کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
اس موضوع سے متعلق ہمای پہلی تحریر کو pdf میں درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنے والا یزید ،
أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔
یہ روایت باطل ہے کسی سبائی درندے نے اسے گھڑاہے ۔
اس روایت میں صرف یزید بن معاویہ ہی نہیں بلکہ یزید نامی صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر بھی انتہائی گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے اور وہ یہ کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (معاذاللہ) کسی اور کی لونڈی کو زبردستی چھین لیا اورجب انہیں یزید سے متعلق حدیث رسول سنائی گئی تو انہوں نے غصب کردہ لونڈی واپس کی۔
غور کریں کتناگھناؤنا کردار صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے ، کہ انہوں نے کسی اور کے حصہ میں خوبصورت لڑکی دیکھی تو اسے غصب کرلیا ، یادرہے کہ اصل متن کے الفاظ ہیں ’’فاغتصبها يزيد ‘‘ یعنی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس خوبصورت لڑکی کو غصب کرلیا ، یہی ترجمہ درست ہے ۔
اور مجلہ الحدیث کے محولہ صفحہ پر جو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’لونڈی قبضہ میں لے لی ‘‘ تو یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ، اورشاید مترجم کو بھی معلوم تھا کہ یہ درست ترجمہ نہیں ہے لیکن چونکہ صحیح ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک صحابی رسول کا بڑا گھناؤنا کردار سامنے آرہا تھا اس لئے مترجم اس کی جرات نہیں کرسکے، حالانکہ یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔
حدہوگئی کہ یزید دشمنی میں یزید نامی صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر بھی گھناؤنا الزام لگانے سے لوگ نہیں ہچکچاتے ۔ واللہ المستعان۔
کسی بھی روایت کی محض ظاہری سند دیکھ کر یا اس کے دیگر طرق سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک ہی طریق کو سامنے رکھ کر حکم لگانا متقدمین کے منہج کے سراسر خلاف ہے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صرف ایک حدیث کو سامنے رکھ کر فتوی دینے لگ جائے ۔
جب ہم روایت کے مذکورہ کی تمام اسانید کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ ابوالعالیہ اور ابوذر کے بیچ سے ایک روای ساقط ہے عبدالوہاب کے علاوہ تمام رواۃ نے اس سند کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ملاحظہ ہو:
هوذة بن خليفة الثقفي:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: اللهم لا ورد على الرجل جاريته [دلائل النبوة للبيهقي 6/ 467]
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ.[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 19/ 554 ، دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 467]۔
معاذ بن معاذ العنبري:
امام ابن أبي عاصم (المتوفى: 287) نے کہا:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»[الأوائل لابن أبي عاصم ص: 77]۔
سفيان بن عيينة الهلالي:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ: لَا[تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان 1/ 132]۔
سعيد بن عبدالكريم بن سليط :
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو الفضل أحمد بن منصور بن بكر بن محمد أنا جدي أنبأ أبو بكر أحمد بن محمد بن عبدوس الحيري إملاء أنا أبو الحسين عبد الصمد بن علي بن مكرم البزاز ببغداد نا أحمد بن محمد بن نصر ثنا سري بن يحيى نا سعيد بن عبدالكريم بن سليط أنه سمع عوف بن أبي جميلة يحدث عن المهاجر أنه حدث أبو العالية قال لما كان زمن يزيد بن أبي سفيان بالشام غزا الناس فغنموا وكانت في غنائمهم جارية نفيسة فصارت لرجل في قسمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها وأبو ذر يومئذ بالشام فاستعان الرجل بأبي ذر فانطلق معه فقال رد على الرجل جاريته فتلكأ يزيد فقال أما والله لئن فعلت لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى فلحقه فقال أذكرك الله أهو أنا قال اللهم لا فرد على الرجل جاريته
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔
النضر بن شميل المازني:
أخبرني أحمد بن شعيب قال : أنبأ سليمان بن سلم قال : أنبأ النضر بن شميل قال : أنبأ عوف ، عن أبي المهاجر ، عن أبي خالد ، عن رفيع أبي العالية قال : قال أبو ذر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية »[الكنى والأسماء للدولابي 3/ 363 ]۔
مؤخرالذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے پھر ان دونوں کے ساتھ مل کر بقیہ رواۃ کا بیان بھی درست ثابت ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ابن عساکر کی زیر نظر روایت میں رویانی کے شیخ عبدالوہاب سے سند بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے منقطع روایت کو موصول بیان کردیا ہے ۔
اس طرح کی غلطی کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد ہی فرماتے ہیں ’’ فِيهِ انْقِطَاعٌ‘‘ یعنی اس کی سند میں انقطاع ہے[البداية والنهاية ط إحياء التراث 3/ 135]۔
اس روایت سے اہل بدعت استدلال کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش بارہ ربیع الاول ہے ۔
لیکن اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ ابن کثیر اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے ۔
مگر امام جوزقانی سے اپنی سند سے ابن ابی شیبہ کے طریق سے یہی راویت نقل کی ہے اور ان کی نقل کردہ سند میں انقطاع نہیں ہے بلکہ عفان اورسعیدبن میناء کے درمیان
سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ نامی ثقہ راوی کا ذکرہے۔
ملاحظہ ہو یہ یہ مکمل روایت:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انقطاع کا ازالہ ہوگیا اور مذکورہ روایت صحیح ہوگئی کیونکہ موصول روایت کرنے والے ’’محمد بن طاهر‘‘ گرچہ ثقہ ہیں لیکن متکلم فیہ ہیں لہٰذا ثقہ کے خلاف ان کا موصول بیان کرنا غیر مقبول ہے تفصیل کے لئے دیکھئے درج ذیل لنک ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ۔
میرے خیال سے جو لوگ یزید سے متعلق ابن عساکر کی مذکور روایت کو صحیح یا حسن کہتے ہیں انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے متعلق بھی محولہ روایت کو صحیح کہنا چاہئے بلکہ بدرجہ اولی صحیح کہنا چاہئے کیونکہ یہاں صرف ایک ثقہ روای کی مخالفت ہے ، اور زیربحث روایت میں تو متعدد ثقات کی مخالفت ہے ۔
بہرحال یہ متقدمین کا منہج نہیں ہے کہ ثقہ یا حسن الحدیث کی زیادتی مطلقا قبول کرلی جائے اورحقیقت یہ ہے کہ زیادثی ثقہ کے قبول و رد کے لئے متقدمین کے یہاں کوئی ٍ ضابطہ ہے ہی نہیں بلکہ متقدمیں قرائن کو دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
والذي يجري على قواعد المحدثين أنهم لا يحكمون عليه بحكم مستقل من القبول والرد، بل يرجحون بالقرائن كما قدمناه في مسألة تعارض الوصل والإرسال.
یہی حال زیربحث یزید سے متعلق روایت کا بھی ہے کہ تمام رواۃ نے اسے منقطع بیان کیا ہے صرف عبدالوہاب نے وصل کیا ہے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي. ويكنى أبا محمد. وكان ثقة وفيه ضعف.[الطبقات لابن سعد: 7/ 212]۔
اور اخیر عمر میں ان کا حافظہ اس حدتک خراب ہوگیا تھا کہ یہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔
معلوم ہوا کہ عبدالوہاب ثقہ ہونے کے باوجود متکلم فیہ تھے نیز ان کے وصل والی روایت کے ہوتے ہوئے بھی بہت سارے محدثین نے ان زیربحث روایت کو منقطع قراردیا ہے ۔
چنانچہ خود ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ ایک مقام پر اسی روایت کو منقطع روایت کرنے کے بعد کہا:
رواه عبد الوهاب الثقفي عن عوف عن أبي مهاجر عن أبي العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر زاد فيه أنا مسلم [تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 160]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس سند میں ابو مسلم کی زیادتی پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
أخرجه الروياني في مسنده» عن بندار، وروي من وجه آخر، عن عوف، وليس فيه أبو مسلم.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 273]۔
امام بیہقی رحمہ اللہ بھی اس سند کو منقطع قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر انقطاع ہی کا حکم لگایا ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عساکر کی مذکورہ روایت اور اس جیسی روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها وأجود ما ورد ما ذكرناه على ضعف أسانيده وانقطاع بعضه[البداية والنهاية 8/ 231]۔
یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکر میں موجود یزید کی مذمت کرنے والی تمام روایات کو مردود قرار دیا ہے ان میں زیربحث روایت بھی ہے ۔
نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول [البداية والنهاية 8/ 231]۔
اسی طرح ابن طولون نے بھی ابن کثیررحمہ اللہ کے حوالہ سے امام بخاری کی تضعیف نقل کرتے ہوئے کہا:
قال البخاري : ((والحديث معلول)) [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا ثابت ہوگیا ۔
اب یا تو یہ بات مان لی جائے کہ عبدالوہاب سے روایت کوموصول بیان کرنے میں غلطی ہوئی اور حقیقت میں سند سے ایک راوی ساقط ہے جیساکہ امام ابن کثیر وغیرہ نے کہا ہے یا اعلان کیا جائے کہ ابومسلم الجذمی کذاب ہے کیونکہ وہ دو صحابہ کی ملاقات ایسی جگہ بتلارہا ہے جہاں ان دونوں صحابہ کا ملنا ممکن ہی نہیں۔ اور ان دونوں میں کوئی بھی بات مانی جائے روایت مردود ثابت ہوگی۔
امام بخاری ہی کی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے ہے کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جن دنوں شام کے امیر تھے ان دنوں ابوذر رضی اللہ عنہ شام میں تھے ہی نہیں کیونکہ یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام آئے اور صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ شام میں صرف ابوبکر اورعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ تھے چنانچہ :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) ۔
امام بیہقی نے جو یہ کہا:
لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
عرض ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام تر روایات میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ہی کی صراحت ہے ، نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس حدیث میں لونڈی غصب کرنے کا جو واقعہ ہے وہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کا واقعہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید نے جب ایک لونڈی غصب کی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنادی لیکن جب انہوں نے مسندخلافت غصب کی کما یقال تو اس وقت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث لوگوں کوکیوں نہ سنائی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ واقعہ پیش آنے کے بعد یہ حدیث کئ لوگوں کے علم میں آچکی ہوگی ۔
نیز اسی حدیث میں ہے کہ یزید نے جب ابوذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ یزید بن معاویہ کا ہے تب تو بتصریح ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ اس کے مصداق ہیں ہی نہیں۔
الغرض یہ کہ امام بخاری وامام بیہقی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے ملے ہیں نہیں ، اور امام بخاری رحمہ اللہ کی اسی تحقیق کو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی برضاء ورغبت نقل کیا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ اور بھی ایسے قرائن ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ روایت مکذوب ہے ۔
مثلا یہ کہ جب یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ولیعہدی کے لئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اس آئین کی مخالفت کی لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اس حدیث کو پیش نہیں کیا ، جبکہ مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس حدیث کا عام ہوجانا ظاہر ہے ، غور کیا جائے کہ زیربحث روایت کے مطابق ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک لونڈی غصب کرتے ہیں اور اس ایک غلطی پر انہیں یہ حدیث فورا سنادی گئی جبکہ آپ صحابی رسول تھے تو پھر یزید بن معاویہ تو تابعی تھے انہوں نے ایک لونڈی ہی نہیں بلکہ مخالفین کے بقول مسندخلافت ہی کو غصب کرلیا آخر انہیں کسی نے یہ حدیث کیوں نہ سنائی ؟؟؟؟؟؟؟؟
لطیفہ :
مخالفین یزید کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جن فتنہ پرداز امیروں کا نام لوگوں سے چھپایا اس سے یزید ہی مراد ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جان کے خوف سے یزید بن معاویہ کا نام نہیں بتایا عرض ہے کہ مذکورہ روایت کے مطابق تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزید کا نام بتادیاوہ بھی خاندان بنوامیہ کے ایک فرد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے آخر ان کی گردن کیوں نہیں ماری گئی ؟؟؟؟؟؟
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ روایت کی سند کا منقطع ہونا ہی راجح ہے قرائن اسی پردال ہیں اورچونکہ اس روایت میں شدید نکارت بلکہ محال وناممکن باتوں کا ذکر ہے جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی اس لئے متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے اورقطعی یقین ہوجاتاہے کہ یہ روایت کسی سبائی ذہن کی کارستانی ہے، یاد رہے کہ شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کے اندر گرچہ کوئی کذاب راوی نہ ہو پھر بھی متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اہل علم اسے موضوع قرار دیتے ہیں چنانچہ ترمذکی کی ایک روایت کو ابن الجوزی ، حافظ ابن حجر اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا حالانکہ اس کے سارے رجال بخاری ومسلم کے ہیں بس سند میں بخاری ومسلم کے راوی ولیدبن مسلم کا عنعنہ ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے :[الموضوعات لابن الجوزي 2/ 140،لسان المیزان : ج 5ص 20 الضعیفہ :ج 7ص 387]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنے والا یزید ،
أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔
یہ روایت باطل ہے کسی سبائی درندے نے اسے گھڑاہے ۔
اس روایت میں صرف یزید بن معاویہ ہی نہیں بلکہ یزید نامی صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر بھی انتہائی گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے اور وہ یہ کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (معاذاللہ) کسی اور کی لونڈی کو زبردستی چھین لیا اورجب انہیں یزید سے متعلق حدیث رسول سنائی گئی تو انہوں نے غصب کردہ لونڈی واپس کی۔
غور کریں کتناگھناؤنا کردار صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے ، کہ انہوں نے کسی اور کے حصہ میں خوبصورت لڑکی دیکھی تو اسے غصب کرلیا ، یادرہے کہ اصل متن کے الفاظ ہیں ’’فاغتصبها يزيد ‘‘ یعنی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس خوبصورت لڑکی کو غصب کرلیا ، یہی ترجمہ درست ہے ۔
اور مجلہ الحدیث کے محولہ صفحہ پر جو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’لونڈی قبضہ میں لے لی ‘‘ تو یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ، اورشاید مترجم کو بھی معلوم تھا کہ یہ درست ترجمہ نہیں ہے لیکن چونکہ صحیح ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک صحابی رسول کا بڑا گھناؤنا کردار سامنے آرہا تھا اس لئے مترجم اس کی جرات نہیں کرسکے، حالانکہ یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔
حدہوگئی کہ یزید دشمنی میں یزید نامی صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر بھی گھناؤنا الزام لگانے سے لوگ نہیں ہچکچاتے ۔ واللہ المستعان۔
روایت مذکورہ کی استنادی حالت
کسی بھی روایت کی محض ظاہری سند دیکھ کر یا اس کے دیگر طرق سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک ہی طریق کو سامنے رکھ کر حکم لگانا متقدمین کے منہج کے سراسر خلاف ہے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صرف ایک حدیث کو سامنے رکھ کر فتوی دینے لگ جائے ۔
جب ہم روایت کے مذکورہ کی تمام اسانید کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ ابوالعالیہ اور ابوذر کے بیچ سے ایک روای ساقط ہے عبدالوہاب کے علاوہ تمام رواۃ نے اس سند کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ملاحظہ ہو:
هوذة بن خليفة الثقفي:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: اللهم لا ورد على الرجل جاريته [دلائل النبوة للبيهقي 6/ 467]
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ.[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 19/ 554 ، دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 467]۔
معاذ بن معاذ العنبري:
امام ابن أبي عاصم (المتوفى: 287) نے کہا:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»[الأوائل لابن أبي عاصم ص: 77]۔
سفيان بن عيينة الهلالي:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ: لَا[تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان 1/ 132]۔
سعيد بن عبدالكريم بن سليط :
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو الفضل أحمد بن منصور بن بكر بن محمد أنا جدي أنبأ أبو بكر أحمد بن محمد بن عبدوس الحيري إملاء أنا أبو الحسين عبد الصمد بن علي بن مكرم البزاز ببغداد نا أحمد بن محمد بن نصر ثنا سري بن يحيى نا سعيد بن عبدالكريم بن سليط أنه سمع عوف بن أبي جميلة يحدث عن المهاجر أنه حدث أبو العالية قال لما كان زمن يزيد بن أبي سفيان بالشام غزا الناس فغنموا وكانت في غنائمهم جارية نفيسة فصارت لرجل في قسمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها وأبو ذر يومئذ بالشام فاستعان الرجل بأبي ذر فانطلق معه فقال رد على الرجل جاريته فتلكأ يزيد فقال أما والله لئن فعلت لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى فلحقه فقال أذكرك الله أهو أنا قال اللهم لا فرد على الرجل جاريته
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔
النضر بن شميل المازني:
أخبرني أحمد بن شعيب قال : أنبأ سليمان بن سلم قال : أنبأ النضر بن شميل قال : أنبأ عوف ، عن أبي المهاجر ، عن أبي خالد ، عن رفيع أبي العالية قال : قال أبو ذر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية »[الكنى والأسماء للدولابي 3/ 363 ]۔
مؤخرالذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے پھر ان دونوں کے ساتھ مل کر بقیہ رواۃ کا بیان بھی درست ثابت ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ابن عساکر کی زیر نظر روایت میں رویانی کے شیخ عبدالوہاب سے سند بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے منقطع روایت کو موصول بیان کردیا ہے ۔
اس طرح کی غلطی کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد ہی فرماتے ہیں ’’ فِيهِ انْقِطَاعٌ‘‘ یعنی اس کی سند میں انقطاع ہے[البداية والنهاية ط إحياء التراث 3/ 135]۔
اس روایت سے اہل بدعت استدلال کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش بارہ ربیع الاول ہے ۔
لیکن اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ ابن کثیر اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے ۔
مگر امام جوزقانی سے اپنی سند سے ابن ابی شیبہ کے طریق سے یہی راویت نقل کی ہے اور ان کی نقل کردہ سند میں انقطاع نہیں ہے بلکہ عفان اورسعیدبن میناء کے درمیان
سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ نامی ثقہ راوی کا ذکرہے۔
ملاحظہ ہو یہ یہ مکمل روایت:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انقطاع کا ازالہ ہوگیا اور مذکورہ روایت صحیح ہوگئی کیونکہ موصول روایت کرنے والے ’’محمد بن طاهر‘‘ گرچہ ثقہ ہیں لیکن متکلم فیہ ہیں لہٰذا ثقہ کے خلاف ان کا موصول بیان کرنا غیر مقبول ہے تفصیل کے لئے دیکھئے درج ذیل لنک ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ۔
میرے خیال سے جو لوگ یزید سے متعلق ابن عساکر کی مذکور روایت کو صحیح یا حسن کہتے ہیں انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے متعلق بھی محولہ روایت کو صحیح کہنا چاہئے بلکہ بدرجہ اولی صحیح کہنا چاہئے کیونکہ یہاں صرف ایک ثقہ روای کی مخالفت ہے ، اور زیربحث روایت میں تو متعدد ثقات کی مخالفت ہے ۔
بہرحال یہ متقدمین کا منہج نہیں ہے کہ ثقہ یا حسن الحدیث کی زیادتی مطلقا قبول کرلی جائے اورحقیقت یہ ہے کہ زیادثی ثقہ کے قبول و رد کے لئے متقدمین کے یہاں کوئی ٍ ضابطہ ہے ہی نہیں بلکہ متقدمیں قرائن کو دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
والذي يجري على قواعد المحدثين أنهم لا يحكمون عليه بحكم مستقل من القبول والرد، بل يرجحون بالقرائن كما قدمناه في مسألة تعارض الوصل والإرسال.
اسی لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے تاریخ پیدائش والی رویات کو منقطع کہا ہے حالانکہ حسن الحدیث راوی نے اسے موصول بیان کیا ، لیکن چونکہ موصول والی سند میں کمزور حافظہ والا راوی ہے اور یہ وصل مصنف کی اصل کتاب کے خلاف بھی ہے لہٰذا ان قرائن کی بناد پر حسن الحدیث راوی کے وصل کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین کے قواعد پر جو بات جاری ہے وہ یہ کہ محدثین زیادتی ثقہ پر قبول ورد کے اعتبارسے کوئی مستقل حکم نہیں لگاتے بلکہ قرائن کی روشنی میں ترجیح دیتے ہیں جیساکہ موصول اورمرسل کے تعارض کے مسئلہ میں ہم بیان کرچکے ہیں[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 687]۔
یہی حال زیربحث یزید سے متعلق روایت کا بھی ہے کہ تمام رواۃ نے اسے منقطع بیان کیا ہے صرف عبدالوہاب نے وصل کیا ہے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي. ويكنى أبا محمد. وكان ثقة وفيه ضعف.[الطبقات لابن سعد: 7/ 212]۔
اور اخیر عمر میں ان کا حافظہ اس حدتک خراب ہوگیا تھا کہ یہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔
معلوم ہوا کہ عبدالوہاب ثقہ ہونے کے باوجود متکلم فیہ تھے نیز ان کے وصل والی روایت کے ہوتے ہوئے بھی بہت سارے محدثین نے ان زیربحث روایت کو منقطع قراردیا ہے ۔
چنانچہ خود ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ ایک مقام پر اسی روایت کو منقطع روایت کرنے کے بعد کہا:
رواه عبد الوهاب الثقفي عن عوف عن أبي مهاجر عن أبي العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر زاد فيه أنا مسلم [تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 160]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس سند میں ابو مسلم کی زیادتی پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
أخرجه الروياني في مسنده» عن بندار، وروي من وجه آخر، عن عوف، وليس فيه أبو مسلم.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 273]۔
امام بیہقی رحمہ اللہ بھی اس سند کو منقطع قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر انقطاع ہی کا حکم لگایا ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عساکر کی مذکورہ روایت اور اس جیسی روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها وأجود ما ورد ما ذكرناه على ضعف أسانيده وانقطاع بعضه[البداية والنهاية 8/ 231]۔
یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکر میں موجود یزید کی مذمت کرنے والی تمام روایات کو مردود قرار دیا ہے ان میں زیربحث روایت بھی ہے ۔
نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول [البداية والنهاية 8/ 231]۔
اسی طرح ابن طولون نے بھی ابن کثیررحمہ اللہ کے حوالہ سے امام بخاری کی تضعیف نقل کرتے ہوئے کہا:
قال البخاري : ((والحديث معلول)) [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا ثابت ہوگیا ۔
اب یا تو یہ بات مان لی جائے کہ عبدالوہاب سے روایت کوموصول بیان کرنے میں غلطی ہوئی اور حقیقت میں سند سے ایک راوی ساقط ہے جیساکہ امام ابن کثیر وغیرہ نے کہا ہے یا اعلان کیا جائے کہ ابومسلم الجذمی کذاب ہے کیونکہ وہ دو صحابہ کی ملاقات ایسی جگہ بتلارہا ہے جہاں ان دونوں صحابہ کا ملنا ممکن ہی نہیں۔ اور ان دونوں میں کوئی بھی بات مانی جائے روایت مردود ثابت ہوگی۔
امام بخاری ہی کی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے ہے کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جن دنوں شام کے امیر تھے ان دنوں ابوذر رضی اللہ عنہ شام میں تھے ہی نہیں کیونکہ یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام آئے اور صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ شام میں صرف ابوبکر اورعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ تھے چنانچہ :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) ۔
امام بیہقی نے جو یہ کہا:
لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
عرض ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام تر روایات میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ہی کی صراحت ہے ، نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس حدیث میں لونڈی غصب کرنے کا جو واقعہ ہے وہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کا واقعہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید نے جب ایک لونڈی غصب کی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنادی لیکن جب انہوں نے مسندخلافت غصب کی کما یقال تو اس وقت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث لوگوں کوکیوں نہ سنائی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ واقعہ پیش آنے کے بعد یہ حدیث کئ لوگوں کے علم میں آچکی ہوگی ۔
نیز اسی حدیث میں ہے کہ یزید نے جب ابوذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ یزید بن معاویہ کا ہے تب تو بتصریح ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ اس کے مصداق ہیں ہی نہیں۔
الغرض یہ کہ امام بخاری وامام بیہقی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے ملے ہیں نہیں ، اور امام بخاری رحمہ اللہ کی اسی تحقیق کو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی برضاء ورغبت نقل کیا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ اور بھی ایسے قرائن ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ روایت مکذوب ہے ۔
مثلا یہ کہ جب یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ولیعہدی کے لئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اس آئین کی مخالفت کی لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اس حدیث کو پیش نہیں کیا ، جبکہ مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس حدیث کا عام ہوجانا ظاہر ہے ، غور کیا جائے کہ زیربحث روایت کے مطابق ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک لونڈی غصب کرتے ہیں اور اس ایک غلطی پر انہیں یہ حدیث فورا سنادی گئی جبکہ آپ صحابی رسول تھے تو پھر یزید بن معاویہ تو تابعی تھے انہوں نے ایک لونڈی ہی نہیں بلکہ مخالفین کے بقول مسندخلافت ہی کو غصب کرلیا آخر انہیں کسی نے یہ حدیث کیوں نہ سنائی ؟؟؟؟؟؟؟؟
لطیفہ :
مخالفین یزید کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جن فتنہ پرداز امیروں کا نام لوگوں سے چھپایا اس سے یزید ہی مراد ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جان کے خوف سے یزید بن معاویہ کا نام نہیں بتایا عرض ہے کہ مذکورہ روایت کے مطابق تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزید کا نام بتادیاوہ بھی خاندان بنوامیہ کے ایک فرد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے آخر ان کی گردن کیوں نہیں ماری گئی ؟؟؟؟؟؟
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ روایت کی سند کا منقطع ہونا ہی راجح ہے قرائن اسی پردال ہیں اورچونکہ اس روایت میں شدید نکارت بلکہ محال وناممکن باتوں کا ذکر ہے جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی اس لئے متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے اورقطعی یقین ہوجاتاہے کہ یہ روایت کسی سبائی ذہن کی کارستانی ہے، یاد رہے کہ شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کے اندر گرچہ کوئی کذاب راوی نہ ہو پھر بھی متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اہل علم اسے موضوع قرار دیتے ہیں چنانچہ ترمذکی کی ایک روایت کو ابن الجوزی ، حافظ ابن حجر اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا حالانکہ اس کے سارے رجال بخاری ومسلم کے ہیں بس سند میں بخاری ومسلم کے راوی ولیدبن مسلم کا عنعنہ ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے :[الموضوعات لابن الجوزي 2/ 140،لسان المیزان : ج 5ص 20 الضعیفہ :ج 7ص 387]۔