• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والے تھے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اس موضوع سے متعلق ہمای پہلی تحریر کو pdf میں درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں









رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنے والا یزید ،

أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔

یہ روایت باطل ہے کسی سبائی درندے نے اسے گھڑاہے ۔

اس روایت میں صرف یزید بن معاویہ ہی نہیں بلکہ یزید نامی صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر بھی انتہائی گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے اور وہ یہ کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (معاذاللہ) کسی اور کی لونڈی کو زبردستی چھین لیا اورجب انہیں یزید سے متعلق حدیث رسول سنائی گئی تو انہوں نے غصب کردہ لونڈی واپس کی۔
غور کریں کتناگھناؤنا کردار صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے ، کہ انہوں نے کسی اور کے حصہ میں خوبصورت لڑکی دیکھی تو اسے غصب کرلیا ، یادرہے کہ اصل متن کے الفاظ ہیں ’’فاغتصبها يزيد ‘‘ یعنی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس خوبصورت لڑکی کو غصب کرلیا ، یہی ترجمہ درست ہے ۔

اور مجلہ الحدیث کے محولہ صفحہ پر جو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’لونڈی قبضہ میں لے لی ‘‘ تو یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ، اورشاید مترجم کو بھی معلوم تھا کہ یہ درست ترجمہ نہیں ہے لیکن چونکہ صحیح ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک صحابی رسول کا بڑا گھناؤنا کردار سامنے آرہا تھا اس لئے مترجم اس کی جرات نہیں کرسکے، حالانکہ یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔

حدہوگئی کہ یزید دشمنی میں یزید نامی صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر بھی گھناؤنا الزام لگانے سے لوگ نہیں ہچکچاتے ۔ واللہ المستعان۔


روایت مذکورہ کی استنادی حالت


کسی بھی روایت کی محض ظاہری سند دیکھ کر یا اس کے دیگر طرق سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک ہی طریق کو سامنے رکھ کر حکم لگانا متقدمین کے منہج کے سراسر خلاف ہے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صرف ایک حدیث کو سامنے رکھ کر فتوی دینے لگ جائے ۔

جب ہم روایت کے مذکورہ کی تمام اسانید کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ ابوالعالیہ اور ابوذر کے بیچ سے ایک روای ساقط ہے عبدالوہاب کے علاوہ تمام رواۃ نے اس سند کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ملاحظہ ہو:

هوذة بن خليفة الثقفي:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: اللهم لا ورد على الرجل جاريته [دلائل النبوة للبيهقي 6/ 467]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ.[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 19/ 554 ، دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 467]۔

معاذ بن معاذ العنبري:
امام ابن أبي عاصم (المتوفى: 287) نے کہا:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»[الأوائل لابن أبي عاصم ص: 77]۔

سفيان بن عيينة الهلالي:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ: لَا[تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان 1/ 132]۔

سعيد بن عبدالكريم بن سليط :
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو الفضل أحمد بن منصور بن بكر بن محمد أنا جدي أنبأ أبو بكر أحمد بن محمد بن عبدوس الحيري إملاء أنا أبو الحسين عبد الصمد بن علي بن مكرم البزاز ببغداد نا أحمد بن محمد بن نصر ثنا سري بن يحيى نا سعيد بن عبدالكريم بن سليط أنه سمع عوف بن أبي جميلة يحدث عن المهاجر أنه حدث أبو العالية قال لما كان زمن يزيد بن أبي سفيان بالشام غزا الناس فغنموا وكانت في غنائمهم جارية نفيسة فصارت لرجل في قسمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها وأبو ذر يومئذ بالشام فاستعان الرجل بأبي ذر فانطلق معه فقال رد على الرجل جاريته فتلكأ يزيد فقال أما والله لئن فعلت لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى فلحقه فقال أذكرك الله أهو أنا قال اللهم لا فرد على الرجل جاريته
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔

النضر بن شميل المازني:
أخبرني أحمد بن شعيب قال : أنبأ سليمان بن سلم قال : أنبأ النضر بن شميل قال : أنبأ عوف ، عن أبي المهاجر ، عن أبي خالد ، عن رفيع أبي العالية قال : قال أبو ذر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية »[الكنى والأسماء للدولابي 3/ 363 ]۔


مؤخرالذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے پھر ان دونوں کے ساتھ مل کر بقیہ رواۃ کا بیان بھی درست ثابت ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ابن عساکر کی زیر نظر روایت میں رویانی کے شیخ عبدالوہاب سے سند بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے منقطع روایت کو موصول بیان کردیا ہے ۔

اس طرح کی غلطی کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد ہی فرماتے ہیں ’’ فِيهِ انْقِطَاعٌ‘‘ یعنی اس کی سند میں انقطاع ہے[البداية والنهاية ط إحياء التراث 3/ 135]۔

اس روایت سے اہل بدعت استدلال کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش بارہ ربیع الاول ہے ۔
لیکن اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ ابن کثیر اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے ۔
مگر امام جوزقانی سے اپنی سند سے ابن ابی شیبہ کے طریق سے یہی راویت نقل کی ہے اور ان کی نقل کردہ سند میں انقطاع نہیں ہے بلکہ عفان اورسعیدبن میناء کے درمیان
سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ نامی ثقہ راوی کا ذکرہے۔


ملاحظہ ہو یہ یہ مکمل روایت:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انقطاع کا ازالہ ہوگیا اور مذکورہ روایت صحیح ہوگئی کیونکہ موصول روایت کرنے والے ’’محمد بن طاهر‘‘ گرچہ ثقہ ہیں لیکن متکلم فیہ ہیں لہٰذا ثقہ کے خلاف ان کا موصول بیان کرنا غیر مقبول ہے تفصیل کے لئے دیکھئے درج ذیل لنک ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ۔

میرے خیال سے جو لوگ یزید سے متعلق ابن عساکر کی مذکور روایت کو صحیح یا حسن کہتے ہیں انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے متعلق بھی محولہ روایت کو صحیح کہنا چاہئے بلکہ بدرجہ اولی صحیح کہنا چاہئے کیونکہ یہاں صرف ایک ثقہ روای کی مخالفت ہے ، اور زیربحث روایت میں تو متعدد ثقات کی مخالفت ہے ۔

بہرحال یہ متقدمین کا منہج نہیں ہے کہ ثقہ یا حسن الحدیث کی زیادتی مطلقا قبول کرلی جائے اورحقیقت یہ ہے کہ زیادثی ثقہ کے قبول و رد کے لئے متقدمین کے یہاں کوئی ٍ ضابطہ ہے ہی نہیں بلکہ متقدمیں قرائن کو دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
والذي يجري على قواعد المحدثين أنهم لا يحكمون عليه بحكم مستقل من القبول والرد، بل يرجحون بالقرائن كما قدمناه في مسألة تعارض الوصل والإرسال.
زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین کے قواعد پر جو بات جاری ہے وہ یہ کہ محدثین زیادتی ثقہ پر قبول ورد کے اعتبارسے کوئی مستقل حکم نہیں لگاتے بلکہ قرائن کی روشنی میں ترجیح دیتے ہیں جیساکہ موصول اورمرسل کے تعارض کے مسئلہ میں ہم بیان کرچکے ہیں[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 687]۔
اسی لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے تاریخ پیدائش والی رویات کو منقطع کہا ہے حالانکہ حسن الحدیث راوی نے اسے موصول بیان کیا ، لیکن چونکہ موصول والی سند میں کمزور حافظہ والا راوی ہے اور یہ وصل مصنف کی اصل کتاب کے خلاف بھی ہے لہٰذا ان قرائن کی بناد پر حسن الحدیث راوی کے وصل کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

یہی حال زیربحث یزید سے متعلق روایت کا بھی ہے کہ تمام رواۃ نے اسے منقطع بیان کیا ہے صرف عبدالوہاب نے وصل کیا ہے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي. ويكنى أبا محمد. وكان ثقة وفيه ضعف.[الطبقات لابن سعد: 7/ 212]۔

اور اخیر عمر میں ان کا حافظہ اس حدتک خراب ہوگیا تھا کہ یہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔

معلوم ہوا کہ عبدالوہاب ثقہ ہونے کے باوجود متکلم فیہ تھے نیز ان کے وصل والی روایت کے ہوتے ہوئے بھی بہت سارے محدثین نے ان زیربحث روایت کو منقطع قراردیا ہے ۔

چنانچہ خود ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ ایک مقام پر اسی روایت کو منقطع روایت کرنے کے بعد کہا:
رواه عبد الوهاب الثقفي عن عوف عن أبي مهاجر عن أبي العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر زاد فيه أنا مسلم [تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 160]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس سند میں ابو مسلم کی زیادتی پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
أخرجه الروياني في مسنده» عن بندار، وروي من وجه آخر، عن عوف، وليس فيه أبو مسلم.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 273]۔

امام بیہقی رحمہ اللہ بھی اس سند کو منقطع قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔

اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر انقطاع ہی کا حکم لگایا ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عساکر کی مذکورہ روایت اور اس جیسی روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها وأجود ما ورد ما ذكرناه على ضعف أسانيده وانقطاع بعضه[البداية والنهاية 8/ 231]۔

یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکر میں موجود یزید کی مذمت کرنے والی تمام روایات کو مردود قرار دیا ہے ان میں زیربحث روایت بھی ہے ۔

نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول [البداية والنهاية 8/ 231]۔

اسی طرح ابن طولون نے بھی ابن کثیررحمہ اللہ کے حوالہ سے امام بخاری کی تضعیف نقل کرتے ہوئے کہا:
قال البخاري : ((والحديث معلول)) [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا ثابت ہوگیا ۔

اب یا تو یہ بات مان لی جائے کہ عبدالوہاب سے روایت کوموصول بیان کرنے میں غلطی ہوئی اور حقیقت میں سند سے ایک راوی ساقط ہے جیساکہ امام ابن کثیر وغیرہ نے کہا ہے یا اعلان کیا جائے کہ ابومسلم الجذمی کذاب ہے کیونکہ وہ دو صحابہ کی ملاقات ایسی جگہ بتلارہا ہے جہاں ان دونوں صحابہ کا ملنا ممکن ہی نہیں۔ اور ان دونوں میں کوئی بھی بات مانی جائے روایت مردود ثابت ہوگی۔



امام بخاری ہی کی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے ہے کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جن دنوں شام کے امیر تھے ان دنوں ابوذر رضی اللہ عنہ شام میں تھے ہی نہیں کیونکہ یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام آئے اور صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ شام میں صرف ابوبکر اورعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ تھے چنانچہ :

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) ۔

امام بیہقی نے جو یہ کہا:
لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔

عرض ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام تر روایات میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ہی کی صراحت ہے ، نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس حدیث میں لونڈی غصب کرنے کا جو واقعہ ہے وہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کا واقعہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید نے جب ایک لونڈی غصب کی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنادی لیکن جب انہوں نے مسندخلافت غصب کی کما یقال تو اس وقت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث لوگوں کوکیوں نہ سنائی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ واقعہ پیش آنے کے بعد یہ حدیث کئ لوگوں کے علم میں آچکی ہوگی ۔
نیز اسی حدیث میں ہے کہ یزید نے جب ابوذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ یزید بن معاویہ کا ہے تب تو بتصریح ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ اس کے مصداق ہیں ہی نہیں۔

الغرض یہ کہ امام بخاری وامام بیہقی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے ملے ہیں نہیں ، اور امام بخاری رحمہ اللہ کی اسی تحقیق کو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی برضاء ورغبت نقل کیا ہے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ اور بھی ایسے قرائن ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ روایت مکذوب ہے ۔

مثلا یہ کہ جب یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ولیعہدی کے لئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اس آئین کی مخالفت کی لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اس حدیث کو پیش نہیں کیا ، جبکہ مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس حدیث کا عام ہوجانا ظاہر ہے ، غور کیا جائے کہ زیربحث روایت کے مطابق ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک لونڈی غصب کرتے ہیں اور اس ایک غلطی پر انہیں یہ حدیث فورا سنادی گئی جبکہ آپ صحابی رسول تھے تو پھر یزید بن معاویہ تو تابعی تھے انہوں نے ایک لونڈی ہی نہیں بلکہ مخالفین کے بقول مسندخلافت ہی کو غصب کرلیا آخر انہیں کسی نے یہ حدیث کیوں نہ سنائی ؟؟؟؟؟؟؟؟

لطیفہ :

مخالفین یزید کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جن فتنہ پرداز امیروں کا نام لوگوں سے چھپایا اس سے یزید ہی مراد ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جان کے خوف سے یزید بن معاویہ کا نام نہیں بتایا عرض ہے کہ مذکورہ روایت کے مطابق تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزید کا نام بتادیاوہ بھی خاندان بنوامیہ کے ایک فرد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے آخر ان کی گردن کیوں نہیں ماری گئی ؟؟؟؟؟؟


خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ روایت کی سند کا منقطع ہونا ہی راجح ہے قرائن اسی پردال ہیں اورچونکہ اس روایت میں شدید نکارت بلکہ محال وناممکن باتوں کا ذکر ہے جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی اس لئے متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے اورقطعی یقین ہوجاتاہے کہ یہ روایت کسی سبائی ذہن کی کارستانی ہے، یاد رہے کہ شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کے اندر گرچہ کوئی کذاب راوی نہ ہو پھر بھی متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اہل علم اسے موضوع قرار دیتے ہیں چنانچہ ترمذکی کی ایک روایت کو ابن الجوزی ، حافظ ابن حجر اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا حالانکہ اس کے سارے رجال بخاری ومسلم کے ہیں بس سند میں بخاری ومسلم کے راوی ولیدبن مسلم کا عنعنہ ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے :[الموضوعات لابن الجوزي 2/ 140،لسان المیزان : ج 5ص 20 الضعیفہ :ج 7ص 387]۔
 
شمولیت
اگست 25، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
216
پوائنٹ
0
شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے اس مدلل مضمون کی توضیح کے لیے ہم نے شیخ زبیر حفظہ اللہ اور شیخ ندیم ظہیر حفظہ اللہ (نائب مدیر ماہنامہ اشاعۃ الحدیث)سے بات کی تا کہ ان کا موقف معلوم کیا جاسکے کیونکہ مضمون نگار پرجان بوجھ کر ترجمہ غلط کرنے اور من گھڑت روایت کو صحیح باور کروانے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ ذیل میں ان سے کی گئی گفتگو کی روشنی میں شیخ کفایت اللہ کے مضمون پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:
اس روایت میں صرف یزید بن معاویہ ہی نہیں بلکہ یزید نامی صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر بھی انتہائی گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے اور وہ یہ کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (معاذاللہ) کسی اور کی لونڈی کو زبردستی چھین لیا اورجب انہیں یزید سے متعلق حدیث رسول سنائی گئی تو انہوں نے غصب کردہ لونڈی واپس کی۔
غور کریں کتناگھناؤنا کردار صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے ، کہ انہوں نے کسی اور کے حصہ میں خوبصورت لڑکی دیکھی تو اسے غصب کرلیا ، یادرہے کہ اصل متن کے الفاظ ہیں ’’فاغتصبها يزيد ‘‘ یعنی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس خوبصورت لڑکی کو غصب کرلیا ، یہی ترجمہ درست ہے ۔
فاغتصبها کا جو ترجمہ کیا گیاہے وہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے اور یہ ترجمہ بالکل ویسا ہی ہےجیسے بعض صحابہ کا ایک دوسرے کے بارے میں کذب کے الفاظ کہنا اور مترجمین کا کذب کاترجمہ جھوٹ کی بجائے غلط کرنا۔ نیز کیا ایسی تمام صحیح روایات صرف اس وجہ سے ردّ کر دینے کے قابل ہیں کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتا ہے؟ مثلاً حضرت ماعز المزنی رضی اللہ عنہ کا زنا کا واقعہ، صحابی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کی اجازت طلب کرنا،حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کا شراب کی خرید و فروخت کو جائز سمجھنا وغیرہ۔ لیکن ہمارا مقصد چونکہ صحابہ کی تنقیص کرنا ہر گز نہیں سو یہ چنداشارے صرف مسئلے کی وضاحت کے لیے لکھے گئے ہیں۔
یہی حال زیربحث یزید سے متعلق روایت کا بھی ہے کہ تمام رواۃ نے اسے منقطع بیان کیا ہے صرف عبدالوہاب نے وصل کیا ہے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي. ويكنى أبا محمد. وكان ثقة وفيه ضعف.[الطبقات لابن سعد: 7/ 212]۔

اور اخیر عمر میں ان کا حافظہ اس حدتک خراب ہوگیا تھا کہ یہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔

معلوم ہوا کہ عبدالوہاب ثقہ ہونے کے باوجود متکلم فیہ تھے نیز ان کے وصل والی روایت کے ہوتے ہوئے بھی بہت سارے محدثین نے ان زیربحث روایت کو منقطع قراردیا ہے ۔
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں نیز ان پر جو مختلط ہونے کی جرح کی گئی ہے وہ چنداں مضر نہیں کیونکہ انہوں نے اختلاط کے بعد کچھ روایت نہیں کیا جیسا کہ حافظ ذہبی اور دیگر محدثین نے صراحت کی ہے (ملاحظہ ہو ’’المعجم المختلطین‘‘ ص۲۲۰)
امام بیہقی رحمہ اللہ بھی اس سند کو منقطع قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔
امام بیہقی نے جس روایت کو منقطع قرار دیا ہے اس میں عبدالوہاب نہیں ہے۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر انقطاع ہی کا حکم لگایا ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عساکر کی مذکورہ روایت اور اس جیسی روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها وأجود ما ورد ما ذكرناه على ضعف أسانيده وانقطاع بعضه[البداية والنهاية 8/ 231]۔
یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکر میں موجود یزید کی مذمت کرنے والی تمام روایات کو مردود قرار دیا ہے ان میں زیربحث روایت بھی ہے ۔
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفيوالی روایت منقطع و ضعیف نہیں ہے جیسا کہ دلائل سے ثابت ہے۔
نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول ولا نعرف أن أبا ذر قدم الشام زمن عمر بن الخطاب قال وقد مات يزيد بن أبى سفيان زمن عمر فولى مكانه أخاه[البداية والنهاية 8/ 231]۔

اسی طرح ابن طولون نے بھی امام بخاری کی تضعیف نقل کرتے ہوئے کہا:
قال البخاري : ((والحديث معلول)) [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا محمد , قال : حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔
امام بخاری کا یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
یاد رہے کہ شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کے اندر گرچہ کوئی کذاب راوی نہ ہو پھر بھی متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اہل علم اسے موضوع قرار دیتے ہیں چنانچہ ترمذکی کی ایک روایت کو ابن الجوزی ، حافظ ابن حجر اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا حالانکہ اس کے سارے رجال بخاری ومسلم کے ہیں بس سند میں بخاری ومسلم کے راوی ولیدبن مسلم کا عنعنہ ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے :[الموضوعات لابن الجوزي 2/ 140،لسان المیزان : ج 5ص 20 الضعیفہ :ج 7ص 387]۔
زیرِ بحث روایت کا کوئی راوی ضعیف و کذاب نہیں ہے۔ نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
۱۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".

أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (7 / 2) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا
أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد
ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد
أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال
الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن،
يكتب حديثه ".
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد
بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم.
( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹)
۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية".
"حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم.
(صحیح الجامع:۲۵۲۸)
اس کے علاوہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ متن کی نکارت کی بنا پر بھی روایت موضوع ہو جاتی ہے جبکہ اس میں کوئی کذاب راوی نہ ہو؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ہماری اس دوسری تحریر کو پی ڈی ایف pdf میں درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں:






الحمدللہ ہم حافظ زبیرحفظہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی تحریروں سے بکثرت استفادہ کرتے ہیں اوران کے رسالہ الحدیث کو ممتازرسالوں میں شمار کرتے ہیں اور عموما احادیث پر احکام کے سلسلے میں ہم حافظ موصوف ہی کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگرحافظ موصوف کے کسی فیصلہ میں ہمیں دلائل کا وزن بالکل ہی محسوس نہ ہو تو ہم اسے رد کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں ، الحمدللہ زیربحث روایت کے موضوع ومن گھڑت ہونے پر ہمیں اسی طرح یقین ہے جس طرح نصف نہار میں چمکتے سورج پر یقین ہوتا ہے ، میرے دلائل کے جو جوابات پیش کئے ہیں ہیں انہیں پڑھ کی مجھے اپنے موقف پر اللہ کے فضل وکرم سے مزید اطمینان حاصل ہوگیا کیونکہ میرے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس موضوع روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کوئی مضبوط بات ہے ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ متقدمین میں سے سب نے بالاتفاق اسے مردود قرار دیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ متقدمین میں سے کسی ایک بھی مستند محدث نے اس روایت کو صحیح یا حسن قراردیاہو۔

فاغتصبها کا جو ترجمہ کیا گیاہے وہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے
یہاں لغت کی مستندکتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا اور بغیر حوالے کے ہم اس ترجمہ کو صحیح ماننے سے معذور ہیں ۔

اور یہ ترجمہ بالکل ویسا ہی ہےجیسے بعض صحابہ کا ایک دوسرے کے بارے میں کذب کے الفاظ کہنا اور مترجمین کا کذب کاترجمہ جھوٹ کی بجائے غلط کرنا۔

خطاء پر کذب کا اطلاق عربی زبان میں معروف ہے لسان العرب میں ہے:

حَدِيثِ صلاةِ الوِتْرِ: كَذَبَ أَبو مُحَمَّدٍ
أَي أَخْطأَ؛ سَمَّاهُ كَذِباً، لأَنه يُشْبهه فِي كَوْنِهِ ضِدَّ الصَّوَابِ، كَمَا أَن الكَذِبَ ضدُّ الصِّدْقِ، وإِنِ افْتَرَقا مِنْ حَيْثُ النيةُ والقصدُ، لأَن الكاذبَ يَعْلَمُ أَن مَا يَقُولُهُ كَذِبٌ، والمُخْطِئُ لَا يَعْلَمُ، وَهَذَا الرَّجُلُ لَيْسَ بمُخْبِرٍ، وإِنما قَالَهُ بِاجْتِهَادٍ أَدَّاه إِلى أَن الْوَتْرَ وَاجِبٌ، وَالِاجْتِهَادُ لَا يَدْخُلُهُ الكذبُ، وإِنما يدخله الخطَأُ؛ وأَبو مُحَمَّدٍ صَحَابِيٌّ، وَاسْمُهُ مَسْعُودُ بْنُ زَيْدٍ؛ وَقَدِ اسْتَعْمَلَتِ العربُ الكذِبَ فِي مَوْضِعِ الخطإِ؛ وأَنشد بَيْتَ الأَخطل:
كَذَبَتْكَ عينُكَ أَم رأَيتَ بواسِطٍ
وَقَالَ ذُو الرُّمَّةِ:
وَمَا فِي سَمْعِهِ كَذِبُ
وَفِي حَدِيثِ
عُرْوَةَ، قِيلَ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِن النَّبِيَّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَبِثَ بِمَكَّةَ بِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَقَالَ: كَذَبَ
، أَي أَخْطَأَ. وَمِنْهُ
قَوْلُ عِمْرانَ لسَمُرَة حِينَ قَالَ: المُغْمَى عَلَيْهِ يُصَلِّي مَعَ كُلِّ صلاةٍ صَلَاةً حَتَّى يَقْضِيَها، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّهُ يُصَلِّيهن مَعًا
، أَي أَخْطَأْتَ
[لسان العرب:1/ 709 ]۔

لیکن کیا عربی زبان میں غصب کرنا قبضہ میں لینے کے معنی میں مستعمل ہے ؟؟ اگر ایسا ہے تو اولا اہل لغت و اہل عرب کی عبارات اورصحابہ کے استعمال سے متعلق صحیح احادیث سے اس کاثبوت پیش کیا جائے ، ثانیا زیربحث روایت کے سیاق وسباق سے ثابت کیاجائے کہ یہاں غصب اپنے عام معنی میں نہیں ہے ہم نے لکھا تھا:
یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔
ہم اب بھی کہتے ہیں کہ سیاق وسباق سے ایسے ترجمہ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے کیونکہ سیاق وسباق کے لحاظ سے صورت حال یہ ہے کہ:

  • لڑکی خوبصورت تھی ۔
  • پھرنعوذباللہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر ایک گھناؤنا الزام ہے ۔
  • پھرمظلوم شخص کسی اور کے پاس جاکر مدد طلب کرتاہے ۔
  • اس کے بعد ایک دوسرے صحابی انہیں سمجھاتے ہیں اور ایک خوفناک حدیث سناتے ہیں ۔
  • حدیث سن کو صحابی رسول رضی اللہ عنہ لڑکی واپس کردیتے ہیں ۔
یہ پورا سیاق پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ معاملہ قبضہ میں لینے کا نہیں بلکہ غصب کرنے کا ہے ، ورنہ روایت میں:

  • ایک لڑکی کی خوبصورتی کاحوالہ کیوں ؟
  • بات صرف قبضہ میں لینے کی تھی تو اس کی وجہ جو خوبصورتی بتائی گئی ہے اس کا قبضہ سے کیا تعلق؟؟
  • پھر مظلوم شخص نے ابو ذررضی اللہ عنہ سے فریاد کیوں کی ؟
  • پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک خوفناک حدیث کیوں سنائی ؟؟ ظاہر ہے کہ سامنے کوئی خوفناک بات ہوئی تھی تبھی تو !!
یہ سارا سیاق صاف طور سے بتلارہا ہے کہ اغتصبھا مذکورہ روایت میں کس معنی میں مستعل ہے ؟؟ قطع نظر اس کے کہ اس لفظ کا قبضہ کے معنی میں مستعمل ہونا ثابت ہے یا نہیں۔

اس کے برخلاف احادیث میں جہاں کذب خطاء کے معنی میں ہے وہاں سیاق وسباق میں اس کی دلیل موجود ہوتی ہے مثلا لسان العرب میں جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اسے ہی دیکھتے ہیں مکمل حدیث یہ ہے:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصُّنَابِحِيّ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَقَالَ: عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ» [سنن ابي داؤد:1/ 361]۔

اب لسان العرب کے الفاظ ہیں:
حَدِيثِ صلاةِ الوِتْرِ: كَذَبَ أَبو مُحَمَّدٍ أَي أَخْطأَ؛ سَمَّاهُ كَذِباً، لأَنه يُشْبهه فِي كَوْنِهِ ضِدَّ الصَّوَابِ، كَمَا أَن الكَذِبَ ضدُّ الصِّدْقِ، وإِنِ افْتَرَقا مِنْ حَيْثُ النيةُ والقصدُ، لأَن الكاذبَ يَعْلَمُ أَن مَا يَقُولُهُ كَذِبٌ، والمُخْطِئُ لَا يَعْلَمُ،[لسان العرب:1/ 709 ]۔

اس کے بعد لسان العرب دیکھیں کہ کس طرح سیاق وسباق سے دلیل لی جارہی ہے کہ متعلقہ روایت میں کذب خطاء کے معنی میں مستعمل ہے ، ملاحظہ ہوں لسان العرب کے الفاظ:
وَهَذَا الرَّجُلُ لَيْسَ بمُخْبِرٍ، وإِنما قَالَهُ بِاجْتِهَادٍ أَدَّاه إِلى أَن الْوَتْرَ وَاجِبٌ، وَالِاجْتِهَادُ لَا يَدْخُلُهُ الكذبُ، وإِنما يدخله الخطَأُ۔[لسان العرب:1/ 709 ]۔

ہم کہتے ہیں کہ کیا اسی طرح کا معاملہ زیربحث روایت میں بھی ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ معاملہ برعکس ہے یعنی سیاق اس بات پر دال ہے کہ غصب اپنے حقیقی وعام معنی میں مستعمل ہے ۔




جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی صاحب رد مکمل ہونے سے قبل اس دھاگہ میں پوسٹ نہ کریں بارک اللہ فیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
نیز کیا ایسی تمام صحیح روایات صرف اس وجہ سے ردّ کر دینے کے قابل ہیں کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتا ہے؟ مثلاً حضرت ماعز المزنی رضی اللہ عنہ کا زنا کا واقعہ، صحابی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کی اجازت طلب کرنا،حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کا شراب کی خرید و فروخت کو جائز سمجھنا وغیرہ۔ لیکن ہمارا مقصد چونکہ صحابہ کی تنقیص کرنا ہر گز نہیں سو یہ چنداشارے صرف مسئلے کی وضاحت کے لیے لکھے گئے ہیں۔
واللہ ہم نے صرف اس وجہ سے صحیح روایات رد کرنے کی بات نہیں کی ہے کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتاہے ! بلکہ ہم نے زیربحث روایت میں موجود سند کے عیب کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی ہے؟؟ ہمارا مقصود تو یہ ہے کہ سند میں مذکورہ عیب ہے اور اس کے ساتھ ایک جلیل القدر صحابی پر بڑا گھناؤنا الزام ہے ، اس دوسری بات کو ہم نے پہلی بات کی تائید میں پیش کیا ہے ۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اعمش کی تدلیس سے متعلق کہا:
اگراعمش کی ابووائل شقیق سے معنعن روایت کو مطلقا سماع پر محمول کیا جائے تو ایک جلیل القدرصحابی رضی اللہ عنہ کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے (دیکھئے کتاب المعرفۃ والتحقیق الامام یعقوب الفاسی ج 4ص 771 وسیراعلام النبلاء ج 2ص 393 ، 394 ) جو کہ مسلمین (اہل السنہ والجماعہ) کے صحیح عقیدہ کے لحاظ سے باطل ہے ، لہٰذا حافظ ذھبی کا دعوی صحیح نہیں ہے [الاعتصام اگست 1999ص 18 بحوالہ مقالات راشدیہ:ج1ص 339 ] ۔
اب کیا حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے ان الفاظ سے ہم نتیجہ نکالتے ہوئے یہی الفاظ دہرا دیں کہ:
کیا ایسی تمام صحیح روایات صرف اس وجہ سے ردّ کر دینے کے قابل ہیں کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتا ہے؟
ہم تو حافظ موصوف کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں آں موصوف نے (نفاق والی روایت کی ) سندکے اصل عیب اعمش کے عنعنہ کو سامنے رکھا ہے اور اس کے ساتھ ایک جلیل القدر صحابی پر جو ایک خطرناک الزام ہے ، اس دوسری بات کو پہلی بات کی تائید میں پیش کیا ہے ، یہ ہے ہمارا حسن ظن اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بھی حسن ظن کا مستحق سمجھا جائے ۔

فائدہ:
ہمیں جواب دیتے ہوئے کذب کے خطاء کے معنی میں مستعمل ہونے کی مثال پیش کی گئی ہے اس کا جواب ہم اوپر دے چکے ہیں لیکن بطور فائدہ عرض کردیں کہ حافظ موصوف نے بھی ایک روایت پربحث کرتے ہوئے نفاق والی بات کو دلیل بنایا تو آں موصوف کو علامہ راشدی رحمہ اللہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا:











میرے خیال سے خود حافظ موصوف کو علامہ راشدی رحمہ اللہ نے جس انداز میں جواب دیا ہے اسی انداز میں ہمیں بھی جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے ، اب ہم مزید کیا عرض کریں۔
واضح رہے کہ کذب والی مثال کا جواب ہم دے چکے ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یہی حال زیربحث یزید سے متعلق روایت کا بھی ہے کہ تمام رواۃ نے اسے منقطع بیان کیا ہے صرف عبدالوہاب نے وصل کیا ہے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي. ويكنى أبا محمد. وكان ثقة وفيه ضعف.[الطبقات لابن سعد: 7/ 212]۔

اور اخیر عمر میں ان کا حافظہ اس حدتک خراب ہوگیا تھا کہ یہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔

معلوم ہوا کہ عبدالوہاب ثقہ ہونے کے باوجود متکلم فیہ تھے نیز ان کے وصل والی روایت کے ہوتے ہوئے بھی بہت سارے محدثین نے ان زیربحث روایت کو منقطع قراردیا ہے ۔
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں نیز ان پر جو مختلط ہونے کی جرح کی گئی ہے وہ چنداں مضر نہیں کیونکہ انہوں نے اختلاط کے بعد کچھ روایت نہیں کیا جیسا کہ حافظ ذہبی اور دیگر محدثین نے صراحت کی ہے (ملاحظہ ہو ’’المعجم المختلطین‘‘ ص۲۲۰)
اولا:
ہم نے اختلاط کی جرح کو بنیاد نہیں بنایا ہے بلکہ ہمارے الفاظ پر غور کیا جائے ہم نے ابن سعد کی جرح کو بنیاد بنایا ہے اور ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح اختلاط سے متعلق نہیں بلکہ فیہ ضعف کی مطلق جرح ہے اسے پیش کرنے کے بعد بطور تائید ہم نے اختلاط کی بات نقل کی ہے اور یہ کہناچاہا ہے کہ ابن سعد نے جو ضعف کی جرح کی ہے اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اخیر عمرمیں ان کا حافظہ اختلاط فاحش کی حدتک خراب ہوگیا ، یعنی بنیادی طور پر ہم نے عبدالوھاب کے اختلاط کو دلیل نہیں بنیایا بلکہ ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح کودلیل بنایا ہے۔
عبدالوھاب بے شک بخاری ومسلم کے راوی ہیں لیکن زیربحث روایت بخاری ومسلم کی نہیں ہے اور ان پرجرح ہوئی ہے لہٰذا جب ان کے طریق سے آنے والی سند کی کیفیت اس کیفیت سے بدل جاتی ہے جسے دیگر رواۃ نے بیان کیا ہے تو ان پر گئی کی جرح کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہی کہیں گے اس روایت کو بیان کرنے میں عبدالوھاب کے حافظہ نے کوتاہی کی ہے۔

بطور مثال عرض ہے کہ:
يزيد بن عبد الله بن خصيفة بن عبد الله بن يزيد الكندى المدنى بھی بخاری ومسلم بلکہ کتب ستہ کا راوی ہے لیکن تراویح والی حدیث میں اس نے بیس رکعات بیان کی اوریہ بیان دیگر رواۃ کے خلاف تھا اس لئے بخاری ومسلم کے راوی ہونے کے باوجود بھی اس کی روایت کو رد کردیا جاتاہے اور اس سلسلے میں اس پر کی گئی جروح کا حوالہ دیا جاتاہے۔

ثانیا:
عبدالوھاب کے بارے میں :

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
كان عبد الوهاب الثقفي قد اختلط بآخرة [تاريخ ابن معين : 4/ 106]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نےکہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔

یعنی امام ابن معین اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صرف اختلاط کی جرح کی لیکن یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اختلاط کے بعد کچھ روایت نہیں کیا۔
جواب میں امام ذھبی رحمہ اللہ اور دیگرمحدثین کے حوالہ سے جو یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ’’انہوں نے اختلاط کے بعد کچھ روایت نہیں کیا ‘‘ تو امام ذھبی رحمہ اللہ اوردیگرمحدثین کی صراحت انہیں کے الفاظ میں انہیں کی کتاب سے پیش کریں یا دیگرکتب سے بسند صحیح پیش کریں ، بارک اللہ فیکم۔

رہا معجم المختلطین کا حوالہ تو یہ بے سند ومردود ہے کیونکہ عصر حاضر کی کتاب ہے ، نیز اسی کتاب کے صفحۃ پر ہے:
وَيَخْدِشُ فِيهِ قَوْلُ الْفَلَّاسِ: إِنَّهُ اخْتَلَطَ حَتَّى كَانَ لَا يَعْقِلُ، وَسَمِعْتُهُ وَهُوَ مُخْتَلِطٌ يَقُولُ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ بِاخْتِلَاطٍ شَدِيدٍ، وَلَعَلَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ حَجْبِهِ[ المعجم المختلطین: ص220 ]۔

اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ اختلاط کے بعد بھی انہوں نے روایت کیا ہے، بہرحال یہ بے سند اور عصرحاضر کے مولف کی کتاب ہے لہٰذا مردود ہے۔



جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
امام بیہقی رحمہ اللہ بھی اس سند کو منقطع قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔
امام بیہقی نے جس روایت کو منقطع قرار دیا ہے اس میں عبدالوہاب نہیں ہے۔
اس روایت میں عبدالوھاب نہیں ہے لیکن عبدالوھاب کا استاذ ’’عوف‘‘ تو ہے اب اگر بیھقی کی سند کے مطابق عوف کے شاگرد هوذة بن خليفة نے اس روایت کو منقطع بیان کیا ہے اسی طرح ان کے دیگرشاگردوں نے بھی اس سند کو منقطع بیان کیا ہے تو انہیں عوف کے ایک شاگرد ’’عبدالوھاب ‘‘ کو یہ روایت موصول کہاں سے مل گئی ؟؟؟؟؟؟؟
معلوم ہوا کہ اصل روایت منقطع ہی ہے اور امام بیھقی رحمہ اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر انقطاع ہی کا حکم لگایا ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عساکر کی مذکورہ روایت اور اس جیسی روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها وأجود ما ورد ما ذكرناه على ضعف أسانيده وانقطاع بعضه[البداية والنهاية 8/ 231]۔
یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکر میں موجود یزید کی مذمت کرنے والی تمام روایات کو مردود قرار دیا ہے ان میں زیربحث روایت بھی ہے ۔
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفيوالی روایت منقطع و ضعیف نہیں ہے جیسا کہ دلائل سے ثابت ہے۔
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي والی روایت ابن عساکر میں موجود ہے اوریہ منقطع و مردود ہے جیسا کہ دلائل سے ثابت ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول ولا نعرف أن أبا ذر قدم الشام زمن عمر بن الخطاب قال وقد مات يزيد بن أبى سفيان زمن عمر فولى مكانه أخاه[البداية والنهاية 8/ 231]۔

اسی طرح ابن طولون نے بھی امام بخاری کی تضعیف نقل کرتے ہوئے کہا:
قال البخاري : ((والحديث معلول)) [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا محمد , قال : حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔
امام بخاری کا یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اپنا قول ہے نہ کہ کسی اور کا اس لئے سند کا مطالبہ ہی مردودہے۔

یاد رہے کہ ائمہ نقاد کا یہ کہنا کہ :
فلاں نے فلاں سے سنا نہیں ۔
فلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں ۔
یااس طرح کے فیصلے دینا حجت ودلیل کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ جب ہم کسی سندکومنقطع بتلاتے ہیں تو کسی امام سے محض یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے کہ اس راوی نے فلاں راوی سے نہیں سنا ،وغیرہ وغیرہ۔
یہاں پر یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ ناقد کے اس فیصلہ کی سند پیش کرو یعنی اس نے جو یہ کہا فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی سند پیش کرو ، کیونکہ یہ فیصلہ ایک ناقد کا ہے اورائمہ نقاد کے اس طرح کے فیصلے بجائے خود دلیل ہوتے ہیں ، خود حافظ موصوف کی تحقیقی کتب سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے جہاں سند میں انقطاع کا حکم لگایاگیا ہے اوردلیل میں کسی ناقد امام کا اپنا قول ہی پیش کیا گیاہے۔
بلکہ عدم لقاء سے زیادہ نازک مسئلہ تدلیس کا ہے یعنی کسی راوی سے متعلق ناقد کا یہ فیصلہ کرنا کہ وہ اپنے اساتذہ سے سنے بغیر روایت کردیتاہے یہاں بھی ناقد کے قول کی سند نہیں مانگی جاتی کیونکہ ناقد کافیصلہ بجائے خود دلیل ہوتاہے۔

مثلا امام ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ موصوف نے نقل کیا:
وقال ابوزرعہ العراقی مشھوربالتدلیس(کتاب المدلسین:21)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔

عرض ہے کہ رواۃ کی کسی خوبی کو مشہور کہا جائے یا معروف کہا جائے ایک ہی بات ہے، اور اگر یہ بات کوئی ناقد کہے تو اس بات کی سند کامطالبہ بجائے خود مردود ہے۔

بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا ایک قول حافظ موصوف الفتح المبین میں یوں نقل کرتے ہیں:
وَلَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , وَلَا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , وَلَا عَنْ مَنْصُورٍ. وَذَكَرَ مَشَايِخَ كَثِيرَةً لَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ هَؤُلَاءِ تَدْلِيسًا مَا أَقَلَّ تَدْلِيسَهُ.(التمہید: 1/ 18 العلل الكبير للترمذي:2/ 266)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔

یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کا ’’ولااعرف‘‘ کہنا اور التاریخ میں ’’المعروف‘‘ کہنا ایک ہی معنی میں ہے، تو کیا یہ یہاں بھی کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول بے سند ہے؟؟



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top