• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
دوسری بات یہ کہ اگرسورةَالأعراف کی مذکورہ آیت کو فاتحہ خلف الامام کے تناظر میں بھی پیش کیا جائے تو امام کی قرآن کی قرآت کے وقت مقتدی کو بہر حال استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ بھی امام کے ساتھ اس کی تلاوت کرے (آہستہ آواز میں) - صحیح احادیث نبوی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے بغیر آدمی کی نماز باطل ہے - نبی اکرم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آله وسلم کا فرمان مبارک ہے -
محترم یہ آپ کا خیال باطل ہے ان روایات پر غور فرمائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے؛
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (احمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَمُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ
سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سنن الترمذى میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

مسند ابن ابی شیبۃ: باب من كره القراءة خلف الامام:
حدثنا شريك وجرير عن موسى بن أبي عائشة عن عبد الله بن شداد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له إمام فقراءته له قراءة

عبد اللہ بن شداد (رحمۃ اللہ علیہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

مؤطا مالک: بَاب تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ
حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ
كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ
قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ کیا امام کی اقتدا میں مقتدی پڑھے؟ تو عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ جب کوئی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قراءت کرے۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
سیدنا ابو ہریرہ اور ابو موسی اشعری ؓ کی حدیث ’’ فنی ابحاث ‘‘ سے قطع نظر۔۔ ما بعد الفاتحہ قراءت ۔۔کیلئے ہیں ؛
یہ دونوں حدیثیں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکنے کیلئے اس لیئے نہیں کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دوسری صحیح احادیث میں ثابت ہے ؛
یہ فاتحہ کے بعد امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم دینے کیلئے ہیں ؛
کیونکہ ان میں پہلی روایت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔۔۔اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود صحیح مسلم کی حدیث
نقل کر فرماتے ہیں ،کہ مقتدی سراً سورہ فاتحہ پڑھ لے :

’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ، فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ ‘‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم میں نے حدیث پیش کی تھی جس میں سورہ فاتحہ کی قراءت کی بھی صاف لفظوں میں ممناعت آئی ہے پھر سے ملاحظہ فرما لیں؛
سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث

محترم اس میں واضح الفاظ میں امام کے سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم موجود ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ کی تشریح بھی اس سے ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد ’’سراً‘‘نہیں بلکہ دل میں پڑھنا ہی ہے۔ جن صحابہ کو آقا علیہ السلام نےروکاوہ ’جہری قراءت‘ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ قراءت’ سراً‘ہی کر رہے تھے۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی موقف درست،قرین انصاف اور اعتدال والا ہے یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ابتداء میں جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ پڑھ لینے کی اجازت دی تھی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔
محترم آپس میں مشورہ تو کرلیا کریں۔
کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
کوئی کچھ کرتاہے کوئی کچھ۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
دوسری بات کہ تقلید تو آپ کرتے ہیں اپنے امام کی - ورنہ امام شافعی ، امام مالک اور امام حنبل اور دوسرے بہت سےجلیل القدر آئمہ کے اجتہادات کو آپ گھاس تک نہیں ڈالتے - صرف امام ابو حنیفہ سے چمٹے ہوے ہیں - جب کہ ہمارا موقف یہی ہوتا ہے کہ جس کا اجتہاد صحیح احادیث نبوی سے قریب ترین ہو اس پر عمل کرو چاہے جو بھی ہو-
محترم یہ کہنا آسان ہے کہ ’’جس کا اجتہاد صحیح احادیث نبوی سے قریب ترین ہو اس پر عمل کرو چاہے جو بھی ہو‘‘ اور اس کو جج کرنی کی صلاحیت کس میں ہوگی؟ محترم یہ جج کرنے کے لئے (کہ کس کا اجتہاد قرآن اور حدیث کے قریب ترین ہے) آدمی کو تمام مجتہدین کے دلائل سے باخبر ہونا ہوگا،عقلِ سلیم بھی درکار ہوگی اور تعصب سے بھی بلاتر ہونا ہوگا تب شاید وہ جج کر سکے کہ کس مجتہد کا اجتہاد صحیح اور کس کا غلط ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جج کرنے والے کا علم مجتہدین سے زیادہ ہونا چاہئے تب وہ فیصلہ کرنے کا حق رکھے گا یا فیصلہ کر سکے گا۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.
محترم اوپر درج حدیث کے ساتھ یہ بھی درج کر دیتے تو بات اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی؛
سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث
والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

محترم نماز کی فرضیت سے پہلےکیا مکہ معظمہ میں آقا علیہ السلام نماز نہیں پڑھتے تھے؟؟؟


وہ دو کام کرتے تھے نہ سنتے تھے اور نہ ہی سننے دیتے تھےآپ سنتے نہیں اور دوسروں کو سننے سے منع بھی کرتے ہو یہ کام تو آپ بھی کرتے ہیں۔ کرتے ہیں نا!!!!!!!


ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟؟؟؟؟
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا ’’امام اس لیئے مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ امامت کرائے جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو‘‘۔(تفسیر ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم)
یہاں آقا علیہ السلام نے بالکل صاف لفظوں میں مقتدی کو امام کی اقتدا میں قراءت کرنے سے منع فرما دیا۔ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (کیا تم لوگ باز آؤ گے؟؟؟)۔

یہ بھی ہیں ؟؟؟؟؟
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ " (سنن النسائي: كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ })

ان کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو!!!!!!!!!!!!!
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔(ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:)


محترم اس حدیث میں آپ کی دلیل موجود ہی نہیں۔
ان احادیث میں بھی عربی کا لفظ ’’من‘‘ استعمال ہؤا ہے ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؛
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا (سنن أبي داود:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ اور زیادہ نہ پڑھا اس کی نماز نہیں۔

عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في الفريضة وغيرها. (مصنف ابن أبي شيبة)
ابی سعید رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے ہر رکعت میں الحمد للہ اور سورہ نہ پڑھا فرض نماز اور غیر فرض نماز میں اس کی نماز نہیں۔

دو جلیل القدر صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ذکر فرما رہے ہیں کہ سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ زائد پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی اور ان میں ’’لمن‘‘ کے ساتھ ’’لا صلاۃ‘‘ بھی ہے۔
اس بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟؟؟؟ْ؟


محترم بات سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ کا مطلب ہے کہ یہ قرآن نہیں بلکہ دعاء ہے؟؟؟؟؟؟؟ جہاں جہاں امام قرآنی دعائیں پڑھے ان کا مقتدی پر بھی پڑھنا لازم ہے؟؟؟ وضاحت فرما دیجئے گا۔


محترم تعصب کی عینک اتاریں اور اندھی تقلید چھوڑیں!!!!!!!!!!!!!
جناب مسجد سے متصل گھروں میں کیا خواتین، بچے اور بوڑھے اس وقت نماز پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم جو مقتدی ہے اس کا کام ہی امام کی اقتدا ہے اور جو اپنی نماز میں مشغول ہے اس پر اقتدا کس طرح لازم ہوگی؟؟؟ یہ علیحدہ موضوع ہے کہ اس وقت کون کیا کرتا ہے اور کیا کرنا چاہیئے۔


محترم! خلف الامام کی صورت میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا ارشاد ہے؛
سنن ابنِ ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ

جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (احمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَمُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ
سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سنن الترمذى میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

مؤطا مالک: بَاب تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ
حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ
كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ
قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ کیا امام کی اقتدا میں مقتدی پڑھے؟ تو عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ جب کوئی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قراءت کرے۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہامام کی اقتدا میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
والسلام

وعلیکم السلام و رحمت الله -

محترم- پہلی بات تو یہ کہ سوره االأعراف کی یہ آیت

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے-

اپنے معنوی لحاظ سے بھی فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی - آیت کے آخری الفاظ ہیں لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون -(تاکہ تم پر رحم کیا جائے)- اور یہ الفاظ اسی وقت کہے جاتے ہیں جب کسی واضح حکم کی تعظیم مقصود ہو - مشرکین مکہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے غرض سے نہ قرآن سنتے تھے اور نہ سننے دیتے تھے - اسی لئے یہ الفاظ تنبیہ کے طور پر انہی کے لئے کہے گئے ہیں - کہ اگر تم قرآن خاموشی سے سنو گے تو تم الله کی رحمت کے حق دار ہو وگرنہ اگرتم نے اپنی یہ بد روش نہ چھوڑی تو تم الله کے رحم کے مستحق نہ رہوگے-

فاتحہ خلف الامام کا مسلہ اجتہادی ہے اگرچہ صحیح احادیث نبوی میں سوره فاتحہ کی قرأت کو استثنیٰ حاصل ہے - ورنہ اگر فاتحہ خلف الامام کے تناظر میں سوره االأعراف کی مذکورہ آیت کے ظاہری معنی لئے جائیں تو مطلب یہ بنتا ہے کہ شافعی و حنبلی مقلدین بشمول غیرمقلدین جو فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں وہ الله کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں- اگر رحمت کے مستحق ہیں تو صرف حنفی ہیں؟؟ - (یہ ذہن میں رہے کہ اس آیت کے اصول کے تحت احناف کے اپنے امام ابو حنیفہ رح بھی الله کی رحمت کے مستحق نہیں رہتے کیوں کہ بقول علامہ امام شعرانی رح، ابوحنیفہ رح بھی اپنے آخری وقت میں فاتحہ خلف الامام کو قائل ہو گئے تھے )-

علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں-

لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔
خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونمازمیں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا -

دوسرے یہ کہ اس روایت جس میں ہے کہ :
سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
یہ جابر بن عبدللہ کا اپنا اجتہاد تھا نہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و اله وسلم کا فرمان- ان کا خیال یہی تھا کہ فاتحہ خلف الامام قرأت قرآن میں شامل ہے- جو کہ صحیح نہیں - دوسری متعدد صحیح احادیث نبوی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام کی اقتدا میں سوره فاتحہ قرآن کی قرأت سے بہرحال مستثنیٰ ہے -

دیکھئے فاتحہ خلف الامام کے مسلے پر تفصیل س لنک میں-
http://www.deenekhalis.net/play-200.html
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

محترم یہ کہنا آسان ہے کہ ’’جس کا اجتہاد صحیح احادیث نبوی سے قریب ترین ہو اس پر عمل کرو چاہے جو بھی ہو‘‘ اور اس کو جج کرنی کی صلاحیت کس میں ہوگی؟ محترم یہ جج کرنے کے لئے (کہ کس کا اجتہاد قرآن اور حدیث کے قریب ترین ہے) آدمی کو تمام مجتہدین کے دلائل سے باخبر ہونا ہوگا،عقلِ سلیم بھی درکار ہوگی اور تعصب سے بھی بلاتر ہونا ہوگا تب شاید وہ جج کر سکے کہ کس مجتہد کا اجتہاد صحیح اور کس کا غلط ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جج کرنے والے کا علم مجتہدین سے زیادہ ہونا چاہئے تب وہ فیصلہ کرنے کا حق رکھے گا یا فیصلہ کر سکے گا۔
والسلام
و علیکم السلام و رحمت الله -

آپ کی بات کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر کسی میں اجتہادی قوت نہیں اور وہ مجتہدین کی آراء سے با خبر بھی نہیں تو اسے چاہیے کہ "تقلید " کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائے ؟؟ - محترم - کیا آپ کے "امام" جن کی تقلید میں آپ رات دن ایک کرتے ہیں کیا وہ پیدائشی مجتہد تھے ؟؟ اگر نہیں - تو شروع ایام میں وہ خود کس کی تقلید کیا کرتے تھے ؟؟ - یا پھر وہ تقلید سے مستثنیٰ تھے؟؟ -

قرآن میں الله رب العزت مومنین کی شان تو یوں بیان کرتا ہے کہ:

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور الله کے وہ (نیک) بندے کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے-

یعنی دین کے معاملات میں تقلید نہیں بلکہ تحقیق کرتے ہیں -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
مولاناعبدالحئی حنفی فرماتے ہیں :

لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔

( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی )

یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔

فظہر انہ لایوجد معارض لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام مرفوعا۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفی )
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے-

اپنے معنوی لحاظ سے بھی فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی - آیت کے آخری الفاظ ہیں لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون -(تاکہ تم پر رحم کیا جائے)- اور یہ الفاظ اسی وقت کہے جاتے ہیں جب کسی واضح حکم کی تعظیم مقصود ہو - مشرکین مکہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے غرض سے نہ قرآن سنتے تھے اور نہ سننے دیتے تھے - اسی لئے یہ الفاظ تنبیہ کے طور پر انہی کے لئے کہے گئے ہیں - کہ اگر تم قرآن خاموشی سے سنو گے تو تم الله کی رحمت کے حق دار ہو وگرنہ اگرتم نے اپنی یہ بد روش نہ چھوڑی تو تم الله کے رحم کے مستحق نہ رہوگے-
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم یہ جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا یہ ’قرآن‘ ہے یا ’حدیث‘ یا کسی ’صحابی‘ کا قول یا اس پر ’اجماع‘ ہوچکا ہے؟؟؟؟؟؟؟
محترم دعویٰ آپ کا ہے ’’قرآن و حدیث‘‘ کا۔ صحابہ کے ’دشمن‘ لگتے ہو قیاس کو ’کارِ شیطان‘ کہتے ہو اور تقلید کو ’شرک‘ کہتے ہو۔ جبکہ اختلافی مسائل میں ’قرآن و حدیث‘ پیش نہیں کرتے صحابہ کرام کی بات کو مانتے نہیں۔ یا ’کارِ شیطان‘ کرتے ہو یا ’شرک‘۔

فاتحہ خلف الامام کا مسلہ اجتہادی ہے اگرچہ صحیح احادیث نبوی میں سوره فاتحہ کی قرأت کو استثنیٰ حاصل ہے - ورنہ اگر فاتحہ خلف الامام کے تناظر میں سوره االأعراف کی مذکورہ آیت کے ظاہری معنی لئے جائیں تو مطلب یہ بنتا ہے کہ شافعی و حنبلی مقلدین بشمول غیرمقلدین جو فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں وہ الله کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں- اگر رحمت کے مستحق ہیں تو صرف حنفی ہیں؟؟ - (یہ ذہن میں رہے کہ اس آیت کے اصول کے تحت احناف کے اپنے امام ابو حنیفہ رح بھی الله کی رحمت کے مستحق نہیں رہتے کیوں کہ بقول علامہ امام شعرانی رح، ابوحنیفہ رح بھی اپنے آخری وقت میں فاتحہ خلف الامام کو قائل ہو گئے تھے )-
محترم جب عقل پر پردہ پڑ جائے تو اسی قسم کی موشگافیاں ظاہر ہؤا کرتی ہیں۔ محترم اجتہادی مسائل میں اگر مجتہد سے غلطی ہو تو وہ اجر ہی کا مستحق ہوتا ہے یہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سب کے سب مجتہدین تھے ان میں سے کوئی بھی رحمتِ الٰہی سے دور نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت میں تھے اور انشاء اللہ ہیں۔

علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں-
محترم یہ امتیوں کی طرف رجوع اور اندھی تقلید آپ کب چھوڑیں گے۔

سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
یہ جابر بن عبدللہ کا اپنا اجتہاد تھا نہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و اله وسلم کا فرمان- ان کا خیال یہی تھا کہ فاتحہ خلف الامام قرأت قرآن میں شامل ہے- جو کہ صحیح نہیں - دوسری متعدد صحیح احادیث نبوی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام کی اقتدا میں سوره فاتحہ قرآن کی قرأت سے بہرحال مستثنیٰ ہے -
محترم: آپ نے نہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ماننا ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
کیا یہ تمام اجتہادات ہیں؟؟؟؟؟
فرمانِ باری تعالیٰ جل شانہٗ

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔
فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

نمبر ایک: ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ــــــــ الحدیث

ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو ـــــــــــالحدیث

نمبر دو: ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمُ التَّشَهُّدُ

ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم سب تشہد پڑھو۔

نمبر تین:مسند احمد: أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
عَن أَبِي مُوسَى قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (نماز) سکھلائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو چاہئے کہ امامت کرائے تم میں سے کوئی ایک اور جب امام پڑھے تو خاموش رہو ۔

مولاناعبدالحئی حنفی فرماتے ہیں :

لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔

( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی )

یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔
محترم: مولاناعبدالحئی حنفی کو آپ اپنا معبود مانتے ہو یا نبی؟؟؟؟؟ جھوٹ لکھنا ’’اہلِ حدیث النفس‘‘ کا شعار ہے۔ یہ حدیث کیا مرفوع نہیں؟؟؟ کیا اس میں سورہ فاتحہ کی بھی ممناعت نہیں؟

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ــــــــــ الحدیث


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو ـــــــــــالحدیث
محترم اس حدیث سے سورہ فاتحہ کی ’تخصیص‘ بھی ختم ہوگئی کہ اس میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت بھی خاموش رہنے کا واضح حکم موجود ہے۔
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
کیا امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے؟

بسم اللہ الرحمن الر حیم


وَلَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْظِیْم (الحجر:۸۷)
(اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی [آیات] یعنی قرآنِ عظیم عطا کیا)

کیا امام کے پیچھے بھی سورۃ الفاتحہ ضروری ہیں؟

ترتیب
عبدالرؤف ہانجی السلفی
ناشر
ادارہ دارالسلفیہ
خیرپورہ،آرونی کشمیر
Idarah Darus Salafia
Khairpora, Arwani, Kashmir
8803045299, 9018617641
E-mail: darussalafia@gmail.com


بسم اللہ الرحمن الر حیم

سورہ الفاتحہ کی اہمیت :

سورہ الفاتحہ ہر نمازمیں پڑھنی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْظِیْم (الحجر:۸۷)
(اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی [آیات] یعنی قرآنِ عظیم عطا کیا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اُم القرآن یعنی سورہ الفاتحہ ہی سبع المثانی ہے اور قرآنِ عظیم ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب التفسیر،حدیث: ۴۷۰۴)

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۷۴؁ھ]لکھتے ہیں:

’’مراد سبع مثانی سے سورۂ الفاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سات آیتیں بسم اللہ سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالی نے ہمیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں خواہ فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس میں جو حدیثیں ہیں ان سے اس پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر، سورۂ الحجر، آیت ۸۷ کی تفسیر،ترجمہ جوناگڑہی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی شان ہے:

لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)

(سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں)

احادیث و آثار :

(۱)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘

(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴؁ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷؁ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔نیز دیکھئے الکواکب الدریہ لحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، ص۴۱)

(۲)سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘

(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)

(۳)سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’[اے صحابہ!] تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا،’’جی ہاں! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا :’’کچھ نہ پڑھوسوائے سورۂ فاتحہ کے۔‘‘

(جزء القرأۃ،حدیث:۶۳)

یہ حدیث ’’عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے ہیں ، جو صحیح سند ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۲۸؁ھ] فرماتے ہیں:

’’ائمہ اسلام اور جمہور علماء کے نزدیک اگر عمرو بن شعیب تک سند صحیح ہو تو ان کی عن ابیہ عن جدہ والی روایت حجت ہوتی ہے۔‘‘

(مجموع الفتاویٰ، الحدیث، سُئل شیخ الاسلام عن الحدیث: تعریفہ و اقسامہ ج۱۸ص۸)

عبدالرشید نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں:

’’ اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو (جو عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہو)حجت مانتے ہیںاور صحیح سمجھتے ہیں۔‘‘

(ابن ماجہ اور علم الحدیث،ص۱۴۱،مکتبہ الحق دیوبند)
(نیز دیکھئے الکواکب۔۔ص۵۶)


(۳)سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی آپ پر قراء ت بھاری ہوگئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ’’میں تمہیں دیکھتا ہوںکہ تم امام کے پیچھے( قرآن )پڑھتے ہو؟‘‘عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ہم لوگوں نے عرض کیا : ’’یا رسولَ اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کی قسم ہم پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا:


’’لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَاِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِھَا


(ایسا مت کرو مگر ہاں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو اور کچھ نہ پڑھو، کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں ہوتی)

(حوالجات: مسنداحمد: حدیث۲۳۱۲۵واللفظ لہ۔سنن ابی داؤد: حدیث۸۲۳۔ ترمذی، حدیث: ۳۱۱۔جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۷۔ دارقطنی، حدیث: ۱۲۰۰۔ مستدرک الحاکم، حدیث: ۸۶۹۔ صحیح ابن خزیمہ)

حدیثِ مسند احمد کی تصحیحات:

(۱)اس حدیث کی سند کو مسند احمد کے محقق الشیح شعیب الارناوؤط رحمہ اللہ
[المتوفیٰ: ۱۴۱۱؁ھ] نے’’صحیح لِغیرہ‘‘ کہا۔(حدیث ۲۳۰۴۷)

(۲)امام ترمذی رحمہ اللہ
[المتوفیٰ:۲۷۹؁ھ] نے کہا’’حَدِیْثٌ حَسَنٌ‘‘ (حدیث:۳۱۱)

(۳)ابن خزیمہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۳۱۱؁ھ] نے اپنی’’ صحیح ‘‘میں درج کی ہے اور صحیح ابن خزیمہ کی تمام احادیث امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہیں
(صحیح ابن خزیمہ:قبل حدیث ۱)

(۴)امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی’’ صحیح ‘‘کے اندر درج کیا ہے
(حدیث: ۱۸۴۵،۱۷۸۲)امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کتاب میں صرف وہ احادیث درج کی ہیں جو آپ کے نزدیک صحیح ہیں۔

(۵) امام دارقطنی نے کہا ’’یہ حدیث حسن ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں‘‘(حدیث: ۱۲۰۰)

(۶) امام خطابی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۲۸۸؁ھ] نے فرمایا:’’یہ حدیث مقتدی پر سورۃ الفاتحہ کے واجب (فرض) ہونے میں صریح (واضح اور صاف) ہے، چاہے امام جہراً قرأۃ کرتا ہو یا سراً۔‘‘
اور فرمایا:اِسْنَادُہُ جَیْدٌلَا طَعْنَ فِیْہِ(اس کی سند عمدہ ہے جس میں کوئی طعن نہیں)
(معالم السنن، بحوالہ عون المعبود:ج۳ص۳۲ح۸۱۸)

(۷) علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۸۵۲؁ھ] نے فرمایا: اَخْرَجَہُ اَبُوْ دَاوُدٍبِاِسْنَادِ رِجَالہ ثِقَات (اسے ابوداؤد نے ایسی سند سے روایت فرمایا ہے جسکے سبھی راوی ثقہ[سچے]ہیں)
(الدرایہ مع الہدایہ أولین، ص۱۲۱باب فی القرأۃ، مکتبہ بلال دیوبند)

(۸) علامہ البانی [المتوفیٰ:۱۹۹۹؁ء] نے اسے صحیح قرار دیا
(صحیح ترمذی: حدیث )

(۹) محدث العصر حافظ زبیر علی زئی [المتوفیٰ:۱۴۳۳؁ھ] نے اسے صحیح قرار دیا
(الکواکب الدریہ: ص۶۳)

(رحمہم اللہ علیہم اجمعین)

(۵) سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا

لَا صَلَاۃَلِمَنْ لَمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اِمَام وَ غَیْر اِمَام

(اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، امام ہو یا مقتدی یا منفرد)

(کتاب القرأۃ للبیہقی رحمہ اللہ،حدیث:۱۱۵۔اس حدیث کی سند صحیح ہے دیکھئے الکواکب ص۶۶ تا ۶۷)

٭٭٭٭٭٭


صحابہ رضی اللہ عنہم اور فاتحہ خلف الامام :

(ا) امیر المؤمنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ:

یزید بن شریک (تابعی)سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قرأۃ خلف الامام کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سورۂ فاتحہ پڑھ‘‘تو میں(یزید) نے کہا:اور اگر آپ (امام) ہوں تو؟فرمایا اگر میں ہو(تو بھی پڑھ)میں نے پوچھا اگر آپ قرأۃ بالجہر کر رہیں ہوں؟ تو فرمایا:’’اور اگر میں جہر سے پڑھوں(تو بھی پڑھ)۔


(المستدرک للحاکم،حدیث:۸۷۳۔اردو ترجمہ،حدیث:۸۰۶۔امام حاکم نے فرمایا ’’صَحِیْحٌ‘‘۔ جزء القرأۃ، حدیث: ۵۱۔ دارقطنی، حدیث: ۱۱۹۷،۱۱۹۸۔اور امام دارقطنی نے کہا ’’ھَذَا اِسْنَادُہُ صَحِیْحٌ‘‘اور کہا:’’رُوَاتُہُ کُلُّھُمْ ثِقَاتٌ‘‘(یعنی اس کے سبھی راوی ثقہ ہیں) ۔ اس اثر کی سند بالکل صحیح ہے دیکھئے الکواکب، ص ۸۵ تا ۹۰)

مصنَف عبدِالرزاق میں صحیح سند سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مغرب کی ایک(پہلی)رکعت میں قرأۃ بھول گئے تو آپ نے دوسری رکعت میں دودفعہ سورۂ فاتحہ پڑھی۔
(حدیث نمبر ۲۷۵۱ )

معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ سورۂ فاتحہ کو ہر رکعت میں پڑھنا ضروری سمجھتے تھے اسی لئے دوسری رکعت میں دو دفعہ پڑھی تھا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ طریقہ صحیح حدیث کے خلاف تھا اور آپ کے پیچھے کبار صحابہ کی ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی۔ تو بعد میں آپ نے صحابہ سے استفسار کرکے نماز لوٹائی۔

چنانچہ مصنف عبدالزراق میں ایک دوسری اثر میں ہے کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے[نماز کا]اعادہ فرمایا تھا[یعنی دوبارہ پڑھی تھی]

(حدیث: ۲۷۵۵)

(یہ دونوں آثار حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہیں دیکھئے نصر الباری، ص۲۶۷)

(نیز دیکھئے معرفۃسنن و آثار للبیہقی،حدیث:۱۲۷۳)


(۲) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ:

آپ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: مَنْ صَلَّی صَلَاۃً لَمْ یَقْرَأ فِیْھَا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَہِی خِدَاجٌ ثَلِاثاًغَیْرُ تَمَامٍ(جس نے کوئی نماز پڑھی اس میں سورۂ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، پوری نہیں ہے، یہ بات آپ نے تین دفعہ دہرائی)تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا:


اِقْرَأ بِھَا فِیْ نَفْسِک
[اسکو اپنے دل میں پڑھ]

(صحیح مسلم، حدیث: ۸۷۸[ترقیم] ۔سنن ابی داؤد ، حدیث: ۸۲۱۔سنن ترمذی،حدیث:۲۹۵۳۔سنن نسائی،حدیث: ۹۱۰۔سنن ابن ماجہ، حدیث: ۸۳۸)

امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث ان الفاظ سے نقل فرمائی:

سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب امام سورۂ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور امام سے پہلے ختم کرلو، پس بیشک وہ جب ’’وَلَاالظَّالٓیْن‘‘ کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں جس کی آمین اس کے موافق ہوگئی تو وہ اس کے لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔


(جزء القرأۃ،حدیث:۲۸۳،۲۳۷۔مشہور تقلیدی ’’محقق‘‘محمد بن علی النیموی [المتوفیٰ: ۱۳۲۲؁ھ] نے اس اثر کے بارے میں لکھا’’واسنادہ حسن‘‘بحوالہ آثار السنن ج۱ ص۵۸۹ حدیث: ۳۵۸۔مکتبہ مدینہ دیوبند)

الفاظ کی تشریح


(۱) لفظ ’’خِدَاج‘‘کی تشریح:

مشہور عربی اردو لغت ’’القاموس الوحید‘‘ میں ہے: اَخْدَجَ الصَّلَاۃَ:اچھی طرح نماز نہ پڑھنا ، بعض’’ارکان‘‘ میں کمی کرنا
(ج۱ص۴۱۳کالم۳)

المنجد[گیارہ ’’علمائِ دیوبند ‘‘کی تصحیح شدہ]میں ہے: خَدَجَت…صَلَاتہ: بعض’’ارکانِ نماز‘‘ میں کمی کرنا
(ص۲۶۰کالم۲مادہ’’خَدَجَ‘‘[فرید بکڈپو])

بغیر رکن کے نماز کا حکم :

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۵۵۷؁ھ]فرماتے ہیں:

’’نماز کے ارکان پندرہ ہیں… (۳)سورۂ فاتحہ ‘‘
(غنیہ الطالبین، مترجم باب نمبر ۱، ارکانِ نماز ص۶۰)

(۱) رکن کی تعریف:’’رکن ایسی چیز ہے کہ ضروری کام اسکے بغیر مکمل نہ ہو اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت میں اس کام کا کوئی اعتبار [value] نہ ہو۔‘‘
(اصول سرخسی،ج۲ص۱۷۴۔فقہ الحدیث،ج۱ص۳۷۸)

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اگر کسی رکن کو جان بوجھ کر یا بھول کو چھوڑدیا تو نماز باطل ہوگئی۔‘‘

(غنیہ الطالبین[مترجم ]باب نمبر ۱، ھیاتِ نماز ص۶۲)

مزید فرماتے ہیں:’’سورۂ فاتحہ کی قرأۃ فرض ہے اور یہ نماز کا رکن ہے جس کے چھوڑنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔‘‘

(غنیہ الطالبین[ مترجم]حصہ دوم،باب نمبر۶،نماز کے آداب، ص۵۳۰ )

باب کے آخر میں فرماتے ہیں:’’ہمارے بیان کردہ طریقۂ نماز میں امام اور مقتدی اور منفرد اور تمام لوگ شامل ہیں۔‘‘
(ص۵۳۳)

شاہ محدث دہلوی رحمہ اللہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس کے رکن ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

لَا صَلَاۃَ اِلاَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اور لاَ تُجْزِیُ صَلَاۃُ رَجُلٍ حَتَّی یُقِیْمُ ظَہْرَہُ فِی الرَّکُوْعِ وَ السُّجُوْدِ
[یعنی کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہوتی جب تک کہ رکوع اور سجدہ میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے]

جس عمل کو شارع علیہ السلام نے ’’صلوۃ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ یہ نماز میں رکن ہے۔

(حجۃ اللہ بالغۃ[اردوترجمہ خلیل احمد ] ص۳۲۷، باب نماز میں ضروری امور)

(۲) الفاظ ’’فِیْ نَفْسِکَ‘‘کی تشریح:


(۱)امام نووی رحمہ اللہ [المتوفیٰ۶۷۶؁ھ]فرماتے ہیں:

’’بعض مالکیہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد دل میں غور و تدبر کرنا ہے حالانکہ یہ درست نہیں، کیونکہ پڑھنا کہتے ہیں جب زبان کو حرکت دی جائے یا کم از کم پڑھنے والا خود سن سکے اسی لئے تو اس بات پر اتفاق[اجماع]ہے کہ اگر کوئی جنبی اپنے دل میں قرآن پر غور و تدبر کرے زبان کو حرکت دئے بغیر تو اسے قرآن پڑھنا نہیں کہیں گے۔‘‘

[ملخصاً](شرح صحیح مسلم ،ج۲ص۱۱۶ تحت حدیث: ۸۸۱کتاب الصلاۃ۔ مکتبہ دارالسلام)

(ب) یہی بات مولانا انور شاہ شوپیانی [اہلحدیث،المتوفیٰ ۱۹۳۰؁ء] بھی فرماتے ہیں: ؎


اگر بے غسل آسِت کہنہ مسلمان چُھو دِلہ سیتن کران سُوی یاد قُرآن
چُھو نہ تس منع ہرگز در شریعت سُو قرأت گونہ شرعاً چِھس یہی وت
(تعلیمِ سنت،حصہ اول ص۲۹دربیانِ کیفیت صلاۃ)

[ان دونوں اشعار کا معنی بھی وہی ہیں جو امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان ہوا۔]


(ج) محدثِ دیوبند انور شاہ لولابی کشمیری [المتوفی ۱۳۵۲؁ھ] فرماتے ہیں:

’’اور وہ جو معاصر مدرسین حضرات اسے تفکر و تدبر پر محمول کرتے ہیں لُغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اور قرأۃ فی النفس اس معنی میں قطعاً ثابت نہیں…
الخ (عرف الشذی، ج۱ ص۳۸۶مکتبہ دارالایمان سہانپور)

(د) فتاوی دارِالعلوم میں ہے:

قرأۃ بغیر حرکت لب معتبر نہیں۔سوال [۴۳۹] اگر کوئی شخص نماز بلا حرکت ِلب جی میں پڑھے تو نماز ہوگی یا نہیں۔
الجواب:۔قرأۃ وغیرہ ایسے معتبر نہیں ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم ج۲ ص۲۴۰)

(ہ) ملا علی القاری الحنفی [المتوفی ۱۰۲۴؁ھ] فرماتے ہیں:

[فِیْ نَفْسِکَ] سراً غیر جھر (یعنی بغیر آواز کے خفیہ پڑھنا)
(مِرقاۃُ المفاتیح، ج۲ص۵۰۷تحت حدیث۸۲۳)

(ن)’’مفتی‘‘محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں:

’’اپنے دل میں (یعنی آہستہ آواز سے)


(معارف القرآن، ج۴ص۱۶۵تحت سورۃ الاعراف آیت ۲۰۵)

(ذ)[تعصبی]محمد الیاس گھمن دیوبندی نے کہا:

سِراً فی نفسہ(آہستہ [دل] میںپڑھا جائے)
(نماز اہل السنہ ص۱۳۱)

(ح) درمختار میں ہیں:

’’واَدنی الجھر اسماع غیرہ وادنی المنافتۃ اسماع نفسہ اور ادنی درجہ جہر کا سنانا غیر کا ہے یعنی جو اس کے قریب نہ ہو کذا فی الشامی اور ادنیٰ درجہ آہستگی کا سنانا ہے اپنے آپ کو اور اپنے قریب کے شخص کو۔
(درمختار [اردو] ج۱ص۲۷۷)

الغرض یہاں’’فی نفسک‘‘ کا معنی یہ ہیں کہ بغیر بلند آواز کے ہونٹوں کو برابر حرکت دیتے ہوئے پڑھنا۔


(۳) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:

آپ نے فرمایا:

اِقْرَأ خَلْفَ الْاِمَامِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ(امام کے پیچھے فاتحہ پڑھ)

[مصنف ابن ابی شیبتہ ح۳۷۷۳۔کتاب القرأۃ للبیہقی اور امام بیہقی نے فرمایا: وَھٰذَا اِسْنَاد صَحِیْحٌ لَا غُبَار عَلَیْہ ِ(یعنی یہ اثر سنداً صحیح ہے اس پر کوئی دھول نہیں۔ دیکھئے الکواکب ص۹۴ تا ص۹۵)]

(۴) سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ:

سیدنا محمود بن ربیع(صحابیٔ صغیر)فرماتے ہیں کہ سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ ایلیاء [شام میں ایک مقام] میں تھے۔ ایک دن عبادہ [رضی اللہ عنہ]کسی وجہ سے صبح کی نماز میں دیر سے پہنچے تو ابو نُعَیم [مؤذن]نے اقامت کہہ کر نماز پڑھانی شروع کردی۔ یہ [ابو نعیم ]وہ شخص ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں سب سے پہلے اذان دی تھی۔ پس میں[نافع] اور عبادہ[رضی اللہ عنہ] کے ساتھ آیا لوگوں نے صفیں بنالی تھیںاور ابونعیم اونچی آواز کر رہے تھے۔ تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے سورۂ فاتحہ پڑھی، حتی کہ میں نے اسے اچھی طرح سمجھ لیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میںنے پوچھا: میں نے آپ کو سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا ہے[اسکی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟] آپ نے فرمایا: جی ہاں! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نماز وں میں وہ نمازپڑھائی تھی جس میں اونچی قرأۃ کی جاتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قرأۃ اونچی آواز سے ہورہی ہو تو کوئی آدمی [بھی]سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے۔

(جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷، اور امام دارقطنی نے کہا’’ھذا اسناد حسن، ورجالہ ثقات کلہم‘‘ یعنی یہ سند حسن درجہ کی ہے اور اس کے سبھی راوی سچے اورعادل ہیں۔ اس اثر کی سند صحیح ہے دیکھئے الکواکب ص۵۰ تا ۵۵)

ان کے علاوہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرأۃ خلف الامام ثابت ہے: مثلاً:

(۱) سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ:(جزء القرأۃ، حدیث: ۵۷،۱۰۵۔ وسندہ صحیح: الکواکب ص۹۲)

(۲) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ: (کتاب القرأۃ، حدیث: ۲۳۱۔ وسندہ صحیح: الکواکب ص۹۷)

(۳) سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ: (جزء القرأۃ، حدیث: ۶۰۔وسندہ صحیح۔ الکواکب ص ۹۹ تا ۱۰۰)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭


ائمۂ اسلام اور فاتحہ خلف الامام :

(۱) امام بخاری رحمہ اللہ [المتوفیٰ ۲۵۶؁ھ] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی اثر کے تحت رقمطراز ہیں:

’’اسی طرح ابی بن کعب، حذیفہ بن الیمان اور عبادۃبن الصامت رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے اور سیدنا علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہم اور متعدد اصحابِ نبی سے اسی طرح مذکور [و مروی] ہے۔‘‘

(جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۔ وسندہ صحیح نصر الباری ص۷۸)

(۲) امام ترمذی حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے تحت رقمطراز ہیں:

’’اکثر صحابہ اور تابعین کا قرأۃ خلف الامام کے بارے میں اس حدیث پر عمل ہے۔ مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحٰق [رحمہم اللہ] بھی اسی کے قائل ہیں کہ قرأۃ خلف الامام جائز ہے۔‘‘

(سنن ترمذی، تحت حدیث: ۳۱۱)

(۳) سیدنا حسن البصری تابعی رحمہ اللہ [المتوفی ۱۱۰؁ھ] نے فرمایا:

’’ امام کے پیچھے ہر نماز میں، سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھ۔‘‘


(کتاب القرأۃ،حدیث:۲۴۲۔ مصَنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۷۶۲۔ وسندہ صحیح: الکواکب ص ۲۷)

(۴)امام شافعی رحمہ اللہ[المتوفی ۱۵۰؁ھ] فرماتے ہیں:

’’کسی آدمی کی نماز جائز نہیںجب تک وہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھ لے، چاہے وہ امام ہو یا مقتدی، امام جہری قرأۃ کررہا ہو یا سری، مقتدی پر یہ لازم ہے کہ سری اور جہری [دونوں نمازوں میں] سورۂ فاتحہ پڑھے۔‘‘

(معرفہ السنن و الآثار للبیہقی[جلد۲،باب القراء ت خلف الامام ] حدیث ۹۲۸، نصر الباری ص ۲۴۸تحت حدیث:۲۲۶)

(۵)امام ترمذی، امام اہل السنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اس کے باوجود امام احمد بن حنبل [رحمہ اللہ] نے قراۃخلف الامام کو اختیار کیا اور یہ کہ آدمی سورۂ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔‘‘

(ترمذی، تحت حدیث:۳۱۱)

(۶) امام بخاری اور امام بیہقی رحمہما اللہ :

امام بخاری اور امام بیہقی رحمہما اللہ نے اس موضوع کے ثبوت پر مستقل دو کتابیں تحریر فرمائی ہے۔ یعنی یہ دونوں نہ صرف فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں بلکہ اسکے قائل و داعی بھی ہیں۔


(۷) امام الاوذاعی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۵۰؁ھ) نے فرمایا:

’’امام پر یہ [لازم و] حق ہے کہ وہ نماز شروع کرتے وقت، تکبیر اولیٰ کے بعد سکتہ کرے اور سورۂ فاتحہ کی قرأۃ کے بعد ایک سکتہ کرے تاکہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سورۂ فاتحہ پڑھ لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ [مقتدی] اسی کے ساتھ سورۂ فاتحہ پڑھے اور جلدی پڑھ کر ختم کرے پھر کان لگا کر سنے۔‘‘

(کتاب القرأۃ، حدیث: ۲۴۷۔ وسندہ صحیح: نصر الباری ص۱۱۷)

(۸) شاہ محدث دہلوی رحمہ اللہ [المتوفیٰ: ھ]

’’اور مقتدی پر واجب ہے کہ چپ کھڑا رہے اور قرآن کو سنتا رہے۔ پھر اگر امام جہر سے پڑھتا ہے تو جب وہ سکوت کیا کرے اس وقت وہ پڑھ لیا کرے اور اگر آہستہ پڑھ رہا ہے تو مقتدی کو اختیار ہے (کہ اگر فاتحہ بھی پڑھے یا ضم بھی ملالے)اگر مقتدی پڑھے تو سورۂ فاتحہ پڑھ لے مگر اس طرح سے پڑھے کہ امام اس کے پڑھنے سے اپنا پڑھنا نہ بھول جائے اور یہی میرے نزدیک سب سے بہتر قول ہے اور تمام احادیث کی تطبیق اس کے مطابق ہوسکتی ہے۔

(حجۃ اللہ بالغۃ[اردو] ص۳۳۵،باب نماز کے اذکار سات مستحنہ کا بیان)

(۹) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔ (حوالہ گذر چکا ہے)

(۱۰) اشرف علی تھانوی دیوبندی [المتوفی ] کا فتویٰ:

’’اب رہا یہ امر کہ مقتدیوں کو جو قرأۃ خلف الامام سے منع کیا جاتا ہے تو اس باب میں کوئی حدیث نہیں ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منع ثابت ہو۔‘‘


(تقریر ترمذی ص۶۸)


ایک اور جگہ اس شخص کے بارے میں، جو وہاں جمعہ پڑھتا ہے جہاں حنفیہ کی اکثر شرائط مفقود ہوتی ہیں،کہا:’’ ایسے موقعہ پر فاتحہ خلف الامام پڑھ لینا چاہئے تاکہ امام شافعی کے مذہب کے بناء پر نماز ہوجائے۔‘‘


(تجلیات رحمانی ص۲۳۳، بحوالہ آینئہ دیوبندیت ص ۱۸۷)


(۱۱) محدث دیوبند انور شاہ لولابی کشمیری فرماتے ہیں:

’’لَمْ اَرِ فِیْ نَقْلِ عَنِ الْاِمَامِ اَنَّ الْقِرْأۃَ فِیْ السِّرِیَّۃِ لَا تَجُوْزُ‘‘

(فیض الباری ج۲ص۲۸۱، تحت حدیث:۵۳۰)

یعنی میں نے کسی جگہ یہ لکھا ہوا نہیں دیکھا کہ سری میں امام ابوحنیفہ نے قرأۃ کوناجائز کہا ہے۔

آگے فرماتے ہیں:

’’ واَمَّا الامام اَبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی فالمحقَّق عندی من مذھبہ: اَنہ حَجَرَ عن القراء ۃ فی الجھریہ، واَجاز بھا فی السِّریۃ‘‘ انہوں نے صرف جہری میں قرأۃ سے روکا ہے اور سری میں پڑھنے کی اجازت دی ہے۔‘‘

(فیض الباری ،کتاب الاذان،ج۳ ص۳۲،تحت حدیث:۷۵۱)

حنفیوں کی سب سے معتبر کتاب’’الھدایہ‘‘میں لکھا ہے:

’’محمد بن حسن الشیبانی [تلمیذ ابو حنیفہ] سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد …پڑھنا احتیاتاً مستحسن [بہتر] ہے۔‘‘

(الھدایہ [درسی] ج۱ص۱۲۲، باب فصل فی القرأۃ)

یہی قول الفقیہ ابو اللیث سمرقندی حنفی [متوفیٰ ۳۷۵؁ھ]نے بھی کتاب ’’فتاویٰ النوازل‘‘ میں نقل کیا ہے۔

(فتاوی النوازل، کتاب الصلاۃ، فصل فی القرأۃ،ص۷۵۔مکتبہ دار الایمان دیوبند)

(۱۲) امام کے پیچھے سراً قرأۃ کرنے میں کوئی نقصان نہیں۔ علامہ ابن عبدالبَر رحمہ اللہ [المتوفی: ۴۶۴؁ھ] فرماتے ہیں۔

’’وقد اجمع العلماء علی ان من قرأ خلف الامام فصلاتہ تامۃ ولا اعادۃ علیہ‘‘[یعنی اس بات پرعلَماء کا اجماع ہے کہ جس نے قراء ت خلف الامام کی تو اس کی نماز مکمل ہے، دوبارہ نہیں پڑھنی]

(الاستذکار،کتاب الصلوۃ،باب ترک القراء ۃ خلف الامام فیما جھر فیہ، ج۱ص۴۷۰)

(۱۳) رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:

’’ارشاد خدا وندی میں جو حدیث قدسی میں واقع ہے قسمت الصلوٰۃ بینی و بین عبدی نصفین۔ پس جب اس کو اس قدر خصوصیت بالصلوٰۃ ہے تو اگر سکتات میں اس کو پڑھ لو تو رخصت ہے اور یہ قدر قلیل آیات میں محل ثنا میں ختم بھی ہوسکتی ہیں اور خلط قرأۃ امام کی نوبت نہیں آتی۔‘‘

(تالیفات رشیدیہ ، ص۵۱۲ [سبیل الرشاد])

٭٭٭٭٭٭٭٭


امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑنے کا آسان طریقہ :

جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس وقت امام ثنا پڑھے، مقتدی اس وقت ثنا کے بجائے سورۂ فاتحہ پڑھے ۔پھر امام کی قرأۃ غور سے سنے اور آخر میں امام کے ساتھ مل کر آمیں کہے۔ امام کو چاہئے کہ اَللّٰہم بَاعِدْ بَیْنِیْ…الخ والی ثنا پڑھے تاکہ مقتدی کو فاتحہ اچھی طرح پڑھنے کا موقع ملے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر رکعت کے بعد امام سکتہ کرے اور انہی سکتات میں مقتدی بھی ایک ایک آیت پڑھتا رہے اور آخری آیت امام سے پہلے ختم کرے پھر امام و مقتدی مل کر بلند آواز سے آمین کہیں۔

جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں پڑھے گا، بکلہ فاتحہ کے بعد خاموش رہ کر خوب دھان سے قرأۃ پر غور کرے گا۔

اس طرح پڑھنے میں بھی مزا آئے گا اور سننے میں بھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر امام سکتات نہ کرے تو سورۂ فاتحہ نہ پڑھنی چاہئے، ہر گزنہیں! بلکہ سورۂ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔

٭٭٭٭٭٭٭


اعتراضات اور جوابات :

(ا) سورۂ اعراف آیت ۲۰۴ وَاِذَا قُرِاَالْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْلَہْ وَاَنْصِتُوْا [اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم غور کرو اور خاموش رہو]کی رُو سے امام کے پیچھے قرأۃ منع ہے۔


جواب:

پہلی بات یہ کہ صحیح حدیث، قرآنی آیت کی تشریح کرتی ہے۔ قرآن میں احکامات مُجْمَل [مختصر]ہیں اور احدیث میں انکی تفصیل۔ اس آیت سے مراد سورۂ فاتحہ کے علاوہ قرآن ہے۔

اس کو اس طرح سمجھے: اللہ تعالیٰ سورۂ المائدہ آیت ۳ میں فرماتا ہیں:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ…الخ

[یعنی تم لوگوں پر حرام کیا گیا وہ جانور جو خود مرجائے اور خون…الخ]


اس آیت کی رو سے ہر جانور جو ذبح کئے بغیر مرجائے حرام ہے اور اسی طرح ہر قسم کا خون بھی حرام ہے۔ لیکن سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً[حکماًمرفوع]روایت ہے کہ: ہمارے لئے دو خود مردہ جانور اور دو قسم کے خون حلال کئے گئے ہیں۔ پس وہ خود مردہ جانور ٹڈی اور مچھلی ہیں اور دو قسم کے خون تلی اور جگر ہے۔

(ابن ماجہ، حدیث: ۳۲۱۸، بیہقی الکبریٰ، حدیث:۱۲۴۱ ،واللفظ لہ)

معلوم ہوا کہ اگر مچھلی مری ہوئی ہو تو بھی حلال ہے۔ حالانکہ قرآن میں اَلْمَیْتَۃُ [خود مردہ] کو حرام کہا گیا۔ قرآن کا حکم عام ہے اور حدیث کا حکم خاص ہے۔ خاص حکم کو عام پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ الغرض قرآن میں [سورۂ فاتحہ کے سوا ]قرآن پڑھنے کی ممانعت ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

(۲) حدیث میں آیا ہے: وَاِذَا قَرَئَ فَانْصِتُوْا [اور جب امام قرأۃ کرے تو تم خاموش رہو]
(صحیح مسلم، حدیث: ۴۰۴[ترقیم: ۹۰۵])


اسی طرح: مَنْ کَانَ لَہُ اِمَامٌ فَقِرْاَۃُ الْاِمَامِ لَہُ قِرأتٌ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۸۵۰) [جس کا کوئی امام نہ ہو تو امام کی قرأۃ اسی کی قرأۃ ہے]


جواب:

اس کا جواب بھی واضح ہے کہ سورۂ فاتحہ کے علاوہ امام کے پیچھے کچھ بھی نہ پڑھو۔ ایک حدیث دوسرے حدیث کی تشریح کرتی ہے۔ صحیح مسلم کی یہ حدیث سورۂ اعراف کی آیت ۲۰۴ کی طرح عام حکم میں ہے اور فاتحہ پڑھنے والی روایات خاص حکم میں ہیں۔یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو پھر خاموش ہوجاو۔

رہی سنن ابن ماجہ کی روایت تو وہ ضعیف ہے۔ اگر صحیح بھی مانی جائے تو عام حکم میں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ امام کے پیچھے کچھ بھی نہ پڑھو سِوائے سورۂ فاتحہ کے(دیکھئے احادیثِ سابقہ)


(۳)حدیث میں آیا ہے:

لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِداً (سنن ابی داؤد،حدیث:۸۲۲)

[جو شخص سورۂ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اسکی نمازنہیں]

اس سے معلوم ہوا کہ جو حکم فاتحہ کا ہے وہی حکم دوسرے سورہ کا بھی ہے!!



جواب نمبر۱

:۔صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں:

’’اگر سورۂ فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھے تو جائز ہے۔ اور اگر زیادہ پڑھے تو بہتر ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، حدیث: ۷۷۲)

اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:

’’جس نے سورۂ فاتحہ پڑھی اس کی نماز جائز ہوگی اور جس نے [اس سے زیادہ] قرأۃ کی تو یہ افضل ہے۔‘‘
(صحیح مسلم،حدیث:۴۴)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

یُجْزِیُٔ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَاِنْ زَادَفَھُوَ خَیْرٌ

[سورۂ فاتحہ کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر سورۂ فاتحہ سے زیادہ پڑھے تو بہتر ہے]
(مسند حُمَیْدی،حدیث:۹۹۶۔کتاب القرأۃ،حدیث:۱۵)

رئیس المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا بڑا ہی پیارا جواب دیا ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:

’’ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:


تُقْطَعُ الْیَدُ فَیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعَدًا

[چار درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا پس اس سے زیادہ]


(صحیح بخاری،حدیث: ۶۷۸۹۔مسلم: ۴۴۹۲)


یعنی جب چار درہم کی چوری ثابت ہوگئی تو یہ ہاتھ کاٹنے کے لئے کافی ہے اس میں چار درہم سے زائد کی شرط نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں بھی ’’فصاعدا‘‘ لفظ ہے۔

اسی طرح قرأۃ خلف الامام میں سورۂ فاتحہ کافی ہے۔ اس سے زائد بہتر ہیں ضروری نہیں۔
‘‘(جزء القرأۃ،حدیث:۴)

جواب نمبر۲: ۔

انور شاہ لولابی کشمیری فرماتے ہیں:

’’ پھر احناف نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس حدیث سے مراد فاتحہ اور سورت ملانے کا وجوب ہے لیکن یہ[بات]لُغت کے خلاف ہے کیونکہ اہل لغت کا اس پر اتفاق [اجماع] ہے کہ ’’ف‘‘ کے بعد جو ہو وہ غیر ضروری ہوتا ہے۔ سِیْبُویہ [ایک نحوی ]نے اپنی کتاب ’’الکتاب‘‘ کے باب الاضافہ میں اس کی سراحت کی ہیں۔‘‘

(العرف الشذی علی جامع الترمذی، ج۱ص ۳۶۹، مکتبہ دار الایمان دیوبند)

معلوم ہوا کہ جو حکم سورۂ فاتحہ کا ہے وہ دوسری سورہ کا نہیں ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


رکوع میں مِلنے والی رکعت کا مسئلہ :

اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض کے نزدیک رکوع میں ملنے والی رکعت ہوجاتی ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ہوتی۔

جن کے نزدیک نہیں ہوتی ہے انکی دلیل یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس [نماز میں] پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے تو انہوں نے صف میں ملنے سے پہلے [ہی]رکوع کرلیا [پھر اس حالت میں صف میں مل گئے] پس صحابہ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصاً وَلاَ تَعْدُ[یعنی اللہ تیری حرص زیادہ کرے اور پھر ایسا نہ کرنا]

(صحیح بخاری،حدیث: ۷۸۳، جزء القرأۃ،حدیث: ۱۳۵)

(۱) خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


فَلَیْسَ لِاَحِدٍ اَنْ یَّعُوْدَ لِمَا نِہَیَ النَّبِیُّ عَنْہُ وَلَیْسَ فِیْ جَوَابِہِ اَنَّہُ اِعْتَدَّ بَالرَّکُوْعِ عَنِ الْقِیَامِ

[یعنی کسی آدمی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایسا کام کرے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اور آپ کے جواب میں یہ بات نہیں ہے کہ انہوں [ابوبکرہ]نے قیام کے بغیر ہی رکوع کو شمار کرلیا تھا]

(جزء القرأۃ، تحت حدیث: ۱۳۶۔نصر الباری ص۱۸۶)

(۲)ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

لَا یَرْکَعَنَّ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

[یعنی تم میں سے کوئی آدمی بھی سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر ہرگز رکوع نہ کرے]

وَکَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا تَقُوْلُ ذٰلِکَ

[یعنی اُمی جان سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بھی یہی فرمایا کرتی تھیں]

(جزء القرأۃ،حدیث : ۱۰۶ ، ۱۳۳۔ و سندہ صحیح:نصر الباری ص۱۶۳)

(۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لَا یُجْزِئَکَ اِلَا اَنْ تُدْرِکَ الْاِمَامَ قَائِماً قَبْلَ اَنْ یَّرْکَعَ

[یعنی تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوتی جب تک تو رکوع سے پہلے امام کو حالتِ قِیام میں نہ پالے]

(جزء القرأۃ، حدیث:۱۳۲۔وسندہ صحیح :نصرالباری ص۱۸۲)

جن کے نزدیک رکوع مل جانے سے رکعت ہوجاتی ہے:

اگرچہ چند ایک صحابہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ مُدْرک الرکوع [رکوع پانے والا]کی رکعت ہوگی۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ اگر امام کو رکوع میں دیکھو تو رکوع نہ کیا جائے بلکہ امام کے رکوع سے اُٹھنے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح انسان شکوک میں نہیں پڑتا۔

نِیز جس حدیث میں آیا ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے آئے اور امام کسی بھی حالت میں ہو تو وہی کرو جو امام کررہا ہے۔‘‘

(ترمذی، حدیث:۵۹۱۔ ابوداؤد،حدیث: ۵۰۶)وہ سنداً ضعیف ہے اس لئے رکوع سے اُٹھنے کے انتظار کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔

رہا اس مسئلہ پر اجماع کا دعوی تو وہ باطل ہے، کیونکہ علامہ ابن حزم [المتوفی ۴۵۶؁ھ]

صحیح سند کے ساتھ امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

مَنِ ادَّعیٰ الْاِجْمَاعَ فَھُوَ کَاذِبٌ لَعَلَّ النَّاسَ اِخْتَلَفُوْا (المحلیٰ: ج۱۰ص۴۲۲ مسئلہ نمبر ۲۰۲۵، مسائل احمد روایۃ عبداللہ، مسئلہ:۱۵۸۷،اعلام المؤقعین[اردو]ج۱ص۳۹) [یعنی جس نے اختلافی مسائل میں اجماع کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے]


حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اس مسئلہ میں صحابہ کرام کے اپنے درمیان اور علمائِ سلف کے درمیان اختلاف ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زید بن وہب، امام بخاری وغیرہ [رحمہم اللہ]کی تحقیق میں مدرکِ الرکوع کی رکعت نہیں ہوتی، جب صحابہ میں اختلاف ہوتو پھر مرفوع احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور یہ مرفوع حدیث عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘(الکواکب ص ۱۴۵)

نیز ہمارے سامنے اللہ کا یہ فرمان بھی ہے:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئً فَرَدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ(النساء:۵۹)

[یعنی جب ان (بڑوں) میں اختلاف ہوجائے تو اللہ (کے فرمان) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث)کی طرف رجوع کرو]

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


نماز جنازہ میں بھی سورۂ فاتحہ ضروری ہے :

(۱)نماز جنازہ بھی نماز ہی ہے اسلئے یہاں بھی فاتحہ کا وہی حکم ہے جو عام نمازوں میں ہوتا ہے۔

(۲)طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس [رضی اللہ عنہ] کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا۔ انہوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورہ پڑھی اور [دونوں]بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: سُنَّۃٌ وَ حَقٌٌّّ [یعنی یہ سنت ہے اور حق ہے]


(نسائی، حدیث: ۱۹۸۹ واللفظ لہ ۔ صحیح بخاری،حدیث: ۱۳۳۵ [اختصاراً])

(۳)سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’نماز میں سنت یہ ہے کہ تم تکبر کہو پھر سورۂ فاتحہ پڑھو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو۔ پھر خاص طور پر میت کے لئے دعا کرو، قرأۃ صرف پہلی تکبیر میں کرو پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھردو۔

(مصَنف ابنِ ابی شیبۃ،ج۳ص۲۹۶،تحت حدیث:۱۲۴۹۷۔ مصَنف عبدِالرزاق،حدیث: ۶۴۲۷[ علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس سند کے بارے میں فرمایا: اِسْنَادُہُ صَحِیْحٌ۔فتح الباری،ج۳ص۲۰۴،تحت حدیث:۱۲۶۹])

(۴)شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ [نماز جنازہ میں] پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جنازہ میں فاتحہ پڑھیں۔‘‘

(غنیہ الطالبین حصہ دوم، باب۷ ص۵۵۷، نماز جنازہ)

(حاشیہ از ناقل: سنن ابن ماجہ،حدیث:۱۴۹۶، وسندہ حسن شھر بن حوشب ثقہ الجمہور)(اقول: اخرجہ عنہ مسلم [حدیث رقم:۵۴۶۹]وقال ابن الحجر:وشھر حسن الحدیث [فتح الباری،ج۳ص۶۵۔تحت حدیث:۱۱۳۲] شرحِ صحیح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۶۷۶؁ھ ]نے تفصیل سے اس کی توثیق نقل فرمائی ہیں۔ دیکھئے: مقدمہ، باب بیان ان الاسناد من الدین)

شیخ صاحب اپنے موقف کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’…کیونکہ مجاہد کا بیان ہے کہ میں نے اَٹھارہ سے زیادہ صحابہ سے نمازِ جنازہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ تکبیر کہہ کر فاتحہ پڑھو۔‘‘

(غنیہ الطالبین حصہ دوم، باب۷ص۵۵۷،نماز جنازہ )

٭٭٭٭٭٭٭


خلاصہ الکلام :

اتنی دلائل کے بعد ہم مسلمانوں سے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم سورۂ فاتحہ امام کے پیچھے کیوں نہ پڑھیں گے؟ نہ ماننے والوں پر ہم کوئی فتوی نہیں لگاتے ،لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ ہم اپنی نمازوں کو سورۂ فاتحہ کی قرأۃ سے سجاتے۔ اللہ ہمارے سینوں کو قرآن و حدیث اور فہم سلف کی محبت سے لبریز فرمائے اور ہمیں بلا جھجک حق کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔

بعض لوگ وہ روایات ذکر کرتے ہیں جن میں آیا ہے کہ امام کے پیچھے قرأۃ کرنے والے کے منہ میں آگ بھردی جائے گی۔ انہیں اللہ سے خوف کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایسی روایات منگھڑت اور موضوع ہے۔ ایسا کہنا قرآن کی توہین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ مین رکھیں۔ آمین

جو لوگ غلو سے کام لے کر مقتدیوں کو فاتحہ خلف الامام سے روکتے ہیں۔ انہیں دعوت دی جاتی ہیں کہ قرآن ، حدیث ، اجماع یا آثارِ سلف سے ایک صریح اور واضح دلیل پیش کریں۔ جس میں سورۂ فاتحہ کا لفظ ہو اور پھر ممانعت وارد ہو۔ضعیف اور عقلی دلائل کو قرآن و حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنا بڑی جسارت ہے۔ اللہ صحیح راستے کی ہدایت دے۔ آمین


اس موضوع پر اس وقت کافی علمی مواد موجود ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے:

(۱) الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الصلوۃ الجھریۃ [دوسرا نام: مسئلہ فاتحہ خلف الامام] الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

(۲) نصر الباری فی تحقیق جزء القرأۃ للبخاری: الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

(۳) کتاب القرأۃ: امام البیہقی رحمہ اللہ

(۴) شرح صحیح بخاری ، ج۱ص۶۸۸ تا ۶۹۸:داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ

(۵) توضیح الکلام: ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

(۶) فوزالمرام فی قراء ۃ فاتحہ خلف الامام: عبدالرحمٰن فاضل دیوبند
 
Top