• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
وَلَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْظِیْم (الحجر:۸۷)
(اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی [آیات] یعنی قرآنِ عظیم عطا کیا)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم جو بھی دلائل آپ نے دیئے ہیں ان کے عربی متون بھی لکھیں تاکہ بات کو سمجھنا آسان ہو۔
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم جو بھی دلائل آپ نے دیئے ہیں ان کے عربی متون بھی لکھیں تاکہ بات کو سمجھنا آسان ہو۔
والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ مقلد ہے یا مجتہد
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آپ مقلد ہے یا مجتہد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! جب ایک بات میں اختلاف ہو گیا ہے تو اسے ’’فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ ـــ۔ الآیۃ (النساء)‘‘ جب تم میں کسی بات میں تنازعہ ہو جائے تو اس کو (تصفیہ کے لئے) اللہ اور رسول کی طرف لے جاؤ ــ الآیۃ سے کیوں مانع ہو رہے ہو؟
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم- پہلی بات تو یہ کہ سوره االأعراف کی یہ آیت

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے-

اپنے معنوی لحاظ سے بھی فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی - آیت کے آخری الفاظ ہیں لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون -(تاکہ تم پر رحم کیا جائے)- اور یہ الفاظ اسی وقت کہے جاتے ہیں جب کسی واضح حکم کی تعظیم مقصود ہو - مشرکین مکہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے غرض سے نہ قرآن سنتے تھے اور نہ سننے دیتے تھے - اسی لئے یہ الفاظ تنبیہ کے طور پر انہی کے لئے کہے گئے ہیں - کہ اگر تم قرآن خاموشی سے سنو گے تو تم الله کی رحمت کے حق دار ہو وگرنہ اگرتم نے اپنی یہ بد روش نہ چھوڑی تو تم الله کے رحم کے مستحق نہ رہوگے-
محترم! لگتا ہے کہ صحابہ کرام اور قدیم مفسرین کرام کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور موجودہ دور (جو کہ فتن کا دور ہے) کے ’مفسرین‘ کا اس معاملے میں علم بڑھ گیا!!!!!!!!
محترم! تفسیر ابنِ کثیر ملاحظہ فرمائیں کہ اس میں وہ کیا فرما رہے ہیں؛

ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما ورد الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، من حديث أبي موسى الأشعري، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا"

يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو۔

محترم! آپ نے لکھا’’مشرکین مکہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے غرض سے نہ قرآن سنتے تھے اور نہ سننے دیتے تھے - اسی لئے یہ الفاظ تنبیہ کے طور پر انہی کے لئے کہے گئے ہیں‘‘۔
یہ حکم آپ کے نزدیک کفار کو ہے (جو کہ تھے ہی انکاری) اور جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے دعوے دار ہیں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟ ان کو اجازت ہے کہ وہ قرآن الحکیم فرقان الحمید سے بےپروائی برتیں اور اس کو غورو فکر کے ساتھ مت سنیں بلکہ بے توجہی کا مظاہرہ کریں۔

فاتحہ خلف الامام کا مسلہ اجتہادی ہے اگرچہ صحیح احادیث نبوی میں سوره فاتحہ کی قرأت کو استثنیٰ حاصل ہے - ورنہ اگر فاتحہ خلف الامام کے تناظر میں سوره االأعراف کی مذکورہ آیت کے ظاہری معنی لئے جائیں تو مطلب یہ بنتا ہے کہ شافعی و حنبلی مقلدین بشمول غیرمقلدین جو فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں وہ الله کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں- اگر رحمت کے مستحق ہیں تو صرف حنفی ہیں؟؟ - (یہ ذہن میں رہے کہ اس آیت کے اصول کے تحت احناف کے اپنے امام ابو حنیفہ رح بھی الله کی رحمت کے مستحق نہیں رہتے کیوں کہ بقول علامہ امام شعرانی رح، ابوحنیفہ رح بھی اپنے آخری وقت میں فاتحہ خلف الامام کو قائل ہو گئے تھے )-
محترم! ایک حدیث سے آپ اس کا استثناء ثابت کر رہے ہیں تو دوسری حدیث آپ کے اس استثناء کو قبول نہیں کر رہی۔ ملاحذہ فرمائیں اور فکرِ آخرت کے ساتھ غور و تدبر بھی فرمائیں؛

سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث
محترم! یہاں قراءتِ سورہ فاتحہ کی ممناعت صاف لفظوں میں آگئی اور یہ آیت قرآن، احادیث مبارکہ اور آثار کے مطابق ہے۔ جبکہ جو حدیث آپ لوگ پیش کرتے ہیں (اگرچہ وہ کئی وجہ سے معلول بھی ہے) وہ قرآن، بہت سی احادیث، آثار اور تمام معتبر تفاسیر کے خلاف ہے۔ ایسی حدیث سے ’’تخصیص‘‘ کیونکر ثابت ہو سکتی ہے۔

دوسرے یہ کہ اس روایت جس میں ہے کہ :
سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
یہ جابر بن عبدللہ کا اپنا اجتہاد تھا نہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و اله وسلم کا فرمان- ان کا خیال یہی تھا کہ فاتحہ خلف الامام قرأت قرآن میں شامل ہے- جو کہ صحیح نہیں - دوسری متعدد صحیح احادیث نبوی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام کی اقتدا میں سوره فاتحہ قرآن کی قرأت سے بہرحال مستثنیٰ ہے -
محترم! حیلے باز اور حجت باز کو سمجھانا ناممکن ہوتا ہے وہ تمام قوی دلائل میں سے کوئی نہ کوئی ایسی بات نکالے گا جس سے وہ اپنا مطلب نکال سکے۔ ہاں جو سمجھنا چاہے اس کے لئے دلائل موجود ہوتے ہیں۔ یہاں آپ کو صحابی کا ’’اجتہاد‘‘ تسلیم نہیں اور آج کل کے نام نہاد مفسر کی بات ’’بلا چوں چرا‘‘ تسلیم ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم! اس حدیث مبارکہ کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمادیں؛
سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث۔

ایک اور دھوکہ جو ’’اہلِ حدیث‘‘ دیتے ہیں کہ سورہ فاتحہ قرآن نہیں! اسی لئے ان کی نماز کی کتابیں دیکھیں تو اس میں یہ دھوکہ اس طرح دیا ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کا ذکر اور مسائل لکھنے کے بعد لکھیں گے ’’اب قراءت شروع ہو رہی ہے‘‘ یعنی اب قراءتِ قرآن سے متعلق بات ہوگی۔

کیا سورہ فاتحہ قرآن ہے

قارئین میں صرف احادیث مبارکہ لکھ دیتا ہو فیصلہ آپ خود فرمالیجئے گا۔

حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير حدثنا أبو خالد يعني الأحمر عن حسين المعلم قال ح و حدثنا إسحق بن إبراهيم واللفظ له قال أخبرنا عيسى بن يونس حدثنا حسين المعلم عن بديل بن ميسرة عن أبي الجوزاء عن عائشة قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة ب ( الحمد لله رب العالمين ) ــــــــــــالحدیث ۔ (صحيح مسلم)

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے اور قراءت الحمد للہ رب العالمین سے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ الحدیث

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى قَالَ
مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي فَقُلْتُ كُنْتُ أُصَلِّي فَقَالَ أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ } ثُمَّ قَالَ أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ فَذَكَّرْتُهُ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين ہی سَّبْعُ الْمَثَانِي اورقُرْآنُ الْعَظِيم ہے ـــــــــــــــ الحدیث۔

والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
النساء
مولاناعبدالحئی حنفی فرماتے ہیں :

لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔

( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی )

یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔

فظہر انہ لایوجد معارض لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام مرفوعا۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفی )
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! حنفی مسلک حنفیوں کی مفتیٰ بہ کتب سے ملتا ہے نہ کہ ادھر ادھر کی کتب سے۔ دوسرے آپ حضرات کی عادت ہے کہ اندھی تقلید کرتے ہوئے نقل در نقل کتب سے لکھتے چلے جاتے ہو اصل کتب کی طرف مراجعت نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ خوامخوہ کا خلط مبحث شروع ہو جاتا ہے۔
محترم جب اختلاف ہو جائے تو کس طرح اس کو حل کرنا ہے ملاحظہ فرمائیں؛
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِــــــ الآیۃ النساء آیت59
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سورہ الفاتحہ کی اہمیت :
محترم! اس کی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں
لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)


(سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں)
محترم! کس کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر ہوتی ہے؟ منفرد خود پڑھتا ہے، امام بھی خود پڑھتا ہے اور مْتدی کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے۔ کسی کی بھی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہیں۔ وہوا مطلوب

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘

(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴؁ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷؁ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔نیز دیکھئے الکواکب الدریہ لحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، ص۴۱)
محترم! اپنے دل میں پڑھنے سے کون منع کرتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘

(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)
محترم اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے؛
سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث

(۵) سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا

لَا صَلَاۃَلِمَنْ لَمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اِمَام وَ غَیْر اِمَام

(اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، امام ہو یا مقتدی یا منفرد)
محترم! کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟

مصنَف عبدِالرزاق میں صحیح سند سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مغرب کی ایک(پہلی)رکعت میں قرأۃ بھول گئے تو آپ نے دوسری رکعت میں دودفعہ سورۂ فاتحہ پڑھی۔ (حدیث نمبر ۲۷۵۱ )
بغیر رکن کے نماز کا حکم :

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۵۵۷؁ھ]فرماتے ہیں:

’’نماز کے ارکان پندرہ ہیں… (۳)سورۂ فاتحہ ‘‘
(غنیہ الطالبین، مترجم باب نمبر ۱، ارکانِ نماز ص۶۰)

(۱) رکن کی تعریف:’’رکن ایسی چیز ہے کہ ضروری کام اسکے بغیر مکمل نہ ہو اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت میں اس کام کا کوئی اعتبار [value] نہ ہو۔‘‘
محترم! رکوع میں ملنے والے کی رکعات میں اعترض کیا جاتا ہے کہ اس کا یہ رکن رہ گیا وہ رکن رہ گیا اور یہاں سورہ فاتحہ کے رہ جانے پر بھی اس رکعات کو قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں۔ تعجب ہے!!!!!!!!!!!!

جو لوگ غلو سے کام لے کر مقتدیوں کو فاتحہ خلف الامام سے روکتے ہیں۔ انہیں دعوت دی جاتی ہیں کہ قرآن ، حدیث ، اجماع یا آثارِ سلف سے ایک صریح اور واضح دلیل پیش کریں۔ جس میں سورۂ فاتحہ کا لفظ ہو اور پھر ممانعت وارد ہو۔ضعیف اور عقلی دلائل کو قرآن و حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنا بڑی جسارت ہے۔ اللہ صحیح راستے کی ہدایت دے۔ آمین
محترم! ضعیف اور عقلی دلائل کو قرآن و حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنے والے کون ہیں یہ ابھی واضح ہو جاتا ہے سب سے پہلے اس تعلی کا جواب کہ ’’قرآن ، حدیث ، اجماع یا آثارِ سلف سے ایک صریح اور واضح دلیل پیش کریں جس میں سورۂ فاتحہ کا لفظ ہو اور پھر ممانعت وارد ہو‘‘۔
قارئین کرام دھوکہ دہی اور بد نیتی ملاحظہ فرمائیں کہ ’سورہ فاتحہ کا لفظ ہو‘ کیا اس حدیث میں واضح لفظوں میں سورہ فاتحہ کی ممناعت نہیں ہے؟
سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث۔
قارئین کرام! تعصب کو بالائے طاق رکھ کر دیکھ جائے تو اس حدیث میں واضح طور پر ہے کہ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو‘‘۔ قراءتِ قرآن کے وقت خاموش رہنے کا واضح حکم آگیا۔ پھر فرمایا کہ ’’جب (امام) {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ‘‘۔قارئین کرام یہ ’’غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ‘‘ کس سورہ میں ہے؟قراءتِ قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم پہلے ہے اور سورہ فاتحہ پڑھنے کی بات بعد میں۔ اس صاف ظاہر ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت خاموشی کا حکم اس میں ہے۔
دوسری بات کہ جب آقا علیہ السلام نے فرما دیا کہ ’’جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو‘‘ تو کیا سورہ فاتحہ قراءت نہیں؟ صحیح بخاری میں ہے کہ ’’رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے اور قراءت الحمد للہ رب العالمین سے ‘‘۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ ’’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ{ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ }‘‘ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سب کے سب) قراءت الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے شروع کرتے تھے۔
محترم! قراءتِ قرآن کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم بہت سی صحیح احادیث میں موجود اور سب سے بڑی بات کہ قرآن پاک میں موجود۔ سورہ فاتحہ کو قرآنِ عظیم کہنا صحیح احادیث سے واضح ہے ان سب کی موجود گی میں یہ مطالبہ کہ ’’سورۂ فاتحہ کا لفظ ‘‘ دکھاؤ صریحاً دھوکہ دہی اور قرآن و حدیث کا انکار ہے۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سورہ الفاتحہ کی اہمیت :
محترم! اس کی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں
لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)


(سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں)
محترم! کس کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر ہوتی ہے؟ منفرد خود پڑھتا ہے، امام بھی خود پڑھتا ہے اور مقتدی کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے۔ کسی کی بھی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہیں۔ وہوا مطلوب

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘

(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴؁ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷؁ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔نیز دیکھئے الکواکب الدریہ لحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، ص۴۱)
محترم! دل میں پڑھنے سے کہیں منع نہیں ہے؟؟؟؟؟؟
دوسرے یہ کہ آپ نے یہ روایت نہ توصحیح ابن حبان میں پڑھی ہے نہ ہی مجمع الزوائد میں۔ آپ نے اس کو الکواکب الدریہ سے نقل کردیا ہے اور ترجمہ بھی انہی کا ہے۔ بھائی اصل کتب سے پڑھبے کی عادت ڈالو تاکہ اسی باب میں دوسری احادیث بھی دیکھنے کا موقعہ ملے۔

سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘

(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)
محترم اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے؛
سنن ابن ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو ـــــــــــــــــــــ الحدیث
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

@عبدالرحمن بھٹی

میرے بھائی یہ اتنی واضح حدیث ہے اس میں آپکے تمام سوالوں کا جواب ہیں -

ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -

اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔


اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔

( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -
محترم! دیکھتے ہیں کہ آپ فرمانِ باری تعالیٰ کے ساتھ فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کی بات کب مانیں گے اور کب ان کی بات پر سر خم کریں گے۔ ملاحظہ فرمائیں؛

بسم الله الرحمن الرحيم​

امام كى اقتدا میں ممانعت قراءت


القرآن

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت نمبر204)
(اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)

تفسير ابن كثير (مفہوم صرف خط کشیدہ حصوں کا ہے)
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظاما له واحتراما لا كما كان يتعمده كفار قريش المشركون في قولهم "لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"( اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه") ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما رواه مسلم في صحيحه من حديث أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" (بلكہ يہ تاكيد فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو) وكذا رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة أيضا وصححه مسلم بن الحجاج أيضا ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري عن أبي عياض عن أبي هريرة قال: كانوا يتكلمون في الصلاة فلما نزلت هذه الآية "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له" والآية الأخرى أمروا بالإنصات(ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا)۔ قال ابن جرير: حدثنا أبو كريب حدثنا أبو بكر بن عياش عن عاصم عن المسيب بن رافع قال ابن مسعود: كنا يسلم بعضنا على بعض في الصلاة فجاء القرآن "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" (ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" وقال أيضا حدثنا أبو كريب حدثنا المحاربي عن داود بن أبي هند عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود فسمع ناسا يقرؤن مع الإمام فلما أنصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا أما آن لكم أن تعقلوا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا " كما أمركم الله (ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو)۔قال وحدثني أبو السائب حدثنا حفص عن أشعث عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه فنزلت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" (یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی)۔وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن من حديث الزهري عن أبي أكتمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال "أهل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل نعم يا رسول الله قال "إني أقول ما لي أنازع القرآن" قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه بالقراءة من الصلاة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا)۔ وقال الترمذي هذا حديث حسن وصححه أبو حاتم الرازي وقال عبدالله بن المبارك عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته(امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے) ولكنهم يقرؤن فيما لا يجهر به سرا في أنفسهم(ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے) ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرا ولا علانية فإن الله تعالى قال "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"(کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون") قلت: هذا مذهب طائفة من العلماء أن المأموم لا يجب عليه في الصلاة الجهرية قراءة فيما جهر فيه الإمام لا الفاتحة ولا غيرها(ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ) وهو أحد قولي الشافعية وهو القديم كمذهب مالك ورواية عن أحمد بن حنبل لما ذكرناه من الأدلة المتقدمة وقال في الجديد يقرأ الفاتحة فقط في سكتات الإمام(امام شافعی کا جدید قول ہے کہ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے) وهو قول طائفة من الصحابة والتابعين فمن بعدهم وقال أبو حنيفة وأحمدبن حنبل: لا يجب على المأموم قراءة أصلا في السرية ولا الجهرية بما ورد في الحديث "من كان له إمام فقراءته قراءة له"(ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے'') وهذا الحديث رواه الإمام أحمد في مسنده عن جابر مرفوعا وهو في موطأ مالك عن وهب بن كيسان عن جابر موقوفا (اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے) وهذا أصح وهذه المسألة مبسوطة في غير هذا الموضع وقد أفرد لها الإمام أبو عبدالله البخاري مصنفا على حدة واختار وجوب القراءة خلف الإمام في السرية والجهرية أيضا والله أعلم (البتہ صرف امام بخاری امام کی اقتدا میں سری اور جہری دونوں نمازوں میں مقتدی کی قراءت کے قائل ہیں) وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس في الآية قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" يعني في الصلاة المفروضة(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا حکم فرض نماز کے لئے ہے) وكذا روي عن عبدالله بن المغفل. وقال ابن جرير: حدثنا حميد بن مسعدة حدثنا بشر بن المفضل حدثنا الجراري عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: رأيت عبيد بن عمير وعطاء بن أبي رباح يتحدثان والقاص يقص فقلت ألا تستمعان إلى الذكر وتستوجبان الموعود؟ قال فنظرا إلي ثم أقبلا على حديثهما قال فأعدت فنظرا إلي وأقبلا على حديثهما قال فأعدت الثالثة قال فنظرا إلي فقالا: إنما ذلك في الصلاة "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" وكذا قال سفيان الثوري عن أبي هاشم إسماعيل بن كثير عن مجاهد في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة.(مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز کے لئے ہے) وكذا رواه غير واحد عن مجاهد وقال عبدالرزاق عن الثوري عن ليث عن مجاهد قال: لا بأس إذا قرأ الرجل في غير الصلاة أن يتكلم وكذا قال سعيد بن جبير والضحاك وإبراهيم النخعي وقتادة والشعبي والسدي وعبدالرحمن بن زيد بن أسلم أن المراد بذلك في الصلاة وقال شعبة عن منصور سمعت إبراهيم بن أبي حمزة يحدث أنه سمعمجاهدا يقول في هذه الآية "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة والخطبة يوم الجمعة.( مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اوز خطبہ جمعہ کے بارے میں ہے) وكذا روى ابن جريج عن عطاء مثله وقال هشيم عن الربيع بن صبيح عن الحسن قال في الصلاة وعند الذكر.(حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اور ذکر کے بارے میں ہے) وقال ابن المبارك عن بقية سمعت ثابت بنعجلان يقول: سمعت سعيد بن جبير يقول في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال الإنصات يوم ألأضحى ويوم الفطر ويوم الجمعة وفيما يجهر به الإمام من الصلاة (سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم عید الاضحی، عید الفطر ، جمعہ (کے خطبہ) اور جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے کے بارے میں ہے)۔

احاديث
صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ
فَقَالَ أَبُو مُوسَى أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا فَقَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذْ قَالَ [غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ] فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ


ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے ہمیں نماز کا سنت طریقہ سکھایا اور نماز سکھائی فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفیں بنا لو پھر تم میں سے ایک امامت کرائے جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ " کہو آمین ۔۔۔۔۔الحدیث۔

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب النَّهْيِ عَنْ مُبَادَرَةِ الْإِمَامِ بِالتَّكْبِيرِ وَغَيْرِهِ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا يَقُولُ لا تُبَادِرُوا الإِمَامَ إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ ( وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم ہمیں نماز سکھاتے ہوئے فرمایاکہ امام سے سبقت نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب کہے " ولاالضالین" کہو آمین جب رکوع کرے رکوع کرو جب "سَمِعَاللَّهُلِمَنْحَمِدَهُ " کہے تو کہو " رَبَّنَالَكَالْحَمْدُ " ـ

نوٹ: درج بالا احادیث میں آقا علیہ السلام نے نماز بتاکید سکھلائی ہے ـ اس میں امام کے ساتھ جن وظائف میں مقتدی شامل تھا ان کا ذکر فرمایا اور جب سورۃ فاتحہ کی تلاوت کا ذکر فرمایا تو مقتدی کا وظیفہ آمین کہنا بتایاـ

صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ


زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "

نوٹ: اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے بلکہ قرآنِ پاک کی آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کا صحیح معنیٰ میں یہی مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے۔


ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ـــــــ الحدیث


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو ـــــــــــالحدیث

نوٹ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم فرما کر فرمایا کہ جب وہ " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہے تو کہو " آمِينَ "۔ ترتیب فرمان سے یہ بات بالکل واضح ہے۔

سنن ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَنْ كَرِهَ الْقِرَاءَةَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ:
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم


(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد جس میں جہری قراءت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ قرآن میں کیوں جگڑا ہو رہا ہے۔
فرمایا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت سے رک گئے جن نمازوں میں نبی صلى الله عليہ وسلم جہری قراءت کرتے تھے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمُ التَّشَهُّدُ


ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم سب تشہد پڑھو۔

مسند احمد: أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
عَن أَبِي مُوسَى قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا


ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (نماز) سکھلائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو چاہئے کہ امامت کرائے تم میں سے کوئی ایک اور جب امام پڑھے تو خاموش رہو۔

مصنف ابن أبي شيبة من كره القراءة خلف الامام
(1) عن عبد الله بن شداد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (من كان له إمام فقراءته له قراءة)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام ہو تو امام کی قراءت مقتدی کی بھی قراءت ہے۔

(2) عن علي قال : من قرأ خلف الامام فقد أخطأ الفطرة.: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت (سنت) سے دور ہؤا۔

(3) عن سعد قال : وددت أن الذي يقرأ خلف الامام في فيه جمرة: سعد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہچاہئے کہ جو امام کے پیچھے قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دیا جائے ۔

(4) عن زيد بن ثابت قال : لا قراءة خلف الامام:.زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا میں مقتدی پر کوئی قراءت نہیں ۔

(5) عن نافع وأنس بن سيرين قال : قال عمر بن الخطاب تكفيك قراءة الامام:. عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کفایت کر جاتی ہے۔

(6) عن إبراهيم قال : قال الاسود لان أعض على جمرة أحب إلي من أن أقرأ خلف الامام أعلم أنه يقرأ.ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہچاہئے کہ جو امام کے پیچھے قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دیا جائے۔

(7) عن جابر قال : لا يقرأ خلف الامام.جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا میں کوئی قراءت نہ کرے۔

(8) عن زيد بن ثابت قال : لا يقرأ خلف الامام إن جهر ولا إن خافت. زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سری نماز میں قراءت نہ کرو۔

(9) عن زيد بن ثابت قال : من قرأ خلف الامام فلا صلاة له. زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

(10) عن الاسود بن يزيد أنه قال : وددت أن الذي يقرأ خلف الامام ملئ فوه ترابا.اسود بن یزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو امام کے پیچھے پڑھے اس کا منہ مٹی سے بھر دینا چاہئے۔

(11) سألت أبا سعيد عن القراءة خلف الامام فقال : يكفيك ذاك الامام. ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کی اقتدا میں قراءت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(12) عن سعيد بن جبير قال : سألته عن القراءة خلف الامام قال : ليس خلف الامام قراءة. سعيد بن جبير رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کی اقتدا میں قراءت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(13) عن ابن المسيب قال : أنصت للامام. ابن المسيب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے خاموش رہو۔

(14) عن محمد قال : لا أعلم القراءة خلف الامام من السنة. محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت سنتِ رسول نہیں۔

(15) عن إبراهيم أنه كان يكره القراءة خلف الامام وكان يقول تكفيك قراءة الامام . ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ امام کے پیچھے قراءت کرنے کو مکروہ جانتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(16) سألت سويد بن غفلة أقرأ خلف الامام في الظهر والعصر فقال : لا. سويد بن غفلۃ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کی جائے؟ فرمایا کہ نہیں۔

(17) الضحاك ينهى عن القراءة خلف الامام. ضحاك رحمۃ اللہ علیہ امام کے پیچھے قراءت سے منع فرماتے تھے۔

(18) عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (إنما جعل الامام ليوتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا). ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو۔

(19) عن أبي وائل قال : تكفيك قراءة الامام. ابی وائل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(20) عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (كل من كان له إمام فقراءته له قراءة). جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

تفسير الطبري: سورة القيامة: تفسير آيت نمبر )18 فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ)
عن ابن عباس (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ) فإذا أنزلناه إليك (فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) قال فاستمع قرآنه.


ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ کا مطلب ہے) جب آپ کی طرف قرآن نازل کیا جائے اور (فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ کا مطلب ہے) تو قراءت کو سنو۔

السنن الكبرى للبيهقي: باب من قال يترك المأموم القراءة فيما جهر فيه الامام بالقراءة: قال الله تبارك وتعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا
1 عن عطاء انه سأل ابن عباس عن هذه الآية قال هذا لكل قارئ قال لا ولكن هذا في الصلوة۔


ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا" کا حکم ہر قاری قرآن کے لئے ہے۔ فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ حکم نماز کی قراءت کے لئے ہے۔

2 ابى موسى الاشعري فذكر الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم وفيه فإذا كبر الامام فكبروا وإذا قرأ فانصتوا

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی جس میں ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو۔

3 عن حطان ابن عبد الله الرقاشى قال صلى بنا أبو موسى فقال أبو موسى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمنا إذا صلى بنا فقال انما جعل الامام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وذا قرأ فانصتوا

ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھلائی فرمایا کہ امام اس لئے بنایا جات ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب قراءت کرے و خاموش رہو۔

4 عن ابى هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال انما جعل الامام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه فإذا كبر فكبروا واذ قرأ فانصتوا وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولا آمين وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا اللهم ربنا لك الحمد وإذا سجد فاسجدوا وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعون

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام کی مطابقت کرو جب تکبیر کہے تکبیر کہو جب قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو آمین کہو ـــــــــــ الحدیث۔

5 عن ابى هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم انصرف من صلوة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معى احد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال انى اقول مالى انازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پھرے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری قرآت کی تھی اور فرمایا ” کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے ؟ “ ایک آدمی نے کہا ہاں ، اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں بھی کہہ رہا تھا مجھے کیا ہوا کہ قرآت قرآن میں الجھ رہا ہوں ۔ “ راوی نے کہا پس لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہر کر رہے ہوتے جب سے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

نوٹ: سورہ فاتحہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن العظیم کہا ہے لہٰذا اس کی قراءت کے وقت خاموش رہنا بدرجہ اولیٰ فرض ہے جیسا کہ حکمِ الٰہی ہے ’’ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتواـــــــ الآیۃ‘‘


6 عن عبد الله بن بحينة وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هل قرأ احد منكم آنفا في الصلوة قالوا نعم قال انى اقول مالى انازع القرآن فانتهى الناس عن القراءة حين قال ذلك

عبد الله بن بحينۃ فرماتے ہیں کہ رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک نماز کے بعد جس میں جہری قرآت کی تھی) فرمایا ” کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ نماز میں قرآت کی ہے ؟ “ ہم نے کہا ہاں ، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا ” میں بھی کہہ رہا تھا مجھے کیا ہوا کہ قرآت قرآن میں الجھ رہا ہوں“۔ پس لوگ قراءت سے رک گئے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔

مصنف عبد الرزاق
1 عن أبي وائل قال : جاء رجل إلى عبد الله فقال : يا أبا عبد الرحمن! أقرأ خلف الامام ؟ قال : أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا ، وسيكفيك ذلك الامام


عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرو اور امام تمارے لئے قراءتِ قرآن کے لئے کافی ہے۔

2 عن عبد الله بن أبي ليلى أخي عبد الرحمن بن أبي ليلى: أن عليا كان ينهى عن القراءة خلف الامام

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کے ساتھ قراءت کرنے سے منع فرماتے تھے۔

3 عن محمد بن عجلان قال قال علي: من قرأ مع الامام فليس على الفطرة ، قال وقال ابن مسعود: ملئ فوه ترابا قال: وقال عمر بن الخطاب: وددت أن الذي يقرأ خلف الامام في فيه حجر

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے ساتھ قراءت کی وہ فطرت پر نہ رہا، ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے ساتھ قراءت کرنے والے کا منہ مٹی سے بھر دیا جائے، عمر ب خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو امام کے ساتھ قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دو۔

السنن الكبرى للبيهقي: باب من قال لا يقرأ خلف الامام على الاطلاق:
1 عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم انه صلى وكان من خلفه يقرأ فجعل رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ينهاه عن القراءة في الصلوة فلما انصرف اقبل عليه الرجل فقال اتنهانى عن القراءة خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنازعا حتى ذكرا ذلك للنبى صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم من صلى خلف الامام فان قراءة الامام له قراءة

نبی صلى الله عليہ وسلم کے پیچھے قراءت کر رہا تھا کہ نبی صلى الله عليہ وسلم کے ایک صحابی نے اس کو امام کے پیچھے قراءت سے روکا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا کہ تم مجھے رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کی اقتدا میں قراءت سے کیوں منع کر رہے تھے؟ اس کا ذکر جب نبی صلى الله عليہ وسلم سے کیا گیا تو نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کو کفایت کرتی ہے۔

2 انبأ سفيان وشعبة وابو حنيفة عن موسى بن ابى عائشة عن عبد الله بن شداد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له امام فان قراءة الامام له قراءة

سفیان رحمۃ اللہ علیہ، شعبۃ رحمۃ اللہ علیہ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یہ سب موسیٰ بن ابی عائشہ رحمۃ اللہ علیہ سے اور وہ عبد اللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ امام کیاقتدا میں نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کو کفایت کرتی ہے

3 عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له امام فقراءة الامام له قراءة
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ امام کیاقتدا میں نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کو کفایت کرتی ہے

4 عن ابى نعيم وهب بن كيسان انه سمع جابر بن عبد الله يقول من صلى ركعة لم يقرأ فيها بام القرآن فلم يصل الا وراء الامام

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کی اقتدا میں ہو۔

محترم! یہ ہے قرآن اور یہ رہی احادیث اور آثارِ صحابہ اور جید آئمہ کرام اور مجتہد فقیہہ علماء کرام۔
فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ


والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ

محترم! دیکھتے ہیں کہ آپ فرمانِ باری تعالیٰ کے ساتھ فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کی بات کب مانیں گے اور کب ان کی بات پر سر خم کریں گے۔ ملاحظہ فرمائیں؛

بسم الله الرحمن الرحيم​

امام كى اقتدا میں ممانعت قراءت


القرآن

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت نمبر204)
(اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)

تفسير ابن كثير (مفہوم صرف خط کشیدہ حصوں کا ہے)
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظاما له واحتراما لا كما كان يتعمده كفار قريش المشركون في قولهم "لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"( اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه") ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما رواه مسلم في صحيحه من حديث أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" (بلكہ يہ تاكيد فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو) وكذا رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة أيضا وصححه مسلم بن الحجاج أيضا ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري عن أبي عياض عن أبي هريرة قال: كانوا يتكلمون في الصلاة فلما نزلت هذه الآية "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له" والآية الأخرى أمروا بالإنصات(ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا)۔ قال ابن جرير: حدثنا أبو كريب حدثنا أبو بكر بن عياش عن عاصم عن المسيب بن رافع قال ابن مسعود: كنا يسلم بعضنا على بعض في الصلاة فجاء القرآن "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" (ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" وقال أيضا حدثنا أبو كريب حدثنا المحاربي عن داود بن أبي هند عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود فسمع ناسا يقرؤن مع الإمام فلما أنصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا أما آن لكم أن تعقلوا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا " كما أمركم الله (ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو)۔قال وحدثني أبو السائب حدثنا حفص عن أشعث عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه فنزلت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" (یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی)۔وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن من حديث الزهري عن أبي أكتمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال "أهل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل نعم يا رسول الله قال "إني أقول ما لي أنازع القرآن" قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه بالقراءة من الصلاة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا)۔ وقال الترمذي هذا حديث حسن وصححه أبو حاتم الرازي وقال عبدالله بن المبارك عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته(امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے) ولكنهم يقرؤن فيما لا يجهر به سرا في أنفسهم(ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے) ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرا ولا علانية فإن الله تعالى قال "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"(کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون") قلت: هذا مذهب طائفة من العلماء أن المأموم لا يجب عليه في الصلاة الجهرية قراءة فيما جهر فيه الإمام لا الفاتحة ولا غيرها(ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ) وهو أحد قولي الشافعية وهو القديم كمذهب مالك ورواية عن أحمد بن حنبل لما ذكرناه من الأدلة المتقدمة وقال في الجديد يقرأ الفاتحة فقط في سكتات الإمام(امام شافعی کا جدید قول ہے کہ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے) وهو قول طائفة من الصحابة والتابعين فمن بعدهم وقال أبو حنيفة وأحمدبن حنبل: لا يجب على المأموم قراءة أصلا في السرية ولا الجهرية بما ورد في الحديث "من كان له إمام فقراءته قراءة له"(ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے'') وهذا الحديث رواه الإمام أحمد في مسنده عن جابر مرفوعا وهو في موطأ مالك عن وهب بن كيسان عن جابر موقوفا (اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے) وهذا أصح وهذه المسألة مبسوطة في غير هذا الموضع وقد أفرد لها الإمام أبو عبدالله البخاري مصنفا على حدة واختار وجوب القراءة خلف الإمام في السرية والجهرية أيضا والله أعلم (البتہ صرف امام بخاری امام کی اقتدا میں سری اور جہری دونوں نمازوں میں مقتدی کی قراءت کے قائل ہیں) وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس في الآية قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" يعني في الصلاة المفروضة(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا حکم فرض نماز کے لئے ہے) وكذا روي عن عبدالله بن المغفل. وقال ابن جرير: حدثنا حميد بن مسعدة حدثنا بشر بن المفضل حدثنا الجراري عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: رأيت عبيد بن عمير وعطاء بن أبي رباح يتحدثان والقاص يقص فقلت ألا تستمعان إلى الذكر وتستوجبان الموعود؟ قال فنظرا إلي ثم أقبلا على حديثهما قال فأعدت فنظرا إلي وأقبلا على حديثهما قال فأعدت الثالثة قال فنظرا إلي فقالا: إنما ذلك في الصلاة "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" وكذا قال سفيان الثوري عن أبي هاشم إسماعيل بن كثير عن مجاهد في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة.(مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز کے لئے ہے) وكذا رواه غير واحد عن مجاهد وقال عبدالرزاق عن الثوري عن ليث عن مجاهد قال: لا بأس إذا قرأ الرجل في غير الصلاة أن يتكلم وكذا قال سعيد بن جبير والضحاك وإبراهيم النخعي وقتادة والشعبي والسدي وعبدالرحمن بن زيد بن أسلم أن المراد بذلك في الصلاة وقال شعبة عن منصور سمعت إبراهيم بن أبي حمزة يحدث أنه سمعمجاهدا يقول في هذه الآية "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة والخطبة يوم الجمعة.( مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اوز خطبہ جمعہ کے بارے میں ہے) وكذا روى ابن جريج عن عطاء مثله وقال هشيم عن الربيع بن صبيح عن الحسن قال في الصلاة وعند الذكر.(حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اور ذکر کے بارے میں ہے) وقال ابن المبارك عن بقية سمعت ثابت بنعجلان يقول: سمعت سعيد بن جبير يقول في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال الإنصات يوم ألأضحى ويوم الفطر ويوم الجمعة وفيما يجهر به الإمام من الصلاة (سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم عید الاضحی، عید الفطر ، جمعہ (کے خطبہ) اور جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے کے بارے میں ہے)۔

احاديث
صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ
فَقَالَ أَبُو مُوسَى أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا فَقَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذْ قَالَ [غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ] فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ


ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے ہمیں نماز کا سنت طریقہ سکھایا اور نماز سکھائی فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفیں بنا لو پھر تم میں سے ایک امامت کرائے جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ " کہو آمین ۔۔۔۔۔الحدیث۔

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب النَّهْيِ عَنْ مُبَادَرَةِ الْإِمَامِ بِالتَّكْبِيرِ وَغَيْرِهِ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا يَقُولُ لا تُبَادِرُوا الإِمَامَ إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ ( وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم ہمیں نماز سکھاتے ہوئے فرمایاکہ امام سے سبقت نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب کہے " ولاالضالین" کہو آمین جب رکوع کرے رکوع کرو جب "سَمِعَاللَّهُلِمَنْحَمِدَهُ " کہے تو کہو " رَبَّنَالَكَالْحَمْدُ " ـ

نوٹ: درج بالا احادیث میں آقا علیہ السلام نے نماز بتاکید سکھلائی ہے ـ اس میں امام کے ساتھ جن وظائف میں مقتدی شامل تھا ان کا ذکر فرمایا اور جب سورۃ فاتحہ کی تلاوت کا ذکر فرمایا تو مقتدی کا وظیفہ آمین کہنا بتایاـ

صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ


زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "

نوٹ: اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے بلکہ قرآنِ پاک کی آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کا صحیح معنیٰ میں یہی مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے۔


ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ـــــــ الحدیث


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو ـــــــــــالحدیث

نوٹ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم فرما کر فرمایا کہ جب وہ " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہے تو کہو " آمِينَ "۔ ترتیب فرمان سے یہ بات بالکل واضح ہے۔

سنن ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَنْ كَرِهَ الْقِرَاءَةَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ:
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم


(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد جس میں جہری قراءت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ قرآن میں کیوں جگڑا ہو رہا ہے۔
فرمایا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت سے رک گئے جن نمازوں میں نبی صلى الله عليہ وسلم جہری قراءت کرتے تھے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمُ التَّشَهُّدُ


ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم سب تشہد پڑھو۔

مسند احمد: أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
عَن أَبِي مُوسَى قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا


ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (نماز) سکھلائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو چاہئے کہ امامت کرائے تم میں سے کوئی ایک اور جب امام پڑھے تو خاموش رہو۔

مصنف ابن أبي شيبة من كره القراءة خلف الامام
(1) عن عبد الله بن شداد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (من كان له إمام فقراءته له قراءة)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام ہو تو امام کی قراءت مقتدی کی بھی قراءت ہے۔

(2) عن علي قال : من قرأ خلف الامام فقد أخطأ الفطرة.: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت (سنت) سے دور ہؤا۔

(3) عن سعد قال : وددت أن الذي يقرأ خلف الامام في فيه جمرة: سعد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہچاہئے کہ جو امام کے پیچھے قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دیا جائے ۔

(4) عن زيد بن ثابت قال : لا قراءة خلف الامام:.زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا میں مقتدی پر کوئی قراءت نہیں ۔

(5) عن نافع وأنس بن سيرين قال : قال عمر بن الخطاب تكفيك قراءة الامام:. عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کفایت کر جاتی ہے۔

(6) عن إبراهيم قال : قال الاسود لان أعض على جمرة أحب إلي من أن أقرأ خلف الامام أعلم أنه يقرأ.ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہچاہئے کہ جو امام کے پیچھے قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دیا جائے۔

(7) عن جابر قال : لا يقرأ خلف الامام.جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا میں کوئی قراءت نہ کرے۔

(8) عن زيد بن ثابت قال : لا يقرأ خلف الامام إن جهر ولا إن خافت. زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سری نماز میں قراءت نہ کرو۔

(9) عن زيد بن ثابت قال : من قرأ خلف الامام فلا صلاة له. زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

(10) عن الاسود بن يزيد أنه قال : وددت أن الذي يقرأ خلف الامام ملئ فوه ترابا.اسود بن یزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو امام کے پیچھے پڑھے اس کا منہ مٹی سے بھر دینا چاہئے۔

(11) سألت أبا سعيد عن القراءة خلف الامام فقال : يكفيك ذاك الامام. ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کی اقتدا میں قراءت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(12) عن سعيد بن جبير قال : سألته عن القراءة خلف الامام قال : ليس خلف الامام قراءة. سعيد بن جبير رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کی اقتدا میں قراءت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(13) عن ابن المسيب قال : أنصت للامام. ابن المسيب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے خاموش رہو۔

(14) عن محمد قال : لا أعلم القراءة خلف الامام من السنة. محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت سنتِ رسول نہیں۔

(15) عن إبراهيم أنه كان يكره القراءة خلف الامام وكان يقول تكفيك قراءة الامام . ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ امام کے پیچھے قراءت کرنے کو مکروہ جانتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(16) سألت سويد بن غفلة أقرأ خلف الامام في الظهر والعصر فقال : لا. سويد بن غفلۃ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کی جائے؟ فرمایا کہ نہیں۔

(17) الضحاك ينهى عن القراءة خلف الامام. ضحاك رحمۃ اللہ علیہ امام کے پیچھے قراءت سے منع فرماتے تھے۔

(18) عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (إنما جعل الامام ليوتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا). ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو۔

(19) عن أبي وائل قال : تكفيك قراءة الامام. ابی وائل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(20) عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (كل من كان له إمام فقراءته له قراءة). جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

تفسير الطبري: سورة القيامة: تفسير آيت نمبر )18 فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ)
عن ابن عباس (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ) فإذا أنزلناه إليك (فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) قال فاستمع قرآنه.


ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ کا مطلب ہے) جب آپ کی طرف قرآن نازل کیا جائے اور (فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ کا مطلب ہے) تو قراءت کو سنو۔

السنن الكبرى للبيهقي: باب من قال يترك المأموم القراءة فيما جهر فيه الامام بالقراءة: قال الله تبارك وتعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا
1 عن عطاء انه سأل ابن عباس عن هذه الآية قال هذا لكل قارئ قال لا ولكن هذا في الصلوة۔


ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا" کا حکم ہر قاری قرآن کے لئے ہے۔ فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ حکم نماز کی قراءت کے لئے ہے۔

2 ابى موسى الاشعري فذكر الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم وفيه فإذا كبر الامام فكبروا وإذا قرأ فانصتوا

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی جس میں ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو۔

3 عن حطان ابن عبد الله الرقاشى قال صلى بنا أبو موسى فقال أبو موسى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمنا إذا صلى بنا فقال انما جعل الامام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وذا قرأ فانصتوا

ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھلائی فرمایا کہ امام اس لئے بنایا جات ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب قراءت کرے و خاموش رہو۔

4 عن ابى هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال انما جعل الامام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه فإذا كبر فكبروا واذ قرأ فانصتوا وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولا آمين وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا اللهم ربنا لك الحمد وإذا سجد فاسجدوا وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعون

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام کی مطابقت کرو جب تکبیر کہے تکبیر کہو جب قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو آمین کہو ـــــــــــ الحدیث۔

5 عن ابى هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم انصرف من صلوة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معى احد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال انى اقول مالى انازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پھرے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری قرآت کی تھی اور فرمایا ” کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے ؟ “ ایک آدمی نے کہا ہاں ، اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں بھی کہہ رہا تھا مجھے کیا ہوا کہ قرآت قرآن میں الجھ رہا ہوں ۔ “ راوی نے کہا پس لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہر کر رہے ہوتے جب سے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

نوٹ: سورہ فاتحہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن العظیم کہا ہے لہٰذا اس کی قراءت کے وقت خاموش رہنا بدرجہ اولیٰ فرض ہے جیسا کہ حکمِ الٰہی ہے ’’ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتواـــــــ الآیۃ‘‘


6 عن عبد الله بن بحينة وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هل قرأ احد منكم آنفا في الصلوة قالوا نعم قال انى اقول مالى انازع القرآن فانتهى الناس عن القراءة حين قال ذلك

عبد الله بن بحينۃ فرماتے ہیں کہ رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک نماز کے بعد جس میں جہری قرآت کی تھی) فرمایا ” کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ نماز میں قرآت کی ہے ؟ “ ہم نے کہا ہاں ، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا ” میں بھی کہہ رہا تھا مجھے کیا ہوا کہ قرآت قرآن میں الجھ رہا ہوں“۔ پس لوگ قراءت سے رک گئے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔

مصنف عبد الرزاق
1 عن أبي وائل قال : جاء رجل إلى عبد الله فقال : يا أبا عبد الرحمن! أقرأ خلف الامام ؟ قال : أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا ، وسيكفيك ذلك الامام


عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرو اور امام تمارے لئے قراءتِ قرآن کے لئے کافی ہے۔

2 عن عبد الله بن أبي ليلى أخي عبد الرحمن بن أبي ليلى: أن عليا كان ينهى عن القراءة خلف الامام

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کے ساتھ قراءت کرنے سے منع فرماتے تھے۔

3 عن محمد بن عجلان قال قال علي: من قرأ مع الامام فليس على الفطرة ، قال وقال ابن مسعود: ملئ فوه ترابا قال: وقال عمر بن الخطاب: وددت أن الذي يقرأ خلف الامام في فيه حجر

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے ساتھ قراءت کی وہ فطرت پر نہ رہا، ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے ساتھ قراءت کرنے والے کا منہ مٹی سے بھر دیا جائے، عمر ب خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو امام کے ساتھ قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دو۔

السنن الكبرى للبيهقي: باب من قال لا يقرأ خلف الامام على الاطلاق:
1 عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم انه صلى وكان من خلفه يقرأ فجعل رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ينهاه عن القراءة في الصلوة فلما انصرف اقبل عليه الرجل فقال اتنهانى عن القراءة خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنازعا حتى ذكرا ذلك للنبى صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم من صلى خلف الامام فان قراءة الامام له قراءة

نبی صلى الله عليہ وسلم کے پیچھے قراءت کر رہا تھا کہ نبی صلى الله عليہ وسلم کے ایک صحابی نے اس کو امام کے پیچھے قراءت سے روکا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا کہ تم مجھے رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کی اقتدا میں قراءت سے کیوں منع کر رہے تھے؟ اس کا ذکر جب نبی صلى الله عليہ وسلم سے کیا گیا تو نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کو کفایت کرتی ہے۔

2 انبأ سفيان وشعبة وابو حنيفة عن موسى بن ابى عائشة عن عبد الله بن شداد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له امام فان قراءة الامام له قراءة

سفیان رحمۃ اللہ علیہ، شعبۃ رحمۃ اللہ علیہ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یہ سب موسیٰ بن ابی عائشہ رحمۃ اللہ علیہ سے اور وہ عبد اللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ امام کیاقتدا میں نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کو کفایت کرتی ہے

3 عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له امام فقراءة الامام له قراءة
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ امام کیاقتدا میں نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کو کفایت کرتی ہے

4 عن ابى نعيم وهب بن كيسان انه سمع جابر بن عبد الله يقول من صلى ركعة لم يقرأ فيها بام القرآن فلم يصل الا وراء الامام

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کی اقتدا میں ہو۔

محترم! یہ ہے قرآن اور یہ رہی احادیث اور آثارِ صحابہ اور جید آئمہ کرام اور مجتہد فقیہہ علماء کرام۔
فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ


والسلام
اس حدیث کی وضاحت کر دے کیا یہ حدیث صحیح نہیں کیا اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت نہیں کی -

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔

( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔
 
Top