• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنا چاھیے؟

شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
السلام علیکم،
پاکستان کو واقعی اس معاملے میں سعودی کا ساتھ دینا چاہیئے، لیکن یہان پر ایک اعتراض اکثر ہوتا ہے کے کے فلسطین وغیرہ کے مسئلے میں سعودی عرب اور پاکستان کیوں خاموش رہتا ہے؟
برائے مھربانی اس پر کچھ روشنی دالیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
السلام علیکم،
پاکستان کو واقعی اس معاملے میں سعودی کا ساتھ دینا چاہیئے، لیکن یہان پر ایک اعتراض اکثر ہوتا ہے کے کے فلسطین وغیرہ کے مسئلے میں سعودی عرب اور پاکستان کیوں خاموش رہتا ہے؟
برائے مھربانی اس پر کچھ روشنی دالیں۔
اس کا جواب تو یہاں اہل علم ہی دے سکتے ہیں -
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!۔۔۔۔میرے قابل احترام بھائیوں! ذرا معاملہ پر غور بھی کیجیئے ! کیا واقعی ہی یہ جنگ حرمین شریف کو بچانے کے لیے کی جا رہی ہے یا سیاسی مفادات ہیں؟؟ اگر بات شیعہ حضرات سے حفاظت کی ہے ، تو کیا کہیں گے کہ سعودی عرب میں کثرت سے تعداد شیعوں کی ہیں ، ان کے وزراء میں بھی شیعہ شامل ہیں۔کیا یہ خطرہ تب نہیں ہوتا ؟ کیا یا کسی ایک برسراقتدار پارٹی کو بچانے کی کوشش ہے یا کچھ اور۔۔۔۔!!! کوئی اہل علم اس پر بھی بیان فرمائیں ، تاکہ ہمارے اشکال بھی دور ہوں جائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!۔۔۔۔میرے قابل احترام بھائیوں! ذرا معاملہ پر غور بھی کیجیئے ! کیا واقعی ہی یہ جنگ حرمین شریف کو بچانے کے لیے کی جا رہی ہے یا سیاسی مفادات ہیں؟؟ اگر بات شیعہ حضرات سے حفاظت کی ہے ، تو کیا کہیں گے کہ سعودی عرب میں کثرت سے تعداد شیعوں کی ہیں ، ان کے وزراء میں بھی شیعہ شامل ہیں۔کیا یہ خطرہ تب نہیں ہوتا ؟ کیا یا کسی ایک برسراقتدار پارٹی کو بچانے کی کوشش ہے یا کچھ اور۔۔۔۔!!! کوئی اہل علم اس پر بھی بیان فرمائیں ، تاکہ ہمارے اشکال بھی دور ہوں جائیں۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !
جی یہ جنگ حرمین شریفین کی حفاظت میں موثر کردار ادا کرے گی ، اور اگر یہ جنگ کسی کے ذاتی یا سیاسی مفاد کی ہوتی تو ایک دو ملک تو متحد ہوسکتے تھے ، لیکن اکثر نمایاں اسلامی ممالک کا اس میں اتحاد اسی بنیاد پر ہے کہ اس میں ’’ اسلام اور اہل اسلام ‘‘ کا فائدہ ہے ۔
اور پھر یہ بھی سوچنا ہے کہ ’’ حرمین شریفین ‘‘ کی حفاظت سے ہماری کیا مراد ہے ۔؟ کیا جب کوئی مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ پر چڑھائی شروع کردے گا ، اسی وقت ہم دفاع کے لیے اٹھیں گے ۔؟ کیا ایسے ملک کی حفاظت و حمایت کرنا ،حرمین شریفین جس کا حصہ ہے ، حرمین کی حفاظت نہیں سمجھنا چاہیے ۔؟
پھر آپ دوسری طرف بات کرلیں : مان لیا یہ حکمرانوں کے ذاتی اور سیاسی مفاد ہیں ، لیکن وہ ذاتی مفاد کیا ہے ۔؟ آل سعود کا ذاتی مفاد کہ ان کا تختہ حکومت برقرار ہے ۔ یہی نا ۔؟
تو اس میں غلط چیز تو کچھ بھی نہیں ، حرمین کے اندر جو امن و سکون ، سہولتیں اور احتیں تمام عالم اسلام جن سے مستفید ہورہا ہے ، یہ اللہ کے بعد انہیں آل سعود کی اسلام دوستی کا نتیجہ ہے ۔
پھر تمام چیزوں کو ایک طرف کردیں ، پاکستان جب بھی مشکل میں ہوتا ہے ، سعودی عرب بڑھ چڑھ کر اس کا ساتھ دیتا ہے ، آج اگر سعودی عرب کو پاکستان کی ضرورت پڑی ہے تو ’’ احسان کا بدلہ احسان ‘‘ ہونا چاہیے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جی یہ جنگ حرمین شریفین کی حفاظت میں موثر کردار ادا کرے گی ، اور اگر یہ جنگ کسی کے ذاتی یا سیاسی مفاد کی ہوتی تو ایک دو ملک تو متحد ہوسکتے تھے -
کیا اکثر ممالک فلسطین کے مسئلے پر بھی اکھٹے ہو سکتے ہیں یا نہیں - جب امریکا اقوام متحدہ کی قراداد ویٹو کرتا ہے تو کیا اس وقت بھی اکثر ممالک متحد ہو سکتے ہیں یا نہیں - کیا شام کے مسئلے پر بھی کچھ ممالک متحد ہو سکتے ہیں یا نہیں - کیونکہ آپ نے خود ہے کہا ہے کہ

اکثر نمایاں اسلامی ممالک کا اس میں اتحاد اسی بنیاد پر ہے کہ اس میں ’’ اسلام اور اہل اسلام ‘‘ کا فائدہ ہے ۔
کیا ان مسئلوں میں ’’ اسلام اور اہل اسلام ‘‘ کا فائدہ ہے یا نہیں -
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں
بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!


اس آپریشن کے دوران فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک پر مشتمل ہے، جس میں عمان کے سواء باقی تمام خلیجی ممالک شامل ہیں ۔ سعودی سفیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ مصر کے وزیر خارجہ نے اس آپریشن میں شرکت کا اعلان کیااور بتایا کہ چار مصری بحری جہاز خلیجِ عدن کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوڈانی مسلح افواج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ"اپنی اسلامی ذمہ داری کی بنیاد پر سوڈان اس(حملے) میں شرکت کرے گا۔ہم ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اور وحی کے نزول کی سر زمین پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہوں "۔

یوں بجائے یہ کہ حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنے کے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئے حالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب واقع ہے! اس کاروائی کے لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ حرم شریف پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطر یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے! ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے، یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن قابض بنے بیٹھے ہیں!

ہر صاحب بصیرت شخص جانتا ہے کہ یمن میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ امریکہ اور اس کے حوثی حواریوں اور ان کے ہمنوا ؤں اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے حواریوں ہادی، عبد اللہ صالح اور ان کے ہمنواؤں کی باہمی کشمکش ہے۔ یمن میں جاری جنگ دوفریقوں کے درمیان ہورہی ہے: فریق اول امریکہ ،اس کے حواری اور ایجنٹ اورفریقِ ثانی برطانیہ ، اس کے حواری اور ایجنٹ ۔ دونوں فریق اپنے اپنے وسائل اور اسالیب استعمال کررہے ہیں .... امریکہ یمن میں حوثیوں کی مادی قوت ، جنوبی علاقوں میں جاری تحریک اور ایران کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھارہا ہے اور مذاکرات کے میدان میں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیرجمال بن عمرکو استعمال کر تا ہے۔ جبکہ برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کو بروئے کار لاتا ہے اور امریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے طور پر ہادی اور اس کی صدارت کو استعمال کررہا ہے اور اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ کوئی امریکی حواری طاقت کے اہم مراکز میں سے کسی پربھی قابض نہ ہوسکے ۔ ساتھ ہی ساتھ برطانیہ نے بذاتِ خود علی صالح اور اس کے آدمیوں کو حوثیوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ اگر ہادی اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے اور حوثی اقتدار پر قابض ہو جائیں تب بھی برطانیہ علی صالح کے ذریعے اقتدار کے کچھ حصے پر قابض رہ سکے ۔ ۔ چونکہ برطانیہ اب پہلے کی طرح یمن پر اپنی بالادستی قائم رکھنےکے قابل نہیں رہا ،جبکہ دوسری طرف وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا عسکری طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے "۔

امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی ہے تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔ حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیا اور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پر حوثیوں کے ساتھ اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔ یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے تھے سوائے اس کے کہ علی صالح اور اس کے حواری ان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ پس عوامی نیشنل کانگریس ، جس کی سربراہی سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کررہا ہے، نے اعلان کیا کہ "حوثی ملیشیا کی تحریک ، حوثیوں کی جانب سے جنوبی صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ملک کی قانونی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے "۔ عوامی کانگریس پارٹی کے پولیٹیکل آفس کی جنرل کمیٹی کی طرف سے بیان دیا گیا کہ "یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ بعض دھڑوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے، اور نیشنل کانگریس کا اس سے دور ونزدیک کا کوئی واسطہ نہیں" (العربیۃ26 مارچ 2015)۔ عوامی نیشنل کانگریس کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا حالانکہ کل تک وہ اس صلح یاجنگ میں حوثیوں کی حلیف تھی! اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ اگرمستقبل میں حوثیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے تو عوامی کانگریس دوبارہ حوثیوں کی اتحادی بن جائے۔ اِن ایجنٹوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت کے لحاظ سے اپنے آقا کے تیار کردہ کردار کے مطابق اپنےرنگ بدل لیتے ہیں! کیا ہی برا اُن کا یہ چلن ہے...!

جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم کر پارہے ہیں اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکزکی طرف واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے۔

اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں یمن کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور اسے جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔

یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ کہ اسراء ومعراج کی سرزمینِ فلسطین اور قبلۂ اول فریاد کررہےہیں ،مگر وہ اس کی فریاد پر کان نہیں دھرتے ،وہ ان سے مددطلب کررہے ہیں ، مگر وہ مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے گویا ان کے کانوں اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں...لیکن جب بات ہوتی ہے کفر یہ استعماری ریاستوں کے مفادات کی تکمیل اور نفاذ کی تو یہ دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کواپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے طیارے ،ٹینک اور جنگی کشتیاں اسلام کی ترویج اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لئے حرکت میں نہیں آتے بلکہ بیرکوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ لیکن جب وہ مغربی استعماری طاقتیں کہ جنہیں ایمان والوں سے نفرت ہے،صرف اشارہ ہی کرتی ہیں تویہ حکمران اس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شیر کی طرح دھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ حکمران اہل وطن کے سامنے توبڑے تکبر سے آتے ہیں ،مگر دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، اللہ ان کو غارت کرے۔

امریکہ یا برطانیہ کی حمایت کر کے یا ان کے ایجنٹوں میں سے کسی ایک کی حمایت کر کےیمن کو تباہ کن صورتحال سے نہیں نکالا جاسکتا بلکہ یمن کو اس کے عوام اس صورت بچا سکتے ہیں اگر وہ بھر پور قوت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کے لئے متحرک ہوجائیں ، دونوں جانب کے جابروں کو ہٹا دیں، ملک کو ان کی خیانتوں سے محفوظ بنائیں اور یمن کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیں یعنی اسے دوبارا ایمان وحکمت کی سرزمین بنا دیں ، جس پر صرف اللہ کی شریعت کے ذریعے فیصلے کیے جائیں
 
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!
اس سے مراد "شیعی" مسلمان ہیں یا "سنی" مسلمان؟ حوثی قبائیل کا شیعی اتحاد تو واضح ہے، جس طرح اسی دھاگہ میں ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں ایران حوثییوں کو جنگی جہازوں کی ٹریننگ مہیا کر رہا ہے۔ اور ایران کے سعودیہ کے خلاف غم و غصہ سے لبریز بیانات بھی اسکی تایید کرتے ہیں۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم،
پاکستان کو واقعی اس معاملے میں سعودی کا ساتھ دینا چاہیئے، لیکن یہان پر ایک اعتراض اکثر ہوتا ہے کے کے فلسطین وغیرہ کے مسئلے میں سعودی عرب اور پاکستان کیوں خاموش رہتا ہے؟
برائے مھربانی اس پر کچھ روشنی دالیں۔
سعودی عرب نے فلسطین کی آزادی کامطالبہ کردیا، فلسطینیوں کو بھی آزادرہنے کا حق ہے: سعودی فرمانروا

30 مارچ 2015 (11:47)

انسانی حقوق

شرم الشیخ (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مسئلہ فلسطین کے تنازع کے فوری حل کا مطالبہ کردیااور کہاکہ فلسطینیوں کوبھی دیگراقوام کی طرح آزادی کی فضاءمیں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، ایسی فلسطینی ریاست چاہتے ہیں جس میں بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہو اورہمارا یہ مطالبہ بے جا نہیں بلکہ عالمی برادری اسے تسلیم کرچکی ہے۔

عرب سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خادم الحرمین الشریفین نے کہاکہ خطے کو درپیش دیگر مسائل اور تنازعات کے فوری حل کی ضرورت ہے ،مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کے لیے فلسطینی تنازع کا حل ناگزیر ہے،اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے،2002ءمیں عرب ممالک کی جانب سے فراہم کردہ روڈ میپ میں بھی اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ عرب روڈ میپ کی روشنی میں فلسطینی عوام کی آزادی کے مطالبے کو تسلیم کرے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے آج تک منظور کی گئی تمام قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔


http://dailypakistan.com.pk/human-rights/30-Mar-2015/208229
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حوثی باغی سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ، اجازت نہیں دی جائیگی ترجمان سعودی فوج
29 مارچ 2015

ریاض (قدرت نیوز)اتحادی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ حوثی باغی سعودی عرب میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں حوثیوں کو سعودی سرحد میں داخلے اور اسے نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائیگی یمن میں جاری کارروائی پربریفنگ دیتے ہوئے سعودی فوج کے ترجمان بریگیڈئیرجنرل احمد عسیری نے کہا کہ حوثی باغی سعودی عرب کی سرحد کی جانب بڑھ رہے ہیں سعودی سرحد کے قریب حوثی باغیوں کو اکٹھا ہونے سے روکنے کیلئے اپاچی ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی گئی یمن میں زمینی کارروائی کے امکان پر غور کیا جا رہا ہے ترجمان نے یمن میں حوثی باغیوں کے زیر قبضہ تنصیبات پر بمباری اور ان کے میزائل کے وسیع ذخیرہ کو تباہ کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عرب اتحادی طیاروں نے حوثی رہنما کو نشانہ بنایا۔

http://qudrat.com.pk/world/29-Mar-2015/55371
 
Top