محترم،
پہلے میرے سوال کا جواب عنایت فرمائیں اللہ نے یزید کو کہاں نیک اور پارسا فرمایا ہے ؟
دوسری بات جس طرح کے اجماع کی اپ بات کر رہے ہیں تو اس طرح کا اجماع تو بخاری کی روایات پر بھی نہیں ہے جو مرفوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں تو کیا اس کا بھی انکار فرمائیں گے کہ بخاری میں تمام متون جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےمنقول ہیں ہر اجماع کی حیثیت ایک جیسی نہیں ہوتی ہے اگر سب اجماع کو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار ہر پرکھا جائے گا تو اس اجماع کے علاوہ شاید ہی کوئی اجماع بچے گے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں اور اپ نے کہا کہ
گر اللہ تعالٰی نے امیر المؤمنین یزید ؒ کو (نعوذ باللہ ) فاسق و فاجر بتایا ہوتا تو اُمت کو اس معاملے میں ”اجماع “ کی ضرورت پیش نہ آتی ۔جن روایات کو آپ نے پیش فرمایا ہے"
محترم اپ کا اجماع کے بارے میں فارمولا ہی غلط ہے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا قران اور حدیث کی نص صریح موجود نہیں ہے کہ اس پر اجماع کی ضرورت پیش کی گئی ہے اجماع ذیادہ تر ہوا ہی اس طرح ہے کہ جب کسی بات پر اٹھ کر کسی نے یہ کہا کہ میرا نظریہ فلاں ہیں مثلا جب رافضیوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کیا اس وقت اہل سنت نے یہ بیان کیا کہ اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اول خلیفہ ہیں ۔ اسی طرح جب بخاری کی روایات پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو امت کے اکابرین نے لکھا کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ اس کے متون سب صحیح ہیں
تو اجماع کو جب کوئی چلینج کرتا ہے اس وقت اجماع پیش کیا جاتا ہے اسی طرح جب ناصبیوں نے یزید کو نیک اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو نہیں مانا تو امت کے اکابرین نے اس پر اجماع پیش کیا ہے
دوسری بات اپ ان احادیث سے یزید کا نام نکال کر دیکھا دیں جس سے اپ لوگ اس کو جنت کی بشاری دلواتے ہیں یعنی مغفور لھم والی روایت دکھا سکتے ہیں شیخ سنابلی نے اس حدیث سے یزید کو مغور لھم ثابت کرنے کے لیے 400 صفحات کالے کر دیئے مگر پھر بھی اس پر سے یہ اجماع فاسق اور فاجر کا داغ نہ دھو پائے
میں تو اس میں امت کے اکابرین کے اقوال پھر بھی پیش کر سکتا ہوں مگر اپ تو اس فرمان سے اس کو واجبی جنتی بھی قرار نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی امت کے اکابرین کے اقوال کے خلاف ہے۔
اپ نے کہا کہ
علماۓ اُمت میں سے اس معاملے میں جن لوگوں سے خطاء ہوئی ہے اُسکی بنیاد قرآن مجید و احادیثِ صحیحہ نہیں بلکہ وہی تاریخی مواد ہے جو اکثر کذب و افتراء پر مبنی ہے
محترم یہ اپ کی غلط فہمی صرف ایک نام دیتا ہوں جو کافی ہے امام ابن تیمیہ انہوں نے 30 سال خلافت والی حدیث کی بنیاد پر ہی یزید کی حکومت کو ظالم اور یزید کو غاصب لکھا ہے اور ابن حجر امام نووی ابن کثیر اور شاہ ولی اللہ نے یزید کو فاسق اور فاجر حدیث کی بنیاد پر ہی لکھا ہے چنانچہ شا ولی اللہ فرماتے ہیں
خیرالقرون میں سے فاسق یزید ابن ذیاد اور قریش کے چھوکرے ہیں جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے۔
اور قریش کے چھوکروں میں بھی یزید کا شارحین نے شامل کیا ہے تو یزید کو صرف تاریخ کی روایات پر فاسق ہی فاسق نہیں کا اس کو کتب احادیث میں موجود روایات کی بنیاد پر فاسق کہا ہے اور تاریخ کی روایات کو تائید کے طور پر پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی اخبار سچی ہیں اور اگر اپ اجازت دیں تو میں احادیث اور کتب روایات سے ہی ثابت کر سکتا ہوں کہ آئمہ نے جو کہا ہے وہ کتب احادیث کی بنیاد پر ہی کہا ہے۔
محترمی ! یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ امیر المؤمنین یزید ؒ کے
”فسق و فجور “ کے قصے و کہانیاں احادیثِ صحیحہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسکی
”تاریخی تشریح“ کی بنا ء پر کہی جاتی ہیں۔ جب بات یہی ہے اور یقیناً یہی ہے تو ًپھر احتیاطاً اس معاملے میں
”وحی “ کے طورپر دعویٰ کرنے کی بجائے
”کفِ لسان“ سے کام لیا جائے ۔
شیخ کفایت اللہ سنابلی
(حفظہ اللہ تعالٰی) نے جو بات بھی کہی اسکا بطلان ثابت کے کر دکھائیں اور بتائیں کہ کیا غلطی ہوئی ہے۔ میں آپ سے
”آئمہ کی تشریحات “ کا نہیں بلکہ
”رسول اللہ ﷺ“ کی اُس صحیح حدیث کا مطالبہ کرتا ہوں جس میں آپ ﷺ نے امیرالمؤمنین یزید ؒ کا نام لیکر وہ بات کہی ہے جسکا آپ کو دعویٰ ہے ۔
اول خلافتِ صدیقؓی تو تواتر سے ثابت ہے جس سے کسی کو مجالِ انکار نہیں اور یہی معاملہ قریب قریب
”صحیح بخاری “ کے متعلق بھی ہے ۔ اسی لیے میں نے آپ سے اُس
”اجماع “ کا مطالبہ کیا تھا جس سے کسی مسلمان کو مجالِ انکار نہ ہو جیسے ختم ِ نبوتﷺ ۔
ویسے
”اجماع “ کی ضرورت کن معاملات میں ہوتی ہے یہ ایک موضوع ہے ۔