• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
دوسرا مجھے بڑا افسوس ہوا آپنے بغیر تحقیق کیے یہ بات لکھ دی کہ ابن حبان اور ابن خزیمہ کا اپنی صحیح میں بغیر جرح لکھنا روایت کو انکے نزدیک صحیح ماننا یہ میری غلطی قرار دے دیا ۔۔ شاید میاں آپ ابن حبان اور ابن خزیمہ کی کتاب اور انکے منھج کو نہیں پڑھا شاید ۔ یہ زرہ امام ابن حجر عسقلانی سے ثبوت دے رہا ہوں کہ امام ابن حبان اپنی صحیح میں اس روایت کا التزام کیا ہے جو انکی نظر میں صحیح حدیث ہو
محترم،
بات یہ نہیں ہے کہ ان کی نظر میں صحیح ہے یا نہیں ہے اس پر صحیح اور واضح موقف کیا ہے اگر ابن حبان اور ابن خزییمہ کے تمام رواۃ کو ثقہ مان لیا جاتا تو ان کی تخریج کرنے کی کیا ضرورت تھی صحیح ابن حبان اور ابن خزیمہ میں معتدد ایسے راوۃ ہے جو ضعیف اور متروک ہیں مگر ان سے روایات ان کتب میں موجود ہے اور ابن حبان نے تو جن رواۃ کو خود اپنی کتب مجروحین میں نقل کیا اور ان پر جرح کی پھر انہی رواۃ سے اپنی صحیح ابن حبان کو مزین کیا ہے جس میں اپ کے بقول ثقات سے روایت لی گئی ہے چند امثال پیش ہیں
باذام أَبُو صَالِح مولى أم هَانِئ بنت أَبِي طَالِب"کتاب المجروحین ترجمۃ 126"
اسی کو ںقل کر کےمحدثین کی جرح نقل کی ہے" تَركه يَحْيَى الْقَطَّان وَابْن مهْدي سَمِعت الْحَنْبَلِيّ يَقُول سَأَلت يَحْيَى بْن معِين عَن أَبِي صَالِح الَّذِي روى عَنْهُ سماك بْن حَرْب والكبي فَقَالَ اسْمه باذام كُوفِي ضَعِيف الحَدِيث"

اورپھر اسی روای سے اپنی صحیح ابن حبان میں روایت بھی لی ہے
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بِبُسْتَ قَالَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنِ أَبِي صَالِحٍ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ" صحیح ابن حبان رقم 3179"
دوسری مثال: اسحاق بن یحیی بن طلحہ سے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت لی ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مَوْلَى ثَقِيفٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى بن طلحة، حدثنا عيسى بن طلحة، ذِكْرُ وَصْفِ الْجِرَاحَاتِ الَّتِي أُصِيبَ طَلْحَةُ يَوْمَ أُحُدٍ مَعَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صحیح ابن حبان رقم 6980
اور اسی کو بھی اپنی مجروحین میں نقل کیا ہے
إِسْحَاق بْن يَحْيَى بْن طَلْحَة عَن عبيد اللَّه الْقرشِي عداده من أهل الْمَدِينَةِ يروي عَن الْمُسَيِّب بن رَافع روى عَنهُ بن الْمُبَارك ووكيع كنيته أَبُو مُحَمَّد كَانَ رَدِيء الْحِفْظ سيء الْفَهم يخطىء وَلَا يعلم ويروي وَلَا يفهم سَمِعت مُحَمَّد بن الْمُنْذر يَقُول سَمِعت عَبَّاس بن مُحَمَّد يَقُول سَمِعت يحيى بن معِين يَقُول إِسْحَاق بْن يَحْيَى بْن طَلْحَة ضَعِيف
ترجمۃ 56
اور ابن خزیمہ اور مستخرج ابو عوانۃ میں بھی متعدد رواۃ ضعیف ہیں تو آں جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ ان محدثین نے اپنی کتب کے نام صحیح ضرور رکھے مگر اس میں ثقات کا اہتمام اس طریقے پر نہیں کر پائے یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اور محققین نے ان کتب کی تخریج کی ہیں اور ان کی روایات میں صحیح وسقم الگ کی ہیں
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
محترم،
اب حافظ ابن حجر کی بات کر لیتے ہیں تو حافظ ابن حجر کا تلخیص الحبیر سے حوالہ دے چکا ہوں کہ انہوں نے اس میں انقطاع مانا ہے اور اپ نے مجھے ان کا رجوع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے آں جناب یہ نہیں جانتے کہ جب رجوع اس وقت تک نہیں مانا جاتا جب تک کہ واضح اور صریح الفاظ میں اپنے سابقہ موقف کو پیش کرکے یہ نہ کہا جائے کہ میں اپنی اس بات سے رجوع کیا ہے اس وقت تک رجوع قابل قبول نہیں ہوتا ہے ابن حجر نے واضح صراحت سے نقل کیا ہے کہ ابو الجوزا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کے درمیان انقطاع ہے اس لئے ان کا یہی موقف مانا جائے گا جب تک کہ واضح الفاظ میں انہوں نے کہیں اس کا رد کیا ہو۔
آخر میں امام زیلعی حنفی کے حوالے سے اپ نے نقل کیا ہے اس کا جواب یہی ہے کہ انہوں نے امام مسلم کی صحیح مسلم پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ مسلم میں ہونا اس کے القاء کی دلیل ہے جبکہ اس پر نص ہے کہ اس میں انقطاع ہے
اور آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اصول واضح ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے اور اس میں متعدد محدثین کی جرح مفسر ہے کہ اس میں انقطاع ہے
اس لئے آں جناب یہ اصول بغور پڑھ لیں
اتفق اہل علم ان جرحہ الواحد والاثنان عدلہ مثل عدد من جرحہ فان الجرح اولی(الکفایہ فی علم الرویہ ص 108)

امید ہے موصوف نے بغور پڑھ لیا ہوگا تو اب جبکہ یہ جرح مفسر بہت سے محدثین سے ثابت ہے اور اس پر ان کا اعتماد ہے تو پھر یہ اس روایت کا کتب احادیث میں آنا فقط اس کی ضمنی توثیق کہی جاسکتی ہے اور ضمنی توثیق جرح مفسر پر غالب نہیں ہوسکتی ہے دوسری بات کہ عدیل سلفی بھائی نے جو توجہ دلائی ہے کہ اس میں عمرو بن مالک النکری ہے جس کو حافظ ابن حجر نے " صدوق له أوهام " کہا ہے امام ذہبی نے الکاشف میں وثق نقل کیا ہے جس سے ان کی مراد یہی ہے کہ اس راوی کی توثیق غلط کی گئی ہے اور امام ذہبی اس کو ضعیف ہی مانتے ہیں اور امام مسلم نے ابو الجوزاء سے کوئی بھی روایت عمرو بن مالک النکری کے طریق سے نہیں لی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ راوی بھی اس روایت کی ایک علت ہے جس کو وہم ہوتے تھے اور اسی وہم کا شکار ہو کر اس نے یہ روایت بیان کی ہے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
مجھے بہت افسوس ہوا اتنے عرصے بعد آئے بھی تو میرے دیے گئے دلائل میں وہی پرانے جواب دہرا رہے ہو میاں جی میں نے کب کہا کہ البانی نے انقطاع کو نہیں مانا۔۔۔ میں نے انکے منہ سے امام ابن حجر عسقلانی ؒ کا امام مسلم کے موقف سے اتفاق کرنے پر نشاندیہی کی تھی ۔۔۔ مذید یہ کہ آپ نے میرے دیے گئے تہذیب التہذیب میں امام ابن حجر عسقلانی کی طرف سے کیے گئے صریح فیصلے کا جواب ہی نہیں دیا۔۔۔۔۔ ایک بار پھر یاد دلاتا ہوں اسکو غور سے پڑھیں اور زرہ تشریح کریں کہ ابن حجر نے امام بخاری کے قول سے اتفاق کیا ہے یا انکا انکار کیا ہے ؟؟؟ اسکا جواب دیجیے گا

اور آپنے ابن حجر کے رجوع کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ابن حجر صریح رجوع پیش کرو۔۔۔ بھائی اس سے صریح رجوع اور کیا ہوگا؟؟؟ جس تصنیف میں آپنے ابن حجر سے انقطاع کی جرح پیش کی تو امام ابن حجر نے وہ جرح امام بخاری اور امام ابن عبدالبر کی جرح پیش کر کے یہ اعتراض کیا تھا ۔۔۔
اور یہاں تہذیب کا اسکین دیکھ سکتے ہیں یہاں بھی انہوں نے وہ دونوں جروحات لکھ کر پھر اپنا موقف دیا ہے جو کہ واضع انکے رجوع کی دلیل ہے
upload_2018-10-22_12-22-29.png
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
آپکی ضد کی مجھے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آرہی مجھے!!امام ابن حجر نے صرف تہذیب میں ہی رجوع نہیں کیا بلکہ انہوں نے مشکوتہ کی تخریج کی ہے اور مقدمے میں لکھا ہے کہ جس روایت پر میں اسکوت کرونگا وہ روایت حسن ہوگی ۔۔۔ اور میں نے اسکین کے ساتھ ثبوت دیا تھا امام ابن حجر عسقلانیؒ سنن درامی والی روایت نقل کر کے اس پر سکوت کیا ہے کوئی جرح نہیں کی ہے ۔۔اب آپ اس صریح توثیق کو بھی رجوع نہیں مانتے تو ہم یہاں زبردستی کسی سے منوانے تو آئیں نہیں۔۔۔۔ دلائل سب کے سامنے ہیں وہ اسکین ایک بار پھر لگا رہا ہوں آپکی یاد داشت تازہ کرنے کے لیے!!!
upload_2018-10-22_12-28-36.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
اور بھائی آپ تو علم جرح و تعدیل میں بہت ہی زیادہ کچے ہیں آپ کو راوی کا تعین کرنا بھی نہیں آتا ۔۔۔۔ یا مجھے کاپی پیسٹر سمجھ رہے ہونگے اللہ بہتر جانتا ہے برحال آپ نے جو پہلی مثال دی وہ بھی غلط دی ہے ۔ کیونکہ امام بخاری بھی اپنی تاریخ میں کئی رایوں پر جرح کی ہے اور انکو بخاری میں بھی لائے ہیں ۔لیکن متابیعت میں اسی طرح اگر امام ابن حبان و ابن خزیمہ لے آئے تو اس میں اتنی حیرانی کی کیا بات ؟ انہوں نے التزام تو اپنے نزدیک صحیح کا کیا ہے نہ
اور دوسری اہم بات جو آُپ نے پہلی مثال دی وہ بھی بالکل غلط ہے ۔۔۔۔۔ جسکا جواب ثبوت کے ساتھ اگلے کمنٹ میں دونگا
upload_2018-10-22_12-57-34.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
ابن حبان نے المجروحین میں جس راوی ابو صالح کو لائے ہیں وہ کوفی ہے اسکا نام باذام ہے ۔۔۔ یہ بھی ان عباس سے روایت کرنے والا ہے جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے
باذام أَبُو صَالِح مولى أم هَانِئ بنت أَبِي طَالِب سَأَلت يَحْيَى بْن معِين عَن أَبِي صَالِح الَّذِي روى عَنْهُ سماك بْن حَرْب والكبي فَقَالَ اسْمه باذام كُوفِي ضَعِيف الحَدِيث
اور جو روایت امام ابن حبان اپنی صحیح میں لائے ہیں وہ راوی میزان ہے جسکا ترجمہ انہوں نے الثقات میں بیان کیا ہے:
5710 - أَبُو صَالح الْبَصْرِيّ اسْمه ميزَان يروي عَن بْن عَبَّاس روى عَنهُ سُلَيْمَان التَّيْمِيّ وَأهل الْبَصْرَة وَلَيْسَ هَذَا بِصَاحِب الْكَلْبِيّ (کتاب الثقات لا ابن حبان برقم 5710)
یہ بصری ہیں اور یہ بھی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں لیکن یہ باذام نہیں ہے اور اسکی تصریح انہوں نے خود صححیح ابن حبان میں بھی کر دی ہے مجھے حیرت ہے آپ نے پھر بھی یہ حرکت کر دی ۔۔۔ خیر!!!
upload_2018-10-22_13-16-38.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
امید ہے تشفیع ہو گئی ہوگی کہ آپنے مثال دینے میں کتنی بڑی خطا کھائی ہے یا مجھے دینے کی کوشش کی ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہے۔۔
مذید یہ اسکین ابو صالح البصری میزان کا جسکو انہوں نے الثقات میں ہی درج کیا ہے
upload_2018-10-22_13-25-56.png
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
میاں جی میں نے کب کہا کہ البانی نے انقطاع کو نہیں مانا۔
محترم،
اپنی تحریروں سے اس قدر چشم پوشی اچھی نہیں
آپ البانی سے انقطاع کا انکار نہیں کرتے تو آں جناب نے مجھ سے یہ دلیل کیونکر مانگی تھی کہ البانی صاحب کے انقطاع کی دلیل پیش کریں اپ کے الفاظ پیش کر رہا ہوں


تو آپ البانی سے جرح پیش کرنے کا تکلف کر رہے ہیں
ابن حجر کا تھذیب التھذیب کا حوالہ پیش کر رہے ہیں اس میں صرف ابن حجر نے صرف یہ نقل کیا ہے کہ امام مسلم القاء کے قائل تھے یہاں ابن حجر نے صرف امام مسلم کے مذہب کو واضح کیا ہے اگر وہ اس میں خود انقطاع مانتے تو قلت کے الفاظ سے اس کی وضاحت فرماتے اور تلخیص الحبیر میں انہوں نے واضح طور پر اس میں انقطاع مانا ہےاور امام مقبل بن ھادی اور شیخ البانی نے بھی ابن حجر کے حوالے سے یہی لکھا ہے کہ وہ اس میں ان انقطاع مانتے ہیں تو دو بڑے محدثین کی بات مانوں جو دلیل کے ساتھ یہ بات فرما رہے ہیں یا اپ کی جو بے پر کی اڑا رہے ہیں
اپ نے لکھا ہے کہ ابن حجر نے مشکوۃ کی تخریج میں اس پر سکوت کیا ہے اور جس پر وہ سکوت کریں کے وہ حسن ہو گی

اپ نے لکھا ہے کہ ابن حجر نے مشکوۃ کی تخریج میں اس پر سکوت کیا ہے اور جس پر وہ سکوت کریں کے وہ حسن ہو گی
یہاں انہوں نے سکوت کیا ہے تو پھر تلخیص الحبیر میں اس پر انقطاع کا دو جگہ حکم لگایا ہے اور اگر انہوں نے رجوع کیا ہے جیسا آپ فرما رہے ہیں تو ان کے رجوع واضح پیش کریں کہ انہوں نے کہیں نقل کیا ہو کہ پہلے میں اس کا قائل تھا مگر میں نے اپنی بات سے رجوع کیا ہے یا میں نے غلطی کی ہے کیوںکہ ابن حجر بھی انسان ہی تھے اور ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے جیسا کہ عطیۃ العوفی سے انہوں نے ایک روایت کو حسن کہا ہے مگر اس کو تدلیس تسویہ کا مرتکب مانا ہے اور اس پر سخت جرح کی ہے تو اگر بقول موصوف کے کہ انہوں نے اس روایت پر سکوت بھی کیا ہے تو یا تو ان کا رجوع صریح الفاظ میں پیش کریں یا پھر یہی سمجھا جائے گا کہ ان سے اس روایت کے سکوت میں چوک ہوئی ہے کیونکہ وہ خود اس پر ایک ہی کتاب میں دو بار صریح انقطاع کی جرح کر چکے ہیں لہذا ان کا جرح والا قول ہی معتبر مانا جائے گا

اور آخر میں موصوف سے دو باتیں کہ اپ مجھے یہ فرما رہے ہیں کہ ابن حبان نے اپنی کتاب میں ان روایات کا التزام کیا ہے جو ان کے نذدیک صحیح ہیں مگر جناب اپنی اس دلیل پر تو غور کر لیتے جو اپ نے اس قول کے بعد پیش کی ہے

وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة
اس دلیل میں واضح ہے کہ شیخ البانی فرما رہے ہیں کہ جو ابن حبان کے نذدیک ثقہ رواۃ ہیں وہ انہوں نے اپنی صحیح میں رکھے ہیں تو میں نے بھی اپ کو ابن حبان کے ثقہ رواۃ کا حال بتایا ہے جو خود ابن حبان کے نذدیل صحیح ہیں اور اپ نے امام بخاری کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے اپنی بخاری میں ضعیف رواۃ سے متابعت میں روایات لیں ہے تو اپ کے نذدیک ابن حبان اور بخاری کا معیار ایک ہے ماشاء اللہ کیا علم الحدیث پر عبور ہےبخاری میں ایک راوی بھی ایسا نہیں جو متروک ہو مگر میں نے اپ کو ابن حبان سے ہی ایسے رواۃ پیش کیے ہیں جو خود ابن حبان کی نظر میں ضعیف اور متروک ہیں مگر صحیح ابن حبان میں موجود ہیں تو ذرا ہمت کریں اور صحیح بخاری سے ایسے رواۃ پیش کردیں جو امام بخاری ہی کی نظر میں متروک اور ضعیف ہوں اور امام بخاری نے ان سے متابعت میں روایت لی ہو مگر یہ سب اس بحث کے بعد آخر میں کریں گے اور سب سے آخر بات اپ نے مجھے علم حدیث میں کچا کہا ہے تو ہم طفل مکتب آپ سے بحر علم الحدیث سے یہ جواب چاہتے ہیں کہ جب جرح مفسر آ جائے تو تعدیل اس پر حاوی ہوگ ایسا جمہور محدثین کے اقوال سے ثابت کر دیں وگرنہ یہ روایت ضعیف ہو گی کیونکہ اس پر ۸ سے ۱۰ محدثین نے جرح مفسر کی ہے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
موصوف ایک راوی لائے وہ بھی غلط باقی تو بعد میں دیکھیں گے اس روایت میں یہ باذام ہی ہے
محترم،
اس روایت میں یہ میزان نہیں ہے کیونکہ میزان سے روایت کرنے والے یہ لوگ ہیں
أَبُو صَالح الْبَصْرِيّ اسْمه ميزَان يروي عَن بْن عَبَّاس روى عَنهُ سُلَيْمَان التَّيْمِيّ وَأهل الْبَصْرَة وَلَيْسَ هَذَا بِصَاحِب الْكَلْبِيّ

سليمان التيمى
محمد بن جحادة
خالد الحذاء
أبو خلدة خالد بن دينار ( و آخرون ) .
اور اس روایت میں ابو صالح سے روایت کرنے والا" مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنِ أَبِي صَالِحٍ"
اس کی تصریح امام حاکم نے اپنی مستدرک میں کی ہے کہ یہ باذام ہے پڑھ لیں
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ كَامِلِ بْنِ خَلَفٍ الْقَاضِي، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْقَاضِي، ثنا أَبُو الْوَلِيدِ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: ثنا شُعْبَةُ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثنا أَبُو الْمُثَنَّى الْعَنْبَرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: ثنا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ» قَالَ الْحَاكِمُ: «أَبُو صَالِحٍ هَذَا لَيْسَ بِالسَّمَّانِ الْمُحْتَجِّ بِهِ، إِنَّمَا هُوَ بَاذَانُ، وَلَمْ يَحْتَجَّ بِهِ الشَّيْخَانِ لَكِنَّهُ حَدِيثٌ مُتَدَاوَلٌ فِيمَا بَيْنَ الْأَئِمَّةِ، وَوَجَدْتُ لَهُ مُتَابِعًا مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فِي مَتْنِ الْحَدِيثِ فَخَرَّجْتُهُ»
اور اسی طرح شیخ شعیب نے ابن حبان کی تخریج میں بھی اس کو باذام ہی مانا ہے پڑھ لیں
إسناده صحيح إن كان أبو صالح هذا ميزاناً كما جزم به المؤلف هنا، ونقله عنه الحافظ في "النكت الظراف" "4/368" لكنه انفرد بذلك ولم يتابع، وإن كان هو مولى أم هانئ كما قال الترمذي، فهو ضعيف، قال في "تهذيب التهذيب" "10/385": ويؤيده أن علي بن مسلم الطوسي روى هذا الحديث عن شعيب، عن محمد بن جحادة سمعت أبا صالح مولى أم هانئ، فذكر هذا الحديث، وجزم بكونه مولى أم هانئ: الحاكم، وعبد الحق الإشبيلي، وابن القطان، وابن عساكر، والمنذري، وابن دحية وغيرهم، وهو الصواب، فالسند ضعيف.

تو محترم طفل مکتب کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور بحر علم الحدیث سے قطعی یہ نہ سمجھنا کہ جو اپ کہیں گے وہ صحیح ہی ہو گا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اصل سوال یہ ہے کہ یہ کھڑکی ابھی تک گنبد خضراء پر موجود کیوں نظر آتی ہے؟؟- چلو گنبد خضراء کو گرانا تو بڑا فتنہ کھڑا کرنے کا باعث بن سکتا ہے اس لئے اس کو قائم رکھا گیا ہے- (یہ بات الگ ہے کہ اس کی تزئین و آرآئش ابھی تک کی جاتی ہے جو کہ نا صرف بدعت ہے بلکہ اس میں اسراف بھی ہے)-

لیکن کھڑکی کو اب تک کیوں باقی رکھا گیا ہے؟؟- کیا یہ اب بھی توسل کے لئے استمعال ہوتی ہے ؟؟ جب کہ بظاھر عرب علماء تو قبر نبوی کے توسل کے قائل نہیں ہیں اور عوام کو اس سے منع کرتے ہیں-؟؟
 
Top