بھائی : حق سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ جائز سمجھتے ہیں ،بجائے اس کے کہ صفات کو اپنی حقیقی معنی میں لیکر تشبیہ کی طرف لے جایا جائے ، بہتر ہے کہ ایک جائز اور قریب المعنی تاویل کرکے اس کو تشبیہ سے بچایا جائے ،
جیساکہ سب مفسرین وھو معکم این ما کنتم میں کرتے ہیں
گویا کلام اللہ کا حقیقی معنی مراد لینے سے تشبیہ لازم ( تشبیہ کی طرف لے جانا ۔ ) آتی ہے ۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔
حقیقت یہ ہے کہ تأویل کرنے والے اپنے زعم فاسد کی بناء پر نصوص صفات کو ’’ نصوص تشبیہ ‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم نے ان نصوص کو ان کے اصل معانی سے نہ ہٹایا تو تشبیہ لازم آجائے گی ۔ گویا یہ بھی مشبہ کے بھائی ہیں کہ پہلے تشبیہ سوچتے ہیں اور پھر اس سے بچنے کے لیے تاویل کرتے ہیں ۔
حالانکہ چاہیے تو یہی ہے کہ اس تشبیہ کا جو وہم ذہن میں آتا سب سے پہلے تو اسی کو دفعہ کیا جائے ۔ تاکہ تأویل کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔
اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنی ذات کےلیے لفظ ’’ ید ‘‘ استعمال کیا ۔ اسی طرح انسان کے لیے بھی یا دیگر مخلوقات کے لیے بھی لفظ ’’ ید ‘‘ استعمال کیا ۔
ہم ید کا معنی حقیقی ہی مراد لیں گے ۔ البتہ یہ نہیں کہیں گے کہ دونوں جگہ ’’ ید ‘‘ ہے اس لیے معاذ اللہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں ۔ بلکہ خالق کے لیے ید وہی ہےجو اس کی ذات کے لائق ہے جبکہ مخلوقات کے لیے ’’ ید ‘‘ وہ ہے جو ان کی اوقات کے مطابق ہے ۔
گویا اہل تأویل نے اپنے سطحی فہم کی وجہ سے ’’ اتحاد فی الأسماء ‘‘ کو ’’ اتحاد فی الحقائق ‘‘ کی دلیل سمجھ لیا ہے ۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔ خالق و مخلوق کی بات تو ایک طرف ہے ۔ مخلوقات کا ہی آپس میں موازنہ کرلیں : انسان کا بھی ہاتھ ہے ۔ جانور کا بھی ہاتھ ہے ۔ تو کیا دونوں ہاتھ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔۔۔؟؟ انسان کی بھی آنکھ ہے ۔ جانور کی بھی آنکھ ہے ، تو کیا دونوں آنکھیں ایک جیسی ہیں ۔۔؟
یہ سب تفصیلات یہاں موجود ہیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/عقائد-میں-تأویل-،-تفویض-،-اہل-سنت-کا-موقف.17913/
جہاں محترم عاصم صاحب نے اس تعلق سےکچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔ یہیں ’’ تأویل ‘‘ اور ’’ تفویض ‘‘ وغیرہ کی بھی تعریفات موجود ہیں ۔اگر کوئی اعتراض ہے وہاں وضاحت فرمائیں ۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ، آپ نے میرا کام بہت آسان کردیا ، بھائی قدریہ اور معتزلہ جو تاویل کرتے ہیں اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے ید وغیرہ صفات بالکل ثابت ہی نہیں ، کہ ان سے جسمیت اور ترکیب کے طرف ذہن جاتا ہے یعنی وہ قطعی طور پر صفت ید کا انکار کرکے یہ تاویل کرتے ہیں
جبکہ ہمارے ہاں نوعیت یہ ہے کہ ہمارا اصل مسلک تفویض کا ہی ہے جیساکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا ہے ، البتہ ہم تاویل احتمالی کو متذکرہ بالا مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
معتزلہ اور اشاعرہ و ماتریدیہ کا آپس میں کوئی فرق نہیں ۔ اس لحاظ سے کہ دونوں کی غلطی کی بنیاد ایک ہی ہے ۔ اور وہ ہے ’’ اتحاد الاسماء یدل علی اتحاد الحقائق ‘‘
وہی اعتراضات جو اشاعرہ معتزلہ پر کرتےہیں وہی خود ان پر وارد ہوتے ہیں ۔
معتزلہ تمام صفات کا انکار کرتے ہیں ۔ جبکہ اشاعرہ و ماتریدیہ بعض کا انکار اور بعض کا اثبات ۔ اب یہ جن کا اثبات کرتے ہیں اگر ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو دیگر سے کیوں آتی ہے ۔۔؟
تمام ائمہ کا مسلک تفویض ہے اور تفویض بھی تاویل ہے ، کیونکہ ایک جگہ آپ کےہی حضر حیات نے تاویل کی تعریف یوں کی تھی ، کہ لفظ کو اپنی اصل معنی سے پھیر نا ،
ید کا معنی حقیقی ہے ہاتھ ،جس کو عضو جارحہ بھی کہا جاتا ہے ، اپنی تمام کیفیات کے ساتھ ،
اگر آپ کسی بھی اہل لغت سے پوچھ لیں کہ ید کسے کہتے ہے وہ جواب دے گا ، ہاتھ ، آپ اس سے دوبارہ پوچھ لیں ہاتھ کیسے ہوتا ہے وہ تمام تفصیل بتائیں گا ۔
اب ید سے معنی حقیقی مراد لینا ، ساتھ میں یہ کہنا کہ کیفیات کا علم اللہ ہی کو ہے تاویل ہی تو ہے ،
آپ کے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس طرح عرض کیا ہے ،
تو ائمہ اربعہ کا تفویض کرنا ہی ہمارے تاویل کی دلیل ہے ،
اس میں مزید تفصیل بھی ہے لیکن آپ کے سوال کے لئے شاید اتنا ہی کافی ہے ۔
یہ ساری ذوقیات ہیں جن کی دلائل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں ۔ اور ان چیزوں کی مکمل تفصیلات یہاں فورم پر موجود ہیں ۔
ایک اوپر والی لڑی اور دوسرا یہ مضمون :
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-صفاتِ-الٰہیہ-میں-ائمہ-اربعہ-’مفوضہ‘-ہیں؟.596/
ففیہما شفاء لمافی الصدور ۔