وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
محترم کیا یہ قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } حدیث نمبر 913:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا(تمام راوی ثقہ ہیں)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
نوٹ:اس میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے ۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 837
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ
’’غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ‘‘
فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور
جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہے تو کہو "اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو ـ
نوٹ: اس حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم فرما کر فرمایا کہ جب وہ " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہے تو کہو " آمِينَ "۔ ترتیب فرمان دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ آنکھیں کھول کر دیکھیں۔
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 840
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ کیوں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو؟
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 838
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم سب تشہد پڑھو۔
قرآن اور حدیث آپ کو کیوں قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نظر آتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
مسند احمد: أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ثَنَا جَرِيرٌ عَن سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَن قَتَادَةَ عَن أَبِي غَلَّابٍ عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَن أَبِي مُوسَى قَالَ
عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (نماز) سکھلائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو چاہئے کہ امامت کرائے تم میں سے کوئی ایک اور جب امام پڑھے تو خاموش رہو ۔
یہ اتنی ساری احادیث سے نظریں پھیر لینا کیا عقلمندی ہے؟؟؟؟؟؟ کیایہ تمام احادیث قول ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تفسير ابن كثير
اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔
يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو۔
ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔
ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔
ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔
یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔
امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے۔ ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے۔
کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔
ابن کثیر کہتے ہیں کہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ۔ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے۔
مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے۔(اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے)۔
کیا یہ تفسیر بھی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جس کا ترجمہ محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔
محترم میں نے جو ترجمہ کیا وہ یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے؛
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو
باقی آپ نے جو یہ فر،ایا کہ (آپ نے پھر اس کو ۔۔نماز میں امام کی قراءت کیلئے خاص کردیا) محترم میں نے خاص نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام نے اس کو نماز کے لئے خاص کیا ہے۔
محترم اس میں اختلاف ہؤا کہ کیا یہ حکم ہر موقع پر کی جانے والی قراءت قرآن کے لئے ہے یا کہ خاص نماز کے لئے؟ اس سلسلہ میں فرمایا گیا کہ یہ حکم صرف نماز کے وقت قراءت سے متعلق ہے عام نہیں ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر؛
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة، أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظامًا له واحترامًا، لا كما كان يعتمده كفار قريش المشركون في قولهم: { لا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ [ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ]} [فصلت:26]
ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما ورد الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، من حديث أبي موسى الأشعري، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا" وكذلك رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة وصححه مسلم بن الحجاج أيضا، ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري، عن أبي عياض، عن أبي هريرة قال: كانوا يتكلمون في الصلاة، فلما نزلت هذه الآية: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ [ وَأَنْصِتُوا ] } (6) والآية الأخرى، أمروا بالإنصات
اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔
يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو
ــــــــــــ
ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔
محترم آپ کے نزدیک اگر (نعوذ باللہ) دھوکہ دیا ہے تو ابن کثیر نے اور صحابہ کرام نے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔
قائین کرام واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔
والسلام