• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
کیا اللہ تعالٰی نے امیر المؤمنین یزید ؒ کا نام لے کر ”لعنت “ بھیجی ہے ؟
انھوں نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بخشا تو یزید کو کیسے بخش سکتے ہیں؟؟؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
انھوں نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بخشا تو یزید کو کیسے بخش سکتے ہیں؟؟؟
دراصل ہمارے یہاں جو تصویر کچھ رافضی نُما اہلِ سنت نے امیر المؤمنین یزید ؒ کی بنا دی ہے اسے زائل کرنا اتنا ہی مشکل امر ہے جتنا سمندر سے سوئی نکال لانا ۔ایسے لوگ تاریخ کے صرف ایک پہلو کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور جو تاریخ قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ یہ لوگ اُونٹ سوئی کے ناکے سے گزر نا مان سکتے ہیں مگر امیر المؤمنین کے متعلق ایک کلمۂ حق بھی سننا گوارا نہیں کر سکتے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
دراصل ہمارے یہاں جو تصویر کچھ رافضی نُما اہلِ سنت نے امیر المؤمنین یزید ؒ کی بنا دی ہے اسے زائل کرنا اتنا ہی مشکل امر ہے جتنا سمندر سے سوئی نکال لانا ۔ایسے لوگ تاریخ کے صرف ایک پہلو کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور جو تاریخ قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ یہ لوگ اُونٹ سوئی کے ناکے سے گزر نا مان سکتے ہیں مگر امیر المؤمنین کے متعلق ایک کلمۂ حق بھی سننا گوارا نہیں کر سکتے ۔
بلکل
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
محترم ،
تاریخ کو آگ لگاؤ احادیث کی کتب کی طرف تشریف لائیں اور شروحات پڑھیں یزید کی بیعت کسی نے بھی راضی خوشی نہیں کی تھی جبری بیعت تھی اور اس پر آئمہ کا اجماع ہے اس لئے یہ باتیں رہنے دیں کہ یزید کی بیعت صحیح منعقد ہوئی تھی امت پر اتنا جبر تھا کہ عام آدمی تو بولا ہی نہیں تھا جنہوں نے بولا ان کے ساتھ کیا کیا یہ سب کے سامنے ہے
رہی اپ کی بات کے دو لوگوں نے اختلاف کیا تھا باقی سب سے بیعت پر راضی تھے اپ مجھے اپنے تاریخ سے ایک روایت نکال کر لا دو جس میں جیسے ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت ہوئی تھی عمر رضی الله عنہ کے لئے بھرے مجمع سے پوچھا گیا تھا علی رضی الله عنہ کی بیعت مسجد میں تمام مہاجرین اور انصار نے کی ایسی ایک بھی روایت دکھا دیں اس کے برعکس بخاری میں بیعت کس طرح لی گئی تھی یہ موجود ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے بھاگ کر اس مروان سے جان بچائی اور جس بیعت کو امام ذھبی نے تاریخ اسلام میں بیعت مکراہین کہا ہے اور ابن زیاد کے ایک لاکھ کے لشکر میں سے چند لوگوں نے نکل کر حسین رضی الله عنہ کو شہید بھی کر دیا اور یہ اتنا بڑا لشکر منہ دیکھتا رہا اور بعد میں ان قاتلوں میں سے کسی کو بھی نہیں پکڑا واہ کیا فوج تھی اور کیا کمانڈر تھا انہوں نے خود شہید کیا ہے تاکہ یزید کا تخت بچ جائے الله ہدایت دے

کتنے صحابہ نے بیعت یزید کی مخالفت کری تھی اور وجہ کیا تھی اختلاف کی؟


اور جہاں تک بات ہے بیعت کی مخالفت کی اس روایت کے بارے میں کیا خیال ہے آپکا

حدثنا ابن المبارك، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، قال: لما بلغ عليا رضي الله عنه أن طلحة يقول: إنما بايعت واللج على قفاي، أرسل ابن عباس إلى أهل المدينة فسألهم عما قال، فقال أسامة بن زيد: «أما اللج على قفاه فلا، ولكن بايع وهو كاره» ، فوثب الناس عليه حتى كادوا يقتلونه

[الفتن لنعيم بن حماد 1/ 159 و اسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن ابن ابی شیبہ فی مصنفہ : 11/ 107 سلفية، وایضا 15/ 259 من طریق غندر عن شعبہ بہ واسنادہ صحیح ]
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
حدیث میں یہ بھی ہے


صحیح بخاری
كتاب الفتن
باب: باب إذا قال عند قوم شيئا ثم خرج فقال بخلافه

:
باب: کوئی شخص لوگوں کے سامنے ایک بات کہے پھر اس کے پاس سے نکل کر دوسری بات کہے (تو یہ دغا بازی ہے)
حدیث نمبر: 7111
حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد عن ايوب عن نافع قال:‏‏‏‏ لما خلع اهل المدينة يزيد بن معاوية جمع ابن عمر حشمه وولده فقال:‏‏‏‏ إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏"ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة وإنا قد بايعنا هذا الرجل على بيع الله ورسوله وإني لا اعلم غدرا اعظم من ان يبايع رجل على بيع الله ورسوله ثم ينصب له القتال وإني لا اعلم احدا منكم خلعه ولا بايع في هذا الامر إلا كانت الفيصل بيني وبينه

".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خادموں اور لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص(یزید) کی بیعت، اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی غدر اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کسی شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس سے جنگ کی جائے اور دیکھو مدینہ والو! تم میں سے جو کوئی یزیدکی بیعت کو توڑے اور دوسرے کسی سے بیعت کرے تو مجھ میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں رہا، میں اس سے الگ ہوں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے، جس کی بنیاد وہ علم ہے جو اُس تک پہنچتا ہے اب علم کہ دو ہی ذرائع ہیں پہلا تجربات سے اخذ کیا ہوا دوسرا کسی دوسرے کہ تجربات کی روشنی میں اخذ کیا جانے والا، میری ذاتی رائے اس پورے معاملے میں جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کہ کی بنیاد پر کہ وہ یہ ہے کہ یہود ونصارٰی جانتے تھے کہ اگر وہ براہ راست مسلمانوں سے جنگ وجدال کرنے گے تو یہ اُمت پھر متحد ہوجاتے گی مطلب خلافت کہ نظام کے نفاذ کے لئے پھر سے کوشاں ہونگے، شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان خلافت کے نظام کو بھول بیٹھا ہے لیکن یہود نصارٰی آج تک اُسے یاد رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ المہمم!!!

یہود ونصاری نے، اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو عروج کب حاصل کیا؟ تو اس کا جواب یوں ہے کہ جب اُنہوں نے ہر طرح کی عسکری طاقت کو مسلمانوں کہ سامنے ریزہ ریزہ ہوتے دیکھ لیا، تب انہوں نے وہی چال چلی جس نے اُن کے آفاقی مذہب کو ایک خودساختہ اور خرافاتی رسم ورواج سے مزین خودساختہ مذہب بنایا جس کا تفصیلی ذکر قرآن میں موجود ہے طوالت کی وجہ سے صرف نظر سے کام لے رہا ہوں۔

اصل مدعا کیا ہے؟ یہودیوں نے جو کہ واقعی بہت شاطر قوم ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن ارشاد کو جمع کیا جن کا تعلق براہ راست انسانی نفسیات سے تھا جس میں پہلی بشارت اُمت کا فرقوں میں منقسم ہونا، جس کا ذکر قرآن کی سورۃ آل عمران میں بھی موجود ہے، کہ تم اللہ کی رسی تھامے رہنا اور فرقوں میں مت بٹ جانا؟ لہذٰا اپنے اس مقصد کہ حصول کہ لئے اُنہوں نے عبداللہ بن عبئی کا سہارا لیا اور ایک گروہ قرون اولیٰ پر مسلط کردیا جن کا کام تھا کہ بظاہر تو وہ مسلمان تھے لیکن اپنے قول اور فعل میں تضاد رکھتے تھے جس بناء پر وہ منافق کے لقب سے مشہور ہوئے اور قرآن میں بھی انا ذکر موجود ہے اور یہ ہی وہ گروہ تھا جس نے ایک ایسی مسجد کی بنیاد رکھی جس کا ذکر قرآن میں یوں بیان ہوا۔
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواه ہے کہ وه بالکل جھوٹے ہیں۔
اب جب اللہ سبحان وتعالٰی نے وحی کہ ذریعے ان لوگوں کی نشاندہی کی تو ان کی ساری محنت اکارت گئی، لیکن بعد وفات الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اِن منافقوں نے پھر سراُٹھایا، اورمنکرین زکوٰۃ ہوئے تب خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اُس فتنے کو کچل دیا، پھر آپ کی وفات کہ بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور آتا ہے لیکن یہ منافقین آپ کے مزاج کو جانتے تھے اس لئے زیر زمین سازشیں کرتے جس کا انجام آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر آکر ختم ہوتا ہے لیکن جیسے سیدنا عمر بن خطاب کا دور آتا ہے تو آپ یہودیوں کے قبائل کو خیبر سے بھی نکال پھینکتے ہیں کیونکہ وہ صاحب فہم وفراست تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سامنے تھی یہ یہود ونصارٰی کو جزۃ العرب سے نکال دو اور شاید یہ ہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ ورضوان کہ دور میں خلافت اپنے تاریخی عروج پر پہنچی اور کئی علاقوں کو فتح کیا یہاں تک کہ مکران کے ساحل تک کُتب تواریخ میں درج ہے کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی جماعت پہنچی۔

(جاری ہے)
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
کیا اللہ تعالٰی نے امیر المؤمنین یزید ؒ کا نام لے کر ”لعنت “ بھیجی ہے ؟
محترم،
اللہ نے کہاں یزید کو نیک اور پارسا اور جنتی کہا ہے؟ یہ اپ بتا دیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا یہ بات اپ مانتے ہیں؟
اگر ہاں تو پھر یہ جان لیں امت نے یزید کو فاسق اور فاجر مانا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکومت کو ظالم کہا ہے اور اس حدیث کے حوالے سے آئمہ اکابرین نے اس کو ظالم ہی کہا ہے تو " جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی" تو نبی کے فرمان اور امت کے اجماع کے خلاف یزید کو پارسا کہا جائے تو اس کو کیسے مانا جائے اس کے لیے صرف یہ بات ہو کہ اللہ اور رسول کا صریح فرمان ہو کہ یہ نیک ہے مگر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلاف ہے کہ 60 سال بعد نماز ضائع ہوں گے 30 سال بعد ملوکیت ہو گی قریش کے چھوکروں سے میری امت کی ہلاکت ہو گی ان واضح فرامیں کے سامنے محمد بن حنفیہ کی وہ کمزور روایت پیش کی جاتی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تو محمد بن حنفیہ کے قول کی کیا حیثیت جو از خود ایک کمزور قول ہو۔ اللہ ہدایت دے
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
اللہ نے کہاں یزید کو نیک اور پارسا اور جنتی کہا ہے؟ یہ اپ بتا دیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا یہ بات اپ مانتے ہیں؟
اگر ہاں تو پھر یہ جان لیں امت نے یزید کو فاسق اور فاجر مانا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکومت کو ظالم کہا ہے اور اس حدیث کے حوالے سے آئمہ اکابرین نے اس کو ظالم ہی کہا ہے تو " جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی" تو نبی کے فرمان اور امت کے اجماع کے خلاف یزید کو پارسا کہا جائے تو اس کو کیسے مانا جائے اس کے لیے صرف یہ بات ہو کہ اللہ اور رسول کا صریح فرمان ہو کہ یہ نیک ہے مگر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلاف ہے کہ 60 سال بعد نماز ضائع ہوں گے 30 سال بعد ملوکیت ہو گی قریش کے چھوکروں سے میری امت کی ہلاکت ہو گی ان واضح فرامیں کے سامنے محمد بن حنفیہ کی وہ کمزور روایت پیش کی جاتی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تو محمد بن حنفیہ کے قول کی کیا حیثیت جو از خود ایک کمزور قول ہو۔ اللہ ہدایت دے
محترمی ! علماۓ اُمت میں سے اس معاملے میں جن لوگوں سے خطاء ہوئی ہے اُسکی بنیاد قرآن مجید و احادیثِ صحیحہ نہیں بلکہ وہی تاریخی مواد ہے جو اکثر کذب و افتراء پر مبنی ہے ۔ یہ وہ معاملات نہیں ہیں جن میں اجماع کی ضرورت پیش آئے۔ کیا سب آئمہ کرامؒ ، محدثین ؒ ،فقہاءؒاور مؤرخین وغیرہم کا اس معاملے میں ایسا ہی اجماع نقل ہوا ہے جیسے ختمِ نبوت ﷺ پر ؟اگر اللہ تعالٰی نے امیر المؤمنین یزید ؒ کو (نعوذ باللہ ) فاسق و فاجر بتایا ہوتا تو اُمت کو اس معاملے میں ”اجماع “ کی ضرورت پیش نہ آتی ۔جن روایات کو آپ نے پیش فرمایا ہے ان میں امیر المؤمنین یزید ؒ کا نام نکال کر بتادیں۔عین نوازش ہو گی !
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
کتنے صحابہ نے بیعت یزید کی مخالفت کری تھی اور وجہ کیا تھی اختلاف کی؟


اور جہاں تک بات ہے بیعت کی مخالفت کی اس روایت کے بارے میں کیا خیال ہے آپکا

حدثنا ابن المبارك، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، قال: لما بلغ عليا رضي الله عنه أن طلحة يقول: إنما بايعت واللج على قفاي، أرسل ابن عباس إلى أهل المدينة فسألهم عما قال، فقال أسامة بن زيد: «أما اللج على قفاه فلا، ولكن بايع وهو كاره» ، فوثب الناس عليه حتى كادوا يقتلونه

[الفتن لنعيم بن حماد 1/ 159 و اسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن ابن ابی شیبہ فی مصنفہ : 11/ 107 سلفية، وایضا 15/ 259 من طریق غندر عن شعبہ بہ واسنادہ صحیح ]
محترم،
اس طرح کی روایات اسی طرح ہے کہ جیسے " عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہوا تھا" اور آئمہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس میں انسان کی فطری حس غصے والا معاملہ ہے اسی طرح یہ روایت بھی اسی کے تحت ہے کہ اس میں چند غلط فہمی کی بنیاد پر یہ معامل ہوا تھا مگر جب علی رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کا جنگ جمل میں آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے واپسی ارادہ کر لیا تو مروان ملعون نے ان کو تیر مار کا شہید کر دیا کہ اس نے دیکھا کہ جو جنگ میں برپا کروانا چاہ رہا تھا اب وہ نہیں ہو پائے گی اسی طرح زبیر رضی اللہ عنہ بھی واپس لوٹ گئے تھے اس لیے آئمہ نے اس قسم کی روایات کو کوئی حیثیت نہیں دی ہے مگر جہاں تک یزید کے متعلق جبری بعیت کی بات ہے اس کو آئمہ نے بیان کیا ہے اور اس پر یہ فیصلے صادر کئے ہیں کہ یزید کی بیعت جبری تھی اس حوالے سے امام ذہبی نے نقل کیا ہے کہ یہ بعیت مکرھین تھی (ترجمہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ)
یہ تو اس روایت کے حوالے سے بات ہو گئی اب یہ بات کہ مجھے تو عمر اثری صاحب فرما رہے ہیں کے انہوں نے صحابی کو بھی نہیں پخشا ہے اور جو یہ اہل بیعت خلیفہ راشد پر طعن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان کی بیعت زبردستی ہوئی تھی ساری کائنات کے لوگ بھی اگر کہہ دیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی بعیت زبردستی ہوئی تب بھی میں نہیں مان سکتا کیونکہ میرے نبی نے فرمادیا علی خلافت 30 سال ہے اور امت اجماعی طور پر علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد مانتی ہے اور میں اپ سے پوچھتا ہوں کہ اپ فرمان رسول کے مقابلے اس روایت کو کیسے ترجح دے رہے ہو اور خلیفہ راشد کی خلافت پر اپ شک کا اظہار فرما رہے ہیں کہ ان کی بیعت جبری ہوئی تھی اور اس بارے میں عمر اثری صاحب کچھ کہنا پسند کریں گے بالکل نہیں کہیں گے اور یہ طعن بھی کس کی خاطر کیا جا رہا ہے ایک فاسق اور فاجر کی خاطر ایک جنتی صحابہ سابقون اولوں پر زبان دراز کی جا رہی ہے نعوذ باللہ۔
ان کا بغض ان کی باتون سے عیاں ہے اور دل میں کیا ہے یہ اللہ ھی جانتا ہے۔
اللہ سب کو بعض اہل بیعت اور خلیفہ راشد سے بچائے۔آمین
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترمی ! علماۓ اُمت میں سے اس معاملے میں جن لوگوں سے خطاء ہوئی ہے اُسکی بنیاد قرآن مجید و احادیثِ صحیحہ نہیں بلکہ وہی تاریخی مواد ہے جو اکثر کذب و افتراء پر مبنی ہے ۔ یہ وہ معاملات نہیں ہیں جن میں اجماع کی ضرورت پیش آئے۔ کیا سب آئمہ کرامؒ ، محدثین ؒ ،فقہاءؒاور مؤرخین وغیرہم کا اس معاملے میں ایسا ہی اجماع نقل ہوا ہے جیسے ختمِ نبوت ﷺ پر ؟اگر اللہ تعالٰی نے امیر المؤمنین یزید ؒ کو (نعوذ باللہ ) فاسق و فاجر بتایا ہوتا تو اُمت کو اس معاملے میں ”اجماع “ کی ضرورت پیش نہ آتی ۔جن روایات کو آپ نے پیش فرمایا ہے ان میں امیر المؤمنین یزید ؒ کا نام نکال کر بتادیں۔عین نوازش ہو گی !
محترم،
پہلے میرے سوال کا جواب عنایت فرمائیں اللہ نے یزید کو کہاں نیک اور پارسا فرمایا ہے ؟
دوسری بات جس طرح کے اجماع کی اپ بات کر رہے ہیں تو اس طرح کا اجماع تو بخاری کی روایات پر بھی نہیں ہے جو مرفوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں تو کیا اس کا بھی انکار فرمائیں گے کہ بخاری میں تمام متون جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےمنقول ہیں ہر اجماع کی حیثیت ایک جیسی نہیں ہوتی ہے اگر سب اجماع کو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار ہر پرکھا جائے گا تو اس اجماع کے علاوہ شاید ہی کوئی اجماع بچے گے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں اور اپ نے کہا کہ
گر اللہ تعالٰی نے امیر المؤمنین یزید ؒ کو (نعوذ باللہ ) فاسق و فاجر بتایا ہوتا تو اُمت کو اس معاملے میں ”اجماع “ کی ضرورت پیش نہ آتی ۔جن روایات کو آپ نے پیش فرمایا ہے"
محترم اپ کا اجماع کے بارے میں فارمولا ہی غلط ہے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا قران اور حدیث کی نص صریح موجود نہیں ہے کہ اس پر اجماع کی ضرورت پیش کی گئی ہے اجماع ذیادہ تر ہوا ہی اس طرح ہے کہ جب کسی بات پر اٹھ کر کسی نے یہ کہا کہ میرا نظریہ فلاں ہیں مثلا جب رافضیوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کیا اس وقت اہل سنت نے یہ بیان کیا کہ اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اول خلیفہ ہیں ۔ اسی طرح جب بخاری کی روایات پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو امت کے اکابرین نے لکھا کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ اس کے متون سب صحیح ہیں
تو اجماع کو جب کوئی چلینج کرتا ہے اس وقت اجماع پیش کیا جاتا ہے اسی طرح جب ناصبیوں نے یزید کو نیک اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو نہیں مانا تو امت کے اکابرین نے اس پر اجماع پیش کیا ہے
دوسری بات اپ ان احادیث سے یزید کا نام نکال کر دیکھا دیں جس سے اپ لوگ اس کو جنت کی بشاری دلواتے ہیں یعنی مغفور لھم والی روایت دکھا سکتے ہیں شیخ سنابلی نے اس حدیث سے یزید کو مغور لھم ثابت کرنے کے لیے 400 صفحات کالے کر دیئے مگر پھر بھی اس پر سے یہ اجماع فاسق اور فاجر کا داغ نہ دھو پائے
میں تو اس میں امت کے اکابرین کے اقوال پھر بھی پیش کر سکتا ہوں مگر اپ تو اس فرمان سے اس کو واجبی جنتی بھی قرار نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی امت کے اکابرین کے اقوال کے خلاف ہے۔
اپ نے کہا کہ
علماۓ اُمت میں سے اس معاملے میں جن لوگوں سے خطاء ہوئی ہے اُسکی بنیاد قرآن مجید و احادیثِ صحیحہ نہیں بلکہ وہی تاریخی مواد ہے جو اکثر کذب و افتراء پر مبنی ہے

محترم یہ اپ کی غلط فہمی صرف ایک نام دیتا ہوں جو کافی ہے امام ابن تیمیہ انہوں نے 30 سال خلافت والی حدیث کی بنیاد پر ہی یزید کی حکومت کو ظالم اور یزید کو غاصب لکھا ہے اور ابن حجر امام نووی ابن کثیر اور شاہ ولی اللہ نے یزید کو فاسق اور فاجر حدیث کی بنیاد پر ہی لکھا ہے چنانچہ شا ولی اللہ فرماتے ہیں
خیرالقرون میں سے فاسق یزید ابن ذیاد اور قریش کے چھوکرے ہیں جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے۔
اور قریش کے چھوکروں میں بھی یزید کا شارحین نے شامل کیا ہے تو یزید کو صرف تاریخ کی روایات پر فاسق ہی فاسق نہیں کا اس کو کتب احادیث میں موجود روایات کی بنیاد پر فاسق کہا ہے اور تاریخ کی روایات کو تائید کے طور پر پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی اخبار سچی ہیں اور اگر اپ اجازت دیں تو میں احادیث اور کتب روایات سے ہی ثابت کر سکتا ہوں کہ آئمہ نے جو کہا ہے وہ کتب احادیث کی بنیاد پر ہی کہا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top