• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کہتے ہیں آپ

شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
آپ یہ بتائیں کہ وہو معکم این ما کنتم میں معیت سے مراد معیت علمی اور صفاتی لینا کیا تاویل نہیں؟
امام بخاری رحمہ اللہ کا کل شیئ ہالک الا وجہہ میں وجہہ کی تفسیر ملکہ سے کرنا کیا تاویل نہیں ؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تمام ائمہ کا مسلک تفویض ہے اور تفویض بھی تاویل ہے ،۔
جناب عاصم صاحب تمام ائمہ کا مسلک تفویض نہین ہے اور نا ہی تاویل اور تفویض ایک چیز ہے اور جب آپ کوئی دعوی کریں تو اس کی دلیل بھی عنایت فرما دیا کریں ، بات یہ ہے کہ تفویض اور تاویل کے بارے کوئی دلیل بھی دے دیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ یہ بتائیں کہ وہو معکم این ما کنتم میں معیت سے مراد معیت علمی اور صفاتی لینا کیا تاویل نہیں؟
امام بخاری رحمہ اللہ کا کل شیئ ہالک الا وجہہ میں وجہہ کی تفسیر ملکہ سے کرنا کیا تاویل نہیں ؟
جب آپ کی یہ تمام بحث خضر صاحب سے پہلے بھی ھو چکی ہے تو دوبارا اس کو کیوں بڈھا رہے ہیں؟؟
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
جناب عاصم صاحب تمام ائمہ کا مسلک تفویض نہین ہے
میں نے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی بات کی ہے ۔تمام ائمہ کی نہیں ،
پھر بھی آپ ایک امام کا مسلک نقل کرکے عدم تفویض ثابت کریں ،ہمیں بھی فائدہ ہوگا ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
میں نے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی بات کی ہے ۔تمام ائمہ کی نہیں ،
پھر بھی آپ ایک امام کا مسلک نقل کرکے عدم تفویض ثابت کریں ،ہمیں بھی فائدہ ہوگا ۔

امام ابو حنیفہ فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
وله ید و وجه ونفس کما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن، فما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن من ذکر الوجه والید والنفس فهو له صفات بلا کیف، ولایقال إن یده: قدرته أو نعمته لأن فیه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولکن یده صفته بلا کیف وغضبه ورضاه من صفات اﷲ تعالىٰ بلا کیف
''اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ ، چہرہ او ر نفس ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا قرآن میں اِثبات کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے لیے ہاتھ، چہرہ اور نفس کی جو صفات بیان کی ہیں تو وہ بلا کیفیت ہیں اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد اس کی قدرت ہے یا اس کی نعمت ہے کیونکہ اس طرح کے قول سے اللہ کی صفت باطل قرار پاتی ہے اور ایسا کام (یعنی صفات میں تاویل کرنا) معتزلہ اور قدریہ کرتے ہیں۔لیکن 'ید' اللہ تعالیٰ کی صفت ہے بلا کیفیت کے، اور اللہ کا غضب اور اس کی رضا اس کی صفات ہیں بلا کیفیت ۔''
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مزید یہ کہ امام بزدوی 'فقہ اکبر' کی اس عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں :
(فهو له صفات بلا کیف) أي أصلها معلوم ووصفها مجهول لنا فلا یبطل الأصل المعلوم بسبب التشابه والعجز عن درك الوصف، رُوي عن أحمد بن حنبل رحمه اﷲ تعالىٰ أن الکیفية مجهول والبحث عنه بدعة
(پس یہ اللہ کی صفات ہیں بلا کیفیت کے) امام ابو حنیفہ کی اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ ان صفات کا حقیقی اور اصلی معنیٰ معلوم ہے جبکہ کیفیت مجہول ہے۔ پس ان صفات کے حقیقی اور اصلی معنی کا انکار اس وجہ سے نہ کیا جائے گا کہ اس سے مخلوق کے ساتھ (صفات میں) تشابہ لازم آتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس حقیقی و اَصلی معنی کا انکار نہیں ہو گا کہ اس کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ صفات کی کیفیت مجہول ہے اور اس کیفیت کے بارے بحث کرنا بدعت ہے۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
وله ید و وجه ونفس کما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن، فما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن من ذکر الوجه والید والنفس فهو له صفات بلا کیف،
اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہ ید ،وجہ، نفس ، سے اس کا معنی حقیقی مراد ہےمثال کے طور پر ید کا معنی حقیقی یہ ہے ،کہ وہ آلہ جارحہ جس سے انسان کوئی چیز لے سکے یا دے سکے جو اس کے بدن کا ایک عضو ہے ،
کیا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا یہی مراد ہے ،
حالانکہ آپ لوگ یہی معنی مراد لے کر کیفیت کو مجہول قرار دیتے ہو۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
مزید یہ کہ امام بزدوی 'فقہ اکبر' کی اس عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں :
(فهو له صفات بلا کیف) أي أصلها معلوم ووصفها مجهول لنا فلا یبطل الأصل المعلوم بسبب التشابه والعجز عن درك الوصف، رُوي عن أحمد بن حنبل رحمه اﷲ تعالىٰ أن الکیفية مجهول والبحث عنه بدعة
(پس یہ اللہ کی صفات ہیں بلا کیفیت کے) امام ابو حنیفہ کی اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ ان صفات کا حقیقی اور اصلی معنیٰ معلوم ہے جبکہ کیفیت مجہول ہے۔ پس ان صفات کے حقیقی اور اصلی معنی کا انکار اس وجہ سے نہ کیا جائے گا کہ اس سے مخلوق کے ساتھ (صفات میں) تشابہ لازم آتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس حقیقی و اَصلی معنی کا انکار نہیں ہو گا کہ اس کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ صفات کی کیفیت مجہول ہے اور اس کیفیت کے بارے بحث کرنا بدعت ہے۔
یہ والا حوالہ اگر یہاں سے نقل ہوتا تو بات مکمل واضح ہوتی ۔
Capture.JPG
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بھائی : حق سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ جائز سمجھتے ہیں ،بجائے اس کے کہ صفات کو اپنی حقیقی معنی میں لیکر تشبیہ کی طرف لے جایا جائے ، بہتر ہے کہ ایک جائز اور قریب المعنی تاویل کرکے اس کو تشبیہ سے بچایا جائے ،
جیساکہ سب مفسرین وھو معکم این ما کنتم میں کرتے ہیں
گویا کلام اللہ کا حقیقی معنی مراد لینے سے تشبیہ لازم ( تشبیہ کی طرف لے جانا ۔ ) آتی ہے ۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔
حقیقت یہ ہے کہ تأویل کرنے والے اپنے زعم فاسد کی بناء پر نصوص صفات کو ’’ نصوص تشبیہ ‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم نے ان نصوص کو ان کے اصل معانی سے نہ ہٹایا تو تشبیہ لازم آجائے گی ۔ گویا یہ بھی مشبہ کے بھائی ہیں کہ پہلے تشبیہ سوچتے ہیں اور پھر اس سے بچنے کے لیے تاویل کرتے ہیں ۔
حالانکہ چاہیے تو یہی ہے کہ اس تشبیہ کا جو وہم ذہن میں آتا سب سے پہلے تو اسی کو دفعہ کیا جائے ۔ تاکہ تأویل کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔
اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنی ذات کےلیے لفظ ’’ ید ‘‘ استعمال کیا ۔ اسی طرح انسان کے لیے بھی یا دیگر مخلوقات کے لیے بھی لفظ ’’ ید ‘‘ استعمال کیا ۔
ہم ید کا معنی حقیقی ہی مراد لیں گے ۔ البتہ یہ نہیں کہیں گے کہ دونوں جگہ ’’ ید ‘‘ ہے اس لیے معاذ اللہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں ۔ بلکہ خالق کے لیے ید وہی ہےجو اس کی ذات کے لائق ہے جبکہ مخلوقات کے لیے ’’ ید ‘‘ وہ ہے جو ان کی اوقات کے مطابق ہے ۔
گویا اہل تأویل نے اپنے سطحی فہم کی وجہ سے ’’ اتحاد فی الأسماء ‘‘ کو ’’ اتحاد فی الحقائق ‘‘ کی دلیل سمجھ لیا ہے ۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔ خالق و مخلوق کی بات تو ایک طرف ہے ۔ مخلوقات کا ہی آپس میں موازنہ کرلیں : انسان کا بھی ہاتھ ہے ۔ جانور کا بھی ہاتھ ہے ۔ تو کیا دونوں ہاتھ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔۔۔؟؟ انسان کی بھی آنکھ ہے ۔ جانور کی بھی آنکھ ہے ، تو کیا دونوں آنکھیں ایک جیسی ہیں ۔۔؟
یہ سب تفصیلات یہاں موجود ہیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/عقائد-میں-تأویل-،-تفویض-،-اہل-سنت-کا-موقف.17913/
جہاں محترم عاصم صاحب نے اس تعلق سےکچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔ یہیں ’’ تأویل ‘‘ اور ’’ تفویض ‘‘ وغیرہ کی بھی تعریفات موجود ہیں ۔اگر کوئی اعتراض ہے وہاں وضاحت فرمائیں ۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ، آپ نے میرا کام بہت آسان کردیا ، بھائی قدریہ اور معتزلہ جو تاویل کرتے ہیں اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے ید وغیرہ صفات بالکل ثابت ہی نہیں ، کہ ان سے جسمیت اور ترکیب کے طرف ذہن جاتا ہے یعنی وہ قطعی طور پر صفت ید کا انکار کرکے یہ تاویل کرتے ہیں
جبکہ ہمارے ہاں نوعیت یہ ہے کہ ہمارا اصل مسلک تفویض کا ہی ہے جیساکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا ہے ، البتہ ہم تاویل احتمالی کو متذکرہ بالا مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
معتزلہ اور اشاعرہ و ماتریدیہ کا آپس میں کوئی فرق نہیں ۔ اس لحاظ سے کہ دونوں کی غلطی کی بنیاد ایک ہی ہے ۔ اور وہ ہے ’’ اتحاد الاسماء یدل علی اتحاد الحقائق ‘‘
وہی اعتراضات جو اشاعرہ معتزلہ پر کرتےہیں وہی خود ان پر وارد ہوتے ہیں ۔
معتزلہ تمام صفات کا انکار کرتے ہیں ۔ جبکہ اشاعرہ و ماتریدیہ بعض کا انکار اور بعض کا اثبات ۔ اب یہ جن کا اثبات کرتے ہیں اگر ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو دیگر سے کیوں آتی ہے ۔۔؟
تمام ائمہ کا مسلک تفویض ہے اور تفویض بھی تاویل ہے ، کیونکہ ایک جگہ آپ کےہی حضر حیات نے تاویل کی تعریف یوں کی تھی ، کہ لفظ کو اپنی اصل معنی سے پھیر نا ،
ید کا معنی حقیقی ہے ہاتھ ،جس کو عضو جارحہ بھی کہا جاتا ہے ، اپنی تمام کیفیات کے ساتھ ،
اگر آپ کسی بھی اہل لغت سے پوچھ لیں کہ ید کسے کہتے ہے وہ جواب دے گا ، ہاتھ ، آپ اس سے دوبارہ پوچھ لیں ہاتھ کیسے ہوتا ہے وہ تمام تفصیل بتائیں گا ۔
اب ید سے معنی حقیقی مراد لینا ، ساتھ میں یہ کہنا کہ کیفیات کا علم اللہ ہی کو ہے تاویل ہی تو ہے ،
آپ کے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس طرح عرض کیا ہے ،
تو ائمہ اربعہ کا تفویض کرنا ہی ہمارے تاویل کی دلیل ہے ،
اس میں مزید تفصیل بھی ہے لیکن آپ کے سوال کے لئے شاید اتنا ہی کافی ہے ۔
یہ ساری ذوقیات ہیں جن کی دلائل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں ۔ اور ان چیزوں کی مکمل تفصیلات یہاں فورم پر موجود ہیں ۔
ایک اوپر والی لڑی اور دوسرا یہ مضمون :
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-صفاتِ-الٰہیہ-میں-ائمہ-اربعہ-’مفوضہ‘-ہیں؟.596/
ففیہما شفاء لمافی الصدور ۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
یہی امام بزدوی اسی کتاب میں صفۃ غضب کی معنی حقیقی بیان کرکے اس کی نفی کرتے ہیں آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیے

Capture.JPG
آگے کچھ معنی بھی بیان کردوں تاکہ آپ اپنے مطلب کا معنی نہ نکال سکے
غضب (غصہ ) اور رضا (خوشی ) دو صفت ہیں اللہ کے صفات میں سے بغیر کسی کیفیت کے ساتھ
یعنی (ان صفات ) کی کیفیت بیان کئے بغیر ، کیونکہ ان کی کیفیات مجہول ہے (اور وہ کیوں مجہول ہیں اس کی وجہ یہ ہے ) کہ اللہ کی رضا اور غضب ہمارے غضب کی طرح نہیں ہے کیونکہ (ہمارے غضب کا معنی حقیقی ہے ) دل کے خون کا جوش مارنا ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو یہ غضب اور رضا نفس کی حالتیں ہیں جیساکہ خوشی ، سرور ، عشق ، اور تعجب ہیں چنانچہ یہ سارے مزاج کے تابع ہوتے ہیں جو مرکب ہوتا ہے اور ترکیب اللہ کے وجوب ذاتی کے منافی ہے ۔
 
Top