• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہائے ری تقلید! تیرا بیڑا غرق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110

سہج صاحب امید ہے عبداللہ حیدر صاحب کے ترجمے کے بعد آپ کو تسلی ہوگئی ہوگی کہ آپ کا پیش کردہ مسئلہ یا فوائد کے تحت لکھی گئی تحریر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نہیں ہے۔ اس لئے آپ کا اعتراض ختم ہوجاتا ہے لیکن ہمارا اعتراض قائم ہے کہ ابن نجیم اور وہ دیگر دیوبندی جنھوں نے بطور رضامندی کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ میں شمار کیا ہے شریعت سے لاعلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں۔
آپ کا پیش کردہ مسئلہ یا فوائد کے تحت لکھی گئی تحریر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نہیں ہے
السلام علیکم
شاہد نزیر صاحب یہ تو معلوم ہوگیا کہ میری پیش کردہ عبارت علامہ ناصر الدین رحمہ اللہ کی نہیں لیکن اس بات سے یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ خود آپ کے فرقہ اہل حدیث کی نگرانی میں تیار کی گئی کتاب میں اس طرح کی علمی غلطی کی گئی جس کا جواب یقیناً آپ حضرات پر ہی لازم ہے ۔علمی غلطی اسلئے کہ بھائی عبداللہ حیدر نے نشاندہی کی یہ کہہ کر کہ
یہ کتاب امام البانی کی "سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ" کا براہ راست ترجمہ نہیں ہے بلکہ ان کے ایک شاگرد مشہور بن حسن آل سلیمان نے سلسلۃ الصحیحہ کو فقہی ابواب پر جو تقسیم کیا ہے اسے اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ چنانچہ اس میں تخریج وغیرہ کی بحوث نہیں ملیں گی۔
کتاب کے ٹائٹل اور مقدمے میں واضح تذکرہ ہونا چاہیے کہ احادیث کے فوائد مترجم کے لکھے ہوئے ہیں، صرف احادیث کا متن امام البانی کی کتاب سے لیا گیا ہے، زیادہ بہتر ہوتا اگر اسے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور امام البانی کے نام سے پیش کرنے کی بجائے کسی دوسرے نام سے نشر کیا جاتا کیونکہ امام البانی کے تحریر کردہ طویل مباحث اس میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور نصف کے قریب کتاب مترجم کے اپنے لکھے ہوئے فوائد پر مشتمل ہے۔
اس لئے آپ کا اعتراض ختم ہوجاتا ہے
شاہد نزیر صاحب میرا اعتراض ختم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے ۔ کیسے ؟
ایسے
بیٹھ کر پیشاب کرنا مسنون اور راجح اور عمومی سنت ہے جبکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا خاص مقامات اور حالات کے ساتھ متعلق سنت ہے۔
بھائی صاحب میں بار بار ہی آپ سے پوچھ رہا تھا
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا ہوتا ہے ؟
جائز ؟ یا سنت؟ عام یا خاص ؟
جیسا کہ آپ کہتے رہے ہیں کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے تو پھر سنت نہ ہوا اور اگر سنت ہے تو پھر جائز کیسے ؟
یہی تضاد آپ کو نظر نہیں آتا ۔ یا پھر نظریں پھیر لیتے ہیں ۔ بہرحال اب صرف یہ بتادیں کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟" تاکہ واقعی اس تھریڈ کو تمام کیا جاسکے ۔
شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
جائز ؟ یا سنت؟ عام یا خاص ؟
جیسا کہ آپ کہتے رہے ہیں کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے تو پھر سنت نہ ہوا اور اگر سنت ہے تو پھر جائز کیسے ؟
یہی تضاد آپ کو نظر نہیں آتا ۔ یا پھر نظریں پھیر لیتے ہیں ۔ بہرحال اب صرف یہ بتادیں کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟" تاکہ واقعی اس تھریڈ کو تمام کیا جاسکے ۔
شکریہ
Sahj صاحب نجانے کس دیس کی زبان بولتے ہیں کہ جہاں جو جائز ہو وہ سنت نہیں ہو سکتی اور جو ناجائز ہو وہ سنت ہوتی ہے!! اور جو سنت ہو وہ ناجائز ہوتی ہے!!
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل فرض و واجب بھی ہو سکتا ہے ، مندوب و سنت بھی اور مباح و جائز بھی اور یہ بھی کہ صرف خاص حالات میں سنت و جائز ہو اور عام حالات میں خلاف سنت و ناجائز ہو ، اور یہ تمام امور قرآن و سنت سے اخذ ہونگے! یعنی کہ سنت سے ثبوت کسی عمل کو فرض و واجب بھی کرتا بھی کرتا ہے!!
لیکن شاید کہ اردو کی یہ تحریر آپ کو سمجھ نہ آسکے!! کب کہاں لفظ سنت سے کیا مفہوم مراد ہے!!
اسی لئے کہتے ہیں کہ
کچھ کھیل نہیں ہے داغ یارو سے یہ کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
شاہد بھائی،
میری دلچسپی کا محور صرف یہ ہے کہ کفر اور گستاخی کی بات کرنے سے پہلے پوری تحقیق کی جائے۔ علماء کہتے ہیں اگر کسی مسلمان کو کفر سے بچانے کا صرف ایک فیصد احتمال ہو تو ننانوے فیصد کو چھوڑ کر ایک فیصد کو اختیار کرنا چاہیے۔ ابن نجیم رحمہ اللہ نے البحر الرائق میں مسئلہ زیر بحث پر جمہور علماء کی رائے سے موافقت ظاہر کی ہے اور کھڑے ہونے والی احادیث کو عذر پر محمول کیا ہے۔ فی الحال یہ بحث چھوڑ دیجیے کہ انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ غلط بھی ہو تو اس کی وجہ سے گستاخی اور کفر کا فتویٰ لگانا زیادتی لگتی ہے کیونکہ مجتہد کو صواب و خطا دونوں صورتوں میں ایک ثواب بہرحال مل جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے رفع الملام میں اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ میں آپ سے پہلے بھی کسی جگہ عرض کر چکا ہوں کہ اس کتاب کا ایک دفعہ مطالعہ کر ہی لیجیے، بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی ان شاء اللہ۔اردو ترجمہ یہاں سے اتاریے:
http://www.asliahlesunnet.com/files/raf-ul-malaam.pdf
والسلام علیکم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم
شاہد نزیر صاحب یہ تو معلوم ہوگیا کہ میری پیش کردہ عبارت علامہ ناصر الدین رحمہ اللہ کی نہیں لیکن اس بات سے یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ خود آپ کے فرقہ اہل حدیث کی نگرانی میں تیار کی گئی کتاب میں اس طرح کی علمی غلطی کی گئی جس کا جواب یقیناً آپ حضرات پر ہی لازم ہے ۔علمی غلطی اسلئے کہ بھائی عبداللہ حیدر نے نشاندہی کی
سبحان اللہ!
علمی غلطی کا بھی اعتراف فرما رہے ہیں اور اس غلطی کے جواب کو بھی ہم پر لازم فرما رہے ہیں۔ اگر یہ تحریر لکھتے وقت آپ ہوش و ہواس میں نہیں تھے تو اب آجائیے۔ اور کسی سمجھ دار شخص (یاد رکھئے گا سمجھ دار شخص مقلد نہیں) سے معلوم کرلیں کہ غلطی کا جواب نہیں دیا جاتا۔بلکہ اعتراف غلطی اپنا جواب خود ہوتی ہے۔

شاہد نزیر صاحب میرا اعتراض ختم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے ۔ کیسے ؟
ایسے
آپ کی عجیب و غریب باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ میرے بھائی آپ کا اعتراض کہاں سے آگیا اور پھر مضبوط کیسے ہوگیا؟! شاید آپ کو یاد نہیں کہ یہ تھریڈ میرے مضمون پر مشتمل ہے جس میں، میں نے دیوبندیوں پر ایک اعتراض قائم کیا ہے۔ آپ کو پہلے اس اعتراض کا جواب دینا ہے۔ اس اعتراض کا جواب دئے بغیر آپ نے اپنا اعتراض کیسے قائم کرلیا؟

جس کو آپ بزعم خویش اعتراض کہہ رہے ہیں وہ اعتراض نہیں بلکہ موضوع سے بالکل غیر متعلق بحث ہے۔جس کا میں سابقہ پوسٹس میں تفصیلی جواب دے چکا ہوں۔ لیکن آپ نے اپنے روحانی استاد امین اوکاڑی کی طرح باربار جواب دئے گئے اعتراض کو دوبارہ پیش کرکے بددیانتی کی اچھی مثال قائم کی ہے۔

آپ سے درخواست ہے کہ موضوع پر رہتے ہوئے ہماری پہلی پوسٹ کا جواب عنایت فرمادیں جو ابتک آپ پر قرض ہے۔ آپ قرآن کی وہ آیت پیش کردیں یا پھر ایسی صحیح حدیث جس کی رو سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا گناہ ہو۔

جائز ؟ یا سنت؟ عام یا خاص ؟
جیسا کہ آپ کہتے رہے ہیں کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے تو پھر سنت نہ ہوا اور اگر سنت ہے تو پھر جائز کیسے ؟
یہی تضاد آپ کو نظر نہیں آتا ۔ یا پھر نظریں پھیر لیتے ہیں ۔ بہرحال اب صرف یہ بتادیں کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟" تاکہ واقعی اس تھریڈ کو تمام کیا جاسکے ۔
شکریہ
محترم تھریڈ کا موضوع یہ نہیں ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا سنت ہے؟ جائز ہے؟ کیا ہے؟۔ اس لئے آپ موضوع سے فرار کے بہانے نہ ڈھونڈیں اور صرف موضوع سے متعلق ہی بات کریں۔ویسے آپ خود ہی اس موضوع کو اختتام پذیر کرچکے ہیں یہ کہکر کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مجبوری میں جائز ہے۔ پس آپکا یہ اقرار و اعتراف ہی آپ کے اکابرین کو قابل اعتراض شخصیات بنا رہا ہے۔ آپ ضد چھوڑ دیں ۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم

جناب شاہد نذیر صاحب
امید ہے کہ بخیریت ہوں گے آپ ، اور میری طرح بے ہوش نہیں ہوں گے ؟ اسلئیے بھائی صاحب آپ اس تھریڈ میں میرا پہلا مراسلہ نمبر دس کو پڑھ لیں وہاں میں نے کیا لکھا تھا ۔اور اسکے بعد سے اب تک میں یہی پوچھ رہا ہوں کہ بھائیو مہربانو بے قدردانو غیر مقلدو وغیرہ وغیرہ آپ لوگ مجھے صرف یہ بتادو کہ کیسے
" کھڑے ھوکر پیشاب کرنا سنت ھے "
کیونکہ آپ نے اپنے لیڈنگ مراسلہ میں لکھا تھا
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل
، چونکہ آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو صحیح حدیث سے "جائز" ثابت کررہے ہیں تو جناب پھر یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟" ۔
ابن داؤد صاحب لکھتے ہیں
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل فرض و واجب بھی ہو سکتا ہے ، مندوب و سنت بھی اور مباح و جائز بھی اور یہ بھی کہ صرف خاص حالات میں سنت و جائز ہو اور عام حالات میں خلاف سنت و ناجائز ہو ، اور یہ تمام امور قرآن و سنت سے اخذ ہونگے! یعنی کہ سنت سے ثبوت کسی عمل کو فرض و واجب بھی کرتا بھی کرتا ہے!!
تو بھائی جان ابن داؤد یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اس صحیح حدیث سے جو عمل ثابت ہوا وہ عام سنت ہے یا خاص سنت ؟ جائز ہے یا مباح ؟ اس تشریح کے لئے پھر آپ غیر مقلدوں کو امتیوں کے در کھٹکانے پڑے گے ۔ کوئی کہے گا سنت ہے ،کوئی کہے گا جائز ہے ، کوئی کہے گا خاص سنت ہے ، اور کوئی کہے گا کہ گناہ صغیرہ ۔ ۔ آپ کی دلیلوں کے مطابق تو ایسا ہونا چاھئیے کہ آپ لوگ صرف قرآن اور حدیث کے فیصلہ کو مانیں ۔ یعنی قرآن بتائے کہ یہ عمل سنت فرض واجب یا مباح ہے یا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود درجہ بندی فرمائیں کہ یہ عمل میری سنت ہے اور وہ عمل خاص سنت ہے اور یہ عمل واجب ہے ۔ کیوں بھائی ایسا ہی ہونا چاھئیے ناں ؟ لیکن آپ لوگ ایک امام کو چھوڑ کر سینکڑوں مانتے ہو یہی وجہ ہے کہ اسی تھریڈ میں دیکھ لیجئے ابھی تک آپ لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے یا سنت ۔ کوئی کہتا ہے سنت کوئی کہتا ہے خاص سنت کوئی جائز ،کوئی کہتا ہے چاہے کھڑے ہوکر پیشاب کرو یا بیٹھ کر برابر ہے ۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتارہا کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے؟"

شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم

جناب شاہد نذیر صاحب
امید ہے کہ بخیریت ہوں گے آپ ، اور میری طرح بے ہوش نہیں ہوں گے ؟ اسلئیے بھائی صاحب آپ اس تھریڈ میں میرا پہلا مراسلہ نمبر دس کو پڑھ لیں وہاں میں نے کیا لکھا تھا ۔اور اسکے بعد سے اب تک میں یہی پوچھ رہا ہوں کہ بھائیو مہربانو بے قدردانو غیر مقلدو وغیرہ وغیرہ آپ لوگ مجھے صرف یہ بتادو کہ کیسے کیونکہ آپ نے اپنے لیڈنگ مراسلہ میں لکھا تھا ، چونکہ آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو صحیح حدیث سے "جائز" ثابت کررہے ہیں تو جناب پھر یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ
بھائی آپ کو سمجھانا تین وجوہات کی بنا پر بہت مشکل ہے۔ اول آپ جاہل ہو جس کا بارہا اقرار آپ خود کرچکے ہو۔دوم آپ مقلد ہو اور مقلد جاہل ہی کو کہتے ہیں ۔ سوم آپ امین اوکاڑوی کے روحانی شاگرد ہو اور امین اوکاڑوی خود کوئی عالم نہیں تھے بلکہ ایک سرکاری پرائمری اسکول میں ماسٹری کرتے تھ۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غیر عالم امین اوکاڑوی کی دینی سمجھ کیا تھی اور پھر اس کے شاگرد کس قدر دین کو سمجھتے ہونگے۔

میں باربار عرض کر رہا ہوں لیکن آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا بلکہ آپ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ سمجھنے کی صورت میں شکست جو نظر آرہی ہے۔آپ میرے مضمون کے عنوان پر غور کرو جو ’’ہائے ری تقلید تیرا بیڑا غرق‘‘ ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب انسان مقلد بن جاتا ہے تو اس کے مطمع نظر صرف اسکے مذہب کا دفاع ہوتا ہے شریعت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اور تقلید کی وجہ سے وہ عقل سلیم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور تعصب،بے عقلی اور اندھی تقلید کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کے خلاف آنے والی احادیث کا مذاق اڑاتا ہے انکی توہین کرتا ہے جس کی زد میں بڑی بڑی ہستیاں بشمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آجاتی ہیں۔ اپنے اسی دعویٰ کے ثبوت میں، میں نے ابن نجیم کی وہ عبارت پیش کی ہے جس کی براہ راست زد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑتی ہے۔

ہر ذی فہم اور تھوڑی سی عقل رکھنے والا شخص بھی سوائے متعصب مقلد کے سمجھ سکتا ہے کہ مضمون میں تقلید کا ایک بڑا نقصان بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے حکم کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ اب اصل موضوع کو چھوڑ کر جو شخص غیرمتعلق باتوں کے پیچھے پڑ جائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس اس موضوع کا کوئی جواب نہیں ہے۔

آپ کی جو پہلی پوسٹ ہے اسی میں آپ نے خلط مبحث سے کام لیا ہے۔ آپ کو تو یہ بتانا ہی نہیں تھا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے یا سنت اور نہ ہی یہ سوال آپ کو ہم سے کرنا تھا۔ آپ کو تو سیدھا سیدھا ابن نجیم کے دعوے کا ثبوت فراہم کرنا تھا جس میں آپ اب تک مکمل طور پر ناکام ہو اور ہمیشہ ناکام رہوگے۔ان شاء اللہ۔بس یہی آپ کی شکست فاش کی دلیل ہے۔ باقی آپ کی جو غیرمتعلق بحث ہے اس کا بھی ہم نے تفصیلی اور تسلی بخش جواب دے دیا ہے۔ اگر آپ مزید اسی غیرمتعلق مسئلہ پر ہم سے بحث کرنا چاہتے ہوتو ہم تیار ہیں لیکن پہلے اصل موضوع کا جواب دے دو۔

"صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟" ۔
آپ کے اکابر یوسف لدھیانوی کے مطابق صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل سنت کہلاتا ہے۔ دیکھئے: یوسف لدھیانوی صاحب فرماتے ہیں: جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں، وہ سب سنتیں کہلائیں گی۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)

حالانکہ یہ جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں۔ لیکن جھوٹ بولنے اور مغالطہ دینے کی آپ نے کسی سے خاص ترتیب حاصل کی ہے۔ اس لئے آپ بار بار جواب دئے گئے سوال دہراتے رہتے ہیں۔ آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو سنت نہیں سمجھتے جبکہ یوسف لدھیانوی کی تصریح سے یہ عمل سنت ثابت ہوتا ہے۔ اب آپ یوسف لدھیانوی کو غلط کہوگے یا خود کو؟
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
آپ کے اکابر یوسف لدھیانوی کے مطابق صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل سنت کہلاتا ہے۔ دیکھئے: یوسف لدھیانوی صاحب فرماتے ہیں: جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں، وہ سب سنتیں کہلائیں گی۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)

حالانکہ یہ جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں۔ لیکن جھوٹ بولنے اور مغالطہ دینے کی آپ نے کسی سے خاص ترتیب حاصل کی ہے۔ اس لئے آپ بار بار جواب دئے گئے سوال دہراتے رہتے ہیں۔ آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو سنت نہیں سمجھتے جبکہ یوسف لدھیانوی کی تصریح سے یہ عمل سنت ثابت ہوتا ہے۔ اب آپ یوسف لدھیانوی کو غلط کہوگے یا خود کو؟
السلام علیکم
جناب شاہد نذیر صاحب آپ نے یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کی ادھوری عبارت پیش کی ہے جس سے آپ اپنی مرضی کا معنی نکالنے کی ناکام کوشش فرمارہے ہیں ۔ آپ پہلے متعالقہ پوری عبارت دیکھ لیجئے تاکہ آپ کو سمجھ آجائے کہ جس عبارت کو آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو "سنت" ثابت کرنے کے لئے پیش کررہے ہیں اس سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سنت ثابت نہیں ہوتا۔
اول:یہ کہ جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں ، وہ سب سنت کہلائیں گی ، ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے دوسری کو “بدعت “ کہنا جائز نہیں ، الا یہ کہ ان میں سے اک منسوخ ہو۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین باالجہر بھی ثابت ہے اور آہستہ بھی ۔۔۔۔۔لہٰزہ یہ دونوں سنت ہیں، اور ان میں سے کسی ایک کو “بدعت “ کہہ کر اس کی مخالفت جائز نہیں۔
دوم : ایک کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول تھا، مگر دوسرا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک آدھ مرتبہ کیا ، اس صورت میں اصل “سنت“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول ہوگا، مگر دوسرے کام کو بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے لئے کیا ، “بدعت“ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ اسے “ جائز“ کہیں گے اگرچہ اصل سنت وہی ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عمل فرمایا۔


اب آپ جناب شاہد نزیر صاحب صرف یہ بتادیں کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے؟"۔
قرآن پیش کریں یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس سے ثابت ہو کر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے یا سنت ۔ یہ اسی صورت آپ کرسکتے ہیں جناب کہ جب آپ یہ بتادیں کہ
"صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے؟" ۔

پریشانی آپ کے لئے یہی ہے جناب کہ آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو "سنت " مانتے ہیں جب کہ ہم اہل سنت والجماعت کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو بحالت مجبوری "جائز" مانتے ہیں یعنی اصل سنت جو کہ باعث ثواب ہے وہ ہے بیٹھ کر پیشاب کرنا اور کھڑے ہوکر پیشاب صرف مجبوری کی حالت میں جائز ہے ۔ اگر عادتاً کھڑے ہوکر پیشاب کیا جائے تو پھر وہ باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ صغیرہ ہے۔ یہی بات علماء اہل سنت بتاتے ہیں ۔
جبکہ آپ جس عمل کو سنت کہتے ہو یا جائز دونوں آپ کی دلیل کے مطابق نہیں ہیں ۔ اسی لئے پوچھتا ہوں بار بار آپ سے کہ حضور بتادیجئے کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے؟"
شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اسی لئے آپ پہلے ہی اندیشہ بیان کر دیا تھا اور آپ واقعی نہیں سمجھ پائے!!
لیکن شاید کہ اردو کی یہ تحریر آپ کو سمجھ نہ آسکے!! کب کہاں لفظ سنت سے کیا مفہوم مراد ہے!!
اسی لئے کہتے ہیں کہ
کچھ کھیل نہیں ہے داغ یارو سے یہ کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
تو بھائی جان ابن داؤد یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اس صحیح حدیث سے جو عمل ثابت ہوا وہ عام سنت ہے یا خاص سنت ؟ جائز ہے یا مباح ؟ اس تشریح کے لئے پھر آپ غیر مقلدوں کو امتیوں کے در کھٹکانے پڑے گے ۔ کوئی کہے گا سنت ہے ،کوئی کہے گا جائز ہے ، کوئی کہے گا خاص سنت ہے ، اور کوئی کہے گا کہ گناہ صغیرہ ۔ ۔ آپ کی دلیلوں کے مطابق تو ایسا ہونا چاھئیے کہ آپ لوگ صرف قرآن اور حدیث کے فیصلہ کو مانیں ۔ یعنی قرآن بتائے کہ یہ عمل سنت فرض واجب یا مباح ہے یا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود درجہ بندی فرمائیں کہ یہ عمل میری سنت ہے اور وہ عمل خاص سنت ہے اور یہ عمل واجب ہے ۔ کیوں بھائی ایسا ہی ہونا چاھئیے ناں ؟
اور جناب یہ بات بھی آپ کو پہلے ہی بتلا دی ہے کہ یہ تعین قرآن و حدیث کے دلائل سے ہی کیا جائے گا!!
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل فرض و واجب بھی ہو سکتا ہے ، مندوب و سنت بھی اور مباح و جائز بھی اور یہ بھی کہ صرف خاص حالات میں سنت و جائز ہو اور عام حالات میں خلاف سنت و ناجائز ہو ، اور یہ تمام امور قرآن و سنت سے اخذ ہونگے! یعنی کہ سنت سے ثبوت کسی عمل کو فرض و واجب بھی کرتا بھی کرتا ہے!!
اور جو ان احکامات کو اخذ نہ کرسکتا ہو اسے حکم ہے کہ :
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَا
ور ہماری دلیلوں کے مطابق ہر دینی امر کی دلیل کتاب و سنت سے ہونی چاہئے!!
۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتارہا کہ "صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے؟"
آپ کے اس سوال کا جواب! دیا جا چکا ہے!! اگر اس پر کوئی نقد کر سکتے ہو تو دلیل کے ساتھ کر کے بتلائیے!!
جواب ایک بار پھر درج کئے دیتا ہوں:
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل فرض و واجب بھی ہو سکتا ہے ، مندوب و سنت بھی اور مباح و جائز بھی اور یہ بھی کہ صرف خاص حالات میں سنت و جائز ہو اور عام حالات میں خلاف سنت و ناجائز ہو ، اور یہ تمام امور قرآن و سنت سے اخذ ہونگے! یعنی کہ سنت سے ثبوت کسی عمل کو فرض و واجب بھی کرتا بھی کرتا ہے!!
اول:یہ کہ جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں ، وہ سب سنت کہلائیں گی [/HL]، ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے دوسری کو “بدعت “ کہنا جائز نہیں ، الا یہ کہ ان میں سے اک منسوخ ہو۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین باالجہر بھی ثابت ہے اور آہستہ بھی ۔۔۔۔۔لہٰزہ یہ دونوں سنت ہیں، اور ان میں سے کسی ایک کو “بدعت “ کہہ کر اس کی مخالفت جائز نہیں۔
دوم : ایک کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول تھا، مگر دوسرا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک آدھ مرتبہ کیا ، اس صورت میں اصل “سنت“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول ہوگا، مگر دوسرے کام کو بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے لئے کیا ، “بدعت“ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ اسے “ جائز“ کہیں گے اگرچہ اصل سنت وہی ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عمل فرمایا۔
مندرجہ بالا اقتباس میں خاکی رنگ کے الفاظ پر غور کریں!! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت عمل صرف منسوخ ہونے کی صورت میں ہی سنت نہیں رہے گا!! یعنی کہ سنت منسوخہ ہو جائے گا!!
رہی بات دوم کی تو مولانا یوسف لدھیانوی صاحب بھی علم الکلام میں غوطہ لگاتے لگاتے کلام میں غلطی کر گئے!! کیونکہ اگر دوم کو بالفرض محال تسلیم کر لیا جائے تو اول کی نفی لازم آتی ہے!!
نقص تو اور بھی ہے مگر پیش کردہ کلام کو باطل ثابت کرنے کے لئے اتنا کافی ہے !!
صحیح بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک کام مستحب ہو اور دوسرے کا جواز ہو یعنی جائز ہو جبکہ دونوں سنت سے ثابت ہوں !!
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اسی لئے آپ پہلے ہی اندیشہ بیان کر دیا تھا اور آپ واقعی نہیں سمجھ پائے!!



اور جناب یہ بات بھی آپ کو پہلے ہی بتلا دی ہے کہ یہ تعین قرآن و حدیث کے دلائل سے ہی کیا جائے گا!!

اور جو ان احکامات کو اخذ نہ کرسکتا ہو اسے حکم ہے کہ :
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَا
ور ہماری دلیلوں کے مطابق ہر دینی امر کی دلیل کتاب و سنت سے ہونی چاہئے!!

آپ کے اس سوال کا جواب! دیا جا چکا ہے!! اگر اس پر کوئی نقد کر سکتے ہو تو دلیل کے ساتھ کر کے بتلائیے!!
جواب ایک بار پھر درج کئے دیتا ہوں:



مندرجہ بالا اقتباس میں خاکی رنگ کے الفاظ پر غور کریں!! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت عمل صرف منسوخ ہونے کی صورت میں ہی سنت نہیں رہے گا!! یعنی کہ سنت منسوخہ ہو جائے گا!!
رہی بات دوم کی تو مولانا یوسف لدھیانوی صاحب بھی علم الکلام میں غوطہ لگاتے لگاتے کلام میں غلطی کر گئے!! کیونکہ اگر دوم کو بالفرض محال تسلیم کر لیا جائے تو اول کی نفی لازم آتی ہے!!
نقص تو اور بھی ہے مگر پیش کردہ کلام کو باطل ثابت کرنے کے لئے اتنا کافی ہے !!
صحیح بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک کام مستحب ہو اور دوسرے کا جواز ہو یعنی جائز ہو جبکہ دونوں سنت سے ثابت ہوں !!
ابن داؤد صاحب السلام علیکم
مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی پوری عبارت پیش کی تھی اسلئیے کہ آپ کے غیر مقلد مجتہد صاحب نے ادھوری عبارت پیش کرکے تمام غیر مقلدوں کو مجبور کردیا تھا کہ وہ انکی تقلید کریں ۔
آپ نے جو باتیں کی ہیں انہیں آپ خود بھی نہیں سمجھتے جناب ۔ اسلئیے زیادہ محنت نہ کیجئے اور کسی اہل علم سے پوچھ لیجئے بغیر دلیل ، کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟ سنت یا جائز؟ بس اتنا سا سوال ہے میرا اور آپ تمام نام نہاد غیر مقلدین کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں ؟ بھائیو اتنا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مہربانی فرمائیں اور اب بتا ہی دیجئے کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟ سنت یا جائز؟۔یہ یاد رکھئیے گا جناب ابن داؤد صاحب آپ کی دوہی دلیلیں ہیں ایک قرآن اور ایک حدیث ۔۔۔۔ٹھیک ؟ اب جلدی سے بتادو کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟ سنت یا جائز؟ بغیر امتی کی رائے کے کیونکہ امتی کی رائے پر عمل کرنا یا قبول کرنا آپ غیر مقلدین کے ہاں شرک اور کفر ہے ناں؟ اسلئے شاباش ایسی آیت پیش کریں جس سے معلوم ہو کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟ سنت یا جائز؟ یا پھر فرمان نبی پیش کریں جس سے معلوم ہو کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟ سنت یا جائز؟ اور یہ بھی یاد رہے جناب ابن داؤد صاحب کہ آپ کے ہاں صحابہ کی رائے بھی حجت نہیں ہے ۔ یقین کریں یہ آپ کے اکابرین کا وہ قول ہے جس پر آپ لوگ عمل کرکے مشرکوں والا کام کررہے ہیں یعنی بغیر دلیل کے اندھادھند اس قول کو حجت مان کر کفر و شرک کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ارے غصے نہیں ہونا بھائی صاحب ابن داؤد دل دکھانے کی معافی مانگتا ہوں ۔ چلیں ایسا کریں اس بارے میں بھی قرآن اور حدیث پیش کردیں جس میں صاف صاف لکھا ہو کہ قول صحابی یا فہم صحابی حجت نیست۔ ٹھیک ؟ تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ لوگ اندھا دھند تقلید کی لعنت میں لتھڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ پکے غیر مقلد ہیں ، اور وہی بات کرتے لکھتے بتاتے ہیں جو براہ راست قرآن یا حدیث سے پاتے ہیں اور کسی بھی امتی کی اپنی رائے سے کہی ہوئی کسی بھی بات کو بلکل نہیں مانتے ۔
آخری بات بھائی صاحب ابن داؤد ! بھول نا جانا یہ بتانا کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل کیا کہلاتا ہے ؟ سنت یا جائز؟

والسلام
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top