کیا میری ان باتوں کا جواب نہیں ہے جناب کے پاس
(1)بھائی محمد علی جواد صاحب: آپ نے لکھا ہے کہ " بلکہ وہ صرف نبی کریم کے ظاہری فرمان سے اس بات کا اندازہ کر لیتے تھے کہ فلاں عمل واجب ہے یا فرض ہے یا سنّت ہے یا مستحب ہے-"
محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ روایات نقل کر دیں جن میں یہ بات مو جود ہو کہ حدیث رسول سننے کے بعد صحابہ کرام نے فرمایا ہو ا یہ کام "فرض" ہے یہ "واجب" یہ "سنت" اور یہ "مستحب" ہے؟؟؟
(2)بھائی محمد علی جواد صاحب : آپ نے لکھا ہے کہ
کاش قرآن کی اس آیت کا مطلب آپ کی سمجھ میں آجاتا تو تقلید کی گمراہی سے بچ جاتے-
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور (الله کے نیک بندے) تو وہ ہیں کہ جب انہیں ان کے رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں)-
جناب نے اس آیت کے بارے جو لکھا ہے یہ تفسیر با الرائے ہے ،اس سے بچئے اور اس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے پیش کریں کہ اُنہوں نے فرمایا ہو کہ یہ آیت تقلید کی گمراہی سے بچاتی ہے ،یا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب نیک بندوں کو آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو وہ تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں کرتے؟
(3)جناب افریدی صاحب : خدا کا خوف کریں ایک واضع حدیث میں تاویلیں نہ کریں ۔ ایہ حدیث پڑھیں وہ بھی سمجھ میں آجائے گی
عن انس قال کان رسول اﷲﷺ و ابوبکر و عمر و عثمان یفتتحون القرأۃ بالحمد ﷲ رب العالمین
یعنی: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم اپنی قرأت کا آغاز الحمد رب العالمین سے کرتے تھے۔
وقال ابو عیسٰی ہذا حدیث حسن صحیح ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
یہ حدیث مبارکہ صاف صاف بتا رہی ہے کہ نماز میں "قرات" کا آغاز رسول اللہﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم "فاتحہ" سے کرتے تھے۔یہ بات مدِ نظر رکھیں اور اب یہ حدیث مبارکہ پڑھیں:
انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.
پہلی حدیث مبارکہ نے بتایا کہ قرات فاتحہ سے شروع ہوتی ہے ،اور دوسری حدیث مبارکہ میں حکم ہے کہ جب امام قرات(یعنی فاتحہ) شروع کرے تو خاموش رہو ۔
مسئلہ تو صاف ہوگیا کہ مقتدی فاتحہ نہیں پڑھے گا
جناب لگے ہیں اس میں تاویلیں کرنے