اللہ تعالیٰ کی محبت اسلام کی بنیاد ہے۔
باب :فی قولہٖ تعالیٰ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَندَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اﷲِ
اللہ تعالیٰ کی محبت اسلام کی بنیادہے اسی محور کے گرد اسلام کی چکی گھومتی ہے۔ جس شخص کا اسلام مکمل ہوگا اس کی اﷲ سے محبت بھی کامل ہوگی۔ اور جس کا اسلام ناقص ہوگا اس کی محبت بھی ناقص ہوگی۔ لہٰذا اسی مناسبت سے مصنف رحمہ اللہ نے اﷲ کی محبت کے متعلق باب قائم کیا ہے۔ اور اس باب میں اسی موضوع پر بحث ہو گی۔ ان شاء اﷲ۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَندَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اﷲِ
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اﷲ تعالیٰ سے محبت ہونی چاہیئے۔ (سورۃ البقرۃ :۱۶۵)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مدارج السالکین میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’جو شخص غیر اللہ سے ایسی والہانہ محبت رکھے جیسی کہ اللہ سے کی جاتی ہے تو گویا اُس نے اس غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے لیا۔ یہ معبود محبت میں ہو گا نہ کہ تخلیق اور ربوبیت میں کیونکہ لوگ ربوبیت اور تخلیق میں غیر اللہ کو معبود نہیں بناتے بلکہ محبت میں بناتے ہیں۔ اس لئے کہ اکثر لوگوں نے غیر اللہ سے ایسی محبت قائم کر رکھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و توقیر سے تجاوز کر گئے ہیں‘‘۔
اس آیت کے معنی میں علماء کے دونوں قول نقل کئے گئے ہیں:
۱۔ ’’جو لوگ مومن ہیں، ان کی اللہ تعالیٰ سے محبت، ان کی مشرکین کی، اپنے معبودانِ باطل کی محبت اور عظمت سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کا مطلب مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ’’ان پر فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر مانتے ہیں، ایمانداروں کی اللہ سے محبت، ان کافروں کی اپنے بتوں کی محبت سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد ابن زید رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ: ’’ان مشرکوں کے شریک اِن کے وہ معبودانِ باطل ہیں جن کی وہ اللہ کے ساتھ پرستش کرتے ہیں، وہ اُن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے ایماندار اللہ سے محبت رکھتے ہیں، لیکن ایمانداروں کی اللہ سے محبت بہرحال کفار کی، اپنے معبودوں کی محبت سے کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔
۲۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت زیادہ قوی ہے مشرکین کی اُس محبت سے جو وہ اپنے معبودانِ باطل سے کرتے ہیں کیونکہ مومنین کی محبت خالص اور صرف اللہ تعالیٰ سے ہے اور مشرکین کی محبت کئی مقامات میں بٹی ہوئی ہے، ایک اللہ سے اور دوسری معبودانِ باطل سے۔ خالص اور صرف اللہ سے محبت بہر صورت مشترکہ محبت سے قوی تر اور افضل ہے۔
مندرجہ بالا دونوں معنی آیت ’’یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِ ﷲ‘‘ سے ماخوذ ہیں کیونکہ اس میں بھی دو قول ہیں:
۱۔ پہلا یہ کہ مشرکین اپنے باطل معبودوں سے ایسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے تھے لیکن اس محبت میں انہوں نے اپنے معبودوں کو شریک بنا رکھا تھا۔
۲۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ مشرک اپنے باطل معبودوں سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے مومنین اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود وضاحت فرما دی کہ مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت اس سے کہیں زیادہ قوی اور پختہ ہے جو مشرکین کی اپنے باطل معبودوں سے ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پہلے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی مذمت اس لئے فرمائی ہے کہ انہوں نے محبت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے باطل معبودوں کو شریک بنا رکھا ہے کیونکہ انہوں نے مومنین کی طرح خالص اللہ سے محبت نہیں کی۔ مشرکین کی محبت میں اللہ اور معبودانِ باطل سے برابری کا ذکر مشرکین کے اپنے قول سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کیونکہ مشرکین اور اُن کے باطل معبود جب اکٹھے دوزخ میں جمع ہوں گے تو مشرک اپنے معبودوں سے کہیں گے کہ: (ترجمہ) اللہ کی قسم ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے‘‘۔ (الشعراء:۹۷ تا ۹۸)۔ یہ بات واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مشرکین نے توحید ربوبیت اور خلق اشیاء میں اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر ہرگز نہیں سمجھا تھا بلکہ وہ صرف محبت اور عظمت میں برابری کے قائل تھے اور یہی برابری ہے جس کا قرآنِ کریم میںذکر ہے کہ: (ترجمہ) ’’سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھہرا رہے ہیں‘‘۔ یعنی مشرکین نے اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور عظمت میں شریک ٹھہرایا اور دونوں کو برابر کا درجہ دیا‘‘۔ (سورئہ انعام:۱)۔
مشرکین مکہ شرک فی الالوہیت میں گرفتار تھے البتہ شرک فی الربوبیت سے کسی حد تک بچے ہوئے تھے لیکن افسوس کہ آج کا مشرک شرک فی الالوہیت میں تو گرفتار تھا ہی، اب شرک فی الربوبیت میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے جیسا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ فوت شدہ افراد کو دنیوی معاملات میں تصرف حاصل ہے۔ العیاذ باﷲ۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں سے کہہ دو ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ (آل عمران:۳۱)۔
اس آیت کریمہ کو آیت ِ محبت بھی کہتے ہیں۔ یعنی سلف اُمت سے منقول ہے کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوی کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ اس آیت کریمہ میں محبت کا معیار اور پھر محبت کے فوائد و ثمرات کا بھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی سب سے بڑی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق زندگی کو مشعل راہ بنا لے۔ اور پھر اس کا عظیم فائدہ یہ بیان فرمایا کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ پس جب انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اس کو حاصل نہ ہو گی۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ:
(ترجمہ) ’’اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوںپر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔ جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘۔ (المائدۃ:۵۳) ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے محبت کرنے والوں کی تین علامتیں بیان کی ہیں:
۱۔ پہلی یہ کہ وہ آپس میں انتہائی شفیق اور رحم دِل ہوتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ عطا رحمہ اللہ مومن کی خصلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا شخص مومنین کے لئے ایسا نرم ہوتا ہے جیسے بیٹا باپ کے سامنے یا غلام اپنے آقا کے سامنے، اور کافروں کے لئے ایسا سخت ہوتا ہے جیسے شیر اپنے شکار پر، قرآن کریم میں: ’’اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ‘‘ سے مراد یہی لوگ ہیں۔
۲۔ دوسری علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے نفس، اپنے ہاتھ، اپنی زبان اور اپنے مال سے جہاد کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی وہ علامت ہے جس سے اصل محبت کا پتہ چلتا ہے۔
۳۔ ان کی تیسری علامت یہ ہے کہ وہ شریعت ِ اسلامیہ پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلے میں کسی کی ملامت اور مخالفت سے نہیں گھبراتے۔ سچی محبت کی یہ سب سے بڑی علامت ہے۔
محبت کا دعویٰ کرنے والا اگر اپنے محبوب کی محبت میں کسی سے خوف اور ملامت کا ڈر یا خطرہ محسوس کرے تو وہ حقیقی محب کہلانے کا مستحق نہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
(ترجمہ) ’’جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اُس کی رحمت کے اُمیدوار اور اُس کے عذاب سے خائف ہیں‘‘۔ (بنی اسرائیل:۵۷)۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے تین مقام بیان فرمائے گئے ہیں:
۱۔ اَلْحُبّ: محبت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محبوب کا قرب کسی نہ کسی صورت میں حاصل ہو جائے۔
۲۔ التَوَسُّلْ: یعنی اعمالِ صالحہ کر کے محبوب تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
۳۔ اَلرَّجَاء خوف: یہ دونوں وصف اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کا وسیلہ اُمید، رحمت اور خوفِ عذاب سے ایک زائد عمل ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اُسی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے محبت اور دِلی لگاؤ ہو۔ محبوب کا قرب اس کی ذات کی محبت کے تابع ہے۔ فی نفسہٖ محبوب کا قرب کوئی معنے نہیں رکھتا یہ محبوب تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ فرقہ جہمیہ اور معطّلہ کے ہاں اِن سب اُمور کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ اللہ کسی کے قریب آتا ہے اور نہ اُس کے قریب کوئی جا سکتا ہے۔ اُس کی ذات سے نہ کوئی محبت کرتا ہے اور نہ وہ کسی سے محبت کرتا ہے۔ ان دونوں فرقوں نے: ٭دلوں کی حیات اور زندگی کا انکار کیا۔ ٭رُوح کی نعمتوں اور اُس کی آسائشوں کو ناقابل فہم سمجھا۔ ٭نفوس کی تروتازگی سے انحراف کیا۔ ٭آنکھوں کی ٹھنڈک سے محرومی کے قائل ہوئے۔ ٭دنیا و آخرت کی اعلیٰ نعمتوں کی تردید کی۔ یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے اُن کے دِل سخت ہو گئے اور اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان معرفت اور محبت کے حصول کی راہ میں بہت سے پردے حائل کر دیئے گئے۔ اب صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ: ٭یہ لوگ نہ تو اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، ٭نہ محبت کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔ ٭بلکہ وہ ان لوگوں کو سزائیں دیتے ہیں جو اللہ کے اسماء و صفات اور اس کی جلالت ِ شان کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور ان پر ایسی بیماریوں کی تہمت لگاتے ہیں جن کے وہ خود زیادہ مستحق ہیں۔ ٭ اور صاحب بصیرت اور زندہ دِل لوگوں کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ان کے کلام میں سختی اور ناخوشی اور نفرت محسوس کرتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت اور توحید سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’محبت کی اس سے زیادہ واضح تعریف اور کوئی نہیں ہو سکتی اور حدود (تعریفوں) سے اس کی ذات کی پوشیدگی اور بڑھ جاتی ہے اور اس کی تعریف خود اس کا اپنا وجود ہے اور محبت کی صفت اس سے زیادہ واضح اور کوئی نہیں کہ ’’محبت محبت ہے‘‘
اور لوگوں نے جو اس پر یہ گفتگو کی ہے تو وہ اس کے اسباب و موجبات اور علامات و شواہد اور ثمرات و احکام پر گفتگو کی ہے۔ محبت کی تعریف میں جو جامع بات کہی گئی وہ وہ ہے جس کو ابوبکر الکتانی رحمہ اللہ نے جنید بغدادی سے نقل کیا ہے۔ ابوبکر الکتانی فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ موسم حج میں مختلف ممالک سے علما اور شیوخ مکہ مکرمہ میں جمع تھے کہ محبت الٰہی کا مسئلہ چھڑ گیا۔ اس اجتماع میں سب سے کم عمر جنید رحمہ اللہ تھے۔ علماء نے پوچھا کہ آپ کی اس مسئلے میں کیا رائے ہے؟ جنید رحمہ اللہ بڑے بڑے علمائے کرام کی یہ فرمائش سن کر دم بخود رہ گئے اور چند منٹ کیلئے سر جھکا دیا۔ پھر سر اُٹھایا تو آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح بہہ رہے تھے اور زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: (ترجمہ) ’’بندہ اپنے آپ سے بے خود ہو، اپنے ربِّ کریم کے ذکر میں مصروف ہو، اس کے حقوق کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو، دلی توجہ سے اس کی طرف نظر جمائے ہوئے ہو ربِّ کریم کے ڈر اور خوف کے نور نے اُس کے دل کو جِلا دیا ہو۔ اور اللہ کی محبت کے پیالے سے خالص مشروب پیتا ہو اور اُس کے غیب کے پردوں سے اس کیلئے حیا واضح ہو جائے اگر وہ بولتا ہے تو اللہ سے، بات کرتا ہے تو اللہ کی، حرکت کرتا ہے تو اللہ کے حکم سے، سکون میں آتا ہے تو اللہ سے۔ پس یہ بندہ ناچیز اللہ کیلئے، اللہ کیساتھ اور اللہ ہی کی معیت میں ہے جنید رحمہ اللہ کے منہ سے مندرجہ بالا کلام نکل رہا تھا اور تمام علمائے کرام پر سناٹا چھایا ہوا تھا اور سب علمائے کرام زاروقطار رو رہے تھے۔ جب جنید رحمہ اللہ خاموش ہوئے تو سب نے کہا کہ اے تاج العارفین! آپ نے اِس پر مزید گفتگو کی گنجائش نہیں چھوڑی، یہ کہا اور مجلس برخاست ہو گئی‘‘
۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ محبت الٰہی پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کی محبت دس اُمور سے پیدا ہوتی ہے: ۱۔ قرآن کریم کی اِس طرح تلاوت کرنا کہ ہر لفظ کے معانی، مفہوم اور اُس کے تقاضوں پر غور و فکر اور تدبر کیا جائے۔ ۲۔ فرضی نماز کے بعد نوافل کی کثرت، تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو سکے ۳۔ دِل زبان، عمل اور حال سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے جتنا ذکر کثرت سے ہو گا اتنی ہی محبت تیز ہو گی۔ ۴۔جب انسان پر شہوات کا غلبہ ہو تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کی محبوب اشیاء کو اپنی محبوب اشیاء پر فوقیت دے۔ ۵۔اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے مشاہدات پر غور و فکر اور مطالعہ کرنا اور اس معرفت کے باغوں اور میدانوں میں سیر کرنا۔ ۶۔ اللہ تعالیٰ کے ظاہری اور باطنی انعامات اور احسانات کا مشاہدہ کرنا۔ ۷۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دِل کو اِنتہائی اِنکساری کی حالت میں پیش کئے رکھنا۔ ۸۔ جب اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا میں نزول فرماتا ہے، اس وقت اپنے آپ کو بالکل یکسو اور علیحدہ رکھنا اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا، اور تلاوت ختم کرے تو توبہ اور استغفار پر اختتام کرنا۔ ۹۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دوستوں کی مجالس میں بیٹھنا اور ان کی اچھی گفتگو کے ثمرات سمیٹنا اور اس وقت گفتگو کرنا جب اس کی مصلحت راجح ہو اور تجھے معلوم ہو کہ اس سے تیرے حال میں اضافہ اور دوسروں کی بھلائی ہے۔ ۱۰۔ ان تمام اسباب و ذرائع سے اجتناب اور دُوری اِختیار کرنا جن کی وجہ سے اِنسان کے دِل اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بعد پیدا ہو۔
یہی وہ دس اسباب ہیں جن سے محبیّن کا گروہ محبت کی منزلیں طے کر کے اپنے محبوب تک پہنچا ہے‘‘
قُلْ اِنْ کَانَ ٰابَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَ اﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (سورۃ التوبہ : ۲۴)۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم : کہہ دو کہ اگر تمہارے ماں باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ او ر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے۔ اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو اپنے اہل و عیال، اپنے مال و متاع، اپنے قبیلہ و قوم، اپنے تجارتی اثاثوں، اپنے گھر بار کو کلی یا جزوی لحاظ سے اللہ کے احکام سے زیادہ محبوب اور پسند کرتے ہیں یا ان میں سے کوئی چیز جہاد فی سبیل اﷲ کرنے سے مانع ہو تو عذابِ الٰہی کی گرفت سے ڈرائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کو بعد میں کف افسوس ملنا پڑے۔ زیر بحث آیت کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’اگر یہ اشیاء اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب اور پسند ہیں تو اُس کے عذاب کا انتظار کریں‘‘۔
مسند احمد اور ابوداؤد میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو اور بیلوں کی دُمیں پکڑ لو، کھیتی باڑی کو اپنا مقصد بنا لو اور جہاد جیسے عظیم الشان عمل کو چھوڑ بیٹھو تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت و رُسوائی مسلط کر دے گا اور یہ رُسوائی اُس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم دین حنیف کی طرف نہ لوٹ آؤ گے‘‘۔
پس انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کو اپنی پسندیدہ چیزوں پر ترجیح دے، جسے اللہ پسند کرتا ہے ان کو پسند کرے اور جو اُمور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اُن کو ترک کر دے کسی سے دوستی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اور دشمنی ہو تو فقط اُس کی رضا کے لئے اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرے کیونکہ اسی میں انسان کی فلاح اور کامیابی مضمر ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَ وَالِدِہٖ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔ (صحیحین )۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا ہے ۔ جب تک وہ مجھے اپنی اولاد اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے۔
ایمانِ کامل یہ ہے کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی اولاد، اپنے ماں باپ، حتی کہ تمام دنیا سے زیادہ محبت ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کمال کا یہ درجہ اُس وقت تک حاصل ہونا ممکن نہیں جب تک کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنی جان سے بھی زیادہ نہ ہو۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مجھے اپنی جان کے علاوہ تمام دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک تم مومن نہیں ہو سکتے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ٹھیک ہے‘‘۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ نفی کمال مراد ہے، اگر اس سے اُس کا مقصد کمالِ واجب مراد ہے جس کے ترک کرنے والے کی مذمت کی گئی ہے اور اس کی سزا بھی سنا دی گئی ہے تو وہ صحیح کہتا ہے۔ اور جو شخص یہاں کمال مستحب سمجھتا ہے تو اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی نہ کلام اللہ میں، نہ کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا اور دوسرے لوگوں کے اقوال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ترجیح دیتا ہے تو وہ اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہم نے اطاعت قبول کی مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے منہ موڑ جاتا ہے ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں‘‘۔ (النور:۴۷)۔ اس آیت میں اس شخص کے ایمان کی نفی کر دی گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری سے منہ پھیر لیتا ہے۔ البتہ ہر مسلمان جس قدر اسلام میں پختہ ہو گا اُسی قدر اُس کی محبت پختہ اور مضبوط ہو گی اور ہر مسلمان یقینا مومن ہے البتہ ایمانِ مطلق خاص لوگوں کا حصہ ہے‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب کوئی شخص کفر کے بعد اسلام لائے یا مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا اور شریعت اسلامیہ کی پیروی، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے تو وہ مسلمان ہو گا لیکن اس کا ایمان مجمل ہو گا۔ البتہ اس کے دل میں ایمان آہستہ آہستہ اور بتدریج داخل ہو گا ورنہ لوگوں کی اکثریت یقین محکم اور جہاد کے سے عظیم عمل تک نہیں پہنچ پاتی۔ اگر ایسے افراد کو ذَرا سا شک اور شبہ کا موقع مل جائے تو وہ فوراً اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر جہاد کی ترغیب دی جائے تو جان پیش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس یقین کی دولت کا فقدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ شک و شبہ سے بچ سکیں اور نہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جوہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور مال و متاع کو ان کی خوشنودی میں لٹا دیں۔ اگر ایسے افراد دنیا میں مصائب سے بچ کر زندگی گذار جائیں تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ایسے افراد کہیں آزمائش و ابتلاء میں گھر جائیں، جس سے اُن کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہونے کا اِمکان قوی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی اُن کو سیدھے راستے پر قائم رکھ سکتی ہے وگرنہ یہ لوگ ریب و شک کی گہری غار میں جا گریں اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ نفاق کی دلدل میں پھنس جائیں‘‘۔
زیر بحث حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان کا جزوِ لاینفک ہیں کیونکہ محبت دل کا عمل ہے اور دُوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کا لازمی حصہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر اور اُس کے حکم کے مطابق کی جاتی ہے ایک مومن صادق کے دل میں جس قدر محبت الٰہی کی کثرت ہو گی اسی لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی زیادہ ہو گی اور اِسی مناسبت سے کمی بھی واقع ہو گی کیونکہ جو شخص کسی سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہے تو اس کی محبت حقیقتاً اللہ ہی سے ہوتی ہے جیسا کہ ایمان عمل صالح سے محبت کرنا، حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے ایسی محبت میں شرک کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ بذاتہٖ نہ تو اس پر اعتماد ہوتی ہے نہ کسی مرغوب چیز کے حصول کی اُمید یا کسی تکلیف دہ چیز کا دفاع اور جو ایسی محبت ہو وہ حقیقت میں اللہ سے محبت ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں نہ تو غیر اللہ سے تعلق ہے اور نہ اللہ کے سوا کسی سے رغبت ہے۔ یہاں اس محبت میں جو اللہ کے لئے ہو اور اس محبت میں جو مشرکین اپنے باطل معبودوں سے کرتے ہیں، ایک نمایاں فرق اور امتیاز موجود ہے کیونکہ مشرکوں کے دِلوں میں اُن کی اُلوہیت کا عنصر غالب ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کہیں جائز نہیں ہے۔
ولھما عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فَیْہِ وَجَدَ بِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ أَنْ یَّکُوْنَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوِاھُمَا وَ أَنْ یُّحِبَّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ وَ أَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اﷲُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُّقْذَفَ فِی النَّارِ
صحیح بخاری ومسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین صفات ایسی ہیں وہ جس شخص میں بھی ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس اپنے اندر ضرور محسوس کرے گا ۔ پہلی یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب سمجھے ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محض اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت کرے ۔ تیسر ی یہ کہ کفر میں جانا اس قدر ناپسند کرے جس طرح کہ آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے ۔ بعد ااس بات کے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکالا ۔
حلاوت سے وہ دِلی کیفیت مراد ہے جو کسی نعمت اور خوشی کے موقع پر دِل پر طاری ہوتی ہے اور یہ ذوق مومن اپنے قلوب میں ہمہ وقت محسوس کرتے ہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ التوشیح میں لکھتے ہیں:
’’زیر بحث حدیث میں استعارہ تخیلیہ ہے جس میں ایک مومن کی رغبت کو میٹھی شے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کا لازم ذکر کر کے اِس کے ایمان کی طرف مضاف کیا ہے‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اطاعت الٰہی کے وقت، مصائب جھیلتے وقت، دُنیوی اغراض کو پس پشت ڈالتے وقت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے اور اُس کی مخالفت سے رُکتے وقت، جو کیفیت اور سُرور ایک مومن کے دِل میں اُبھرتا ہے، اُس ذوق کو حلاوتِ ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کی حقیقت یہ ہے کہ انعام و اکرام کے وقت اس میں زیادتی نہ ہو اور مصائب و مشکلات اور امتحان کے وقت اس میں کمی نہ ہو‘‘۔
رہی وہ محبت جو طبعاً اور فطرتاً ایک انسان اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے کرتا ہے، یہ محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے برابر نہ ہو بلکہ کمتر ہو۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’یہاں طبعی اور فطری محبت مراد نہیں ہے بلکہ وہ محبت مراد ہے جو اختیار ی ہو‘‘۔
لیکن محبت شرکیہ جس کا سابقہ صفحات میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے منافی ہے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ ہر لحاظ سے غلط اور کتاب و سنت کے صریح احکام کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’اپنے پورے دل سے اللہ سے محبت کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی مندرجہ ذیل چند نمایاں خصوصیات ہیں
٭ جسے اللہ پسند کرے، انسان بھی اس کو پسند کرے۔ ٭جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو وہ انسان کو بھی ناپسند ہو۔ ٭اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اشیاء کو تمام چیزوں پر ترجیح دے۔ ٭ جس قدر ممکن ہو سکے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہو۔ ٭ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ حدود سے دُور رہے اور ان کو انتہائی حقیر و ذلیل سمجھے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور فرمانبرداری کرے۔ ٭ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ اُمور سے کنارہ کش اور دُور رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرے گا تو بیشک اُس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی‘‘۔ (النساء:۸۰)
اس آیت کی مکمل اور چلتی پھرتی تصویر نظر آئے۔ پس جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر دوسرے افراد کے قول کو ترجیح دے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اُمور سے روکا ہے اُن کی کھلم کھلا مخالفت کرے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ اپنی محبت میں جھوٹا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت،دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور اُس سے محبت کا دعویٰ کرے تو لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ان سے محبت کا اظہار بھی کرے، اور جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اپنی محبت میںجھوٹا ہے جیسا کہ سابقہ صفحات میں ’’آیت جنت‘‘ وغیرہ میں واضح ہو چکا ہے۔ واللہ المستعان۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو خوش نصیب ان تمام صفاتِ کاملہ سے متصف ہو گا وہی ایمان کی حلاوت اور لذت سے بہرہ اندوز ہو گا کیونکہ کسی چیز کی مٹھاس اور لذت کا پایا جانا اُس کی محبت کا بین ثبوت ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو چاہتا اور اس کے حصول کے لئے تگ و دو کرنے کے بعد اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کامیابی پر اسے ایک قسم کی لذت، سرور اور خوشی محسوس ہوتی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو حاصل کرنے کے بعد ہی مسرت و بہجت اور لذت حاصل ہوتی ہے‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’حلاوتِ ایمانی جو فرحت و مسرت اور لذت کو متضمن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کامل محبت کے بعد حاصل ہوتی ہے اور کامل محبت تین اُمور کے پائے جانے کے بعد میسر آتی ہے: ۱۔ محبت میں کمال۔ ۲۔محبت میں خلوص۔ ۳۔ اور محبت کے منافی اُمور سے دوری۔ ٭ تکمیل محبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہوں۔ کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا پایا جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر چیز پر غالب ہو۔ ٭ تفریغ محبت یہ ہے کہ انسان جس سے بھی محبت کرے وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ شارح کہتے ہیں کہ اللہ کی محبت، اس کی اطاعت کی محبت کو مستلزم ہے، بندے کے لئے ضروری ہے کہ اُس کی اطاعت کا دم بھرے اور محب کا فرض ہے کہ جس چیز سے محبوب محبت کرے، اُس سے وہ بھی محبت کرے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو یہ بھی مستلزم ہے کہ جو لوگ اُس کے اطاعت گزار ہیں، اُن سے بھی محبت رکھے۔ مثلاً انبیاء، رُسل، صالحین اور اس کے نیک بندوں کو مرکز الفت قرار دینا جس سے اللہ محبت کرے اور جو اللہ سے محبت کرے، اس سے تعلقاتِ محبت استوار کرنا، کمالِ ایمان میں سے ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں واضح کیا گیا ہے، جو آئندہ درج کی جا رہی ہے۔ ٭ دفع ضد کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے مقتضیات کے خلاف جتنی اشیاء ہیں سب کو ناپسند سمجھے جیسے آگ میں گرنے کو ناپسند کرتا ہے۔
زیر بحث حدیث میں اُن لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا گمان یہ ہے کہ انسان سے گناہ کا صادر ہونا اسکے حق میں موجب نقص ہوتا ہے اگرچہ وہ توبہ بھی کر لے۔ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ اگر گنہگار توبہ نہ کرے تو اس کے ایمان میں نقص واقع ہو جاتا ہے اور اگر فوراً توبہ کر لے تو نقص واقع نہیں ہوتا۔ اسکی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اُمت کا اجماع ہے کہ وہ اِس اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے افضل تھے باوجود اِس بات کے کہ وہ قبل از اسلام کافر اور مشرک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کے نور سے منور فرما دیا۔ ہجرت اور اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ گذشتہ تمام اعمالِ سیہء کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتے ہیں جیسا کہ صحیح روایات اس کی تصدیق کرتی ہیں۔
وفی روایۃ لَا یَجِدُ أَحَدٌ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانَ حَتّٰی یُحِبُّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ
ایک روایت میں اس طرح ہے کہ کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اس وقت تک محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی آدمی سے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت نہ کرے ۔
یہ روایت صحیح بخاری کتابُ الادب میں مذکور ہے، پوری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
(ترجمہ) ’’کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتا جب تک کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لئے محبت نہ کرے اور یہ کہ کفر میں لوٹنا اُس کو اِتنا ہی برا اور ناگوار ہو جیسے آگ میں گرنا اور یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام کائنات سے زیادہ محبت ہو‘‘۔
محبت کے متعلق پوری تفصیل گزر چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ محبت مومن کی اُس قلبی کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے اُس پر طاری ہوتی ہے۔
وعن ابن عباس قَالَ مَنْ أَحَبَّ فِی اﷲِ وَ أَبْغَضَ فِی اﷲِ وَ وَالٰی فِی اﷲِ وَ عَادٰی فِی اﷲِ فَإِنَّمَا تَنَالُ وَلَایَۃَ اﷲِ بِذٰلِکَ وَ لَنْ یَّجِدَ عَبْدٌ طَعْمَ الْاِیْمَانِ وَ إِنْ کَثُرَتْ صَلٰوتُہٗ وَ صَوْمُہٗ حَتّٰی یَکُوْنَ کَذٰلِکَ وَ قَدْ صَارَتْ عَامَّۃُ مُوَاخَاۃِ النَّاسِ عَلٰی أَمْرِ الدُّنْیَا وَ ذٰلِکَ لَا یُجْدِ عَلٰی أَھْلِہٖ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، ان کاکہنا ہے کہ جو شخص صرف اﷲ تعالیٰ کیلئے محبت کرے اور اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے کسی سے بغض و عناد رَکھے، اﷲ تعالیٰ کیلئے دوستی رکھے اور اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے عدوات رکھے تو ایسا شخص ہی اﷲ تعالیٰ کی دوستی حاصل کرسکے گا۔ اور کوئی شخص ان اُمور کے بغیر اِیمان کی مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا اگرچہ وہ بہ کثرت نمازیں ادا کرے اور روزے رکھے۔ آج کل عام لوگوں کی محبت صرف دنیاوی معاملات پر موقوف ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں کچھ سود مند ثابت نہ ہوگی۔ (رواہ ابن جریر)۔
یعنی اہل ایمان سے اس لئے محبت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اور جو لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور اطاعت سے منحرف ہیں، ایسے لوگوں سے نفرت و بغض اور دشمنی صرف اس لئے رکھے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اِنتہائی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے‘‘۔ (المجادلہ:۲۲)۔
خالص اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی اور عداوت، اللہ کی محبت کے یہ دو بنیادی وصف ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا وہ اگر کسی دوسرے سے محبت اور دوستی کرے گا، جیسے اولیاء اﷲ سے دوستی اور اُن کی مدد اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں سے عداوت اور اُن سے جہاد، تو یہ بھی حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو گا۔ جس قدر اللہ تعالیٰ کی محبت دِل میں قوی اور مضبوط ہو گی، اُسی قدر یہ اعمال بھی ظہور پذیر ہوں گے اور اسی محبت کے کمال سے توحید کی تکمیل ہو گی اور اس کی کمزوری سے اس میں کمزوری واقع ہو گی، پس اس میدان میںلوگوں کی تین قسمیں ہیں: ٭ بعض کی محبت کامل ترین۔ ٭ بعض کی محبت کمزور اور ضعیف۔ ٭ اور بعض بدقسمت وجودِ محبت سے بالکل کورے۔
اخوت، محبت اور نصرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بالکسر اَمارت کے معنی میں، اور یہاں پہلی صورت مراد ہے۔ مسند احمد اور طبرانی میں ایک روایت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: (ترجمہ) ’’انسان واضح طور سے ایمان کی روشنی محسوس نہیں کر سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے محبت نہ کرے اور اس کی رضا کے لئے دشمنی نہ رکھے، اور جب دوستی اور دشمنی اللہ ہی کے لئے کرے گا تو پھر اللہ کی محبت اور ولایت کا حقدار ہو جائے گا‘‘۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’ایمان کی مضبوط ترین کڑی یہ ہے کہ انسان کی دوستی اور دشمنی صرف اللہ ہی کے لئے ہو‘‘۔ (رواہ الطبرانی)۔
صوم و صلوٰۃ کی کثرت کے باوجود بھی اس کو ایمان کی لذت اور اس کی مٹھاس حاصل نہیں ہو سکے گی جب تک کہ وہ اپنے اندر محض اللہ تعالیٰ کے لئے دوسروں سے محبت، عداوت، دوستی اور دشمنی کی صفات پیدا نہ کرے
جیسا کہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت کرتا ہے، اس کے لئے بغض رکھتا ہے، اسی کے لئے خیرات دیتا اور اسی کے لئے روکتا ہے، اس کا ایمان مکمل ہو گیا‘‘۔
دنیوی غرض سے ایک دوسرے سے میل ملاپ بجائے فائدہ کے الٹا نقصان دے ہوتا ہے، اس کی وضاحت قرآن کریم میں موجود ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے‘‘۔ (الزخرف:۷۶) ۔
دنیوی اغراض کی بنا پر ایک دوسرے سے لین دین اور دوستی ایک فتنہ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دَور میں، جو بالاتفاق خیر القرون کہلاتا ہے، یہ بات مصیبت کا باعث بن گئی تھی اور آج تک اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ شرک و بدعت، فسق و فجور اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بنیاد پر دوستیاں قائم کی جارہی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل ارشاد حرف بحرف صادق آ رہا ہے کہ:
’’اسلام اپنے ابتدائی دَور میں اوپر اور اجنبی کی حیثیت میں تھا اور اس پر وہی اجنبیت کا دَور پھر لوٹ آئے گا‘‘۔(مسلم، ابن ماجہ، ترمذی)۔
مہاجرین و انصار، تمام صحابہء رسول رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خیر القرون میں سب کی یہ حالت تھی کہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کرنے کے ئے اپنی خاص اور اشد ضرورت کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ
(ترجمہ) ’’اور اپنی ذات پر دُوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘۔ (الحشر:۹)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں ہم سب لوگ اپنے درہم و دینار کے بارے میں اپنے آپ سے اپنے دُوسرے مسلمان بھائیوں کو زیادہ حقدار سمجھتے تھے‘‘ (ابن ماجہ)۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْأَسْبَابٌ قَالَ الْمَوَدَّۃ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کہ ’’ اور ان کے اسباب وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا ‘‘۔ کی یہ تفسیر کی ہے کہ اسباب کے معنی دوستی اور تعلقات ہیں ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کو عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے بھی نقل کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ معنی یہ کہ دُنیاوی محبت اور دوستی قیامت کے دن ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکے گی جبکہ میدانِ محشر میں اُن کو اس دوستی کی اشد ضرورت ہو گی۔ بلکہ وہاں تو ایک دُوسرے سے بیزاری اور قطع تعلق کا اظہار کریں گے۔ ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اور اس نے کہا تم نے دُنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانہ ہو گی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہو گا‘‘۔ (العنکبوت:۲۵)۔
قرآنِ کریم کی آیت:
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا وَرَاَوُ الْعَذَابَ کی تشریح میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’پیشوا ہدایت یافتہ اور سیدھے راستے پر تھے اور ان کی اتباع اور پیروی کرنے والوں نے دعویٰ تو یہ کیا کہ ان کے نقش قدم پر چلتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں لیکن صورتِ حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ رات دن اِن کی مخالفت کرتے اور بدعملی کا شکار رہے اور صرف زبانی محبت اور دوستی کو یہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو گا۔ قیامت کے روز اِن ہی بدعملوں سے وہ لوگ اپنی برات اور لا تعلقی کا علی الاعلان اظہار کریں گے کیونکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی محبت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہی صورتِ حال ہر اُس شخص سے پیش آئے گی جو غیر اللہ کو اپنا ولی اور دوست بناتا ہے، غیر اللہ کی وجہ سے دشمنی اور دوستی کرتا ہے۔ بغض و عناد کا معیار بھی غیر اللہ کی محبت ہوتا ہے۔ اس قسم کے تمام اعمال باطل ہیں اور قیامت کے دن یہی اعمال حسرت اور مایوسی کا ذریعہ ثابت ہوں گے کیونکہ اس بدنصیب شخص نے بڑی ہی محبت اور کدوکاوش سے اور تکلیفیں اٹھا کر یہ اعمال انجام دیئے تھے لیکن وہ اپنی دوستی اور دشمنی، محبت و عداوت اور دوسروں کی امداد و اعانت غیر اللہ کے لئے کرتا رہا، اور اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اطاعت کو پس پشت ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے تمام اعمال کو لغو اور باطل قرار دے دیا اور تمام اسباب جو غیر اللہ کی رضا کے لئے تھے سب توڑ دیئے گئے۔ پس ہر وہ ذرائع اور اسباب و وسائل جو غیر اللہ کی بنیاد پر ہوں گے منقطع ہو جائیںگے اور صرف ایک ہی سبب باقی اور قائم رہے گا جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو گا اور وہ یہ ہے کہ انسان تمام منہیات (منع کردہ اُمور) کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اِتباع اپنے اوپر لازم قرار دے لے اور تمام قسم کی عبادات کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے سرانجام دے، جیسے محبت اور عداوت، دوستی، دشمنی اور صدقات و خیرات، کسی سے قرب و بُعد حتی کہ اگر کسی کو کچھ نہ دے تو وہ بھی اللہ کی رضا کے لئے ہو اور تمام چھوٹے اور بڑے لوگوں کی اتباع اور پیروی کو چھوڑ کر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی اختیار کرے اور کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے چہ جائیکہ کسی کو مقامِ نبوت میں ان کا شریک بنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر کبھی بھی کسی دوسرے شخص کے قول کو ترجیح نہ دے، یہ وہ سبب ہے جو کبھی بھی منقطع نہ ہو گا۔ اللہ اور بندے کے درمیان یہی وہ نسبت ہے جسے کوئی منقطع نہیں کر سکتا۔ عبدیت کا یہی وہ مقام ہے جو اللہ کو انتہائی پسند اور محبوب ہے اور وہ ہے خالص عبودیت کی نسبت اور یہی اس کی خوراک کی جگہ ہے۔ وہ اسی کے اِرد گرد گھومتا ہے اور اسی کی طرف لوٹتا ہے اور یہ نسبت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی من کل الوجوہ پیروی، اتباع اور فرمانبرداری نہ کرے کیونکہ عبدیت کا یہ مقام انبیائے کرام کے واسطے سے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور اس کی پہچان اور معرفت بھی انبیاء کی زبان سے ہوئی۔ لہٰذا اِس عبدیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام تک رسائی بھی انبیائے کرم کی اِتباع کے بغیر ممکن نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’اور جو کچھ بھی اُن کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے‘‘۔ (الفرقان:۲۳)۔ یہ اُن اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے جو خلافِ سنت کئے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نہ تھے۔ ہر ایسے عمل کو، خواہ وہ پہاڑ سے بھی بڑا اور وزنی ہو، اس کو اللہ تعالیٰ ذرّوں کی طرح ہوا میں اُڑا دے گا اور صاحب ِ عمل کو اس کا قطعاً کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا۔ قیامت کے روز تمام حسرتوں اور ناکامیوں میں سب سے بڑی حسرت یہ ہو گی کہ انسان اپنی پوری پونجی، کامل محنت اور کدوکاوش سے کمائی ہوئی دولت کو ضائع اور برباد دیکھے خصوصاً جب وہ یہ دیکھے گا کہ کوشش کرنے والے اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے‘‘۔
فیہ مسائل
٭ اپنے اہل وعیال ، مال ودولت ، حتی کہ اپنی جان سے بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا وجوب۔ ٭کسی وقت ایمان کی نفی کی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ ٭ایمان کی حلاوت ضرور ہے لیکن کبھی انسان محسوس کرتاہے ۔ اور کبھی نہیں کرتا ۔ ٭یہ چار اعمال قلب ایسے ہیں جن کے بغیر انسان اﷲ کی محبت حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کے بغیر ایمان کا ذائقہ چکھ سکتا ہے ۔ ٭صحابہ کرام کا یہ محسوس کرنا کہ لوگوں کا زیادہ تر میل ملاپ صرف دنیا کی خاطر ہے ۔ ٭بعض مشرک بھی ایسے ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ۔ ٭مندرجہ آٹھ اشیاء جس کو دین سے زیادہ پیاری ہوں اس کو سخت وعید اور سزا سنانا ۔ ٭ کسی شخص کا اپنے باطل معبود سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے برابر محبت رکھنا ہی شرک ِ اکبر کہلاتا ہے