محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
محترم باقر صاحب یہ بھی پڑھ لیں-کیا میری ان باتوں کا جواب نہیں ہے جناب کے پاس
(1)بھائی محمد علی جواد صاحب: آپ نے لکھا ہے کہ " بلکہ وہ صرف نبی کریم کے ظاہری فرمان سے اس بات کا اندازہ کر لیتے تھے کہ فلاں عمل واجب ہے یا فرض ہے یا سنّت ہے یا مستحب ہے-"
محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ روایات نقل کر دیں جن میں یہ بات مو جود ہو کہ حدیث رسول سننے کے بعد صحابہ کرام نے فرمایا ہو ا یہ کام "فرض" ہے یہ "واجب" یہ "سنت" اور یہ "مستحب" ہے؟؟؟
(2)بھائی محمد علی جواد صاحب : آپ نے لکھا ہے کہ
کاش قرآن کی اس آیت کا مطلب آپ کی سمجھ میں آجاتا تو تقلید کی گمراہی سے بچ جاتے-
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور (الله کے نیک بندے) تو وہ ہیں کہ جب انہیں ان کے رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں)-
جناب نے اس آیت کے بارے جو لکھا ہے یہ تفسیر با الرائے ہے ،اس سے بچئے اور اس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے پیش کریں کہ اُنہوں نے فرمایا ہو کہ یہ آیت تقلید کی گمراہی سے بچاتی ہے ،یا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب نیک بندوں کو آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو وہ تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں کرتے؟
(3)جناب افریدی صاحب : خدا کا خوف کریں ایک واضع حدیث میں تاویلیں نہ کریں ۔ ایہ حدیث پڑھیں وہ بھی سمجھ میں آجائے گی
عن انس قال کان رسول اﷲﷺ و ابوبکر و عمر و عثمان یفتتحون القرأۃ بالحمد ﷲ رب العالمین
یعنی: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم اپنی قرأت کا آغاز الحمد رب العالمین سے کرتے تھے۔
وقال ابو عیسٰی ہذا حدیث حسن صحیح ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
یہ حدیث مبارکہ صاف صاف بتا رہی ہے کہ نماز میں "قرات" کا آغاز رسول اللہﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم "فاتحہ" سے کرتے تھے۔یہ بات مدِ نظر رکھیں اور اب یہ حدیث مبارکہ پڑھیں:
انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.
پہلی حدیث مبارکہ نے بتایا کہ قرات فاتحہ سے شروع ہوتی ہے ،اور دوسری حدیث مبارکہ میں حکم ہے کہ جب امام قرات(یعنی فاتحہ) شروع کرے تو خاموش رہو ۔
مسئلہ تو صاف ہوگیا کہ مقتدی فاتحہ نہیں پڑھے گا
جناب لگے ہیں اس میں تاویلیں کرنے
امام قرطبی صحیح منھج کی طرف وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"عبداللہ بن عون ، ایوب سختیانی اور ابو ثور وغیرہ اصحاب شوافع ، داؤد بن علی نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی مثل اوزاعی سے بھی مروی ہے اور یہی قول مکحول کا بھی ہے۔ حضرات عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی عاص، اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔ یہی قول ابن عمر کا ہے اور اوزاعی کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ۔ یہ صحابہ مقتداء ہیں اور ان کی ذوات میں اسوہ ہے یہ تمام حضرات ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہیں۔ "
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعیں کہ منھج جو سورۃ فاتحہ کہ ہر رکعت پڑھنے کہ وجوب کہ قائل تھے انکے نام بیان کرتے ہیں:
1) حضرات عمر بن خطاب
2) عبداللہ بن عباس
3) ابو ہریرہ
4) ابی بن کعب
5) ابو ایوب انصاری
6) عبداللہ بن عمرو بن العاص
7) عبادہ بن صامت
8) ابو سعید خدری
9) عثمان بن ابی عاص
10) خوات بن جبیر
11) ابن عمر
رضی اللہ عنہم
ان جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعیں کہ نام لینے کہ بعد ان سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں:
فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں
پھر ان جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعیں کہ منھج کے بارے میں فرماتے ہیں:
یہ صحابہ مقتداء ہیں اور ان کی ذوات میں اسوہ ہے
پھر انہی جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ سورۃ فاتحہ کہ بارے میں کیا منھج ہے کہتے ہیں :
یہ تمام حضرات ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہیں
پھر امام قرطبی دو ٹوک بات کرتے ہیں کہ:
امام ابو عبداللہ بن محمد یزید بن ماجہ القزوینی نے اپنی سنن میں ایسی روایت نقل کی ہے جو اختلاف کو ختم کردیتی ہے اور احتمال کو زائل کردیتی ہے
پھر حدیث رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں:
۔ فرمایا: ہمیں ابو کریب نے بتایا ، انہوں نے فرمایا: ہمیں محمد بن ٖ ٖفضیل نے بتایا۔ دوسری سند اس طرح ہے ہمیں سوید بن سعید نے بتایا، ہمیں علی بن مسہر نے بتایا تمام نے ابو سفیان سعدی سے روایت کیا، انہوں نے ابو نضرہ سے روایت کیا انہوں نے حضرت ابو سعید سے روایت کیا ، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں الحمد اور کوئی دوسری سورت نہیں پڑھی(4)
پھر فرمایا:
خواہ فرضی نماز ہو یا نفلی نماز ہو
پھر حدیث پیش کی:
دوسری دلیل اس کے متعلق وہ روایت ہے جو ابو داؤد نے نافع بن محمود الربیع دے روایت کی ہے فرمایا:حضرت عبادہ بن صامت صبح کی نماز میں لیٹ ہوگئے تو ابو نعیم مؤذن نے تکبیر کہی اور خود ہی لوگوں کو نماز پڑھادی ۔ حضرت عبادہ بن صامت آئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا حتیٰ کہ ہم نے ابو نعیم کے پیچھے صف بنائی ، ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے عبادہ نے الحمد پڑھنی شروع کردی جب سلام پھیرا تو میں نے عبادہ سے کہا: میں تجھے الحمد پڑھتے ہوئے سن رہا تھا جبکہ ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے؟ عبادہ نے کہا: ہاں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز پڑھائی جس میں آپ جہری قراءت کر رہے تھے، آپ پرقراءت خلط ملط ہوگئی جب آپ صلی اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو ہماری طرف رخ انور پھیر لیا اور فرمایا: کیا تم قراءت کرتے ہو جب میں جہری قراءت کرتا ہوں؟ ہم میں سے بعض نے کہا: ہم واقعی ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، میں کہہ رہا تھا مجھے کیا ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جارہا ہے ، تم قرآن میں سے کچھ نہ پڑھا کرو جب میں جہری قراءت کر رہا ہوں، مگر صرف سورۃ الحمد (پڑھا کرو)(1)
پھر امام قرطبی رحم اللہ نے مقتدی کہ بارے میں اس حدیث کو نص کہا کہ سورۃ فاتحہ پڑھے:
یہ مقتدی کے بارے میں نص صریح ہے کہ وہ بھی سورۃ الحمد پڑھے
پھر حدیث کہ معنی کو امام ترمذی سے حسن ثابت کیا:
اس حدیث کا معنیٰ ابو عیسیٰ ترمذی نے محمد بن اسحاق کی حدیث سے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے
پھر صحابہ کرام اور تابعیں کہ بارے میں کہا جو سورۃ فاتحہ امام کہ پیچھے پڑھنے کہ قائل تھے:
اور امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ اور تابعین کا عمل ہے
پھر ناموں کا ذکر کیا:
حضرات مالک بن انس، ابن مبارک ،شافعی ، احمد، اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ یہ حضرات امام کے پیچھے قراءت کا نظریہ رکھتے تھے۔
پھر واضع کیا کہ یہ لوگ امام کہ پیچھے قرات کا نظریہ رکھتے تھے:
یہ حضرات امام کے پیچھے قراءت کا نظریہ رکھتے تھے
پھر امام دار قطنی سے حسن ہونے کا ثبوت پیش کیا:
اس حدیث کو دارقطنی نے بھی نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ اسناد حسن ہے
پھر امام قرطبی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہم کا فتوہ ثبوت کہ ت طور پہ پیش کیا کہ سورۃ فاتحہ امام کہ پیچھے پڑھنے کہ بارے میں:
دارقطنی نے یزید بن شریک سے روایت کیا ہے ، انہوں نے فرمایا: میں نے عمر سے قراءت خلف الامام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے قراءت خلف الامام کا حکم دیا۔ میں نے کہا: اگر آپ بھی امام ہوں؟ انہوں نے کہا: اگر چہ میں بھی ہوں۔ میں نے کہا: اگرچہ جہری قراءت کر رہے ہوں؟ انہوں نے کہا: اگرچہ میں جہری قراءت کر رہا ہوں(2)
پھر امام قرطبی نے اس کی اسناد کو امام درالقطنی سے صحیح ثابت کیا:
دارقطنی نے کہا: یہ سند صحیح ہے
اس کہ بعد سورۃ فاتحہ کہ امام کہ پیچھے پڑھنے کہ ثبوت میں حدیث سے دلیل پیش کی:
حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امام ضامن ہے (3) جو کچھ وہ کرے تم بھی وہ کرو
پھر ابو حاتم سے اس کی صحیح ہونے کی دلیل پیش کی:
ابو حاتم نے کہا: یہ اس کے لئے (دلیل) صحیح ہے جو امام کے پیچھے قراءت کا قائل ہے
پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کا فتوہ جو انہوں نے فارسی کو دیا تھا امام کہ پیچھے سورۃ فاتحہ کہ متعلق وہ پیش کی:
حضرت ابو ہریرہ نے الفارسی کو یہی فتویٰ دیا تھا کہ وہ دل میں قراءت کیا کرے جب اس نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے بھی استدلال کیا گیا ہے میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پڑھو۔ بندہ کہتا ہے الحمد اللہ رب العلمیں۔۔۔۔۔(4) (الحدیث)
پھر امام قرطبی نے جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو والی صحیح مسلم کی حدیث پیش کر کہ پھر اس میں سلیمان تیمی سے جو زیادتی ہوگئی لفظ “واذا قرافانصتوا” میں اسکی وضاحت فرما کر یہ ثابت کیا کہ اس میں جو لفظ ہے “واذاقرافانصتوا” وہ سلیمان تیمی کا وہم ہے:
پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے
امام قرطبی نے “واذا قرافانصتوا” کو غیر محفوظ ثابت کیا ہے اور اس الفاظ کو سلیمان تیمی کی زیادتی ثابت کیا ہے:
"جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا"
پھر قتادہ کہ شاگردوں کی غیر متابعت ثابت کر کہ یہ ثابت کیا کہ “واذا قرافانصتوا” زیادتی ہے سلیمان تیمی کی طرف سے:
"۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا"
پھر ان حفاظ حدیث میں جو افراد شامل ہیں جنہوں نے سلیمان تیمی کی متعابت نہیں کی انکے نام پیش کیے:
"حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ"
پھر دارقطنی سے اجماع ثابت کیا ان حفاظ کی طرف سے اور سلیمان تیمی ان الفاظ کو وہم ثابت کیا:
"دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے"
پھر ابو داؤد سے بھی یہ ثابت کیا ہے جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو کہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں:
"ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/امام-قرطبی-اور-سورۃ-فاتحہ-نماز-میں۔.24676/