- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی لہٰذا عمل کیلئے سنت پر نظر کرنا ہوگی کہ اس کا درجہ اس کے بعد ہے کسی تیسری آیت کی جانب رجوع کرنا ممکن نہیں۔ اس وجہ سے کہ اس سورت میں کثرت دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا لازم آجائے گا جو درست نہیں ۔مثال: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ اس کے بالمقابل دوسری آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ وارد ہوئی۔ لہٰذا تعارض ہو گیا کہ اول آیت علی العموم مقتدی پر قراءت کو ثابت کرتی ہے اور ثانی خاص صورت میں اس کی نفی کرتی ہے حالانکہ حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق ہر دو آیت نماز کیلئے ہیں۔ اس وجہ سے اب ضرورت ہوئی سنت کی جانب متوجہ ہونے کی۔ اس میں قال عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له. جس سے ثابت ہو گیا کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
ایک بات یاد رہے کہ جب کوئی مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے حدیث سے نہیں قرآن سے دلیل دو، تو میں کبھی اسے قرآن سے دلیل نہیں دیتا! کیونکہ جب تک کہ وہ خود کا منکرین حدیث قبول نہ کر لے!
آگے آپ پر چھوڑتا ہوں! امید ہے آپ کو سمجھ آگئی ہو گی!
بھٹی صاحب! یہ مارکذڈ الفاظ آپ غور سے پڑھیں! اور تقلید ابو حنفیہ کے چشمہ کو اتار کر!محترم آپ نے اپنے گمان میں عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید میں جو روایات تحریر کی ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ کتنی ہیں ایک ہی یا دو، ان کو آپ نے بغور پڑھا ہی نہیں یا ’تقلیداً‘ لکھ دیا جیسا کہ اہل حدیث کا معمول ہے۔ میں نشاندہی کرتا ہو آپ بھی اور قارئین بھی غور فرمائیں؛
آپ کو عربی نہیں آتی، اس لئے اسحاق سلفی بھائی نے آپ کو بتلا دیا تھا کہ:’مارکڈ‘الفاظ کو غور سے پڑھیں یہ کس کا فرمان ہے؟ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا ارشاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں وضاحت فرما رہے ہیں کہ ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ میں عربی گرامر یا عربی کوئی زیادہ نہیں جانتا مگر یہاں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف ’’اقْرَأْ بِهَا ‘‘ نہیں کہہ رہے بلکہ ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ فاتحہ کو دل میں پڑھوفر ما رہے ہیں۔ اس ’’اقْرَأْ بِهَا ‘‘ کے ساتھ ’’فِي نَفْسِکَ‘‘ لانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ راوی نے یہ سوال ہی کیوں کیا؟ اس پر بھی سوچئے گا خود میں اگر اتنی اہلیت نہ ہو تو کسی ــــــــــ ۔
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
بھٹی صاحب! یہ نا قابل فہم فقہ حنفیہ کا اصول ہے!قرآن کی آیات میں تعارض یہ ناقابلِ فہم ہے۔
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی لہٰذا عمل کیلئے سنت پر نظر کرنا ہوگی کہ اس کا درجہ اس کے بعد ہے کسی تیسری آیت کی جانب رجوع کرنا ممکن نہیں۔ اس وجہ سے کہ اس سورت میں کثرت دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا لازم آجائے گا جو درست نہیں ۔مثال: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ اس کے بالمقابل دوسری آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ وارد ہوئی۔ لہٰذا تعارض ہو گیا کہ اول آیت علی العموم مقتدی پر قراءت کو ثابت کرتی ہے اور ثانی خاص صورت میں اس کی نفی کرتی ہے حالانکہ حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق ہر دو آیت نماز کیلئے ہیں۔ اس وجہ سے اب ضرورت ہوئی سنت کی جانب متوجہ ہونے کی۔ اس میں قال عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له. جس سے ثابت ہو گیا کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بالکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی قراءت کی تخصیص بتلا رہے ہیں!محترم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کے واجب و لازم ہونے کی تخصیص نہیں فرما رہے بلکہ اپنی بات کہہ رہے ہیں جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی۔
عبادہ بن الصامت اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ماننے سے کیا چیز مانع ہے؟محتر میں نےکہا تھا کہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی سے بھی ایسا قول مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہو۔
ایک بات یاد رہے کہ جب کوئی مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے حدیث سے نہیں قرآن سے دلیل دو، تو میں کبھی اسے قرآن سے دلیل نہیں دیتا! کیونکہ جب تک کہ وہ خود کا منکرین حدیث قبول نہ کر لے!
آگے آپ پر چھوڑتا ہوں! امید ہے آپ کو سمجھ آگئی ہو گی!
Last edited: