہ پر مشتمل ہے ‘‘ ان لوگوں کا یہ دعویٰ غلط ہے۔
حافظ عبدالمنان صاحب نورپوری﷫ نے عبدالرشید کشمیری ( دیوبندی) کے نام اپنے غیر مطبوع خط میں لکھا :
’’ جابر بن سمرۃ والی روایت میں تو رکوع والےر فع الیدین سے منع کا سرے سے نام ونشان ہی نہیں۔ واقعات خواہ دو ہی بنالیے جائیں کیونکہ ایک واقعہ میں سلام والے رفع الیدین کے مراد نہ ہونے سے رکوع والے رفع الیدین کا مراد ہونا لازم نہیں آتا لہذا اس روایت کو رکوع والے رفع الیدین کےمنع ہونے کی دلیل بنانا محض تحکم اور نری سینہ زوری ہے۔‘‘
او رپھر مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث مسند احمد( ج5 ص93 ح21166) میں ’’ وهم قعود ‘‘ ( اور ہم بیٹھے ہوئے تھے) کے الفاظ کے ساتھ مختصراً موجود ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت قیام والے رفع یدین کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ اس میں قعدے (تشہد) والی حالت بیٹھنے میں ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شیعہ حضرات کرتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ شیعہ کے رد والی حدیث کو اہل حدیث کے رفع یدین کے خلاف پیش کرنا سہج صاحب کیا ظلم عظیم نہیں ہے۔؟ اسی لیئے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرنے والے کو ’’ لايعلم ‘‘ (بےعلم) قرار دیا ہے۔ ( جزء رفع الیدین 37)
محمود حسن دیوبندی ’’ اسیر مالٹا ‘‘ فرماتے ہیں کہ
’’ باقی اذناب الخیل کی روایت سے جواب دینا ازروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارہ میں ہے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز میں اشارہ بالید بھی کرتے تھے۔ آپﷺ نے اس کو منع فرمادیا‘‘۔(الورد الشذی علی جامع الترمذی ص63، تقاریر شیخ الہند ص65)
محمد تقی عثمانی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
’’ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے‘‘۔(درس ترمذی ج2 ص 36)
اب مولانا سہج آپ میں اگر انصاف ہے تو کسی کی بھی بات مان لیں۔ میری نہیں مانتے تو نا مانیں کیونکہ شاید آپ کی شان میں کمی آجائے کم از کم اپنے بڑوں کی تو مان لیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش تیسری دلیل

أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ۔ سنن النسائي
ترجمہ:ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
جواب

محترم المقام عزت مآب سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ عبد اللہ بن مسعود کی یہ پیش کردہ روایت کی سند میں ایک راوی سفیان ثوری رحمہ اللہ ہے۔ جو کہ مدلس ہیں اور روایت عن سے کررہے ہیں۔لہٰذا اصول حدیث کی رو سے یہ سند ضعیف ہے۔
سفیان ثوری کے شاگرد ابو عاصم ( الضحاک بن مخلد النبیل) ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
"نري أن سفيان الثوري انما دلسه عن ابي حنيفة" (سنن الدار قطنی ج3ص201)
’’ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک سفیان ثوری نے اس روایت میں ابوحنیفہ سے تدلیس کی ہے۔
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں۔
’’وأما المدلسون اللذين هم ثقات وعدول فانا لا نحتج بأخبارهم الا ما بينوا لسماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي اسحاق وأضرابهم ‘‘ ( الاحسان ، طبع مؤسسۃ الرسالۃ ج1 ص161)
اور مدلس جو ثقہ وعادل ہیں جیسے (سفیان ) ثوری ، واعمش اور ابو اسحاق وغیرہم تو ہم ان کی (بیان کردہ) احادیث سے حجت نہیں پکڑتے الا یہ کہ انہوں نے سماع کی تصریح کی ہو۔
قسطلانی، عینی اور کرمانی فرماتے ہیں۔
’’ سفیان ثوری مدلس ہیں اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی، الا یہ کہ دوسری سند سے ( اس روایت میں ) سماع کی تصریح ثابت ہوجائے۔ ‘‘۔(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، للقسطلانی ج1 ص286، عمدۃ القاری للعینی ج3 ص112، شرح الکرمانی ج3 ص62)
تنبیہ1:
سفیان ثوری کی اس معنعن روایت کی نہ کوئی متابعت ثابت ہے اور نہ کوئی شاہد، العلل للدارقطنی میں متابعت والا حوالہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اس کے علاوہ مولانا صاحب اگر آپ کے پاس کوئی حوالہ ہے تو پیش پوش فرماکر مجھ سمیت باقی قارئین پر احسان عظیم کریں۔
تنبیہ2:
امام ابن المبارک، الشافعی، ابوداؤد اور دار قطنی وغیرہم /جمہور محدثین نے اس روایت کو غیر ثابت شدہ اور ضعیف قرار دیا ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش چوتھی دلیل
قَدْاَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔ (سورۃ مومنون:1،2)
ترجمہ: پکی بات ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔
تفسیر: قَالَ اِبْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّلَا شِمَالاً وَّ لَا یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ…الخ (تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما :ص212)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’خشوع کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جونماز میں تواضع اورعاجزی اختیار کرتے ہیں اوروہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔‘‘
جواب

نمبر1:
یہ قول ص 212 کے بجائے ص 359 پہ ہے۔ اس لیے نقل کرتے ہوئے دھیان رکھا کریں۔ شکریہ
نمبر2:
آپ نے اس قول کو پیش کرتے ہوئے سند کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔ شاید اس وجہ سے کہ قارئین کے سامنے پول ہی نہ کھل جائے۔ چلیں خیر۔ جس بات کو آپ نے چھپانے کی کوشش کی اسی کو ہم بیان کیے دیتے ہیں۔
اس کی سند میں تین راوی پائے جاتے ہیں ۔ محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس طویل سند میں یہ تینوں نام ایک ہی سلسلہ میں نظر آئیں گے ۔(تنوير المقياس تفسير ابن عباس ص2 مطبوعہ قديمی كتب خانہ كراچی)
یہ وہ سلسلہ ہے جسے اہل علم ’’ سلسلۃ الکذب ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں یعنی جھوٹ کا سلسلہ ۔لیکن آپ مقلدین نے اس کو سینے سے لگایا ہوا ہے۔ اس کا پہلا راوی
نمبر1:
محمد بن مروان السدی الکوفی ہے، السدی الصغیر یا السدی الاصغر کے لقب سے معروف ہے۔ حافظ ذہبی﷫ اس کے احوال میں لکھتے ہیں
’’ ترکوہ واتہمہ بعضم بالکذب، وہو صاحب الکلبی ‘‘ (میزان الاعتدال ج4، ص 32)
اس (محدثین ) نے ترک کردیا تھا اور بعض نے اسے جھوٹ کے ساتھ متہم کیا، یہ الکلبی کا شاگرد تھا۔
آپ کے حلقہ کے نزدیک موجودہ دور کے امام سرفراز خاں صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’ اور محمد بن مروان السدی الصغیر کا حال بھی سن لیجیے:
امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس کی روایت ہرگز نہیں لکھی جاسکتی۔ ( ضعفاء صغیر امام بخاری ص29)
اور امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ ( ضعفاء امام نسائی ص52)
علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ حضرات محدثین کرام نے اس کو ترک کردیا ہے اور بعض نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
امام بن معین کہتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو چھوڑ دیا تھا۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ جھوٹ کی اس روایت پر بالکل بین ہے۔( میزان الاعتدال ج3 ص132)
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے۔( کتاب الاسماء والصفات ص394)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ وہ بالکل متروک ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ج3 ص515)
علامہ سبکی لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔( شفاء السقام ص 37)
علامہ محمد طاہر لکھتے ہیں کہ وہ کذاب ہے۔ ( تذکرۃ الموضوعات ص 90)
جریر بن عبد الحمید فرماتے ہیں کہ وہ کذاب ہے،
ابن نمیر کہتے ہیں کہ وہ محض ہیچ ہے۔
یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔
صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا۔’’ وکان یضع ‘‘ ( خود جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا)
ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اس کی حدیث ہر گز نہیں لکھی جاسکتی ۔‘‘ ( ازالۃ الریب ص316)
نمبر2:
یہی موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
’’ سدی فن روایت میں ہیچ ہے۔ امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ان کی روایت میں ضعف ہوتا ہے امام جوزجانی فرماتے ہیں ’’ ہو کذاب شتام ‘‘ وہ بہت بڑا جھوٹا اور تبرائی تھا.... امام طبری فرماتے ہیں کہ اس کی روایت سے احتجاد درست نہیں....اس روایت کی مزید بحث ازالۃ الریب میں دیکھئے ۔ ان بے جان اور ضعیف روایتوں سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا۔‘‘ ( تفریح الحواطر فی رد تنویر الخواطر ص77 تا 78)
نمبر3:
سرفراز صاحب اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں :
’’ سدی کا نام محمد بن مروان ہے..... امام احمد فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو بالکل ترک کردیا ہے( حیرت ہےکہ امام احمد بن حنبل جیسی نقاد حدیث شخصیت تو اس کی روایت کو ترک کرتی ہے مگر مولانا سہج صاحب اور ان کے ہم نوا نام نہاد اہل سنت والجماعت اس کی روایت سے .......)‘‘ ماشاءا للہ .........( تنقید متین ص 186)
نمبر4:
موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں:
’’ سدی کذاب اور وضاع ہے ‘‘ ( امام البرہان ص455) ’’ صغیر کا نام محمد بن مروان ‘‘ ہے امام جریر بن عبد الحمید فرماتے ہیں کہ وہ کذاب ہے اور صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا بقیہ محدثین بھی اس پر سخت جرح کرتے ہیں۔ انصاف سے فرمائیں کہ ایسے کذاب راوی کی روایت سےدینی کونسا مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے ؟‘‘ ( اتمام البرہان ص 458)
سرفراز خاں صفدر دیوبندی لکھتے ہیں
: ’’ آپ لوگ سدی کی ’’ دم ‘‘ تھامے رکھیں اور یہی آپ کومبارک ہو۔‘‘ ( اتمام البرہان ص 457)
سرفراز خاں صفدر مزید فرماتے ہیں
’’ آپ نے خازن کے حوالے سے ’’سدی کذاب ‘‘ کے گھر میں پناہ لی ہے جو آپ کی ’’ علمی رسوائی ‘‘ کےلیے بالکل کافی ہے اور یہ ’’ داغ ‘‘ ہمیشہ آپ کی پیشانی پر چمکتا رہے گا۔‘‘ (اتمام البرہان ص 458)
تنبیہ:
موجودہ دور میں سہج جیسوں رفع یدین کے خلاف ’’ تفسیر ابن عباس ‘‘ نامی کتاب سے استدلال کرنے والوں نے بقول سرفراز خاں صفدر سدی کی دم تھام رکھی ہے اور ان لوگوں کی پیشانی پر رُسوائی کا یہ داغ ہمیشہ چمک رہا ہے ۔
مولانا سہج صاحب آپ نے بڑی دلیری سے یہ تفسیر تو پیش کردی، جس کی حقیقت کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
ابوحمزۃ تابعی فرماتے ہیں ۔
’’ رأيت ابن عباس يرفع يديه حيث كبر واذا رفع رأسه في الركوع......‘‘ (جزء رفع یدین ص49)
میں نے ابن عباس کو رفع یدین کرتے دیکھا ہے جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور جب رکوع سے سر اٹھایا۔
آپ کے دلائل کی حقیقت پیش پوش ہو رہی ہے۔ آپ نے موضوع تفسیر کا تو سہارا لینا گوارہ کرلیا لیکن سنت کو نہ مانا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آپ کی پیش پانچویں دلیل
عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔ صحیح بخاری،کتاب الاذان
جواب

پہلی بات یہ حدیث آپ نے پوسٹ نمبر31 میں پیش فرمائی ہے۔ حدیث پیش کرکے بیان جاری کیا کہ
’’ اس روایت کی اس بات کی آپ کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟ کیا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں؟ اور دیکھ لیجئے اس میں بھی پہلی رفع سمیت بعد کی رفع یدین کا بلکل زکر نہیں ، تو پھر بتائیے اس حکم پر آپ کیوں عمل نہیں کرتے ؟ یہ بھی "اصح الکتب " میں ہی موجود ہے ۔یا پھر اس کو آپ " عمل" میں نہیں لاتے یا پھر کوئی اور تاویل ؟ ‘‘
سہج صاحب جس مسئلہ کے بیان کےلیے یہ حدیث ہے ہم اس کو مانتے ہیں۔ الحمد للہ۔ یہ بھی مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔۔ ہم اس حدیث پر عمل بھی کرتے ہیں۔۔کوئی تاویل وغیرہ نہیں کرتے۔۔ الحمد للہ ۔۔ کیونکہ ہم متبع قرآن وحدیث ہیں۔ متبع قیل وقال ومن مان نہیں۔
دوسری بات مولانا سہج صاحب کسی حدیث میں کسی چیز کا بیان نہ ہونا اس کے عدم پر دال نہیں ہوا کرتا۔ اگر اس حدیث میں رفع یدین کا کوئی ذکر نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ رفع یدین منسوخ تھا اس لیے بیان نہیں کیا گیا۔ اگر عدم ذکر کو ہی آپ اپنے موقف کی دلیل بنا رہے ہیں تو پھر اس حدیث میں نماز سے ہی متعلق کتنی چیزوں کا ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر
1۔ وضوء کا ذکر نہیں ۔
2۔ قبلہ کے تعین کا ذکر نہیں ۔
3۔کتنی رکعات پڑھی گئیں، اس کا ذکر نہیں کی۔ اگر میں کہوں کہ آپﷺ نے ایک رکعت پڑھی تھی اور آپ صرف اور صرف اس حدیث کی ہی روشنی میں میرا موقف غلط ثابت کریں تو کر پائیں گے ؟ ۔
4۔ نہ کسی تکبیر کا ذکر ہے اور نہ قراءت کا ۔ اور نہ تسبیحات کا ۔
5۔ سجود کا ذکر نہیں ۔
6۔ تشہد کا ذکر نہیں ۔
7۔ سلام پھیرنے کا ذکر نہیں۔
الغرض کتنی ساری چیزیں جو نماز سے ہی متعلق ہیں، جن کا ذکر اس حدیث میں آپ کو نہیں ملے گا۔ اگر آپ اس حدیث کو اپنے موقف کی تائید میں پیش فرما کر رفع یدین کی منسوخیت ثابت کررہے ہیں تو پھر نماز سے متعلق وہ تمام اعمال جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں، سب کو منسوخ ماننا ہوگا۔ کیا خیال ہے پھر مولانا سہج صاحب۔

اس قبیل سے آپ نے کچھ مزید احادیث بھی پیش کی ہوئی ہیں، اس لیے ان کو اسی پوسٹ میں ہی لکھ رہا ہوں۔

آپ کی پیش چھٹی دلیل
عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنها قالت خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقام فأطال القيام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركع فأطال الركوع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قام فأطال القيام وهو دون القيام الأول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركع فأطال الركوع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهو دون الركوع الأول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم سجد فأطال السجود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم فعل في الركعة الثانية مثل ما فعل في الأولى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم انصرف وقد انجلت الشمس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فخطب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحمد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصلوا وتصدقوا ‏"‏‏.‏ ثم قال ‏"‏ يا أمة محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يا أمة محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ‏"‏‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہو جائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ صحیح بخاری
جواب

پہلی بات یہ حدیث آپ نے پوسٹ نمبر31 میں بیان کی ہے۔
دوسری بات مولانا کسی مسئلہ کی تشریح پر مشتمل بیان میں اسی مسئلہ سے متعلق کسی بات کا بیان نہ ہونا اس مسئلہ کے منسوخ اور ترک پر دال نہیں ہوا کرتا۔ مولانا سہج صاحب کم از اکم اس بات کی تو تعلیم حاصل کرلیں۔
کیا آپ عدم ذکرکو نفی پر دال مانتے ہیں ؟ جواب ہاں یا ناں میں لکھ کر دے دیں،
اس بارے پہلے بھی آپ سے پوچھا گیا ہے۔ اب دوبارہ بھی پوچھ رہا ہوں۔

آپ کی پیش آٹھویں دلیل

حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔ صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔
یہ حدیث آپ نے پوسٹ نمبر33 میں پیش فرمائی ہے۔
نوٹ:
اس بات کا شور مچانے مت بیٹھ جانا کہ گڈمسلم صاحب کوتو گنتی بھی نہیں آتی چھٹی کے بعد آٹھویں لکھ دیا ہے۔ جناب یہ وہ ترتیب ہے جس ترتیب سے آپ نے دلائل پیش کیے ہوئے ہیں، کیونکہ یہ سب دلیلیں ایک ہی قبیل کی تھیں اس لیے ایک ہی پوسٹ میں جمع کردیا ہے۔
جواب:

مولانا سہج صاحب ترک رفع الیدین کے استدلال کی بھرتی میں آپ ان روایات کو بھی درج کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جن میں رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ آپ کی جہالت کی مکمل اور واضح دلیل ہے۔ اگر یہی بات ہے تو بہت ساری صحیح احادیث میں تکبیر تحریمہ کے وقت کیا جانے والا رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ جیسا کہ آپ کی پیش اس حدیث میں بھی تکبیر تحریمہ والی رفع کا ذکر نہیں ۔ تو کیا خیال ہے پھر آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں ؟ جیسا کہ آپ مجھے تو دعوت فکر دے رہے ہیں۔ کیا آپ نے بھی کبھی اس دعوت کو اپنے لیے رکھا ہے ؟ یا قرآنی آیت ’’ لم تقولون مالا تفعلون ‘‘ کے مصداق ہیں ۔
اس لیے بھائی جان کئی بار آپ کو بتایا جا چکا ہے۔
کہ کسی چیز کا عدم بیان اس کی نفی پر دلالت نہیں کرتا ہوتا۔



آپ کی پیش دسویں دلیل

عن أبي هريرة،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل المسجد فدخل رجل فصلى ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فرد النبي صلى الله عليه وسلم عليه السلام فقال ‏"‏ ارجع فصل فإنك لم تصل ‏"‏ فصلى،‏‏‏‏ ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ارجع فصل فإنك لم تصل ‏"‏‏.‏ ثلاثا‏.‏ فقال والذي بعثك بالحق فما أحسن غيره فعلمني‏.‏ قال ‏"‏ إذا قمت إلى الصلاة فكبر،‏‏‏‏ ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن،‏‏‏‏ ثم اركع حتى تطمئن راكعا،‏‏‏‏ ثم ارفع حتى تعتدل قائما،‏‏‏‏ ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا،‏‏‏‏ ثم ارفع حتى تطمئن جالسا،‏‏‏‏ ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا،‏‏‏‏ ثم افعل ذلك في صلاتك كلها ‏"‏‏.‏
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز کے بعد اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آ کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ دوبارہ جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین بار اسی طرح ہوا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا۔ میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے آپ مجھے سکھلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو (پہلے) تکبیر کہہ پھر قرآن مجید سے جو کچھ تجھ سے ہو سکے پڑھ، اس کے بعد رکوع کر اور پوری طرح رکوع میں چلا جا۔ پھر سر اٹھا اور پوری طرح کھڑا ہو جا۔ پھر جب تو سجدہ کرے تو پوری طرح سجدہ میں چلا جا۔ پھر (سجدہ سے) سر اٹھا کر اچھی طرح بیٹھ جا۔ دوبارہ بھی اسی طرح سجدہ کر۔ یہی طریقہ نماز کے تمام (رکعتوں میں) اختیار کر۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا تھا۔
پوسٹ نمبر33 میں یہ حدیث آپ کی طرف سے پوسٹ کی گئی ہے۔
جواب

کسی چیز کا عدم ذکر اس کی نفی پر دال نہیں ہوا کرتا۔ مزید وضاحت ماقبل آپ کی اس قبیل سے پیش احادیث کے ذیل میں پیش کرچکا ہوں۔ اس کی طرف مراجعت کریں۔ شکریہ مولانا سہج صاحب
 
Top