• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے۔ یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت کا ہے۔ دونوں پر مختصر غور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت سے جو چیز ثابت ہے، وہ ہے دیدار خداوندی اور نفی میں پیش کی جانے والی آیت میں ہے۔ ’’آنکھوں کے ادراک کی نفی‘‘ حالانکہ دیکھنے اور ادراک میں فرق ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُo
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے‘‘۔
الانعام، 6: 103
امام رازی رحمہ اﷲ تعالٰی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار.
’’آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔‘‘
فخر الدين رازی ، التفسير الکبير، 13: 103 ، دار الکتب العلمية بيروت
المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اﷲ تعالی نفی الرؤية عن اﷲ تعالی.
’’دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا، ایک جنس، جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اﷲ کے ادراک کی نفی سے اﷲ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔‘‘
رازی، التفسير الکبير، 13: 104
امام قرطبی فرماتے ہیں:
الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة.
’’ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جاسکتی ہے۔ اﷲ کا دیکھنا ثابت ہے‘‘۔
قرطبی، الجامع لأحکام القران، 7: 54 ، دار الشعيب القاهره
۔
آپ نے شاید کسی رسالے کا صفحہ یہاں پیسٹ فرما ڈالا ،اگر آپ خو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی پوری روایت پڑھ کر پوسٹ کرتے تو معاملہ سراسر مختلف ہوتا ،
ادراک اور رؤیت میں کب فرق ہوتا ہے کب نہیں ،یہ آپ نہیں جانتے ،کیونکہ یا تو آپ عربی لغت سے بے خبر ہیں ،یا علم حدیث سے تہی دامن ،
خیر حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا دیکھئے :
قالت: من زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية، قال: وكنت متكئا فجلست، فقلت: يا أم المؤمنين، أنظريني، ولا تعجليني، ألم يقل الله عز وجل: {ولقد رآه بالأفق المبين} [التكوير: 23]، {ولقد رآه نزلة أخرى} [النجم: 13]؟ فقالت: أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «إنما هو جبريل، لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين، رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض»، فقالت: أو لم تسمع أن الله يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير} [الأنعام: 103]
اس حدیث میں سیدہ رضی اللہ عنہا خود ( ادراک ۔ کو ۔رؤیت ، کے معنی میں بیان کر رہی ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالی کا دیدار کیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدارِ الٰہی کرنے کا ثبوت

قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے۔ یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت کا ہے۔ دونوں پر مختصر غور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت سے جو چیز ثابت ہے، وہ ہے دیدار خداوندی اور نفی میں پیش کی جانے والی آیت میں ہے۔ ’’آنکھوں کے ادراک کی نفی‘‘ حالانکہ دیکھنے اور ادراک میں فرق ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُo
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے‘‘۔
الانعام، 6: 103
امام رازی رحمہ اﷲ تعالٰی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار.
’’آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔‘‘
فخر الدين رازی ، التفسير الکبير، 13: 103 ، دار الکتب العلمية بيروت
المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اﷲ تعالی نفی الرؤية عن اﷲ تعالی.
’’دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا، ایک جنس، جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اﷲ کے ادراک کی نفی سے اﷲ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔‘‘
رازی، التفسير الکبير، 13: 104
امام قرطبی فرماتے ہیں:
الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة.
’’ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جاسکتی ہے۔ اﷲ کا دیکھنا ثابت ہے‘‘۔
قرطبی، الجامع لأحکام القران، 7: 54 ، دار الشعيب القاهره
خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیت سے اور اسے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے قول سے، دیدار الٰہی کی نفی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی۔ آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں یا یہ کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور ظاہر ہے کہ دیکھنا اور ہے، احاطہ کرنا اور ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دنیا میں بھی اﷲ کو دیکھ سکتی ہیں اور یقینا وہ بعض آنکھیں محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہیں۔
علامہ قرطبی مزید لکھتے ہیں:

عبد اﷲ بن الحارث اجتمع ابن عباس و أبی ابن کعب فقال ابن عباس أما نحن بنو هاشم فنقول اِن محمدا رأی ربه مرتين ثم قال ابن عباس أتعجبون أن الخُلّة تکون لابراهيم والکلام لموسی والرؤية لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم وعليهم أجمعين قال فکبر کعب حتی جاوبته الجبال.
’’عبد اﷲ بن حارث کی حضرت ابن عباس اور ابن کعب سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم بنی ہاشم تو کہتے ہیں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ہے، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ دوستی (خلت) ابراہیم علیہ السلام کے لئے کلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے اور دیدارِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ثابت ہے۔ اس پر حضرت کعب نے اﷲ اکبر کہا یہاں تک کہ پہاڑ گونج اٹھے‘‘۔
قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
امام عبدالرزاق نے بیان کیا:
أن الحسن کان يحلف باﷲ لقد رأی محمد ربه.
’’حسن بصری اﷲ کی قسم اٹھا کر کہتے بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘۔
مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

هل رأی محمد ربه؟ فقال نعم.
’’کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا ہاں‘‘۔
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

بعينه رآه رآه حتی انقطع نفسه.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے اﷲ کو دیکھا۔ دیکھا، یہاں تک کہ ان کا سانس بند ہو گیا۔‘‘
یہی امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے۔ یہی حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، عکرمہ، ربیع اور حسن کا مذہب ہے۔

قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
نیز ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج، ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی۔
قرآن نے اﷲ کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود، اس کی نظر محدود، اﷲ غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ(قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے۔
ہماری عرض ہے کہ بھائی :یہ دراصل آپ کی زبردستی ہے ،کیونکہ اس آیت سے نفی رؤیت پر استدلال ام المؤمنین سیدہ رضی اللہ عنہا جیسی ہستی نے کیا ہے تو اسے زبردستی کہنا سراسر ان کی توہین ہے ،،
آپ فرماتے ہیں کہ ام المومنین ہجرت کے بعد پیغمبر کےمقدس گھر آئیں ،(یعنی انہیں کیا پتا کہ معراج میں دیدار ہوا یا نہیں ) یہ دوسری گستاخی ہے ،،
ہماری عرض ہے کہ علامہ رازی ؒ کو کیا پتا معراج میں دیدار ہوا یا نہیں ،کیونکہ رازی تو واقعہ معراج سے چھ سو سال بعد اس دنیا آئے ؟

اور اصل جواب یہ ہے کہ اس روایت میں سیدہ فرماتی ہیں ، کہ میں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا ،اور پوری امت سے پہلے پوچھا تھا :
أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «إنما هو جبريل، لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين، رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض»، فقالت: أو لم تسمع أن الله يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير} [الأنعام: 103]
اور اگر وہ یہ حوالہ نہ بھی دیتیں تب بھی ان کا استدلال بعد میں آنے والوں پر علامہ رازی جیسے لاکھوں پرمقدم ہے ،
دیکھئے اگر رازیؒ ،کا قول امام ابوحنیفہ کے قول پر مقدم نہیں ،تو صدیقہ کائنات کے فرمان سے مقدم کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟
رازیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ آیہ ( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا )سے مقتدی کو خلف الامام قرات سے نہیں روکا جاسکتا ،،اور آپ جانتے ہیں تمام احناف اسی آیت کو سب سے پہلی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بہت شکریہ شیخ محترم جناب انس نضر صاحب ،حفظک اللہ،
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
۔
[/QUOTE]
جزاک اللہ اسحاق سلفی بھائی،،،،،،،اللہ تعالی آپ کے علم میں ،صحت میں،عزت میں برکت عطا فرمائے(امین)
 
شمولیت
اکتوبر 12، 2014
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
44
جزاک اللہ
بہت عمدہ مباحثہ ملا اور سلفی بھائیوں کے دلائل پڑھ کے دل خوش ہوگیا۔ عاصم صاحب نے کاپی پیسٹ کی بہت کوشش کی مگر جب انس نضر بھائی نے خواب میں دیدار الہیٰ والیٰ احادیث کے گھپلے کو واضح کیا تو عاصم صاحب سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔اور ان کی علمی خیانت بھی واضح ہوگئی۔ اللہ ہم سب کو قرآن وحدیث پہ عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور دین میں بدعات اور غلو سے بچائے اور آمین
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دلائل سے قطع نظر مجھے سیدنا ابن عباسؓ کا موقف بہت اچھا لگتا ہے؛میرا دل اس کی طرف کھنچتا ہے :
رأي محمد ربه
اب دل کی آنکھوں سے دیکھا یا بہ چشم سر؛یہ کوئی مسئلہ نہیں ؛ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھنے میں کوئی استہالہ نہیں کہ وہ دوسرا ہی عالم ہے۔واللہ اعلم بمرادہ والصلاۃ والسلام علیٰ نبیہ و اصحابہ
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اس میں جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں؛ہر ایک کی اپنی تحقیق ہے؛سو فتویٰ لگانے سے گریز ہی فرمائیں؛اگر کسی کو شوق ہی ہو تو بھی ٹھیک ہی ہے؛والسلام
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
صحیح بخاری کتاب التوحید میں موجود شریک بن عبداللہ کی اس روایت پر بھی روشنی ڈال دیں ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ،‏‏‏‏ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ،‏‏‏‏ فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ،‏‏‏‏ وَتَنَامُ عَيْنُهُ،‏‏‏‏ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ،‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ،‏‏‏‏ فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ،‏‏‏‏ فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ،‏‏‏‏ فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً،‏‏‏‏ فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا،‏‏‏‏ فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ مَنْ هَذَا،‏‏‏‏ فَقَالَ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَنْ مَعَكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِيَ مُحَمَّدٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ بُعِثَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا،‏‏‏‏ فَيَسْتَبْشِرُ بِهِ أَهْلُ السَّمَاءِ لَا يَعْلَمُ أَهْلُ السَّمَاءِ بِمَا يُرِيدُ اللَّهُ بِهِ فِي الْأَرْضِ حَتَّى يُعْلِمَهُمْ،‏‏‏‏ فَوَجَدَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا آدَمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَرَدَّ عَلَيْهِ آدَمُ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِي نِعْمَ الِابْنُ أَنْتَ فَإِذَا هُوَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِنَهَرَيْنِ يَطَّرِدَانِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَانِ النَّهَرَانِ يَا جِبْرِيلُ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا النِّيلُ وَالْفُرَاتُ عُنْصُرُهُمَا،‏‏‏‏ ثُمَّ مَضَى بِهِ فِي السَّمَاءِ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ،‏‏‏‏ فَضَرَبَ يَدَهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ مِسْكٌ أَذْفَرُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَكَ رَبُّكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ مَا قَالَتْ لَهُ الْأُولَى مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ قَالُوا وَمَنْ مَعَكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ،‏‏‏‏ وَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ مَا قَالَتِ الْأُولَى وَالثَّانِيَةُ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى الرَّابِعَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُم عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ كُلُّ سَمَاءٍ فِيهَا أَنْبِيَاءُ قَدْ سَمَّاهُمْ،‏‏‏‏ فَأَوْعَيْتُ مِنْهُمْ إِدْرِيسَ فِي الثَّانِيَةِ،‏‏‏‏ وَهَارُونَ فِي الرَّابِعَةِ،‏‏‏‏ وَآخَرَ فِي الْخَامِسَةِ،‏‏‏‏ لَمْ أَحْفَظْ اسْمَهُ،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ،‏‏‏‏ وَمُوسَى فِي السَّابِعَةِ،‏‏‏‏ بِتَفْضِيلِ كَلَامِ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ رَبِّ لَمْ أَظُنَّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَيَّ أَحَدٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى،‏‏‏‏ وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ،‏‏‏‏ فَتَدَلَّى،‏‏‏‏ حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى،‏‏‏‏ فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ هَبَطَ حَتَّى بَلَغَ مُوسَى،‏‏‏‏ فَاحْتَبَسَهُ مُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ:‏‏‏‏ مَاذَا عَهِدَ إِلَيْكَ رَبُّكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَارْجِعْ،‏‏‏‏ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ وَعَنْهُمْ،‏‏‏‏ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ كَأَنَّهُ يَسْتَشِيرُهُ فِي ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَأَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ أَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَلَا بِهِ إِلَى الْجَبَّارِ،‏‏‏‏ فَقَالَ وَهُوَ مَكَانَهُ:‏‏‏‏ "يَا رَبِّ،‏‏‏‏ خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ أُمَّتِي لَا تَسْتَطِيعُ هَذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُوسَى،‏‏‏‏ فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ حَتَّى صَارَتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَى عِنْدَ الْخَمْسِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَى أَدْنَى مِنْ هَذَا،‏‏‏‏ فَضَعُفُوا،‏‏‏‏ فَتَرَكُوهُ،‏‏‏‏ فَأُمَّتُكَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا،‏‏‏‏ فَارْجِعْ،‏‏‏‏ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ كُلَّ ذَلِكَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَكْرَهُ ذَلِكَ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ،‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَاءُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ،‏‏‏‏ فَخَفِّفْ عَنَّا،‏‏‏‏ فَقَالَ الْجَبَّارُ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ كَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْكَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَكُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْكَ،‏‏‏‏ فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ فَعَلْتَ ؟،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا،‏‏‏‏ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَتَرَكُوهُ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ أَيْضًا،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى،‏‏‏‏ قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں تیسرے نے کہا کہ ان میں جو سب سے بہتر ہیں انہیں لے لو۔ اس رات کو بس اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جب کہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں۔ لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے بات نہیں کی۔ بلکہ آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لائے۔ یہاں جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا کام سنبھالا اور آپ کے گلے سے دل کے نیچے تک سینہ چاک کیا اور سینے اور پیٹ کو پاک کر کے زمزم کے پانی سے اسے اپنے ہاتھ سے دھویا یہاں تک کہ آپ کا پیٹ صاف ہو گیا۔ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے آپ کے سینے اور حلق کی رگوں کو سیا اور اسے برابر کر دیا۔ پھر آپ کو لے کر آسمان دنیا پر چڑھے اور اس کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر دستک دی۔ آسمان والوں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل انہوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ آسمان والوں نے کہا خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ آسمان والے اس سے خوش ہوئے۔ ان میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ انہیں بتا نہ دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان دنیا پر آدم علیہ السلام کو پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ یہ آپ کے بزرگ ترین دادا آدم ہیں آپ انہیں سلام کیجئے۔ آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ کہا کہ خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ مبارک ہو اپنے بیٹے کو، آپ کیا ہی اچھے بیٹے ہیں۔ آپ نے آسمان دنیا میں دو نہریں دیکھیں جو بہہ رہی تھیں۔ پوچھا اے جبرائیل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے۔ پھر آپ آسمان پر اور چلے تو دیکھا کہ ایک دوسری نہر ہے جس کے اوپر موتی اور زبرجد کا محل ہے۔ اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ مشک ہے۔ پوچھا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ کوثر ہے جسے اللہ نے آپ کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ پھر آپ دوسرے آسمان پر چڑھے۔ فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان پر کیا تھا۔ کون ہیں؟ کہا: جبرائیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ فرشتے بولے انہیں مرحبا اور بشارت ہو۔ پھر آپ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے اور دوسرے آسمان پر کیا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا پھر چھٹے آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر آپ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ ہر آسمان پر انبیاء ہیں جن کے نام آپ نے لیے۔ مجھے یہ یاد ہے کہ ادریس علیہ السلام دوسرے آسمان پر، ہارون علیہ السلام چوتھے آسمان پر، اور دوسرے نبی پانچویں آسمان پر۔ جن کے نام مجھے یاد نہیں اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر اور موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان پر۔ یہ انہیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی کی وجہ سے فضیلت ملی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میرے رب! میرا خیال نہیں تھا کہ کسی کو مجھ سے بڑھایا جائے گا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی۔ پھر آپ اترے اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور پوچھا: اے محمد! آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے؟ فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے دن اور رات میں پچاس نمازوں کا عہد لیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں۔ واپس جائیے اور اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی اشارہ کیا کہ ہاں اگر چاہیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ آپ پھر انہیں لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہو کر عرض کیا: اے رب! ہم سے کمی کر دے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی کمی کر دی۔ پھر آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو روکا۔ موسیٰ علیہ السلام آپ کو اسی طرح برابر اللہ رب العزت کے پاس واپس کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پانچ نمازیں ہو گئیں۔ پانچ نمازوں پر بھی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا اور کہا: اے محمد! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا تجربہ اس سے کم پر کیا ہے وہ ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی امت تو جسم، دل، بدن، نظر اور کان ہر اعتبار سے کمزور ہے، آپ واپس جائیے اور اللہ رب العزت اس میں بھی کمی کر دے گا۔ ہر مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل علیہ السلام اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ جب وہ آپ کو پانچویں مرتبہ بھی لے گئے تو عرض کیا: اے میرے رب! میری امت جسم، دل، نگاہ اور بند ہر حیثیت سے کمزور ہے، پس ہم سے اور کمی کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ وہ قول میرے یہاں بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔ اور فرمایا کہ ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہے پس یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں لیکن تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔ چنانچہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آئے اور انہوں نے پوچھا: کیا ہوا؟ آپ نے کہا کہ ہم سے یہ تخفیف کی کہ ہر نیکی کے بدلے دس کا ثواب ملے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کہا: اے موسیٰ، واللہ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے کیونکہ باربار آ جا چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے، جاگ اٹھنے سے یہ مراد ہے کہ وہ حالت معراج کی جاتی رہی اور آپ اپنی حالت میں آ گئے۔
صحیح بخاری:7517
كتاب التوحيد
باب قوله وكلم الله موسى تكليما
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
صحیح بخاری کتاب التوحید میں موجود شریک بن عبداللہ کی اس روایت پر بھی روشنی ڈال دیں ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ،‏‏‏‏ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ،‏‏‏‏ فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ،‏‏‏‏ وَتَنَامُ عَيْنُهُ،‏‏‏‏ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ،‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ،‏‏‏‏ فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ،‏‏‏‏ فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ،‏‏‏‏ فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً،‏‏‏‏ فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا،‏‏‏‏ فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ مَنْ هَذَا،‏‏‏‏ فَقَالَ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَنْ مَعَكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِيَ مُحَمَّدٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ بُعِثَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا،‏‏‏‏ فَيَسْتَبْشِرُ بِهِ أَهْلُ السَّمَاءِ لَا يَعْلَمُ أَهْلُ السَّمَاءِ بِمَا يُرِيدُ اللَّهُ بِهِ فِي الْأَرْضِ حَتَّى يُعْلِمَهُمْ،‏‏‏‏ فَوَجَدَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا آدَمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَرَدَّ عَلَيْهِ آدَمُ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِي نِعْمَ الِابْنُ أَنْتَ فَإِذَا هُوَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِنَهَرَيْنِ يَطَّرِدَانِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَانِ النَّهَرَانِ يَا جِبْرِيلُ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا النِّيلُ وَالْفُرَاتُ عُنْصُرُهُمَا،‏‏‏‏ ثُمَّ مَضَى بِهِ فِي السَّمَاءِ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ،‏‏‏‏ فَضَرَبَ يَدَهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ مِسْكٌ أَذْفَرُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَكَ رَبُّكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ مَا قَالَتْ لَهُ الْأُولَى مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ قَالُوا وَمَنْ مَعَكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ،‏‏‏‏ وَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ مَا قَالَتِ الْأُولَى وَالثَّانِيَةُ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى الرَّابِعَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُم عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ كُلُّ سَمَاءٍ فِيهَا أَنْبِيَاءُ قَدْ سَمَّاهُمْ،‏‏‏‏ فَأَوْعَيْتُ مِنْهُمْ إِدْرِيسَ فِي الثَّانِيَةِ،‏‏‏‏ وَهَارُونَ فِي الرَّابِعَةِ،‏‏‏‏ وَآخَرَ فِي الْخَامِسَةِ،‏‏‏‏ لَمْ أَحْفَظْ اسْمَهُ،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ،‏‏‏‏ وَمُوسَى فِي السَّابِعَةِ،‏‏‏‏ بِتَفْضِيلِ كَلَامِ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ رَبِّ لَمْ أَظُنَّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَيَّ أَحَدٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى،‏‏‏‏ وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ،‏‏‏‏ فَتَدَلَّى،‏‏‏‏ حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى،‏‏‏‏ فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ هَبَطَ حَتَّى بَلَغَ مُوسَى،‏‏‏‏ فَاحْتَبَسَهُ مُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ:‏‏‏‏ مَاذَا عَهِدَ إِلَيْكَ رَبُّكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَارْجِعْ،‏‏‏‏ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ وَعَنْهُمْ،‏‏‏‏ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ كَأَنَّهُ يَسْتَشِيرُهُ فِي ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَأَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ أَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَلَا بِهِ إِلَى الْجَبَّارِ،‏‏‏‏ فَقَالَ وَهُوَ مَكَانَهُ:‏‏‏‏ "يَا رَبِّ،‏‏‏‏ خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ أُمَّتِي لَا تَسْتَطِيعُ هَذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُوسَى،‏‏‏‏ فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ حَتَّى صَارَتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَى عِنْدَ الْخَمْسِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَى أَدْنَى مِنْ هَذَا،‏‏‏‏ فَضَعُفُوا،‏‏‏‏ فَتَرَكُوهُ،‏‏‏‏ فَأُمَّتُكَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا،‏‏‏‏ فَارْجِعْ،‏‏‏‏ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ كُلَّ ذَلِكَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَكْرَهُ ذَلِكَ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ،‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَاءُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ،‏‏‏‏ فَخَفِّفْ عَنَّا،‏‏‏‏ فَقَالَ الْجَبَّارُ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ كَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْكَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَكُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْكَ،‏‏‏‏ فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ فَعَلْتَ ؟،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا،‏‏‏‏ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَتَرَكُوهُ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ أَيْضًا،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى،‏‏‏‏ قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں تیسرے نے کہا کہ ان میں جو سب سے بہتر ہیں انہیں لے لو۔ اس رات کو بس اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جب کہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں۔ لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے بات نہیں کی۔ بلکہ آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لائے۔ یہاں جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا کام سنبھالا اور آپ کے گلے سے دل کے نیچے تک سینہ چاک کیا اور سینے اور پیٹ کو پاک کر کے زمزم کے پانی سے اسے اپنے ہاتھ سے دھویا یہاں تک کہ آپ کا پیٹ صاف ہو گیا۔ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے آپ کے سینے اور حلق کی رگوں کو سیا اور اسے برابر کر دیا۔ پھر آپ کو لے کر آسمان دنیا پر چڑھے اور اس کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر دستک دی۔ آسمان والوں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل انہوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ آسمان والوں نے کہا خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ آسمان والے اس سے خوش ہوئے۔ ان میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ انہیں بتا نہ دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان دنیا پر آدم علیہ السلام کو پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ یہ آپ کے بزرگ ترین دادا آدم ہیں آپ انہیں سلام کیجئے۔ آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ کہا کہ خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ مبارک ہو اپنے بیٹے کو، آپ کیا ہی اچھے بیٹے ہیں۔ آپ نے آسمان دنیا میں دو نہریں دیکھیں جو بہہ رہی تھیں۔ پوچھا اے جبرائیل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے۔ پھر آپ آسمان پر اور چلے تو دیکھا کہ ایک دوسری نہر ہے جس کے اوپر موتی اور زبرجد کا محل ہے۔ اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ مشک ہے۔ پوچھا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ کوثر ہے جسے اللہ نے آپ کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ پھر آپ دوسرے آسمان پر چڑھے۔ فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان پر کیا تھا۔ کون ہیں؟ کہا: جبرائیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ فرشتے بولے انہیں مرحبا اور بشارت ہو۔ پھر آپ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے اور دوسرے آسمان پر کیا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا پھر چھٹے آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر آپ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ ہر آسمان پر انبیاء ہیں جن کے نام آپ نے لیے۔ مجھے یہ یاد ہے کہ ادریس علیہ السلام دوسرے آسمان پر، ہارون علیہ السلام چوتھے آسمان پر، اور دوسرے نبی پانچویں آسمان پر۔ جن کے نام مجھے یاد نہیں اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر اور موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان پر۔ یہ انہیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی کی وجہ سے فضیلت ملی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میرے رب! میرا خیال نہیں تھا کہ کسی کو مجھ سے بڑھایا جائے گا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی۔ پھر آپ اترے اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور پوچھا: اے محمد! آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے؟ فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے دن اور رات میں پچاس نمازوں کا عہد لیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں۔ واپس جائیے اور اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی اشارہ کیا کہ ہاں اگر چاہیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ آپ پھر انہیں لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہو کر عرض کیا: اے رب! ہم سے کمی کر دے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی کمی کر دی۔ پھر آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو روکا۔ موسیٰ علیہ السلام آپ کو اسی طرح برابر اللہ رب العزت کے پاس واپس کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پانچ نمازیں ہو گئیں۔ پانچ نمازوں پر بھی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا اور کہا: اے محمد! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا تجربہ اس سے کم پر کیا ہے وہ ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی امت تو جسم، دل، بدن، نظر اور کان ہر اعتبار سے کمزور ہے، آپ واپس جائیے اور اللہ رب العزت اس میں بھی کمی کر دے گا۔ ہر مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل علیہ السلام اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ جب وہ آپ کو پانچویں مرتبہ بھی لے گئے تو عرض کیا: اے میرے رب! میری امت جسم، دل، نگاہ اور بند ہر حیثیت سے کمزور ہے، پس ہم سے اور کمی کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ وہ قول میرے یہاں بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔ اور فرمایا کہ ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہے پس یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں لیکن تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔ چنانچہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آئے اور انہوں نے پوچھا: کیا ہوا؟ آپ نے کہا کہ ہم سے یہ تخفیف کی کہ ہر نیکی کے بدلے دس کا ثواب ملے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کہا: اے موسیٰ، واللہ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے کیونکہ باربار آ جا چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے، جاگ اٹھنے سے یہ مراد ہے کہ وہ حالت معراج کی جاتی رہی اور آپ اپنی حالت میں آ گئے۔
صحیح بخاری:7517
كتاب التوحيد
باب قوله وكلم الله موسى تكليما
صحیح بخاری کی اس روایت کے متعلق پیچھے بھی وضاحت کی تھی۔ کہ یہ معروف واقعہ معراج نہیں ہے جو جاگتے ہوئے جسد اور روح دونوں کے ساتھ ہوا، جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔

یہ خواب کا واقعہ ہے۔ جیسا کہ اس روایت کے شروع میں صراحت ہے، یہ دیکھیے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ،‏‏‏‏ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ،‏‏‏‏ فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ،‏‏‏‏ وَتَنَامُ عَيْنُهُ،‏‏‏‏ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ،‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ،‏‏‏‏ فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ،‏‏‏‏ فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ،‏‏‏‏ فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً،‏‏‏‏ فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ۔۔۔۔
نبی کریمﷺ کو ایسے بہت سے خواب بھی دیکھائے گئے تھے، جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!

اور یہ وضاحت بھی پہلے کی جا چکی ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے خواب میں اللہ کو دیکھنا ممکن ہے۔ مختلف فیہ مسئلہ ’’جاگتے ہوئے اپنی آنکھوں سے قیامت سے پہلے پہلے اللہ رب العٰلمین کو دیکھنا‘‘ ہے۔
 
Last edited:
Top