جانتا ہوں آپ کے عقیدے کو بھی اور آپ کی محبت کو بھی.. جس عقیدے کا وجود ہی ٣٠٠ سال بھی پرانا نہیں. جو شان رسالت اور شان اولیا کا منکر ہو وہ کیا صحیح عقیدہ ہو گا . .ہمارا عقیدہ صحابہ کرام کا عقیدہ ہے. اولیا کا عقیدہ ہے. سواے عبد الوہاب نجدی کہ کوئ بھی اس کا منکر نہیں.
دعووں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو ثابت کرنا ضروری ہے۔
صحیح مسلم کی روایت کو نہ آپ جھٹلاتے ہیں، نہ اس کی کوئی توجیہ کرتے ہیں اور نہ ہی اسے تسلیم کرتے ہیں، پھر بھی شانِ رسالت اور شانِ اولیاء کے منکر ہم ہوئے اور آپ ٹھہرے پکے ٹھکے عاشق۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
آپ کا دعویٰ ہے کہ یہ عقیدہ (نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا) صرف تین سو سال پرانا ہے۔ کبھی الزام لگاتے ہیں کہ یہ عقیدہ محمد بن عبد الوہاب سے شروع ہوا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ سے شروع ہوا ہے۔
حالانکہ میں آپ کو نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ بیان کررہا ہوں، آپ کے سامنے صحیح بخاری وصحیح مسلم کی دیگر احادیث مبارکہ بیان کی ہیں جن میں صحابہ کرام کے اقوال بیان کیے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا، اس کے باوجود یہ راگ الاپے جانا کہ آپ کا عقیدہ تین سو سال پرانا ہے، اسے
تحکم ہی کہا جا سکتا ہے۔
سا آیت ثم دنا فتدلی... مین اتنی کیا بات ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں آرہی .اب دو باتیں ہیں . اگر آپ اس کا اطلاق کرتے ہیں کہ جبرائیل کو دیکھا تو ..پھر
اللہ رب العزت سدرۃ المنتیٰ سے نیچے آیا اور ملاقات کی.١.
یا پھر جبرائیل اس مقام سے اوپر گیا......
بار بار سمجھا رہا ہوں کہ جبرائیل اس مقام سے آگے گیا ہی نہیں تو اس کا دیدار یہاں کرنے کا جواز ہی نہیں بنتا. اگر جبرائیل کو دیکھا تو وہ اس مقام سے باہر یعنے نیچے دیکھا.اور ان آیا ت اور احدیث کی سمنھ ان سے زیاداہ ان کو تھی جن کے سامنے نازل ہوییں. ا
اور دوسری بات جو اس آیت میں ہے وہ یہ کہ آپ علیہ سلام پر وہی بھی ہوئ. اب وہ وہی اگر قرانی ہے تو اس کو سامنے لے کہ آ جائیں. اگر وہ وہی قرانی ہوتی تو وہاں جبرائیل ہوتا. اور اس کو دیکھا بھی ہوتا مگر وہ اس سے آگے گیا ہی نہیں.
آپ کا خیال ہے کہ آیت کریمہ
﴿ ثم دنا فتدلى ﴾ سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں۔
حالانکہ
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ سیدنا مسروق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیات کریمہ:
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کا معنیٰ پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
إنما ذاك جبريل! كان يأتيه في صورة الرجال، وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد أفق السماء کہ اس سے مراد جبریل ہیں، عام طور پر وہ نبی کریمﷺ کے پاس آدمی کی صورت میں آتے تھے، اس مرتبہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس اپنی اصل (فرشتوں والی) صورت میں آئے تھے اور انہوں آسمان کا افق گھیر رکھا تھا۔‘‘
سیدنا ابن مسعود سے آیات کریمہ
﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کی تفسیر میں مروی ہے:
أنه رأى جبريل، له ست مائة جناح ۔۔۔ صحیح البخاری کہ نبی کریمﷺ نے جبریل کو دیکھا تھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔
صحیح مسلم میں لمبی حدیث ہے کہ
سیدنا مسروق روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا:
تین باتیں جس نے کہیں اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا۔
میں نے عرض کیا: کونسی تین باتیں؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا:
پہلی بات: جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا:
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا:
« إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’
وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘
پھر سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ تم نے فرمانِ باری تعالیٰ نہیں سنا:
﴿ لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ١٠٣ ﴾ ۔۔۔ الأنعام کہ ’’ اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔‘‘ (
103) اور کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟:
﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ٥١ ﴾ ۔۔۔ الشوریٰ کہ ’’ناممکن ہے کہ کسی بنده سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وه اللہ کے حکم سے جو وه چاہے وحی کرے، بیشک وه برتر ہے حکمت والا ہے۔‘‘ (
51)
نبی کریمﷺ نے کسے دیکھا تھا؟
کیا اس بارے میں نبی کریمﷺ کی اپنی بات فیصل نہیں؟؟؟
جس نے ماننا ہوتا ہے وہ اویس قرنی کی طرح دلیل نہیں مانگتا..........اور جس نے نہیں ماننا ہوتا وہ ابو جہل اور ابو لہب کی طرح چاند کے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر بھی نہیں مانتا. . .
اب آپ نے دلیل مانگنے پر بحث شروع کر دی۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ لوگوں کی طرح اپنے عقائد کو دلائل کے بغیر، قصوں کہانیوں پر ہی اُستوار کر لیں؟؟؟!!
نہیں بھائی! دلائل کے بغیر عقائد رکھنا آپ کو مبارک! ہمیں اس سے معاف ہی رکھیں!
دلیل تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ مانگی ہے،
سورۃ البقرۃ، سورۃ الأنبياء، سورة النمل اور سورة القصص میں فرمانِ باری ہے:
﴿ قل هاتوا برهانكم ﴾
کہ آپ کہہ دیجئے! اپنی
دلیل لے آؤ۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَـٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ٤ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحقاف
آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں ان کا کون سا حصہ ہے؟ اگر تم سچے ہو تو
اس سے پہلے ہی کی کوئی کتاب یا کوئی علم ہی جو نقل کیا جاتا ہو، میرے پاس لاؤ (
4)
ہاں یہ بات آپ نے بالکل صحیح بیان کی ہے کہ
جس نے نہیں ماننا ہوتا تو وہ چاند کے ٹکڑے دیکھ کر بھی نہیں مانتا، اب دیکھئے آپ کو نبی کریمﷺ کا ذاتی فرمان بھی بیان کر دیا ہے کہ سورۃ النجم اور سورۃ التکویر میں جس رؤیت کا ذکر ہے، وہ نبی کریمﷺ نے جبریل کی ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا نہ کہ نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا، لیکن صحیح مسلم میں موجود نبی کریمﷺ کی اپنی وضاحت کے بعد بھی آپ اسے تسلیم نہیں کر رہے، اس کے باوجود آپ پکے عاشق رسول ہیں اور باقی سب گستاخ۔
اب اس آیت پر ایک حدیث بھی دیتا چلوں . . . . .
امام ترمذی نے معاذ بن جبل سے حدیث لائ ہے.......فرماتے ہیں کہ آقا علیہ سلام نے فرمایا میں نے اپنے رب کو نہایت اچھی صورت میں دیکھا.ارشاد ہوا اے نحمد میں نے فرمایا ! لبیک میں حاصر ہوں ا ے رب..فرمایا اس وقت ملائکہ کیا گفتگو کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی مجھے نہیں معلوم ...تین مرتبہ ہیی الفاظ دہراے ...اور پھر آقا فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنا دست قدرت میرے سینے پر رکھا اور میں نے اس کی ٹنڈک اپنے اپنے سینے میں محسوس کی.پس ہر چیز مجھ پر حیاں ہو گئ اور میں نے کاہنات کی ہر چیز کو پہچان لیا.......
امام احمد بن حیبل مسند جلد ٥ :٦٤٣
ہیی حدیث امام ترمزی نے سورۃ ص کی تفسیر میں بھی لائ ہے........جامع ترمزی جلد ٥؛٣٦٨:٣٦٩
عاصم محمود صاحب! آپ سے کتنی مرتبہ عرض کیا ہے کہ پہلے صحیح مسلم کی روایت کے متعلق اپنا موقف واضح کردیں، یا تو اسے ضعیف یا منسوخ ثابت کر دیں یا پھر اسے اس کے مفہوم سمیت مان لیں۔
لیکن آپ مسلسل اس روایت کو نظر انداز کر کے دیگر روایات پیش کر رہے ہیں۔
میں نے آپ سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ جو روایت بھی پیش کریں، اس کا عربی متن ضرور پیش کریں، اس کا صحیح ہونا ثابت کریں اور پھر اس سے اپنا استدلال واضح کریں! لیکن وہی ڈھاک کے تین پات!
یہ میں اس لئے کہا تھا کہ مجھے پتہ تھا کہ آپ روایات میں تاویل کرکے اپنا من مانا مفہوم پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ آپ حضرات کی زیادہ کوشش اپنے موقف کو نصوص کے مطابق بنانے کی بجائے
قرآن وحدیث کو اپنے موقف کے مطابق ڈھالنے کی ہوتی ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں : ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
یہاں بھی آپ نے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جامع ترمذی کی یہ روایت
خواب سے متعلق ہے؟؟ اور خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے متعلق اختلاف ہی نہیں، اس کے تو سب قائل ہیں۔
ہمارا موقف یہ ہے جو میں بہت پہلے واضح کر چکا ہوں:
ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر یا اس کے علاوہ اپنی حقیقی آنکھوں سے، جاگتے ہوئے اپنے رب کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی اور اس فانی دُنیا میں جاگتی آنکھوں سے اللہ رب العٰلمین کا دیدار کر سکتا ہے۔ البتہ جنت میں مؤمن اپنے رب کو واضح طور پر دیکھیں گے، جیسے ہم دُنیا میں سورج یا چودھویں کے چاند کو واضح طور پر دیکھتے ہیں۔
اگر آپ نے عربی متن دیا ہوتا، تو آپ کا پول کھل جاتا، لیجئے ان روایات کا عربی متن میں پیش کر دیتا ہوں:
« أتاني الليلة ربي تبارك وتعالى في أحسن صورة قال أحسبه قال في المنام فقال يا محمد هل تدري فيم يختصم الملأ الأعلى قال قلت لا قال فوضع يده بين كتفي حتى وجدت بردها بين ثديي أو قال في نحري فعلمت ما في السماوات وما في الأرض قال يا محمد هل تدري فيم يختصم الملأ الأعلى قلت نعم في الكفارات والكفارات المكث في المسجد بعد الصلاة والمشي على الأقدام إلى الجماعات وإسباغ الوضوء في المكاره ومن فعل ذلك عاش بخير ومات بخير وكان من خطيئته كيوم ولدته أمه وقال يا محمد إذا صليت فقل اللهم إني أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وإذا أردت بعبادك فتنة فاقبضني إليك غير مفتون » ۔۔۔ صحیح الترمذی: 3233
آج
رات میرے پاس میرے رب اللہ تبارک وتعالیٰ اچھی ترین صورت میں آئے (راوی) کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا
خواب میں ۔۔۔
« أتاني ربي عز وجل الليلة في أحسن صورة أحسبه يعني في النوم فقال : يا محمد هل تدري فيم يختصم الملأ الأعلى قال : قلت : لا قال النبي صلى الله عليه وسلم : فوضع يده بين كتفي حتى وجدت بردها بين ثديي أو قال : نحري فعلمت ما في السموات وما في الأرض ثم قال : يا محمد هل تدري فيم يختصم الملأ الأعلى قال : قلت : نعم يختصمون في الكفارات والدرجات قال : وما الكفارات والدرجات قال : المكث في المساجد والمشي على الأقدام إلى الجمعات وإبلاغ الوضوء في المكاره ومن فعل ذلك عاش بخير ومات بخير وكان من خطيئته كيوم ولدته أمه وقل يا محمد إذا صليت : اللهم إني أسألك الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وإذا أردت بعبادك فتنة أن تقبضني إليك غير مفتون قال : والدرجات بذل الطعام وإفشاء السلام والصلاة بالليل والناس نيام » ۔۔۔ مسند أحمد
مسند احمد کی اس روایت میں بھی رات اور نیند کی صراحت موجود ہے، جسے میں نے ہائی لائٹ کر دیا ہے۔