• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم میں نے حدیث کے اسی حصہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا تھا کہ امام کے سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کی قراءت کا جواز نکالا جاسکتا ہے۔ جبکہ یہ حدیث بذاتِ خود تاویل مانگتی ہے کہ اگر اس کو بعین انہی معنوں میں لیں، جیسا کہ اہلِ حدیث اس سے دلیل لیتے ہیں، تو یہ حدیث قرآن سے اور صحیح احادیث سے متصادم نظر آتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مفہوم آیت: جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔
بھائی جان! آپ کے نزدیک تو قرآن کی آیات بھی متصادم و متعارض ہو تی ہیں: حوالہ اوبر گزرا، بلکہ دوبارہ پیش خدمت ہے:
سب سے پہلے تو آپ کو یہ بتلا دیں کہ اصول فقہ حنفی میں قرآن کی اس آیت کے متعلق کیا لکھا ہے، اصول فقہ حنفی کے تحت تو اس آیت سے قراءت کی ممانعت کا استدلال باطل ہے، کیونکہ اصول فقہ حنفی کے تحت یہ آیت قرآن کی دوسری آیت سے متعارض ہے! اور اس طرح یہ ساقط الاستدلال ہو گئی!
(یہ بھی ایک بحث ہے کہ فقہ حنفی میں قرآن ميں تعارض ثابت کر کے قرآن کی آیت کے حکم کو ساقط بھی قرار دیا جاتا ہے)

وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی لہٰذا عمل کیلئے سنت پر نظر کرنا ہوگی کہ اس کا درجہ اس کے بعد ہے کسی تیسری آیت کی جانب رجوع کرنا ممکن نہیں۔ اس وجہ سے کہ اس سورت میں کثرت دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا لازم آجائے گا جو درست نہیں ۔
مثال: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ اس کے بالمقابل دوسری آیتٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ وارد ہوئی۔ لہٰذا تعارض ہو گیا کہ اول آیت علی العموم مقتدی پر قراءت کو ثابت کرتی ہے اور ثانی خاص صورت میں اس کی نفی کرتی ہے ھالانکہ حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق ہر دو آیت نماز کیلئے ہیں۔ اس وجہ سے اب ضرورت ہوئی سنت کی جانب متوجہ ہونے کی۔ اس میں قال عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له. جس سے ثابت ہو گیا کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية

دوم کہ اس کو کوئی تضاد نہیں جیسا کہ آپ کو بیان کیا گیا، مگر آپ سمجھنے کو موڈ میں شاید فی الوقت نہیں! ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
اس بحث سے قطع نظر کہ اس آیت سے مقتدی کی قراءت کی ممانعت ہے یا نہیں، اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ آیت مقتدی کو قراءت کا منع کرتی ہے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے سورہ فاتحہ کا اس ممانعت سے استثناء ثابت ہوتا ہے: مندرجہ ذیل حدیث متعدد کتب میں ہے، میں اسے مسند امام احمد بن حنبل سے پیش کرتا ہوں: (مسند امام احمد بن حنبل سے پیش کرنے کی ایک حکمت ہے)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ " , قَالَ : قُلْنَا : أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں صبح کی نماز یعنی نماز فجر میں تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ ہماری جانب کیا اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جبکہ وہ (امام) جہراً قراءت کرتا ہے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہاں ! اللہ کی قسم ہم ایسا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے قراءت نہ کیا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے، کیونکہ نہیں ہے اس کی نماز جو نماز میں اسے (سورہ فاتحہ ) نہیں قراءت نہیں کرتا۔
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

اہل حدیث کا اس سے کیا معنی ہیں وہ ہم نے بتلا دیا، کہ سورہ فاتحہ بہر حال مقتدی نے بھی پڑھنی ہے، اس امام کی سورہ فاتحہ کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ، یہ حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے نہ کسی دوسری صحیح حدیث کے خلاف، اور نہ اس حدیث کو تاویل کی کوئی حاجت ہے، اگر کسی چیز کی حاجت ہے تو وہ امام ابو حنیفہ کی تقلید میں قرآن و حدیث کو چھوڑنے کی بجائے، قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنے کی حاجت ہے! وگرنہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴿سورة محمد33﴾

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛
سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
نوٹ:اس میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے (تمام راوی ثقہ ہیں)۔
جی جناب یہ انصات یعنی خاموش رہنا ، دل میں یعنی سراً، آہستہ سے پڑھنے کے منافی نہیں!
دوم سند پوری درج کیا کریں!
رواه ايضا: مسلم كتاب الصلاة بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ؛ سنن ابوداؤد كتاب الصلاة بَاب الْإِمَامِ يُصَلِّي مِنْ قُعُودٍ؛ سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا؛ مسند احمد مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
جی جناب یہ انصات یعنی خاموش رہنا ، دل میں یعنی سراً، آہستہ سے پڑھنے کے منافی نہیں!
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہے تو کہو "اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو ـ
نوٹ: اس حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم فرما کر فرمایا کہ جب وہ " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہے تو کہو " آمِينَ "۔ ترتیب فرمان دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی۔
جی جناب یہ انصات یعنی خاموش رہنا ، دل میں یعنی سراً، آہستہ سے پڑھنے کے منافی نہیں!
اور نہ ہی امام کے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "ککہنے پر مقتدی کے بھی " آمِينَ " کہنے کے منافی ہے!

اب ہمارے جوابات کی دلیل بھی دیکھ لیں:
یہی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ [ص:217] فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ: فَغَمَزَ ذِرَاعِي، وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ: فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَثْنَىعَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ}، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5]، يَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7]، يَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔ ناقص ہے، ناقص ہے۔
راوی نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تب مجھے یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے میرا بازو دبا کر کہا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نماز کو میں نے اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے پس نماز آدھی میرے لیے ہے اور آدھی بندہ کے۔ اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو بندہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ کو میرے بندہ نے سراہا۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ پھر بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے میرا بندہ جو کچھ مانگے گا میں اس کو دوں گا پھر بندہ کہتا ہے (اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) الفاتحہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ تینوں باتیں میرے بندہ کے لئے ہیں اور جو کچھ میرا بندہ مانگے گا وہ اس کو ملے گا۔
سنن أبي داود - كِتَاب الصَّلَاةِ -أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ - بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
لیں جناب! صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دل میں، یعنی ، سراً امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا بتلا کر یہ بتلا دیا کہ یہ فعل انصات کے خلاف نہیں!
اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی روایت کردہ حدیث آپ نے صحیح مسلم ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد سے پیش کی، انہیں ابو ہریرہ ، امام کے پیچھے سراً سورہ فاتحہ کی قراءت کو انصات کے خلاف نہ ہونے کی تصریح کر دی!
نوٹ: مگر یہ بات تسلیم وہ کرے گا جو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کا قائل ہو گا، جس کا مقصد اٹکل پچّو لڑا کر قرآن کی احادیث کو رد کرنا ہو گا، وہ حجتیں تلاش کرنے لگ جائے گا کہ کس طرح اپنے ''امام صاحب'' کے قرآن حدیث پر مقدم کرے! فتدبر!

آیئے اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دیکھ لیں کہ ''سکوت'' بھی سراً کچھ پڑھنے کے مخالف و منافی نہیں:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ القَعْقَاعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً - قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: هُنَيَّةً - فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: " أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ "
صحيح البخاري - كِتَابُ الأَذَانِ - بَابُ مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرآت کے درمیان میں کچھ سکوت فرماتے تھے (ابوزرعہ کہتے ہیں) مجھے خیال ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھوڑی دیر، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، تکبیر اور قرات کے مابین سکوت کرنے میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں پڑھتا ہوں اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان میں ایسا فصل کردے جیسا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان میں کر دیا ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے پاک کردے، جیسے صاف کپڑا میل سے پاک صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولہ سے دھو ڈال۔

یہ لیں جناب! وہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ سکوت کے وقت کیا پڑھتے ہیں، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کیا پڑھتے ہیں۔
لیکن کوئی منچلا اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی عربی کو ناقص قرار دے تو کیاکیا جا سکتا ہے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم آپ نے پھر قیاس کے ذریعہ قرآن اور حدیث کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسحاق سلفی بھائی نے فقہائے احناف کے اٹکل پچّو کا تضاد بیان کیا ہے!
اس آیت کی تخصیص تو خود حنفی فقہاء نے بغیر کسی حدیثی دلیل کے زبردستی کردی ہوئی ہے ،
وہ یوں کی حنفی فقہاء کے نزدیک ۔۔فجر کی جماعت ہوتے ہوئے جبکہ امام جہری قراءت کر رہا ہوتا ہے ، فجر کی دو سنت ادا کرنا نہ صرف جائز
بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے ۔۔۔تو جب امام کی جہری قراءت کے دوران پوری دو رکعت پڑھنا جائز ہے تو ایک مختصر سورت فاتحہ کیوں نہیں جائز؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,569
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ

محترم آپ نے پھر قیاس کے ذریعہ قرآن اور حدیث کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (41) (النازعات)
والسلام
برادر !
میں نے کسی چیز کو رد نہیں کیا ،،بلکہ فقہاء حنفیہ کےاجتہاد و فقہ کو بیان کیا ہے
اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو براہ کرم اصلاح فرمادیں
ویسے مجھے لگتا ہے کہ آپ میری اردو عبارت کو سمجھے نہیں
کیونکہ میں نے تو صرف مقلدین کے مسلک کی ترجمانی کی ہے۔۔۔پھر بھی آپ خفا ہو رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ نے آیت مندرجہ بالا کا ترجمہ نہیں لکھا۔۔۔وجہ؟
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہ انصات یعنی خاموش رہنا ، دل میں یعنی سراً، آہستہ سے پڑھنے کے منافی نہیں!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محتر دل میں پڑھنے کو عربی میں ’’فی نفسک‘‘ کہتے ہیں اور بالکل دھیمی آواز سے کہ دو چار قدم پر کھڑے افراد نہ سن سکیں ’’ سراً‘‘ کہتے ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً
لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم یہ لفظ ’’یسکت‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے نہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ للہ قرآن و حدیث کے مقابل اپنے مؤقف کی تائید میں الٹی سیدھی تاویلات نہ کرو۔ فرمانِ باری تعالیٰ عز و جل ہے؛
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآَيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (73) الفرقان
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محتر دل میں پڑھنے کو عربی میں ’’فی نفسک‘‘ کہتے ہیں اور بالکل دھیمی آواز سے کہ دو چار قدم پر کھڑے افراد نہ سن سکیں ’’ سراً‘‘ کہتے ہیں۔
فقہ حنفیہ بالکل دھیمی آواز ( کہ جسے سراً بھی کہتے ہیں، آپ اس سے اختلاف کرو بھی تو) فقہ حنفیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات بھی نہیں مانتی، اور'' فی تفسک'' یعنی بالکل دھیمی آواز سے بھی سے پڑھنے کا بھی منع کرتی ہے!
نوٹ: مگر یہ بات تسلیم وہ کرے گا جو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کا قائل ہو گا، جس کا مقصد اٹکل پچّو لڑا کر قرآن کی احادیث کو رد کرنا ہو گا، وہ حجتیں تلاش کرنے لگ جائے گا کہ کس طرح اپنے ''امام صاحب'' کے قرآن حدیث پر مقدم کرے! فتدبر!
محترم یہ لفظ ’’یسکت‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے نہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ للہ قرآن و حدیث کے مقابل اپنے مؤقف کی تائید میں الٹی سیدھی تاویلات نہ کرو۔
یہ بات بھی میں نے پہلے ہی کہہ دی تھی:
لیکن کوئی منچلا اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی عربی کو ناقص قرار دے تو کیاکیا جا سکتا ہے!
بقول حنفیہ ، اللہ کے نبی کو (معاذ اللہ) عربی سمجھ نہیں آئی تھی ، جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بولی تھی ، اور اس وجہ سے (معاذ اللہ)غلط جواب دے دیا!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم میں نے لکھا تھا کہ ’’فی نفسک‘‘ کامعنیٰ دل میں پڑھنا ہے یعنی مخارج کو حرکت دیئے بغیر پڑھنا اور’’سراً‘‘ کا معنیٰ ہے آہستہ بغیر آواز کے پڑھنا۔
محترم یہ لفظ ’’یسکت‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے نہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ یعنی یہ سکوت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لحاظ سے تھا کہ ان کو آقا علیہ السلام والتسلیم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لہٰذا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تو یہ سکوت تھا جبکہ آقا علیہ السلام ’’سرا‘‘ پڑھ رہے تھے۔ اس سے فی نفسک اور سراً میں جو مغائرت ہے اس کو ختم کرنا سوائے ہٹ دھرمی کے اور کچھ نہیں۔
مذکورہ حدیث میں ایک اور بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر سورہ فاتحہ کے پڑھے نماز ناقص ہونے کا ذکر کیا تو ’فارسی رحمۃ اللہ علیہ‘ نے امام کی اقتدا کا کہا کہ اس وقت۔ اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نہی کہا کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی بلکہ اس کو دل ہی دل میں (یعنی تصور میں) پڑھ لے۔ مقتدی کو پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا؛
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 840
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم میں نے لکھا تھا کہ ’’فی نفسک‘‘ کامعنیٰ دل میں پڑھنا ہے یعنی مخارج کو حرکت دیئے بغیر پڑھنا اور’’سراً‘‘ کا معنیٰ ہے آہستہ بغیر آواز کے پڑھنا۔
اس کو دل ہی دل میں (یعنی تصور میں) پڑھ لے۔
قراءة کے معنی (تصور کرنے کے کب سے ہو گئے؟
محترم یہ لفظ ’’یسکت‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے نہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ یعنی یہ سکوت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لحاظ سے تھا کہ ان کو آقا علیہ السلام والتسلیم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لہٰذا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تو یہ سکوت تھا جبکہ آقا علیہ السلام ’’سرا‘‘ پڑھ رہے تھے۔ اس سے فی نفسک اور سراً میں جو مغائرت ہے اس کو ختم کرنا سوائے ہٹ دھرمی کے اور کچھ نہیں۔
ایک بار پھر عرض ہے:
یہ بات بھی میں نے پہلے ہی کہہ دی تھی:
لیکن کوئی منچلا اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی عربی کو ناقص قرار دے تو کیاکیا جا سکتا ہے!
بقول حنفیہ ، اللہ کے نبی کو (معاذ اللہ) عربی سمجھ نہیں آئی تھی ، جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بولی تھی ، اور اس وجہ سے (معاذ اللہ)غلط جواب دے دیا!

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 840
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔
اس کی وضاحت پہلے سی کی جا چکی ہے: ملاحظہ فرمائیں:
دوم کہ اس کو کوئی تضاد نہیں جیسا کہ آپ کو بیان کیا گیا، مگر آپ سمجھنے کو موڈ میں شاید فی الوقت نہیں! ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
اس بحث سے قطع نظر کہ اس آیت سے مقتدی کی قراءت کی ممانعت ہے یا نہیں، اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ آیت مقتدی کو قراءت کا منع کرتی ہے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے سورہ فاتحہ کا اس ممانعت سے استثناء ثابت ہوتا ہے: مندرجہ ذیل حدیث متعدد کتب میں ہے، میں اسے مسند امام احمد بن حنبل سے پیش کرتا ہوں: (مسند امام احمد بن حنبل سے پیش کرنے کی ایک حکمت ہے)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ " , قَالَ : قُلْنَا : أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں صبح کی نماز یعنی نماز فجر میں تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ ہماری جانب کیا اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جبکہ وہ (امام) جہراً قراءت کرتا ہے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہاں ! اللہ کی قسم ہم ایسا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے قراءت نہ کیا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے، کیونکہ نہیں ہے اس کی نماز جو نماز میں اسے (سورہ فاتحہ ) نہیں قراءت نہیں کرتا۔
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

اہل حدیث کا اس سے کیا معنی ہیں وہ ہم نے بتلا دیا، کہ سورہ فاتحہ بہر حال مقتدی نے بھی پڑھنی ہے، اس امام کی سورہ فاتحہ کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ، یہ حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے نہ کسی دوسری صحیح حدیث کے خلاف، اور نہ اس حدیث کو تاویل کی کوئی حاجت ہے، اگر کسی چیز کی حاجت ہے تو وہ امام ابو حنیفہ کی تقلید میں قرآن و حدیث کو چھوڑنے کی بجائے، قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنے کی حاجت ہے! وگرنہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴿سورة محمد33﴾
اب ہمارے جوابات کی دلیل بھی دیکھ لیں:
یہی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ [ص:217] فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ: فَغَمَزَ ذِرَاعِي، وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ: فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَثْنَىعَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ}، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5]، يَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7]، يَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔ ناقص ہے، ناقص ہے۔
راوی نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تب مجھے یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے میرا بازو دبا کر کہا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نماز کو میں نے اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے پس نماز آدھی میرے لیے ہے اور آدھی بندہ کے۔ اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو بندہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ کو میرے بندہ نے سراہا۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ پھر بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے میرا بندہ جو کچھ مانگے گا میں اس کو دوں گا پھر بندہ کہتا ہے (اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) الفاتحہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ تینوں باتیں میرے بندہ کے لئے ہیں اور جو کچھ میرا بندہ مانگے گا وہ اس کو ملے گا۔
سنن أبي داود - كِتَاب الصَّلَاةِ -أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ - بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
لیں جناب! صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دل میں، یعنی ، سراً امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا بتلا کر یہ بتلا دیا کہ یہ فعل انصات کے خلاف نہیں!
اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی روایت کردہ حدیث آپ نے صحیح مسلم ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد سے پیش کی، انہیں ابو ہریرہ ، امام کے پیچھے سراً سورہ فاتحہ کی قراءت کو انصات کے خلاف نہ ہونے کی تصریح کر دی!
نوٹ: مگر یہ بات تسلیم وہ کرے گا جو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کا قائل ہو گا، جس کا مقصد اٹکل پچّو لڑا کر قرآن کی احادیث کو رد کرنا ہو گا، وہ حجتیں تلاش کرنے لگ جائے گا کہ کس طرح اپنے ''امام صاحب'' کے قرآن حدیث پر مقدم کرے! فتدبر!

آیئے اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دیکھ لیں کہ ''سکوت'' بھی سراً کچھ پڑھنے کے مخالف و منافی نہیں:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ القَعْقَاعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً - قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: هُنَيَّةً - فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: " أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ "
صحيح البخاري - كِتَابُ الأَذَانِ - بَابُ مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرآت کے درمیان میں کچھ سکوت فرماتے تھے (ابوزرعہ کہتے ہیں) مجھے خیال ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھوڑی دیر، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، تکبیر اور قرات کے مابین سکوت کرنے میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں پڑھتا ہوں اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان میں ایسا فصل کردے جیسا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان میں کر دیا ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے پاک کردے، جیسے صاف کپڑا میل سے پاک صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولہ سے دھو ڈال۔

یہ لیں جناب! وہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ سکوت کے وقت کیا پڑھتے ہیں، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کیا پڑھتے ہیں۔
لیکن کوئی منچلا اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی عربی کو ناقص قرار دے تو کیاکیا جا سکتا ہے!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,569
پوائنٹ
791
میں نے لکھا تھا کہ ’’فی نفسک‘‘ کامعنیٰ دل میں پڑھنا ہے یعنی مخارج کو حرکت دیئے بغیر پڑھنا اور’’سراً‘‘ کا معنیٰ ہے آہستہ بغیر آواز کے پڑھنا۔
اس کا کوئی حوالہ ۔۔ثبوت
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
قراءة کے معنی (تصور کرنے کے کب سے ہو گئے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم خواہ مخواہ کی موشگافیوں سے اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہو اور ہمارا بھی۔ اگر آپ کے پاس دلائل نہیں تو میں نے آپ کو مقید نہیں کیا کہ صرف آپ ہی جواب دیں کوئی بھی اللہ کا بندہ جوصاحبِ علم ہو وہ مدلل جواب مرحمت فرما دے کیونکہ میرا مقصود مناظرہ نہیں صحیح راہ کی رہنمائی ہے۔ میری عمر ساٹھ سال سے متجاوز ہے اور فکر لگی ہوئی ہے کہ اگر کہیں غلطی ہے تو اس کی اصلاح ہوجائے۔ میری غلطی پر مجھے متنبع کرنے والا میرا دشمن نہیں بلکہ میرا محسن ہوگا۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (41) النازعات
اور رہا وہ جو ڈرگیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا اپنے نفس کو ۔خواہشات سے
تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے
والسلام
 
Top