محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام علیکم -(اپنی مرضی کے)صفحات کے صفحات تو ایسے پیش کئے جارہے ہیں کہ جیسے میرے اکلوتے سوال کا جواب دیا جاچکا ۔
اس بات سے آپ نام کے اہل حدیثوں کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ امتیوں نے فرض واجب کی اصطلاحات نافذ کیں ۔
جب کوئی قرآن اور حدیث کا نعرہ لگانے والا کسی عمل کو فرض یا واجب کہتا ہے تو اس سے دلیل مانگنا آپ لوگوں کو کیوں برا لگتا ہے؟
پچھلی کئی پوسٹوں میں سوال دھراتا چلا آیا ہوں مگر کسی غیر مقلد کو جراءت نہیں ہوئی کہ جواب دے دے، کوئی کہتا ہے یہاں دیکھ لو یہاں جواب ھے کوئی کہتا ہے خود دیکھ لو ساری پوسٹ میں ۔ بھئی نشان ہی لگا دو کہ کس جگہ اللہ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام کے پیچھے تم اپنی سورت فاتحہ پڑھنا اور یہ تم پر واجب ہے؟ فقہاء کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے حیا ء بھی نہیں فرمائی جاتی ،اور کہلاتے پھر بھی کہلانا پسند کرتے ہیں اہل حدیث ۔
اس دھاگے کا عنوان بنایا گیا ہے
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے
اس موضوع کے عین مطابق میرا سوال ہے
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
مگر کبھی کوئی تقلید کی طرف بھاگتا ہے اور کبھی کوئی ائمہ احناف کے اقوال پیش کرکے قراءت خلف الامام کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے
امید تو نہیں کہ کوئی نام نہاد اہل حدیث جواب دے گا ٹودی پوائنٹ،پھر بھی اک بار یہی سوال پیش کردیا ہے کہ شاید کوئی بندہ اپنے نعرے کی لاج رکھتے ہوئے کوئی آیت یا حدیث پیش کردے ۔جس میں صریح الفاظ میں دکھادیا جائے کہ "ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے"۔
اس کے علاوہ یہ حدیث بار بار پیش کی جاتی ہے آپ غیر مقلدین کی جانب
۔لا صلوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب
مزکورہ حدیث میں مقتدی کا زکر تک نہیں ،چونکہ اختلاف مقتدی کے پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں ہے تو حدیث بھی ایسی ہی پیش کی جانی چاھئیے جس میں صراحت ہو مقتدی کی۔
مگر عجیب ڈھکوسلہ یہ دیا جاتا ہے کہ بس یہی حدیث ہے جو اس بارے میں وارد ہوئی ہے مزید کئی احادیث جو کہ اس حدیث کے الفاظ سے کچھ زاید وارد ہوئی ہیں ان کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔دیکھئے
1: عن ابی ہریرۃ مرفوعًا: لا صلوۃ الا بقرءاۃ فا تحۃ الکتاب فما زاد
(ابو داود :ج:1:ص: 125 با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبان :ج:3:ص:141رقم الحد یث 1788،کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص:13،14رقم الحدیث 26،27،28،29)
2: عن ابی سعید الخدری مرفوعاً: امر نا ان نقرء بفا تحۃ الکتا ب وما تیسر
(ابو داود :ج:1:ص:٫125 با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبا ن :ج؛3:ص:140 رقم الحدیث 1788 ،کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص:15 رقم الحدیث32۔35 )
3: عن أبي سعيد مرفوعا: لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في فريضة أو غيرها
(سنن ابن ماجۃ ص60 باب القراءۃ خلف الامام، کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص:16، رقم الحدیث 37،36)
4:لاصلوٰۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب فصاعد۔۔
ابوداؤد جلد اول صفحہ 119
5: قال جا بر بن عبد اللہ اذا کا ن وحدہ ۔
(جا مع التر مذی:ج:1:ص:71باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام )
6: سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فر ما یا کہ یہ حکم اکیلے آد می کیلئے ہے ۔
( موطا امام مالک بحوا لہ احسن الکلام :ج:2:ص:39)
7:۔امام سفیا ن بن عیینہ جو اس حد یث کے راوی ہیں فر مایتے ہیں: لمن یصلی وحدہ
(تفسیر سفیان بن عیینہ :ص:202 ، ابوداود :ج:1:ص:126،التمہید لابن عبد البر المالکی :ج:4:ص:449)
8:قال امام احمد بن حنبل: اذا کا ن وحدہ ۔
(ترمذی :ج:1::ص71 باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام )
9:امام ابوبکر اسماعیلی فر ما تے ہیں :کان وحدہ ۔
(بذل المجہود الشیخ سہا رنپوری :ج:2:ص:54 )
10: امام ابن عبد البر فر ماتے ہیں : عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل ۔۔۔۔ خا ص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً ۔
(التمہید لا بن عبد البر :ج:4:ص:448،449 ،الاستذکار :ج:1:ص:470
تمام طرق جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا مخاطب وہ شخص ہے جو دو نو ں سورتیں [یعنی سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت]پڑ ھتا ہے، مقتدی اس کا مخا طب نہیں ۔ لہذا یہ روایت مقتدی پر وجوب قر ءاۃ کی دلیل نہیں ۔جیسا کہ حدیث لاصلوٰۃ۔۔۔کے بارے میں فیصلہ موجود ہے
قال الامام الترمذی واما احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی ﷺ لاصلوٰۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب اذا کان وحدہ۔
ترمذی جلد اول صفحہ 71
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ کے فرمان کہ اس کی نماز جائز نہیں جو سورۃ فاتحہ کے ساتھ قراءت نہ کرے ،کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ۔
مندرجہ بالا فیصلہ لاشک امتیوں کا ہے اگر آپ کے پاس اتنی صراحت کے ساتھ آپ کی دلیل کے مطابق قرآن یا حدیث میں موجود ہو تو پیش کیجئے ڈرئیے نہیں۔ اور دلیل نہیں اور بلکل نہیں تو پھر مان لو کہ آپ نام کے اہل حدیث ہو کام کے نہیں ، امتیوں کے اقوال مان کر فرض واجب وغیرہ کہتے ہو ۔ یقین کرلو اگر آپ ایسا لکھ دو گے تو میں بھی مزید یہ والا سوال نہیں کروں گا ۔
کچھ مزید احادیث پیش خدمت ہیں ان پر بھی نظر رکھئے، میرا مطلب ھے ان کو بھی ضعیف قرار دیجئے امتیوں کی تقلید کرتے ہوئے۔
عن عکرمۃ عن ابن عباس انہ قیل لہ ان ناسا یقرءون فی الظھر و العصر فقال لوکان لی علیھم سبیل لقلعت السنتھم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراء فکانت قراءتہ لنا قراءۃ وسکوتہ لنا سکوتا۔
طحاوی ج1ص141
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ ظہر و عصر میں قراءت کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میرا ان پر بس چلے تو میں ان لوگوں کی زبانیں کھینچ لوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ہماری قراءت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت ہمارا سکوت تھا۔
عن جابر قال لا یقراء خلف الامام۔
مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص376
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے۔
عن عطاء بن یسار انہ اخبرہ انہ ساءل زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراءۃ مع الامام فی شیئی۔
مسلم جلد اول ، نسائی جلد اول 111
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراءت نہیں کی جاسکتی۔
شکریہ
سوره فاتحہ خلف الامام کے مسلے پر مسلسل آپ ایک ہی گردان کیے جا رہے ہیں کہ الله اور اس کے رسول کے قول سے ثابت کرو کہ "فاتحہ خلف الامام" فرض ہے یا واجب ہے- جب کے صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کم سے کم واجب ہے کیوں کہ یہ رکن نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہے -
آپ سے درخواست ہے کہ آپ ایسی کوئی روایت پیش کریں جس سے واضح ہو کہ "فاتحہ خلف الامام" پڑھنے کی صورت میں نماز "باطل" ہو جاتی ہے- کیوں کہ آپ کے مطابق اکابرین کی اکثریت نے فاتحہ خلف الامام سے منع کیا ہے - تو ظاہر ہے ایسی صورت میں اس کا پڑھنا ناجائز ہوا ؟؟؟ اور آپ کے امام ابو حنیفہ رح نے جو اس مسلے میں رجوع کیا تھا ان کی بھی ساری نمازیں باطل ہو گئیں ؟؟ کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
نیز آپ اپنے امام کے قول سے " تکببر تحریمہ" کا فرض، واجب ہے، یا سنت ہونا ثابت کریں ؟؟
آپ اپنے امام کے قول سے دوران تشہد درود و سلام پڑھنا فرض، واجب یا سنت ہونا ثابت کریں؟؟
آپ اپنے امام کے قول سے وتر کی تیسری رکعت میں رفع یدین کرنا فرض، واجب یا سنت ہونا ثابت کریں؟؟
آپ اپنے امام کے قول سے سوئم ، چالیسواں ، عید میلاد، برسی، نذر و نیاز، تصوف وغیرہ فرض، واجب یا سنت ہونا ثابت کریں؟؟
آپ اپنے امام کے قول سے جماعت کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کا فرض، واجب یا سنت ہونا ثابت کریں؟؟
جواب کا انتظار رہے گا -
Last edited: