دنیا کے بت کدوں میں....(ظفرجی کی قلم سے )
کس کس نے دیکھا ہے خانہ کعبہ.....کیا اسے دیکھتے ہی دل محبت سے بھر نہیں جاتا ؟ یا وہ محض ایک مقدس عمارت ہے جہاں کھڑے ہوکر سیلفیاں لی جاتی ہیں....
کیا مدینہ النبی وہی شہر مقدس نہیں ہے جس کی حفاظت کےلئے اللہ کے نبی ﷺ نے یہود قبائل سے بھی معاہدے فرمائے تھے-
افسوس ان شکستہ ذہنوں پر اور شرمسار جبینوں پر جو اتنی بڑی سعادت ملنے پر بھی اپنے پاؤں پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں....صد افسوس...!!!!
یہ 1979ء کا واقعہ ہے جب ایک مسلح گروپ نے حرم شریف پر قبضہکر کے کچھ حجاج کو شہید کر دیا تھا...اس وقت فرانس اور سعودیہ کی فوج حرم میں موجود تھی لیکن دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے میں ناکام رہی - جنرل ضیاءالحق صاحب کا دور تھا- انہوں نے حکومت سعودیہ سے خصوصی درخواست کر کے پاک آرمی کے کمانڈو دستے بھجوائے جنہوں نے جان پر کھیل کر دہشت گردوں سے حرم پاک کو واگزار کروایا تھا-
1979ء کا یہ واقعہ ایک انفرادی نوعیت کا واقعہ تھا جو ایک خودساختہ امام مہدی محمد بن عبداللہ قحطانی کے پیروکار کی کارستانی تھی...
لیکن اب ابرہہہ خود لشکر لے کر آرہا ہے......
جنگ قادسیہ میں ضرب فاروقی کی چوٹ کھائے ہوئے ایران نے آج تک عربوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا- اسلام کے مقابلے میں شیعت اب محض ایک فرقہ نہیں رہا بلکہ ایک متحارب عسکری قوّت بن چکی ہے- یہی قوّت اس وقت عرب ممالک کے سامنے سرچڑھ کر بول رہی ہے...!!!
افغانستان میں طالبان اور عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کا اینٹی عرب کانفیڈنس پہلے سے بہت بڑھ چکا ہے. وہ عراق ، شام ، بحرین اور یمن میں شیعہ حکومتیں بنوا کر عربوں کو دباؤ میں لانا چاھتا ہے- جس داعش کو ہم صبح شام گالیاں دیتے ہیں وہی داعش عراق میں شیعہ حکومت کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی چٹان ہے- یمن میں بھی یہی صورتحال ہے- وہاں سنی اتحاد القائدہ داعش سب مل کر شیعت کے خلاف برسر پیکار ہیں- اگر یمن میں اینٹی عرب شیعہ حکومت بن جاتی ہے تو یقیناً باب المندب پر اسی کا قبضہ ہوگا....باب المندب جس کی تفصیل آپ احقر کی تحریر " ڈیڑھ صدی کا قصہ" میں تفصیل سے پڑھ چکے ہیں...وہاں سے اس وقت تین ہزار بحری جہاز سالانہ گزرتے ہیں- نہر سویز اور باب المندب عرب ممالک کی وہ شہ رگیں ہیں جو کبھی ایران کے ہاتھ آگئیں تو وہ آگے بڑھ کر حرمین پر قبضہ کرنے میں سیکنڈ نہیں لگائے گا....
خلیج کی اس کشیدہ صورتحال میں پاکستان کے پاس دو راستے ہیں- پہلا راستہ سعودیہ کی بھرپور عسکری اور سیاسی حمایت ہے...اللہ تعالی ہمارے حکمرانوں کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.......کیونکہ ان کا کچھ اعتبار نہیں کہ کب پھرکی لے جائیں-
دوسرا راستہ وہی ہے جو جناب عبدالمطلب نے ابرہہ کی فوج کے سامنے اختیار کیا تھا- یعنی میرے اونٹ مجھے لوٹا دو .....باقی کعبہ جانے اور کعبے کا مالک....جناب عبدالمطلب دفاعی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ ابرہہ کی طاقتور فوج کا مقابلہ کرتے چنانچہ انہوں نے حالات کو رب کعبہ کے بھروسے پر چھوڑنا مناسب سمجھا-
اللہ تعالی نے ہمیں وسائل کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے- اور ہم دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہیں- اگر ہم ان کڑے حالات میں حرمین کے ساتھ نہیں کھڑے ہونگے تو رب کعبہ یہ سعادت کسی اور کو بخش دے گا....اور ہم محروم محض رہ جائیں گے-
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
بشکریہ
@سرفراز فیضی صاحب ۔