• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ﴿١٨﴾
اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
قرآن،سورت النجم، آیت نمبر 18

یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان آیات کو دیکھا تھا۔ اور چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملالات (ملاقات) بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی، اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلیٰ پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ بھی اللہ نہ تھا، اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا۔ اگر آپ نے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی اللہ جل شانہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کر دی جاتی حضرت موسیٰ کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا لَنْ تَرَانِیْ، " تم مجھے نہیں دیکھ سکتے " (المائدہ:143)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرف، جو حضرت موسیٰ کو عطا نہیں کیا گیا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کر دیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کر دیا جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا تھا، بلکہ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ " اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں " ۔ (لِنُرِیَہ مِنْ ایَٰاتِنَا)، اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ " اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں " (لَقَدْ رَایٰ مِنْ ایٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ)۔

ان وجوہ سے بظاہر اس بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا یا جبریل علیہ السلام کو؟ لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم ترتیب وار ان احادیث کو درج کرتے ہیں جو اس سلسلے میں مختلف صحابہ کرام سے منقول ہوئی ہیں ۔

(1)۔ حضرت عائشہ کی روایات:
بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا، " اماں جان، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے جواب دیا " تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ " (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہ نے یہ فرمائی کہ ) " جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے " ۔ پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں: لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں)، اور مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے )۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا " لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا "
اس حدیث کا ایک حصہ بخاری، کتاب التوحید، باب 4 میں بھی ہے ۔ اور کتاب بدءالخلق میں مسروق کی جو روایت امام بخاری نے نقل کی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہو گا ثُمَّ دَنیٰ فَتَدَلّیٰ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ؟ اس پر انہوں نے فرمایا " اس سے مراد جبریل ہیں ۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے ، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آپ کے پاس آئے اور سارا افق ان سے بھر گیا۔ "
مُسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ میں حضرت عائشہ سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے : حضرت عائشہ نے فرمایا " جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے " ۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا، ام المومنین جلدی نہ فرمایئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقِ الْمْبِیْنِ؟ اور لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا۔ حضور نے فرمایا انما ھو جبریل علیہ السلام، لم ارہ علیٰ صورتہ التی خلق علیھا غیرھاتین المرتین، رایتہ منھبطا من السمآء سادّا عظم خلقہ ما بین السماء والارض۔ " وہ تو جبریل علیہ السلام تھے ۔ میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے ، ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی " ۔
ابن مَرْدُوْیہ نے مسروق کی اس روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں : " حضرت عائشہ نے فرمایا : " سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور نے جواب دیا نہیں، میں نے تو جبریل کو آسمان سے اترتے دیکھا تھا " ۔
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات:
بخاری، کتاب التفیسر، مسلم کتاب الایمان اور ترمذی ابواب التفسیر میں زِرّ بن حُبَیش کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ۔
مسلم کی دوسری روایات میں مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَایٰ اور لَقَدْ رَایٰ مِنْ ایَٰاتِ رَبِّہَ الْکُبْریٰ کی بھی یہی تفسیر زر بن حُبیش نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے ۔
مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر زرّ بن حبیش کے علاوہ عبد الرحمٰن بن یزید اور ابو وائل کے واسطہ سے بھی منقول ہوئی ہے اور مزید برآں مسند احمد میں زِرّ بن حبیش کی دو روایتیں اور نقل ہوئی ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ، عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہیٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رأیت جبریل عند سدرۃ المنتہیٰ علیہ ستمائۃ جناح۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جبریل کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، ان کے چھ سو بازو تھے " ۔ اسی مضمون کی روایت امام احمد نے شقیق بن سلَمہ سے بھی نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی زبان سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ فرمایا تھا کہ میں نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں سدرۃ المنتہیٰ پر دیکھا تھا۔
(3)۔ حضرت ابو ہریرہ سے عطاء بن ابی رباح نے آیت لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رایٰ جبریل علیہ السلام۔ " حضور نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا " ۔ (مسلم، کتاب الایمان)۔
(4) حضرت ابو ذر غفاری سے عبداللہ بن شقیق کی دو روایتیں امام مسلم نے کتاب الایمان میں نقل کی ہیں ۔ ایک روایت میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور نے جواب دیا : نورٌ اَنّیٰ اراہ۔ اور دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ میرے اس سوال کا جواب آپ نے یہ دیا کہ رأیتُ نوراً۔ حضور کے پہلے ارشاد کا مطلب ابن القیم نے زادالمعاد میں یہ بیان کیا ہے کہ " میرے اور رؤیت رب کے درمیان نور حائل تھا " ۔ اور دوسرے ارشاد کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ " میں نے اپنے رب کو نہیں بلکہ بس ایک نور دیکھا " ۔
نسائی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوذر کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا، آنکھوں سے نہیں دیکھا " ۔
(5) حضرت ابو موسیٰ اشعری سے امام مسلم کتاب الایمان میں یہ روایت لائے ہیں کہ حضور نے فرمایا ما انتھیٰ الیہ بصر من خلقہ۔ " اللہ تعالیٰ تک اس کی مخلوق میں سے کسی کی نگاہ نہیں پہنچی " ۔
(6) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات:
مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رأی، وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔ یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے ۔
ابن مردُویہ نے عطاء بن ابی رَباح کے حوالہ سے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے دیکھا تھا۔
نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس نے فرمایا اتعجبون ان تکون الخلۃ لابراہیم والکلام لموسیٰ والرؤیۃُ لمحمد؟۔ " کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل بنایا، موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے سر فراز کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیت کا شرف بخشا " ۔ حاکم نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا " اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰؑ کے درمیان تقسیم کر دیا تھا موسیؑ ٰ سے اس نے دو مرتبہ کلام کیا اور محمدﷺنے دو مرتبہ اس کو دیکھا " ۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہ کے پاس گے تھے اور ان سے پوچھا تھا " کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے فرمایا " تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے " ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہ کی روایات میں نقل کر آئے ہیں ۔
ترمذی ہی میں دوسری روایات جو ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے ایک میں وہ فرماتے ہیں کہ حضور نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ دوسری میں فرماتے ہیں دو مرتبہ دیکھا تھا۔ اور تیسری میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ آپ نے اللہ کو دل سے دیکھا تھا۔
مسند احمد میں ابن عباس کی ایک روایت یہ ہے کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رأیت ربی تبارک و تعالیٰ۔ " میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا " ۔ دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اتانی ربی اللیلۃ فی احسن صورۃ، احسبہ یعنی فی النوم۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرا رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا " ۔
طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا، ایک مرتبہ آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل سے ۔
(7)۔ محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نہ پوچھا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضور نے جواب دیا " میں نے اس کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا " (ابن ابی حاتم)۔ اس روایت کو ابن جریر نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: " میں نے اس کو آنکھ سے نہیں بلکہ دل سے دو مرتبہ دیکھا ہے " ۔
(8)۔ حضرت انس بن مالک کی ایک روایت جو قصہ معراج کے سلسلے میں شریک بن عبداللہ کے حوالہ سے امام بخاری نے کتاب التوحید میں نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ آتے ہیں: حتّیٰ جَاءَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ و دَنَا الجبار رب العزۃ فتدلّیٰ حتّیٰ کَان منہ قاب قوسین او ادنیٰ فاوحی اللہ فیما اوحیٰ الیہ خمسین صلوٰۃ۔ یعنی " جب آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے تو اللہ رب العزۃ آپ کے قریب آیا اور آپ کے اوپر معلّق ہو گیا یہاں تک کہ آپ کے اور اس کے درمیان بقدر دو کمان یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا، پھر اللہ نے آپ پر جو امور وحی فرمائے ان میں سے ایک 50 نمازوں کا حکم تھا " ۔

لیکن علاوہ ان اعتراضات کے جو اس روایت کی سند اور مضمون پر امام خطابی، حافظ ابن حَجر، ابن حَزم اور حافظ عبدالحق صاحب الجمع بین الصحیحین نے کیے ہیں، سب سے بڑا اعتراض اس پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ صریح قرآن کے خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید دو الگ الگ رؤیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ابتداءً اُفُقِ اعلیٰ پر ہوئی تھی اور پھر اس میں دَنَا فَتَدَلّیٰ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کا معاملہ پیش آیا تھا، اور دوسری سدرۃ المنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی۔ لیکن یہ روایت ان دونوں رؤیتوں کو خلط ملط کر کے ایک رؤیت بنا دیتی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید سے متعارض ہونے کی بنا پر اس کو تو کسی طرح قبول ہی نہیں کیا جا سکتا۔

اب رہیں وہ دوسری روایات جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں، تو ان میں سب سے زیادہ وزنی روایتیں وہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہ سے منقول ہوئی ہیں، کیونکہ ان دونوں نے بالاتفاق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ان دونوں مواقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا، اور یہ روایات قرآن مجید کی تصریحات اور اشارات سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں ۔

مزید براں ان کی تائید حضور کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابوذر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہم) نے آپ سے نقل کیے ہیں، اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ۔ کسی میں وہ دونوں رؤیتوں کو عینی کہتے ہیں، کسی میں دونوں کو قلبی قرار دیتے ہیں، کسی میں ایک کو عینی اور دوسری کو قلبی بتاتے ہیں، اور کسی میں عینی رؤیت کی صاف صاف نفی کر دیتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی روایت بھی ایسی نہیں ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کوئی ارشاد نقل کر رہے ہوں ۔ اور جہاں انہوں نے خود حضور کا ارشاد نقل کیا ہے ، وہاں اول تو قرآن مجید کی بیان کردہ ان دونوں رؤیتوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے ، اور مزید برآں ان کی ایک روایت کی تشریح دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضور نے کسی وقت بحالت بیداری نہیں بلکہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔

اس لیے درحقیقت ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منسوب روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح محمد بن کعب القرظی کی روایات بھی، اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں، لیکن ان میں ان صحابہ کرام کے ناموں کی کوئی تصریح نہیں ہے جنہوں نے حضور سے یہ بات سنی۔ نیز ان میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ حضور نے عینی رویت کی صاف صاف نفی فرما دی تھی۔
تفہیم القرآن از سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، جلدنمبر05، صفحہ206 -201
یعنی اس سے بھی یہی معلوم ہوا کہ جھگڑا حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنے پر نہیں ہوا بلکہ صحابہ کا اختلاف رب کو دیکھنے پر ہی ہے
اور میں نے یہی عرض کی تھی کہ اگر کسی صاحب علم کے علم میں کوئی صحیح روایت ہو جس میں حضرت جبریل علیہ السلام کی رویت پر اختلاف ہوا ہو کیونکہ موددی صاحب کی تحریر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جھگڑا رویت باری تعالٰی پر ہی ہوا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ

کیا جو کچھ وہ دیکھتے تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
محترم طاہر صاحب !
اگر دلائل سے ”قطع نظر“ دل اسی طرح ”غیر واضح و مبہم“مؤقف کی طرف ”کھنچنے“لگے تو دوسرے” علمی مباحث“ کا کیا بنے گا ؟ ہاں”فتویٰ بازی “ کو میں بھی پسند نہیں کرتا ۔
مسئلے میں اگر قطعی دلیل موجود ہو تو وہاں قلبی میلان کی کوئی حیثیت نہیں لیکن اگر مسئلہ اختلافی ہو اور دونوں طرف دلائل ہوں تو وہاں ذوق و وجدان وجہ ترجیح ہو سکتے ہیں؛فرمائیے!اب کیا اعتراض ہے؟؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
مسئلے میں اگر قطعی دلیل موجود ہو تو وہاں قلبی میلان کی کوئی حیثیت نہیں لیکن اگر مسئلہ اختلافی ہو اور دونوں طرف دلائل ہوں تو وہاں ذوق و وجدان وجہ ترجیح ہو سکتے ہیں؛فرمائیے!اب کیا اعتراض ہے؟؟
لگتا ہے آپ نےہمارے پیش کردہ ”دلائل“ کا بغور مطالعہ نہیں کیا ۔ آپ اگر صرف ”قرآن مجید“سے اس مسئلہ کو ”سمجھنا“ چاہتے تو ”باآسانی“ سمجھ سکتے تھے ہمارا پورا”استدلال“ قرآن مجید پر مبنی ہے اور اسکے ”مطابقت“ رکھنے والی”روایات“ سے ۔ آپ شائد”روایات“ میں ”اضطراب“ دیکھ کر کسی ”حتمی رائے“پر نہیں پہنچ سکے اور اسی لیے ”قرآن مجید“کی صریح آیات بھی آپ کے ”اشکال “کو دور نہیں کر سکیں۔ خیر اگر آپ ہمارےپیش کردہ” دلائل“ سے مطمئن نہیں تو کوئی ”بات“ نہیں۔ اس ”اطمینان“کی بات کو آپ ”قا رئین“پر چھوڑ دیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یعنی اس سے بھی یہی معلوم ہوا کہ جھگڑا حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنے پر نہیں ہوا بلکہ صحابہ کا اختلاف رب کو دیکھنے پر ہی ہے
اور میں نے یہی عرض کی تھی کہ اگر کسی صاحب علم کے علم میں کوئی صحیح روایت ہو جس میں حضرت جبریل علیہ السلام کی رویت پر اختلاف ہوا ہو کیونکہ موددی صاحب کی تحریر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جھگڑا رویت باری تعالٰی پر ہی ہوا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ

کیا جو کچھ وہ دیکھتے تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو؟
قرآن مجید کی رو سےمسئلہ بالکل واضح ہےکہ نبیﷺ نے اللہ تعالٰی کو نہیں بلکہ جبرئیلؑ کو ہی دیکھا تھا لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
قرآن مجید کی رو سےمسئلہ بالکل واضح ہےکہ نبیﷺ نے اللہ تعالٰی کو نہیں بلکہ جبرئیلؑ کو ہی دیکھا تھا لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
محترم! آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہر جگہ صرف قرآن کی بات کرنے اور احادیث مبارکہ سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے سے باز رہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم! آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہر جگہ صرف قرآن کی بات کرنے اور احادیث مبارکہ سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے سے باز رہیں۔
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ !
محترم انس نضر صاحب !
میں ”حیران“ ہوں کہ آپ جیسا ”اہلِ علم“ اب بھی اس”خیال“ میں مبتلا ہےکہ میرا ”رجحان“ منکرینِ حدیث کی طرف ہے ۔ آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے اسی ”موضوع “سے متعلق آپ کے پیش کردہ ”دلائل“ سے اتفاق کیا ہے جن میں ”قرآن مجید“ کی آیات کےساتھ ”احادیث“ کی روایات بھی شامل ہیں۔ نہ جانے یہ ”حقیقت“ آپ کی نظر سے” اوجھل“ کیونکر رہی؟
دراصل میرا کہنا یہ تھا کہ” قرآن مجید“ کہیں بھی نبیﷺ کے” دیدار ِ الہٰی“ کی صراحت نہیں کرتا اگر کوئی اس ”مسئلے“ کو صرف قرآن مجید سے ہی سمجھنا چاہے تو وہ سورۃ النجم کی آیات کو سورۃ الاسراء اور سورۃ التکویر کی ”آیات “سے باآسانی سمجھ سکتا ہے ۔ لہذا آپ بھی اس بات سے” متفق“ ہوں گے کہ احادیث کی کتابوں میں” اثبات و انکارِ دیدارِ الہٰی“ دونوں کےمتعلق ”روایات“ آئیں ہیں جن میں سے سب سے ”معتبر“ روایات حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ہیں جو پوری طرح ”قرآن مجید“ سے ”مطابقت“ رکھتی ہیں اس کے علاوہ باقی روایات قرآن مجید سے ”عدم مطابقت“ کی بناء پر ”قبول“ نہیں کی جاسکتیں۔
اب” بتائیں“ کہ ان باتوں سے کہاں یہ” ثابت “ہوتا ہے کہ میں ”منکرِ حدیث“ ہوں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ !
محترم انس نضر صاحب !
میں ”حیران“ ہوں کہ آپ جیسا ”اہلِ علم“ اب بھی اس”خیال“ میں مبتلا ہےکہ میرا ”رجحان“ منکرینِ حدیث کی طرف ہے ۔ آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے اسی ”موضوع “سے متعلق آپ کے پیش کردہ ”دلائل“ سے اتفاق کیا ہے جن میں ”قرآن مجید“ کی آیات کےساتھ ”احادیث“ کی روایات بھی شامل ہیں۔ نہ جانے یہ ”حقیقت“ آپ کی نظر سے” اوجھل“ کیونکر رہی؟
دراصل میرا کہنا یہ تھا کہ” قرآن مجید“ کہیں بھی نبیﷺ کے” دیدار ِ الہٰی“ کی صراحت نہیں کرتا اگر کوئی اس ”مسئلے“ کو صرف قرآن مجید سے ہی سمجھنا چاہے تو وہ سورۃ النجم کی آیات کو سورۃ الاسراء اور سورۃ التکویر کی ”آیات “سے باآسانی سمجھ سکتا ہے ۔ لہذا آپ بھی اس بات سے” متفق“ ہوں گے کہ احادیث کی کتابوں میں” اثبات و انکارِ دیدارِ الہٰی“ دونوں کےمتعلق ”روایات“ آئیں ہیں جن میں سے سب سے ”معتبر“ روایات حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ہیں جو پوری طرح ”قرآن مجید“ سے ”مطابقت“ رکھتی ہیں اس کے علاوہ باقی روایات قرآن مجید سے ”عدم مطابقت“ کی بناء پر ”قبول“ نہیں کی جاسکتیں۔
اب” بتائیں“ کہ ان باتوں سے کہاں یہ” ثابت “ہوتا ہے کہ میں ”منکرِ حدیث“ ہوں۔
متفق -

پھریہ بھی ایک امر ہے کہ جب حضرت مسروق نے ام المومنین سے فرمایا "اماں جان، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " تو اس وقت بھی ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہ نے قرآن کی آیات پیش کرکے یہ بات واضح کی تھی کہ لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں)، اور مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے )۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا "

یعنی ام المومنین کی مطابق نبی کریم کا قول قرآن کی صریح نص سے نہیں ٹکرا سکتا - اور اگر بالفرض بظاھر ایسا محسوس ہو کہ آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کا قول قرآن کی صریح نص سے ٹکرا رہا ہے تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا رد کردیا جائے گا - کیوں کہ قرآن کے الفاظ اور حدیث کے الفاظ دونوں نبی کریم پرنازل ہوے - وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ -إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ- سوره النجم ٣-٤
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یعنی اس سے بھی یہی معلوم ہوا کہ جھگڑا حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھنے پر نہیں ہوا بلکہ صحابہ کا اختلاف رب کو دیکھنے پر ہی ہے
اور میں نے یہی عرض کی تھی کہ اگر کسی صاحب علم کے علم میں کوئی صحیح روایت ہو جس میں حضرت جبریل علیہ السلام کی رویت پر اختلاف ہوا ہو کیونکہ موددی صاحب کی تحریر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جھگڑا رویت باری تعالٰی پر ہی ہوا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ

کیا جو کچھ وہ دیکھتے تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو؟
صحیح مسلم کی ورایت جب نبی کریمﷺ نے خود وضاحت فرمادی کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور نبی کریمﷺ نے جبریل کو دو بار دیکھا تھا تو پھر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کی کیا ضرورت؟!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ !
محترم انس نضر صاحب !
میں ”حیران“ ہوں کہ آپ جیسا ”اہلِ علم“ اب بھی اس”خیال“ میں مبتلا ہےکہ میرا ”رجحان“ منکرینِ حدیث کی طرف ہے ۔ آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے اسی ”موضوع “سے متعلق آپ کے پیش کردہ ”دلائل“ سے اتفاق کیا ہے جن میں ”قرآن مجید“ کی آیات کےساتھ ”احادیث“ کی روایات بھی شامل ہیں۔ نہ جانے یہ ”حقیقت“ آپ کی نظر سے” اوجھل“ کیونکر رہی؟
دراصل میرا کہنا یہ تھا کہ” قرآن مجید“ کہیں بھی نبیﷺ کے” دیدار ِ الہٰی“ کی صراحت نہیں کرتا اگر کوئی اس ”مسئلے“ کو صرف قرآن مجید سے ہی سمجھنا چاہے تو وہ سورۃ النجم کی آیات کو سورۃ الاسراء اور سورۃ التکویر کی ”آیات “سے باآسانی سمجھ سکتا ہے ۔ لہذا آپ بھی اس بات سے” متفق“ ہوں گے کہ احادیث کی کتابوں میں” اثبات و انکارِ دیدارِ الہٰی“ دونوں کےمتعلق ”روایات“ آئیں ہیں جن میں سے سب سے ”معتبر“ روایات حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ہیں جو پوری طرح ”قرآن مجید“ سے ”مطابقت“ رکھتی ہیں اس کے علاوہ باقی روایات قرآن مجید سے ”عدم مطابقت“ کی بناء پر ”قبول“ نہیں کی جاسکتیں۔
اب” بتائیں“ کہ ان باتوں سے کہاں یہ” ثابت “ہوتا ہے کہ میں ”منکرِ حدیث“ ہوں۔
یہ تھریڈ رؤیتِ باری تعالیٰ سے متعلّق ہے۔ انکارِ حدیث سے متعلق بحث سے یہ تھریڈ دوسری طرف چلا جائے گا۔

میں اسی پر بات ختم کرتا ہوں کہ منکرین حدیث کی سب سے بڑی دلیل ہی یہی ہوتی ہے کہ ہم فلاں فلاں حدیثوں کو اس لئے نہیں مانتے کہ وہ قرآن سے ٹکراتی ہیں۔

ہمارے نزدیک حدیث مستقبل بالذات وحی ہے، اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہو تو اس کا کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نہ قرآن (در حقیقت قرآن سے لیے گئے ذاتی مفہوم کے) مخالف ہونے کی وجہ سے، نہ کسی اور وجہ سے۔ اگر دو آیات ہمیں اسی طرح ظاہرا مخالف نظر آرہی ہوں تو جو موقف ہمارا وہاں ہوتا ہے وہی موقف اس وقت ہونا چاہئے جب ہمیں کوئی صحیح حدیث ظاہراً قرآن سے ٹکراتی نظر آتی ہو۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یہ تھریڈ رؤیتِ باری تعالیٰ سے متعلّق ہے۔ انکارِ حدیث سے متعلق بحث سے یہ تھریڈ دوسری طرف چلا جائے گا۔

میں اسی پر بات ختم کرتا ہوں کہ منکرین حدیث کی سب سے بڑی دلیل ہی یہی ہوتی ہے کہ ہم فلاں فلاں حدیثوں کو اس لئے نہیں مانتے کہ وہ قرآن سے ٹکراتی ہیں۔

ہمارے نزدیک حدیث مستقبل بالذات وحی ہے، اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہو تو اس کا کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نہ قرآن (در حقیقت قرآن سے لیے گئے ذاتی مفہوم کے) مخالف ہونے کی وجہ سے، نہ کسی اور وجہ سے۔ اگر دو آیات ہمیں اسی طرح ظاہرا مخالف نظر آرہی ہوں تو جو موقف ہمارا وہاں ہوتا ہے وہی موقف اس وقت ہونا چاہئے جب ہمیں کوئی صحیح حدیث ظاہراً قرآن سے ٹکراتی نظر آتی ہو۔
میں بھی اپنی ”بات“ختم کرتا ہوں کہ ہم ”روایات“کو ”قرآن مجید“ کا درجہ کسی ”صورت“نہیں دے سکتے۔
 
Top