lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔
لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔
سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲
پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔
حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔
سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦
اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔
قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:
فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟
اسی طرح قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔
سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے:
ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے - اگریہ پوچھا جائے کہ جن انسانوں کو جانور یا مچھلیاں کھا لیں انکا کیا؟ تو یہ فرماتے ہیں، ''وہ لوگ جن کی موت ڈوبنے یا جلنے سے ہو اور یا پھر جنہیں جنگلی جانور کھا جائیں انکی ا رواح ان جانوروں یا پھر سمندر کی مچھلیں کے پیٹوں میں لوٹائی جائیں گی'' ۔ اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟
سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِاللہ کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔
اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ''اللھم الرفيق الاعلیٰ'' یعنی '' اے اللہ رفیق اعلیٰ '' ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ ''اللھم الرفيق الاعلیٰ''۔
صحیح بخاری، کتاب الدعوات
لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔
سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲
پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔
حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔
سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦
اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔
قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان
صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان
فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟
اسی طرح قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔
سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے:
ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔
صحیح بخاری، کتاب التفسیر
صحیح بخاری، کتاب التفسیر
ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے - اگریہ پوچھا جائے کہ جن انسانوں کو جانور یا مچھلیاں کھا لیں انکا کیا؟ تو یہ فرماتے ہیں، ''وہ لوگ جن کی موت ڈوبنے یا جلنے سے ہو اور یا پھر جنہیں جنگلی جانور کھا جائیں انکی ا رواح ان جانوروں یا پھر سمندر کی مچھلیں کے پیٹوں میں لوٹائی جائیں گی'' ۔ اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟
سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِاللہ کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔
اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔