مندرجہ بالا "فیصلہ" کس کا ہے ؟ "خود کا" ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟
مزکورہ "فیصلہ" اگر خود کا ہے اور یقینا "خود" کا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بلکل بھی نہیں تو اس "خود" کئیے گئے "فیصلہ" کو مان کر آپ نام نہاد اہل حدیث مقلد بنے کہ نہیں "خود" "فیصلہ" کرنے والی شخصیت کے ؟
مگر کیا کیا جاسکتا ہے آپ نام نہاد اہل حدیث حضرات "خود" "فیصلہ" کرتے ہو اور فرماتے ہو کہ یہ نبی کا فیصلہ ہے "خود" حکم بناتے ہو اور کہتے ہو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ھے ۔
چلو میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دکھاتا ہو دیکھو۔
اب مانو اہل حدیث صاحب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ۔اور اگلا حکم ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا دیکھو ۔
اوہ معاف کیجئے گا جناب میں بھول گیا تھا آپ نام نہاد اہل حدیث افراد کا نعرہ ، قول صحابی حجت نیست ، چلو اب دیکھتے ہیں آپ کس کا حکم مانتے ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟
یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ کا ؟
بڑی بات ہے جی کیا کوئی حکم واجب کےلئے لفظ واجب کا ہونا ضروری ہے۔۔؟
اور امام اور مقتدی کےلئے سورۃ فاتحہ واجب ہے۔(واضح رہے کہ یہ واجب کی اصطلاح محدثین استعمال کی جارہی ہےیعنی فرضیت اور واجب ایک ہی حکم میں ہیں۔ مقلدین کی اصطلاح فرض و واجب نہیں لحاظ کسی ڈرامے سے گریز کریں شکریہ)
ہاں جی فرضیت فاتحہ امام اور مقتدی دونوں پر فرض و واجب ہے ملاحظہ کریں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ
عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورت فاتحہ نہ پڑھے۔صحیح بخاری ح 756۔
یہاں پر لفظ شخص مطلقا بولا گیا ہے جو ہر طرح کے شخص پر دلالت کرتاہے۔ وہ امام ہو یا مقتدی،کیا مقلدین کےخیال سے امام کوئی شخص نہیں ہوتا۔۔؟ اگر تو نہیں ہوتا پھر تو یہ اعتراض بجا ہے۔اسلئے سوال اپنا یہ فضول سوال دہرانے سے پہلے امام کو کوئی اور مخلوق ثابت فرما دیں پھر جواب بھی عنائیت کر دیا جائے گا۔ اللہ کے فضل سے۔
اب ذیل میں چند اور احادیث ملاحظہ کریں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَائٌ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ فِي کُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَأُ فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاکُمْ وَمَا أَخْفَی عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْکُمْ وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَی أُمِّ الْقُرْآنِ أَجْزَأَتْ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ تمام نمازوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے جن (نمازوں) میں رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے پڑھ کر ہمیں سنایا ان میں ہم بھی بلند آواز سے پڑھ کر تم کو سناتے ہیں اور جن میں آہستہ آواز سے پڑھ کر ہم سے چھپایا ان میں ہم بھی آہستہ آواز سے پڑھ کر تم سے چھپاتے ہیں اور اگر سورت فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھو تو کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لو تو بہتر ہے۔ (بخاری762)
اگر سورۃ فاتحہ کی کوئی اہمیت ہی نہ ہوتی تو جناب عالی پھر صحابی رسول یہ کیوں کہتے کہ اگر اس سے زیادہ پڑھ لو تو بہتر نہ پڑھو تو کوئی ہرج نہیں یعنی سورۃ فاتحہ کو ہر حال میں باقی رکھاہے۔۔ آپ صحابہ کی بات بہت مانتے ہیں۔(اپنے خیال سے) اب یہاں پر صحابی پر کیا فتویٰ درج کریں گے بچارے صحابہ کو غیر فقہی کہنے میں تو آپ ڈرتے نہیں ہیں۔نعوذ باللہ من ذالک۔۔
سورۃ فاتحہ ہر رکعت میں فرض ہے۔ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ اور شرم کا گرم پیالا منہ کو لگائیں۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا همام، وأبان بن يزيد، عن يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في الركعتين الأوليين من الظهر والعصر، بفاتحة الكتاب وسورة ويسمعنا الآية أحيانا، ويقرأ في الركعتين الأخريين بفاتحة الكتاب»
قتادہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورۃپڑھتے تھے،اور کوئی آیت ہمیں بھی سنا دیا کرتے ہیں(یعنی تھوڑا سا جہرا جیسا کہ اوپر کی حدیث میں درج ہے)اور دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ(اکیلی) پڑھتے تھے۔۔صحیح مسلم۔451
اچھا بھائی جان ابھی بھی ہر رکعت میں فرض ہوئی ہے یا نہیں کہ کوئی فقہی تلاش کرنا پڑے گا۔۔؟ ہیں جی سرکار اگر اتنا غصہ ہے فاتحہ پر تو ان احادیث کو پہلے کہیں چھپا لیں پھر واویلا کر لیجئے گا۔
اب سورۃ فاتحہ کو فرض کا درج کیوں دیا گیا ہے یہ بھی ملاحظہ کرلیں مصیبت یہ ہے کہ آپ لوگ بس تعصب کے ساتھ غصہ کرتے ہیں حدیث پڑھتے نہیں ہیں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ أَنَّ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَی بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً فَلَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ بِمِثْلِ حَدِيثِ سُفْيَانَ وَفِي حَدِيثِهِمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي
ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن یعنی سورت فاتحہ نہ پڑھی باقی حدیث سفیان ہی کی طرح ہے اور ان کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اس کا نصف میرے لئے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔ (ٍصحیح مسلم395)
اب سفیان کی حدیث بھی دیکھ لیں تاکہ اشکال ختم ہو جائے۔
(395) وحدثناه إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، أخبرنا سفيان بن عيينة، عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»؛ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قال الله تعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، ولعبدي ما سأل، فإذا قال العبد: {الحمد لله رب العالمين}، قال الله تعالى: حمدني عبدي، وإذا قال: {الرحمن الرحيم} ، قال الله تعالى: أثنى علي عبدي، وإذا قال: {مالك يوم الدين}، قال: مجدني عبدي - وقال مرة فوض إلي عبدي - فإذا قال: {إياك نعبد وإياك نستعين} قال: هذا بيني وبين عبدي، ولعبدي ما سأل، فإذا قال: {اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين} قال: هذا لعبدي ولعبدي ما سأل " قال: سفيان، حدثني به العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، دخلت عليه وهو مريض في بيته. فسألته أنا عنه
، ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔سفیان کہتے ہیں کہ یہ حدیث مجھے میرے سوال کرنے پر علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب نے بیان کی اور میں ان کے پاس تھا۔
صحیح مسلم(395)
یہ دونوں روایات ایک ہی حدیث کے نمبر پر آپ کو مکتبہ میں مل جائیں گی ان شاء اللہ۔
شائید اس حدیث سے واضح ہو گیا ہو کہ سورۃ فاتحہ کو اتنا درجہ کیوں دیاگیا ہے۔پتا نہیں سمجھ سے باہر بات ہے کہ احادیث ہر چیز کو روز ورشن کی طرح عیاں کئے ہوئے ہیں پھربھی لوگ مخالفت در مخالفت ہی کیوں کرتے ہیں شائید روٹی حقے کی وجہ لگتی ہے۔
اوپر کی حدیث میں بڑے جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ اسکی نماز غیر تمام ہےجو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا کہنے والے پھر بھی کہہ جاتے ہیں بتاؤ واجب کہاں سے ہو گئی، واہ بائی واہ،، یہ تو یہ ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے نماز کےلئے وضو شرط ہے اور کوئی اٹھ کے سوال کرے بتاؤ واجب ہےکہ نہیں۔ابتسامہ۔
اچھا جی ابھی کہیں جاییئے گا نہ ابھی کچھ باقی ہے۔