میرا سوال یہاں بھی وہی ہے کہ اس طرح کی پوسٹیں سے اسلام کو کیا فائدہ ملا ؟؟؟
ایک ساتھی ایک بات کرتا ہے تو دوسرا اسی کو اپنے حق مین پیش کر دیتا ہے ؟؟؟
کیا اہل علم اس طرح اصول حدیث کی بحوث پر اتفاق نہیں کر سکتے ؟؟
اللہ کے سوچیں کہ اسلام کو کن چیلنجز کا سامنا ان کی طرف توجہ نہیں اور پرانے اختلافی مسائل پر قوتیں صرف ہو رہی ہیں ؟؟
سیف الإسلام بھائی ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتےہیں اللہ کرے آپ عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنے میں زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں ۔
بھائی کچھ باتیں ذہن میں رکھیں :
تمام انسانوں کا مزاج ایک طرح کا نہیں ہوسکتا ۔ علوم و فنون بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں ۔
ہر انسان کا ایک خاص ذوق ہوتا ہے وہ اپنے خاص ذوق کے مطابق یا کہیں ذوق کے مناسب چیزوں پر بات کرنا پسند کرتا ہے ۔ بہت سارے لوگ ہیں جو علم ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں کچھ لوگ ہیں جو علم حدیث سے لگاؤ رکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہیں جو فقہ و اصول فقہ میں غور کرنا پسند کرتے ہیں ۔ وعلی ہذا القیاس ۔
یہاں تک بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق علوم و فنون سے مستفید ہوتا ہے اور اس ضمن خدمات انجام دیتا ہے یوں مل ملا کر تمام علوم وفنون میں ترقی ہوتی رہتی ہے ۔
لیکن اب اگر کوئی یہ کہنے شروع کردے کہ بھلا جی فلاں فن سے اسلام کو کیا فائدہ ہونے والا ہے ؟ کرنے والا اصل کا م تو یہ ہے ۔۔۔۔ تو اب اسطرح اگر کسی خاص اہل فن کو آپ دوسرے فن کی طرف اس طرح کی باتیں کرکے جانے پر مجبور کردیں تو اس میں دو نقصان ہوں گے ۔
پہلی بات : کسی شخص کو ایسی جگہ پر کام کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے جس میں وہ دلچسپی ہی نہیں رکھتا یا یوں کہہ لیں کہ اس کا اہل ہی نہیں ۔
دوسری بات :سابقہ فن ایک ماہر فن سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ایک شخص علم حدیث کا ذوق رکھتا ہے آپ کو اس کو علم ادب میں لے جائیں ظاہر ہے علم حدیث ایک باذوق شخص سے محروم ہو گیا ہے ۔
کسی فن میں عدم اختلاف ہونا یہ ناممکن بات ہے آپ دنیا جہاں کا کوئی بھی فن اور اس کے قواعد و ضوابط چھان ماریں اس میں متفق علیہ مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف فیہ مسائل کی فہرست بھی ملے گی جو قرنا بعد قرن چلے آرہے ہیں ۔
آپ نے کہا کہ اسلام کو درپیش چیلنجز کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
اس بات پر آپ دو پہلوؤں سے غور کریں کہ اس طرح کے مسائل پر ہمیشہ سے توجہ دیے جانے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج یہ ہمارے لیے چیلنج نہیں ہیں ۔۔۔ اگر یہ باتیں اتنی وضاحت و تفصیل کے ساتھ نہ کی گئی ہوتیں تو یہ سب کچھ بھی چیلنجز کی فہرست میں شامل ہوتا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کو کسی متعین جہت سے مسائل درپیش نہیں ہیں بلکہ تمام اسلامی علوم و فنون کی کما حقہ حفاظت کرنا یہ بھی امر مطلوب ہے ۔
غالبا سیر أعلام النبلاء میں حافظ ذہبی علیہ الرحمہ نے بہت سارے علماء مثلا بخاری ، ابن المدینی ، ابن معین ، احمد بن حنبل ، ابن راہویہ اور جماعتِ اہل حدیث کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے
لو لا هؤلاء الأكابر لخطبت الزنادقة على المنابر
اگر اکابرین کی یہ جماعت نہ ہوتی تو یقینا منبرو محراب زندیقوں کے قبضے میں ہوتے ۔
اب محدثین کی یہ جماعت کتنے چھوٹے چھوٹے مسائل کی وضاحت کرتی رہی ہے کتب علل و سؤالات اس کی گواہ ہیں ۔ کسی دن اصول حدیث کی کوئی کتاب پکڑیں اور اس کی فہرست الموضوعات پر نظر دوڑائیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ محدثین کس طرح مختلف پہلوؤں سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو لمبے لمبے دفتروں میں پھیلا دیتے ہیں ۔
اب بظاہر ان تمام دفاتر علل کا ملحدین اور زنادقہ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی انہی اصحاب دفاتر کو زنادقہ کا توڑ بتایا جارہا ہے ۔ آخر کیوں ؟
ایک مثال سے سمجھیں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور شیخ البانی کی مثال لیں اول الذکر عالمی سطح پر تقابل ادیان کے ذریعے اسلام کے دفاع کرنے کے حوالے سے مشہور و معروف ہیں اور بہت سارے لوگ ان کی وجہ سے دائرہ اسلام میں داخل ہور رہے ہیں جبکہ ثانی الذکر تحقیق حدیث میں ایک بلند پایہ مقام رکھتے ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اصل کام تو ذاکر نائیک کر رہے ہیں یہ ملاں بیچارے کیا کر سکتے تھے ؟
لیکن اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات جن کی حقانیت و سچائی کی وجہ سے ذاکر نائیک کی بات میں قوت اور وزن ہوتا ہے وہ اس نے کہاں سے لی ہیں ؟ ذاکر نائیک مسلمان کرنے کے لیے جو کلمہ پڑھاتے ہیں اگر وہی ایک حدیث انہیں کہہ دیا جائے کہ محدثین کی خدمات سے استفادہ کیے بغیر ثابت کردیں تو بات نہیں بن سکے گی ۔
آج ذاکر نائیک یہ جملہ کہہ کر ایک منٹ میں آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح یا ضعیف کہا ہے اگر یہ سارا کچھ البانی نے نہ کیا ہوتا اور انہیں اتنا ہی وقت لگانا پڑتا جتنا شیخ البانی نے کسی حدیث کی تحقیق میں صرف کیا ہے تو کیا ذاکر نائیک اتنی تیزی سے تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دے سکتے تھے ۔ ؟
شیخ البانی نے اپنے ذوق کے مطابق کام کیا ذاکر نائیک اپنے ذوق کے مطابق کام کر رہا ہے اور دونوں کی کوششیں مل وہ کام کر رہی ہیں جو دونوں اکیلے اکیلے نہیں کر سکتے تھے ۔
اب اگر شیخ البانی کا کام ذاکر نائیک کے سپرد کردیں (کہ یہ زیادہ اہم ہے ) یا شیخ البانی کو ذاکر نائیک کی ذمہ داریاں سونپ دی جاتیں (کیوں کہ یہ زیادہ اہم ہے ) تو نتیجہ کیا نکلتا ؟