• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہائے ری تقلید! تیرا بیڑا غرق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
سہج صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا عام سنت ہے یا خاص یہ ہمارا موضوع نہیں ہے اور آپ نے یہ بحث چھیڑی ہی اس غرض سے تھی کہ اصل موضوع سے فرار حاصل کیا جائے۔اس کے باوجود بھی ہم نے آپ کے ہر مغالطے کا جواب دیا پڑھنے والے اس حقیقت سے پوری طرح باخبرہیں۔ آپکے حالیہ مغالطات کا جواب میں اس لئے نہیں دے رہا کہ ان کے جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں لیکن آپ اوکاڑوی کلچر کے تربیت یافتہ صرف اسی میں اپنی خیریت سمجھتے ہو کہ "میں نہ مانوں" کی پالیسی پر گامزن رہو اور جواب ملنے پر بھی ایک ہی سوال کو باربار دھراتے رہو۔تاکہ معلوم ہے کہ ابھی آپ کے سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔ مقلدین کے سوال کرنے کی عادت کو تو اسی وقت بریک لگے گی جب ان سے سوال ہوگا۔ تمہارا دین کیا ہے،تمہارا رب کون ہے اور ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔

اس مضمون کا موضوع یہ تھا کہ حنفی عالم نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ کہا ہے جبکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ کسی صورت گناہ نہیں ہوسکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ہے اور حنفی عالم نے اور اس کی تائید میں دیوبندیوں نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح گستاخی کا ارتکاب کیا ہے۔ مقلدین سے ہمارا مطالبہ تھا کہ وہ دلیل پیش کرو جس سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا گناہ ثابت ہوتا ہو۔ مقلدین بشمول سہج صاحب کوئی دلیل تو پیش کرنے سے عاجز رہے البتہ انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا بحالت مجبوری جائز ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ابن نجیم اور دیوبندی علماء جنھوں نے ابن نجیم کے اس فتویٰ کی تائید کی ہے، شریعت سے جاہل اور نبی علیہ السلام کے گستاخ ہیں۔ سہج صاحب کے اس اعتراف کے بعد منطقی طور پر یہاں جاری بحث اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔والحمداللہ
السلام علیکم
شاہد نزیر صاحب اگر آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو صغیرہ گناہ کہنے والوں کو گستاخ کہتے ہیں تو پھر فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی فرمادیجئے (کہ یہ صاحب گستاخی کے کس درجہ پر ہیں آپ کی نظر میں) کیونکہ آپ اس تھریڈ کا اختتام تو آپ کرہی چکے ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سلسلہ احادیث صحیحہ میں “فائدے“ میں لکھتے ہیں ۔
““رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہی تھا کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے بغیر عذر کے آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کبھی نہیں کیا۔ بعض مسلمان مغرب کی نقالی میں حیوانوں کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں جو کہ سراسر سنت سے انحراف ہے۔“


اسکے بعد ضد کو چھوڑ کر اگر غور کریں گے تو آپ کو یہ حدیث عن عائشہ قالت من حدثک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بال قائمًا فلا تصدقہ انا رایئتہ یبول قاعدًا ہی آخری فیصلہ نظر آئے گا ۔ اگر ضد نہ چھوڑ سکیں تو کوئی بات نہیں ۔ لیکن آپ نے ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی بات کے بارے میں ضرور رائے دینا ہے ۔

شکریہ
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
Sahj بھائی، بڑے عرصے بعد تشریف آوری ہوئی ہے۔

سلسلسۃ الاحادیث الصحیحۃ کے نام سے جو کتاب اردو میں چھپ رہی ہے، اس پر میں نے یہاں پر یہ تبصرہ کیا تھا:
یہ کتاب امام البانی کی "سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ" کا براہ راست ترجمہ نہیں ہے بلکہ ان کے ایک شاگرد مشہور بن حسن آل سلیمان نے سلسلۃ الصحیحہ کو فقہی ابواب پر جو تقسیم کیا ہے اسے اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ چنانچہ اس میں تخریج وغیرہ کی بحوث نہیں ملیں گی۔
کتاب کے ٹائٹل اور مقدمے میں واضح تذکرہ ہونا چاہیے کہ احادیث کے فوائد مترجم کے لکھے ہوئے ہیں، صرف احادیث کا متن امام البانی کی کتاب سے لیا گیا ہے، زیادہ بہتر ہوتا اگر اسے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور امام البانی کے نام سے پیش کرنے کی بجائے کسی دوسرے نام سے نشر کیا جاتا کیونکہ امام البانی کے تحریر کردہ طویل مباحث اس میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور نصف کے قریب کتاب مترجم کے اپنے لکھے ہوئے فوائد پر مشتمل ہے۔
محدث لائبریری میں کتاب کے تعارف میں یہ وضاحت شامل کی جانی چاہیے تا کہ کوئی ایسی چیز شیخ کی طرف منسوب نہ ہو جو انہوں نے نہیں کہی۔۔ شاکر بھائی اور کلیم حیدر بھائی توجہ کریں۔
سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ میں شیخ نے اس حدیث پر جو بحث کی ہے وہ مترجم کے لکھے ہوئے فوائد کے بالکل الٹ ہے۔
واعلم أن قول عائشة إنما هو باعتبار علمها، وإلا فقد ثبت في " الصحيحين "
وغيرهما من حديث حذيفة رضي الله عنه قال:
" أتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما ".
ولذلك فالصواب جواز البول قاعدا وقائما، والمهم أمن الرشاش، فبأيهما حصل
وجب.
وأما النهي عن البول قائما فلم يصح فيه حديث، مثل حديث " لا تبل قائما " وقد
تكلمت عليه في " الأحاديث الضعيفة " رقم (938) .
والسلام علیکم
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم،
Sahj بھائی، بڑے عرصے بعد تشریف آوری ہوئی ہے۔

سلسلسۃ الاحادیث الصحیحۃ کے نام سے جو کتاب اردو میں چھپ رہی ہے، اس پر میں نے یہاں پر یہ تبصرہ کیا تھا:

محدث لائبریری میں کتاب کے تعارف میں یہ وضاحت شامل کی جانی چاہیے۔ شاکر بھائی اور کلیم حیدر بھائی توجہ کریں۔ تا کہ کوئی ایسی چیز شیخ کی طرف منسوب نہ ہو جو انہوں نے نہیں کہی۔
سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ میں شیخ نے اس حدیث پر جو بحث کی ہے وہ مترجم کے لکھے ہوئے فوائد کے بالکل الٹ ہے۔
واعلم أن قول عائشة إنما هو باعتبار علمها، وإلا فقد ثبت في " الصحيحين "
وغيرهما من حديث حذيفة رضي الله عنه قال:
" أتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما ".
ولذلك فالصواب جواز البول قاعدا وقائما، والمهم أمن الرشاش، فبأيهما حصل
وجب.
وأما النهي عن البول قائما فلم يصح فيه حديث، مثل حديث " لا تبل قائما " وقد
تكلمت عليه في " الأحاديث الضعيفة " رقم (938) .
والسلام علیکم
واعلیکم السلام بھائی عبداللہ حیدر
کیسے ہیں آپ ؟ امید ہے اللہ کے فضل و کرم سے بخیریت ہوں گے ۔
آپ نے علامہ ناصر الدین البانی صاحب کی جو عبارت پیش کی ہے اسکا ترجمہ کردیجئے تاکہ مجھے سمجھنا آسان ہوجائے ۔
دعا میں یاد رکھئے گا

والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم
شاہد نزیر صاحب اگر آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو صغیرہ گناہ کہنے والوں کو گستاخ کہتے ہیں تو پھر فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی فرمادیجئے (کہ یہ صاحب گستاخی کے کس درجہ پر ہیں آپ کی نظر میں) کیونکہ آپ اس تھریڈ کا اختتام تو آپ کرہی چکے ہیں ۔
محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے منسوب یہ عبارت میں نے کچھ عرصہ پہلے حق فورم پر دیکھی تھی۔ اور میں منتظر تھا کہ کب کوئی وہاں سے دیکھ کر یہاں اعتراض کرتا ہے۔ بہرحال عبداللہ حیدر بھائی نے جو اشارہ کیا ہے کہ مذکورہ فائدہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے ثابت نہیں یا ان کا تحریر کردہ نہیں اگر ثابت ہوجائے تو پھر آپ کا اعتراض بے معنی ہوجائےگا۔ آپ کی طرح میں بھی منتظر ہوں کہ عبداللہ حیدر بھائی اپنی پیش کردہ عبارت کا ترجمہ کب پیش کرتے ہیں اس کے بعد ہی میں اس مسئلہ پر میں کچھ کہنے کے قابل ہوسکوں گا۔

اسکے بعد ضد کو چھوڑ کر اگر غور کریں گے تو آپ کو یہ حدیث عن عائشہ قالت من حدثک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بال قائمًا فلا تصدقہ انا رایئتہ یبول قاعدًا ہی آخری فیصلہ نظر آئے گا ۔ اگر ضد نہ چھوڑ سکیں تو کوئی بات نہیں ۔ لیکن آپ نے ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی بات کے بارے میں ضرور رائے دینا ہے ۔

شکریہ
الحمداللہ ہم بالکل بھی ضدی نہیں بلکہ دلائل صحیحہ سے جو بات ثابت ہوجائے اسے فورا اور بلا چوں چراں مان لیتے ہیں۔الحمداللہ
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
واعلم أن قول عائشة إنما هو باعتبار علمها، وإلا فقد ثبت في " الصحيحين "
وغيرهما من حديث حذيفة رضي الله عنه قال:
" أتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما ".
ولذلك فالصواب جواز البول قاعدا وقائما، والمهم أمن الرشاش، فبأيهما حصل
وجب.
وأما النهي عن البول قائما فلم يصح فيه حديث، مثل حديث " لا تبل قائما " وقد
تكلمت عليه في " الأحاديث الضعيفة " رقم (938)
؂
ترجمہ:
جان لیجیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ان کے علم کے اعتبار سے ہے (یعنی انہوں نے وہ بات کی ہے جو ان کے علم میں تھی)۔ ورنہ صحیحین وغیرہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
"نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک قوم کے سباطہ پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا"
اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ پیشاب کھڑے ہو کر کیا جائے یا بیٹھ کر دونوں طرح درست ہے، اصل اہمیت چھینٹوں سے بچنے کو ہے، یہ (کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر) جیسے بھی حاصل ہو ویسا کرنا واجب ہے۔
جہاں تک کھڑےہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جیسا کہ حدیث بیان کی جاتی ہے "کھڑے ہو کر پیشاب مت کرو"۔ میں نے سلسلہ الضعیفہ رقم 938 کے تحت اس پر بات کی ہے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
سلفی منہج پر چلنے والے علماء کہتے ہیں کہ اصل مقصد ناپاک چھینٹوں سے بچاؤ ہے، اگر بیٹھ کر پیشاب کرنے سے چھینٹوں سے بچاؤ ممکن ہو اور کھڑے ہونے سے ممکن نہ ہو تو کھڑے ہو کر کرنا جائز نہیں اور جہاں کھڑے ہو کر بچاؤ ہو سکے اور بیٹھ کر نہ ہو سکے تو وہاں بیٹھ کر کرنا جائز نہیں بلکہ جس طرح بھی چھینٹوں سے بچا جا سکے وہی صورت اختیار کرنی چاہیے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم أن قول عائشة إنما هو باعتبار علمها، وإلا فقد ثبت في " الصحيحين " وغيرهما من حديث حذيفة رضي الله عنه قال: " أتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما ". ولذلك فالصواب جواز البول قاعدا وقائما، والمهم أمن الرشاش، فبأيهما حصل وجب.
وأما النهي عن البول قائما فلم يصح فيه حديث، مثل حديث " لا تبل قائما " وقد تكلمت عليه في " الأحاديث الضعيفة " رقم (938)

ترجمہ:
"جان لیجیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ان کے علم کے اعتبار سے ہے (یعنی انہوں نے وہ بات کی ہے جو ان کے علم میں تھی)۔ ورنہ صحیحین وغیرہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
"نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک قوم کے سباطہ پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا"
اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ پیشاب کھڑے ہو کر کیا جائے یا بیٹھ کر دونوں طرح درست ہے، اصل اہمیت چھینٹوں سے بچنے کو ہے، یہ (کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر) جیسے بھی حاصل ہو ویسا کرنا واجب ہے۔
جہاں تک کھڑےہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جیسا کہ حدیث بیان کی جاتی ہے "کھڑے ہو کر پیشاب مت کرو"۔ میں نے سلسلہ الضعیفہ رقم 938 کے تحت اس پر بات کی ہے۔"
ہمارے بعض حنفی بھائیوں نے اس مسئلے میں بے جا شدت اختیار کی ہے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا جواز تسلیم کرنے کی وجہ سے سلفیوں پر سخت تنقید کی ہے۔ (اس کی ایک مثال حق فورم پر اس بارے میں کی جانے والی ناحق باتیں ہیں)۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے بارے فقہائے امت کے موقف کا ایک جائزہ پیش کر دیا جائے تا کہ مسلمانوں کے بیچ پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے اور فقہی مسائل کی وجہ سے ایکدوسرے کو کافر اور خارج از ملت ٹھہرانے کی روش میں تبدیلی آئے۔
جمہور علمائے کرام کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے کیونکہ عمومًا اس طرح چھینٹوں سے بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن اگر کوئی عذر مانع ہو جیسے کوئی شخص بیمار ہو اور بیٹھ نہ سکے یا کسی ایسی جگہ پر ہو جہاں بیٹھنے سے چھینٹیں پڑنے کا احتمال ہو تو تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں کھڑے ہو کر فراغت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مالکیہ کا موقف:
مالکیہ نے اس بارے میں جو تفصیل لکھی ہے وہ دوسری کسی فقہ کی کتاب میں نہیں ملی۔ ان کا موقف یہ ہے:
إِنْ كَانَ الْمَكَانُ رَخْوًا طَاهِرًا كَالرَّمَل جَازَ فِيهِ الْقِيَامُ، وَالْجُلُوسُ أَوْلَى لأَِنَّهُ أَسْتَرُ، وَإِنْ كَانَ رَخْوًا نَجِسًا بَال قَائِمًا مَخَافَةَ أَنْ تَتَنَجَّسَ ثِيَابُهُ، وَإِنْ كَانَ صُلْبًا طَاهِرًا تَعَيَّنَ الْجُلُوسُ لِئَلاَّ يَتَطَايَرَ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنَ الْبَوْل، وَإِنْ كَانَ صُلْبًا نَجِسًا تَنَحَّى عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ وَلاَ يَبُول فِيهِ قَائِمًا وَلاَ قَاعِدًا
حاشية الدسوقي 1 / 104، 107، والحطاب 1 / 267 بحوالہ الموسوعۃ الفقہیہۃ الکویتیہ)

"پیشاب کرنے کی جگہ اگر نرم اور پاک ہو (جہاں چھینٹے اڑنے کا ڈر نہ ہو) جیسے ریت وغیرہ تو اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے اور بیٹھ کر کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ستر پوشی زیادہ ہے۔ اور اگر جگہ نرم لیکن ناپاک ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا چاہیے تا کہ (وہاں موجود) گندگی کپڑوں کو نہ لگے، اور اگر جگہ سخت اور پاک ہو تو بیٹھ کر کرنا چاہیے تا کہ پیشاب کی چھینٹیں اڑ کر اس پر نہ پڑیں۔ اور اگر جگہ سخت اور ناپاک ہو تو وہاں سےہٹ کر دوسری جگہ تلاش کرنی چاہیے، وہاں کھڑے یا بیٹھ کر کسی بھی صورت پیشاب نہیں کرنا چاہیے۔"
حنابلہ:
حنابلہ کا عام جمہور کی رائے مطابق ہے البتہ الانصاف میں امام احمد کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے:
وَلَا يُكْرَهُ الْبَوْلُ قَائِمًا بِلَا حَاجَةٍ، عَلَى الصَّحِيحِ مِنْ الْمَذْهَبِ، نُصَّ عَلَيْهِ، إنْ أَمِنَ تَلَوُّثًا وَنَاظِرًا
الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف للمرداوي (1/ 99)

"کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے بشرطیکہ گندگی سے بچا جا سکا اور بے پردگی نہ ہو"
شافعیہ:
ويستحب أن يجلس إذا أراد أن يبول، ويكره أن يبول قائما من غير عذر۔ ۔ ۔ فإن كان له عذر عن الجلوس، لم يكره له البول قائما
البيان في مذهب الإمام الشافعي (1/ 209)

"جب آدمی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ بیٹھ جائے اور بلا عذر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ اور اگر بیٹھنے میں کوئی عذر مانع ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے"
حنفیہ:
رد المختار میں ہے:
قَالَ الْعُلَمَاءُ يُكْرَهُ إلَّا لِعُذْرٍ، وَهِيَ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ لَا تَحْرِيمٍ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 344)

"علماء کا کہنا ہے کہ عذر کے بغیر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے اور یہ کراہت تحریمی نہیں تنزیہی ہے"
مکروہ تنزیہی کی تعریف احناف کے ہاں یوں کی جاتی ہے:
مَا كَانَ تَرْكُهُ أَوْلَى مِنْ فِعْلِهِ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 131)

"جسے چھوڑنا اسے کرنے سے اولیٰ ہو"
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر عذر کے کھڑا ہو کر پیشاب کرے تو اس کا یہ عمل حرام نہیں ہے صرف خلاف اولیٰ ہے۔ دار العلوم دیوبند نے بھی بوجہ مجبوری کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے جواز کا فتویٰ دے رکھا ہے جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ سلفی علماء سمیت تمام فقہائے امت کے درمیان اس مسئلے میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔ چند لوگوں نے اپنی اغراض یا تعصبات کی خاطر اس مسئلے کو اچھالا ہوا ہے اور امت میں تفریق پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ہدایت کی پیروی کرنے والے پرسلام!

سہج صاحب امید ہے عبداللہ حیدر صاحب کے ترجمے کے بعد آپ کو تسلی ہوگئی ہوگی کہ آپ کا پیش کردہ مسئلہ یا فوائد کے تحت لکھی گئی تحریر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نہیں ہے۔ اس لئے آپ کا اعتراض ختم ہوجاتا ہے لیکن ہمارا اعتراض قائم ہے کہ ابن نجیم اور وہ دیگر دیوبندی جنھوں نے بطور رضامندی کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ میں شمار کیا ہے شریعت سے لاعلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
ہدایت کی پیروی کرنے والے پرسلام!
ابن نجیم اور وہ دیگر دیوبندی جنھوں نے بطور رضامندی کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ میں شمار کیا ہے شریعت سے لاعلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں۔
السلام علیکم،
میرے بھائی! گستاخی اور کفر کے فتوے جاری کرنے میں جلدی نہ کیا کریں۔ ویسے بھی یہ کام علماء کا ہے انہی کو کرنے دیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم،
میرے بھائی! گستاخی اور کفر کے فتوے جاری کرنے میں جلدی نہ کیا کریں۔ ویسے بھی یہ کام علماء کا ہے انہی کو کرنے دیں۔
کفر کا فتویٰ میں نے جاری نہیں کیا۔
علماء ہی نے دیوبندیوں کواللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ قرار دیا ہے۔ میرا دیوبندیوں کو دلیل کی بنیاد پر گستاخ کہنا علماء ہی سے ماخوذ ہے۔
ابن نجیم حنفی کو یہ فتویٰ دئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں۔ کیا اب بھی اس کے متعلق بات کرنا جلدی ہے؟!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top