• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم آپ نے اپنے گمان میں عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید میں جو روایات تحریر کی ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ کتنی ہیں ایک ہی یا دو، ان کو آپ نے بغور پڑھا ہی نہیں یا ’تقلیداً‘ لکھ دیا جیسا کہ اہل حدیث کا معمول ہے۔ میں نشاندہی کرتا ہو آپ بھی اور قارئین بھی غور فرمائیں؛
بھٹی صاحب! یہ مارکذڈ الفاظ آپ غور سے پڑھیں! اور تقلید ابو حنفیہ کے چشمہ کو اتار کر!
’مارکڈ‘الفاظ کو غور سے پڑھیں یہ کس کا فرمان ہے؟ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا ارشاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں وضاحت فرما رہے ہیں کہ ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ میں عربی گرامر یا عربی کوئی زیادہ نہیں جانتا مگر یہاں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف ’’اقْرَأْ بِهَا ‘‘ نہیں کہہ رہے بلکہ ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ فاتحہ کو دل میں پڑھوفر ما رہے ہیں۔ اس ’’اقْرَأْ بِهَا ‘‘ کے ساتھ ’’فِي نَفْسِکَ‘‘ لانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ راوی نے یہ سوال ہی کیوں کیا؟ اس پر بھی سوچئے گا خود میں اگر اتنی اہلیت نہ ہو تو کسی ــــــــــ ۔
آپ کو عربی نہیں آتی، اس لئے اسحاق سلفی بھائی نے آپ کو بتلا دیا تھا کہ:
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
قرآن کی آیات میں تعارض یہ ناقابلِ فہم ہے۔
بھٹی صاحب! یہ نا قابل فہم فقہ حنفیہ کا اصول ہے!
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی لہٰذا عمل کیلئے سنت پر نظر کرنا ہوگی کہ اس کا درجہ اس کے بعد ہے کسی تیسری آیت کی جانب رجوع کرنا ممکن نہیں۔ اس وجہ سے کہ اس سورت میں کثرت دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا لازم آجائے گا جو درست نہیں ۔مثال: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ اس کے بالمقابل دوسری آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ وارد ہوئی۔ لہٰذا تعارض ہو گیا کہ اول آیت علی العموم مقتدی پر قراءت کو ثابت کرتی ہے اور ثانی خاص صورت میں اس کی نفی کرتی ہے حالانکہ حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق ہر دو آیت نماز کیلئے ہیں۔ اس وجہ سے اب ضرورت ہوئی سنت کی جانب متوجہ ہونے کی۔ اس میں قال عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له. جس سے ثابت ہو گیا کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
محترم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کے واجب و لازم ہونے کی تخصیص نہیں فرما رہے بلکہ اپنی بات کہہ رہے ہیں جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی۔
جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بالکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی قراءت کی تخصیص بتلا رہے ہیں!
محتر میں نےکہا تھا کہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی سے بھی ایسا قول مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہو۔
عبادہ بن الصامت اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ماننے سے کیا چیز مانع ہے؟
ایک بات یاد رہے کہ جب کوئی مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے حدیث سے نہیں قرآن سے دلیل دو، تو میں کبھی اسے قرآن سے دلیل نہیں دیتا! کیونکہ جب تک کہ وہ خود کا منکرین حدیث قبول نہ کر لے!
آگے آپ پر چھوڑتا ہوں! امید ہے آپ کو سمجھ آگئی ہو گی!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عبادہ بن الصامت اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ماننے سے کیا چیز مانع ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم ضد نہیں افہام و تفہیم سے کام لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ نے اس کو آقا علیہ السلام کی طرف منصوب نہیں کیا بلکہ اپنا فہم بتایا ہے۔ جبکہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر کیا ہے۔ متن کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں؛
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ کُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَائَةُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَئُونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
یہاں قال سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ کما لا یخفیٰ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی
یہاں فقال سے مراد ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔
میں نے کہا تھا کہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جیسی کوئی ہو تو وہ بیان فرمائیں۔ میرا خیال ہے کہ پورے ذخیرہ حدیث میں اس مضمون کی یہ واحد حدیث ہے۔ جبکہ قرآنِ پاک، بہت سی احادیثِ مبارکہ اور آثارِ صحابہ امام کی جہری قراءت کے وقت کاموش رہنے کے حکم پر دال ہیں۔

ایک بات یاد رہے کہ جب کوئی مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے حدیث سے نہیں قرآن سے دلیل دو، تو میں کبھی اسے قرآن سے دلیل نہیں دیتا! کیونکہ جب تک کہ وہ خود کا منکرین حدیث قبول نہ کر لے!
آگے آپ پر چھوڑتا ہوں! امید ہے آپ کو سمجھ آگئی ہو گی!
محترم لگتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کا فرمان فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ ــــ الآیۃ سورۃ النساءجب تم میں جھگڑا ہو جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرلو کو بھول گئے۔ میں جتنے بھی دلائل دے رہا ہوں وہ قرآن اور حدیث سے دے رہا ہوں قرآن کے اسی حکم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔ اور آپ لوگوں نے اب تک جو دلائل دیئے ہیں وہ یا تو قیاس ہے یا امتیوں کے اقوال۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم کیا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ’’سراً ‘‘ کا لفظ نہیں جانتے تھے؟ انہوں نے’’اقْرَأْ بِهَا سراً ‘‘ نہیں بلکہ ’’اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ‘‘ کہا اس پر توجہ دیں۔
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
ایمان والوں کے لئے ایک ہی صحیح حدیث کافی ہیں - حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جن کے سامنے صحیح حدیث آ جائے پھر بھی اس کو قبول نہ کرے وہ ضرور سوچے !

جن ﴿رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم﴾ پر قران نازل ہوا، اُن کا فرمان،،، امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی




سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 821 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 5

حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي حدثنا محمد بن سلمة عن محمد بن إسحق عن مکحول عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت قال کنا خلف رسول الله صلی الله عليه وسلم في صلاة الفجر فقرأ رسول الله صلی الله عليه وسلم فثقلت عليه القراة فلما فرغ قال لعلکم تقرون خلف إمامکم قلنا نعم هذا يا رسول الله قال لا تفعلوا إلا بفاتحة الکتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها

عبداللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمود بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرأت شروع کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا (کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرأت کر رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (امام کے پیچھے) سورت فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی حدیث متواتر مکررات 19 متفق علیہ 4

حدثناه إسحق بن إبراهيم الحنظلي أخبرنا سفيان بن عيينة عن العلا عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال من صلی صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام فقيل لأبي هريرة إنا نکون ورا الإمام فقال اقرأ بها في نفسک فإني سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول قال الله تعالی قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل فإذا قال العبد الحمد لله رب العالمين قال الله تعالی حمدني عبدي وإذا قال الرحمن الرحيم قال الله تعالی أثنی علي عبدي وإذا قال مالک يوم الدين قال مجدني عبدي وقال مرة فوض إلي عبدي فإذا قال إياک نعبد وإياک نستعين قال هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل فإذا قال اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين قال هذا لعبدي ولعبدي ما سأل قال سفيان حدثني به العلا بن عبد الرحمن بن يعقوب دخلت عليه وهو مريض في بيته فسألته أنا عنه

اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 822 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 5

حدثنا الربيع بن سليمان الأزدي حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الهيثم بن حميد أخبرني زيد بن واقد عن مکحول عن نافع بن محمود بن الربيع الأنصاري قال نافع أبطأ عبادة بن الصامت عن صلاة الصبح فأقام أبو نعيم المؤذن الصلاة فصلی أبو نعيم بالناس وأقبل عبادة وأنا معه حتی صففنا خلف أبي نعيم وأبو نعيم يجهر بالقراة فجعل عبادة يقرأ أم القرآن فلما انصرف قلت لعبادة سمعتک تقرأ بأم القرآن وأبو نعيم يجهر قال أجل صلی بنا رسول الله صلی الله عليه وسلم بعض الصلوات التي يجهر فيها بالقراة قال فالتبست عليه القراة فلما انصرف أقبل علينا بوجهه وقال هل تقرون إذا جهرت بالقراة فقال بعضنا إنا نصنع ذلک قال فلا وأنا أقول ما لي ينازعني القرآن فلا تقروا بشي من القرآن إذا جهرت إلا بأم القرآن

ربیع بن سلیمان، عبداللہ بن یوسف، ہیثم، بن حمید، زید بن واقد، حضرت نافع بن محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز فجر کے واسطے نکلنے میں تاخیر کی تو ابونعیم نے تکبیر کہہ کر نماز پڑھانا شروع کر دی۔ اتنے میں عبادہ بھی آگئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور ہم نے ابونعیم کے پیچھے صف باندھ لی۔ ابونعیم با آواز بلند قرأت کر رہے تھے۔مگر عبادہ نے سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کردی جب وہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عبادہ سے کہا کہ میں نے آپ کو سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا ہے حالانکہ ابونعیم بلند آواز سے قرأت کررہے تھے۔ انہوں نے جواب دیا ہاں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بآواز بلند قرأت فرما رہے تھے (مگر مقتدیوں کی قرأت کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پڑھنا مشکل ہو گیا۔ جب نماز ختم ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا۔ جب میں بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہوں تو کیا تم جب بھی (میرے پیچھے) قرأت کرتے ہو؟ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا۔ ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا مت پڑھا کرو۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا ہوا ہے؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مجھ سے قرآن چھینے لے جارہا ہے۔ لہذا جب میں زور سے پڑھا کروں تب تم سوائے سورت فاتحہ کے قرآن مت پڑھا کرو۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 823 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 5

حدثنا علي بن سهل الرملي حدثنا الوليد عن ابن جابر وسعيد بن عبد العزيز وعبد الله بن العلا عن مکحول عن عبادة نحو حديث الربيع بن سليمان قالوا فکان مکحول يقرأ في المغرب والعشا والصبح بفاتحة الکتاب في کل رکعة سرا قال مکحول اقرأ بها فيما جهر به الإمام إذا قرأ بفاتحة الکتاب وسکت سرا فإن لم يسکت اقرأ بها قبله ومعه وبعده لا تترکها علی کل حال

علی بن سہل، ولید بن جابر سعید بن عبدالعزیز، عبداللہ بن علاء، حضرت مکحول نے حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سابقہ حدیث کی طرح ایک روایت اور بیان کی ہے۔ (مکحول کے شاگرد) کہتے ہیں کہ حضرت مکحول مغرب، عشاء اور فجر کی ہر رکعت میں سراً سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔ مکحول نے کہا جہری نماز میں جب امام سورت فاتحہ پڑھ کر سکتہ کرے تو اس وقت مقتدی کو سراً سورت فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور اگر وہ سکتہ نہ کرے تو اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا اس کے بعد پڑھ لے چھوڑے نہیں۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 925 حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 5

أخبرنا هشام بن عمار عن صدقة عن زيد بن واقد عن حرام بن حکيم عن نافع بن محمود بن ربيعة عن عبادة بن الصامت قال صلی بنا رسول الله صلی الله عليه وسلم بعض الصلوات التي يجهر فيها بالقراة فقال لا يقرأن أحد منکم إذا جهرت بالقراة إلا بأم القرآن

ہشام بن عمار، صدقة، زید بن واقد، حرام بن حکیم، نافع بن محمود بن ربیعة، عبادة بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی وقت کی نماز جہری کی امامت فرمائی پھر ارشاد فرمایا جس وقت میں بلند آواز سے قرأت کروں تو کوئی شخص کچھ نہ پڑھے لیکن سورت فاتحہ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2710 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 5

حدثنا يزيد قال أخبرنا محمد بن إسحاق عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الغداة فثقلت عليه القراة فلما انصرف قال إني لأراكم تقرون ورا إمامكم قالوا نعم والله يا رسول الله إنا لنفعل هذا قال فلا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی دوران قرأت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2758 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 5

حدثنا محمد بن سلمة عن ابن إسحاق يعني محمدا عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرأ فثقلت عليه القراة فلما فرغ قال تقرون قلنا نعم يا رسول الله فلا عليكم أن لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة إلا بها

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی دوران قرأت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم کیا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ’’سراً ‘‘ کا لفظ نہیں جانتے تھے؟ انہوں نے’’اقْرَأْ بِهَا سراً ‘‘ نہیں بلکہ ’’اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ‘‘ کہا اس پر توجہ دیں۔
آپ اس پر توجہ کریں جو آپ کو اسحاق سلفی بھائی نے بتلایا ہے:
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ»سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ایمان والوں کے لئے ایک ہی صحیح حدیث کافی ہیں - حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جن کے سامنے صحیح حدیث آ جائے پھر بھی اس کو قبول نہ کرے وہ ضرور سوچے !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الاعراف آیت 204 میں حکم فرماتے ہیں؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

نماز میں امام جب بلند آواز سے قراءت کر رہا ہوتا ہے تو وہ مقتدیوں کو ہی سنا رہا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی مقتدی اللہ تبارک و تعالیٰ کی نہ مانے تو اس کی نماز کا کیا بنے گا؟

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی؛
سنن النسائی : تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو۔

سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام جب قراءت کرے تو خاموش رہو ـــ الحدیث

اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی کہ جب امام قراءت کرے تو مقتدی کا کام خاموش رہنا ہے۔ اب اگر کوئی مقتدی امام کے پچھے قراءت کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کا بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی نا فرمان ہوگا۔

قرآن کی وضاحت کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی وضاحت صحابہ کرام کی ہی مستند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے صحابہ کیا سمجھے ملاحظہ فرمائیں؛
السنن الكبرى للبيهقي: باب من قال يترك المأموم القراءة فيما جهر فيه الامام بالقراءة: قال الله تبارك وتعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا
ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا" کا حکم ہر قاری قرآن کے لئے ہے۔ فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ حکم نماز کی قراءت کے لئے ہے۔


صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ: التِّلَاوَةِ حدیث نمبر 903
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں۔

تفسير ابن كثير
اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے "لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔

يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو۔

ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له" اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔

ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔

یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے۔ ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے۔

کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے۔ (اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے)۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الاعراف آیت 204 میں حکم فرماتے ہیں؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

نماز میں امام جب بلند آواز سے قراءت کر رہا ہوتا ہے تو وہ مقتدیوں کو ہی سنا رہا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی مقتدی اللہ تبارک و تعالیٰ کی نہ مانے تو اس کی نماز کا کیا بنے گا؟

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی؛
سنن النسائی : تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو۔

سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام جب قراءت کرے تو خاموش رہو ـــ الحدیث

اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی کہ جب امام قراءت کرے تو مقتدی کا کام خاموش رہنا ہے۔ اب اگر کوئی مقتدی امام کے پچھے قراءت کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کا بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی نا فرمان ہوگا۔

قرآن کی وضاحت کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی وضاحت صحابہ کرام کی ہی مستند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے صحابہ کیا سمجھے ملاحظہ فرمائیں؛
السنن الكبرى للبيهقي: باب من قال يترك المأموم القراءة فيما جهر فيه الامام بالقراءة: قال الله تبارك وتعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا
ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا" کا حکم ہر قاری قرآن کے لئے ہے۔ فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ حکم نماز کی قراءت کے لئے ہے۔


صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ: التِّلَاوَةِ حدیث نمبر 903
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں۔

تفسير ابن كثير
اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے "لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔

يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو۔

ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له" اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔

ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔

یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے۔ ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے۔

کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے۔ (اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے)۔
والسلام
آپ کی اس پوری تحریر کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو نہیں ماننا!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ کی اس پوری تحریر کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو نہیں ماننا!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم میں نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین لکھے ہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم بھی لکھا ہے۔ پھر مزید برآں آقا علیہ السلام کے تربیت یافتہ صحابہ جن کا ورع اور تقویٰ بے مثال ہے ان کےارشادات بھی ذکر کیئے۔ مزید برآں تفسیر ابن کثیر جس پر تمام مفسرین اعتماد کرتے ہیں وہ بھی پیش کی مگرلگتا ہے جناب کو ’’حدیثِ نفس‘‘ کے مقابلہ میں آپ کو نہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا ہے نہ رسول اللہ صلی الللہ علیہ کے ارشادات کی اور نہ ہی صحابہ کرام کے فہم کی۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم میں نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین لکھے ہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم بھی لکھا ہے۔ پھر مزید برآں آقا علیہ السلام کے تربیت یافتہ صحابہ جن کا ورع اور تقویٰ بے مثال ہے ان کےارشادات بھی ذکر کیئے۔ مزید برآں تفسیر ابن کثیر جس پر تمام مفسرین اعتماد کرتے ہیں وہ بھی پیش کی مگرلگتا ہے جناب کو ’’حدیثِ نفس‘‘ کے مقابلہ میں آپ کو نہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ارشادات کی اور نہ ہی صحابہ کرام کے فہم کی۔
بھٹی صاحب! ہم نے صراحت کے ساتھ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ و عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث محمد صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی تخصیص بیان کی ہے، اور آپ حدیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تخصیص سے انکاری ہو رہے ہو، اور قول ابو حنیفہ سے چمٹے ہوئے ہو! آپ سیدھا سیدھا کہہ دیں کہ آپ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو نہیں چھوڑنا! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کردینا ہے، یہ ادھر ادھر کے بہانے کیوں بنا رہے ہو!
آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کی حدیث کو اپنے اٹکل پچّو سے رد کرتے ہو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ماننے والوں کو طعن بھی کرتے ہو، کہ وہ آپ کے اٹکل پچّو کو نہیں مانتے!
بھٹی صاحب! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی تخصیص بیان کی ہے، آپ اسے مان لیں یا اپنی فقہ حنفیہ کی اٹکل پچوّ کو اختیار آپ کو ہے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الاعراف آیت 204 میں حکم فرماتے ہیں؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس آیت کریمہ میں تو انصات و استماع کا حکم عام ہے ۔اور آپ نے اس آیت کا ترجمہ بھی یہی کیا کہ
’’ جب بھی قرآن پڑھا جائے ،تو خاموشی سے سنو ‘‘
اس کا ترجمہ میں حکم عام کرنے کے بعد آپ نے پھر اس کو ۔۔نماز میں امام کی قراءت کیلئے خاص کردیا، وہ بھی ایک واضح دھوکہ کے ساتھ
کہ بقول ابن عباس ؓ یہ آیت امام کی قراءت کیلئے خاص ہے ۔
اور آپ نے اس میں دھوکہ یہ دیا کہ ابن عباس کے اس قول کو نقل کرنے سے قبل ہی امام بیہقی نے صاف لفظوں میں یہ بتا دیا تھا کہ ’’ ابن عباس کا قول سنداً ثابت نہیں ؛
’’ وروينا من وجه آخر ليس بالقوي، عن عطاء أنه سأل ابن عباس عن هذه الآية قال: هذا لكل قارئ؟ قال: لا ولكن هذا في الصلاة ‘‘
یعنی ایک ضعیف سند سے ہم تک ابن عباس کا یہ قول پہنچا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اتنی واضح دھوکہ دہی آپ کی اوکاڑوی کمپنی کا مشہور طرز عمل ہے ؛
 
Last edited:
Top